چھٹی فصل : سختی سے کا م لینے والے والدین
اس طرح کے والدین اپنے عزیزبچوں کے مستقبل کو خطرے میں ڈالتے ہیں ۔
اکثر خود غرض والدین جو اپنی جوانی میں بہت سے رنج و غم اور پریشانیوں کا سامنا کر چکے ہیں اسکے با وجود وہ جوانوں کے دلوں میں جنسی شہوتوں کے برپا ہونے والے طوفان کے سوالوں کا صحیح جواب نہیں دے پاتے ہیں ۔ لڑکے لڑکیوں کی شادی کے حوالے سے والدین حد درجہ سختی سے کام لیتے ہیںیا بے مہری سے کا م لیتے ہیں ۔
یہ بے مہری اور سختی دونوں کی ایک ہی اساس ہے جہاں سے یہ جنم لیتے ہیں کبھی کبھی یہ اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ ایک سال اور پانچ سال کی تاخیر انکی نظر میں ایک سادہ عمل اور قلیل مدت عرصہ شمار ہوتا ہے!< ٹھیک ہے اگر اس سال نہیں تو اگلے سال انشاء اللہ ، یا ابھی نہیں ہوا تو اگلے کچھ سالوں میں ہو جائے گا، ابھی دیر نہیں ہوئی ہے! > جبکہ یہ لوگ اس بات سے غافل ہیں کہ ایک سال تو دور کبھی کبھی ایک مہینے کی تاخیر حساس موقعوں پر جوانی کے نتائج کو متغیر کر سکتی ہے ۔ خدا جانے یہ والدین اپنے ماضی کو کیوں یاد نہیں کرتے ، کیوں اتنی جلدی جوانی کے طوفان و شور کو جو شادی سے پہلے بپا ہوتا تھا بھلا دیا ہے ۔ کیوں خود کو اپنے جوانوں کی جگہ فرض نہیں کرتے ہیں ۔؟
جوانوں کا خاندان کی چار دیواری سے فرار ہونا ، اور انکا خودکشی کرنا، گمراہ ہوجانا اور بیمار ہوجانا وغیرہ اس حقیقت سے عدم توجہی کا ایک سبب ہے ۔ اگر بحث کا عنوان جوانوں کی پرہیزگاری، پاکدامنی اور با ایمان ہونا ہوتا تو ہمارا بیان انکے بارے میں مزید ہو جاتا ۔
والدین کی سہل انگاری یا کوتاہی اس طرح کے افراد کے لیے ظلم سے بڑھ کر ہے اور حقیقت و واقعیت اور عاقبت بینی سے دور ہے ۔
جبکہ والدین اپنے جوانوں کے جنسی بحران و طغیان کی حالت سے بخوبی واقف ہوتے ہیں لیکن شادی کی مشکلات اور اسکی ذمہ داریاں انکو یہ سب جان بوجھ کر بھلا دینے پر آمادہ کر دیتی ہیں، اور انکو یقین دلاتی ہیں کہ ابھی انکے پاس کافی وقت ہے !۔
اتنی جلدی بازی کی کیا ضرورت ہے ؟!۔۔۔۔
ابھی تو انکے منہ سے دودھ کی بو بھی نہیں گئی !
ابھی تو یہ بچے ہیں شادی کے کیا معنی ؟!
ابھی ابھی ۔
لیکن یہ ” ابھی “ ابھی کہنا جسکا نتیجہ ایسا دردناک ہو سکتا ہے کہ تمام عمر والدین کا دامن اس سے نہیں چھوٹ سکتا ہے اور وہ بھی ایسے موڑ پر کہ اسکے جبران کرنے کا کوئی راستہ نہیں رہ جائیگا ۔
اپنے جوانوں کے شریک حیات کی تلاش میں والدین بہت سختی سے کام لیتے اور بہت بے بنیاد شرائط اور قیود اور کبھی کبھی مضحکہ خیز شرطیں انکی شادی کے لیے معین کر تے ہیں یہاں تک کہ وسواس کی حدوں تک بات چلی جاتی ہے ۔شاید انہیں اسباب کی وجہ سے شادی کی ضرورت کا احساس ختم ہو جاتاہے ۔
اس لیے کہ انسان اگر کسی چیز کی ضرورت کا احساس کرتا ہے تو اسکی شرطوں کو کم اور سبک کردیتاہے ۔ اور چشم پوشی ، در گذر، مدد یہ تمام ارادوں اور بحثوں کی بنیاد ہے ۔ اسکے برعکس اگر انسان کسی چیز کی ضرورت کا احساس نہ کرے تو یہ شئی انسان کو مشکل پسند بنا دیتی ہے اور اسکی طرف مائل ہونے سے روک دیتی ہے ۔
میں نے ایک مقالے میں پڑھا ہے کچھ سخت اور وسواسی قسم کے لوگ گاڑی خریدتے وقت اسکو سونگھتے ہیں جیسے گوشت یا سبزی کو سونگھا جاتا ہے ایسے لوگ جب گاڑی خریدنے میں ناک سے کام لیتے ہیں تو پھر واضح ہے کہ اپنے بچوں کے رشتے کی تلاش میں کیا کیا نہ کرتے ہونگے ۔
دلچسپ بات یہ ہیکہ اسطرح کے شکی والدین اپنے آپ کو گھڑے میں گرا دیتے ہیں اور انکو اسکا سرے سے احساس بھی نہیں ہوپاتا ہے ۔
شاید اسکی نفسیاتی وجہ یہ ہو کہ وہ افراد جو دھوکے باز اور خودنما ہوتے ہیں چال بازی اور چاپلوسی وغیرہ کے ذریعے اور خود کو سبز باغ میں دکھا کر شکی لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لیتے ہیں ۔ ورنہ یہ کام ایک شریف اور عام انسان سے نا ممکن ہے اور وہ ہرگز کسی کو اپنی طرف اس طرح جذب نہیں کرتا ہے ۔
صحیح ہے کہ شریک حیات کے انتخاب میں یقینا دقت سے کام لیا جائے کیونکہ شریک حیات کا انتخاب پوری زندگی کے لیے ہوتا ہے <نہ یہ کہ قمیص یا لبا س کی طرح< کچھ دن استعمال کیا اور پھینک دیا >۔
لیکن ” دقت “ اور ”سختی و وسواس “ میں بڑا فرق ہے ۔
اگر مد مقابل شریک حیات آپکے لیے مناسب ہے اور با خبر افراد کی تحقیقات بھی اس کی تائید کرتی ہے تو بغیر کسی تردد کے آپکو قدم آگے بڑھانا چاہےے، اللہ کی مدد کے خواہاں رہیں ، اطمئنان رکھیں اسکا نتیجہ آپکے لیے بہتر ثابت ہوگا ۔
اسلامی دستورات و عقل اور دانشمند افراد کے بڑی تعداد میں تجربات والدین کو وصیت کرتے ہیں کہ اپنے جوانوں کی شادی کے امور میں عجلت سے کام لیں، بے مہری اور بیجا سختیوں سے اجتناب کریں ۔ سختیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خطرات کو معمولی شمار نہ کریںاور اپنے عزیز جوانوں کے مستقبل کو خطرے میں نہ ڈالیں ۔
اسبات کو یاد رکھیں کہ جوانوں کی جنسی خواہشات اس قدر طاقتور ہوتی ہیں کہ ان کے بارے میں اگر لا پرواہی اور تساہلی سے کام لیا تو کوئی بھی خطرناک حادثہ پیش آسکتا ہے ۔پوری تاریخ انسانیت اور انسان کی روزمرہ کی زندگی اسبات کی گواہ ہے کہ جنسی خواہشات سے پیدا ہونے والے خطرات اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ اسکی برابری کوئی اورخطرہ نہیں کرسکتا ۔یقینا یہ مسئلہ ہر چیز سے زیادہ مہم اور اساسی ہوتا ہے ۔
فصل ہفتم : شریک حیات کا انتخاب کون کریگا: جوان یا والدین ؟
یہ میری پسند ہے اور یہ میرے والدین کی پسند!
یہ واقعہ بھی بڑا حیرت انگیز ہے ، جسکی مثالیں کم نہیں ہیں ، ایک اخبار میں یہ قصہ اس طرح ذکر تھا:
اٹھارہ سالہ ایک دلہن عقد سے چند منٹ پہلے شادی کا لباس اتارتی ہے اور مردانہ لباس زیب تن کرکے کمرے کی کھڑکی سے صحن خانہ میں کود کر فرار کر جاتی ہے اور نارمک نامی(تہران میں ایک سڑک کا نام نارمک ہے) حمام پہنچ کر اپنے ہاتھ کی رگ کاٹ لیتی ہے اور غش کھاکر گر جاتی ہے ۔ کچھ دیر بعد وہاں کے لوگ اسکی طرف متوجہ ہوتے ہیں اس کو اسپتال میں داخل کراتے ہیں اور اس کو موت سے نجات دلاتے ہیں ۔
یہ لڑکی موت سے نجات پانے کے بعد اپنی زندگی کا ماجرا پلیس کے سامنے اس طرح بیان کرتی ہے :
پچھلے سال میں ہائی اسکول میں پڑھتی تھی اور ایک جوان کے ساتھ میرا رشتہ ہوگیا تھا ، جسکا انتخاب میں نے خودکیا تھا ۔ پچھلے سال ایک دن میں اخبار پڑھ رہی تھی کہ اچانک میری نظر میرے ہونے والے شریک حیات کی تصویر پر پڑی کہ جسے نارمک کے ایک سپاہی دستے نے سونے چاندی کی چوری کے جرم میں گرفتار کیا تھا ،۔
یقین نہ کرتے ہوئے میں نے اس کے گھر فون سے رابطہ کیا، تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ یہ واقعہ صحیح ہے،اور وہ چوروں کے ایک گروہ کے ساتھ چوری کرنے جاتا تھااور اب جو کچھ بھی اس کے پاس ہے وہ سب چوری کا مال ہے!
اگر چہ میں اس تحقیق سے قانع نہ ہوئی ، اور میں نے اس دعویدار کمپنی کے ایک بڑے سرپرست سے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ یہ سب کچھ جھوٹ تھا اور اس کمپنی کے لوگ کسی ایسے شخص کو اصلا نہیں جانتے ہیں!
یہاں تک کہ ایک مہینے قبل میرے والد کے دوست میرے لئے ایک چالیس سالہ ثروت مند جوان کا رشتہ لے کر آئے،جسکی بیوی نزدیک ہی میںفوت ہو گئی تھی ۔
میں کسی بھی صورت میں اس رشتہ پر راضی نہیں تھی اور کئی مرتبہ میں نے اپنی رائے بھی بیان کی ، لیکن کوئی بھی میری بات سننے کو تیار نہیں تھا، میرے والد اس طرح اس رشتے پر اصرار کرتے رہے ۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے میری شادی کے دعوت نامہ تقسیم ہونا شروع ہوگئے اور نوبت شادی تک پہنچ گئی اور اس وقت میرے پاس شادی کی محفل سے فرار اور اسکے بعد خود کشی کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا ۔
مسئلہ یہ ہے کہ آیا جوانوں کی شادی کے فیصلے والدین ، اہل خانہ اور خاندان کے بزرگوں کے اختیار میں ہونا چاہیے یا یہ حساس مسئلہ جوانوں کے میلان اور رجحان کے حوالے کر دیا جائے اور کسی دوسرے کی کوئی مداخلت اس میں شامل نہ ہو ۔اس مقام پر دو نظریات پائے جاتے ہیںجومکمل طور پر ایک دوسرے کے مخالف ہیں، اور طرفین میں سے ہر ایک کے پاس منطقی دلیلیں موجود ہیں ۔
سب سے پہلے ہم فریقین کی دلیلوںسے آشنائی حاصل کریں گے اسکے بعد صحیح راہ حل تلاش کریںگے ۔
جوانوں کے ایک گروہ کا بیان ہے : ہماری یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ ماں باپ یہ کیوں چاہتے ہیں کہ ہماری شریک حیات کا انتخاب وہ خود کریں،جبکہ شریک حیات کا انتخاب خود انسان کا حق ہے ۔
مثال کے طور پر فلاں لڑکی، والدین کی نظر میں ایک حور ہے لیکن اگر ہم اسے پسند نہیں کرتے تو وہ ہمارے لیے ایک جنگلی چڑیل سے بھی بد تر ہے ۔
ماہرین نفسیات، محققین کی تحقیق اور تجربات کا خلاصہ یہی ہے کہ اکثر و بیشتر طلاق کے اسباب وہ شادیاں ہیں جو کم عمری اوروالدین کی پسند کے نتیجے میںہوتی ہیں ۔
اصولی طور پر کوئی بھی عزت دار انسان یہ کبھی نہیںچاہے گا کی اسکی اولاد میں کوئی لڑکا ےا لڑکی گھر بار چھوڑکر فرار ہو جائے یا خود کشی کر لے ۔ یہ جو کچھ ہوتا ہے سر پرستوں کی کوتاہیوں اور غلطیوں کا نتیجہ ہے اسکی مثالیں جرائد اور اخبارات میں بڑی تعداد میں دیکھی جا سکتی ہیں ۔
بالفرض ایک زمانے میں لڑکے لڑکیاں سمجھ بوجھ نہیں رکھتے تھے اپنی مصلحتوں کی شناخت پر قادر نہیں تھے ، لیکن آج کا دور اس زمانے سے مختلف ہے ۔
اصل میں بنیادی طور پر والدین کے سوچنے سمجھنے کا طریقہ قدیمی ہے ، آج کے زمانے سے انکی فکر ہم آہنگ نہیںہے اسی وجہ سے والدین آج کے جوانوں کے امتیازات کو درک نہیں کر پاتے ۔
مختصر یہ کہ والدین کو چاہیے کہ کلی طور پر خود کو ان مسائل سے علیحدہ کر لیںاور جوانوں کے ذوق ، ابتکار ، اور فکر کے لئے میدان کھلا چھوڑ دیں ۔
لیکن والدین کہتے ہیں:
انسان اگر اپنے وقت کا افلاطون اور بو علی سینا بھی ہو، آغاز جوانی میں نا پختہ ہی ہوتا ہے،دوسرے لفظوں میںیہ کہا جائے کہ جوان، ضرورت سے زیادہ خوش فہم اوربہت جلد یقین کرلیتے ہیں، اور نفسیاتی پاکیزگی کی خاطر وہ ظاہری خوبیوں اور جھوٹے حسین چہروں کے فریب میں آ جاتے ہیں وہ اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ ان جھوٹے حسین چہروں کے پیچھے کیسی ہولناک اور بدنما صورتیں پوشیدہ ہیں ۔
بہت سے منحرف افراد ایسے ہیں ، جنہوں نے جوان لڑکے لڑکیوں کو جال میں پھنسانے کے لیے حیرت انگیز عاشقانہ ادبی جملے یاد کر لئے ہیں اور نہایت ہی ہوشیاری سے ابتدا ء میں خود کو ان کے حوالے کر دیتے ہیں اور پھر بہت ہی جلدی شیطانی ہنر مندی کے ذریعے پرکھ لیتے ہیں کہ انکے دل میں کیسے جگہ بنائی جائے قدماء کا محاورہ ہے :(اول خودش را جا کند بعدا ببین چہ ھا می کند )۔ پہلے اپنے لئے جگہ بناؤ پھر دیکھو کیا نہیں کر سکتے ۔
پھر اس کے بعد بات ہاتھ سے نکل جاتی ہے اور واپسی کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا ”انسان جو سوچتا ہے اس کے برخلاف ہوتا ہے “۔
جوان چاہے کتنا بھی ہوشیاراور با فہم کیوں نہ ہو آخر کار اس راستے پر چلنے کے لئے اسکی راہنمائی ضروری ہوتی ہے اس لیے کہ یہ راستہ وہ پہلی بار طے کر ر ہا ہے، جو لوگ اس راستے سے گزرے ہیں وہ بھی تائید کریں گے کہ راہنما کا ہونا کس قدر ضروری ہوتا ہے ۔ گویا مراحل طے کرنے کے لئے خضر کا ساتھ ضروری ہے ، اس لئے کہ راستہ اتنا تاریک ہے کہ گمراہی کا خطرہ ہر موڑ پر موجود ہے ، اس سے ڈرنا ہی چاہیے ۔
کیا والدین اپنے بچوں کے دشمن ہیں! جو انکی زندگی کے اہم ترین مصالح کو نظر انداز کردیں! وہ اپنے بچوں کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ وقت پڑنے پر اپنی جان بچوں پر نچھاور کر دیتے ہیں ۔
والدین کتنے بھی جاہل اور بے خبر ہوں پھربھی انہوں نے دنیا کے نشیب وفراز دیکھے ہیںاور ایک مشترک زندگی کے امتیازات جو آئندہ زندگی میں اثر انداز ہوتے ہیںاس سے بخوبی آشنا ہیں، وہم وخیال سے حقیقت کو تشخیص دینے کی قدرت رکھتے ہیں ۔
اور تمام باتوں سے قطع نظر اخلاقی نقطہ نگاہ سے بھی یہ عمل بہت ہی دل خراش اور تلخ ہے کہ والدین جن کو اپنی اولاد کی زندگی پر پورا حق ہوتا ہے، جنہوں نے اپنی تمام توانائی اورخوشیاںاپنی اولاد کی راہ میں قربان کر دی ہوں ،انکو اس موضوع سے بالکل الگ کر دےا جائے، ایسا حساس موضوع جو والدین کی آئندہ زندگی میں موثر ہے، اور ان کے پاک و پاکیزہ احساسات کو سرے سے پامال کر دیا جائے، اورصرف اپنی ہوس کو پورا کرنے کی فکر میں ہو !اور والدین کی مرضی کے بغیر اپنے شریک حیات کا انتخاب کرلیں،اور اس کے اوپر والدین کے جو احسانات ہیں ان کو بھول جائے ، یہ کام کسی بھی طرح انسانی قوانین سے سازگار نہیں ہے ۔
لیکن ہمارے عقیدے کے مطابق والدین اور جوانوں کے دونوں نظریات میں سے کوئی بھی مکمل طریقہ سے جامع اور مانع نہیں ہے ۔
نہ والدین کو حق ہے کہ وہ اپنی نظر کے مطابق شریک حیات کا انتخاب کرکے جوانوںکو شادی پر مجبور کریں، اور نہ جوانوںکے لئے مناسب ہے کہ اس اہم کام کو اکیلے انجام دیں ۔
بلکہ صحیح راستہ یہ ہے کہ باہمی کوشش ، غور و فکر، اور آپسی مشورت سے اس اہم عمل کو انجام دیا جائے ۔ والدین کو اس حقیقت کی طرف توجہ کرنا چاہئے کہ شریک حیات کا انتخاب صرف منطق و استدلال سے نہیں ہوتا، بلکہ اس انتخاب کا حقیقی محرک ذوق ہوتا ہے ۔ اوریہ بات مسلم ہے کہ تمام افراد کا ذوق ایک جیسا نہیں ہوتا ہے حتی دو حقیقی بھائیوں کا ذوق بھی مختلف ہوتا ہے ۔
ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ زبردستی شادی پایدار ثابت ہو ، آخر کار اسکا نتیجہ جدائی ہی ہوتا ہے چاہے جلدی ہوجائے یا دیر سے وجود میں آئے، اورسب سے بدتر اور خطرناک مقام وہ ہوتا ہے کہ جب والدین جوانوںکے لئے شریک حیات کے انتخاب میں اپنے ذاتی مصالح اور مفاد ات کو معیار بنالیں ، اس طرح کے والدین بہت گمراہ ہوتے ہیں ۔
دوسری طرف جوانوں کو بھی یہ بات جاننا چاہے کہ اکثر جوانی میں عشق کا طوفان انسان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیتا ہے اور اس وقت اس کو پنے محبوب کی اچھائی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا اوروہ اسکے تمام عیوب کو فراموش کر دیتا ہے، لہذا اس امر میں اپنے ہمدرد والدین ، مطلع دوست واحباب سے فکری مدد حاصل کریں ۔
اسکے علاوہ جوان چاہے کتنے ہی قوی اور طاقتور کیوں نہ ہوں پھربھی زندگی کے طوفان اور حادثات میں والدین ،دوست اور رشتہ داروں کی مدد سے مستغنی نہیں ہیں ۔
اگر جوان اس مہم سے والدین کو علیحدہ کردیں تو پھر بعد میں آنے والی مشکلات میں انکی مدد اور حمایت حاصل نہیں کر سکتا ، جبکہ ان کے اعتماد اور بھروسہ کا حاصل کرناجوانوں کے لئے بہت ضروری ہے ۔
اخلاقی نقطہ نگاہ سے بھی جوانوں کا فریضہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اس امر میں دلسوز والدین کو محبت کے ساتھ اپنے ہمراہ لے کر چلیں،اس لئے کہ اسلامی دستورات میں بھی اس باہمی کوشش کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے، خصوصا کنواری لڑکی کے بارے میں حکم دیا گیا کہ شادی کے لئے سب سے پہلے خود لڑکی سے رضایت حاصل کی جائے اس کے بعد اسکے سر پرستوں کی موافقت لی جائے ۔ البتہ ایسے موارد کم ملتے ہیں جن میں والدین اپنی اولاد کی مصلحت کے برخلاف اپنے فوائد کو مد نظر رکھ کر اپنے بچوں کی شادی کرتے ہیں،جواسلامی قوانین سے مستثنی ہیں ۔ اسی طرح ایسے موار دبھی کم ہیں جن میں شادی اولاد کی مصلحت کے مد نظر ہو اور والدین اس پر معترض ہوں، ان میں سے کوئی ایک نظریہ بھی معتبر نہیں ہے اور ایسے موارد میں ان کی پیروی کرنا لازم نہیں ہے ۔
|