ٓٓٓآٹھویں فصل : شعلہ ور عشق
جوانوں کی زندگی میں ایک پر خطر اور نہایت سخت راستہ
عشق کی عظمت ومنزلت یا عشق کے جنون اوراس کی بیماری کے متعلق بہت زیادہ بحثیں ہوئی ہیںاور شاید بہت کم ایسے الفاظ ہیں جن کے متعلق اتنی کثرت سے مختلف و متناقض ، تعبیرات بیان ہوئی ہیں ۔
چنانچہ بعض مصفین اس کی اہمیت کو بہت بلند و بالا سمجھتے ہوئے کہتے ہیں : عشق زندگی کا تاج اور دائمی خوش نصیبی کا نام ہے ۔(جرمن دانشمندگوئٹا )
” ہزیہ “ کے بقول : عشق معمار عالم ہے ۔
”توماس “نے عشق کی معجز نمائی کے اثر کو بیان کیا ہے اور اس کا عقیدہ ہے : عشق روح کو قوی اورانسان کو زدہ دل رکھتا ہے ۔
مشرقی فلاسفہ کا ایک گروہ اس سے بھی آگے بڑھ گیااور ان کا عقیدہ ہے: دنیا کی ہر حرکات و سکنات کے پیچھے ایک قسم کا عشق کار فرماہے ۔ حتیٰ اجرام فلکی کی حرکات بھی اسی عشق کا سبب ہیں ۔
لیکن اگر اس لفظ کے معنی کو مزید وسیع کر دیا جائے یعنی اگر اس سے ہر قسم کی کشش اور غیر معمولی جاذبیت مراد لی جائے تو ان کے اقوال کی تائید ضروری ہو جاتی ہے ۔
ان بہترین تعبیرات اور توضیحات کے مقابلے میں دوسرے مصنفین اور فلاسفہ نے عشق پر سخت حملے کئے ہیں اورعشق پر بہت سی تہمتیں لگا دی ہیں ۔اور عشق کو ایک بیماری اور نفرت انگیز حقیر شی شمارکیا ہے ۔
ایک معروف مشرقی مورخ کا بیان ہے : عشق کی مثال دق ، کینسر اوربائے گٹھیا جیسی طولانی بیماری کی طرح ہے، جس سے عاقل انسان کوفرار کرنا چاہئے!
کسی زبان کا محاورہ ہے : عشق کی مثال شیمپین شراب کی ہے ۔
دوسرے دانشمند افراد جیسے” کوپرنیک“ جوفلکیات میں بہت معروف ہے اس نے عشق کے حوالے سے خود کو تحقیر کرتے ہوئے بڑی احتیاط کے ساتھ کہا : عشق اگر ایک قسم کا جنون نہیں ہے تو حد اقل ایک ناتواں مغز کا نچوڑ ضرور ہے ۔
آخر کار بعض افراد جیسے کارلایل نے بھی عشق پر اس طرح حملہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ عشق فقط ایک قسم کا جنون نہیں ہے بلکہ کئی قسم کے جنون کا مرکب ہے ۔
اس طرح کی متناقض تفسیر کو کسی ایک واقعہ پر حمل نہیں کرنا چاہیے در حقیقت یہ اختلاف یا تناقض تبصرہ کرنے والوں کے زاویہ نظر کا اختلاف ہے ۔
اسکا مطلب یہ ہے کہ ہر لکھنے والا عشق کے بہت سے چہروں میں فقط ایک چہرے کو اپنی زندگی میں زیادہ دیکھتا ہے اور اسی کو زیر بحث لاتا ہے لہذا اس بات کا اعتراف کرنا پڑے گا : اگر عشق سے مراد دو انسانوں یا کلی طور پر دو موجود کے درمیان ایک غیر معمولی قوی کشش اور جاذبیت ہو جو ایک عظیم ہدف کے لیے ہو ، تواس سے اچھی اور کیا بات ہوسکتی ہے؟!
کیونکہ اس ابتکار کی قوت اس قدر ہوتی ہے کہ اسکی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو وہ اپنے قبضے میں لے لیتا ہے، اور اپنے ہدف کے راستے میں آنے والی تمام مشکلات کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے ۔
عشق کی جو اتنی مدح سرائی کی گئی ہے وہ اسکی خلاقیت اور بے نظیر قوت و قدرت کی وجہ سے ہے، جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ بہت سے ادبی، معماری اورفنی شاہکا ر اسی کشش اور جاذبیت کی قوت کا نتیجہ ہیں ۔
لیکن اگر عشق سے مراد ایسی کشش اور جاذبیت کی قوت ہو جو دو انسانوں کو گناہ ، آلودگی اور فحشاء کی طرف لے جائے ، تو اس حالت میں عشق کی مذمت میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ کم ہے، کیونکہ کہ اسکے بدنما داغ اس قدر رنگین ہیں جنکا صاف کرنا آسان نہیں ہے ۔
اگر اس کشش و جاذبیت سے مراد دیوانہ کرنے والا ہو جس کے ذریعہ کلی طور پرعقل خراب اور بے کار ہوجائے اور اسکی وجہ سے انسان ہر طرح کے جنون آمیز کام کرنے لگے،تو عشق کی جتنی بھی تحقیر کی جائے بجا ہے ۔
فرانسیسی دانشمند ”اسٹینڈل“ کے بقول : ” عشق سے مربوط مسائل میں اچھائی اور برائی کے درمیان صرف ایک بوسہ (چومنے)کا فاصل ہے !
مختلف نظریوں کے مطابق عشق کا خلاصہ یہ ہے کہ عشق کے مختلف چہرے ہیں اس بنیاد پر اس کی تعریف اور برائی دونوں بجا ہیں ۔
عشق کے شاعرانہ پردے میں:
اس مقام پر قابل توجہ موضوع جو پاکیزہ جوانوں کے لئے بہت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ آج کے دور میں کون سا جرم اور تباہ کاری ایسی نہیں ہے جومقدس عشق کے نام پر انجام نہیں دی جاتی، آج ہر عیب کرنے والا، ہوا و ہوس کا پرستار خود کو سچا عاشق کہتا ہوا نظر آتا ہے ۔
ہر دھوکے باز دیو صفت جنکا ہدف صرف اپنی حیوانی شہوتوں کا پورا کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ہے، یہ لوگ عشق کے پردے میں شاعرانہ انداز کی مدد سے اپنے اس شیطانی رذیل مقصد کو عملی جامہ پہناتے ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ جب اپنے اس شیطانی مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں تب انکے چہرے سے گویا پردہ اٹھتا ہے اور تمام کئے وعدے اور وعید کو بھول جاتے ہیں ، بالکل اسی طرح جیسے پانی سے بھرے ہوئے ایک برتن کو الٹ دیا جاتا ہے اور اس میں کوئی قطرہ باقی نہیں رہ جاتا ، اسی طرح انکا دل محبت و عاطفت اور ہزاروں محبت کے کئے ہوئے وعدوں سے خالی ہو جاتا ہے ۔
ایسی صورت میں معشوق، دل شکستہ اور پشیمان ہو جاتا ہے اور اسکی دنیا میں غم و اندوہ چھا جاتا ہے ۔
جوانوں کو چاہیے بڑی سمجھ بوجھ کے ساتھ ایسے جھوٹے عشق کے دعویداروں سے آگاہ رہیں، اس لئے کہ اس طرح کے فریب کاروں کے پاس جھوٹ اور دھوکے کے علاوہ کوئی سرمایا نہیں ہوتا ، اورظاہری عشق سے بھرے ہوئے دل ایک وقت میں کئی جگہ گروی ڈال دیتے ہیں ، اور دھوکا دھڑی اورفریب کاری کے ذریعے اپنے کو سچا عاشق ثابت کرتے ہیں ۔
توجہ رہے آج کے دور میں بہت سے لوگ اس لباس میں نظر آتے ہیں یہ ہی وہ لوگ ہیں جو بے حیائی کی اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ ایک جھوٹ و فریب سے بھرے خط کو قل کرکے کئی لڑکیوں کو ایک ساتھ بھیجتے ہیں اور ہر جگہ عشق کے پاکیزہ لباس کو زیب تن کرکے دھوکا دیتے ہیں ۔ اور اس عشق کے نام پر ہزاروں جرم کا ارتکاب کرتے ہیں ۔
نہ فقط لڑکیوں کو آگاہ رہنا چاہیے بلکہ لڑکے بھی ہوشیاری سے کام لیں ، اس زمانے میں مختلف قسم کے جال عشق کے نام سے بچھے ہوئے ہیں ایسے جال کہ جس میں پھنسنے کے بعد اس سے رہا ئی بہت مشکل ہوجاتی ہے ۔
اس لئے کہ ایک لمحے کی غفلت یا بیجا خوش بینی کا جبران ممکن ہے تمام عمر ادا نہ ہو سکے ۔
خصوصا ایسے افراد جو محبت کی کمی کا شکار رہے ہیں اور محرومیت کے ساتھ زندگی بسر کی ہے وہ بہت جلدان عشق و محبت کے اظہار میں تسلیم ہوجاتے ہیں،اور یہی محرومیت فریب اور دھوکا کھانے کا سبب بن جاتی ہے، اس طرح کے افراد کو دوسروں کی نسبت زیادہ احتیاط سے کام لینا چاہئے ۔
آنے والی بحث ”میں عشق کے خطرے“ کے عنوان سے ضروری اور مہم مطالب پیش کئے جائیں گے جو اس بحث کا تکملہ ہونگے ۔
نویں فصل: عشق کے خطرے
جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں ” عشق “ کے معنی ” غیر معمولی طاقتور کشش اور جاذبیت کے ہیںجو ایک پاکیزہ ہدف تک پہنچنے کا سبب بنتی ہے ۔ ساتھ ساتھ روح انسانی کی بلندترین تجلی اور خلقت کا ایک عظیم شاہکار ہے ۔
یقینا اگر شادی کی بنیاد پاکیزہ محبت اور عشق پر رکھی جائے تو وہ ہمیشہ محکم ، مستحکم ، نقائص سے خالی ، ثمرات سے پر ، قابل اطمئنان اور آرام دہ ثابت ہوتی ہے ۔
لیکن یہ سب جھوٹے اور دھوکے باز عشق سے بالکل مختلف ہے ۔جو غیر معمولی طور پر ظاہرا آتشیں اور جلانے والا ہوتا ہے! یہ زود گزر ہوس اور نا جائز شہوت کے برخلاف ہے جس میں انسان دوسری تمام چیزوں کو بھلا دیتا ہے اور پاک و مقدس عشق کے بجائے دوسری چیزوں میں گرفتار ہو جاتا ہے ۔
حلانکہ ان پاک اور واقعی عشق و محبت میں بھی عظیم خطرات کا سامنا ہوتا ہے جس سے ہر گز بے توجہ نہیں ہونا چاہیے ۔
عشق کا پہلا خطرہ:
عام طور پر ایک عام محبت شدید وابستگی کے علاوہ عیوب اور نقائص پر پردہ ڈالنے کا کام بھی کرتی ہے، مثال کے طور پر ہر انسان اپنی دو آنکھوں میں ایک رضا اور دوسری نفرت کی نظر رکھتا ہے، عشق کرنے کے بعد انسان کلی طور پر نفرت کی نظر کو بالکل بند کر لیتا ہے یہاں تک کہ معشوق کے بد ترین عیوب کو عجیب و غریب توضیح اور حسن کی بہترین تعجب آور باتوں سے تعبیر کرتا ہے ۔
یہاں تک کہ اگر کوئی ایسے عاشقوں کو نصیحت بھی کرنا چاہے تو اسکا شدید عکس العمل سامنے آتا ہے اور اسکی طرف سے دل میں کینہ پیدا کر لیتے ہیں اور خود یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ نصیحت کرنے والا انکے ساتھ دشمنی ، حسد اور تنگ نظری سے کام لے رہا ہے لہذا اس کے ساتھ لڑائی اور جھگڑے پر آمادہ ہو جاتے ہیں ۔
اس طرح کے افراد جو عشق کی سخت تاریکی میں سر گرداں ہو گئے ہیں وہ معمولا خود میں یہ تصور کرتے ہیں کہ انہوں نے اس عشق کے سائے میں ایسی چیز کو درک کر لیا ہے ، جس سے دنیا کے تمام انسان محروم ہیں ، اگر کوئی انہیں نصیحت کرتا ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ یہ نصیحت اسکی لاعلمی اور صحیح ادراک نہ ہونے کا نتیجہ ہے ، فارسی کا مقولہ ہے ”اگر مجنوں کی آنکھ سے دیکھا جائے تو لیلی میں کوئی برائی نہیں مل سکتی“۔
ایسے عاشق کو نصیحت کرنا بے سود ہوتا ہے بلکہ کبھی کبھی خود نصیحت ایک خطرہ بن جاتی ہے ۔
لیکن عام طور پر اس طرح کے عشق جنسی آمیزش کے بعد خاموش ہو جاتے ہیں اور اچانک تمام پردے ہٹ جاتے ہیں اور عاشق کی حقیقت شناس نظر کام کرنا شروع کر دیتی ہے اس وقت گویا یہ بے قرار عاشق ایک عمیق لذت اور طویل نیند سے بیدار ہوتا ہے اس وقت وہ سمجھتا ہے کہ اس نے اب خیالی دنیا سے نکل کر عالم حقیقی میں قدم رکھا ہے ۔
اسکی نظر میں عشق کی تمام اہمیت اور قیمت ختم ہو جاتی ہے اور ہر چیز نئے رنگ میں نظر آتی ہے، ہر وہ چیز جو سابق میں اس کو بدنما اور داغ دار معلوم ہوتی تھی اچھی لگتی ہے ۔
ایسے موقع پر شرمندگی اور ندامت کے نا قابل بیان سائے اسے گھیر لیتے ہیں اور تاریکی کی مانند پریشانیاں اس کی روح کو بے چین اور وحشت زدہ کر دیتی ہیں ۔
کبھی کبھی ان دو حالتوں کے درمیان ، فاصلہ اتنا طویل ہو جاتا ہے کہ اسکی تمام زندگی اسی میںدفن ہو جاتی ہے اور آخر کار وہ پریشانی اور وحشت سے تنگ آکر خود کشی اختیار کر لیتا ہے ۔
اگر چہ ایسے حالات اورمشکلات سے دامن چھڑانا آسان کام نہیں ہے، اور بے قرار عاشق اور اسکے جیسے دوسرے تمام دوست، عشق کے تمام صفحات کو محو کر دیتے ہیں تاکہ انکی زندگی کے دفتر میں عشق کا کوئی گذر تک نہ ہو۔
یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی عقلی اور منطقی دلیل انکے لئے کار مند ثابت نہیں ہوتی ہیں، چہ جائیکہ یہ لوگ ان حالات میںتمام لوگوں سے الگ سوچتے ہیں لہذا اس بنا پر انکی اور دوسروں کی دنیا میں فاصلہ اس قدر زیادہ ہو جاتا ہے کہ اصولی طور پر جو زبان ان کے اور دوسروں کے درمیان افہام و تفہیم کے لئے مشترک ہوتی ہے اس کا وجود ختم ہو جاتا ہے ۔
اس قدر فاصلہ اس لئے ہوتا ہے کہ کہ ایسے افراد صرف عشق کی زبان سمجھتے ہیں اوربقیہ لوگ عقل اور منطق کی زبان سنتے اور بولتے ہیں ۔
ایسے افراد سے وابسطہ دوست و احباب جن کو اپنے دوست کی خطا اور غلطی کاعلم ہے ،کو نفسیاتی طریقہ اور بہت ہی ہوشیاری کے ساتھ ان کے اندر نفوذ کرنا چاہئے اور غیر مستقیم طریقہ سے مسائل کو ان کے سامنے واضح کرنا چاہئے،اس بات کا خیال کرتے ہوئے کہ ان کو احساس نہ ہوسکے اور ان کے زخم مزید تازہ نہ ہوں ۔ان کی حقیقت ، اعتراضات اوران کی غلط فہمیوں کو سوالیہ انداز میں سمجھائیں ،اور ایسا کام کریں جس سے یہ دیوانہ عاشق جو خودسے عشق کی غلطی میں مبتلا ہواہے ، آہستہ آہستہ اپنے پیروں اس گمراہ وادی سے واپس آجائے ، اور اس طرح تصور کرے کہ اس نے کسی کی مدد کے بغیر حقیقت کو درک کیا ہے اور اپنی مرضی سے اس راستے سے پلٹا ہے ،اورکسی نے اسکی راہ نمائی نہیںکی ہے ۔
تمام جوانوں کو چاہیے عام حالات میں بھی خود کو اس خطرے سے محفوظ رکھیںتاکہ ان کا شکار نہ ہو سکیں کیوںکہ اس کا شکار ہونے کے بعد انسان کا ذہن بند ہوجاتاہے اور عقل و منطق اپنا اثر کھو دیتی ہے لہذا ایسے مواقع پر ان کی مدد کر کے انہیں اس سے نجات دلانا چاہیے ۔
جوانوں کو چاہےے کہ خود تلقین کرتے رہیں، اور ہمیشہ دانشمند افراد اور صاحبان عقل و فہم اور تجربہ کار لوگوں کی نصیحتوں پر عمل پیرا رہیںاور مشکلات سے نپٹنے کے لئے ان افراد کا سہارا لیں ۔
ایسی منزل پر پہونچے ہوئے عاشقوں کے ساتھ معمولی ہمدردی ، ان کے محبوب کی تعریف اور ان کایہ اعتراف کہ انہوں نے انتخاب میں مکمل خطا نہیں کی ہے انہیں اپنی طرف جذب کر سکتا ہے ایسے میں جوان اس نصیحت کرنے والے کی بات پر توجہ دے سکتا ہے ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ ایسے افراد کی تحقیر اور سرزنش کرنا منفی اثرات کا سبب بنتا ہے لہذا اس عمل سے شدت سے اجتناب کیا جائے ، اسکے علاوہ یہ بات انصاف کے خلاف بھی ہے کہ ایسے لوگ جو پہلے ہی سے گمراہی اور خطرے میں ہیں انہیں مزید ملامت اور سرزنش کی سزا دی جائے ۔
|