چوتھا سبق:
(پيغمبر اكرم (ص) كى مہربانياں)
محبت اور مہربانى پيغمبر اكرم (ص) كا وہ اخلاقى اصول تھا جوآپ (ص) كے معاشرتى معاملات ميں ظاہر ہوتا تھا_آپ(ص) كے رحم و عطوفت كا داءرہ اتنا وسيع تھا كہ تمام لوگوں كو اس سے فيض پہنچتارہتا تھا گھر كے نزديك ترين افرادسے لے كر اصحاب باوفا تك نيز بچے' يتيم ' گناہگار' گمراہ اور دشمنوں كے قيدى افراد تك آپ(ص) كى رحمت كے سايہ ميں آجاتے تھے يہ رحمت الہى كا پرتو تھاجو آپ(ص) كے وجود مقدس ميں تجلى كيے ہوئے تھا_
''فبما رحمة من اللہ لنت لہم'' (1)
رحمت خدا نے آپ (ص) كو مہربان بناديا _
گھر والوں سے محبت و مہرباني
جب گھر كا ماحول پيار و محبت اور لطف و عطوفت سے سرشار ہوتاہے تو وہ مستحكم ہوكر
--------------------------------------------------------------------------------
1) (آل عمران 159/) _
بافضيلت نسل كے ارتقاء كا مركز بن جاتاہے_رسول خدا (ص) گھر كے اندر محبت و مہربانى كا خاص اہتمام فرماتے تھے ' گھر كے اندر آپ (ص) اپنے ہاتھوں سے كپڑے سيتے ' دروازہ كھولتے بھيڑ اور اونٹنى كا دودھ دوہتے جب كبھى آ پكا خادم تھك جاتا تو خودہى جو ياگيہوں سے آٹا تيار كرليتے' رات كو سوتے وقت وضو كا پانى اپنے پاس ركھ كر سوتے' گوشت كو ٹكڑے ٹكڑے كرنے كا كام خود انجام ديتے اور اپنے خاندان كى مشكلوں ميں ان كى مدد كرتے(1)
اسى وجہ سے آپ (ص) نے فرمايا :
''خير كم خير كم لاہلہ و انا خيركم لاہلى (2) يا 'خياركم ' خير كم لنساءہ و انا خير لكم لنسائي'' (3)
يعنى تم ميں سے بہترين وہ شخص ہے جو اپنے اہل كے ساتھ اچھا سلوك كرے اور ميں تم سے اپنے اہل كے ساتھ اچھا سلوك كرنے ميں سب سے بہتر ہوں يا يہ كہ تم ميں سے بہترين وہ شخص ہے جو اپنى عورتوں سے اچھا سلوك كرے اور ميں تم سے اپنى عورتوں سے اچھا سلوك كرنے ميں سب سے بہتر ہوں_
خدمتكار كے ساتھ مہرباني
اپنے ماتحت افراد اور خدمتگاروں كے ساتھ آپ (ص) كا محبت آميز سلوك آپ(ص) كى مہربانى كا
--------------------------------------------------------------------------------
1) (سنن النبى ص 73)_
2) (مكارم الاخلاقى ص 216)_
3) (محجة البيضاء ج3 ص98)_
ايك دوسرا رخ ہے ''انس بن مالك'' كہتے ہيں كہ : '' ميںنے دس سال تك حضرت (ص) كى خدمت كى ليكن آپ (ص) نے مجھ سے كلمہ '' اف'' تك نہيں فرمايا_ اور يہ بھى كبھى نہيں كہا كہ تم نے فلاں كام كيوں كيا يا فلاں كام كيوں نہيں كيا _ انس كہتے ہيں كہ :آنحضرت (ص) ايك شربت سے افطار فرماتے تھے اور سحر ميں دوسرا شربت نوش فرماتے تھے اور كبھى تو ايسا ہوتا كہ افطار اور سحر كيلئے ايك مشروب سے زيادہ اور كوئي چيز نہيں ہوتى تھى وہ مشروب يا تو دودھ ہوتا تھا يا پھرپانى ميں بھيگى ہوئي روٹى ' ايك رات ميں نے مشروب تيار كرليا حضرت (ص) كے آنے ميں دير ہوئي تو ميں نے سوچا كہ اصحاب ميں سے كسى نے آپ (ص) كى دعوت كردى ہوگي' يہ سوچ كر ميں وہ مشروب پى گيا' تھوڑى دير كے بعد رسول خدا (ص) تشريف لائے ميں نے ايك صحابى سے پوچھا كہ :حضور(ص) نے افطار كرليا؟كيا كسى نے آپ (ص) كى دعوت كى تھى ؟ انھوں نے كہا : نہيں ' اس رات ميں صبح تك غم و اندوہ ميں ايسا مبتلا رہا كہ خدا ہى جانتا ہے اسلئے كہ ہر آن ميں مجھے يہ كھٹكا لگا رہا كہ كہيں حضرت (ص) وہ مشروب مانگ نہ ليں اگر آپ(ص) مانگ ليں گے تو ميں كہاں سے لاوں گا يہاں تك كہ صبح ہوگئي حضرت نے روزہ ركھ ليا ليكن اس كے بعد آپ (ص) نے اس مشروب كے بارے ميں مجھ سے كبھى كچھ نہيں پوچھا اور اسكا كبھى كوئي ذكر نہيں فرمايا:(1)
--------------------------------------------------------------------------------
1) (منتھى الامال ج ص18 ،مطبوعہ كتابفروشى علميہ اسلاميہ)_
امام زين العابدين(ع) كا خادم
امام زين العابدين (ع) نے اپنے غلام كو دو مرتبہ آواز دى ليكن اس نے جواب نہيںديا،تيسرى بار امام (ع) نے فرمايا: كيا تم ميرى آواز نہيں سن رہے ہو؟اس نے كہا كيوں نہيں ، آپ نے فرمايا: پھر جواب كيوں نہيں ديتے؟ اس نے كہا كہ چوں كہ كوئي خوف نہيں تھا اسلئے ميں نے اپنے كو محفوظ سمجھا، امام نے فرمايا: ''خدا كى حمد ہے كہ ميرے غلام اور نوكر مجھ كو ايسا سمجھتے ہيں اور اپنے كو محفوظ محسوس كرتے ہيں اور اپنے دل ميں ميرى طرف سے كوئي خوف محسوس نہيں كرتے'' (1)
اصحاب سے محبت
پيغمبر اكرم (ص) ملت اسلاميہ كے قاءد ہونے كے ناتے توحيد پر ايمان لانے والوں اور رسالت كے پروانوں پر خلوص و محبت كى خاص بارش كيا كرتے تھے_ آپ (ص) ہميشہ اپنے اصحاب كے حالات معلوم كرتے اور ان كى حوصلہ افزائي كيا كرتے اور ان اگر تين دن گزرے ميں كسى ايك صحابى كو نہ ديكھتے تو اسكے حالات معلوم كرتے اور اگر يہ خبر ملتى تھى كہ كوئي سفر ميں گيا ہوا ہے تو اس كے لئے دعا كرتے تھے اور اگر وہ وطن ميں ہوتو ان سے ملاقات كيلئے تشريف لے جاتے_ اگر وہ بيمار ہوتے تو ان كى عيادت كرتے تھے(2)
--------------------------------------------------------------------------------
1) (بحارالانوار ج46 ص 56)_
2) (سنن النبى ص 51)_
جابر پر مہرباني
جابر ابن عبداللہ انصارى فرماتے ہيں كہ : ميں انيس جنگوںميں رسول خدا (ص) كے ساتھ تھا ، ايك جنگ ميں جاتے وقت ميرااونٹ تھك كر بيٹھ گيا،آنحضرت (ص) تمام لوگوں كے پيچھے تھے، كمزور افراد كو قافلہ تك پہونچاتے اور ان كے لئے دعا فرماتے تھے،حضور(ص) ميرے نزديك آئے اور پوچھا : تم كون ہو؟ ميں نے كہا ميں جابر ہوں ميرے ماں باپ آپ (ص) پر فدا ہوجائيں_ آپ (ص) نے پوچھا: كيا ہوا؟ ميں نے كہا ميرا اونٹ تھك گيا ہے آپ (ص) نے مجھ سے پوچھا تمھارے پاس عصا ہے ميں نے عرض كى جى ہاں تو آپ (ص) نے عصا لے كر اونٹ كى پيٹھ پر مارا اور اٹھاكر چلتا كرديا پھر مجھ سے فرمايا : سوار ہوجاؤ جب ميں سوار ہوا تو حضرت (ص) كے اعجاز سے ميرا اونٹ آپ (ص) كے اونٹ سے آگے چل رہا تھا، اس رات پيغمبر (ص) نے 25 مرتبہ ميرے لئے استغفار فرمايا (1)
بچوں اور يتيموں پر مہرباني
بچہ پاك فطرت اور شفاف دل كا مالك ہوتاہے اس كے دل ميں ہر طرح كے بيج كے پھولنے پھلنے كى صلاحيت ہوتى ہے بچہ پر لطف و مہربانى اور اسكى صحيح تربيت اس كے اخلاقى نمو اوراندرونى استعداد كے پھلنے پھولنے ميں بنيادى كردار ادا كرتى ہے يہ بات ان يتيموں
--------------------------------------------------------------------------------
1) (حيواة القلوب ج2 ص 127)
كيلئے اور بھى زيادہ موثر ہے جو بہت زيادہ محبت اور عطوفت كے محتاج ہيں اور يہ چيز اندرونى پيچيدگيوں كے سلجھانے كيلئے اور احساس كمترى كو دور كرنے ميں بہت مہم اثر ركھتى ہے_
رسول اعظم (ص) كى زندگى ميں رحمت نے اتنى وسعت حاصل كى كہ آپ (ص) كى محبت كى گرمى نے تمام افسردہ اور بے مہرى كى ٹھنڈك ميںٹھٹھرى والوں كو اپنے دامن ميں چھپاليا تھا بچوں اور يتيموں سے آپ (ص) كا سلوك آپ (ص) كى زندگى كا درخشان پہلو ہے_
رسول مقبول (ص) كے پاس لوگ بچوں كو لاتے تھے تا كہ آپ ان كے لئے دعا كريں اور انكا نام ركھديں پيغمبر (ص) بچے كو اپنى گود ميں بٹھاتے تھے كبھى ايسا بھى ہوتا تھا كے بچہ گود نجس كرديتا تھا، جو لوگ حضرت (ص) كے پاس ہوتے تھے وہ يہ ديكھ كر چلانے لگتے تھے ليكن نبى اكرم (ص) فرماتے تھے كہ بچے كو ڈانٹ كر پيشاب كرنے سے نہ روكواسے پيشاب كرنے دو تا كہ وہ پيشاب كرلے جب دعا اور نام ركھنے كا كام ختم ہوجاتا تھا تو بچے كے وارث نہايت خوشى كے ساتھ بچے كو لے ليتے تھے ايسے موقع پر پيغمبر (ص) كے چہرہ پر كبھى ناراضگى نہيں نظرآتى تھى رسول اكرم (ص) اس كے بعد اپنا لباس پاك كرليتے تھے_(1)
--------------------------------------------------------------------------------
1) (سنن النبى ص 50)_
امام (ع) يتيموں كے باپ
حبيب ابن ثابت سے منقول ہے كہ كچھ انجير اور شہد ہمدان و حلوان سے حضرت على (ع) كيلئے لائے گئے (ہمدان و حلوان ميں انجير كے درخت بہت ہيں اور وہاںكا انجيرمشہوربھى ہے)امير المؤمنين نے لوگوںسے كہا كہ يتيم بچوں كو بلايا جائے بچے آگئے تو آپ نے ان كو اس بات كى اجازت دى كہ خود بڑھ كر شہد كے مشك سے شہد ليكر كھاليں اور اپنى انگليوں سے چاٹ ليںليكن دوسرے افراد كو آپ نے برتن ميںركھ كر اپنے ہاتھوں سے بانٹا، لوگوں نے حضرت پر اعتراض كيا كہ آپ نے يتيموں كو كيوں اجازت دے دى كہ وہ اپنى انگليوں سے مشك ميں سے چاٹ ليں اور خود كھائيں؟آپ نے فرمايا: امام يتيموں كا باپ ہوتاہے اسے چاہيئے كہ اپنے بچوںكى طرح ان كو بھى اجازت دے تا كہ وہ احساس يتيمى نہ كريں(1)
گناہگاروں پر مہرباني
حضرت محمد مصطفي (ص) باوجودى كہ ايك اہم فريضہ اور رسالت كى بڑى ذمہ دارى كے حامل تھے مگر آپ (ص) نے گنہگاروں كے ساتھ كبھى كسى متكبرانہ جابروں جيسا برتاو نہيں كيا بلكہ آپ (ص) نے ہميشہ ان كے ساتھ لطف و رحمت كا ہى سلوك كيا ، ان كى گمراہى پر ايك شفيق باپ
--------------------------------------------------------------------------------
1)(بحارالانوار ج/41ص123)_
كى طرح رنجيدہ رہے اور ان كى نجات كيلئے آخرى حد تك كوشش كرتے رہے اكثر ايسا ہوتا كہ گناہگارآپ (ص) كے پاس آتے اپنے گناہ كا اعتراف كرتے تھے ليكن آنحضرت (ص) كى كوشش يہى رہتى كہ لوگ اعتراف كرنے سے باز آجائيں تا كہ حضور ان پر حد الہى جارى كرنے كيلئے مجبور نہ ہوں اور انكا كام خدا كى وسيع رحمت كے حوالہ ہو جائے ( صدر بلاغى كى كتاب پيامبر رحمت ص 55 ،51 سے مستفادہ ہے)_
سنہ 8 ھ ميں قبيلہ غامد كى ايك عورت جسكا نام '' سبيعہ '' تھا رسول خدا (ص) كے پاس آئي اس نے كہا كہ : اے اللہ كے رسول ميں نے زنا كيا ہے آپ مجھ پر حد جارى كريں تا كہ ميں پاك ہوجاںآپ نے فرمايا : جاو توبہ كرو اور خدا سے معانى مانگ لو اس نے كہا كہ : كيا آپ مجھ كو '' ماعز ابن مالك'' (ماعز بن مالك وہ شخص تھا جو زنا كے اقرار كيلئے چند مرتبہ آپ (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوا ليكن آپ (ص) كے اسے ہر دفعہ لوٹا ديا كہ وہ اقرار سے ہاتھ كھينچ لے _(1)) كى طرح واپس كردينا چاہتے ہيں ؟ پيغمبر (ص) نے فرمايا كيا زنا سے حمل بھى ہے ؟ اس نے كہا ہاں ہے آپ نے فرمايا: وضع حمل ہوجانے دو پھر اسكو انصار ميں سے ايك شخص كے سپرد كيا تا كہ وہ اسكى سرپرستى كرے جب بچہ پيدا ہوگيا تو حضرت (ص) نے فرمايا: تيرے بچہ كو دودھ كو ن پلائيگا؟ تو جا اور جاكر اسے دودھ پلاكچھ مدت كے بعد جب اسكى دودھ بڑھائي ہوگئي تو وہ عورت اس بچہ كو گود ميں لئے ہوئے پھر آئي بچہ كے ہاتھ ميں
--------------------------------------------------------------------------------
1) فروغ كافى ج7 ص 185_
روٹى تھى اس نے پيغمبر (ص) سے پھر حد جارى كرنے كى خواہش كا اظہار كيا _ آپ (ص) نے بچہ اس سے ليكر ايك مسلمان كے حوالہ كيا اور پھر حكم ديا اسكو سنگسار كرديا جائے ، لوگ ابھى پتھر مارہى رہے تھے كہ خالد ابن وليد نے آگے بڑھ كر اس عورت كے سرپر ايك پتھر مارا پتھر كا لگنا تھا كہ خون اچھل كر خالد كے منہ پر پڑا_ خالد نے غصہ كے عالم ميں اس عورت كو برا بھلا كہا پيغمبر (ص) نے فرمايا كہ : اے خالد تم اسكو برے الفاظ سے ياد نہ كرو خدا كى قسم كہ جسكے قبضہ قدرت ميں ميرى جان ہے سبيعہ نے ايسى توبہ كى ہے كہ اگر '' عشار'' ايسے توبہ كرے تو خدا اس كے جرم كو بھى معاف كردے_ پھر آپ(ص) كے حكم سے لوگ اس عورت كا جسم باہر لائے اور نماز كے بعد اس كو سپرد لحد كرديا گيا (1)
رسول خدا كى عنايت اور مہربانى كا ايك يہ بھى نمونہ ہے كہ آپ(ص) نے شروع ميں اس عورت كو اقرار كرنے سے روكا اسلئے كہ چار مرتبہ اقرار كرنا اجراء حد كا موجب بنتاہے اور آخر ميں حد جارى كرتے وقت اس گنہ كار مجرم كو برا بھلا كہنے سے روكا_
اسيروں پر مہرباني
اسير ايك شكست خوردہ دشمن ہے جس كے دل كو محبت كے ذريعہ رام كيا جاسكتاہے فتح مند رقيب كيلئے اس كے دل ميں جو احساس انتقام ہے اسكو ختم كركے اسكى ہدايت كيلئے زمين
--------------------------------------------------------------------------------
1) (ناسخ التواريخ ج3 ص 179)_
ہموار كى جاسكتى ہے _ رسول خدا (ص) كے لطف و مہربانى كاايك مظہر اسيروں كے ساتھ حسن سلوك ہے _
ثمامہ ابن اثال كى اسيري
امام محمد باقر (ع) سے منقول ہے كہ كسى سريہ ميں ثمامہ ابن اثال كو گرفتار كركے حضرت رسول اكرم (ص) كے پاس لاياگيا ثمامہ اہل يمامہ كے رئيس تھے كہتے ہيں كہ ان كا فيصلہ اہل طئي اور يمن والوں كے درميان ميں بھى مانا جاتا تھا ، رسول خدا (ص) نے آپكوپہچان ليا اور ان كے ساتھ اچھے سلوك كا حكم دياآنحضرت (ص) روزانہ اپنے گھر سے ان كے لئے كھانا بھيجتے ، خود ان كے پاس جاتے اور ان كو اسلام كى دعوت ديتے، ايك دن آپ (ص) نے ان سے فرمايا ميں تم كو تين چيزوں كے منتخب كرنے كا اختيار ديتاہوں، پہلى بات تو يہ ہے كہ تم كو قتل كردوں، ثمامہ نے كہا كہ اگر آپ ايسا كريں گے تو آپ ايك بہت بڑى شخصيت كو قتل كرڈاليں گے_حضرت نے فرمايادوسرى بات يہ ہے كہ اپنے بدلے كچھ مال فديہ كے طور پر تم ادا كردو اور آزاد ہوجاؤ_ ثمامہ نے كہا اگر ايسا ہوگا تو ميرے لئے بہت زيادہ مال ادا كرنا پڑيگااور ميرى قيمت بہت زيادہ ہوگى (يعنى ميرى قوم كو ميرى آزادى كيلئے بہت مال دينا پڑيگا) كيونكہ ميں ايك بڑى شخصيت كا مالك ہوں، رسول اكرم (ص) نے فرمايا تيسري
--------------------------------------------------------------------------------
1) ( سيرت رسول اللہ (ص) رفيع الدين الحق ابن محمد ہمدانى ج2 ص1092)_
صورت يہ ہے ميں تجھ پر احسان كروں اور تجھے آزاد كردوں ، ثمامہ نے كہا اگر آپ (ص) ايسا كريں گے تو مجھے شكرگزار پائيں گے پھر پيغمبر (ص) كے حكم سے ثمامہ كو آزاد كرديا گيا _ ثمامہ نے ايمان لانے كے بعد كہا : خدا كى قسم جب ميں نے آپكو ديكھاتھا تو سمجھ تھا كہ آپ پيغمبر (ص) ہيں اور اسوقت ميں آپ (ص) سے زيادہ كسى كو دشمن نہيں ركھتا تھا اور اب آپ (ص) ميرے نزديك سب سے زيادہ محبوب ہيں _(1)
دوسروں كے حقوق كا احترام
كسى بھى معاشرہ ميں بنيادى بات يہ ہے كہ حقوق كى رعايت كى جائے اور ان كو پامال ہونے سے بچايا جائے پيغمبر اكرم (ص) حق و عدالت قاءم كرنے كيلئے اس دنيا ميں تشريف لائے تھے آپ (ص) كے سماجى كردار ميں ايك بات يہ بھى تھى كہ آپ (ص) دوسروں كے حقوق كا حدو درجہ احترام كيا كرتے تھے_
حضرت موسى بن جعفر (ع) سے منقول ہے كہرسول (ص) پر ايك يہودى كے چند دينار قرض تھے، ايك دن اس نے اپنے قرض كا مطالبہ كيا حضرت (ص) نے فرمايا: پيسے نہيں ہيں ليكن اس نے يہ عذر قبول نہيں كيا ، آپ (ص) نے فرمايا: ہم يہيں بيٹھ جاتے ہيں ، پھر يہودى بھى وہيں بيٹھ گيا ، يہاں تك كہ ظہر ، عصر ، مغرب، عشاء اور صبح كى نماز وہيں ادا كى اصحاب پيغمبر (ص) نے يہودى كو ڈانٹا كہ تو نے رسول خدا (ص) كو كيوں بٹھاركھاہے ؟ ليكن آپ (ص) نے منع كيا اور
فرمايا : كہ خدا نے ہميں اسلئے مبعوث كيا ہے كہ جو امن و امان ميں ہے اس پر يا اس كے علاوہ اور كسى پر ستم كيا جائے، جب صبح ہوئي اور سورج ذرا بلند ہوا تو يہودى نے كہا : اشہد ان لا الہ الا اللہ و اشہد ان محمدا عبدہ و رسولہ پھر اس نے اپنا آدھا مال راہ خدا ميں دےديا اور كہا ميں يہ ديكھنا چاہتا تھا كہ پيغمبر آخر الزمان (ص) كيلئے جو صفتيں بيان ہوئي ہيں وہ آپ (ص) ميں ہيں يا نہيں ہيں ، توريت ميں بيان ہوا ہے كہ ان كى جائے پيدائشے مكہ، محل ہجرت مدينہ ہے ، وہ تندخو نہيں ہوں گے بلند آواز سے اور چيخ كرباتيںنہيں كريں گے اپنى زبان پر فحش باتيں جارى نہيں كريں گے _ ميں نے ديكھا كہ يہ اوصاف آپ (ص) ميں موجود ہيں اور اب يہ آدھا مال آپ (ص) كے اختيار ميں ہے_(1)
بيت المال كى حفاظت
رسول خدا (ص) حاكم اسلام ہونے كى حيثيت سے مسلمانوں كے بيت المال كى حفاظت كى عظيم ذمہ دارى كا بوجھ اپنے كاندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے اسلئے كہ بيت المال معاشرہ كے تمام افراد كے حقوق سے متعلق ہے _ غير مناسب مصرف سے روكنا لازمى ہے اس سلسلہ ميں آنحضرت(ص) كا رويہ بھى بڑا سبق آموز ہے _
سنہ 9 ھ ميں '' ابن الليثہ'' نامى ايك شخص مسلمانوں كى ايك جماعت ميں زكوة وصول
--------------------------------------------------------------------------------
1) (حيوة القلوب ج2 ص 117)_
كرنے كيلئے بھيجا گيا وہ زكوة وصول كركے رسول خدا (ص) كے پاس آيا اس نے كہا : يہ زكواة ہے اور يہ ہديہ جو مجھ كو ديا گيا ہے نبى اكرم (ص) منبر پر تشريف لے گئے اور حمد خدا كے بعد آپ(ص) نے فرمايا: ہم نے كچھ لوگوں كو اس كام كے انجام دينے كيلئے بھيجا جس كام كا خدا نے مجھ كو حاكم بنايا ہے ، ان ميں سے ايك شخص ميرے پاس آكر كہتاہے يہ زكوة ہے اور يہ ہديہ ہے جو مجھے ديا گيا ہے _ ميں پوچھتاہوں وہ اپنے گھر ہى ميں كيوں نہيں بيٹھا رہتا تا كہ ديكھ لے كہ اس كيلئے كوئي ہديہ آرہا ہے يا نہيں ؟ اس خدا كى قسم جس كے قبضہ قدرت ميں ميرى جان ہے اگر كوئي شخص زكوة كا مال ليگا تو وہ قيامت كے دن اس كى گردن ميں ڈال ديا جائيگا_ وہ مال اگر اونٹ ہے تو اسكى گردن ميں اونٹ ہوگا اور اگر گائے يا گوسفند ہے تو يہى اسكى گردن ميں ہوں گے پھر آپ (ص) نے دو مرتبہ فرمايا خدايا ميںنے پيغام پہنچاديا (1)
حضرت على (ع) اور بيت المال
جو حضرات عمومى اموال كو خرچ كرنے ميں اسلامى اصولوں كى رعايت نہيں كرتے تھے ان كے ساتھ على كا وہى برتاؤ تھا جو رسول خدا (ص) كا تھا اس سلسلہ كا ايك نمونہ پيش خدمت ہے _عبداللہ( يا عبيداللہ) ابن عباس كو ايك خط ميں حضرت تحرير فرماتے ہيں كہ '' خدا سے ڈرو اور لوگوں كے اس مال كو جو تم نے لے ليا ہے واپس كردو اگر تم يہ كام نہيں كروگے تو خدا
--------------------------------------------------------------------------------
1) ( ناسخ التواريخ ج2 ص 159)_
مجھ كو تم پر قوى بنائيگا اور ميں تم پر دسترسى حاصل كركے تم كو تمہارے كيفر كردار تك پہونچانے ميں خدا كے نزديك معذور ہونگا اور تم كو اس تلوار سے قتل كردوں گا جس سے ميں نے جسكو بھى قتل كيا ہے وہ جہنم ميں داخل ہواہے خدا كى قسم اگر حسن و حسين (عليہما السلام) بھى ايسا كام كرتے جيسا تم نے كيا ہے تو ان سے بھى صلح و موافقت نہيں كرسكتا تھا اور وہ ميرے ذريعہ اپنى خواہش تك نہيں پہونچ سكتے تھا يہاں تك كہ ميں ان سے حق لے لوں اور جو باطل ان كے ستم سے واقع ہوا ہو اسكو دور كردوں '' (1)
بے نيازى كا جذبہ پيدا كرنا
ضرورت مندوں كى ضرورت پورى كرنا اور ان كى مشكلات حل كرنا پيغمبر (ص) كے عملى منصوبوں كا جزء اور اخلاقى خصوصيات كا حصہ تھا پيغمبر (ص) نے كبھى كسى ساءل كے سوال كو رد نہيں كيا(2) ليكن خاص موقع پر افراد كى عمومى مصلحت كے مطابق يا كبھى معاشرہ كى عمومى مصلحت كے تقاضہ كى بناپر رسول خدا (ص) اور اءمہ معصومين (عليہم السلام) نے ايسا رويہ اسلئے اختيار كيا تا لوگوں كے اندر '' بے نيازى كا حوصلہ '' پيدا ہوجائے_
--------------------------------------------------------------------------------
1) (نہج البلاغہ فيض مكتوب نمبر 41 / ص 958)_
2) (سنن النبى ص 84)_
مدد كى درخواست
رسول خدا (ص) كے ايك صحابى فقر و فاقہ سے عاجز آچكے تھے اپنى بيوى كى تجويز پرحضور (ص) كى خدمت ميں پہنچے تا كہ مدد كى درخواست كريں ابھى وہ اپنى ضرورت كو بيان بھى نہيں كرپائے تھے كہ رسول خدا (ص) نے فرمايا: اگر كوئي مجھ سے مدد مانگے تو ميں اسكى مدد كروں گا ليكن اگر كوئي بے نيازى كا ثبوت دے تو خدا اسكو بے نياز بناديگا، اس صحابى نے اپنے دل ميں كہا كہ يہ اشارہ ميرى ہى طرف ہے لہذا وہ واپس گھر لوٹ گئے اور اپنى بيوى سے ماجرا بيان كيا _ دوسرے دن پھر غربت كى شدت كى بناپررسول (ص) كى خدمت ميں وہى مدعا لے كر حاضر ہوئے مگر دوسرے دن بھى وہى جملہ سنا اور گھر لوٹ آئے،جب تيسرى بار رسول اكرم (ص) سے پھر وہى جملہ سنا تواپنى مشكل كو حل كرنے كا راستہ پاگئے، انہوں نے صحرا ميں جاكر لكڑياں جمع كرنے كا ارادہ كيا تا كہ اسكو بيچ كر رزق حاصل كريں كسى سے عاريت ايك كلہاڑى مانگ لائے ، پہاڑ پر چلے گئے اور وہاں سے كچھ لكڑياں كاٹ كر فروخت كرديں پھر روزانہ كا يہى معمول بن گيا ، رفتہ رفتہ وہ ا پنے لئے كلہاڑى ، باربردار جانور اور سارے ضرورى سامان خريد لائے پھر ايك دن ايسا بھى آيا كہ دولت مند بن گئے بہت سے غلام خريد لئے، چنانچہ ايك روز پيغمبر (ص) كى خدمت ميں پہنچ كر اپنا سارا واقعہ بيان كيا_ آپ (ص) نے فرمايا : كيا ميں نے تم سے نہيں كہا تھا كہ جو مجھ سے مانگے كا ميں اسكى مدد كرونگا ليكن اگر بے نيازى اختيار كريگا تو خدا اسكو بے نياز كرديگا _(1)
--------------------------------------------------------------------------------
1)( اصول كافى ج2 ص 112 باب القناع)_
بے نياز اور ہٹے كٹے آدمى كيلئے صدقہ حلال نہيں
ايك شخص پيغمبر(ص) كے پاس آيا اس نے كہا '' دو دن ہوگئے ہيں ميں نے كھانا نہيں كھايا'' حضرت نے فرمايا: بازار جاو اور اپنے لئے روزى تلاش كرو دوسرے دن وہ پيغمبر (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوكر كہنے لگا كل ميں بازار گيا تھا مگر وہاں كچھ نہيں ملاكل رات بھوكا ہى سوگيا _ حضرت (ص) نے فرمايا : '' عليك بالسوق'' بازار جاؤ تيسرے دن بھى جب اس نے يہى جواب سنا تو اٹھ كر بازار كى طرف گيا ، وہاں ايك قافلہ آيا ہوا تھا اس شخص نے سامان فروخت كرنے ميں ان كى مدد كى آخر ميں انہوں نے نفع ميں سے كچھ حصہ اسكو ديديا دوسرى بار وہ پھر رسول اكرم كى خدمت ميں آيا اور اس نے كہا كہ بازار ميں مجھے كچھ بھى نہيں ملا حضرت (ص) نے فرمايا : فلان قافلہ سے تجھ كچھ نہيں ملا ؟ اس نے كہا نہيں حضرت نے فرمايا: كيوں تم كو ان لوگوں نے كچھ نہيں ديا ؟ اس شخص نے كہا ہاں ديا ، آپ (ص) نے فرمايا پھر تو نے كيوں جھوٹ بولا؟ اس شخص نے كہا آپ (ص) سچ فرماتے ہيں ميں ديكھنا چاہتا تھاكہ آپ لوگوں كے اعمال سے باخبرہيں يا نہيں ؟ اور ميں يہ چاہتا تھا كہ آپ (ص) سے بھى كچھ حاصل ہوجائے_ رسول خدا (ص) نے فرمايا تو نے ٹھيك كہا، جو شخص بے نيازى سے كام ليگا خدا اسكو بے نياز كرديگا اور جو اپنے اوپر سوال كا ايك دروازہ كھوليگا خدا فقر كے ستر (70) دروازے اس كے لئے كھول ديگا ايسے دروازے جو پھر بند ہونے كے قابل نہ ہوں گے ، اس كے بعد آپ (ص) نے فرمايا : جو بے نياز ہے اسكو صدقہ دينا حلال نہيں ہے اور اسے بھى
صدقہ نہيں دينا چاہئے جو صحيح و سالم اعضاء كا مالك ہو اور اپنى ضرورت پورى كرسكتاہے (1)
ايك دوسرے كى مدد كرنا
حضور اكرم (ص) ايك ايسے رہبر تھے جو خود انسان تھے، انہيں كے درميان پيدا ہوئے تھے، آپ (ص) امت سے جدا نہيں تھے كہ اپنے پيروكاروں كو رنج و الم ميں چھوڑ ديں اور خود آرام و آسائشے كى زندگى گزاريں بلكہ ہميشہ آپ (ص) ہر ميدان ميں خود آگے رہے خوشى اور غم ميں سب كے شريك اور سعى و كشش ميں دوسروں كے دوش بدوش رہتے اور دشواريوں ميں جان كى بازى لگاديتے تھے_ ابن عباس سے روايت ہے كہ رسول خدا (ص) نے اپنى زندگى كے آخرى دنوں ميں جب آپ (ص) بستر علالت پر تھے، حضرت بلال كو بلايا، پھر مسجد ميں تشريف لے گئے اور حمد و ثنائے الہى كے بعد فرمايا: اے ميرے اصحاب ميں تمہارے واسطے كيسا پيغمبر تھا؟ كيا ميں نے تمہارے ساتھ جہاد نہيں كيا ؟ كيا ميرے دانت نہيں ٹوٹے ؟ كيا ميرا چہرہ غبار آلود نہيں ہوا؟ كيا ميرا چہرہ لہولہان نہيں ہوا يہاں تك كہ ميرى داڑى خون سے رنگين ہوگئي ؟ كيا ميں نے اپنى قوم كے نادانوں كے ساتھ حد درجہ تحمل اور بردبارى كا مظاہرہ نہيں كيا ؟ كيا ميں نے اپنے پيٹ پر پتھر نہيں باندھے؟ اصحاب نے كہا : بے شك يا
رسول اللہ آپ بڑے صابر رہے اور برے كاموں سے منع كرتے رہے لہذا خدا آپ كو
--------------------------------------------------------------------------------
1) (بحارالانوار ج18 ص 115 ط بيروت)_
بہترين جزادے ، حضرت (ص) نے فرمايا: خدا تم كو بھى جزائے خير عنايت فرمائے (1)
حضرت على (ع) سے منقول ہے : ميں خندق كھودنے ميںآنحضرت (ص) كے ساتھ تھا حضرت فاطمہ (سلام اللہ عليہا) كچھ روٹياں ليكر آئيں ، رسول خدا (ص) نے فرمايا يہ كيا ہے ؟ جناب فاطمہ نے عرض كيا كچھ روٹياں ميں نے حسن و حسين كيلئے پكائي تھيں ان ميں سے كچھ آپ كيلئے لائي ہوں _ حضرت (ص) نے فرمايا: تين دن سے تيرے باپ نے كچھ نہيں كھايا ہے تين دن كے بعد آج پہلى بار ميں كھانا كھارہاہوں_
خندق كھودنے ميں رسول اكرم (ص) دوسرے مسلمانوں كے ساتھ شريك ہيں اور انہيں كى طرح بھوك كى سختى بھى برداشت كررہے ہيں _
دشمنوں كے ساتھ آپكا برتاو
جنگ كے وقت آپ (ص) كى عملى سيرت اور سپاہيوں كو جنگ كيلئے روانہ كرتے وقت اور دشمن سے مقابلہ كے وقت كى سارى باتيں آپ (ص) كى بلندى روح اور وحى الہى سے ماخوذ ہونے كا پتہ ديتى تھيںنيز وہ باتيں بڑى سبق آموز ہيں_
امام جعفر صادق (ع) سے منقول ہے كہ پيغمبر اكرم (ص) جب چاہتے تھے كہ لشكر كو روانہ فرمائيں تو سپاہيوں كو اپنے پاس بلاكر نصيحت كرتے اور فرماتے تھے: خدا كا نام ليكر روانہ ہو
--------------------------------------------------------------------------------
1) (بحارالانوار ج22 / ص508)_
2) ( حيات القلوب ج 2 ص 119)_
اور اس سے ثابت قدم رہنے كى دعا كرو اللہ كيلئے جہاد كرو اے لوگو امت رسول خدا (ص) كے ساتھ مكر نہ كرنا، مال غنيمت ميں چورى نہ كرنا ، كفار كو مثلہ نہ كرنا ، (ا ن كو قتل كرنے كے بعد ان كے كان ناك اور دوسرے اعضاء كو نہ كاٹنا) بوڑھوں بچوں اور عورتوں كو قتل نہ كرنا ، جب راہب اپنے غاروں يا عبادتگاہوں ميں ہيں ان كو قتل نہ كرنا، درختوں كو جڑ سے نہ اكھاڑنا، مگر مجبورى كى حالت ميں ، نخلستانوں كو آگ نہ لگادينا، يا انہيں پانى ميں عرق نہ كرنا، ميوہ دار درختوں كو نہ توڑنا، كھيتوں كو نہ جلانا، اسلئے كہ ممكن ہے تم كو ان كى ضرورت پڑجائے ، حلال جانوروں كو نابود نہ كردينا، مگر يہ كہ تمہارى غذا كيلئے ان كو ذبح كرنا ضرورى ہو جائے ، ہرگز ہرگز مشركوں كے پانى كو خراب نہ كرنا حيلہ اور خيانت سے كام نہ لينا دشمن پر شبيخون نہ مرنا_
مسلمانوں ميں سے چھوٹا يا بڑا كوئي بھى اگر مشركين كو پناہ ديدے تو اسكو پناہ حاصل ہے، يہاں تك كہ وہ كلام خدا كو سنے اور تم اس كے سامنے اسلام پيش كرو اگر اس نے قبول كيا تو وہ تمہارا دينى بھائي ہے اور اگر اس نے قبول نہيں كيا تو اسكو اس كے ہرامن ٹھكانے تك پہونچادو_
--------------------------------------------------------------------------------
1) (بحارالانوار ج19 ص179 ، 178،177)_
خلاصہ درس
1) آنحضرت (ص) كے سماجى برتاو ميں جو اخلاقى اصول نظر آتے ہيں وہ آپ (ص) كى محبت اور مہربانى كا مظہر ہيں آپ (ص) كى مہرومحبت كا سايہ اس قدر وسيع تھا كہ گنہگاروں كے سروں پر بھى تھا_
2) پيغمبر اكرم (ص) مظہر حق و عدالت تھے، دوسروں كے حقوق كا حد درجہ احترام فرماتے تھے چنانچہ آپ (ص) كے معاشرتى روابط و برتا اور اصول اخلاق ميں سے ايك چيز يہى تھي_
3)رسول خد (ص) حاكم اسلام تھے اور مسلمانوں كے بيت المال كى حفاظت كى بڑى ذمہ دارى بھى آپ (ص) ہى پر عاءد ہوتى تھى كيونكہ بيت المال ميں معاشرہ كے تمام افراد شريك ہيں اسكو بے جا خرچ ہونے سے بچانا لازمى ہے اس سلسلہ ميںآنحضرت (ص) كا رويہ بڑا سبق آموز ہے _
4 ) حاجت مندوں كى حاجتيں پورى كرنا ان كے مشكلات كو حل كرنا آپ (ص) كى سيرت اور اخلاقى خصوصيات كا جزء تھا پھر بھى خاص موقع پر افراد يا معاشرہ كى عمومى مصلحتوں كے تقاضہ كى بناپر آپ (ص) لوگوں ميں بے نيازى كا جذبہ پيدا كرنا چاہتے تھے_
5)پيغمبر اكرم (ص) ہر ميدان ميں سب سے آگے تھے لوگوں كى خوشى اور غم ميں شريك تھے دوسروں كے ساتھ كوشش ميں شامل رہتے اور مشكلات نيز سختيوں كو اپنى جان پر
جھيل جاتے تھے_
6) رسول خدا (ص) كى جنگ ميں حاضر ہوتے وقت كى سيرت عملى يا لشكر كو روانہ كرتے وقت كے احكام اور دشمنوں كے ساتھ سلوك كا جو حكم صادر فرماتے تھے ان كو ديكھنے سے آپ (ص) كى بلند روح كا اندازہ ہوتاہے اور يہ پتہ چلتاہے كہ ان تمام باتوں كا تعلق وحى الہى سے ہے _ نيز آپ (ص) كے دوسرے سبق آموز رويہ كا بھى اسى سے اندازہ ہوجاتاہے_
سوالات :
1_ اپنے اہل و عيال اور خاندان كے ساتھ نيك سلوك كرنے كے بارے ميں حضرت پيغمبر اكرم (ص) كا قول بيان فرمايئے
2_ اپنے ماتحتوں كے ساتھ رسول خدا (ص) كا كيا سلوك تھا اسكا ايك نمونہ پيش كيجئے؟
3_ اسيروں اور گناہ گاروں كےساتھ آپ (ص) كا كيا سلوك تھا؟ اختصار سے بيان فرمايئے
4 _ بيت المال كے سلسلہ ميں رسول خدا (ص) كا كيا رويہ تھا؟
5 _ حاجت مندوں كے ساتھ آپ (ص) كا كيا سلوك تھا تفصيل كے ساتھ تحرير فرمايئے
6 _جنگوں (غزوات و سرايا) ميں رسول اكرم (ص) كى كيا سيرت رہى ہے ؟ تفصيل كے ساتھ بيان كيجئے؟
|