فصل چہارم : وہ وزنجیریں جس نے جوانوں کے ہاتھ پیروں کو جکڑ لیا ہے
صحیح ہے کہ ہماری شادی کے مناسب اور طبیعی وقت کو گزرے ہوئے کافی عرصہ ہو گیا ،لیکن ہمارے پاس گھر ہونے کی صورت میں ہم شادی کیسے کرسکتے ہیں؟ ابھی ہمارا اپنا گھر بھی نہیں ہے ابھی اپنی گاڑی بھی نہیں ہے ، ابھی اچھی آمدنی والا کام بھی ہمارے پاس نہیں،ابھی بے شمار پیسے بھی نہیں جوشادی کے سنگین اخراجات ،اور دلہن اور رشتہ داروں کے لیے ہدایا اور سوغات کے لیے ضروری ہوں ۔ ابھی تک بڑی مناسب اور آبرومند جگہ بھی نہیں دیکھی جسمیںشادی کا پروگرام منعقد ہو سکے، ابھی ۔۔ ابھی۔۔!
ہم اپنی بیٹی کی شادی کیسے کر دیں جبکہ ابھی تک اسکے لیے ایک آئیڈیئل شوہر اچھی آمدنی والا ،اچھے اور آبرومند کام والا، اچھی پوسٹ والا ، اچھے گھر والا،اچھی پر سانلٹی والا، اچھی فیملی والا، رشتہ نہیں آیا، حالانکہ رشتے آتے ہیں مگر ایک دو شرطیں اسمیں نہیں پائی جاتی ہیں ۔اسکے علاوہ ابھی تک ہم نے اسکے لیے ضروری جہیز کا بھی انتظام نہیں کیا جیسے گھر کا سامان ،فرش،صوفا،فریج،واشنگ مشین،کھانوں کے برتن کے مختلف سیٹ ،استری ،الیکٹرک جھاڑو، کیڑے سینے کی مشین وغیرہ اور جہیز کے دوسرے بعض سامان فراہم نہیں ہو سکے ہیں ۔
اگر ہم اس حال میں اپنی بےٹی کی شادی کریں تو سوائے آبروریزی کے کچھ اور نہیں ملنے والا ہے ! کیا کریں کہ معاشرے نے یہ چیزیں ہم پر بار کر دی ہیں،کیا کیا جائے ہمارے گرد کی سخت و پریشان کن شرطیں جیسے کچھ کرنے نہیں دیتی ہیں ۔
اس طرح کا درد دل یا صحیح عذر اوربنی اسرائیل جیسے بہانے جو بہت سے جوان لڑکے لڑکیاںاور والدین کی جانب سے بیان ہوئے ہےں ، جو شادی کے امور میں اقدام میں مانع ہوتے ہیں ۔
عقلمندی کہتی ہے : زندگی کے دو حصے ہوتے ہیں پہلا آدھا حصہ دوسرے آدھے حصے کی امید میں اور دوسرا آدھا حصہ پہلے آدھے حصے کے افسوس میں گزر تا ہے ۔ امید کے بجائے خواب اگر لفظ خواب استعمال کریں تو مفہوم مزید واضح ہو جاتاہے ، کہ زندگی کا پہلا آدھا حصہ دوسرے آدھے حصے کے خواب میں گزر جاتاہے اور دوسرا آدھا پہلے آدھے حصے کے افسوس میں تلف ہو جاتاہے اور اس کی بہترین مثال ہمارے جوانوں کی شادیوں کا مسئلہ ہے جنکی پہلی آدھی عمر بہترین شریک حیات کی تلاش اور خواب میں گزر جاتی ہے اور باقی آدھی زندگی اسکے افسوس میں برباد ہوجاتی ہے ۔
بہرحال ان جوانوں اور والدین سے گذارش ہے ان حالات اور قید و بند کی زنجیروں کو پیدا کرنے کا ذمہ دار سوائے تمہارے خود کے کوئی اور نہیں ہے ، تم نے خود ہی ان حالات و شرائط اور قید و بند کی زنجیروں کو اپنے ہاتھ اور پاؤں میں ڈالا ہے ۔
خود تم نے ہی شادی شدہ زندگی کے لیے اس طرح کا ایک کھوکلا اور خیالی مفہوم ایجاد کر لیا ہے ۔اور اپنے لیے خیالی، واقعی خوش بختی اور سعاد ت مندی کی راہیں بند کر لی ہیں ۔
اپنی خوش نصیبی کی جو راہیں تم نے ہموار کی ہیں وہ ہرگز تم کو منزل تک نہیں پہنچا سکتی ، اس لیے تمام تجربوں اور تحقیقات نے اس حقیقت کو ثابت کیا ہے ۔
رقیبوں کی نظر بد ، ایک دوسرے کی اندھی تقلید ، غیر اہم امور کا اہم بنانا، یہ گمراہ کرنے والے نظریات اور یہ نہ پوری ہونے والی آرزوئیں، اور جھوٹے خواب یہ ہی وہ حقیقتیں ہیں کہ جنہوں نے تمہارے ہاتھ پیروں میں بھاری زنجیریں ڈال دی ہیں ، جو تم کو ایک جوان کے اہم کام سے روکتی ہیں ۔
اے میرے عزیز جوانوں اور والدین! اگر تم لوگ ہمت اور حوصلے کے ساتھ اپنے پیروں میں پڑی ان زنجیروں کو نکال دو اور ان گمراہ کرنے والے بتوں کو توڑ ڈالو تو اس وقت تم کو احساس ہوگا کہ تم نے روحانی طور پر کتنی عظیم آزادی حاصل کر لی ہے اور اپنی زندگی کو کس درجہ خوش نصیب اور سعادتمند بنا لیا ہے ۔
سچ تو یہ ہے کہ آپ نے کسے یکھا ہے جس نے آغاز جوانی میں ہی گُر اور زندگی کے آسائش و آرام کی تمام اشیاء فراہم کر لی ہوں ۔ جو آپ کے ہم سفر کے بارے میں یہ توقع رکھتے ہیں ۔ تمام لوگ اپنی زندگی کی ابتداء سے سفر سے شروع کرتے ہیں، ہاں جو لوگ خاندانی اور موروثی صاحب ثروت و مال ہیں ، ممکن ان کے ساتھ ایسا نہ ہواہو۔البتہ چونکہ وہ لوگ جو خود غالبا اپنی محنت سے اس منزل تک نہیں پہنچے ہیں وہ چاہے خوشی کے ساتھ یہ بات کہوں یا افسوس کے ساتھ ان مال و ثروت کی حفاظت پر قادر نہیں ہوتے ۔
اپنے کاموں کو آسان جانو! جیسے ہی شادی کے لیے سادہ اور عاقلانہ شرائط فراہم ہو جائیں فوری اقدام کردیں ۔
ہماری نظر میں نہایت سادہ اور بے جا انتظامات کے بغیر شادی کرنا حتی اگرتعجب نہ کریں تو زمان تحصیلی کے ساتھ ( پڑھائی کے دوران ) بھی نہایت سازگار ثابت ہوتی ہے ۔ بشرطیکہ دونوں فریق شادی کے صحیح معنی سے آشنا ہوں، اور اس بات کو بھی محسوس کرتے ہوں کہ دنیا ہر چیز کی خلقت تدریجی ہے ، اور زندگی کے شرائط بھی درجہ بدرجہ فراہم ہوتے ہیں اور آرزوئیں بھی امکانات کے مطابق ہوں ۔
وہ جوان افراد جو ان بے جا انتظامات اور خوابوں کے پورا کرنے میں سرگرداں رہتے ہیں ایسے جوان شادی کے اہم اور اصلی مسئلہ کو فراموش کردیتے ہیں، اور وہ دو انسانوں کا ایک دوسرے کو درک کرنا ، زندگی کے صحیح معنی کو سمجھنا اور اس بنیاد پر عشق و محبت کی گرہ لگاناہے ۔
اگر یہ دو اصلی رکن یعنی یہ دو انسان صحیح طریقے سے ایک دوسرے کو درک کرلیں تو باقی تمام چیزوں کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی ہے ۔ اور اگر ایک دوسرے کا ادراک نہ کرسکیں تو باقی تمام چیزیں بھی ان کی زندگی میں کوئی خوش بختی نہیں لا سکتی ہیں ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے مذہب کے دستورات اور قوانین کے مطابق شادی میں سوائے دو عاقل انسانوں کے جو ایک مشترک زندگی کے خواہشمند ہیں کوئی اور شرط ضروری نہیں ہے ۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہیکہ اس قدر سادے مسئلہ پر آج کیسا وقت آگیا ہے؟۔
اہم نکتہ:
علوم دینیہ کے طلاب کی نہایت سادہ زندگی آج کے جوانوں کے لیے ایک نمونہ عمل ہے < توجہ فرمائیں>
حوزہ علمیہ کے ۹۹ فی صد طلاب تحصیل< پڑھائی> کے دوران شادی کے اقدامات کرتے ہیں جبکہ درسی پروگرام یا کلاسوں کا شیڈیول سبھی حوزات علمیہ میں نہایت ہی سخت ہوتا ہے جوکہ طلاب کے پورے وقت کو مشغول رکھتاہے ۔ چونکہ زندگی کی بنیاد اس ماحول میں الہام اور اسلامی دستورات کے مطابق اور سادگی کے ساتھ ہوتی ہے ۔ مختصر خرچ جو حوزہ علمیہ کے بیت المال سے انہیں دیا جاتاہے یا بعض طلاب کھیتی باڑی یا معمولی کا م جو وہ گرمیوں کی چھٹی کے زمانے میں کرتے ہیں اسکے ذریعہ اپنی زندگی کو نہایت ہی سادگی اور پاکیزگی کے ساتھ چلاتے ہیں بجائے اسکے کہ غیر شادی شدہ زندگی کے بد ترین نتائج سے سامنا کریں ۔ لہذااس حوالے حوزہ علمیہ کے طلاب آرام و سکون اور خوش بختی کا مکمل احساس حاصل کرلیتے ہیں ۔
فصل پنجم : شادی شدہ زندگی کے سات سخت موانع
بہت سے <قبیح اور قابل اجتناب مسائل > ایسے ہیں جنہیں ہم زندگی کا نام دیتے ہیں جبکہ انسے پرہیز کرناضروری ہے ۔ بہت سی ایسی مشکلات جنہیں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ تقدیر نے ہمیں اس میں پھنسا دیا ہے ، جبکہ اس مشکل کے جال کو ہم نے خود بنا ہے ۔ ہماری زندگی کی اکثر مشکلات اعتراضات کرنا ، بہانے کرنا، ضد کرنا،سب ہماری انہیں قبول نہ کرنے کے نتیجے کے طور پر ظاہر ہوتی ہیں، خود حقیقی و واقعی مشکل کے مقالبہ نہیں ۔
ایرانی افسانوں کے ہیرو < رستم> کے بارے میں کہا جاتاہے کہ ملک کے ان بعض حصوں کو تسخیرفتح اور تسخیر کرنا چاہا جسے اس وقت تک کوئی نہیں کر سکا ۔
اس نے اس خطے کے قلب تک پہنچنے میں سات بڑی رکاوٹوں کا جنمیں ہر ایک دوسرے سے زیادہ قوی اور وحشتناک تھی مقابلہ کیا، کبھی سفید دیو اور کبھی جن و بھوت کی شکل والے اژدھے اور کبھی خطرناک جادوگروں کا سامنا کرکے اپنی ہمت و مہارت اور بے مثل بہادری سے سب کو پیچھے چھوڑ دیا یہاں تک کہ ساتوں مرحلوں کو طے کرکے کامیابی کو گلے لگا لیا، جسکو ایران کے رزمیہ شاعر فردوسی نے اپنے شاہنامے میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے ۔
یہ افسانہ انسانوں کی زندگی میں آنے والی مشکلات کے انبار کا ایک شاعرانہ مجسمہ ہے جو مشکلات کی زیادتی کامیابی و کامرانی کے راستوں کی نشاندہی اور مشکلات پر غلبہ حاصل کرنے کی طرف اشارہ کرتاہے ۔
آج کے معاشرے میں شادی کا مسئلہ اور اس کی مشکلات کا مقابلہ کرنا ، رستم کے سات موانع کے مقابلہ سے ذرا بھی میل نہیں کھاتا، اگرچہ سب جوان رستم والی قدرت و شجاعت اور ساتوں رکاوٹیں پیچھے چھوڑ دینے والا حوصلہ نہیں رکھتے ہیں ، یا آج کے جوانوں میں ایسا عزم و ارادہ سرے سے نابود ہے ۔جیسا کہ ہم پہلے بھی اسبات کی طرف اشارہ کر چکے ہیں کہ شادی کے مسئلہ نے بڑی حد تک اپنی اصلی اور فطری صورت متغیر کر لی ہے اور اس طرح اسنے ایک نقصان پہنچانے والا اورزحمتیں دینے والا پیکر اختیار کر لیا ہے ۔
جوانوں اور والدین کے تمام تر نالے فریاد اور شکایتیں یہ ہی ہیں کہ شادی کے اخراجات ناقابل برداشت ہیں شادی کی اس متغیر صورت کی طرف سب کا اشارہ ہوتا ہے بنیادی طور پر اس مسئلہ کی اساس ان تمام بد بختی اور پریشانیوں سے ہٹ کر پاکیزگی اور تقدس پر اسطوار ہے ۔
موجودہ حالات بہت سے افراد کے لیے شاد ی سونے کی ایسی کان سے سونا نکالناہے جو اس قدر مخلوط اور آلودہ ہے کہ اس میں سے زحمت کرکے سونا نکالنا ہی سودمند نہیں ہے ۔یہ مواد جو مخلوط اور آلودہ ہے وہ اس کی مثال شادی میں دیکھنا، دکھانا خیالی مثال ، شان و شوکت ، غلط آداب و رسوم ، ہوس بازی ، کسب ، افتخار ، و خیالی عزت و آبرو حاصل کرنا ہے ۔
شادی کے مسئلے نے مشکلات کے اس انبار میں اپنے اصلی چہرے کو پوری طرح مسخ کر لیا ہے اور ایک جنگلی جن و بھوت اور خوفناک صورت اختیار کر لی ہے جسکا سامنا کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے ۔
اور سب سے بدترحال یہ ہے کہ کم لوگ ایسے ہیں جو شجاعت کے ساتھ ان خرافات اور بیہودہ باتوں کا مقابلہ کرتے ہیں ۔ پڑھے لکھے لوگ ان حالات میں جاہلوں سے بد تر نظر آتے ہیں، اور آج کے لوگ پرانوں کے مقابلہ میں کمزور و نا تواں ہیں ۔
اکثر افراد اس طرح کی غلط دلیلیں پیش کرکے خوش ہوجاتے ہیں کہ < آخر انسان زندگی میں کتنی بار شادی کرتاہے کہ اسے سادگی سے انجام دیا جائے ؟ ہمیں چھوڑ دو تاکہ ہم اپنی آخری آرزوئیںپوری کر لیں اور اپنی دلی خواہشات کو عملی جامہ پہنا لیں!
وہ اس بات سے غافل رہتے ہیں کہ کہ یہ غلط استدلال بقیہ تمام جوانوں اور خود ان کی سعادتمندی اور خوش نصیبی کی راہ میں کتنی بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے ۔
جوانوں کو چاہےے کہ جوانمردی کے ساتھ سات رکاوٹوں کا سامنا کرنے والے رستم کی طرح اس لمبے راستے کو طے کریں اور اس طرح کے جادوئی طلسم کو توڑ ڈالیں ۔ اگر آپ حیران نہ ہوں اس راستے کی بھی سات رکاوٹیں ہیں <رستم کے راستے کی طرح > اور یہ مندجہ ذیل ہیں:
۱۔ لا محدود امیدیں اور خواب لڑکیوں کی لڑکوں سے اور لڑکوں کی لڑکیوں سے امیدےں اور ماں باپ کی دونوں سے ۔
۲۔ ماں باپ اور رشتہ داروں اور دوستوں کی طرف سے بے وجہ مشکلات پیداہونا ۔
۳۔ بڑی مقدار میں مہر کا ہونا جو کمر توڑ ثابت ہوتاہے ۔
۴۔ شادی کے مراسم کے لیے بے جا انتظامات جو ہزاروں گنا شادی کے پہلے اور بعد میں کئےے جاتے ہیں ، اور جو خطرناک چشمک کا باعث ہوتے ہیں ۔
۵۔ دو خاندانوں کے کفو اور ہم شان ہونے میں بے جا اعتراضات۔
۶۔ حد سے زیادہ عشق جو کنٹرول سے باہر ہو اور جسکا کوئی حساب و کتاب نہ ہو۔
۷۔ ایک دوسرے کے لیے حد سے سوا غلط فہمیاں پیدا ہونا ، ایک دوسرے پر آئندہ زندگی کے لیے اعتماد کا نہ ہونا ۔
جب ہم ان ساتوں مشکلات کے بارے میں غور کرتے ہیں تو پتہ چلتاہے کہ اکثر مشکلات کا شادی کے مسئلہ سے کوئی ربط نہیں ہے جو بھی ہے وہ اسکے حواشی اور بے وجہ چیزوں سے ہے ۔
”ہم رتبہ ہونا“ یا اصطلاح میں ایک دوسرے کا کفو ہونا یہ مسئلہ قابل بحث ہے اس موضوع کو بہت سے لوگ شادی میں رکاوٹ کا ایک بڑا سبب تصور کرتے ہیں جبکہ اس میں تحریف سے کام لیا گیا ہے اور حقیقت سے اسکا کوئی تعلق نہیں ہے ۔
ایک جوان جو خود بیان کرتا ہے : کہ وہ ایک تیل کمپنی میں انجینیئر ہے اور اسکی تنحواہ بھی کافی اچھی ہے، عمر ۳۰ سال ہو چکی ہے مگر ابھی تک شادی کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ، شکایت و فریاد کر رہا تھا ۔ اسکا بیان ہے: کسی بھی خاندان کی لڑکی سے شادی نہیں کی جا سکتی ہے ضروری ہے کہ ایک ایسا خاندان تلاش کیا جائے جو لائق احترام صاحب شخصیت اور میرے ہم رتبہ ہو، لیکن جب بھی کسی ایسے خاندان کا پتہ چلتاہے اور ہم شادی کی بات شروع کرتے ہیں تو شادی اور اسکے شرائط اور اخراجات کی فہرست اتنی طویل ہوجاتی ہے کہ جسکا حساب الکڑونک دماغ کے علاوہ کوئی اور نہیں کر سکتاہے ۔
میں نے اس جوان سے کہا کہ تمہاری مراد لائق احترام ، باشخصیت ہم رتبہ خاندان سے کیا ہے ؟ کیا اس سے مراد پڑھا لکھا صاحب علم خاندان ہے ؟ میں بہت سے ایسے خاندانوں سے واقف ہوں جنکے یہاں پڑھی لکھی گریجویٹ لڑکیاں ہیں اور وہ شادی کرنے کے لیے بھی تیار ہیں ۔ اگر تمہاری مراد اس سے عالی صفات اور اخلاقی اقدار والے خاندان ہیںیا جسمی اور بدنی امتیازات رکھنے والے خاندان ہیں تو اس طرح کے لوگوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے ، غریب و نادار ضرور ہیں لیکن اصیل اور نجیب ہونے میں کوئی کمی نہیں ہے ۔
لیکن میں سمجھتاہوں کہ تمہاری مراد ان میں سے کوئی بھی نہیں ہے مجھے معلوم ہے کہ تمہاری مراد ایسے خاندان سے ہیکہ لڑکی کے چچا زاد بھائی یہاں وہاں کے مینیجر اور رئیس کل ہوں ، اسکے ماں باپ مالدار ،ثروتمند ،گاڑی بنگلہ ، زرق و برق زندگی رکھنے والے ہوں ۔ کیا تمہارا مطلب یہ نہیں ہے؟ میں نے دیکھا کہ اسکا مطلب یہ ہی تھا ۔
میں نے اس سے کہا کہ تم نے اپنی اس زندگی میں اتنی بڑی خطا کا ارتکاب کیا ہے کہ صاحب شخصیت کا مطلب ان امور میں صاحب شخصیت ہونابنا لیا ہے نہ یہ کہ انسانی حقیقت کے اعتبار سے صاحب شخصیت ہو اسلئے ضروری ہے تم اسی طرح د تکارو عذاب سے دو چار رہو۔
غور طلب نکتہ یہ ہے کہ اسلامی روایات میں آپ دیکھتے ہیں کہ” ہم رتبہ ہونا “اس مسئلہ کا غلط مفہوم اس زمانے میں معاشرے اور قبیلوں کے درمیان اس شدت کے ساتھ رائج تھا جسکا پوری قوت کے ساتھ اسلام نے مقابلہ کیا اور اس غلط مفہوم کا خاتمہ کیا، اور ایمان کی بنیاد پر عوام کے مردوں اور عورتوں، لڑکے اور لڑکیوں کو ایک دوسرے کا کفو یا ہم رتبہ قرار دیا ۔
اسلامی روایات میں ہم یہ ہی پڑھتے ہیں کہ ” المئو من کفوء المئومن“ مومن کا ہم رتبہ مومن ہی ہو سکتا ہے ۔ہر صاحب ایمان چاہے وہ کسی بھی خاندان، قبیلے ، قو م اور طبقے سے تعلق رکھتا ہو وہ دوسرے مومن کا ہم رتبہ ہوتا ہے ۔
اس بنیاد پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر ان توھمات کا خاتمہ کر دیا جائے جو طبقاتی معاشرے میں فرقہ وارانیت زندگی سے تعلق رکھتے ہیں اور ساتھ ساتھ دونوں فریق شادی کی بنیاد انسانی اقدار اور عقل و منطق پر اسطوار کریں بغیر کسی لالچ کے مثلا لڑکی کے چچا زاد بھائی فلاں پوسٹ پرہیں یا وہ لوگ صاحب ثروت ہیں ،گاڑی بنگلے والے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ تو یقینا یہ تمام مشاکل خود بخود حل ہو جائیںگے اور شادی کی بقیہ مشکلات بھی اسی کے مانند ہیں ۔
|