خودسازي
یعنی
تزكيه و تهذيب نفس
131
تقوى تزكيہ نفس كا اہم عامل
اسلام ميں تقوى كو ايك بہت اہم مقام حاصل ہے_ مومنين ميں سے متقيوں كو ممتاز شمار كيا جاتا ہے_ تقوى كى لفظ قرآن مجيد نہج البلاغہ اور احاديث كى كتابوں خاص طور پر نہج البلاغہ ميں بہت زيادہ استعمال ہوئي ہے_ قرآن انسان كى شرافت اور قيمت كا معيار تقوى كو قرار ديتا ہے اور فرماتا ہے كہ '' خدا كے نزديك تم ميں سے زيادہ محترم اور معزز وہ ہے جو زيادہ پرہيزگار اور متقى ہو_ (232)
تقوى كو آخرت كے لئے بہترين زاد راہ اور سعادت كا بہت بڑا وسيلہ بتلايا گيا ہے قرآن مجيد ميں آيا ہے كہ ''تم اپنى آخرت كے لئے زاد راہ حاصل كرو قرآن مجيد ميں آيا ہے كہ تم اپنى آخرت كے لئے زاد راہ حاصل كرو اور بہترين زاد راہ تقوى ہے_ (233)
نيز فرماتا ہے '' جو لوگ نيك اور تقوى ركھتے ہيں ان كے لئے بہت بڑى جزاء ہوگي_( 234)
اور پھر فرمايا ہے_ كہ '' جس نے تقوى اختيار كيا اور اچھے كام انجام ديئے اس كے لئے كوئي خوف و ہراس نہيں ہے_ (235) اللہ تعالى فرماتا ہے كہ '' اللہ تعالى كى مغفرت كى طرف جلدى كرو اور بہشت كى طرف جلدى كرو كہ جس كا عرض زمين اور آسمان كے برابر ہے اور جو متقيوں كے لئے آمادہ كى گئي ہے_ (236)
اور فرماتا ہے كہ ''متقى بہشت ميں اور نعمت ميں زندگى كرتے ہيں اور ان نعمتوں

132
سے كہ جو اللہ تعالى نے انہيں عطا كى ہيں خوش اور خرم ہيں_ (237)
اسى طرح نہج البلاغہ اور احاديث كى كتابوں ميں تقوى كو اخلاق كا سردار اور سعادت حاصل كرنے كا بزرگترين وسيلہ بتلايا گيا ہے جيسے_
حضرت على عليہ السلام فرماتے ہيں كہ ''تقوى كو تمام اخلاق كا راس ورئيس قرار ديا گيا ہے_ (238)
رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ '' ايك صفت ايسى ہے جو اسے نہ چھوڑے اور پكڑے ركھے تو اس كے اختيار ميں دنيا اور آخرت ہوگى اور وہ بہشت حاصل كرلے گا_ آپ سے كہا گيا يا رسول اللہ_ وہ صفت كونسى ہے؟ آپ نے فرمايا وہ تقوى ہے_ جو شخص چاہتا ہے كہ تمام لوگوں سے زيادہ عزيز ہو تو تقوى كو اپنا پيشہ بنائے آپ نے اس كے بعد يہ آيت پڑھى كہ جو شخص تقوى كو اپنا پيشہ قرار دے تو خداوند عالم اس كے لئے گشائشے قرار دے ديگا اور اس كے لئے روزى وہاں سے دے گا كہ جس كا اسے گمان تك نہ ہوگا_ (238)
اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ''تقوى كو ہاتھ سے نہ جانے دينا كيونكہ وہ تمام خوبيوں اور خيرات كا جامع ہے_ سوا_ے تقوى كے كوئي اچھائي وجود نہيں ركھتى جو اچھائي تقوى كے ذريعے حاصل ہوتى ہے تقوى كے بغير حاصل نہيں ہوسكتى خواہ وہ دنيا كى اچھائي اور نيكى ہو يا آخرت كي_ (239)
امام زين العابدين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' ہر كام كى شرافت اور قيمت تقوى كے واسطے سے ہوتى ہے صرف متقى سعادت اور نجات كو حاصل كرتے ہيں_ اللہ تعالى فرماتا ہے كہ تحقيق سعادت اور نجات صرف متقيوں كے لئے ہے_( 240) حضرت على عليہ السلام نے فرمايا ہے '' خدا كے بندو_ آگاہ رہو كہ دنيا اور آخرت كى نعمتيں صرف متقى حاصل كرتے ہيں_ دنياداروں كے ساتھ دنيا كى نعمتوں سے استفادہ كرنے ميں شريك ہوتے ہيں ليكن دنياداروں كے ساتھ آخرت كى نعمتوں ميں شريك نہيں ہوتے_ بہترين طريقے سے دنيا ميں زندگى كرتے ہيں اور بہترين طريقے سے كھانے والى چيزوں سے

133
فائدہ حاصل كرتے ہيں_ متقى انہيں نعمتوں سے كہ جن سے مالدار اور سركش اورمتكبر استفادہ كرتے ہيں وہ بھى استفادہ كرتے ہيں ليكن وہ بہت زيادہ زاد راہ اور منافع ليكر آخرت كے جہان كى طرف منتقل ہوتے ہيں_ دنيا ميں زہد كى لذت كو حاصل كرتے ہيں اور علم ركھتے ہيں كہ قيامت كے دن اللہ تعالى كى رحمت كے جوار ميں زندگى كريں گے اور جو كچھ خدا سے چاہئيں گے ديئے جائيں گے اور ان كا لذات سے بہرور ہونا ناقص نہيں ہوگا_ (241)
بعض احاديث ميں تقوى كو نفس كے پاك كرنے اور نفس كى بيماريوں كو شفا دينے والا قرار ديا گيا ہے اميرالمومنين عليہ السلام فرماتے ہيں_ ''يقينا تقوى تمہارے دل كى بيماريوں كا شفا دينے والا دارو ہے اور تمہارے نابينا دل كو روشنى دينے والا ہے اور تمہارے بدن كى بيماريوں كے لئے شفا بخش ہے اور تمہارے سينے كے فساد كا اصلاح كرنے والا ہے اور تمہارے نفس كى كثافتوں كو پاك كرنے والا ہے اور تمہارى ديد كے پردوں كو جلا بخشنے والا ہے اور تمہارے اندرونى اضطرابات كو آرام دينے والا اور تمہارى تاريكيوں كو روشن كردينے والا ہے_ (242)

احكام كى غرض تقوى ہے
تقوى اسلام ميں پردازش اخلاقى اصل اور احكام اسلامى كى تشريع كى غرض بتلائي گئي ہے_ جيسے
خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے_ '' لوگو اپنے پروردگار كى جس نے تمہيں اور تم سے پہلے والے لوگوں كو خلق فرمايا ہے عبادت كرو شايد باتقوى ہوجاؤ_ (243)
نيز فرماتا ہے '' روزہ تم پر ويسے واجب ہوا ہے جيسے تم سے پہلے والوں پر واجب ہوا تھا شايد تم با تقوى ہوجاؤ_ (244)
اور فرماتا ہے كہ ''خون اور قربانياں خدا كو نہيں پہنچتيں ليكن تمہارا تقوى خدا كو

134
پہنچتا ہے_(245)اور فرماتا ہے ''آخرت كے لئے زاد راہ اور توشہ حاصل كرو اور بہترين توشہ اور زاد راہ تقوى ہے_ (246)
جيسا كہ ملاحظہ فرما رہے ہيں كہ بعض عبادتوں كى غرض بلكہ اصل عبادت كى غرض يہ تھى كہ لوگ اس كے بجالانے سے باتقوى ہوجائيں بلكہ اسلام كى نگاہ ميں تقوى اس قدر اہميت ركھتا ہے كہ تمام اعمال كے قبول ہونے كا معيار اور راس بتلايا گيا ہے اور عمل بغير تقوى كے مردود اور بے فائدہ ہوتا ہے قر آن مجيد ميں سے ہے كہ خداوند عالم نيك اعمال كو صرف متقيوں سے قبول كرتا ہے_
رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے ابوذر سے فرمايا كہ '' تقوى كے حاصل كرنے ميں بہت زيادہ عمل اور كوشش كر كيونكہ كوئي عمل بھى جو تقوى كے ساتھ ہو چھوٹا نہيں ہوتا اور كس طرح اسكو چھوٹا شمار كيا جائے جب كہ وہ اللہ تعالى كے ہاں مورد قبول ہوتا ہے جب كہ خدا قرآن ميں فرماتا ہے كہ خدا متقيوں سے قبول كرتا ہے_ (247) امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' كسى كا رونا تجھے دھوكا نہ دے كيونكہ تقوى دل ميں ہوتا ہے_ (248)
قرآن ميں ہے كہ '' اگر صبر كرو اور تقوى ركھتے ہو تو يہ بہت بڑا كام ہے_ (249)
جيسا كہ ملاحظہ فرما رہے ہيں كہ قرآن اور احاديث ميں تقوى ايك اصلى ارزشمند اور آخرت كے لئے بہترين زاد راہ اور توشہ ہے اور دل كى اہم بيماريوں كے لئے شفا دينے والا دارو ہے اور نفس كو پاك كرنے كا بہت بڑا وسيلہ بتلايا گيا ہے اس كى اہميت كے لئے اتنا كافى ہے كہ يہ احكام الہى كے جعل اور تشريع كى غرض اور ہدف قرر پايا ہے_ اب ہم تقوى كى وضاحت كرتے ہيں_

تقوى كى تعريف
عام طور سے تقوى كو ايك منفى يعنى گناہوں سے پرہيز اور معصيت سے اجتناب

135
بتلايا جاتا ہے اور يوں گمان كيا جاتا ہے كہ امور اجتماعى ميں شريك كرنے كى وجہ سے تقوى كو محفوظ ركھنا ايك بہت مشكل كام بلكہ ايك نہ ہونے والا كام ہے كيونكہ نفس كى سرشت ميں گناہوں كى طرف ميلان ہونا ہوتا ہے لہذا يا تقوى كو اپنائے اور پرہيزگار بنے يا اجتماعى كاموں سے كنارہ كشى كرے يا اجتماعى ذمہ داريوں كو عہدے پرلے اور تقوى كو چھوڑے كيونكہ ان دونوں كو اكٹھا ممكن نہيں ہوتا_ اس فكر اور نظريہ كا لازمہ يہ ہے كہ جتنا انسان گوشہ نشين ہوگا اتنا زيادہ تقوى ركھنے والا بنے گا_ ليكن بعض آيات اور احاديث اور نہج البلاغہ ميں تقوى كو ايك مثبت پر ارزش عمل بتلايا گيا ہے نہ منفي_
تقوى كے معنى صرف گناہوں كا ترك كردينا نہيں ہے بلكہ تقوى ايك اندرونى طاقت اور ضبط نفس كى قدرت ہے جو نفس كو دائمى رياضت ميں ركھنے اور پے در پے عمل كرنے سے حاصل ہوتى ہے اور نفس كو اتنا طاقتور بنا ديتى ہے كہ وہ ہميشہ اللہ تعالى كے احكام كا مطيع اور فرمانبردار ہوجاتا ہے اور نفس اتنا قوى ہوجاتا ہے كہ نفس غير شرعى خواہشات كا مقابلہ كرتا ہے اور ثابت قدم ہوجاتا ہے_ لغت ميں بھى تقوى اسى معنى ميں آيا ہے_
تقوى كا مصدر وقايہ ہے كہ جس كے معنى حفظ اور نگاہدارى كے ہيں تقوى يعنى اپنے آپ كو محفوظ كرنا اور اپنے نفس پر كنٹرول كرنا ہوتا ہے_ تقوى ا يك اثباتى صفت ہے جو حفاظت ديتى ہے اور يہ منفى اور سلبى صفت نہيں ہے_ تقوى يعنى انسان كا عہد كرلينا كہ احكام شرعيت اور دستور الہى كى اطاعت كرونگا_ ہر گناہ كے ترك كا نام تقوى نہيں ہے بلكہ ترك گناہ اور كنٹرول كرنے كى قدرت اور طاقت اور نفس كو مضبوط ركھنے كى سرشت اور ملكہ كا نام تقوى ركھا جاتا ہے_ تقوى آخرت كے لئے بہترين زاد راہ ہے زاد راہ اور توشہ ايك مثبت چيز ہے منفى اور سلبى صفت نہيں ہے_ اميرالمومنين عليہ السلام كے چند جملات پر غور كيجئے_ آپ فرماتے _ ''اے خدا كے بندو ميں تمہيں تقوى كى سفارش كرتا ہوں_ كيونكہ يہ نفس كے لئے ايك مہار ہے كہ جو نفس كو اچھائيوں

136
كى طرف كھينچ لے جاتا ہے_ تقوى كے مضبوط رسے كو پكڑے ركھو اور اس كے حقائق كى طرف رجوع كرو تا كہ تمہيں آرام اور رفاہيت وسيع اور عريض وطن مضبوط پناہ گا اور عزت كے منازل كى طرف لے جائے_ (250)
آپ فرماتے ہيں ''يقينا'' تقوى آج كے زمانے ميں تمہارے لئے پناہ گا اور ڈھال ہے اور كل قيامت كے دن كے لئے جنت كى طرف لے جانے كا راستہ ہے ايسا واضح راستہ ہے كہ جس پر چلنے والا فائدہ حاصل كرتا ہے اور ايسى وديعت ہے كہ جو اسے پكڑنے والے كى حفاظت كرتا ہے_ (251)
اے خدا كے بندو جان لو كہ تقوى ايك مضبوط پناہ گاہ ہے_ فسق اور فجور اور بے تقوائي ايك ايسا گھر ہے كہ جس كى بنياد كمزور ہے اور رہنے والے كى حفاظت نہيںكرسكتا اور اس ميں پناہ لينے والے كو محفوظ نہيں كرسكتا اور جان لو كہ تقوى كے ذريعے گناہوں كى زہر اور ڈنگ كو كاٹا جاسكتا ہے_ اے خدا كے بندو، تقوى خدا كے اولياء كو گناہوں سے روكے ركھتا ہے اور خدا كاخوف ان كے دلوں ميں اس طرح بٹھا ديتا ہے كہ وہ رات كو عبادت اور اللہ تعالى سے راز و نياز ميں مشغول رہ كر بيدار رہتے ہيں اور دن كو روزہ ركھتے ہيں_ اور جان لو كہ تقوى تمہارے لئے اس دنيا ميں پناہ گاہ اور مرنے كے بعد سعادت ہے_ جيسے كہ آپ نے ان احاديث كا ملاحظہ كيا ہے ان ميں تقوى كو ايك با قيمت اور اہم اور ايك مثبت طاقت اور قدرت بتلايا گيا ہے كہ جو انسان كو روكے ركھتا ہے اور اسكى حفاظت كرتا ہے ايك ايسى طاقت جو كنٹرول كرتى ہے_ بتلايا گيا ہے كہ تقوى حيوان كى مہار اور لگام كى طرح ہے كہ جس كے ذريعے سے انسان كے پركشش نفس اور اس كى خواہشات پر كنٹرول كيا جاتا ہے اور اسے اعتدال پر ركھا جانا ہے_ تقوى ايك مضبوط قلعہ كى مانند ہے كہ انسان كو داخلى دشمنوں يعنى ہوى اور ہوس اور غير شرعى اور شيطانى خواہشت سے محفوظ ركھتا ہے_ تقوى ڈھال كى مانند ہے كہ جو شيطانى كے زہر آلودہ تير اور اس كے ضربات كو روكتا ہے_ تقوى انسان كو ہوى و ہوس اور خواہشات نفس كى قيد سے آزادى دلواتا ہے اور حرص اور طمع حسد اور

137
شہوت غصب اور بخل و غيرہ كى رسيوں كو انسان كى گردن سے اتار پھينكتا ہے_ تقوى محدود ہوجانے كو نہيں كہتے بلكہ نفس كے مالك اور اس پر كنٹرول كرنے كا نام ہے_ انسان كو عزت اور شرافت قدرت اور شخصيت اور مضبوطى ديتا ہے_ دل كو افكار شيطانى سے محفوظ كرتا ہے اور فرشتوں كے نازل ہونے اور انوار قدسى الہى كے شامل ہونے كے لئے آمادہ كرتا ہے اور اعصاب كو طفيان اور آرم ديتا ہے_ تقوى انسان كے لئے مثل ايك گھر اور لباس كے ہے كہ جو حوادث كى گرمى اور سردى محفوظ ركھتا ہے خداوند عالم قرآن ميں ارشاد فرماتا ہے لباس التقوى ذلك خير )252) تقوى ايك قيمتى وجود ركھتا ہے اور آخرت كے لئے زاد راہ اور توشہ ہے يہ ايك منفى صفت نہيں ہے البتہ قرآن اور حديث ميں تقوى خوف اور گناہ كے ترك كے معنى ميں بھى استعمال ہوا ہے ليكن يہ تقوى كے لوازمات ميں سے ہيں نہ يہ كہ تقوى كا معنى يہى ہے_

تقوى اور گوشہ نشيني
گوشہ نشينى اور اجتماعى ذمہ داريوں كے قبول نہ كرنے كو نہ صرف تقوى كى علامتوں سے شمار نہيں كيا جائيگا بلكہ بعض موارد ميں ايسا كرنا تقوى كے خلاف بھى ہوگا_ اسلام ميں گوشہ نشينى اور رہبانيت نہيں ہے_ اسلام انسان كو گناہ سے فرار كرنے كے لئے گوشہ نشينى اور مشاغل كے ترك كرنے كى سفارش نہيں كرتا بلكہ انسان سے چاہتا ہے كہ اجتماعى ذمہ داريوں كو قبول كرے اور امور اجتماعى ميں شريك ہو اور پھر اسى حالت ميں تقوى كے ذريعے اپنے نفس پر كنٹرول كرے اور اسے قابو ميں ركھے اور گناہ اور كجروى سے اپنے آپ كو روكے ركھے_
اسلام يہ نہيں كہتا كہ شرعى منصب اور عہدے كو قبول نہ كرو بلكہ اسلام كہتا ہے كہ اسے قبول كرو اور اللہ تعالى كى رضا كى خاطر اللہ تعالى كے بندوں كى خدمت كرو اور صرف منصب اور مقام كا غلام بن كر نہ رہ جاؤ_ اور اپنے منصب اور عہدے كو نفساني

138
خواہشات اور شہوات كے لئے وسيلہ قرار نہ دو اور حق كے راستے سے نہ ہٹو_ اسلام نہيں كہتا كہ تقوى حاصل كرنے كے لئے كام اور كار و كسب سے ہاتھ اٹھا لو اور حلال رزق طلب كرنے كے لئے كوشش نہ كرو بلكہ اسلام كہتا ہے كہ دنيا كے قيدى اور غلام نہ بنو_اسلام نہيں كہتا كہ دنيا كو ترك كردے اور عبادت ميں مشغول ہوجانے كے لئے گوشہ نشين ہوجا بلكہ اسلام كہتا ہے كہ دنيا ميں زندگى كر اور اس كے آباد كرنے كے لئے كوشش كر ليكن دنيا دار اور اس كا فريفتہ اور عاشق نہ بن بلكہ دنيا كو اللہ تعالى سے تقرب اور سير و سلوك كے لئے قرار دے اسلام ميں تقوى سے مراد يہى ہے كہ جسے اسلام نے گراں بہا اور بہترين خصلت بتلايا ہے_

تقوى اور بصيرت
قرآن اور احاديث سے معلوم ہوتا ہے كہ تقوى انسان كو صحيح بصيرت اور بينش ديتا ہے تا كہ دنيا اور آخرت كى واقعى مصلحتوں كو معلوم كر سكے اور اس پر عمل كرے جيسے_
خداوند عالم قرآن ميں فرماتا ہے _ '' اے ايمان والو اگر تقوى كو پيشہ قرار دو تو خدا تمہارے لئے فرقان قرار دے گا_(253) يعنى بصيرت كى ديد اور شناخت عطا كرے گا تا كہ سعادت اور بدبختى كى مصلحتيں اور مفسدوں كو پہنچان سكو_ ايك اور آيت ميں ہے كہ ''صاحب تقوى بنو تا كہ علوم كو تم پر نازل كيا جائے اور اللہ تعالى ہر چيز كا علم ركھتا ہے_(254)
گرچہ قرآن تمام لوگوں كے لئے نازل ہوا ہے ليكن صرف متقى ہيں جو ہدايت ديئے جاتے ہيں اور نصيحت حاصل كرتے ہيں_
اسى لئے قرآن لوگوں كے لئے بيان ہے اور اہل تقوى كے لئے ہدايت اور نصيحت ہے_(255)
اميرالمومنين عليہ السلام فرماتے ہيں كہ '' تقوى دل كى بيماريوں كے لئے شفا دينے

139
والى دواء ہے اور دل كى آنكھ كے لئے بينائي كا سبب ہے_(256)
پيغمبر عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' اگر شيطان كا آدم كى اولاد كے دل كے اردگر چكر لگانا نہ ہوتا تو وہ علم ملكوت كا مشاہدہ كر ليتے_(257)
امام جعفر صادق عليہ السلام نے اپنے پدر بزرگوار سے نقل كيا ہے كہ '' دل كے فاسد ہوجانے كے لئے گناہ كے بجالانے سے زيادہ اور كوئي چيز نہيں ہوتي_ دل گناہ كے ساتھ جنگ ميں واقع ہوجاتا ہے يہاں تك كہ گناہ اس پر غلبہ كر ليتا ہے اور اسے اوپر نيچے كرديتا ہے يعنى پچھاڑ ديتا ہے_(258)
اس قسم كى آيات اور روايات سے معلوم ہوتا ہے كہ تقوى عقل كى بينائي اور بصيرت كا سبب بنتا ہے اور سمجھنے اور سوچنے كى قوت كو طاقت ور بناتا ہے اور عقل ايك گوہر گران بہا ہے جو انسان كے وجود ميں ركھديا گيا ہے تا كہ اس كے ذريعے مصالح اور مفاسد خيرات اور شرور سعادت اور شقاوت كے اسباب خلاصہ جو ہونا چاہئے اور جو نہ ہونا چاہئے كو اچھى طرح پہچان سكے اور تميز دے سكے_ اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' بدن ميں عقل حق كارسول ہے_(259)
جى ہاں اس طرح كى رسالت اور پيغام عقل كے كندھے پر ڈال دى گئي ہوئي ہے اور وہ اس كے بجالانے كى قدرت بھى ركھتا ہے ليكن يہ اس صورت ميں كہ جسم كى تمام طاقتيں اور غرائز عقل كى حكومت كو قبول كر ليں اور اس كى مخالفت اور اس كى احكام كى خلاف ورزى نہ كريں_ خواہشات اور ہوس اور ہوس عقل كے دشمن ہيں عقل كو ٹھيك كام انجام نہيں دينے ديتے_(260)
نيز آپ(ص) نے فرمايا '' جو شخص اپنے نفس كى خواہشات كا مالك نہيں ہوتا وہ عقل كا مالك بھى نہيں ہوگا_(261)
آپ نے فرمايا ہے كہ '' خودبينى اور خودپسندى عجب اور تكبر عقل كو فاسد كرديتے ہيں_(262)
آپ نے فرمايا ہے كہ '' لجباز اور ضدى انسان صحيح فكر اور فيصلہ نہيں كر سكتا_(263)

140
يہ تو درست ہے كہ بدن پر حكومت اور اس كو چلانا عقل كے سپرد كيا گيا ہے اور عقل اس كى طاقت بھى ركھتا ہے ليكن خواہشات اور غرائز نفسانى اس كے لئے بہت بڑى مانع اور ركاوٹ ہيں اگر ايك غريزہ يا تمام غرائز اعتدال كى حالت سے خارج ہو جائيں اور بغاوت اور طغيان كرليں اور كام نہ كرديں تو پھر عقل كيسے اپنى ذمہ داريوں كے انجام دينے ميں كامياب ہو سكتى ہے_ اس طرح كا انسان عقل تو ركھتا ہے ليكن بغير سوچ اور فكر والا_ چراغ موجود ہے ليكن خواہشات اور شہوات اور غضب نے سياہ بادل يا مہہ كى طرح اسے چھپا ركھا ہے اس كے نور كو بجھا ديا ہے اور واقعات كے معلوم كرنے سے روك ديا ہے_ ايك شہوت پرست انسان كى طرح اپنى واقعى مصلحتوں كو پہچان سكتا ہے اور شہوت كے طغيان اور سركشى كى طاقت كو قابو كر سكتا ہے؟ خودپسند اور خودبين انسان كس طرح اپنے عيوب كو پہچان سكتا ہے تا كہ ان كے درست كرنے كى فكر ميں جائے؟ اسى طرح دوسرى برى صفات جيسے غصے حسد طمع كينہ پرورى تعصب اور ضدبازى مال اور جاہ و جلال كا منصب مقام رياست اور عہدہ ان تمام كو كس طرح وہ اپنے آپ سے دور كر سكتا ہے؟ اگر ان ميں سے ايك يا زيادہ نفس پر مسلط ہوجائيں تو پھر وہ عقل عملى كو واقعات كے پہچاننے سے روك ديتى ہيں اور اگر عقل ان كى خلاف عمل كرنا بھى چاہئے تو پھر اس كے سامنے ركاوئيں كھڑى كر ديتى ہيں اور داد و فرياد شروع كر ديتى ہيں اور عقل كے محيط كو تاريك كر ديتى ہيں اور اسے اپنى ذمہ دارى كے انجام دينے سے كمزور كر ديتى ہيں جو انسان ہوى اور ہوس اور خواہشات كا قيدى بن جائے تو پھر وہ وعظ اور نصيحت سے بھى كوئي نتيجہ حاصل نہيں كر سكے گا بلكہ قرآن اور مواعظ اس كے دل كى قساوت كو اور زيادہ كرديں گے لہذا تقوى كو بصيرت روشن بينى اور وظيفہ شناسى كا بہترين اور موثر ترين عامل شمار كيا جا سكتا ہے_
آخر ميں اس بات كى ياد دھانى ضرورى اور لازم ہے كہ تقوى عقل عملى اور ذمہ داريوں كى پہچان اور يہ جاننا كہ كيا كرنا چاہئے اور كيا نہيں كرنا چاہئے_ بصيرت كى زيادتى كا موجب ہے نہ صرف عقل كے حقائق كو جاننے اور پہچاننے كے لئے كے جسے اصطلاحي

141
لحاظ سے عقل نظرى كہا جا تا ہے كيونكہ اس طرح نہيں ہوتا كہ جو ا نسان تقوى نہيں ركھتا وہ رياضى اور طبعى كے مسائل سمجھنے سے عاجز رہتا ہے گرچہ تقوى سمجھنے اور ہوش اور فكر كے لئے بھى ايك حد تك موثر واقع ہوتا ہے_

تقوى اور مشكلات پر قابو پانا
تقوى كے آثار ميں سے ايك اہم اثر زندگى كى مشكلات اور سختيوں پر غلبہ حاصل كرلينا ہے_ جو بھى تقوى پر عمل كرے گا خداوند عالم اس كى مشكلات كے دور ہونے كا كوئي نہ كوئي راستہ نكال دے گا اور ايسے راستے سے كہ جس كا اسے گمان تك نہ ہو گا اسے روزى فراہم كردے گ)264) خداوند عالم فرماتا ہے كہ '' جس نے تقوى پر عمل كيا خداوند عالم اس كے كام آسان كر ديتا ہے_(265) '' اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا كہ '' جو شخص تقوى پر عمل كرے گا تو اس كى سختياں اور مشكليں جب كہ نزديك تھا كہ اس پر وارد ہو جائيں دور ہوجائيں گى تلخياں اس كے لئے شيرين ہوجائيں گى مشكلات كى لہريں اس كے سامنے پھٹ جائيں گى اور سخت سے سخت اور دردناك كام اس كے لئے آسان ہوجائيں گے_(266)''
اس قسم كى آيات اور روايات سے معلوم ہوتا ہے كہ مشكلات كے حل ہونے اور ان پر غلبہ حاصل كرنے ميں تقوى انسان كى مدد كرتا ہے_ اب ديكھا جائے كہ تقوى ان موارد ميں كيا تاثير كر سكتا ہے_ زندگى كى سختيوں اور مشكلات كو بطور كلى دو گروہ ميں تقسيم كيا جا سكتا ہے _ پہلا گروہ_ وہ مشكلات كہ جن كا حل كرنا انسان كے اختيار ميں نہيں ہے جيسے كسى عضو كا نقص اور ايسى بيماريوں ميں مبتلا ہونا كہ جو لا علاج ہيں اور ايسے خطرات كہ جن كى پيشگوئي نہيں كى جا سكتى اور اسى طرح كى دوسرى مشكلات كہ جنہيں روكنا اور دور كرنا انسان كے امكان اور قدرت سے باہر ہے_
دوسرا گروہ_ ايسى مشكلات اور سختياں كہ جن كے دور كرنے اور پيش بينى كرنے ميں

142
ہمارا ارادہ موثر واقع ہو سكتا ہے _ جيسے اكثر نفسياتى اور جسمى گھريلو اور اجتماعى اور كار و كسب كى بيمارياں و غيرہ_
تقوى ان دونوں مشكلات كے حل ميں ايك مہم كردار ادا كر سكتا ہے_ گرچہ پہلے مشكلات كے گروہ كو روكنا اور ان كو دور كرنا ہمارے لئے عملى طور سے ممكن نہيں ہوتا ليكن ان مشكلات كے ساتھ كس طرح عمل كيا جائے يہ ہمارے اختيار ميں ہوتا ہے_ وہ انسان جو با تقوى ہے اور اپنے نفس كى حفاظت كے لئے پورى طرح تسلط ركھتا ہے اور دنيا كے مشكلات اور خود دنيا كو فانى اور ختم خونے والا سمجھتا ہے اور آخرت كى زندگى كو حقيقى اور باقى رہنے والى زندگى سمجھتا ہے_
اور اللہ تعالى كى ذات لايزال كى قدرت پر اعتماد كرتا ہے_ دنيا كے واقعات اور مشكلات كو معمولى اور وقتى جانتا ہے اور ان پر جزع اور فزع نہيں كرتا تو ايسا انسان اللہ تعالى كى مشيت كے سامنے سر تسليم خم كردے گا_ تقوى والا انسان آخرت كے جہان اور خدا سے مانوس اور عشق كرتا ہے ايسے انسان كے لئے گذر جانے والے مشكلات اور واقعات اس كى روح اور دل كے سكون كو مضطرب اور پريشان نہيں كر سكيں گے كيونكہ خود مشكلات اور حوادث اور مصائب درد نہيں لاتيں بلكہ نفس كا انہيں برداشت اور تحمل نہ كر سكنا_ انسان كيلئے ناراحتى اور نا آرامى كو فراہم كرتا ہے اور اس كے لئے تقوى انسان كے لئے زيادہ مدد كر سكتا ہے_
دوسرا گروہ_ اكثر مشكلات اور سختياں كہ جو انسان كى زندگى كو تلخ كرديتى ہيں ہمارى برى عادات اور انسانى ہوى اور ہوس اور خواہشات كى وجہ سے ہم پر وارد ہوتى ہيں اور يہى برى صفات ان كا سبب بنتى ہيں_ گھريلو زندگى كے اكثر مشكلات كو شوہر يا بيوى يا دونوں خواہشات نفسانى پر مسلط نہ ہونے كى وجہ سے وجود ميں لاتے ہيں اور اس آگ ميں جلتے رہتے ہيں_
جسے خود انہوں نے جلايا ہے اور پھر داد و قيل جزع اور فزع زد خورد كرتے ہيں_

143
دوسرى مشكلات بھى اكثر اسى وجہ سے وجود ميں آتى ہيں_ برا اخلاق جيسے حسد _ كينہ پروري، انتقام لينا، ضدبازي، تعصب، خودپسندي، خودبينى ، طمع، بلندپروازي، تكبر و غيرہ وہ برى صفات ہيں كہ انسان كے لئے مشكلات اور مصائب غم اور غصہ وجود ميں لاتى ہيں اور بہترين اور شيرين زندگى كو تلخ اور بے مزہ كر ديتى ہيں _ ايسا شخص اتنا خواہشات نفسانى كا قيدى ہوچكا ہوتا ہے كہ وہ اپنے درد اور اس كى دواء كے پہچاننے سے عاجز ہوجاتا ہے_ سب سے بہتر چيز جو ان حوادث كے واقع ہونے كو روك سكتى ہے وہى تقوى ہے اور اپنے نفس پر كنٹرول كرنا اور اس كى حفاظت كرنا ہے_ متقى انسان كے لئے اس طرح كے دردناك واقعات بالكل پيش ہى نہيں آتے وہ سكون قلب اور آرامش سے اپنے زندگى كو ادامہ ديتا ہے اور آخرت كے لئے توشہ ور زاد راہ حاصل كرتا ہے _ دنيا كى محبت ان تمام مصائب اور گرفتاريوں كا سرچشمہ ہوتى ہے ليكن متقى انسان دنيا اور مافيہا كا عاشق اور فريفتہ نہيں ہوتا تا كہ اس كے نہ ہونے سے رنج اور تكليف كو محسوس كرے_ امير المومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ دنيا كى محبت سے پرہيز كر كيونكہ يہ دنيا كى ہر مصيبت كى جڑ اور ہر تكليف كى كان ہے_(267)

تقوى اور آزادي
ممكن ہے كہ كوئي گمان كرے كہ تقوى تو آزادى كو سلب كر ليتا ہے اور ايك محدوديت اور قيد و بند وجود ميں لے آتا ہے اور زندگى كو سخت اور مشكل بنا ديتا ہے ليكن اسلام اس گمان اور عقيدہ كو قبول نہيں كرتا اور رد كر ديتا ہے بلكہ اس كے بر عكس تقوى كو آزادى اور آرام اور عزت اور بزرگوارى كا سبب قرار ديتا ہے اور انسان بغير تقوى والے كو قيد اور غلام شمار كرتا ہے_ اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ تقوى ہدايت اور استقامت اور آخرت كے زاد راہ اور توشہ كى چابى ہے_ تقوى غلامى سے آزادى اور ہلاكت سے نجات پانے كا وسيلہ ہے_(268)

144
حضرت على عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' اسلام سے بالاتر كوئي شرافت نہيں ہے_ تقوى سے كوئي بالاتر عزت نہيں ہے_ اور سب سے زيادہ قوى تقوى سے اور كوئي پناہ گاہ نہيں_(669)
امير المومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے '' جو شخص تقوى كو وسيلہ بنائے تو وہ سختياں اور دشوارياں جو نزديك آچكى ہوں گى اس سے دور ہوجائيں گى تلخ كام اس كے لئے شيريں ہوجائيں گے_ گرفتاريوں كى سخت لہريں اس سے دور ہوجائيں گى اور سختياں اس كے لئے آسان ہوجائيں گي_(270)
ان احاديث ميں تقوى كو مشكلات كے حل كرنے اور انسان كى عزت اور آزادى كا سبب مصائب اور گرفتاريوں سے نجات زندگى كى دشواريوں اور تلخيوں كے لئے بہترين پناہ گاہ بتلايا گيا ہے_ لہذا تقوى انسان كے لئے محدوديت اور آزادى سلب كرنے كا موجب نہيں ہوتى بلكہ انسان كى شخصيت كو زندہ كرتا ہے اور تقوي، شہوت ، غضب، انتقام جوئي، كينہ پروري، خودخواہي، خودپسندي، تعصب، لج بازي، طمع، دولت پرستى ، خودپرستي، شہوت پرستي، مقام و منصب پرستي، شكم پرستي، شہرت پرستى سے آزاد كرتا ہے انسان كى شخصيت اور عقل كو قوى كرتا ہے تا كہ وہ غرائز اور طغيان كرنے والى قوتوں پر غالب آجائے اور انہيں اعتدال پر ركھے اور واقعى مصلحتوں كے لحاظ سے ہدايت اور رہبرى كرے اور افراط اور تفريط كے كاموں سے ركاوٹ بنے_
قرآن مجيد فرماتا ہے'' ان لوگوں كو ديكھتا ہے كہ جنہوں نے خواہشات نفس كو اپنا خدا بنا ركھا ہے اس كے باوجود جانتا ہے كہ خدا نے اسے گمراہ كرديا ہے اور اس كے كان اور دل پر مہر لگادى ہے اور اس كى آنكھوں پر تاريكى كے پردے ڈالے گئے ہيں پس كون اسے خدا كے بعد ہدايت كرے گا؟ كيا وہ نصيحت حاصل نہيں كرتا؟ (271)

145
درست ہے كہ جو شخص اپنى نفس خواہشات كے سامنے سر تسليم كر چكا ہے اور ان كے حاصل كرنے ميں كسى برائي اور قباحت كى پروا نہيں كرتا اور ديوانوں كى طرح اس كى تلاش اور كوشش كرتا ہے اور عقل كى بھلائي آواز كو نہيں سنتا اور پيغمبروں كى راہنمائي پر كان نہيں رھرتا ايسا شخص يقينا خواہشات نفس كا قيدى اور غلام اور نوكر اور مطيع ہے_ نفس كى خواہشات نے انسان كى شخصيت اور گوہر ناياب كو جو عقل ہے اسے مغلوب كر ركھا ہے اور اپنے دام ميں پھنسا ليا ہے ايسے شخص كے لئے آزاد ہونے طور آزادى حاصل كرنے كے لئے تقوى كے اور كوئي راستہ موجود نہيں ہے لہذا تقوى محدود نہيں كرتابلكہ انسان كو آزاد بخشتا ہے_

تقوى اور بيماريوں كا علاج
يہ مطلب پہلے ثابت كيا جا چكا ہے كہ برے اخلاق جيسے حسد ، بغض، انتقام جوئي، عيب جوئي، غضب، تعصب، طمع، خودبيني، تكبر، خوف، بے آرادگي، وسوسہ و غيرہ يہ تمام نفسانى بيمارياں ہيں ان مرضوں ميں مبتلا انسان مجازى طور سے نہيں بلكہ حقيقى لحاظ سے بيمار ہے اور يہ مطلب بھى علوم ميں ثابت ہوچكا ہے كہ نفس اور جسم ميں فقط مضبوط ربط اور اتصال ہى برقرار نہيں ہے بلكہ يہ دونوں متحد ہيں اور اسى ربط اور اتصال سے ايك دوسرے پر اثر انداز اور متاثر ہوتے ہيں_ جسمانى بيمارياں نفس انسان كو ناراحت اور پريشان كرتى ہيں اس كے بر عكس روحانى اور نفسانى بيمارياں جيسے معدے اور انتڑيوں ميں زخم اور ورم اور بد ہضمى اور غذا كا كھٹا پن ہوجانا سر اور دل كا درد ممكن ہے كہ وہ بھى برے اخلاق جيسے حسد_ بغض اور كينہ طمع اور خودخواہى اور بلند پروازى سے ہى وجود ميں آجائيں_ مشاہدہ ميں آيا ہے كہ مضر اشياء كى عادت شہوات رانى ميں افراط اور زيادہ روى كتنى خطرناك بيماريوں كو موجود كر ديتى ہيں جيسے كہ پہلے گذر چكا ہے كہ نفسانى بيماريوں كا صرف ايك ہى علاج ہے اور وہ ہے تقوى لہذا يہ كہا جا سكتا ہے كہ

146
انسانى كى جسمانى اور نفسياتى بيماريوں اور ان سے سلامتى اور صحت ميں تقوى بہت ہى زيادہ تاثير كرتا ہے_
حضرت على عليہ السلام نے تقوى كے بارے ميں فرمايا ہے كہ '' تقوى تمہارے جسموں كى بيماريوں كى دواء ہے اور تمہارے فاسد دلوں كى اصلاح كرتا ہے اور تمہارے نفوس كى كثافتوں كو پاك كرتا ہے؟(272)