خودسازي
یعنی
تزكيه و تهذيب نفس
113
خودپسندى اور خودخواہى تمام مفساد كى جڑ ہے
علماء اخلاق نے خودپسندى اور خودخواہى كى صفت كو ام الفساد يعنى فساد كى جڑى قرار ديا ہے اور تمام گناہوں اور تمام برى صفات كا سبب خودپسندى بتلايا ہے_ لہذا نفس كو اس سے پاك كرنے ميں بہت ہى زيادہ كوشش كرنى چاہئے_ ہم كو پہلے خودپسندى اور خودخواہى كے معنى بيان كرنے چاہئيں اس كے بعد اس برى صفات كے برے اثرات اور اس سے مقابلہ كرنے كى تشريح كرنى چاہئے اور يہ بھى معلوم ہونا چاہئے كہ ہر زندہ شے كو اپنى ذات اور صفات كمالات اور افعال اور آثار سے محبت اور علاقمندى ہوا كرتى ہے يعنى فطرت اور طبيعت ميں خودپسند اور خودخواہ ہوا كرتے ہيں لہذا يہ نہيں ہو سكتا ہے كہ خودپسند كو بطور كلى برا جانا جائے بلكہ يہ توضيح اور تشريح كا محتاج ہے_ پہلے بيان ہو چكا ہے كہ انسان دو وجود اور دو خود اور دو ميں ركھتا ہے ايك حيوانى وجود اور ميں اور دوسرا انسانى وجود اور ميں _ اس كا انسانى وجود اور ميں اللہ تعالى كى ايك خاص عنايت ہے جو عالم ملكوت سے نازل ہوا ہے تا كہ وہ زمين ميں اللہ كا خليفہ ہو_ اس لحاظ سے وہ علم اور حيات قدرت اور رحمت احسان اور اچھائي اور كمال كے اظہار سے سنخيت ركھتا ہے اور انہيں كا چاہنے والا ہے لہذا اگر انسان اپنے آپ كو پہچانے اور اپنے وجود كى قيمت كو جانے اور اسے محترم ركھے تو وہ تمام خوبيوں اور كمالات كے سرچشمہ كے نزديك ہو

114
گا اور مكارم اخلاق اور فضائل اور اچھائيوں كواپنے آپ ميں زندہ كرے گا لہذا اس طرح كى خودپسندى اور خودخواہى كو برا نہيں كہا جا سكتا بلكہ اس قسم كى خودپسندى اور خودخواہى قاتل مدح ہوا كرتى ہے كيونكہ در حقيقت يہ خودخواہى والى صفت نہيں ہے بلكہ در حقيقت يہ خدا خواہى اور خدا طلبى والى صفت ہے جيسے كہ پہلے بھى تجھے معلوم ہو چكا ہے اور آئندہ بھى تجھے زيادہ بحث كر كے بتلايا جائيگا_ انسان كا دوسرا وجود اور مرتبہ حيوانى ہے اس وجود كے لحاظ سے انسان ايك تھيك تھاك حيوان ہے اور تمام حيوانى خواہشات اور تمايلات اور غرائز ركھتا ہے اس واسطے كہ اس جہان ميں زندہ رہے اور زندگى كرتے تو اسے حيوانى خواہشات كو ايك معقول حد تك پورا كرنا ہوگا_ اتنى حد تك ايسى خودخواہى اور خودپسندى بھى ممنوع اور قاتل مذمت نہيں ہے ليكن سب سے اہم اور سرنوشت ساز بات يہ ہے كہ جسم كى حكومت عقل اور ملكوتى روح كے اختيار ميں رہے يا جسم نفس امارہ اور حيوانى ميں كا تابع اور محكوم رہے_
اگر تو جسم پر عقل اور انسانى خود اور ميں حاكم ہوئي تو وہ حيوانى خود اور خواہشات كو اعتدال ميں ركھے گا اور تمام انسانى مكارم اور فضائل اور سير و سلوك الى اللہ كو زندہ ركھے گا_ اس صورت ميں انسانى خود جو اللہ تعالى كے وجود سے مربوط ہے اصالت پيدا كرلے گى اور اس كا ہدف اور غرض مكارم اخلاق اور فضائل اور قرب الہى اور تكامل كا زندہ اور باقى ركھنا ہوجائيگا اور حيوانى خواہشات كو پورا كرنا طفيلى اور ثانوى حيثيت بن جائيگا لہذا خود پسندى اور خودخواہى اور حب ذات كو محترم شمار كرنا قاتل مذہب نہيں رہے گا ہو گيا تو وہ عقل اور انسانى خود اور ميں كو مغلوب كركے _ اسے جدا كر ديگا اور سراسر جسم ہى منظور نظر ہوجائيگا اس صورت ميں انسان آہستہ آہستہ خدا اور كمالات انسانى سے دور ہوتا جائيگا اور حيوانى تاريك وادى ميں جاگرے گا اور اپنے انسانى خود اور ميں كو فراموش كر بيٹھے گا اور حيوانيت كے وجود كو انسانى وجود كى جگہ قرار دے ديگا يہى وہ خودپسندى اور خودخواہى ہے جو اقابل مدمت ہے اور جو تمام برائيوں كى جڑ ہوتى ہے

115
خود خواہ انسان صرف حيوانى خود كو چاہتا ہے اور بس _ اس كے تمام افعال اور حركات كردار اور گفتار كا مركز حيوانى خواہشات كا چاہنا اور حاصل كرنا ہوتا ہے_ مقام عمل ميں وہ اپنے آپ كو حيوان سمجھتا ہے_ اور زندگى ميں سوائے حيوانى خواہشات اور ہوس كے اور كسى ہدف اور غرض كو نہيں پہچانتا_ حيوانى پست خواہشات كے حاصل كرنے ميں اپنے آپ كو آزاد جانتا ہے اور ہر كام كو جائز سمجھتا ہے اس كے نزديك صرف ايك چيز مقدس اور اصلى ہے اور وہ ہے اس كا حيوانى نفس اور وجود_ تمام چيزوں كو يہاں تك كہ حق عدالت صرف اپنے لئے چاہتا ہے اور مخصوص قرار ديتا ہے اور بس _ وہ حق اور عدالت جو اسے فائدہ پہنچائے اور اس كى خواہشات كو پورا كرے اسے چاہتا ہے اور اگر عدالت اسے ضرر پہنچائے تو وہ ايسى عدالت كو نہيں چاہتا بلكہ وہ اپنے لئے صحيح سمجھتا ہے كہ اس كا مقابلہ كرے يہاں تك كہ قوانين اور احكام كى اپنى پسند كے مطابق تاويل كرتا ہے يعنى اس كے نزديك اپنے افكار اور نظريات اصالت اور حقيقت ركھتے ہيں اور دين اور احكام اور قوانين كو ان پر منطبق كرتا ہے_
خودپسند اور خودخواہ انسان چونكہ فضائل اور كمالات اور اخلاق حقيقى سے محروم ہوتا ہے لہذا وہ اپنے آپ كو :جھوٹے كام اور مرہوم اور بے فائدہ اور شہوت طلبى مقام اور منصب حرص اور طمع تكبر اور حكومت كھانا پينا اور سنا اور لذات جنسى و غيرہ ميں مشغول ركھتا ہے اور اسى ميں خوشحال اور سرگرم رہتا ہے اور اللہ كى ياد اور اس كو كمالات تك پہنچانے كے لئے كوشش كرنے سے غافل رہتا ہے_
خودخواہ اور خودپسند انسان چونكہ نفس امارہ كا مطيع اور گرويد ہوتاہ ے لہذا زندگى ميں سوائے نفس كى خواہشات كى حاصل كرنے اور اسے جتنا ہو سكے خوش ركھنے كے علاوہ اس كى كوئي اور غرض نہيں ہوتى اور ان حيوانى خواہشات كے حاصل كرنے ميں كسى بھى برے كام كے انجام دينے سے گريز نہيں كرتا اور ہر برے كام كى تاويل كركے اسے جائز قرار دے ديتا ہے وہ صرف حيوانى خواہشات تك پہنچانا چاہتا ہے اور اس تك پہنچنے ميں ظلم كرنے جھوٹ بولنے تہمت لگانے وعدہ خلافى كرنے دھوكا دينے خيانت

116
كرنے اور اس طرح كے دوسرے گناہوں كے بجالانے كو جائز اور صحيح قرار ديتا ہے بلكہ يہ كہا جا سكتا ہے كہ ہر گناہ در حقيقت ايك قسم كى خودخواہ يا ور خودپسند ہے كہ جو اس طرح اس كے سامنے ظاہر ہوئي ہے مثال كے طور پر ظلم اور دوسروں كے حقوق پر ڈاكہ ڈالنا خودخواہى اور خودپسندى كے علاوہ اور كچھ نہيں ہے_
اسى طرح جھوٹ غيبت بد زبانى عيب جوئي حسد انتقام لينا يہ سب پستياں خود اور خودپسندى شمار ہوتى ہيں جو ان صورتوں ميں نماياں ہو كر سامنے اتى ہيں اسى لئے تمام برائيوں كى جڑ خودپسندى كو قرار ديا جاتا ہے_
خودخواہى اور خودپسندى كے كئي مراتب اور درجات ہيں كہ سب سے زيادہ مرتبہ خود پرستى اور اپنے آپ كى عبادت كرنا ہوجاتا ہے_ اگر اس برى صفت سے مقابلہ نہ كيا جائے تو آہستہ آہستہ شدت پيدا كرليتى ہے اور ايك ايسے درجہ تك پہنچ جاتى ہے كہ پھر اپنے نفس امارہ كو معبود اور واجب الاطاتمہ اور خدا قرا ردے ديتى ہے اور عبادت كرنے اور خواہشات كے بجالانے ميں اطاعت گذار بنا ديتى ہے_ خداوند عالم ايسے افراد كے بارے ميں فرماتا ہے كہ '' وہ شخص كہ جس نے اپنى خواہشات كو اپنا خدا قرار دے ركھا ہے اسے تو نے ديكھا ہے؟ _(196)
كيا عبادت سوائے اس كے كوئي اور معنى ركھتى ہے كہ عبادت كرنے والا اپنے معبود كے سامنے تواضع اور فروتنى كرتا ہے اور بغير چون و چرا كے اس كے احكام اور فرمايشات كو بجلاتا ہے؟ جو انسان خودپسند ار خود خواہ ہوتا ہے وہ بھى ايسا ہى ہوتا ہے كيونكہ وہ اپنے نفس كو واجب الاطائمہ قرار ديتا ہے اور اس كے سامنے تواضع اور فروتنى اور عبادت كرتا ہے بغير چون و چرا كے اس كى فرمايشات كو بجالاتا ہے جو انسان خودخواہ اور خودپسند ہوتا ہے وہ كبھى موحد نہيں ہو سكتا_

تمام گناہوں كى جڑ دنيا طلبى ہے
آيات قرآنى اور روايات اہل بيت عليہم السلام ميں دنيا كى بہت زيادہ مذمت وارد
117
ہوئي ہے اور اسے لہو اور لعب يعنى كھيل اور كود غرور و تكبر كا سرمايہ قرار ديا گيا ہے كہ جس ميں مشغول ہو جانا مومنين كى شان نہيں ہے اور اس سے بہت زيادہ پرہيز كيا جائے_ جيسے قرآن ميں آيا ہے''تھوڑى دنيا بھى دھوكے دينے والے سرمايہ كے علاوہ كچھ نہيں_(197)
نيز خداوند عالم فرماتا ہے كہ '' دنيا سوائے كھيل اور ہوسرانى كے اور كچھ نہيں آخرت كا گھر نيكو كاروں كے لئے بہتر ہے كيا سوچ اور فكر نہيں ركھتے؟_(198)
نيز اللہ تعالى فرماتا ہے كہ '' جان لو كہ دنيا كى زندگى سوائے كھيل ہو سرانى زينت اور تفاخر اور اولاد كے زيا دہ كرنے كے علاوہ كچھ نہيں ہے اس كى مثال اس بارش كى ہے جو وقت پر برسے اور سبزہ زمين سے نكلے كہ جو بڑوں كو تعجب ميں ڈال دے اس كے بعد ديكھے گا كہ وہ زرد اور خشك اور خراب ہوجائے گي_ آخرت ميں اس كے پيچھے سخت عذاب آ پہنچے گا_(199)
امير المومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' ميں تمہيں دنيا سے ڈراتا ہوں كيونكہ دنيا شيريں اور خوشمنا ہوا كرتى ہے شہوات اور ھوى اور ہوس سے مخلوط ہے وہ اپنے آپ كو دل پسند جلدى ختم ہو جانے والى چيزوں كے ذريعے محبوب بناتى ہے اور معمولى چيزوں سے تعجب ميں ڈالتى ہے_ اميدوں اور دھوكے دہى سے زينت كرتى ہے اس كى خوشى كو دوام حاصل نہيں اور اس كى مصيبتوں اور گرفتاريوں سے امان نہيں ہوتى بہت فريب دينى والى اور نقصان وہ ہے متغير اور زوال پذير ہے فنا اور ہلاك ہوجانے والى ہے انسانوں كو كھا جانے اور ہلاكت كردينى والى ہوا كرتى ہے_(200)
نيز آنحضرت نے فرمايا'' دنيا آرزو اور تمنا كا گھر ہے اور فنا ہوجائيگى اس كے رہنے والے وہاں سے چلے جائيں گے شيرين اور خوشمنا ظاہر ہوتى ہے بہت جلدى دنيا كے طلب كرنے والوں كے پاس جاتى ہے اور ان كے دلوں ميں جو اس سے علاقمندى ظاہر كرتے ہيں گھر كر جاتى ہے_(201)
اس طرح كى آيات اور روايات بہت زيادہ موجود ہيں جو دنيا كى مذمت بيان كرتي

118
ہيں اور لوگوں كو اس سے ڈراتى ہيں بالخصوص نہج البلاغہ جيسے گران بہا كتاب ميں دنيا اور اہل دنيا كى بہت زيادہ مذمت وارد ہوئي ہے_ حضرت على عليہ السلام لوگوں سے چاہتے ہيں كہ دنيا كو ترك كريں اور آخرت كى فكر كريں آنحضرت لوگوں كو دو گروہوں ميں تقسيم كرتے ہيں ايك اہل دنيا اور دوسرا اہل آخرت اور ان ميں سے ہر ايك كے لئے ايك خاص پروگرام ہوا كرتا ہے_
قرآن ميں آيا ہے كہ '' جو شخص دنيا مال و متاع كا خواہش مند ہو ہم اسے اس سے بہرہ مند كرتے ہيں اور جو آخرت كے ثواب كا طالب ہوگا ہم اسے وہ عنايت كرتے ہيں_(202)
خدا فرماتا ہے كہ '' مال و متاع اور اولاد دنيا كى زينت ہيں ليكن نيك عمل باقى رہ جاتا اور وہى تيرے پروردگار كے نزديك بہتر اور نيك آرزو اور تمنا ہے_ (203)

دنيا كيا ہے؟
بہر حال اسلام دنيا كو قاتل مذمت قرا رديتا ہے اور اس سے زاہد رہنا طلب كرتا ہے لہذا ضرورى ہے كہ واضح كريں كہ دنيا كيا ہے اور كس طرح اس سے پرہيز كيا جائے؟
كيا دنيا ہر وہ چيز جو اس جہان ميں جيسے زمين سورج ستارے حيوانات ، نباتات، درخت، معاون اور انسان ہيں كا ناہم ہے؟ اس كے مقابلے ميں آخرت يعنى ايك دوسرا جہان ہے؟ اگر دنيا سے يہ مراد ہو تو پھر دنيا كى زندگى كام كرنے خورد و نوش آرام اور حركت و غيرہ جو دنيا كى زندگى سے مربوط ہيں كا نام ہوگا_ كيا اسلام ميں كسب معاش اور كام كرنے اور روزى حاصل كرنے اور اولاد پيدا كرنے اور نسل كو بڑھانے كى مذمت كى گئي ہے؟ كيا زمين اور آسمان حيوانات اور نباتات برى چيزيں ہيں_ اور انسان كو ان سے پرہيز كرنا چاہئے؟ كيا اسلام كام اور كوشش كرنے روزى كو حاصل كرنے اور توليد نسل

119
كى مذمت كرتا ہے؟ يہ تو قطعا ايسا نہيں ہے يہ تمام چيزوں اللہ تعالى كى بنائي ہوئي ہيں اگر يہ چيزيں برى ہوتيں تو اللہ تعالى ا نہيں پيدا ہى نہ كرتا _ خداوند عالم ان تمام چيزوں كو اپنى بہت بڑى خوشمنا نعمتيں جو انسان كے مطيع قرار پائي ہيں جانتا ہے تا كہ انسان ان سے فائدے حاصل كرے_ تنہا مال اور دولت قابل مذمت نہيں ہے بلكہ اسے قرآن ميں خير اور اچھائي كے طور پر ظاہر كيا ہے_
قرآن ميں آيا ہے _ '' ان ترك خيرا الوصيتہ للوالدين و الاقربين (204) _ حلال روزى كمانے اور كام اور كوشش كى مذمت ہى نہيں كى گئي بلكہ بہت سى روايات ميں اسے بہترين عبادت بھى شمار كيا گيا ہے جيسے پيغمبر عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' عبادت كى سترجزو ہيں ان ميں سب سے زيادہ افضل حلال روزى كا طلب كرنا ہے_(205)
امام محمد باقر عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' جو شخص دنيا ميں اپنى روزى حاصل كرے تا كہ لوگوں سے بے پرواہ ہوجائے اور اپنے اہل و عيال كى روزى كو وسيع كرے اور اپنے ہمسايوں كے ساتھ احسان كرے وہ قيامت كے دن خدا سے ملاقات كرے گا جبكہ اس كى صورت چودہويں كے چاند كى طرح چمك رہى ہوگي_ (206)
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' جو شخص اپنے اہل و عيال كى روزى كى تلاش كرے وہ اس شخص كى طرح ہے جو خدا كے راستے سے جہاد كرتے ہيں_ (7 20)
روايات ميں كام اور كوشش زراعت اور تجارت كرنے يہاں تك كہ نكاح كرنے كى سفارش كى گئي ہے اور پيغمبر اور ائمہ اطہار عليہم السلام كى سيرت بھى يوں ہى تھى كہ وہ كام كرتے تھے_ على ابن ابيطالب جو تمام زاہدوں كے سردار ہيں كام كرتے تھے پس سوچنا چاہئے كہ جس دنيا كى مذمت كى گئي ہے وہ كونسى ہے؟ بعض علماء نے كہا كہ دنيا قاتل مذمت نہيں ہے بلكہ اس كے ساتھ دل بستگى قابل مذمت ہے_ بعض آيات اور روايات ميں دنيا سے وابستگى اور علاقمندى كى مذمت بھى وارد ہوئي ہے_
قرآن مجيد ميں آيا ہے ''خواہشات نفسانى سے وابستگى اور علاقمندى جيسے اولاد اور عورتيں زر و جواہر كى ہميانوں اور اچھے گھوڑے چارپائوں اور زراعت نے لوگوں كے

120
سامنے آرائشے اور خوشمنائي كر ركھى ہے يہ سب دنيا كا مال اور متاع ہے ليكن نيك كام خدا كے نزديك موجود ہيں_(208)
اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے '' خبردار كہ دنيا كو دوست ركھو كيونكہ دنيا كى محبت ہر گناہ كر جڑ اور ہر مصيبت اور بلا كا سرچشمہ ہے_ (209)
حضرت صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' دنيا سے دلبستگى اور علاقمندى ہر خطاء اور گناہ كا سرہے يعنى سب كچھ ہے_ (210)
اس طرح كى آيات اور روايات سے يوں معلوم ہوتا ہے كہ دنيا كے امور سے دلبستگى اور علاقمندى قابل مذمت ہے نہ يہ كہ خود دنيا قاتل مذمت ہے_ يہاں پر پھر سوال پيدا ہوگا كہ كيا دنيا سے بطور اطلاق محبت اور دلبستگى اور علاقمندى قابل مذمت ہے اورانسان كو اپنى بيوى اور اولاد مال اور دولت مكان اور متاع خورد اور خوراك سے بالكل دلبستگى اور علاقمندى نہيں كرنى چاہئے؟ آيا اس طرح كا مطلب كہا جا سكتا ہے؟ جب كہ ان امور سے محبت اور دلبستگى انسان كى فطرى اور طبيعى چيز ہے خداوند عالم نے انسان كو اس فطرت پر خلق فرمايا ہے_ كيا انسان ايسا كر سكتا ہے كہ وہ اپنى بيوى اور اولاد سے محبت نہ ركھے؟ كيا انسان خوراك پوشاك اور اس دنيا كى زيبائي سے محبت نہ ركھے ايسا كر سكتا ہے؟ اگر ان چيزوں سے محبت كرنا برا ہوتا تو خداوند عالم انسان كو اس طرح پيدا نہ كرتا_ انسان زندہ رہنے كے لئے ان چيزوں كا محتاج ہے اور اس طرح پيدا كيا گيا ہے كہ وہ طبعا ان چيزوں كى طرف ميلان ركھے_ اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ لوگ دنيا كے فرزند ہيں اور كسى كو مال سے محبت ركھنے پر ملامت نہيں كى جاتي_ (211)
روايات ميں اولاد اور عيال سے محبت كرنے كى سفارش كى گئي ہے_ خود پيغمبر عليہ السلام اور ائمہ اطہار اپنے اہل و عيال اور اولاد سے محبت كا اظہار كيا كرتے تھے_ بعض خوراك كو پسند فرماتے تھے اور ان سے بھى علاقہ كا اظہار كيا كرتے تھے لہذا زمين، آسمان، نباتات، درخت، معاون حيوانات اور دوسرى اللہ كى نعمتيں نہ قابل مذمت ہيں اور نہ برى اور نہ ہى اہل و اعيال اور اولاد اور مال و متاع برے ہيں اور نہ ہى ان سے

121
محبت اور لگائو اور دنياوى زندگى برى ہے بلكہ بعض روايات ميں تو دنيا كى تعريف بھى كى گئي ہے_ اميرالمومنين عليہ السلام اس كى جواب ميں جو دنيا كى مذمت كر رہا تھا فرمايا كہ دنيا سچائي اور صداقت كا گھر ہے اس كے لئے گھر ہے جو اس كى تصديق كرے اور امن و امان اور عافيت كا اس كے لئے گھر ہے جو اس كى حقيقت كو پہچان لے اور اس كے لئے بے نياز ہونے كا مكان ہے جو اس كے زادراہ حاصل كرے اور نصيحت لينے كا محل ہے اس كے لئے جو اس سے نصيحت حاصل كرے_ دنيا اللہ كے دوستوں كى مسجد اور اللہ كے فرشتوں كے لئے نماز كا مكان ہے_ دنيا اللہ تعالى كى وحى نازل ہونے كا مكان ہے اور خدا كے اولياء كے لئے تجارت كى جگہ ہے انہوں نے دنيا ميں اللہ كے فضل اور رحمت كو حاصل كيا ہے اور بہشت كو منفعت ميں حاصل كيا ہيں_(212)
امام محمد باقر عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' دنيا آخرت كے لئے بہت بہترين مددگار ہے_ (213)
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' جو شخص حلال مال كو حاصل كرنا پسند نہيں كرتا تا كہ وہ اس كے ذريعے اپنى آبرو اور عزت كى حفاظت كرے اور قرض اداد كرے اور صلہ رحم بجالائے تو اس ميں كوئي اچھائي اور بھلائي موجود نہيں ہے_ (214)
لہذا سوال پيدا ہوتا ہے كہ پھر كونسى دنيا قابل مذمت ہے اور دنيا سے محبت كرنے كو تمام گناہوں كا سرچشمہ قرار ديا گيا ہے وہ كونسى دنيا ہے؟
ميں نے ان تمام آيات اور روايات سے يوں استفادہ كيا ہے كہ دنيا دارى اور دنيا كا ہو جانا اور دل دنيا كو دے دينا قابل مذمت ہے نہ فقط دنياوى امور سے لگائو اور دنيا كے موجودات اور اس دنيا ميں زندگى كرنا قابل مذمت ہے_ اسلام لوگوں سے يہ چاہتا ہے كہ وہ دنيا كوويسے پہچانيں كے جيسے وہ ہے اور اتنى ہى مقدار اسے اہميت ديں اور اس سے زيادہ اسے اہميت نہ ديں_ جہاں كى خلقت كى غرض اور اپنى خلقت كى غرض كو پہچائيں اور صحيح راستے پر چليں اگر انسان اس طرح ہوجائيں تو وہ اہل آخرت ہونگے اور اگر ان كى رفتار اور كردار اس غرض كے خلاف ہو تو پھر وہ اہل دنيا كہلائيں گے اور

122
ہونگے_

دنيا كى حقيقت
اس مطلب كى وضاحت كے لئے پہلے دنيا كى اسلام كى رو سے حقيقت اور ماہيت كو بيان كرتے ہيں اس كے بعد جو اس سے نتيجہ ظاہر ہوگا اسے بيان كريں گے اسلام دو جہان كاعقيدہ ركھتا ہے ايك تو يہى مادى جہان كہ جس ميں ہم زندگى كر رہے ہيں اور جسے دنيا كہا اور نام ديا جاتا ہے_ دوسرا اس كے بعد آنے والا جہان كہ جہاں مرنے كے بعد جائيں گے اسے آخرت اور عقبى كا جہان كہا اور نام ديا جاتا ہے_ اسلام عقيدہ ركھتا ہے كہ انسان كى زندگى اس جہان ميں مرنے سے ختم نہيں ہوجاتى بلكہ مرنے كے بعد انسان آخرت كے جہاں كى طرف منتقل ہوجائيگا_ اسلام اس جہان كو گذر گاہ اور فانى مكان قرار ديتا ہے جو آخرت كے جہان جانے كے لئے ايك وقتى ٹھہرنے كى جگہ ہے_ اور آخرت كے جہان كو دائمى اور ابدى رہنے كى جگہ قرار ديتا ہے_ انسان اس دنيا ميں اس طرح نہيں آيا كہ كئي دن زندگى كرے اور اس كے بعد مرجائے اور ختم اور نابود ہوجائے بلكہ انسان اس جہان ميں اس لئے آيا ہے كہ يہاں علم او رعمل كے ذريعے اپنے نفس كى تربيت اور تكميل كرے اور آخرت كے جہاں ميں ہميشہ كے لئے خوش اور آرام سے زندگى بسر كرے لہذا دنيا كا جہان آخرت كے جہاں كے لئے كھيتى اور تجارت كرنے اور زاد راہ كے حاصل كرنے كى جگہ ہے گرچہ انسان اس جہان ميں زندہ رہنے اور زندگى كرنے كے لئے مجبور ہے كہ ان نعمتوں سے جون خدا نے اس جہان ميں خلق كى ہيں استفادہ كرے ليكن ان نعمتوں سے فائدہ حاصل كرنا انسان كى زندگى كى غرض اور ہدف نہيں ہے بلكہ يہ مقدمہ اور تمہيد ہے انسان اور اس جہاں كے خلق كرنے كى غرض اور ہدف يہ نہيں كہ انسان يہاں كى زندگى كو خوب مرتب اور مرفح الحال بنائے اور مختلف لذائز اور تحقيقات سے زيادہ سے زيادہ فائدہ حاصل كرے بلكہ انسان كے خلق

123
كرنے كى غرض ايك بہت بلند اور عالى تر غرض ہے يعنى انسان اپنے انسانى شريف جوہر كى يہاں پر پرورش اور تربيت كرے اور اس كى نگاہ اللہ تعالى كى طرف سير و سلوك اور تقرب كو حاصل كرنا ہو_ جيسے اميرالمومنين على عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' دنيا اس لئے خلق نہيں ہوئي كہ وہ تيرا ہميشہ كے لئے گھر ہو بلكہ دنيا گذر نے كى جگہ ہے تا كہ نيك عمل كے ذريعے تو اپنى ہميشہ رہنے والى جگہ كے لئے زاد راہ حاصل كرے لہذا تم دنيا سے چلے جانے كے لئے جلدى كرو اور يہاں سے جانے كے لئے اپنے لئے سوارى كو آمادہ اور مہيا كرو_ (215)
نيز حضرت على عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' اے دنيا كے لوگو دنيا گذر جانے كى جگہ ہے اور آخرت باقى رہنے كا محل ہے لہذا گزرنے والى جگہ سے ہميشہ رہنے والے مكان كے لئے سامان اور زاد راہ حاصل كرو_ اور اپنے رازوں كے پردے كو اس كے سامنے جو تمہارے رازوں سے واقف ہے پارہ نہ كرو اپنے دلوں كو دنيا سے خالى كرو اس سے پہلے كہ تمہارے بدن اس دنيا سے خارج ہوجائيں_ تم اس دنيا ميں امتحان ميں واقع كئے جائو گے اور تم اس دنيا كے علاوہ كے لئے پيدا كئے گئے ہو جب انسان مرجاتا ہے لوگ كہتے ہيں كہ كيا چھوڑ كرگيا ہے اور فرشتوں كہتے ہيں كہ كيا لے كرايا ہے اور كيا اپنے لئے يہاں كے لئے بھيجا ہے؟ خدا تمہارے باپ پر رحمت نازل كرے كہ تم اپنے مال سے كچھ آئندہ كے لئے روانہ كرو تا كہ خدا كے نزديك تمہارے لئے بطور قرض كے باقى ہو اور تمام مال دنيا ميں چھوڑ كرنہ رو كہ اس مال كے حقوق تمہارى گردن پر باقى رہ جائيں_ (216)
نيز حضرت على عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' خبردار رہو كہ يہ دنيا كہ جس كى تم اميد ركھتے ہو اور اس سے محبت اور علاقہ مند ہو كبھى تمہيں غضب ميں لاتى ہے اور كبھى تمہيں خوش كرتى ہے يہ نہ تمہارا گھر ہے اور نہ ہى تمہارى ٹھہرنے كى جگہ ہے كہ جس كے لئے تم پيدا كئے گئے ہو اور نہ ہى يہ تمہارے لئے مكان ہے كہ جس كى طرف تم بلائے گئے ہو يہ جان لو كہ نہ ہى يہ دنيا تمہارے لئے ہميشہ رہے گى اور نہ تم اس

124
ميں ہميشہ كے لئے باقى رہو گے گرچہ دنيا تمہيں اپنى زينت اور خوبصورتى كى وجہ سے دھوكا ديتى ہے_ ليكن برائيوں اور شر كے ہونے سے بھى تمہيں ڈراتى ہے لہذا ان ڈرانے والى چيزوں كو جو يہ ركھتى ہے اس كے غرور اور دھوكے ميں نہ آئو اور اس سے دست بردار ہوجائو اس كى ڈرائي جانے والى چيزوں كى وجہ سے اس كے طمع دلانے سے دست بردار ہو جائو اور اس گھر كى طرف جلدى كرو كہ جس كى طرف تمہيں دعوت دى گئي ہے اور اپنے دلوں كو دنيا سے خالى اور منصرف كرو_ (217)
آپ نے ديكھ ليا كہ اس حديث ميں دنيا كى حقيقت كس طرح بتلائي گئي ہے كہ يہ فناء ہونے والى اور سفر كى جگہ ہے يہ گذرنے اور سفر كر جانے كے لئے ٹھہرنے كا ايك مقام ہے_ يہ دھوكے اور غرور اور چالبازى كا گھر ہے_ انسان اس كے لئے خلق نہيں ہوا بلكہ آخرت كے جہان كے لئے خلق كيا گيا ہے انسان اس جہاں ميں آيا ہے تا كہ اپنے علم اور عمل اور انسانيت كى تربيت اور پرورش كرے اور آخرت كے جہان كے لئے زاد راہ اور توشہ حاصل كرے_

اہل آخرت
اسلام لوگوں سے يہ چاہتا ہے كہ دنيا كو اس طرح پہچانيں كہ جيسے وہ ہے اور اپنے اعمال اور كردار كو اسى طرح بجالائيں جيسے كہ وہ دنيا ہے جن لوگوں نے دنيا كو جس طرح كہ وہ ہے پہچان ليا ہے تو پھر وہ اس دنيا كے عاشق اور ديوانے نہيں بنتے اور وہ زر و جواہر كے دھوكے ميں نہيں آتے جب كہ وہ اسى دنيا ميں زندگى كرتے ہيں اللہ تعالى كى شرعى لحاظ سے نعمتوں سے اور لذات سے استفادہ بھى كرتے ہيں_ ليكن وہ ان كے قيدى اور غلام نہيں بنتے وہ خدا اور آخرت كے جہان كو كبھى نہيں بھلاتے اور ہميشہ كوشش كرتے ہيں كہ وہ اپنے نيك كاموں كے بجالانے سے آخرت كے جہان كے لئے زاد راہ اور توشہ حاصل كريں_ اس جہان ميں زندگى كرتے ہيں ليكن ان كے دل كى آنكھ برتر و بالا افق كو ديكھتى ہے_ ہر لمحہ اور ہر حالت اور ہر عمل ميں خدا اور آخرت

125
كے جہان پر نظر ركھتے ہيں اور آخرت كے جہان كے لئے اس سے فائدہ حاصل كرتے ہيں_ دنيا كو آخرت كى كھيتى اور تجارت كا محل جانتے ہيں_ كوشش كرتے ہيں كہ آخرت كے جہان كے لئے زاد راہ حاصل كريں _ دنيا كى تمام چيزوں سے آخرت كے جہان كے لئے فائدہ حاصل كرتے ہيں يہاں تك كہ كام اور كالج اور كھانے پينے ازدواج اور دوسرے دنياوى كاموں سے بھى آخرت كے جہان كے لئے استفادہ حاصل كرتے ہيں اس طرح كے لوگ دنيا دار نہيں ہوتے بلكہ يہ اہل آخرت ہيں_ ابن ابى يعفور كہتے ہيں كہ ميں نے امام جعفر صادق عليہ السلام كى خدمت عرض كيا كہ ہم دنيا كو دوست ركھتے ہيں_ آپ نے فرمايا ہے كہ '' دنيا كے مال سے كيا كرتے ہو؟ ميں نے عرض كى اس كے ذريعے سے ازدواج كرتا ہوں اور اللہ كے راستے ميں صدقہ ديتا ہوں_ آپ نے فرمايا كہ يہ تو دنيا نہيں ہے؟ بلكہ يہ تو آخرت ہے_ (218)
حضرت عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' اے خدا كے بندو متوجہ رہو كہ پرہيزگار دنيا ميں بھى فائدہ حاصل كرتے ہيں اور آخرت ميں بھى فائدہ حاصل كرتے ہيں _ وہ دنيا داروں كے ساتھ دنيا سے فائدہ حاصل كرنے ميں شريك ہيں ليكن دنيا دار ان كے ساتھ آخرت ميں شريك نہيں ہيں_ انہوں نے دنيا ميں عمدہ طريقے سے زندگى بسر كى ہے اور كھانے والى چيزوں سے عمدہ طريقے سے استفادہ كيا ہے انہوں نے دنيا سے وہى استفادہ كيا ہے جو عياش لوگ اس سے استفادہ كيا كرتے تھے اور وہى استفادہ كيا ہے جو ظالم اور متكبر لوگ كيا كرتے تھے اس كے باوجود يہ لوگ آخرت كا زاد راہ اوردنيا كے تجارت كے محل سے پورى طرح كما كر آخرت كى طرف منتقل ہوگئے ہيں_ دنيا سے زہد كى لذت كو بھى حاصل كيا ہے اور انہيں يقين تھا كہ آخرت ميں اللہ تعالى كے جوار رحمت ميں اس طرح زندگى كريں گے كہ ان كى كوئي بھى خواہش رد نہيں كى جائيگى اور لذت اور خوشى سے انكا حصہ كم اور ناقص نہيں ہوگا_ (219)
لہذا كام اور كام ميں مشغول ہونا اور صنعت اور تجارت اور زراعت اور اسي

126
طرح مقام اور منصب اور اجتماعى ذمہ دارى كا قبول كرنا زہد اور اہل آخرت ہونے كے منافى اور ناساز نہيں ہوا كرتا يہ تمام امور اللہ كى رضايت حاصل كرنے اور آخرت كے راستے ميں گامزن ہونے ميں سموئے جا سكتے ہيں_ امرالمومنين جو اپنى تمام كوشش كام اور كاج ميں استعمال كرتے تھے رات كو محراب عبادت ميں گريہ و زارى كيا كرتے تھے اور فرماتے تھے'' اے دنيا_ اے دنيا مجھ سے دور ہٹ جا_ كيا مجھے دھوكہ دينے كے لئے مير ے سامنے آئي ہے اور مجھ سے محبت كا اظہار كرتى ہے؟ يہ تيرا وقت نہيں ہے جا كسى دوسرے كو دھوكہ دے مجھے تيرى كوئي ضرورت نہيں ہے_ ميں نے تجھے تين طلاقيں دے دى ہيں كہ جن ميں رجوع بھى نہيں كيا جا سكتا_ تيرى زندگى كوتاہ سے اور تيرى قيمت معمولى ہے_ اہ زاد راہ تھوڑا ہے اور راستہ اور سفر طويل ہے اور آگے كى منازل عظيم ہيں_ (220)
آپ ايك اور جگہ فرماتے ہيں ''اے دنيا مجھ سے دور ہوجا كہ ميں نے تيرى مہار تيرى گرد پر ڈال دى ہے اور تجھے آزاد كرديا ہے_ ميں تيرے چنگل سے نكل چكا ہوں اور تيرے جال سے بھاگ گيا ہوں اور تيرى لغزش گاہ سے دور ہو چكا ہوں_ (221)
حضرت على عليہ السلام نے اس حالت ميں جب كہ ايك لشكر جرار كے ساتھ جنگ كرنے جا رہے تھے اپنى پھٹى پرانى جوتى ابن عباس كو دكھلائي اور فرمايا كہ '' خدا كى قسم يہ پھٹى پرانى جوتى ميرے نزديك حكومت اور امير ہونے سے زيادہ محبوب ہے مگر يہ كہ ميں حق كو برقرار كروں اور باطل كو رد كروں_ (222)
اللہ تعالى كے خاص بندے ايسے ہى تھے اور ہيں_ اس دنيا ميں زندگى كرتے ہيں ليكن وہ عالم بالا كو ديكھتے ہيں اور اہل آخرت ہيں_ عام لوگوں كى طرح كام اور كاج كرتے ہيں_ بلكہ حكومت اور فرماندھى اور زمام دارى اور زندگى كے امور كو بھى چلاتے ہيں_ اور ان تمام كاموں كو اللہ تعالى كى رضا اور اپنا عملى وظيفہ قرار ديتے ہيں اور شرعى حدود ميں رہ كر اللہ تعالى كى نعمتوں سے بھى استفادہ كرتے ہيں اس كے باوجود دنيا كو تين طلاقيں دے ركھى ہيں اور اس كى محبت كو دل سے نكالا ہوا ہے_ حكومت لينے كے لئے

127
جنگ كرتے ہيں ليكن صرف حق كے دفاع اور عدالت كو برپا كرنے كے لئے نہ يہ كہ حكومت اور رياست كريں_

اہل دنيا
اگر كسى انسان نے دنيا كو جيسے ہے اس طرح نہ پہچانا ہو دنيا ميں ايسے زندگى كرنے ميں مشغول ہوگيا ہو كہ گويا اس كے خلق ہونے كى غرض اور غايت يہى دنيا تھى اور آخرت ميں كوئي حساب اور كتاب نہيں اور نہ ہى اس دنيا كے علاوہ كوئي اور دنيا ہے كہ جس كى طرف اس نے جانا ہے اور وہ مال اور دولت زن اور فرزند جاہ و جلال اور مقام و منصب كا قيدى اور فريفتہ ہوچكا ہو اور اسى دنيا كى زندگى كو خوب مضبوط پكڑ ركھا ہو اور اسى كے ساتھ ولى لگائو ركھا ہو اور آخرت كى زندگى اور خدا كو فراموش كرديا ہو اور معنوى بلنديوں سے چشم پوشى كر لى ہو اور صرف حيوانى خواہشات كے پورے كرنے اور لذائز دنيوى سے زيادہ سے زيادہ لطف اندوز ہونے ميں كمر ہمت باندھ ركھى ہو_ اس طرح كا انسان اور افراد دنيا اور اہل دنيا شمار قسم ہوتے ہيں گرچہ وہ فقير اور نادار اور گوشہ نشين ہى كيوں نہ ہوں اور ہر قسم كى اجتماعى زمہ دارى كے قبول كرنے سے پرہيز ہى كيوں نہ كرتے ہوں_
خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے '' وہ صرف دنيا كے ظاہر كو ديكھتے ہيں ليكن آخرت سے غافل ہيں_(223)
نيز اللہ تعالى فرماتا ہے'' دنيا كى زندگى كو آخرت كى زندگى كے مقابلے ميں خريداہے_(224)
نيز ارشاد ہوا ہے كہ ''كيا تم نے دنيا كى زندگى پر رضايت دے دى ہے؟ جب كہ يہ معمولى ثروت سے زيادہ نہيں ہے_ (225)
اللہ تعالى فرماتا ہے''جو لوگ ہمارى ملاقات اور بقا كى اميد نہيں ركھتے اور دنيا كى زندگى سے دل لگا ركھا ہے اور خوش ہيں اور وہ جو ہمارى آيات سے غافل ہيں يہى وہ

128
لوگ ہيں كہ جن كا ٹھكانہ جہنم كى اگ ميں ہے يہ اس وجہ سے ہوگا كہ جو كچھ انہوں نے دنيا ميں كسب كيا ہے_(226)
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' انسان كى خدا سے دور ترين حالت اس وقت ہوتى ہے جب وہ سوائے شكم پرى اور عورت كے اور كسى چيز كو ہدف اور غرض قرار نہيں ديتا_ (227)
حضرت على عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' جو دل دنيا كا فريفتہ اور عاشق ہوگا اس ميں تقوى اور پرہيزگارى كا داخل ہونا حرام ہوا كرتا ہے_(228)
نيز آنحضرت(ص) نے فرمايا ہے كہ '' وہ بہت ہى برا معاملہ اور تجارت ہے كہ جس كى قيمت اور عوض اپنے نفس كو قرار دے ديا جائے اور دنيا كو اس كے عوض جو خدا كے نزديك ہے عوض بنا ليا جائے_ (229)
اگر دنيا كى مذمت كى گئي ہے تو اس كى وجہ يہ ہے كہ دنيا غرور اور دھوكا دينے والى اور مشغول ركھ دينے كا مال اور متاع ہے_ دنيا اپنے آپ كو خوبصورت اور شيرين ظاہر كرتى ہے اور انسان كو اسى ميں لگائے ركھتى ہے اور انسان كو خدا كى ياد آور آخرت كے لئے زاد راہ حاصل كرنے سے روكتى ہے_
اسى لئے دنيا كى مذمت وارد ہوئي ہے اور اسے بيان كيا گيا ہے تا كہ انسان ہوشيار رہيں اور اس كى چالوں كا دھوكانہ كھائيں اور اپنے آپ كو دنيا كے قيدى اور غلام نہ بنائيں اور اس پر فريفتہ نہ ہوجائيں_
قابل مذمت دنيا سے لگائو اور عشق ہے اور اپنے خلق ہونے كى غرض كو بھول جانا ہے اور آخرت كى ہميشگى زندگى اور اللہ كى نعمتوں سے غافل ہو جانا ہے_

اہل دنيا اور اہل آخرت
جو دنيا ميں رہ كر آخرت كے لئے كام كرے وہ اہل آخرت ہے اور جو صرف دنيا ميں رہ كر دينا كے لئے كام كرے وہ اہل دنيا اور دنيا دار ہے_

129
اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' دنيا ميں لوگ دو قسم پر عمل كرتے ہيں ايك وہ ہے جو دنيا ميں رہ كر دنيا كے لئے كام كرتا ہے دنيا نے اسے مشغول كر ركھا ہے اور آخرت سے غفل بنا ديا ہے_ ڈرتا ہے كہ اس كى اولاد اس كے مرنے كے بعد فقير وجائے ليكن آخرت كے جہان ميں خالى ہاتھ جانے سے اپنے آپ كو محفوظ سمجھتا ہے اپنى عمر كو دوسروں كے منافع كے لئے خرچ كرتا ہے_ دوسرا وہ ہے جو دنيا ميں رہ كر آخرت كے لئے كام كرتا ہے_ اس كى روزى بعى بغير كسى مشقت كے پہنچتى رہتى ہے يعنى دنيا اور آخرت كا حصہ اور نصيب اسے ملتا رہتا ہے اور يہ يہ دونوں جہانوں كا مالك ہو جاتا ہے يہ خدا كے نزديك آبرومند اور محترم ہوگا اور جو كچھ خدا سے طلب كرے گا خدا سے قبول كريگا_(230)
نيز اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' دنيا عبور كرجانے كى جگہ ہے يہ ٹھہر جانے كا گھر نہيں ہے لوگ دو قسم كے ہيں ايك وہ ہے جو اپنے نفس كو دنيا كى بے قيمت اشياء كے عوض فروخت كرديتا ہے اور اپنے نفس كو ذلت اور خوارى ميں ڈالتا ہے دوسرا وہ ہے جو اپنے انسانى نفس كو خريد ليتا ہے اور آزاد كر ليتا ہے_ (231)
اہل دنيا اور اہل آخرت ميں فرق اس ميں نہيں ہوتا كہ دولتمند ہے يا فقير دنيا كے كاموں ميں مشغول ہے ہے يا بيكار ہے_ اجتماعى زمہ داريوں كو قبول كيا ہوا ہے يا نہ لوگوں كے درميان زندگى كر رہا ہے يا گوشہ نشين ہے كسب و كار تجارت ميں مشغول ہے يا تحصيل علم درس تدريس تاليف كتاب وعظ اور نصيحت كرنے ميں مشغول ہے_ دنيا كے نعمتوں سے استفادہ كر رہا ہے يا نہ دنيا منصب اور عہدہ پر فائز ہے يا نہ بلكہ ان دو ميں اصلى تفاوت اور فرق اس ميں ہے كہ دنياوى امور سے وابستگى اور عشق ركھتا ہے يا امور آخرت كا فريفتہ ہے_ دنيا سے دل لگا ركھا ہے يا آخرت كى زندگى سے _ دنيا كى طرف متوجہہ ہے يا خدا كى طرف_ اپنى زندگى كى غرض اور ہدف حيوانى خواہشات كو قرار دے ركھا ہے يا مكارم اخلاق اور فضائل انسانى كا حصول اور تربيت كرنا_
جو چيز انسان كو اپنے ميں مشغول ركھے اور خدا كى ياد آور آخرت كے جہاں كے

130
لئے سعادت اور كوشش سے روكے ركھے وہ دنيا شمار ہوگى گرچہ انسان تحصيل علم اور تدريس اور تاليف كتاب اور وعظ اور نصيحت امامت جماعت يہاں تك كہ گوشہ نشينى اور دنيا سے زہد اور عبادت بجالا رہا ہو اگر يہ تمام كے تمام غير خدا كے لئے ہوں تو يہ بھى دنيا شمار ہوگى پس واضح ہوگيا كہ تمام دنيا كے لوگ ايك مرتبے اور قطار ميں نہيں ہوتے اسى طرح تمام اہل آخرت بھى ايك رتبے ميں نہيں ہوا كرتے بلكہ ايك گروہ اہل دنيا كا سوفيصدى اور بطور كامل دنيا سے لگاؤ ركھتا اور بطور كلى خدا اور آخرت كے جہان سے غافل ہوتا ہيں اس طرح كے ان لوگوں كو دنيا دار اور دنياپرست كا نام ديا جانا ہوتا ہے_ ان كے مقابلے ميں ايك گروہ لوگوں كا ہے جو اللہ تعالى كے خالص بندے ہيں كہ ان كى سارى توجہہ خدا اور آخرت كے جہان كے لئے ہوتى ہے اور سوائے اللہ كى رضا كے انكا كوئي اور ہدف نہيں ہوتا_ پھر ان دونوں گروہوں ميں بہت زيادہ درجات اور مراتب ہوتے ہيں جو جتنا دنيا سے لگاؤ اور محبت ركھے گا وہ اسى مقدار كا دنيا دار ہوگا اور اللہ تعالى كے قرب سے دور ہوگا اس كے برعكس جو جتنا زيادہ خدا كى ياد ميں آخرت كے جہاں كى فكر ميں ہوگا وہ ا تنا تارك دنيا شمار ہوگا خلاصہ دنيادار ہونا اور اہل آخرت ہونا يہ دونوں امر اصطلاحى لحاظ سے اضافى اور نسبى ہوا كرتے ہيں_