15
پيغمبروں كے بعثت كى اہم غرض
نفوس كا پاكيزہ كرنا تھا
پيغمبروں كا سب سے بڑا ہدف اور غرض انسانى نفوس كى پرورش كرنا اور نفوس انسانى كو پاك و پاكيزہ بنانا تھا_
خداوند عالم قرآن مجيد ميں ارشاد فرماتا ہے كہ '' خداوند عالم نے مومنين پر احسان كيا ہے كہ ان سے ايك رسول ان كے درميان بھيجا ہے تا كہ وہ ان كے لئے قرآنى آيات كى تلاوت كرے اور ان كے نفوس كو پاك و پاكيزہ بنائے اور انہيں كتاب اور حكمت كى تعليم دے گرچہ وہ اس سے پہلے ايك كھلى ہوئي گمراہى ميں غرق تھے_ (1)
تعليم و تربيت كا موضوع اس قدر مہم تھا كہ پيغمبروں كے بھيجنے كى غرض قرار پايا اور خداوند عالم نے اس بارے ميں اپنے بندوں پر احسان كيا_ انسان كى فردى اور اجتماعى شخصيت كى سعادت اور دنيوى اور اخروى شقاوت اس موضوع سے وابستہ ہے كہ كس طرح انسان نے اپنے آپ بنايا ہے اور بنائے گا_ اسى وجہ سے انسان كا اپنے آپ كو بنانا ايك زندگى ساز سرنوشت ساز كام شمار ہوتا ہے_ پيغمبر(ص) آئے ہيں تا كہ خودسازى اور نفس انسانى كى پرورش اور تكميل كا راستہ بتلائيں اور مہم ا ور سرنوشت ساز كام كي
16
رہنمائي اور مدد فرمائيں پيغمبر آئے ہيں تا كہ نفوس انسانى كو رذائل اور برے اخلاق اور حيوانى صفات سے پاك اور صاف كريں اور اچھے اخلاق اور فضائل كى پرورش كريں_ پيغمبر عليہم السلام آئے ہيں تا كہ انسانوں كو خودسازى كا درس ديں اور برے اخلاق كى شناخت اور ان پر كنٹرول اور خواہشات نفسانى كو قابو ميں ركھنے كى مدد فرمائيں اور ڈرانے اور دھمكانے سے ان كے نفوس كو برائيوں اور ناپاكيوں سے پاك و صاف كريں_ وہ آئے ہيں تا كہ فضائل اور اچھے اخلاق كے پودے كو انسانى نفوس ميں پرورش ديں اور بار آور بنائيں اور اپنى راہنمائي اور تشويق اور ترغيب سے ان كے مددگار بنيں_
رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے فرمايا ہے كہ '' ميں تمہيں اچھے اخلاق كى وصيت كرتا ہوں كيونكہ خداوند عالم نے مجھے اسى غرض كے لئے بھيجا ہے_ (2)
نيز پيغمبر عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' ميں اسلئے بھيجا گيا ہوں تا كہ اچھے اخلاق كو نفوس انسانى ميں مكمل كروں_ (3)
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' خداوند عالم نے پيغمبروں كو اچھے اخلاق كے لئے منتخب كيا ہے جو شخص بھى اپنے آپ ميں اچھے اخلاق موجو د پائے تو خداوند عالم كا اس نعمت پر شكريہ ادا كرے اور جو شخص اپنے آپ ميں اچھے اخلاق سے محروم ہو اسے اللہ تعالى كى بارگاہ ميں تضرع اور زارى كرنى چاہئے اور اللہ تعالى سے اچھے اخلاق كو طلب كرنا چاہئے_ (4)
امير المومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' اگر بالغرض ميں بہشت كى اميد نہ ركھتا ہوتا اور دوزخ كى آگ سے نہ ڈرتا ہوتا اور ثواب اور عقاب كا عقيدہ بھى نہ ركھتا ہوتا تب بھى يہ امر لائق تھا كہ ميں اچھے اخلاق كى جستجو كروں كيونكہ اچھے اخلاق كاميابى اور سعادت كا راستہ ہے_ (5)
امام محمد باقر عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' ايمان كے لحاظ سے كاملترين مومنين وہ
17
ہيں كہ جن كے اخلاق بہتر ہوں_'' رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمايا ہے كہ '' قيامت كے دن نامہ اعمال ميں كوئي چيز حسن خلق سے افضل نہيں ركھى جائيگي_ (6)
ايك آدمى رسول خدا كى خدمت ميں حاضر ہوا اور عرض كى يا رسول اللہ دين كيا ہے؟ آپ(ص) نے فرمايا ''حسن خلق'' وہ آدمى اٹھا اور آپ(ص) كے دائيں جانب آيا اور عرض كى كہ دين كيا ہے؟ آپ(ص) نے فرمايا ''حسن خلق'' يعنى اچھا اخلاق_ پھر وہ گيا اور آپ كے بائيں جانب پلٹ آيا اور عرض كى كہ دين كيا ہے ؟ آپ(ص) نے اس كى طرف نگاہ كى اور فرمايا كيا تو نہيں سمجھتا؟ كہ دين يہ ہے كہ تو غصہ نہ كرے_ (7)
اسلام كو اخلاق كے بارے ميں خاص توجہہ ہے اسى لئے قرآن مجيد ميں اخلاق كے بارے ميں احكام كى نسبت زيادہ آيات قرآنى وارد ہوئي ہيں يہاں تك كہ قرآن كے قصوں ميں بھى غرض اخلاقى موجود ہے_ تمہيں احاديث ميں اخلاق كے بارے ہزاروں حديثيں مليں گى اگر دوسرے موضوعات سے زيادہ حديثيں نہ ہوئيں تو ان سے كمتر بھى نہيں ہيں_ اخلاق كے بارے ميں ثواب اور خوشخبرياں جو ذكر ہوئي ہيں دوسرے اعمال كے ثواب سے كمتر نہيں ہيں_ اور برے اخلاق سے ڈرانا اور سزا جو بيان ہوئي ہے وہ دوسرے اعمال سے كمتر نہيں ہيں_ اسى لئے اسلام كى بنياد اخلاقيات پر تشكيل پاتى ہے_ مناسب نہيں كہ اسے دين كے احكام ميں دوسرا درجہ ديا جائے اور دينداروں كے لئے آرائشے اور خوبصورتى كا درجہ ديا جائے اگر احكام ميں امر اور نہى ہيں تو اخلاق ميں بھى امر اور نہى موجود ہيں اور اگر احكام ميں تشويق اور تخويف ثواب اور عقاب اور جزا ء اور سزا موجود ہے تو اخلاق ميں بھى يہى امور موجود ہيں_
پس احكام شرعى اور اخلاق ميں كونسا فرق موجود ہے؟ اگر ہم سعادت اور كمال كے طالب ہيں تو اخلاقيات سے لاپرواہى نہيں برت سكتے ہم اخلاقى واجبات كو اس بہانے سے كہ يہ اخلاقى واجبات ہيں ترك كرديں اور اخلاقى محرمات كو اس بنا پر كہ يہ اخلاقى محرمات ہيں بجالاتے رہيں_ اگر نماز واجب ہے اور اس كا ترك كرنا حرام اور موجب
18
سزا ہے تو عہد كا ايفا بھى واجب ہے اور خلاف وعدہ حرام ہے اور اس پر بھى سزا ہوگى پس ان دونوں ميں كيا فرق ہے؟
واقعى متدين اور سعادت مند وہ انسان ہے كہ جو احكام شرعيہ اور تكاليف الہى كا پابند ہو اور اخلاقيات كا بھى پابند ہو بلكہ سعادت اور كمال معنوى اور نفسانى ميں اخلاقيات بہت زيادہ اہميت ركھتے ہيں جيسے كہ بعد ميں ذكر كريں گے_
بزرگ شناسى و خودسازي
گرچہ انسان ايك حقيقت ہے ليكن يہ مختلف جہات اور اوصاف ركھتا ہے_ انسان كے وجود كا ايك مٹى كے جوہر سے جو بے شعور ہے آغاز ہوا ہے اور پھر يہ جوہر مجرد ملكوتى تك جاپہنچتا ہے خداوند عالم قرآن مجيد ميںفرماتا ہے كہ '' خداوند وہ ہے كہ جس نے ہر چيز كو اچھا پيدا كيا ے اور انسان كو مٹى سے بنايا ہے اور اس كى نسل كو بے وقعت پانى يعنى نطفہ سے قرار ديا ہے پھر اس نطفہ كو اچھا اور معتدل بنايا ہے اور پھر اس ميں اپنى طرف منسوب روح كو قرار ديا ہے اور تمہارے لئے كان، آنكھ اور دل بنايا ہے اس كے باوجود تم پھر بھى بہت كم اس كا شكريہ ادا كرتے ہو_ (8)
انسان مختلف مراتب اور جہات ركھتا ہے ايك طرف تو وہ ايك جسم طبعى ہے اور اس جسم طبعى كے آثار ركھتا ہے دوسرى طرف وہ جسم نامى ہے كہ وہ اس كے آثار بھى ركھتا ہے اور دوسرے لحاظ سے وہ ايك حيوان ہے اور وہ حيوان كے آثار بھى ركھتا ہے ليكن بالاخرہ وہ ايك انسان ہے اور وہ انسانيت كے آثار بھى ركھتا ہے جو حيوانات ميں موجود نہيں ہيں_
لہذا انسان ايك حقيقت ہے ليكن يہ حقيقت وجود كے لحاظ سے مختلف مراتب اور درجات كى حامل ہے_ جب يہ كہتا ہے كہ ميرا وزن اور ميرى شكل و صورت تو وہ
19
اپنے جسم نامى ہونے كى خبر دے رہا ہوتا ہے اور جب وہ كہتا ہے كہ ميرى شكل و صورت تو وہ اپنے جسم نامى ہونے كى حكايت كر رہا ہوتا ہے اور جب وہ كہتا ہے كہ ميرا چلنا اور شہوت اور غضب تو وہ اپنے حيوانى درجہ كى خبر دے رہا ہوتا ہے اور جب وہ كہتا ہے كہ ميرا سوچنا اور عقل اور فكر تو وہ اپنے انسان اعلى درجہ كا پتہ دے رہا ہوتا ہے پس انسان كى ميں اور خود مختلف موجود ہيں_ ايك جسمانى ميں اور ايك ميں نباتى اور ايك ميں حيوانى اور ايك ميں انسانى ليكن ان ميں سے انسانى ميں پر ارزش اور اصالت ركھتى ہے وہ چيز كہ جس نے انسان كو انسان بنايا ہے اور تمام حيوانات پر برترى دى ہے وہ اس كى روح مجرد ملكوتى اور نفخہ الہى ہے_
خداوند عالم انسان كى خلقت كو اس طرح بيان فرماتا ہے كہ ہم نے انسان كو ٹى سے خلق كيا ہے پھر اسے نطفہ قرار ديا ہے اور اسے ايك مضبوطہ جگہ رحم مادر ميں قرار ديا ہے اور پھر نطفہ كو علقہ لو تھڑا اور پھر علقہ كو نرم گوشت بنايا ہے اور پھر نرم گوشت كو ہڈياں بنايا ہے پھر ان ہڈيوں پر گوشت سے ڈھانپا ہے_ پر اس ميں روح مجرد ملكوتى كو پھونكا ہے جس سے اسے ايك نئي مخلوق بنايا ہے_ شاباش اس كامل قادر پر جو بہترين خلق كرنے والا ہے_
انسان كى خلقت كے بارے خدائے دانا فرماتا ہے_ تبارك اللہ احسن الخالقين اسى ملكوتى روح كى وجہ سے انسان كايك ايسے مقام تك پہنچ جاتا ہے كہ خداوند عالم كى طرف سے فرشتوں كو حكم ديتا ہے كہ '' ميں نے آدم (ع) كو پيدا كيا ہے اور اس روح كو جو ميرى طرف نسبت ركھتى ہے اس ميں پھونكا ہے لہذا تم سب اس كى طرف سجدہ كرو_ (9)
اگر انسان تعظيم كا مورد قرار پايا ہے اور خدا نے اس كے بارے ميں فرمايا ہے كہ ہم نے اولاد آدم كو محترم قرار ديا ہے اور انہيں خشكى اور سمندر ميں سوار كيا ہے اور ہر قسم كى پاكيزہ اور لذيذ غذا اس كى روزى قرار دى ہے اور اپنى بہت سى مخلقو پر اسے
20
برترى دے ہے (10) تو يہ سب اسى روح ملكوتى كے واسطے سے ہے لہذا انسان اگر خود سازى يعنى اپنے آپ كو سنوارنا ہے تو اسے چاہئے كہ وہ اپنى انسانى ميں كو سنوارے اور تربيت دے نہ وہ اپنى حيوانى ميں يا جسمانى ميں كى پرورش كرے پيغمبروں كى غرض بعثت بھى يہى تھى كہ انسان كو خودسازى اورجنبہ انسانى كى پرورش ميں اس كى مدد كريں اور اسے طاقت فراہم كريں_ پيغمبر(ص) انسانوں سے فرمايا كرتے تھے كہ تم اپنے انسانى ميں كو فراموش نہ كرو اور اگر تم نے اپنے انسانى خود اور ميں كو خواہشات حيوانى پر قربانى كر ديا تو بہت بڑا نقصان تمہارے حصہ اور نصيب ميں آجائيگا_
خدا قرآن مجيد ميں فرماتا ہے '' اے پيغمبر_ ان سے كہہ دے كہ نقصان ميں وہ اشخاص ہيں جو اپنے نفس انسانى اور اپنے اہل خانہ كے نفوس كو قيامت كے دن نقصان ميں قرار ديں اور يہ بہت واضح اور كھلا ہوا نقصان ہے_ (11)
جو لوگ حيوانى زندگى كے علاوہ كسى دوسرے چيز كى سوچ نہيں كرتے در حقيقت وہى لوگ ہيں جنہوں نے انسانى شخصيت كو كھو ديا ہوا ہے كہ جس كى تلاش ميں وہ كوشش نہيں كرتے_(12)
امير المومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ''ميں اس شخص سے تعجب كرتا ہوں كہ ايك گم كى ہوئي چيز كى تلاش تو كرتا ہے جب كہ اس نے اپنے انسانى روح كو گم كيا ہوا ہے اور اس كے پيدا كرنے كے درپے نہيں ہوتا_'' اس سے بدتر اور دردناك تر كوئي نقصان نہيں ہے كہ انسان اس دنيا ميں اپنى انسانى اور واقعى اور حقيقى شخصيت كو كھو بيٹھے ايسے شخص كے لئے سوائے حيوانيت كے اور كچھ باقى نہيں رہے گا_
روح انسانى اور نفس حيواني
جو روايات اور آيات روح اور نفس انسانى كى بارے ميں وارد ہوئي ہيں وہ د و
21
قسم پر ہيں ايك قسم نفس انسانى كو ايك در بے بہا اور شريف ملكوتى كہ جو عالم ربوبى سے آيا ہے اور فضائل اور كمالات انسانى كامنشا ہے بيان كرتى ہيں اور انسان كو تاكيد كرتى ہيں كہ ايسے كمالات اور جواہر كى حفاظت اور نگاہ دارى اور تربيت اور پرورش ميں كوشش كرے اور ہوشيار رہے كہ ايسے بے بہا در كو ہاتھ سے نہ جانے دے كہ اس سے اسے بہت زياد نقصان اٹھانا پڑے گا_ نمونے كے طور پر قرآن مجيد ميں آيا ہے كہ '' اے محمد (ص) آپ سے روح كى حقيقت كا سوال كرتے ہيں ان كے جواب ميں كہہ دے كہ يہ پروردگار كے عالم سے ہے اور وہ علم جو تمہيں ديا گيا ہے وہ بہت ہى تھوڑا ہے_ (13)
اس آيت ميں روح كو ايك موجود عالم امر سے جو عالم مادہ سے بالاتر ہے قرار ديا ہے_
اميرالمومنين عليہ السلام نے روح كے بارے ميں فرمايا ہے كہ ''روح ايك در بے بہا ہے جس نے اس كى حفاظت كى اسے وہ اعلى مرتبہ تك پہنچائيگا اور جس نے اس كى حفاظت ميں كوتاہى كى يہ اسے پستى كى طرف جائيگا_ (14)
آپ نے فرمايا ہے كہ '' جس شخص نے اپنى روح كى قدر پہچانى وہ اسے پست اور فانى كاموں كے بجالانے كى طرف نہيں لے جائي گي_ (15)
آپ نے فرمايا ''جس شخص نے روح كى شرافت كو پاليا وہ اسے پست خواہشات اور باطل تمينات سے حفاظت كردے گي_ (16)
''روح جتنى شريف ہوگى اس ميں اتنى زيادہ مہربانى ہوگي_ (17)
آپ نے فرمايا كہ '' جس كا نفس شريف ہوگا وہ اسے سوال كرنے كى خوارى سے پاك كردے گا_ (18)
اس قسم كى آيات اور روايات كے بہت زيادہ نمونے موجود ہيں_ ان سے معلوم ہوتا ہے كہ نفس انسانى ايك بيش بہا قيمتى در ہے كہ جس كى حفاظت و نگاہ دارى اور تربيت كرنے ميں كوشش كرنى چاہئے_
دوسرى قسم كى روايات وہ ہيں كہ جس ميں نفس انسانى كو ايك انسان كا سخت دشمن
22
تمام برائيوں كا مبدا بتلايا گيا ہے لہذا اس سے جنگ كى جائے اور اسے سركوب كيا جائے ور نہ وہ انسان كے لئے بدبختى اور شقاوت كے ا سباب مہيا كردے گا_ نمونے كے طور پر جيسے قرآن مجيد ميں آيا ہے كہ '' جو شخص مقام رب سے ڈرتا ہو اور اپنے نفس كو خواہشات پر قابو پاتا ہو اس كى جگہ جنت ہے_(19)
قرآن مجيد حضرت يوسف عليہ السلام سے نقل كرتا ہے كہ انہوں نے فرمايا ہے كہ '' ميں اپنے نفس كو برى قرار نہيں ديتا كيونكہ وہ ہميشہ برائيوں كى دعوت ديتا ہے مگر جب خدا رحم كرے_(20)
پيغمبر اسلام صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ '' تيرا سب سے بدترين دشمن وہ نفس ہے جو تيرے دو پہلو ميں موجود ہے_(21)
حضرت على عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ''نفس ہميشہ برائي كا حكم ديتا ہے جو شخص اسے امين قرار دے گا وہ اس سے خيانت كرے گا جس نے اس پر اعتماد كيا وہ اسے ہلاكت كى طرف لے جائيگا، جو شخص اس سے راضى ہوگا وہ اسے بدترين موارد ميں وارد كردےگا_(22)
نيز آپ نے فرمايا '' نفس پر اطمينان كرنا شيطان كے لئے بہترين اور مضبوط موقعہ ہوا كرتا ہے_(23)
امام سجاد عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ''اے پروردگار كہ ميں آپ سے نفس كى شكايت كرتا جو ہميشہ برائي كى دعوت ديتا ہے اور گناہ اور خطاء كى طرف جلدى كرتا ہے او ربرائي سے علاقمند ہے اور وہ اپنے آپ كو تيرے غضب كا مورد قرار ديتا ہے اور مجھے ہلاكت كے راستوں كى طرف كھينچتا ہے_(24)
اس قسم كى آيات اور روايات بہت زيادہ ہيں كہ جن سے مستفاد ہوتا ہے كہ نفس ايك ايسا موجود ہے جو شرير اور برائيوں كا سرچشمہ ہے لہذا چاہئے كہ جہاد كر كے اس كى كوشش كو سركوب كيا جائے_
23
ممكن ہے كہ بعض لوگ تصور كريں كہ ان دو قسم كى آيات اور روايات ميں تعارض اور تزاحم واقع ہے يا خيال كريں كہ انسان ميں دو نفس اور روح ہيں كہ ايك اچھائيوں كامنبع ہے اور دوسرا نفس حيوانى ہے جو برائيوں كا سرچشمہ ہے ليكن يہ دونوں تصور اور خيال غلط ہيں_ پہلے تو ان دو قسم ميں تعارض ہى موجود نہيں ہے دوسرے علوم ميں ثابت ہوچكا ہے كہ انسان كى ايك حقيقت ہے اور ايك روح ہے اور اس طرح نہيں ہے كہ انسانيت اور حيوانيت انسان ميں ايك دوسرے سے جدا اور عليحدہ ہوں_
بلكہ نفس انسانى ميں دو مرتبے اور دو وجودى حيثيت ہيں نيچے اور پست مرتبے ميں وہ ايك حيوان ہے كہ جس ميں حيوان كے تمام آثار اور خواص موجود ہيں اور ايك اعلى مرتبہ ہے كہ جس ميں وہ ايك انسان ہے اور وہ نفخہ الہى اور عالم ملكوت سے آيا ہے_
جب يہ كہا گيا ہے كہ نفس شريف اور قيمتى اور اچھائيوں كا مبدا ہے اس كے بڑھانے اور پرورش اور تربيت ميں كوشش كرنى چاہئے يہ اس كے اعلى مرتبے كى طرف اشارہ ہے اور جب يہ كہا گيا ہے كہ نفس تيرا دشمن ہے اس پر اعتماد نہ كرو تجھے ہلاكت ميں ڈال دے گا اور اسے جہاد اور كوشش كر كے قابو ميں ركھ يہ اس كے پست مرتبے كى طرف اشارہ ہے يعنى اس كى حيوانيت كو بتلايا گيا ہے_ جب كہا جاتا ہے كہ نفس كى تربيت اور پرورش كر اس سے مراد انسانى مرتبہ ہوتا ہے اور جب كہا جاتا ہے كہ اس كو سركوب اور مغلوب كر دے تو اس سے مقصود اس كا پست حيوانى مرتبہ ہوتا ہے_
ان دو مرتبوں اور دو حيثيتوں اور دو وجودوں ميں ہميشہ كشمكش اور جنگ رہتى ہے_ حيوانى مرتبہ كى ہميشہ كوشش رہتى ہے كہ اپنى خواہشات اور تمينات كو پورا كرنے ميں لگا رہے اور قرب الہى اور ترقى اور تكامل سے نفس انسانى كو روكے ركھے اور اسے اپنا غلام بنائے ركھے اس كے برعكس نفس انسانى اور مرتبہ عالى وجود انسانى ہميشہ كوشش ميں رہتا ہے كہ كمالات انسانى كے اعلى مراتب طے كرے اور قرب الہى كى مقام پر فائز
24
ہوجائے اس مقام تك پہنچنے كے لئے وہ خواہشات اور تمايلات حيوانى كو قابو ميں كرتا ہے اور اسے اپنا نوكر اور غلام بنا ليا ہے اس كشمكش اورجنگ ميں ان دو سے كون دوسرے پر غلبہ حاصل كرتا ہے اگر روح انسان اور ملكوتى نے غلبہ حاصل كر ليا تو پھر انسانى اقدار زندہ ہوجائيں گى اور انسان قرب الہى كے بلند مرتبے اور قرب الہى تك سير و سلوك كر تا جائيگا اور اگر روح حيوانى اور حيثيت بہيمى نے غلبہ حاصل كر ليا تو پھر عقل كا چراغ بچھ جائيگا اور وہ اسے گمراہى اور ضلالت كى وادى ميں دھكيل دے گا اسى لئے پيغمبر آئے ہيں كہ انسان كو اس مقدس جہاد اورجنگ ميں حتمى اور يقينى مدد ميں_
|