نام كتاب: استعاذه (الله تعالي كے حضور پناه طلبي)
منصنف: شهيد محراب حضرت آيت الله سيد عبد الحسين دستغيب شيرازي
مترجم: سيد غضنفر حسين البخاري
تعداد: 5000
طع اول: محرم الحرام 1207 هجري
ناشر: سازمان تبليغات اسلامي روابط بين المللي
حجم: 16+21
كاتب: سيد رفيع كاملي كشميري
مطبع: چهاپخانه سپهر


بسم الله الرحمن ارحيم

مقدمه:
حقيقي پنا صرف وهي دے سكتاهے جو خود نجات يافته هو.
حضرت شيهد محراب جناب آيت الله دستغيب كي يه بے مثال تصنيف استعاذه كے عنوان سے پيش خدمت هے جيسا كه اس كے نام سے ظاهر هے شيطان لعين كے شر سے خدا ئے تعالي كے حضور پناه طلبي اس كا موضوع هے بے مثال تجره علمي اور آيات و اخبار پر كامل دسترس كے بل پر اهل بيت اطهار(ع) كي روايات صحيحه كے حوالوں سے آپ نے صرف اسي ايك موضوع پر پينتيس مجالس ارشاد فرمائي هيں استعاذه كي حقيقت و اهميت اس كے معني و مفهوم اور اس كے اركان پنجگانه تقوي،تذكر،توكل،اخلاص اور تضرع پر اپ كے يه ايمان افروز خطبات بڑے دلچسپ اور فكر انگيز هيں اور بهت سے بصيرت افروز اور روشن نكات كے ححامل هيں استدلال ميں آپ نے آيات و اخباار و حكايات سے بكمال خوابي و خوش اسلوبي استفاده كيا هے اور حقائق كو بڑي سليس اور ساده زبان ميں پوري تفصيل سے ايسے انداز ميں بيان فرمايا هے كه هر ذهن بآساني سمجھ لے.
ليكن جو حقيقت خاص طور پر قابل توجه اور غور طلب هے وه يه هے كه آپ كس طرح اور كيونكر اپني زندگي ميں اس قدر مرجع خلائق تھے كه بوقت شهادت بھي اور اس كے بعد بھي دنياآپ كے لئے سوگ نشين هوئي اور سب نے آپ كے فراق ميں نوحه خواني- اور آپ كي عظيم تصنيفات كو پھول كي پتيوں كي صورت خريدا اور دوسروں كو هديه كيا.در اصل آپ خود صحيح معنوں ميں استعاذه پر عمل پيرا تھے عمر بھر آپ نے نفس اماره اور هوائے نفساني كے خلاف مجاهده كيا اور ملكات فاضله كے حصول كے لئے جدوجهد كي،شيطان ملعون كے ساتھ طولاني جهاد ميں مصروف رهے اور بالآخر اس پر فتحياب هوئے يهي وجه هے كه آپ نهايت هي دل نشين اور موثرانداز ميں شيطان خبيث كي شناخت كرواتے هيں اور انسان كو اس كے دام تزوير سے رهائي پانے كي كامياب تدابي راو خود كو اس كے شرسے محفوظ ركھنے كے لئےالله تعال كي پناه طلب كرنے كے مفصل طرق و اطوار بتاتے هيں يه كتاب اس مقدس بزرگ كے متبرك ترين آثار ميں يے هے جسے خاص و عام نے متعدد جريدوں اور مجلوں ميں بے دريغ خراج عقيدت پيش كيا هے اس كتاب كے مضاميں فكر انگيز روايات اور دلكش حكايات سے مزين و مرضع ميں.ان كي وجه سے قاري كو تھكن كا احساس نهيں هوتا بلكه اس كے انهماك و اشتياق ميں اضافه هوجاتاهے.
مجھے خوب ياد هے كه ايك دفعه جب ايك فلم بردار اپ كي كسي كتاب كے آفسٹ كے لئے اس كي فلم بنانے لگا تو اس كے مطالعه ميں كھوگيا خود اس كا بيان هے كه: مطالعے كخ دوران دفعتاً مجھے احساس هوا كه سٹڈيوبند كرنے كا وقت هوگيا هے در آنحاليكه ميں نے ايك صفحے كي بھي فلم نهيں لي تھي. اس كے بعد بھي كبھي دوران فلم بندي ميري نظر كسي مضمون پر پڑگئي تو وهيں تك گئي اور پھر مجھے احساس نه رها كه ميںن كتني دير اس كے مطالعے ميں محور ها.
اےت رب غفار!ان كي روح كو اپني رحمت كے سايه ميں ركھ اور ان كے نواسه عزيز كي روح كو ان كے جمله شهيد رفقاء كے ساتھ غريق رحمت فرما-
5/1360 شمسي هجري
مطابق 24/2/198 ميلادي
سيد محمد هاشم دستغيب