بہترین عورت
اسلامی نقطۂ نگاہ سے بہترین عورت وہ ہے جو سب سے زیادہ شوہر کی اطاعت کرے
اور اس سے عشق و محبت اور آمادگی کا اظہار کرے۔ لیکن اس کے مقابلے میں وہ
عورت جو اپنے شوہر کی جنسی خواہشات کو پوری کرنے سے انکار کرے تو اسے
بدترین عورت سمجھا گیا ہے۔ اسی لئے رسولخدا (ص)نے فرمایا: خیر نسائکم العفیفة
و الغلیمة ۔ بہترین عورت وہ ہے جو اپنے شوہر کی نسبت زیادہ شہوت پرست ہو
لیکن نامحرموں کی نسبت عفیف اور پاکدامن-1
عن أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ ع خَيْرُ النِّسَاءِ مَنِ
الَّتِي إِذَا دَخَلَتْ مَعَ زَوْجِهَا فَخَلَعَتِ الدِّرْعَ خَلَعَتْ
مَعَهُ الْحَيَاءَ وَ إِذَا لَبِسَتِ الدِّرْعَ لَبِسْتَ مَعَهُ الْحَيَاءَ
-2 ا مامباقر (ع) نے فرمایا :بہترین اور شائستہ ترین عورت وہ ہے جو خلوت میں
شوہر کیساتھ ملتی ہے تو لباس کے ساتھ ساتھ شرم و حیا کو بھی دور پھینکے ہو
اور پوری محبت اور پیارکیساتھ اپنے شوہر کی جنسی خواہشات کو پورا کرے اور
جب لباس پہن لے تو شرم و حیا کا لباس بھی زیب تن کرے۔اور اپنے شوہر کے
سامنے جرأت اور جسارت سے باز آئے۔امام صادق(ع) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص)نے
فرمایا: قَالَ الْمَرْأَةُ يَدْعُوهَا زَوْجُهَا لِبَعْضِ الْحَاجَةِ فَلَا
تَزَالُ تُسَوِّفُهُ حَتَّى يَنْعُسَ زَوْجُهَا فَيَنَامَ فَتِلْكَ لَا
تَزَالُ الْمَلَائِكَةُ تَلْعَنُهَا حَتَّى يَسْتَيْقِظَ زَوْجُهَا-3۔
یعنی وہ عورت جسے اس کا شوہر جنسی خواہشات کو پورا کرنے کیلئے کہے اوروہ
بہانہ بناتی رہے ۔ یہاں تک کہ اس کا شوہر سو جائے تو صبح جاگنے تک فرشتے اس
پر لعنت بھیجتے رہیں گے ۔
خوشیاں لانے والی
رسولخدا (ص)نے اس عورت کو بہترین اور شائستہ ترین عورت قرار دیا ہے جسے دیکھ
کر اس کا شوہر خوش ہوجائے۔ پس مسکراہٹ کے ساتھ ان کا استقبال کیا کرو، جو
زندگی میں محبت کے پھول اگانے کا سبب بنتا ہے۔اور پھول کو دیکھ کر ہر کوئی
خوش ہوتا ہےٍ: عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ فِي رِسَالَةِ أَمِيرِ
الْمُؤْمِنِينَ ع إِلَى الْحَسَنِ فَإ ِنَّ الْمَرْأَةَ رَيْحَانَةٌ امام
صادق فرماتے ہیں کہ حضرت علی (ع) نے فرمایا: عورت پھول کی مانند ہے -4
اسے چاہئے کہ ہمیشہ پھول کی طرح کھلتی رہے۔ اور خاندانی گلستان میں خوشیوں
کا باعث بنے۔ دینی اور دنیوی کاموں میں شوہر کا معا ون بنے۔
امامصادق (ع)نے فرمایا: ثلاثة للمؤمن فیھا راحة ٠٠٠وامرأة صالحہ تعینہ علی
امرالدنیا والأخرة-5 یعنی تین چیزوں میں مؤمن کیلئے سکون اور راحت ہے ان
میں سے ایک وہ شائستہ عورت ہے جو اس کے دینی اور دنیوی امور میں مددگار
ثابت ہو کیونکہ عورت اگر چاہے تومرد کیلئے دینی اور دنیوی امور میں بہترین
شوق دلانے والی بن سکتی ہے ۔یہاں تک کہ مستحبات کی انجام دہی اور مکروہات
کے ترک کرنے میں ۔چنانچہ روایت ہے: حضرت زہرا (س)کی شادی کے بعد پیامبر (ص)نے
علی سے پوچھا : یا علی؛ فاطمہ کو کیسا پایا؟ تو جواب دیا:نعم العون علی
طاعة اللہ۔ یعنی فاطمہ(س) کو خدا کی فرمان برداری میں بہترین مددگار پایا-6
اور جب بیوی ایسی ہو تو اولاد بھی حسنین اور زینب و کلثوم جیسی ہوتی ہیں۔ہم
اور آپ علی (ع) اور فاطمہ(س) جیسے تو نہیں بن سکتے لیکن ان کی پیروی کرنے کی
کوشش کرکے معاشرے کو اچھی اور صالح او لاد تو دے سکتے ہیں۔اس عظیم
مقصد کیلئے ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنی اولاد کو اصول وفروع دین کی تعلیم دیں
۔ اور مذہبی عبادات ورسوم جیسے نماز ، روزہ ، انفاق، تلاوت ، نماز جماعت
اور مذہبی مراسم ،جلسے جلوس میں شرکت کرنے پر تأکید کیا کریں۔
امانت داری
یہ بھی عورتوں کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شوہر
کے مال ودولت اور اسرار کی امین ہوں۔ پیامبر اسلام (ص)نے(رح)فرمایا: خدا تعالی
فرماتا ہے کہ جب بھی کسی مسلمان کو دنیا اور آخرت کی خوبیاں عطا کرنا چاہتا
ہوں تو اسے چار چیزیں عطا کرتا ہوں:
1. ایسی زبان جو ذکر الہی میں مصروف رہتی ہو۔
2. قلب خاشع جو ہمیشہ متوجہ ہو.
3. صبور بدن جو مصیبت کے موقع پر صبر و استقامت کا مظاہرہ کرے۔
4. با ایمان بیوی۔ کہ فرمایا:زوجة مؤمنة تسرّہ اذا نظر الیھا و
تحفظہ اذا غاب عنھا فی نفسہا و مالہ۔اور ایسی با ایمان اور با عفت بیوی جسے
دیکھ کر شوہر خوش ہو اور جب وہ کہیں چلاجائے تو اس کی مال و دولت کی حفاظت
کرے-7
اسی طرح خاندانی خامیوں پر بھی امانت کے طور پر پردہ ڈالے۔ ایسی خاتون کبھی
بیجا اور بے مورد اور فضول خرچ نہیں کرتی۔ بلکہ وہ زندگی کے وسائل کو بڑی
دقّت سے خرچ کرتی ہے۔کھانا پکانے اور کھلانے میں بھی اسراف اور تبذیر سے
پرہیزکرتی ہے۔ایک امانت دار خاتون کی کہانی ہے جس نے امانت داری کی مثال
قائم کی : اصمعی نامی شخص کہتا ہے کہ میں نے بیابان میں ایک خیمہ دیکھاجس
سے ایک بہت ہی خوبصورت خاتون نکلی گویا وہ چاند کا ایک ٹکڑا تھا، مہمانی کا
رسم ادا کرتے ہوئے مجھے خوش آمدید کہا، میں گھوڑے سے اترا اور ایک گلاس
پانی مانگا تو مجھ سے کہا: میں اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر پانی پلانے سے
معذور ہوں۔ان کی اجازت کے بغیر ان کی چیزوں کو ہاتھ نہیں لگاتی ہوں،اور اس
سے اجازت بھی نہیں مانگی ہے کہ مہمان کیلئے مہمان نوازی کروں۔ہاں اپنے لئے
بقدر ضرورت پینے کی اجازت مانگی تھی کہ میں خود پیاسی تھی تو اپنا حصہ پی
چکی ہوں۔اور ابھی میں پیاسی نہیں ہوں ورنہ اپنا حصّہ تمہیں ضرور پلاتی۔ہاں
دودھ کا شربت ہے جو میری غذا ہے وہ تمہیں دوں گی۔ یہ کہہ کر دودھ والی برتن
میرے سامنے رکھ دیا۔
اصمعی کہتا ہے کہ میں اس خاتون کی عقل مند، شیرین ، اور مدلل باتوں کو سن
کر حیران رہ گیا۔ اسی دوران ایک عربی سیاہ چہرہ والا وہاں پہنچا اور مجھے
خوش آمدید کہا۔ یہ عورت اس کی طرف دوڑی اور اس کی پیشانی سے پسینہ پو نجھی
، اور اس طرح اپنے شوہر کی خدمات کرنے لگی کہ کوئی لونڈی بھی اپنے آقا کی
یوں خدمت نہیں کرتی۔دوسرے دن جب میں وہاں سے نکلنے لگاتو میں نے اس عورت سے
کہا: بڑی تعجب کی بات ہے کہ تیری جیسی حسین و جمیل عورت اپنے بد شکل شوہر
جیسے کی خدمت گذاری کرے۔تو اس خاتون نے کہا: میں نے پیامبر اسلام (ص) کی ایک
حدیث سنی ہے جس میں پیامبر(ص)نے فرمایا: ایمان کا دو حصّہ ہے جس میں سے ایک
حصہ صبر ہے دوسرا حصہ شکر ہے، اور خدا نے مجھے خوبصورتی دی ہے اس پر میں
شکر کرتی ہوں اور میرے شوہر جو بدشکل ہے جس پر میں صبر کرتی ہوں۔ یہاں تک
کہ میرا ایمان سالم اور محفوظ رہے۔اصمعی کہتا ہے اس خاتون کی مدلل باتوں سے
بہت متأثر ہوا اور عفّت اور پارسائی میں اس سے بڑھ کر کسی عورت کو نہیں
دیکھا-8
قناعت پسندی
پیامبر اسلام (ص)نے فرمایا: المرأة الصّالحة احد الکاسبین، یعنی نیک اور
شائستہ بیوی بھی کمانے والوں میں سے ایک ہے۔یعنی عورتوں کے وضائف اور ذمہ
داریوں میں سے ایک ذمہ داری اپنی خواہشات اور فرمائشات میں تعدیل پیدا کرنا
ہے۔ یعنی جتنی شوہر کی آمدنی ہوگی اس سے زیادہ خرچ کرنے سے گریز کرے۔ اس
بارے میں پیا مبر اسلام (ص)نے فرمایا: ایّما امرأة لم ترفق بزوجھا و حملتہ
علی مالا یقدر علیہ و مالا یطیق لم یقبل منھا حسنة و تلقی اللہ و ھو علیھا
غضبان-9 یعنی اگر کوئی عورت اپنے شوہر کیساتھ محبت ا نہ کر ے اور زندگی
کرنے میں شوہر پر ستم کرے ا ور اس سے بہت سخت کاموں کا مطا لبہ کرے اور اسے
سختی میں ڈال دے اور اس کی زندگی اجیرن بنا د ے تو ایسی عورتیں اگرچہ نیک
کام بھی انجام دیں تو خدا وند اس سے نیکیاں قبول نہیں کریگا۔ اور قیامت کے
دن خدا تعالی اس سے ناراضگی کی حالت میں ملاقات کریگا۔ایک عقل مند اور با
سلیقہ عورت خاندان کی خوش بختی کا باعث بنتی ہے ۔ حفاظت کرنے والے کی اہمیت
کمانے والے سے کم نہیں ہے۔ کیونکہ درآمد کی حفاظت،درآمد کی تلاش کی طرح ہے۔
حضرت زہرا نے امیرالمؤمنین (ع)سے کہا: میرے بابا نے مجھ سے کہا: کبھی علی
Aسے کسی چیز کا مطالبہ نہ کرنا ۔ہاں اگر خود لے آئے تو کوئی بات نہیں-10
بابرکت بیوی
امامصادق (ع)نے فرمایا: من برکة المرأة خفّة مؤنتھا و تیسیر ولدھا۔-11
(بابرکت بیوی وہ ہے جو کم خرچ ہو اور بچہ آسانی سے جنم دیتی ہو۔ اس کے
مقابلے میں اگر پُر خرچ ہو اور بچہ سختی سے جنم دیتی ہو تو یہ اس کا شوم
ہوگا۔پس خواتین کو چاہئے کہ جس قدر ممکن ہو سکے زیادہ با برکت بننے کی کوشش
کرنا چاہئے۔البتہ بیجا تنگ نظری اور احمقانہ کم خرچی آبرو ریزی اور بے عزتی
اور بیماری کا موجب بنتی ہے۔ گویا تنگ نظری اور قناعت میں فرق ہے۔ بات
آمدنی اور خرچ کا تناسب ہے نہ کنجوسی کی ۔کنجوس شخص بخل کی وجہ سے خاندان
والوں اور اپنے لئے بھی خرچ نہیں کرتا ۔ اور خود کو سختی میں ڈالتا ہے۔
------------1 ۔ وسائل ،ج١٤،ص ١٥۔
2 ۔ تہذیب الاحکام،ج۷،ص۳۹۹۔
3 ۔ روضة المتقین،ج٨،ص٣٧٦۔ من لا یحضرہ،ج۳،ص۴۴۲۔
4 ۔ من لا یحضرہ الفقیہ،ج٣،ص٥٥٦۔کافی ج۵، ص۵۱۰۔
5 ۔ کافی،ج٥،ص٣٢٨۔
6 ۔ بحار، ج٤٣،ص١١٧۔
7 ۔ کافی،ج ۵ ،ص ٣٢٧۔
8 ۔ ریاحین الشریعہ،ج٤۔
9 ۔ مکارم اخلاق،ص٢١٤۔
10. بحار،ج٤٣،ص٣١۔
11 ۔ وسائل، ج١٤،ص٧٨۔
بیوی کے حقوق اورشوہر کی ذمہ داریا ں
امام سجاد نے فرمایا: واما حق رعیتک بملک النکاح، فان تعلم ان اللہ
جعلھا سکناً و مستراحاً و انساً و وافقیۃ ، و کذالک کل واحد منکما یجب
ان یحمداللہ علی صاحبہ ، ویعلم ان ذلک نعمۃ منہ علیہ ووجب ان یحسن صحبۃ
نعمۃ اللہ ، ویکرمھا، ویرفق بھا، ان کان حقک علیھا اغلظ وطاعتک بھا
الزم فیما احببت وکرھت مالم تکن معصیۃ ، فان لھا حق الرحمۃ والمؤانسۃ،
وموضع السکون الیھا قضاء الذۃ التی لا بد من قضائھا وذالک عظیم ولاقوۃ
الا باللہ۔ 1
لیکن رعیت جو نکاح کے ذریعے تیرے اختیار میں آئی ہے جو تیری بیوی ہے،
کا حق تجھ پر یہ ہے کہ جان لو خداتعالی نےاسےتمھارے لئے آرام و سکون کا
سبب بنایا اور غمخوار اور محافظ بنایا اور اسی وجہ سے دونوں پر واجب
کیا ہے کہ ایک دوسرے کا شکر گذار بنیں ۔اور یہ بھی جان لے کہ یہ خدا کی
طرف سے تمھارے لئےایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اور انسان پر لازم ہے کہ وہ خدا
کی دی ہوئی نعمت کی حفاظت کرے اور اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے۔ اور اس
کا احترام کرے ، اگرچہ مرد کا حق بیوی پر زیادہ اور اس کی فرمانبرداری
بھی واجب تر ہے، کہ شوہر کی رضایت کا ہر حالت میں خیال رکھے۔مگر یہ کہ
شوہر اسے گناہ کی طرف وادار کرے، وہاں اس کی اطاعت واجب نہیں ہے۔ بلکہ
وہاں اس کی مخالفت کرنی چاہئے ۔ اس لئے کہ بیوی رحم ، پیار ومحبت اور
حق سکونت کا زیادہ سزاوارتر ہے، کہ ان کے وسیلے سے لذت اٹھانے پرمجبور
ہو۔اور یہ خدا کا بہت بڑاحکم ہے۔
امانت الہی کی حفاظت
اسلامی روایات کے مطابق عورت خدا کی امانت ہے جسے مردوں کے ہاتھوں سپرد
کیا گیا ہے اس کیساتھ معمولی بے توجہی اور خطا امانت الہی میں خیانت
محسوب ہوگی۔لذا خدا کی امانت اورنعمت عظمی کی حفاظت میں زیادہ سے زیادہ
کوشش کرے تاکہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں مورد عذاب قرار نہ پائے رسول
گرامی7نے جب اپنی اکلوتی بیٹی فاطمہ(س) کو علی (ع) کے گھر بھیجا تو اپنے
داماد علی ابن طالب(ع)کو نصیحت کی: یا علی! میری بیٹی تیرے ہاتھوں
امانت ہے۔یہ بات تاریخ میں بھی ثبت ہے۔ اس کے علاوہ خود علی (ع) کے بیانات
سے بھی ثابت ہے۔ جیسا کہ جب آپ فاطمہ Iکو دفن کررہے تھے تو رسولخدا (ص)کے
ہاتھوں میں اس ستم دیدہ امانت کو تحویل دیتے ہوئے فریاد کررہے تھے:
فلقد استرجعت الودیعة و اخذت الرھینة امّا حزنی فسر-2۔
اے پیامبر اعظم7! فاطمہ ؛ خدا اور رسول کی ا مانت تھی، جسے تو نے میرے
حوالے کردئے تھے واپس لوٹا رہاہوں ، لیکن آج کے بعد ہمیشہ مغموم رہوں
گا۔اور
یہ آنکھیں کبھی نہیں سوئیں گی۔
رسولخدا (ص)نے فرمایا: ہر عورت اپنے شوہر کے برابر نفع اور نقصان کی مالک
تو نہیں لیکن یہ بات جان لو کہ یہ لوگ اپنے شوہروں کے ہاتھوں خدا کی
امانت ہیں اس لئے مرد حق نہیں رکھتا کہ انہیں کوئی ضرر یا نقصان
پہنچائے اور ان کے حقوق کو پامال کرے3
عورت کے حقوق اورخدا کی سفارش
جب رسولخدا (ص) سے عورت کے حقوق کے بارے میں سوال کیا گیا: فَمَا لِلنِّسَاءِ
عَلَى الرِّجَالِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص أَخْبَرَنِي أَخِي جَبْرَئِيلُ
وَ لَمْ يَزَلْ يُوصِينِي بِالنِّسَاءِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنْ لَا يَحِلَّ
لِزَوْجِهَا أَنْ يَقُولَ لَهَا أُفٍّ يَا مُحَمَّدُ اتَّقُوا اللَّهَ
عَزَّ وَ جَلَّ فِي النِّسَاءِ فَإِنَّهُنَّ عَوَانٍ بَيْنَ أَيْدِيكُمْ
أَخَذْتُمُوهُنَّ عَلَى أَمَانَاتِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ -4 آپ 7نے
فرمایا: میرے بھائی جبرئیلA نے خدا کی طرف سے اس قدر عورتوں کے حقوق کے
بارے میں سفارش کی کہ میں گمان کرنے لگا کہ ان کیلئے اف کہنا بھی جائز نہ
ہو۔ اور مجھ سے کہا اے محمد خدا سے ڈرو اور ان کے ساتھ نرمی سے پیش
آو،کیونکہ عورتیں ہمارے حکم کی تابع ہیں اور امانت الہی کو اپنے ہاتھوں میں
لیا ہے۔اور ان کی جان اور ناموس پر مسلط ہو ئے ہیں ۔ان کے حق میں نیکی کے
علاوہ کوئی کام نہ کرو۔ پیامبر اسلام (ص)کا یہ فرمان خواتین عالم کے حقوق کی
حمایت کا اعلان ہے۔ اور انہیں وای کہنے سے بھی منع کرناایسا کلام ہے جس کی
مثال اور کسی انسانی معاشرے میں نہیں پایا جاتا۔ عفو در گذر بیوی کا حق:
اسحا ق بن عمار کہتا ہے کہ امام صادق کی خدمت میں عرض کیا کہ عورتوں کاحق
مردوں کے ذمہ کیا ہے؟ تو فرمایا: اسے کھانا دو، لباس پہناؤ اور اگر کوئی
خطا کا
مرتکب ہوجائے تو اسے معاف کرو۔ 5
بداخلاق بیوی اور صبور شوہر
حضرت ہود پیغمبر (ع)کی بیوی بہت بداخلاق تھی آنحضرت کو بہت تنگ کرتی تھی
پھر بھی آپ اس کیلئے دعائیں کردیتے تھے۔ وجہ پوچھی تو فرمایا: خدا
تعالی کسی بھی مؤمن کو خلق نہیں کرتا مگر یہ کہ اس کا کوئی نہ کوئی
دشمن ضرور ہوتا ہے جواسے ہمیشہ اذیت اور آذار پہنچاتا رہتا ہے، اور
میرا دشمن میری اپنی بیوی ہے۔ اور اپنا دشمن اپنے کنٹرول میں رہنا بہتر
ہے اس سے کہ میں اس کے کنٹرول اور اختیار میں گرفتارہوجاؤں-6 رسول اللہ
7نے فرمایا : أَلَا وَ مَنْ صَبَرَ عَلَى خُلُقِ امْرَأَةٍ سَيِّئَةِ
الْخُلُقِ وَ احْتَسَبَ فِي ذَلِكَ الْأَجْرَ أَعْطَاهُ اللَّهُ
ثَوَابَ الشَّاكِرِين-7
یعنی جو بھی مرد اپنی بداخلاق بیوی کی بداخلاقی کو رضایت خدا کے خاطر
تحمّل کرے تو اسے خدا وند شاکرین کا ثواب عنایت کرتا ہے۔
امام باقر سے منقول ہے: من احتمل من امرٍ¬أتہ ولو کلمۃ واحدۃ ، اعتق
اللہ رقبتہ من النار، و اوجب اللہ لہ الجنۃ ، وکتب لہ ماتی الف حسنۃ ،
ومحی عنہ ماتی الف سیئۃ ، ورفع لہ ماتی الف درجۃ ، وکتب اللہ لہ بکل
شعرۃ علی بدنہ ، عبادۃ سنۃ-8
کتاب مکارم الاخلاق سے نقل کیا ہے کہ امام باقر فرماتے ہیں کہ جو بھی
اپنی بد اخلاق بیوی کی اذیت اور آزار کو برداشت کرے اور صبر کا مظاہرہ
کرے تو قیامت کے دن اسے خداوند عالم جہنم کی آگ سے نجات دلائے گا اور
بہشت اس پر واجب کردے گا۔ اور اس کے نامہ اعمال میں دولاکھ حسنہ لکھ
دیگا اور دولاکھ برائی کو مٹادے گا۔ اور دولاکھ درجہ اس کا بلند کرے گا
اور اس کے بدن پر موجود ہربال کے برابر ایک سا ل کی عبادت کا ثواب لکھ
دے گا۔
یہ مرد جہنمی ہے
امام صادق(ع) نے فرمایا: حرّمت الجّنة علی الدیّوث-9 دیّوث پر بہشت حرام
ہے۔ دیّوث اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنی بیوی یا ناموس کا دوسروں کیساتھ
آمیزش پر راضی ہو تاکہ اس طرح دولت جمع کرے۔ امام باقر (ع)نے فرمایا: کچھ
اسیروں کو پیامبر(ص) کی خدمت میں حاضر کئے گئے تو آپ نے سوائے ایک کے
باقی سب کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ اس مرد نے کہا: کیوں صرف مجھے آزاد
کیا؟آپ نے فرمایا:جبرئیل امین نے مجھے خدا کی طرف سے خبر دی ہے کہ تیرے
اندر پانچ خصوصیات موجود ہیں جو خدا اور رسو ل کو پسند ہیں:
تو غیر ت مند ہو ،سخا و ت مند ہو۔ خو ش خلا ق ہو، سچے ہواور شجاع ہو۔
جب اس شخص نے یہ فر ما ن سنا تو مسلما ن ہوا اور اسلا م کو پسند یدہ
دین چن لیا اور حضور7 کے ساتھ ساتھ جھاد کر تے ہو ئے بد ر جۂ شہا دت
فا ئز ہو ئے ۔
دنیا و آخر ت کی خیر و خو بی چا ر چیز و ں میں
امام حسین (ع) نے اپنے بابا علی (ع)سے انہو ں نے رسو لخدا (ص)سےروایت کی ہے کہ
آپ نے فر ما یا: جس شخص کو بھی اس دنیا میں چار چیز یں عطا ہو ئیں سمجھ
لینا کہ دنیا اور آخر ت کی خیر و خو بی اسے عطا ہو ئی ہیں ۔
1. قو یٰ اور پرہیز گاری جو اسے حرا م چیز وں سے بچائے ۔
2. اچھا اخلا ق کہ اس کے سا تھ لو گو ں میں پرسکون اور باعزت زند گی
گزارے ۔
3. صبر اور برد بار ی کہ جس کے ذریعے لو گو ں کی نا دانی کو دور کرتا
ہے۔
4. نیک اور شائستہ بیوی جو اسے دین اور دنیا دونوں میں مددگار ثابت ہو۔
شوہر پر بیوی کے حقوق بہت زیادہ ہے۔ ان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہے:
------------1 ۔ حقوق اسلامی، ص۱۲۹۔
2 ۔ نھج البلاغہ،خ١٩٣۔
3 ۔ مستدرک الوسائل،ج٢،ص٥٥١۔
4 ۔ مستدرک الوسائل،ج۱۴، ص۲۵۲۔
5 ۔ وسائل الشیعہ۔ج١٥،ص٢٢٣۔
6 ۔ سفینہ البحار، باب زوج۔
7 ۔ من لا یحضرہ الفقیہ،ج۴، ص۱۵۔
8 ۔ حقوق اسلامی، ص۱۳۰۔
9 ۔ ھمان۔
اچھے اخلا ق اور کر دار سے پیش آنا
اسلام نے زند گی کے تما م شعبو ں میں انسا ن کے ذمے کچھ حقو ق واجب
کردیے ہیں ۔ جنہیں اسلام کے علا وہ کسی دین یا مذہب نے انہیں نہیں دیا۔
گذشتہ مذاہب میں عو رتوں کے سا تھ بہت برا سلوک ہو تا رہا ۔ جہا ں عو
رت کو گذشتہ مذا ہب میں انسان نہیں سمجھتے تھے وہا ں اسلا م نے انکی
عزت افزائی اور احتر م کو واجب قرار دیتے ہو ئے فر مایا: يَا أَيُّهَا
الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَرِثُواْ النِّسَاء
كَرْهًا وَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُواْ بِبَعْضِ مَا
آتَيْتُمُوهُنَّ إِلاَّ أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ
وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَن
تَكْرَهُواْ شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا-1 . اے
ایمان والو تمہارے لئے جائز نہیں ہے کہ جبرا عورتوں کے وارث بن جاؤ اور
خبردار انہیں منع بھی نہ کرو کہ جو کچھ ان کو دے دیا ہے اس کا کچھ حصہّ
لے لو مگر یہ کہ واضح طور پر بدکاری کریں اور ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرو
اب اگر تم انہیں ناپسند بھی کرتے ہو تو ہوسکتا ہے کہ تم کسی چیز کو
ناپسند کرتے ہو اور خدا اسی میں خیر کثیر قرار دے ۔
عن شھاب بن عبدریہ قال : قلت لابیعبداللہ ما حق المرئة علی زوجھا؟ قال
:یسدّ جوعھا و یستر عورتھا ولا یقبح لھا وجھاً فاذا فعل ذالک فقد واللہ
ادّی الیھاحقھا-2
شھاب بن عبدریہ سے روایت ہے کہ میں نے امامصادق (ع) سے جب پوچھا
مردوں پر عورتوں کے کیا حقوق ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: ان کی بھوک کو دور
کرے لباس پہنائے اور بکھرے ہوئے چہرے کیساتھ پیش نہ آئے ، جب ایسا کیا
تو خدا کی قسم اس کا حق ادا کیا۔ کہ یعنی روٹی کپڑا اور مکان کے علاوہ
خوش روئی اور اخلاق سے پیش آنا بھی عورتوں کے حقوق میں سے ہے۔ اس سے
پتہ چلتا ہے کہ محبت و مہربانی سے پیش آنا بھی ان کا حق ہے۔ ورنہ اذیت
وآزار اور گالی گلوچ تو سب مسلمان پرحرام ہے۔ کہ رسول اللہ(ص)نے فرمایا:
المسلم من سلم الناس من لسانہ و یدہ۔ یعنی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور
ہاتھوں سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں۔اور فرمایا:اوصانی جبرآئیل بالمرئة
حتّی ظننت انّہ لا ینبغی طلاقھا-3 عورتوں کے حقوق کے بارے میں مجھے
جبرائیل نے اس قدر تاکید کی کہ میں 'گمان کرنے لگا کہ طلاق دینا حرام
ہے۔
حق سکو نت
قرآن نے ان کی رہا ئش کامسئلہ بھی حل کر تے ہو ئے فرمایا:
أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا
تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ وَإِن كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ
فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ فَإِنْ
أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ وَأْتَمِرُوا بَيْنَكُم
بِمَعْرُوفٍ وَإِن تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرَى-4 اور ان
مطلقات کو سکونت دو جیسی طاقت تم رکھتے ہو اور انہیں اذیت مت دو کہ اس
طرح ان پر تنگی کرو اور اگر حاملہ ہوں تو ان پر اس وقت تک انفاق کرو جب
تک وضع حمل نہ ہوجائےپھر اگر وہ تمھارے بچوں کو دودھ پلائیں تو انھیں
ان کی اجرت دو اور اسے آپس میں نیکی کے ساتھ طے کرو اور اگر آپس میں
کشاکش ہوجائے تو دوسری عورت کو دودھ پلانے کا موقع دو۔
حق نفقہ
قرآن مجید اعراب جاہلیت کے بر خلاف کہ جو نہ صرف خواتین کو نان و نفقہ
نہیں
دیتے تھے بلکہ بھوک اور پیاس کی خوف سے انھیں زندہ درگور کیا کرتے تھے،
حکم دیتا ہے کہ عورت کو نان و نفقہ دیا کرو : الرِّجَالُ قَوَّامُونَ
عَلَى النِّسَاء بِمَا فَضَّلَ اللّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا
أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ
لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللّهُ وَاللاَّتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ
فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ
أَطَعْنَكُمْ فَلاَ تَبْغُواْ عَلَيْهِنَّ سَبِيلاً إِنَّ اللّهَ كَانَ
عَلِيًّا كَبِيرًا۔ 5
مرد عورتوں کے حاکم اور نگران ہیں ان فضیلتوں کی بنا پر جو خدا نے بعض
کو بعض پر دی ہیں اور اس بنا پر کہ انھوں نے عورتوں پر اپنا مال خرچ
کیا ہے ۔ پس نیک عورتیں وہی ہیں جو شوہروں کی اطاعت کرنے والی اور ان
کی غیبت میں ان چیزوں کی حفاظت کرنے والی ہیں جن کی خدا نے حفاظت چاہی
ہے اور جن عورتوں کی نافرمانی کا خطرہ ہے انہیں موعظہ کرو ، انہیں خواب
گاہ میں الگ کرو اور مارو اور پھر اطاعت کرنے لگیں تو کوئی زیادتی کی
راہ تلاش نہ کرو کہ خدا بہت بلند اور بزرگ ہے۔
نفقہ دینے کا ثواب
قال الصادق : قال رسول اللہ ما من عبد یکسب ثم ینفق علیٰ عیالہ ، الا
اعطاہ اللہ بکل درہم ینفق علیٰ عیالہ سبعمائۃ ضعف-6 رسول اللہ نے
فرمایا : نہیں ہے کوئی مشقت برداشت کرکے اپنے اہل وعیال پر خرچ کرنے
والا مگر یہ کہ خدا وندمتعال ایک ایک درہم یا روپے کے بدلے میں اسے سات
سوگنا زیادہ عطا کرتا ہے ۔
حق مہریہ
قرآن مجید حکم دیتا ہے و آتوا النساء صدقاتھنّ نحلة۔ کہ اپنی بیویوں کا
مہریہ ہدیہ کے طور پر انھیں دیا کرو -7
------------1 ۔ سورہ نساء ۱۹۔
2 ۔ کافی،ج٥،ص٥١١۔
3 ۔ کافی۔ 4 ۔ سورہ طلاق ۶
5 ۔ نساء ۳۴۔
6 ۔ حقوق اسلامی، ص۱۳۱۔
7 ۔ نساء ۴۔
|