گيارہواں سبق:
(شرح صدر)
شر ح كے معنى پھيلانے اور وسعت دينے كے ہيں _ صاحب اقرب الموارد لكھتے ہيں : ''شرح الشيء اى وسعہ'' (كسى چيز كى شرح كى يعنى اسے وسعت دي)(قاموس قرآن تھوڑے سے تصرف كے ساتھ)_
شرح يعنى كھولنا اور شرح صدر يعنى باطنى وسعت اور معنوى حقاءق سمجھنے كے لئے آمادگي(1)_
شرح صدر كى تعريف ميں جو كچھ بيان ہوا ہے اس سے معلوم ہوتاہے كہ آمادگى اور مطالب كو درك كرنے كى ظرفيت و صلاحيت كا موجود ہونا شرح صدر ہے _ اب اگر يہ آمادگى الہى توفيق اور تاييد كى بناپر ہوگى تو حق كى طرف رجحان بڑھ جائے گا قرآن مجيد ميں ارشاد ہوتاہے:
''فمن يريد اللہ ان يہديہ يشرح صدرہ للاسلام''(2)
--------------------------------------------------------------------------------
1) (نثر طوبي ج2 ص 4 تھوڑے سى تبديلى كے ساتھ)_
2) (انعام آيت 125)_
'' خدا جس كى ہدايت كرنا چاہتاہے اسلام قبول كرنے كے لئے اس كا سينہ كشادہ كر ديتاہے''
خدا سے دورى كى وجہ سے انسان ميں كفر اور باطل كو قبول كرنے كى آمادگى پيدا ہوجاتى ہے يہ بھى شرح صدر ہے ليكن اس كو كفر كے لئے شرح صدر كہتے ہيں : قرآن مجيد ميں ارشاد ہوتاہے:
''لكن من شرح بالكفر صدر فعليہم غضب اللہ'' (1)
ليكن جن لوگوں كا سينہ كفر اختيار كرنے كے لئے كشادہ اور تيار ہے ان كے اوپر خدا كا غضب ہے اور ايسے لوگ آخرت ميں عذاب ميں مبتلا ہوں گے _
تفسير الميزان ميں علامة طباطبائي فرماتے ہيں :
'' لكن من شرح بالكفر صدرہ اى بسط صدرہ للكفر فقبلہ قبول رضى و دعاہ''(2)
كفر كے لئے شرح صدر كا مطلب يہ ہے كہ وہ كفر كو برضا و رغبت قبول كرلے_
اگر كوئي انسان حقيقت كا ادراك اور مشكلات سے چھٹكارا حاصل كرنا چاہتاہے تو اس كو سعہ صدر كا مالك ہونا چاہيے ، دريا دل ہونا چاہيے اور اس كو يہ قبول كرنا چاہيے كہ راستہ ميں مشكلات موجود ہيں جن كو برداشت كئے بغير كوئي بھى منزل مقصود تك نہيں پہنچ سكتا_
--------------------------------------------------------------------------------
1) (نحل آيت 106)_
2) (الميزان ج12 ص 354)_
وسعت قلب پيغمبر(ص)
پيغمبر اكر م (ص) جس سرزمين پر مبعوث ہوئے وہ علم و تمدن سے دور تھى ، عقاءد و افكار پر خرافات اور بت پرستى كا رواج تھا، ان كے درميان ناشاءستہ آداب و رسوم راءج تھے، پيغام حق پہنچانے كے لئے پيغمبر اكرم كو بڑے صبر سے كام لينا اور مشكلات كا كو برداشت كرنا تھا، آنحضرت نے مشكلات كا مقابلہ كيا ، سختيوں كو برداشت كيا ، اذيتوں كے سامنے پامردى سے ڈٹے ہے ليكن كبھى كبھى اتنى تكليف دہ باتيں سامنے آجاتى تھيں كہ آپ (ص) كو كہنا پڑتا تھا:
''ما اوذى احد مثل ما اوذيت فى اللہ''(1)
'' خدا كى راہ ميں كسى كو اتنى اذيت نہيں دى گئي جتنى مجھے دى گئي ہے ''
ليكن ايسى حالت ميں بھى آپ نے ان كے لئے بدعا نہيں فرمائي آپ فرماتے تھے:
''اللہم احد قومى فانہم لايعلمون''(2)
''پالنے والے ميرى قوم كو ہدايت فرمايہ ناواقف ہيں''
خداوند عالم كى طرف سے پيغمبر كو شرح صدر عطا كيا گيا تھا قرآن نے حضرت كو مخاطب كركے فرمايا:
'' الم نشرح لك صدرك'' (3)
--------------------------------------------------------------------------------
1) (ميزان الحكمة ج1 ص88)_
2) (سورہ الم نشرح آيت 1)_
3) (سورہ الم نشرح 1)_
كيا ہم نے تمہارے سينہ كو كشادہ نہيں كيا _
امير المؤمنين (ع) نے پيغمبر (ص) كى تعريف بيان كرتے ہوئے فرمايا:
آنحضرت(ص) سخاوت اور شرح صدر ميں سب سے آگے تھے_(1)
بد دعا كى جگہ دعا
كسى جنگ ميں اصحاب نے كہا كہ آپ دشمن كے لئے بد دعا كيجئے ، آپ نے فرمايا: ميں ہدايت ، مہربانى كے لئے مبعوث كيا گيا ہوں بددعا كرنے كے لئے نہيں_(2)
جب كبھى كسى نے كسى مسلمان يا كافر كے لئے بددعا كرنے كے لئے كہا تو آپ (ص) نے ہميشہ بددعا كے بجائے دعا كے لئے ہاتھ بلند فرمائے آپ (ص) نے كبھى بددعا كے لئے ہاتھ نہيں اٹھائے مگر يہ كہ يہ كام خدا كے لئے ہو، كسى بھى غلط كام پر آپ (ص) نے كبھى بھى انتقام نہيں ليا، ليكن اگر كسى نے حرمت خدا كو پامال كيا تو آپ (ص) نے اس سے ضرور انتقام ليا _(3)
ايك اعرابى كى ہدايت
صحراؤں ميں رہنے والا ايك اعرابى پيغمبر كے پاس پہنچا اس نے آپ (ص) سے كسى چيز كا
--------------------------------------------------------------------------------
1) (محجة البيضاء ج4 ص 149)_
2) (محجة البيضاء ج4 ص 129)_
3) (محجة البيضاء ج4 ص 129)_
سوال كيا آپ نے اس كو كچھ عطا كرنے كے بعد فرمايا:'' كيا ميں نے تمہارے ساتھ حسن سلوك كيا ؟
اس عرب نے كہا : ' ' نہيں آپ (ص) نے ميرے ساتھ كوئي نيكى نہيں كى _ مسلمان بہت ناراض ہوئے اور انھوں نے اس كى تنبيہ كا ارادہ كيا آپ (ص) نے ان كو روكا آپ (ص) بزم سے اٹھے اور اس اعرابى كو لے كر اپنے گھر تشريف لائے اس كو كچھ اور سامان ديا پھر اس سے پوچھا كہ ميں نے تيرے ساتھ نيكى كى ؟ عرب نے كہا ہاں خدا آپ كے بال بچوں كو اچھا ركھے_
پيغمبر (ص) نے فرمايا: تم نے ابھى جو بات كہى تھى اس كى وجہ سے ميرے اصحاب ناراض ہوگئے تھے اگر تم كو يہ بات بھلى معلوم ہو تو ميرے اصحاب كے سامنے بھى چل كر وہى كہہ دو جو تم ابھى كہہ رہے تھے تا كہ ان كے دلوں ميں تمھارے خلاف جو بات ہے وہ نكل جائے _دوسرے دن جبپيغمبر(ص) مسجد ميں تشريف لائے تو آپ (ص) نے فرمايا كہ اس عرب سے ايك بات تم نے سنى تھى اس كے بعد ميں نے اس كو كچھ اور دے ديا اب ميرا خيال ہے كہ يہ راضى ہوگيا ہوگا عرب نے كہا جى ہاں ميں راضى ہوں خدا آپ (ص) كو اور آپ كے اہل و عيال كو خير سے نوازے پيغمبر (ص) نے فرمايا ايسے افراد كى مثال اس شخص كى ہے جس كا اونٹ بھاگ گيا ہو لوگوں نے اونٹ كے مالك كى مدد كے لئے اس كے پيچھے دوڑنا اور چلانا شروع كرديا ہو اونٹ ان آوازوں كو سن كر اور تيزى سے بھاگنے لگا ہو مالك نے كہا : ہو كہ آپ حضرات ہٹ جائيں مجھے اچھى طرح معلوم ہے كہ ميرا اونٹ كيسے قبضہ ميں آئے گا پھر وہ تھوڑا چارہ
اپنى مٹھى ميں ليكر آہستہ آہستہ اونٹ كے قريب آيا ہو اور چارہ دكھاتے دكھاتے اس نے اونٹ كو پكڑ ليا ہو_
اگر تم لوگوں كو ميں چھوڑ ديتا تو تم لوگ اس كو قتل كرديتے اور يہ شخص گمراہى كے عالم ميں جہنم ميں چلا جاتا_(1)
تسليم اور عبوديت
تمام اديان الہى كى بنياد اور اساس يہ ہے كہ خدا پر ايمان لايا جائے اور اس كے حكم كو بلا چون و چرا تسليم كرليا جائے ايمان اور تسليم اگر چہ دو ايسى چيزيں ہيں جن كا تعلق دل سے ہے ظاہرى طور پر يہ دكھائي نہيں ديتيں ليكن عمل اطاعت اور عبادت خدا كى منزل ميں يہ بات واضح ہوجاتى ہے اور يہ معلوم ہوجاتاہے كہ سچ اور جھوٹ كيا ہے ، صحيح اور غلط كيا ہے _
حضرت امير المؤمنين فرماتے ہيں :
''الاسلام ہو التسليم و التسليم ہو اليقين واليقين ہو التصديق والتصديق ہو الاقرار والاقرار ہو الاداء والاداء ہو العمل'' (2)
اسلام تسليم ہے تسليم يقين ہے ، يقين تصديق ہے ، تصديق اقرار ہے اقرار فرمان كوبجالانے كا نام ہے اور فرمان كو بجالانا نيك عمل ہے_
--------------------------------------------------------------------------------
1) محجة البيضاء ج4 ص 149_
2) نہج البلاغہ حكمت 125 ص 265_
رسول اكرم (ص) جو اسلام كے مؤسس اور پہلے مسلمان ہيں ، قرآن كريم آپ كے بارے ميں فرماتاہے:
''و امرت ان اكون اول المسلمين ''(1)
يعنى مجھے حكم ديا گيا ہے كہ ميں پہلا مسلمان ہوں_
خداوند عالم كى ذات مقدس كے سامنے آپ (ص) تسليم محض كى صفت سے متصف تھے آپ (ص) عذاب و عقاب خدا سے محفوظ تھے ليكن پھر بھى آپ (ص) كے بارے ميں ارشاد ہوتاہے :
''ليغفر اللہ ما تقدم من ذنبك و ما تاخر''(2)
خدا نے آپ (ص) كى گذشتہ اور آءندہ باتوں كو بخش ديا ، آپ نے كبھى بھى عبادت خدا سے ہاتھ نہيں اٹھا يا اور اتنى عبادت كى كہ سب حيرت ميں پڑگئے_
ہم يہاں آپ كى كچھ عبادات كا ذكر كريں گے_
پيغمبر كى نماز
امام زين العابدين (ع) فرماتے ہيں :
''ان جدى رسول اللہ قد غفر اللہ لہ ما تقدم من ذنبہ و ما تاخر فلم يدع الاجتہاد لہ و تعبد_ بابى و امى حتى انتفخ الساق و ورم القدم و
--------------------------------------------------------------------------------
1) (سوہ زمر 12)_
2) (فتح آيت 2)_
قيل لہ اتفعل ہذا و قد غفر اللہ لك ما تقدم من ذنبك و ما تاخر؟ قال افلا اكون عبداً شكوراً'' (1)
اللہ تعالي نے ميرے رسول خدا (ص) كے گذشتہ اور آءندہ دونوں الزامات كو معاف كرديا تھا_ ليكن اس كے باوجود آپ نے سعى و عبادت كو ترك نہيں فرمايا _ ميرے ماں باپ آپ پر فدا ہوجائيں _آپ اس طرح عبادت كرتے تھے كہ آپ (ص) كے پيروں ميں ورم آجاتا تھا ، لوگوں نے كہا كہ آپ(ص) كيوں اتنى زحمت كرتے ہيں خدا نے تو آپ (ص) كے گذشتہ اور آءندہ دونوں الزامات كو معاف كرديا ہے تو آپ(ص) نے فرمايا كہ كيا ميں خدا كا شكر گذار بندہ نہ رہوں ؟
امام زين العابدين فرماتے ہيں :
''و كان رسول اللہ ايقوم على اطراف اصابع رجليہ ما نزل اللہ سبحانہ طہ ما انزلنا عليك القرآن لتشفي''(2)
پيغمبر اكر م (ص) نماز كے لئے اتنا زيادہ قيام فرماتے تھے كہ خدا نے آيہ طہ ما انزلنا عليك القرآن لتشقى نازل كي_
يعنى ہم نے آپ پر قرآن اس لئے نہيں نازل كيا كہ آپ (ص) اپنے كو مشقت ميں ڈالديں_
--------------------------------------------------------------------------------
1) (بحارالانوار ج16 ص 288 طبع بيروت)_
2) (بحار الانوار ج16 ص 264 طبع بيروت)_
پيغمبر كى دعا
ايك رات رسول خدا ام سلمہ كے گھر پر تشريف فرماتھے _ جب تھوڑى رات گزرى تو جناب ام سلمہ نے ديكھا كہ آپ (ص) بستر پر موجود نہيں ہيں اٹھ كر تلاش كرنا شروع كيا تو پتہ چلا كہ آپ (ص) كمرہ كے ايك كو نہ ميں كھڑے ہيں اور آنكھوں سے آنسو جارى ہيں اور خدا كى بارگاہ ميں ہاتھوں كو بلند كركے دعا كررہے ہيں_
''اللہم لا تنزع منى صالح ما اعطيتنى ابداً''(1)
خدايا تو نے جو نيكى مجھ كو عطا كى ہے اس كو مجھ سے جدا نہ كرنا_
''اللہم لا تشمت عدواً و لا حاسداً ابداً''
خدايا ميرے دشمنوں اور حاسدوں كو كبھى بھى خوش نہ ركھنا_
''اللہم لا ترد لى فى سوء استنقذتنى منہ ابداً''
خدايا جن برائيوں سے تو نے مجھ كو نكالاہے اس ميں پھر واپس نہ پلٹادينا_
''اللہم و لا تكلنى الى نفسى طرفة عين ابداً''
پالنے والے ايك لمحہ كے لئے بھى مجھ كو ميرے نفس كے حوالے كبھى نہ كرنا_
ام سلمہ رونے لگيںآنحضرت (ص) نے فرمايا كہ ام سلمہ تم كيوں رورہى ہو؟
جناب ام سلمہ نے كہا ميرے ماں باپ آپ پر فدا ہوجائيں ميں كيوں نہ گريہ كروں ميں ديكھ رہى ہوں كہ آپ(ص) اس بلند مقام پر فاءز كہ خدا نے گذشتہ اور آءندہ كے تمام
--------------------------------------------------------------------------------
1) (بحارالانوار ج16 ص 217 مطبوعہ بيروت)_
الزامات كو آپ (ص) كے لئے معاف كرديا _ پھر بھى آپ خدا سے اس طرح راز و نياز كى كررہے ہيں ( ہم كو تو اس سے زيادہ خدا سے ڈرنا چاہيے) آنحضرت نے فرمايا :
'' و ما يومنني؟ و انما وكل اللہ يونس بن متى الى نفسہ طرفة عين و كان منہ ما كان'' (1)
ہم كسى طرح اپنے كو محفوظ سمجھ ليں حالانكہ يونس پيغمبر (ع) كو خدا نے ايك لمحہ كے لئے ان كے نفس كے حوالے كيا تھا تو جو مصيبت ان پر آنا تھى وہ آگئي''
پيغمبر كا استغفار
اس ميں كوئي شك نہيں كہ پيغمبر نے اپنى زندگى ميں كبھى كوئي گناہ نہيں كيا ليكن اس كے باوجود آپ (ص) بہت استغفار كرتے تھے_
امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہيں :
''كان رسول اللہ يستغفر اللہ عزوجل كل يوم سبعين مرة و يتوب الى اللہ سبعين مرة'' (2)
رسول خدا ہر روز ستر مرتبہ استغفار كرتے اور ستر مرتبہ اللہ تعالي كى بارگاہ ميں توبہ كرتے تھے_
--------------------------------------------------------------------------------
1) (بحارالانوار ج16 ص 218)_
2) (بحار الانوار ج16 ص285 مطبوعہ بيروت)_
پھر امام (ع) فرماتے ہيں :
''ان رسول اللہ كان لا يقوم من مجلس و ان خفف حتى يستغفر اللہ خمس و عشرين مرة ''(1)
رسول خدا كسى چھوٹى سے چھوٹى بزم سے بھى پچيس مرتبہ استغفر اللہ كہے بغير نہيں اٹھتے تھے_
پيغمبر كا روزہ
امام جعفر صادق (ع) كا ارشاد ہے :
''كان رسول اللہ (ص) يصوم حتى يقال لا يفطر ثم صام يوما ً و افطر يوماً ثم صام الاثنين والخميس ثم اتى من ذلك الى صيام ثلاثة ايام فى الشہر الخميس فى اول الشہر و اربعاء فى وسط الشہر و خميس فى آخر الشہر و كان يقول ذلك و صوم الدہر''(2)
رسول خدا مسلسل اتنے روزے ركھتے تھے كہ لوگ كہتے تھے آپ (ص) كسى دن بھى بغير روزے كے نہيں رہتے كچھ دنوں كے بعد آپ (ص) ايك دن ناغہ كركے روزہ ركھنے لگے ، پھر اس كے بعد پير اور جمرات كو روزہ ركھتے تھے پھر اس كے بعد آپ نے اس ميں
--------------------------------------------------------------------------------
1) (بحار الانوار ج17 ص 285 مطبوعہ بيروت)_
2) (بحارالانوار ج16 ص 270 مطبوعہ بيروت)_
تبديلى كى اور ہر مہينے ميں تين روزے ركھنے لگے اب ہر مہينہ كى پہلى جمعرات كواور مہينہ كے درميان بدھ كے دن ( اگر مہينہ كى درميانى دھائي ميں دوبدھ آجائے تو پہلے _ بدھ كو آپ روزہ ركھتے تھے _(1)
مہينہ كى آخرى جمعرات كو اور آپ فرماتے تھے اگر كوئي ان دنوں ميں روزہ ركھے تو وہ ہميشہ روزہ دار سمجھا جائے گا_
رسول خدا (ص) كا اعتكاف
امام جعفر صادق (ع) سے منقول ہے :
''اعتكف رسول اللہ (ص) فى شہر رمضان فى العشر الاول ثم اعتكف فى الثانية فى العشر الوسطي ثم اعتكف فى الثلاثة فى العشر الاواخر ثم لم يزل يعتكف فى العشر الاخر''(2)
رسول خدا نے ماہ رمضان كے پہلے عشرہ ميں اعتكاف كيا دوسرے سال ماہ رمضان ميں دوسرے عشرہ كو اعتكاف كے ليے منتخب فرمايا تيسرے سال آخرى عشرہ ماہ رمضان ميں آپ نے اعتكاف فرمايا اس كے بعد ہميشہ رمضان كے آخرى عشرہ ميں آپ اعتكاف كرتے رہے_
--------------------------------------------------------------------------------
1) (منتہى الآمال ص 27)_
2) (بحارالانوار ج16 ص 274)_
امام جعفرصادق (ع) نے فرمايا : جب ماہ رمضان كا آخرى عشرہ آتا تھا تو رسول خدا (ص) عبادت كے ليے آمادہ ہوجاتے عورتوں سے الگ ہوجاتے اور پورى پورى رات جاگ كر گذارتے تھے _(1)
خدا كى مرضى پر خوش ہونا
جب رسول اللہ كے بيٹے ابراہيم دنيا سے رخصت ہوگئے اس وقت آپ كى آنكھوں سے آنسو جارى ہوگئے آپ نے فرمايا:
''تدمع العين ويحزن القلب و لا نقول ما يسخط الرب و انا بك يا ابراہيم لمحزون'' (2)
آنكھوں سے اشك جارى ہيں دل رنجيدہ ہے ليكن خدا جس بات سے غضبناك ہوتاہے وہ بات ميں زبان پر جارى نہيں كروں گا اے ابراہيم ميں تمہارے غم ميں سوگوار ہوں_
--------------------------------------------------------------------------------
1) (بحارالانوار ج16 ص273 مطبوعہ بيروت)_
2) (بحارالانواج 22 ص 157 مطبوعہ بيروت)_
خلاصہ درس
1) لغت ميں شرح كے معنى پھلانے اور وسعت دينے كے ہيں شرح صدر كا مطلب باطنى كشادگى كا ظہوراور معانى و حقاءق كو قبول كرنے كى آمادگى ہے جب خدا كى طرف سے يہ آمادگى ہوتى ہے تو انسان خدا كى توفيق و تاييد سے حق كى طرف ماءل ہوتاہے جس طرح خدا سے دورى كى بناپر باطل اور كفر كو قبول كرنے كى آمادگى پيدا كرليتاہے اور يہ آمادگى بھى شرح صدر ہے مگر اس كو كفر كے ليے شرح صدر كہا جاتاہے_
2) پيغمبر كو خدا كى طرف سے جو عطيات ملے ہيں ان ميں سے شرح صدر كى نعمت بھى ہے ارشاد ہے '' الم نشرح لك صدرك'' كيا ہم نے آپ كے سينہ كو كشادہ نہيں كيا _ امير المؤمنين على ابن ابى طالب (ع) نے فرمايا : پيغمبر كى سخاوت اور ان كا شرح صدر ہر ايك سے زيادہ تھا_
3) تمام اديان الہى كى بنياد خدا پرا يمان اور تسليم محض پر استوار ہے _
4 ) خدا كى ذات كے سامنے رسول خدا (ص) نے سر تسليم خم كرليا تھا_ باوجوديكہ آپ (ص) عذاب اور عقاب سے محفوظ تھے پھر بھى عبادت ميں كمى نہيں كرتے تھے آپ (ص) اس قدر استغفار كرتے تھے كہ لوگوں كو حيرت ہوتى تھي_
سوالات؟
1_ لغت ميں شرح صدر كے كيا معنى ہيں ؟
2 _ شرح صدر كا كيا مطلب ہے ؟
3_ پيغمبر (ص) كے شرح صدر كى كيفيت بيان فرمايئے_
4 _ انسان كے ايمان پر تسليم و عبوديت كا كيا اثر پڑتاہے ؟
5 _ رسول خدا كا تعبد ( تسليم محض ) كيساتھ تھا، آيہ ليغفر اللہ لك ما تقدم من ذنبك و ما تاخر كو پيش نظر ركھ كر جواب ديجئے_
6_ جب حضور رسول اكرم (ص) نے ابتدائے عمر سے انتہاء تك كوئي گناہ نہيں كيا تو آپ (ص) اتنا زيادہ استغفار كيوں كرتے تھے؟
|