دوسری فصل
اسلام میں عورت کی قدر و منزل
اسلام نے بھی بالکل مناسب موقع پر کہ جب تمام جوامع بشری مختلف قسم کے
انحرافات میں گرے ہوئے تھے بعض جامعہ یا سوسایٹیزکثرت شہوت کی وجہ سے
عورت کو اپنا معبود بناچکے تھے تو بعض جامعہ غفلت کی وجہ سے عورت کو
فاقد ارادہ حیوان سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ عورت روح انسانی سے مبرّا
ہے لہذا قابل تقدیر نہیں ہے۔ اور یہ مظلوم عورت بھی جہالت اور نادانی
اور ناچاری کی وجہ سے خاموش رہتی۔
پیامبر اسلام (ص)،رحمة للعالمین بن کر خدا کی طرفسے مبعوث ہوئے اور ان
تمام غلط اور نا روا رسومات اور انسان کی ناجائز تجاوزا ت کو ختم کرکے
آپ نے ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا کہ عورت کو اپنا حق اور مرد کو اپنا
حق دیکر ظلم و ستم اور بے انصافی کا خاتمہ کیا ۔
پوری کائنات میں اسلام اولین مکتب ہے جو مرد اورعورت کیلئے برابر حقوق
کا قائل ہوا۔ اور عورت کو حق مالکیت اور استقلال عطا کیا کہ وہ اپنی
زندگی کا فیصلہ خود کرے۔ نہ صرف حق دیا بلکہ اس سے بھی بالا تر کہ مرد
سے بھی زیادہ عورت کا احترام اور اس کی قدر و منزلت کا قائل ہوا۔ اور
فرمایا: مرد کو عورت پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے خدا کے نزدیک سب برابر
ہیں فضیلت ۔ اور برتری کا معیار صرف تقوی الہی قرار دیکر فرمایا:
يَأَيهَُّا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكمُ مِّن ذَكَرٍ وَ أُنثىَ وَ
جَعَلْنَاكمُْ
شُعُوبًا وَ قَبَائلَ لِتَعَارَفُواْ إِنَّ أَكْرَمَكمُْ عِندَ
اللَّهِ أَتْقَئكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ-1 انسانو ہم نے تم
کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تم میں شاخیں اور
قبیلے قرار دیئے ہیں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو بیشک تم میں
سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگارہے اور اللہ ہر
شے کا جاننے والا اور ہر بات سے باخبر ہےاس آیہ شریفہ سے اس فاسد عقیدہ
کا بھی قلع قمع ہوجاتا ہے کہ بعض جامعہ قائل تھے کہ عورت قیامت کے دن
بہشت میں داخل نہیں ہو سکتی ۔ کیونکہ وہ فاقد روح انسانی ہے اور وہی
انسان کو بہشت سے نکالنے والی ہے۔ وہ شیطان کی نسل ہے جسے صرف مرد کی
وجود کیلئے مقدمہ کے طور پر خدا نے خلق کیا ہے۔
دوسری آیة میں ارشاد فرمایا: خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ
جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا-2 یعنی عورت بھی مرد کا ہم جنس اور بدن کا
حصہ ہے۔اور فرمایا: أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ
إِلَى نِسَآئِكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ-3
عورت تمھارے لئے عیوب کو چھپانے کیلئے لباس ہے جس طرح تم ان کیلئے عیوب
کو چھپانے کا وسیلہ ہے۔ اس لحاظ سے دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ جب عورت
کو کسی چیز کا مالک نہیں سمجھتا تھا اس وقت فرمایا : وَلاَ
تَتَمَنَّوْاْ مَا فَضَّلَ اللّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ
عَلَى بَعْضٍ لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُواْ وَلِلنِّسَاء
نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْن۔4
کہ وہ بھی اپنے کسب کئے ہوئے اموال پر اسی طرح مالک اور مختار ہے جس
طرح مرد مالک ہے۔
جب عورت کو اجتماعی امور میں شریک ہونے کا حق نہیں دیا جارہا تھا اس
وقت اسلام نے عورت کو بھی مرد کے برابر ان اجتماعی امور میں شریک
ٹہھراتے ہوئے فرمایا : وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ
أَوْلِيَاء بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ
الْمُنكَرِ-5
اس طرح متعدد آیات اور روایات میں عورت کی قدر ومنزلت کو کبھی بیٹی کی
حیثیت سے تو کبھی ماں کی ، کبھی بیوی کی حیثیت سے تو کبھی ناموس اسلام
کی ، دنیا پر واضح کردیا ہے ۔ کیونکہ ہر انسان کیلئے ناموس کی زندگی
میں یہ تین یا چار مرحلہ ضرور آتا ہے۔ یعنی ایک خاتون کسی کی ماں ہے تو
کسی کی بیٹی۔اور کسی کی بہن ہے تو کسی کی بیوی ہوا کرتی ہے۔ اسلام نے
بھی ان تمام مراحل کا خا ص خیال رکھتے ہوئے عورت کی شخصیت کو اجاگر کیا
ہے۔ ہم ان مراحل کو سلسلہ وار بیان کریں گے، تاکہ عورتوں کے حقوق کو
بہتر طریقے سے سمجھ سکے اور اس میں کوتاہی نہ ہونے پائے۔
اسلام میں عورت کا مقام
پیامبر اسلام (ص) ہمیشہ عورتوں کیساتھ مہر و محبت اور پیار کرنے کی سفارش
کرتے ہوئے فرماتے ہیں: حُبِّبَتْ إِلَيَّ النِّسَاءُ وَ الطِّيبُ وَ
جُعِلَتْ فِي الصَّلَاةِ قُرَّةُ عَيْنِي-6 میں دنیا میں تین چیزوں سے
زیادہ محبت کرتا ہوں : عطر ،عورت اور نماز کہ جو میری آنکھوں کی
روشنائی ہے-7
یاد رہے آپ (ص) کا یہ فرمانا شہوت وغرائز جنسی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ آپ (ص)
ایسے فرامیں کے ذریعے عورت کی قدر و منزلت اور شخصیت کو اجاگر کرنا
چاہتے ہیں۔ کیونکہ اس عرب جاہلیت کے دور میں عورتوں کی کوئی قدر وقیمت
نہیں تھی۔ ہر قسم کے حقوق سے محروم تھی ۔ ان کی کسی اچھے عمل کو بھی
قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے ۔ لیکن جب اسلام کا ظہور ہوا جس نے
نیکی میں مرد اور عورت کو برابر مقام عطا کیا ۔مؤمنہ عورت کے بارے میں
امامصادق (ع)فرماتے ہیں: المرأة الصالحة خیر من الف رجل غیر صالحٍ -8
ایک پاک دامن عورت ہزار غیر پاک دامن مرد سے بہتر ہے۔اسی طرح ان سے
محبت کرنے کو ایمان کی نشانی بتاتے ہوئے فرمایا: عَنْ أَبِي عَبْدِ
اللَّهِ ع قَالَ مَا أَظُنُّ رَجُلًا يَزْدَادُ فِي الْإِيمَانِ
خَيْراً إِلَّا ازْدَادَ حُبّاً لِلنِّسَاءِ -9 جب بھی ایمان میں اضافہ
ہوتا ہے تو عورت سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔
اسلام کی نگاہ میں ماں کا مقام
اسلام کی نگاہ میں ماں کا مقام بہت بلند ہے خدا تعالی کے بعد دوسرا
مقام ماں کو حاصل ہے۔چنانچہ رسولخدا (ص)سے متعدد روایات نقل ہوئی ہیں:
بہر بن حکیم نے اپنے دادا سے نقل کیا ہے :جَاءَ رَجُلٌ إِلَى
النَّبِيِّ ص فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ أَبَرُّ قَالَ أُمَّكَ
قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ أُمَّكَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ أُمَّكَ قَالَ
ثُمَّ مَنْ قَالَ أَبَاكَ -10۔
راوی کہتا ہے کہ تین مرتبہ میں نے سوال کیا کس کیساتھ نیکی کروں ؟ تو
آپ نے فرمایا: ماں کیساتھ نیکی کر، اور چوتھی بار جب پوچھا تو فرمایا :
باپ کیساتھ۔یعنی جب سوال ہوا کہ سارے خلائق میں کون سب سے زیادہ نیکی
اور حسن معاشرت کا مستحق ہے؟ تو فرمایا: ماں ماں ماں اور چوتھی مرتبہ
فرمایا: باپ۔ اور مزید فرمایا : الجنّة تحت اقدام الامّھات۔ ماؤں کے
قدموں تلے جنت ہے۔اور فرمایا: اذا دعاک ابواک ، فاجب امّک۔-11 اور جب
ماں باپ دونوں ایک ساتھ تمھیں بلائیں تو ماں کو مقدّم رکھو۔
اسلام کی نظر میں بیٹی کا مقام
بغیر مقدمہ کے احادیث اور ان کا ترجمہ بیان کرتا چلوں جنہیں پڑھ کر ہر
مسلمان اپنے اندر خوشی اور مسرت کا احساس کرنے لگتا ہے کہ واقعا ہم
ایسے رہبر اسلام کے پیروکار ہیں جہاں سے فقط مہر ومحبت ،شفقت، احسان
اور نیکی کا درس ملتا ہے۔ بیٹی کی شأن میں فرماتے ہیں : خیر اولادکم
البنات۔و یمن المرأة ان یکون بکرھا جاریة-12 یعنی بہترین اولاد بیٹی
ہے اور عورت کی خوش قدمی کی علامت یہ ہے کہ پہلا فرزند بیٹی ہو۔اسی طرح
امام صادق نے فرمایا: عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ الْبَنَاتُ
حَسَنَاتٌ وَ الْبَنُونَ نِعْمَةٌ فَالْحَسَنَاتُ يُثَابُ عَلَيْهَا وَ
النِّعْمَةُ يُسْأَلُ عَنْهَا-13 ۔
بیٹیاں حسنہ ہیں اور بیٹے نعمت ہیں، اور حسنات پر ثواب دیاجاتا ہے اور
نعمتوں پر حساب لیا جاتا ہے۔ابن عباس پیامبر اسلام (ص)سے نقل کرتے ہیں کہ
آپ نے فرمایا؛ وہ شخص جس کے ہاں لڑکی ہو اورکبھی اس کی اہانت نہ کی ہو
اور بچّے کو اس بچی پر ترجیح نہ دی ہو تو خداوند اسے بہشت میں جگہ عطا
کریگا۔ اور فرمایا : کوئی شخص بازار سے بچوں کیلئے کوئی چیز خریدے اور
گھر پر آئے تو سب سے پہلے بچی کو دیدو بعد میں بچے کو۔ جس باپ نے بچیوں
کو خوش کیا تو اسے خوف خدا میں رونے کا ثواب عطا کریگا ، یعنی قرب الہی
حاصل ہوگا-14
رسول گرامی اسلام (ص)نے فرمایا: جس شخص نے بھی تین بیٹیوں یا تین بہنوں کا
خرچہ برداشت کیا تو اس پر بہشت واجب ہے-15
جب امیرالمؤمنین (ع)حضرت فاطمہ(س) کی خواستگاری کیلئے تشریف لائے توباوجود
اس کے کہ قرآن مجید نے صریحت پیامبر(ص) کو مؤمنین کی جان ومال میں تصرف
کرنے کی مکمل طور پر اجازت دی ہے ،فاطمہ(س) کی عظمت کی خاطر آپ سے مشورہ
کیلئے تشریف لاتے ہیں۔جب رضایت طلب کرنے کے بعد ہی علی (ع) کو ہاں میں
جواب دیتے ہیں ۔جس سے دور جاہلیت میں زندگی گذارنے والوں پر واضح ہوگیا
کہ عورتوں کو ان کا حق کس طرح دیا جاتا ہے۔اور یہ بھی بتا دیا کہ مشترک
زندگی کا آغاز اور ازدواج کیلئے اولین شرط لڑکی کی رضایت ہے۔ جس کے
بغیر والدین اپنی بیٹی کو شوہر کے ہاں نہیں بھیج سکتے ۔
------------1 ۔ الحجرات١٣۔
2 ۔ الزمر ۶۔
3 ۔ البقرہ ۱۸۷۔
4 ۔ نساء ۳۲۔
5 ۔ توبہ ۷۱۔
6 ۔ وسائل الشیعہ، ج۸، ص۱۱۶
7 ۔ سیری کوتاہ در زندگانی حضرت فاطمہ،ص٣٥۔
8 ۔ وسائل الشیعہ،ج١٤،١٢٣۔
9 . الکافی،ج۵، ص۳۲۰۔
10 ۔ الکافی،ج۲، ص ۱۵۹۔
11 ۔ ہمان۔
12 ۔ مستدرک الوسائل،ج٢،ص ٦١٥۔٦١٤۔
13 ۔ وسائل الشیعہ،جج١٥،ص١٠٤، من لایحضر،ج۳، ص۴۸۱۔
14 ۔ محمد خاتم پیامبران،ج١،ص١٨٣۔
15 ۔ آئین ہمسر داری،ص٥٠٤ ۔
|