انسانی رفعت
علامہ سید علی نقی نقوی(نقن)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصلواة والسلام علی سیدالانبیآء والمرسلین والہ الطاھرین

انسانی رفعت
لَقَدْ خَلَقْناَ الْاِنْساَنَ فِی اَحْسَنِ تَقْوِیْم(سورہ تین ۴)
یہ قرآنی آیت انسان کے اشرف المخلوقات ھونے کی دلیل ھے چونکہ دنیا نے انسان کے صحیح مقام کو نہ سمجھا، اس لئے اس کے کردار کا بھی صحیح تعین نہ ھو سکا اور نقطھٴ نگاہ میں بلندی پیدا نہ ھو سکی۔
ظاھر ھے کہ ھمیشہ مقصد ذریعہ سے اونچا ھوتا ھے جو شئے پست ھو گی اس کا مصرف اسی نسبت سے پست ھو گا اور جو چیز بلند ھو گی اس کا مقصد اسی لحاظ سے بلند تر ھو گا
اگر انسان اپنے درجہ و مقام کو سمجہ لے تو اپنے مقصدِ ھستی اور مصرفِ زندگی کی بلندی کا احساس ھو جائے گا اور یھی اس کی بلندکرداری کی ضمانت ھو گی۔ پھر اسی ایک چیز کے سمجہ لینے سے اس کی حقیقی ترقی اور تنزلی کا سمجھنا بھی آسان ھو جائے گا اس لئے کہ ھر شے کی ترقی اس خصوصیت امتیازی کے ارتقاء کے ساتھ ھے جو اس شے کا جوھر خصوصی ھے۔
انسان اگر تمام دوسری کائنات سے الگ کوئی شے ھوتا تو اس کا سمجھنا آسان ھوتا مگر یہ تو باقی کائنات کے ساتھ بھت سی مشترک حیثیتوں میں متحد ھے یہ جسم رکھتا ھے اس اعتبار سے پتھروں کے ساتھ حصہ دار ھے۔ نشوونما رکھتا ھے اس لحاظ سے درختوں کے ساتھ ھم مرتبہ ھے۔ احساس و حرکت ارادی رکھتا ھے اس حیثیت سے حیوانوں میں شامل ھے اور پھر کوئی خاص جوھر رکھتا ھے جس کی بدولت یہ انسان ھے اور ان سب سے ممتاز ھے۔
انسان کو اگر ان پھلوؤں کے لحاظ سے دیکھا جائے جو دوسروں کے ساتھ مشترک ھیں تو اسے اشرف المخلوقات سمجھنا ھی غلط معلوم ھو گا اس لئے کہ ان تمام چیزوں میں وہ دوسروں سے کم نظر آئے گا۔ بلند محسوس بھی نہ ھو گا۔ جسمیت میں وہ پھاڑوں کے برابر نھیں ھے۔ نشوونما میں درختوں کے مثل نھیں۔ قوت سامعھ، باصرہ یا شامہ اکثر حیوانات کی انسان سے بھت زیادہ طاقتور ھے معلوم ھوتا ھے کہ اس کا برتر ھونا ان مشترک جھات کے لحاظ سے نھیں ھے بلکہ اس کی بلندی اس مخصوص جوھر کے لحاظ سے ھے جو اس میں ھے اور کسی دوسرے میں نھیں ھے وہ کیا چیز ھوسکتی ھے؟ علم اور عمل۔

انسانی علم و عمل کی خصوصیت:
علم کے معنی اگر بس جاننے کے ھیں اور یھی اس دور میں معیار علم سمجھا جاتا ھے دنیا کے ممالک کی وسعتیں اور مردم شماریاں جان لیں۔ پھاڑوں کی اونچائیاں اور دریاؤں کی گھرائیاں جان لیں۔ سیاروں کے فاصلے زمین سے اور ان کی پیمائش معلوم کر لیں نباتات کے خواص او رپتھروں کی کیفیات معلوم کر لیں۔
اگر یھی علم بمعنی ”دانستن“ انسان کا خاص جوھر ھے تو کون کھتا ھے کہ حیوان علم سے بے بھرہ ھے۔ حیوان بھی بھت کچھ جانتا ھے اپنے رھنے کی جگہ کو جانتا ھے اپنے کھانے کی غذا کو جانتا ھے۔ اپنے غذا دینے والے کو پھچانتا ھے۔ اپنے حفظان صحت کے اصول جانتا ھے۔ اسی لئے جنگل میں کوئی جانور بیمار نھیں پڑتا۔ بے شک انسانوں کے غیرطبعی ماحول میں آ کر وہ بیمار پڑنے لگتا ھے۔ اسی طرح اگر عمل کے معنی بس کچھ نہ کچھ کام کرنے کے ھیں تو حیوان بھی عمل سے خالی نھیں ھے۔ وہ بقدر امکان اپنی غذا کے حصول کے ذرائع مھیا کرتا ھے جو ا س کے مقصد میں سدراہ ھو اسے دفع کرتا ھے اور اپنے حریف سے بقدر امکان مقابلہ کرتا ھے۔
پھر آخر وہ علم اور عمل جو انسان سے مخصوص ھے کیا ھے۔؟
ھم جھاں تک سمجھ سکے ھیں علم کے شعبہ میں انسان کا امتیاز خصوصی دو باتوں سے ھے۔ ایک یہ کہ حیوان کا علم محسوسات کے دائرہ میں اسیر ھے پھلے جو میں نے کھا کہ وہ اپنے غذا دینے والے کو پھچانتا ھے یہ پورے طور پر درست نھیں ھے حقیقت میں وہ پھچانتا ھے جس کے ھاتہ سے غذا پاتا ھے جو اصل غذا کا دینے والا ھے اگر اس کے سامنے نھیں آتا اور انپے ھاتہ سے غذا نھیں دیتا تو وہ اسے نھیں پھچانے گا۔ اب اگر انسان کا علم بھی ایسا ھو کہ جس رئیس سے ملا اسی کو ولی نعمت جان لیا۔ جس نے تنخواہ دی اسی کو خدا سمجھ لیا تو پھر حیوان اور انسان میں کوئی فرق نھیں۔
انسان کی خصوصیت یہ ھے کہ وہ عالم احساس و مشاھدہ کے ماوراء اپنی عقل کی مدد سے کچھ حقیقتوں کا پتا لگاتا اور ان کا تیقن کرتا ھے اور وھی ایمان بالغیب کا سرچشمہ ھوتا ھے۔
دوسری بات یہ ھے کہ حیوانی علم محدود ھے یعنی جتنا اسے واھب العطا یا کی طرف سے مل گیا بس اتنا ھی ھے۔ شھد کی مکھی بس مسدس خانے بنانا جانتی ھے اور وہ بھترین بناتی ھے کوئی مھندس بغیر پرکار کی مدد کے اتنے متوازن خانے نھیں بناتا لیکن جو شکل اس کی فطرت میں داخل ھے بس وھی بنا سکتی ھے۔ مربع و مثلث وغیرہ نھیں بنا سکتی اسی طرح تارِ عنکبوت بے نظیر صنعت ھے مگر اس کی شکل بدلنا اس کے امکان میں نھیں ھے لیکن انسانی علم؟ اس کا کام ھے معلومات سے مجھولات کا پتا لگانا۔ یہ اپنے علم میں برابر ترقی کرتا رھتا ھے۔
(اس کا بیان رسائل ”اسلام کی حکیمانہ زندگی“ اور ”زندگی کا حکیمانہ تصور“ میں تفصیل کے ساتھ ھوا ھے)
عمل کی منزل میں انسان کی خاص صفت یہ ھے کہ حیوان کے افعال بتقاضائے طبیعت ھوتے ھیں۔ اس سے بحث نھیں کہ بامحل ھیں یا بے محل۔ مگر انسان میں سوجہ بوجھ۔ حق اور ناحق کا امتیاز اور صحیح و غلط میں امتیاز کی قوت ھے اور اسی اعتبار سے مختلف افراد کی انسانیت کے مدارج قائم ھوتے ھیں۔
اکثر افراد ایسے ھیں جن کی صورت انسان کی ھے مگر کردار حیوانی ھے وہ یہ ھیں۔ جن کے افعال طبیعت کے تقاضے سے ھوتے ھیں۔ ایک شخص کی طبیعت میں غیرمعمولی غصہ ھے وہ بارود کا خزانہ ھے ذرا سی بات پر مشتعل ھو جاتا ھے۔ اس سے اس جوش غضب کے ماتحت کبھی ایسے افعال بھی ممکن ھے وقوع میں آ جائیں جو نتائج کے اعتبار سے ممدوح و مستحسن ھوں جیسے مظلوم کی حمایت میں اسے غصہ آ جائے اور یہ بڑہ کر ظالم کو دفعہ کر دے مگر چونکہ اس کا غیض و غضب بتقاضائے طبیعت ھے اس لئے دوسرے وقت اس شخص سے خود کسی بے گناہ پر ظلم ھو گا اور یہ اپنے غصہ کی وجہ سے ایسے اقدامات کر ڈالے گا جو عقلاً و شرعاً کسی صورت سے بھی ممدوح و مستحسن نھیں ھو سکتے۔ اسی طرح ایک آدمی ھے گیلی مٹی کا بنا ھوا جسے کبھی غصہ ھی نھیں آتا۔ یہ بعض اوقات ایسے محل پر سکوت کرے گا جھاں کوئی اقدام بڑے فتنہ و فساد اوربرے نتائج کا باعث ھو اس وقت سب اس کی تعریف کریں گے کہ کیا کھنا۔ اس نے اپنے حلم وتحمل سے کتنے بڑے فساد کو روک لیا۔ لیکن چونکہ یہ سکوت و سکون کسی احساس فرض کا نتیجہ نھیں بلکہ طبیعت کا تقاضا ھے۔ اس لئے یھی شخص ایسے مواقع پر بھی سکوت کر جائے گا جھاں خاموشی ظلم و تشدد کی ھمت افزائی کا سبب ھے یہ انسانی کردار نھیں ھے۔

انسانی کردار کی بلندی
انسان کی بلندی عقل و تدبر کے استعمال اور فرض شناسی میں ھے اس صفت کے کمال اور نقص سے اس کی بلندی اور پستی کے حدود متعین ھوتے ھیں یھی وہ تقویٰ ھے جسے قرآن نے معیارِ فضلیت بشری قرار دیا ھے۔ ان اکرمکم عنداللّٰہ اتقاکم (یعنی) ”تم میں زیادہ صاحب عزت وہ ھے جو سب سے زیادہ پرھیزگار ھو۔ “
فرائض ھمیشہ ایک ھی شکل و صورت پر نھیں ھوتے کوئی بڑے سے بڑا حکیم و دانشمند فرائض کی کوئی ایسی فھرست نھیں مرتب کرسکتا جو ھر شخص کے لئے ھر حال میں قابل ادائی ھو۔ سچ بولنے ھی کو لیجئے۔ یہ بے شک انسانی فرض ھے مگر کیا ھر موقع پر؟ مثال کے طور پر کوئی ظالم شمشیر بکف کسی مظلوم کے تعاقب میں ھو، وہ اس کی نظر بچا کر ھماری آنکھوں کے سامنے کھیں مخفی ھو جائے۔ اب وہ ظالم ھم سے پوچھے کہ کیا تم نے دیکھا ھے وہ کس طرف گیا ھے؟ اب کیا ھمیں سچ بولنا چاھئے؟ یقیناً اگر ھم نے سچ سچ کھہ دیا تو ظالم کی تلوار ھو گی اور مظلوم کا گلا ھو گا، اور اس خونِ ناحق کی ذمہ داری ھمارے سچ پر ھو گی۔
متعدد گناھان کبیرہ ھیں جو سچ سچ کھنے ھی سے وقوع میں آتے ھیں مثلاً نمامی یعنی لگائی بجھائی کرنا۔ چغلی کھانا۔ یہ سچ ھی ھوتا ھے جھوٹ نھیں ھوتا مگر وہ بھت بڑا گناہ ھے۔ اسی طرح غیبت گناہ کبیرہ ھے۔ وہ بھی سچ ھی کھنے سے ھوتی ھے معلوم ھوا کہ ھر صورت میں سچ کھنا فریضھٴ انسانی نھیں ھے۔
اسی طرح امانت واپس کرنا۔ ضرور انسانی فریضہ ھے مگر اسی صورت میں کہ جب کوئی ظالم مظلوم کے قتل کا ارادہ رکھتا ھو اگر اس نے اپنی تلوار اتفاق سے ھمارے پاس بطور امانت رکھوائی ھو۔ اب اس وقت وہ اپنی تلوار ھم سے مانگے تو ھرگز ھم کو نہ دینا چاھئے ورنہ ھم شریکِ قتل ھوں گے۔
مذھبی حیثیت سے عبادات میں سب سے اھم نماز ھے لیکن اگر کوئی ڈوبتا رھا ھو او راس کا بچانا نماز توڑنے پر موقوف ھو تو نماز کاتوڑ دینا واجب ھو گا۔ اگر وہ ڈوب گیا اور نماز پڑھتے رھے تو یہ نماز بارگاہ الٰھی سے مسترد ھو جائے گی۔ کہ میرا بندہ ڈوب گیا اور تم نماز پڑھتے رھے مجھے ایسی نماز نھیں چاھئے۔ معلوم ھوا کہ فرائض اور عبادات باعتبارحالات و واقعات بدلتے رھتے ھیں۔ فرائض کی یھی نگھداشت جوھرِ انسانیت ھے۔

انسانِ کامل کی شان:
فرض شناس انسان کے افعال بتقاضائے طبیعت نھیں ھوتے بلکہ بتقاضائے فرض ھوتے ھیں اس کا عمل انتھاء پسندی کے دو نقطوں کے درمیان ھوتا ھے اسی کا نام عدل و اعتدال ھے، جو معیار حسنِ اخلاق ھے اور چونکہ عام افراد بشر عموماً طبیعتوں کے تقاضوں میں اسیر ھوتے ھیں اور افراط و تفریط میں مبتلاء اس لئے بلند افراد انسان کے خلاف عموماً دو طرف سے اعتراضات ھوتے ھیں۔ ایک ادھر والے انتھاپسندوں کی طرف سے اور دوسرے ادھر والے انتھاپسندوں کی جانب سے مگر وہ کبھی ان اعتراض کی پروا نھیں کرتے انھیں تو فرائض کے ادا کرنے سے مطلب ھوتا ھے۔
انسان کامل کے اعمال سطحی نگاہ رکھنے والوں کو بسااوقات متضاد نظر آتے ھیں مگر ان میں حقیقتاً کوئی تضاد نھیں ھوتا۔ بلکہ وہ مختلف حالات کے جداگانہ تقاضے ھوتے ھیں جو اس کے افعال میں ظاھر ھوتے ھیں۔
اس کے لئے ھمارے سامنے چودہ سیرتیں موجود ھیں جن میں سب سے مقدم حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی (ص)کی سیرتِ پاک ھے۔

معراجِ انسانیت سیرتِ حضرت خاتم الانبیاء کی روشنی میں
آپ چالیس برس کی عمر میں مبعوث برسالت ھوئے۔ ۱۳ سال ھجرت کے قبل مکہ کی زندگی ھے اور دس سال بعد ھجرت مدینہ کی زندگی۔
یہ تینوں دور بالکل الگ الگ کیفیت رکھتے ھیں جن میں سے ھر دور بالکل یک رنگ ھے۔ کسی تلون اور غیرمستقل مزاجی کا مظھر نھیں ھے مگر وہ سب دور آپس میں بھت مختلف ھیں۔
پھلے چالیس برس کی مدت میں زبان بالکل خاموش اور صرف کردار کے جوھر نمایاں یھی آپ کی سچائی کا ایک نفسیاتی ثبوت ھے۔ کیونکہ جو غلط دعویدار ھوتے ھیں ان کے بیانات و اظھارات کی رفتار کو دیکھاجائے تو محسوس ھو گا کہ وھاں پھلے ان کے دل و دماغ میں تصور آتا ھے کہ ھمیں کوئی دعویٰ کرنا چاھئے مگر انھیں ھمت نھیں ھوتی اس لئے وہ کچھ مشتبہ الفاظ کھتے ھیں جن سے کبھی سننے والوں کو وحشت ھوتی ھے اور کبھی اطمینان پھر وہ رفتہ رفتہ قدم آگے بڑھاتے ھیں پھلے کوئی ایسا دعویٰ کرتے ھیں جس کو تاویلات کا لباس پھنا کر رائے عامہ کے مطابق بنایا جا سکے یا جس کی حقیقت کو صرف خاص خاص لوگ سمجھ سکیں۔ اور عام افراد محسوس نہ کریں۔ جب جھجھک نکل جاتی ھے تو پھر جی کڑا کرکے کھل کر دعویٰ کر دیتے ھیں۔ اس کی قریبی مثالیں علی محمد باب اور غلام احمد قادیانی میں بھت آسانی سے تلاش کی جا سکتی ھیں۔
حضرت پیغمبر اسلام کی زبان سے چالیس برس تک کوئی لفظ ایسی نھیں نکلی جس سے لوگ ادعائے رسالت کا توھم بھی کر سکتے یا کوئی بے چینی اس حلقہ میں پیدا ھوتی۔ غلط سے غلط روایت بھی ایسی نھیں جو بتائے کہ کفار نے کسی آپ کی لفظ سے ایسے دعویٰ کا احساس کیا ھو جس پر ان میں کوئی برھمی پیدا ھوئی ھو اور پھر آپ کو اس کے متعلق صفائی پیش کرنے کی ضرورت ھوئی ھو۔ بلکہ اس دور میں آپ کا کام صرف اپنی سیرتِ بلند کی عملی تصویر دکھانا تھی جس نے ایک مقناطیسی جذب کے ساتہ دلوں کو تسیخر کر لیا تھا اور آپ کی ھردلعزیزی ھمہ گیر حیثیت رکھتی تھی۔ اس کے بعد چالیس برس کی عمر میں جب دعوائے رسالت کیا تو وہ بالکل وھی تھا جو آخر تک آپ کا دعویٰ رھا۔ یہ نھیں ھوا کہ پھلے اس دعویٰ میں خفت ھو، پھر شدت پیدا ھو۔ یا پھلے دعویٰ کچھ ھو اور پھر رفتہ رفتہ اس میں ترقی ھوئی ھو۔
اب اس دعویٰ رسالت کے بعد آپ کو کتنے مصائب و تکالیف برداشت کرنا پڑے وہ سب کو معلوم ھیں۔ یہ پرآشوب دور وہ تھا کہ جب سر مبارک پر خس و خاشاک پھینکا جاتا تھا، جسم اقدس پر پتھروں کی بارش ھوتی تھی۔ تیرہ برس اس طرح گزرتے ھیں مگر ایک دفعہ بھی ایسا نھیں ھوتا کہ ان کا ھاتہ تلوار کی طرف چلا جائے اور ارادہ جھاد کا کیا جائے۔
اگر کوئی رسول کی زندگی کے صرف اس دور ھی کو دیکھے تو یقین کرے گا کہ جیسے آپ مطلق عدم تشدد کے حامی ھیں یہ مسلک اتنا مستقل ھے کہ کوئی ایذارسائی، کوئی دل آزاری اور کوئی طعن و تشنیع آپ کو اس راستے سے نھیں ھٹا سکتی۔ پھلے چالیس برس ھی کی طرح اب یہ رنگ اتنا گھرا اور یہ مسلک اتنا راسخ ھے کہ اس کے درمیان کوئی ایک واقعہ بھی اس کے خلاف نمودار نھیں ھوتا۔ کوئی بے بس اور بے کس بھی ھو تو کسی وقت تو اسے جوش آھی جاتا ھے اور وہ جان دینے اور جان لینے کے لئے تیار ھو جاتا ھے پھر چاھے اسے اور زیادہ ھی مصائب کیوں نہ برداشت کرنا پڑیں مگر ایک دو برس نھیں تیرہ سال مسلسل اس غیرمتزلزل صبر و سکون کے ساتہ وھی گزار سکتا ھے جس کے سینہ میں وہ دل اور دل میں وہ جذبات ھی نہ ھوں جو جنگ پر آمادہ کر سکتے ھیں۔
اسی درمیان میں وہ وقت آتا ھے کہ مشرکین آپ کے چراغ زندگی کے خاموش کرنے کا فیصلہ کر لیتے ھیں اور ایک رات طے ھو جاتی ھے کہ اس رات سب مل کر آپ کو شھید کر ڈالیں۔ اس وقت بھی رسول تلوار نیام سے باھر نھیں لاتے۔ کسی مقاومت کے لئے کھڑے نھیں ھوتے بلکہ بحکمِ خدا شھر چھوڑ دیتے ھیں۔ جو معرفت محمد نہ رکھتا ھو وہ اس ھٹنے کو کیا سمجھے گا؟ یھی تو کہ جان کے خوف سے شھر چھوڑ دیا۔ اور پھر حقیقت بھی یہ ھے کہ جان کے تحفظ کے لئے یہ انتظام تھا مگر فقط جان نھیں بلکہ جان کے ساتہ ان مقاصد کا تحفظ جو جان کے ساتہ وابستہ تھے بھرحال اس اقدام یعنی ترک وطن کو کوئی کسی لفظ سے تعبیر کرے مگر اسے دنیا مظھر شجاعت تو نھیں سمجھے گی اور صرف اس عمل کو دیکہ کر اگر اس ذات کے بارے میں کوئی رائے قائم کرے گا تو وہ حقیقت کے مطابق نھیں ھو سکتی بلکہ گمراھی کا ثبوت ھو گی۔
اب ترپن برس کی عمر ھے اور آگے بڑھاپے کے بڑھتے ھوئے قدم ھیں بچپنا اور جوانی کا اکثر حصہ خاموشی میں گزرا ھے پھر جوانی سے لے کر ادھیڑ عمر کی منزلیں پتھر کھاتے اور برداشت کرتے گزر رھی ھیں اور آخر میں اب جان کے تحفظ کے لئے شھر چھوڑ دیا ھے بھلا کسے تصور ھو سکتا ھے کہ جو ایک وقت میں عافیت پسندی سے کام لیتے ھوئے شھر چھوڑ دے وہ عنقریب فوجوں کی قیادت کرتا ھوا نظرآئے گا حالانکہ مکہ ھی نھیں بلکہ مدینہ میں آنے کے بعد بھی آپ نے جنگ کی کوئی تیاری نھیں کی۔ اس کا ثبوت یہ ھے کہ ایک سال کی مدت کے بعد جب دشمنوں کے مقابلہ کی نوبت آئی تو آپ کی جماعت میں جو کل جمع ۳۱۳ آدمیوں پر مشتمل تھی صرف ۱۳ عد تلواریں تھیں اور دو گھوڑے تھے۔ ظاھر ھے کہ ایک سال کی تیاری کا نتیجہ یہ نھیں ھو سکتا تھا۔ جبکہ اس ایک سال میں تعمیری خدمات بھت سے انجام پا گئے۔ مدینہ میں کئی مسجدیں بن گئیں مھاجرین کے قیام کے لئے مکانات تیار ھو گئے۔ بھت سے دیوانی و فوجداری کے قوانین نافذ ھوگئے اور اس طرح جماعت کی مملکتی تنظیم ھو گئی مگر جنگ کا کوئی سامان فراھم نھیں ھوا۔ اس سے بھی پتا چل رھا ھے کہ آپ کی طرف سے جنگ کا کوئی سوال نھیں ھے مگر جب مشرکین کی طرف سے جارحانہ اقدام ھو گیا تو اس کے بعد بدر ھے، احد ھے، خندق ھے، خیبر ھے اور حنین ھے۔ پھر یہ نھیں کہ اپنے گھر میں بیٹہ کر فوجیں بھیجی جائیں اور فتوحات کا سھرا اپنے سر باندھا جائے بلکہ رسول خدا کا کردار یہ ھے کہ چھوٹے اور غیراھم معرکوں میں تو کسی کو سردار بنا کر بھیج دیا ھے مگر ھر اھم اور خطرناک موقع پر فوج کے سردار خود ھوتے ھیں اور یہ نھیں کہ اصحاب کو سپر بنائے ھوئے ان کے حصار میں ھوں۔ بلکہ اسلام کے سب سے بڑے سپاھی حضرت علیع بن ابی طالبع کی گواھی ھے کہ جب جنگ کا ھنگامہ انتھائی شدت پر ھوتا تھا تو ھمیشہ رسول اللہ ھم سب سے زیادہ دشمن کے قریب ھوتے تھے پھر یہ بھی نھیں کہ یہ قیام فوج کے سھارے پر ھو بلکہ احد میں یہ موقع بھی آ گیا کہ سوا دو ایک کے باقی سب مسلمانوں سے میدان جنگ خالی ھو گیا۔ مگر اس وقت وہ جو کچھ پھلے ظاھر جان کے تحفظ کے لئے شھر چھوڑ چکا تھا وہ اس وقت خطرہ کی اتنی شدت کے ھنگا م میں جب آس پاس کوئی بھی سھارا دینے والا نظر نھیں آتا اپنے موقف سے ایک گام بھی پیچھے نھیں ھٹتا۔ زخی ھو جاتے ھیں، چھرہ خون سے تر ھو جاتا ھے خود کی کڑیاں ٹوٹ کر سر کے اندر پیوست ھو جاتی ھیں۔ دندان مبارک مجروح ھو جاتے ھیں۔ مگر اپنی جگہ سے قدم نھیں ھٹاتے۔
اب کیا عقل و انصاف کی رو سے مکہ سے ھجرت کو خوف جان سے اس معنی میں سمجھا جا سکتا ھے جس سے شجاعت پر دھبہ آ ٓئے؟ ھرگز نھیں۔ یھی ھم نے پھلے کھا تھا کہ صرف اس عمل کو دیکہ کر جو رائے قائم کی جائے گی وہ گمراھی کا ثبوت ھو گی اس گمراھی کا پردہ اب اس وقت تو یقیناً چاک ھو جانا چاھئے۔
شجاعت رسول کی حقیقی معرفت شیرِ خدا حضرت علی مرتضیع کو تھی۔ جنگِ احد میں قتل محمد کی آواز تھی جس نے کل فوجِ اسلام کے قدم اکھاڑ دیئے۔ اور اس تصور نے علیع پر کیا اثر کیا۔ اسے خود آپ نے بعد میں بیان کیا ھے کہ میں نے نظر ڈالی تو رسول اللہ نظر نہ آئے۔ میں نے دل میں کھا کہ دو ھی صورتیں ھیں۔ یا وہ شھید ھو گئے اور یااللہ نے عیسیٰ (ع) کی طرح انھیں آسمان پر اٹھا لیا۔ دونوں صورتوں میں میں اب زندہ رہ کر کیا کروں گا۔ بس یہ سوچنا تھا کہ نیام توڑکر پھینک دیا اور تلوار لے کر فوج میں ڈوب گئے۔ جب فوج ھٹی تو رسول نظر آئے۔ دیکھنے کی یہ چیز ھے کہ حضرت علیع بن ابی طالبع کو صرف یھی دو تصور ھوئے۔ رسول شھید ھو گئے یا خدا نے آسمان پر اٹھا لیا۔ یہ توھم بھی نھیں ھوا کہ شاید رسول بھی میدان سے کسی گوشھٴ عافیت کی طرف چلے گئے ھوں۔ یہ علیع کا ایمان ھے رسول کی شجاعت پر۔
عیسائیوں نے رسول کی تصویر صرف اسی دور جنگ آزمائی کی یوں کھینچی کہ ایک ھاتہ میں قرآن ھے اور ایک ھاتہ میں تلوار۔ مگر جس طرح رسول کی صرف اس زندگی کو سامنے رکہ کر وہ رائے قائم کرنا غلط تھا کہ آپ مطلق عدم تشدد کے حامی ھیں یا سینہ میں وہ دل ھی نھیں رکھتے جو معرکہ آرائی کر سکے اسی طرح صرف اس دوسرے دور کو سامنے رکہ کر یہ تصویر کھینچنا بھی ظلم ھے کہ بس قرآن ھے اور تلوار۔
آخر یہ کس کی تصویر ھے؟ محمد مصطفی کی نا؟ تو محمد نام تو اس پوری سیرت کی مالک ذات کا ھے جس میں وہ چالیس برس بھی ھیں وہ تیرہ برس بھی ھیں اور اب یہ دس برس بھی ھیں۔ پھر اس ذا ت کی صحیح تصویر تو وہ ھو گی جو زندگی کے ان تمام پھلوؤں کو دکھا سکے۔ یہ صرف ایک پھلو کو نمایاں کرنے والی تصویر تو حضرت محمد مصطفیﷺ کی نھیں سمجھی جا سکتی۔
پھر اس دس برس میں بھی بدر واحد، خندق و خیبر سے آگے بڑھ کر ذرا حدیبیہ تک بھی تو آئیے۔ یھاں پیغمبر کسی جنگ کے ارادہ سے نھیں بلکہ حج کی نیت سے مکہ معظمہ کی جانب آ رھے ھیں۔ ساتہ میں وھی بلند حوصلہ فتوحات حاصل کئے ھوئے سپاھی ھیں جو ھر میدان سر کرتے رھے ھیں اور سامنے مکہ میں وھی شکست خوردہ جماعت ھے جو ھر میدان میں ھارتی رھی ھے اور اس وقت وہ بالکل غیرمنظم اور غیرمرتب بھی ھے پھر بھی ان کی حرکت مذبوجی ھے کہ وہ سد راہ ھوتے ھیں کہ ھم حج کرنے نہ دیں گے۔ عرب کے بین القبائلی قانون کی رو سے حج کا حق کعبہ میں ھر ایک کو تھا۔ ان کا رسول کے سدراہ ھونا اصولی طور پر بنائے جنگ بننے کے لئے بالکل کافی تھا مگر پیغمبر نے اس موقع پر اپنے دامن کو چڑھائی کرکے جنگ کرنے کے الزام سے بری رکھتے ھوئے صلح کرکے واپسی اختیا رکی اور صلح بھی کیسے شرائط پر؟ ایسے شرائط پر جنھیں بھت سے ساتہ والے اپنی جماعت کے لئے باعث ذلت سمجھ رھے تھے اور جماعت اسلام میں عام طور سے بے چینی پھیلی ھوئی تھی۔ ایسی شرطیں تھیں جیسی ایک فاتح کسی مفتوح سے منواتا ھے اس وقت واپس جائیے اس سال حج نہ کیجئے آئندہ سال آئیے گا صرف تین دن تک مکہ میں رھئے گا۔ چوتھے دن آپ میں سے کوئی نظر نہ آئے گا دوران سال میں ھم میں سے کوئی بھاگ کر آپ کے پاس جائے تو آپ کو واپس کرنا پڑے گا اور آپ میں سے کوئی بھاگ کر ھمارے پاس آئے تو ھم واپس نھیں کریں گے۔ انھیں یہ شرائط پیش کرنے کی ھمت کیوں ھوئی؟ یقیناً صرف اس لئے کہ وہ مزاج نبوت سے یہ سمجھ لئے تھے کہ آپ اس وقت جنگ نھیں کریں گے۔ بس کم ظرف جب یہ سمجھ لیتا ھے کہ مقابل تلوار نھیں اٹھائے گا تو وہ بڑھتا ھی چلا جاتا ھے۔ آپ نے سب شرائط منظور کر لئے اور واپس تشریف لے گئے۔
اس کے بعد جب مشرکین کی طرف سے عھدشکنی ھوئی اور حضرت فاتحانہ حیثیت سے مکہ معظمہ میں داخل ھوئے تو اس وقت گزشتہ واقعات کی بناء پر ایک انسان کے کیا جذبات ھو سکتے ھیں؟ جنھوں نے تیرہ برس جسم مبارک پر پتھرے مارے جنھوں نے توھین و ایذارسانی میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ ان کے ھاتھوں وطن چھوڑنا پڑا۔ اور اس کے بعد بھی انھوں نے چین لینے نہ دیا۔ بلکہ جب تک دم میں دم رھا بار بار خونریز حملے کرتے رھے جس میں کتنے ھی عزیز اور دوست خاک و خون میں تڑپتے نظر آئے۔ خصوصیت کے ساتہ اپنے ھمدرد چچا جناب حمزہ کا بعدِ قتل سینہ چاک ھوتے دیکھنا۔ آج وھی جماعت سامنے تھی اور بالکل بے بس، اپنے قبضے میں یہ وقت تھا کہ ان کے گزشتہ تمام بھیمانہ حرکات کی آج سزا دی جاتی، مگر اس مجسم رحمت الٰھی نے جب انھیں بے بس پایا تو عام اعلان معافی کر دیا۔ اور ایک قطرھٴ خون زمین پر گرنے نہ دیا۔
اب دنیا بتائے کہ پیغمبر جنگ پسند تھے یا امن پسند؟ حقیقتہ ان کی جنگ یا صلح کوئی بھی جذبات کی بناء پر نہ تھی بلکہ فرائض کے ماتحت کام ھوتاتھا جس وقت فرض کا تقاضا خاموشی تھی خاموش رھے اور جب حالات کے بدلنے سے ضرورت جنگ کی پڑ گئی جنگ کرنے لگے۔ پھر جب امکانِ صلح پیدا ھو گیا اور بلندی اخلاق کا تقاضا صلح کرنا ھوا تو صلح کر لی۔ اور جب دشمن بالکل بے بس ھو گیا تو عفو و کرم سے کام لے کر اسے معاف کر دیا۔
یہ سب باختلافِ حالات فرائض کی تبدیلیاں ھیں جو آپ کے کردار میں نمایاں ھوتی رھی ھیں۔ فرائض کی یھی پابندی طبیعت کے دباؤ سے جتنی آزاد ھو، وھی معراج انسانیت ھے۔

معراجِ انسانیت سِیرت حضرت سّید الا وصیٰاء کی روشنی میں
رسول (ص)کے بعد دوسری معیاری شخصیت جو ھمارے سامنے ھے وہ حضرت علی بن ابی طالب (ع) کی ھے۔
آپ کی دس سال کی عمر ھے جب پیغمبر مبعوث برسالت ھوتے ھیں اور علی بن ابی طالب (ع) ان کی رسالت کے گواہ ھوتے ھیں۔ یہ پھلے ھی سے رسول (ص) کی آغوشِ تربیت میں تھے اور آغوش میں دعوتِ اسلام کی پرورش شروع ھوئی۔ یوں کھنا چاھئے کہ اسلام نے آنکہ کھول کر انھیں دیکھا اور ان کی نگاہ وہ تھی کہ اعلانِ رسالت کے پھلے رسول (ص)کی رسالت کو دیکہ رھے تھے۔ خود اپنے بچپن کی کیفیت نھج البلاغہ کے ایک خطبے میں بتائی ھے کہ:
کُنتْ اَتبِعہ
اِتَبّاعَ الفَصیل
اثرَامُّہ اشّم
رِیح النّبوةِ
واری نورالرسالة۔
میں رسول (ص)کے پیچھے یوں رھتا
تھا جیسے ناقہ کا بچہ ناقہ کے پیچھے رھتا ھے۔ میں نبوت کی خوشبو سونگھتا تھا اور رسالت کی روشنی دیکھتا تھا۔
اب ظاھر ھے کہ ان کو رسول (ص) سے کتنا انس ھونا چاھئے۔ پھر وہ قرابت کی محبت الگ جو بھائی ھونے کے اعتبار سے ھوناچاھئے اور وہ الگ جو بحیثیت ایک گھر میں رھنے کے ھونا چاھئے اور وہ اس کے علاوہ جو اپنے مربی سے ھونا چاھئے اور وہ اس کے ماوراء جو ان سے بحیثیت رسول (ص) اور ان کے پیغام سے بحیثیتِ حقانیت ھونا چاھئے۔
ابھی اگرچہ دس برس کی عمر ھے مگر عرب اور بنی ھاشم کے اور وہ بھی اس وقت کے دس برس کے بچے کو اپنے ھندوستان کا اس زمانہ کا دس برس کا بچہ نہ سمجھنا چاھئے اور پھر وہ بھی علی(ع) ایسا بچھ۔ پھر اس وقت تو دس ھی برس کی عمر ھے مگر اس کے بعد ۱۳ برس رسول کے مکہ میں گزرنا ھیں، اور یھی انتھائی پرآشوب اور تکلیف و شدائد سے بھرا ھوا دور ھے۔ ھجرت کے وقت علی بن ابی طالب (ع) کی عمر ۲۳ برس ھوئی، دس برس سے ۲۳ برس کا درمیانی وقفہ وہ ھے جس میں بچپنا قدم بڑھاتا ھوا مکمل شباب کی منزل تک پھنچتا ھے۔ یہ زمانہ جوش و خروش کا ھوتا ھے یہ زمانہ ولولہ و امنگ کا ھوتا ھے۔ بڑھتی ھوئی حرارت، شباب کی منزلیں اس دور میں گزر رھی ھیں۔ عام انسانوں کے لئے یہ دور وہ ھوتا ھے جس میں نتائج و عواقب پر نظر کم پڑتی ھے انسان ھر دشوار منزل کو سھل اور ھر ناممکن کو ممکن تصور کرتا ھے اور مضرتوں کا اندیشہ دماغ میں کم لاتا ھے۔ یھاں یہ دور اس عالم میں گزر رھا ھے کہ اپنے مربی کے جسم پر پتھر مارے جا رھے ھیں۔ سر پر خس و خاشاک پھینکا جاتا ھے۔ طعن و شماتت کا کوئی وقیقہ اٹھا نھیں رکھا جاتا۔ پھر فطری طور پر یھی سب طعن و تشنیع و شماتت ھر اس شخص کو جو رسول (ص) سے وابستہ ھے اپنی ذات کے لئے بھی سننا پڑتی ھے۔ خصوصاً اس لحاظ سے کہ رسول (ص)کے ھم یا مقابل پھر بھی سن رسیدہ ھو سکتے ھیں لیکن علی بن ابی طالب (ع) کے ھم عمر جو مخالف جماعت میں تصور کئے جا سکتے ھیں وہ غیرمھذب اور غیرتعلیم یافتہ ھونے کے ساتھ اپنے سن و سال کے لحاظ سے بھی ھر خفیف الحرکاتی پر ھر وقت آمادہ سمجھے جا سکتے ھیں۔ کون سمجھ سکتا ھے کہ وہ علی ابن ابی طالب (ع) کی جو رسول (ص) سے اتنی شدید وابستگی رکھتے تھے کیسی کیسی دل آزاری کرتے تھے کیا کیا طعنے اور کیا کیا زخم زبان پھنچاتے تھے۔ اسے کوئی راوی نہ بھی بیان کرے تو بھی ھر صاحبِ عقل کچھ نہ کچھ سمجھ سکتا ھے۔
اب ممکن ھے کہ اس وقت ابھی دنیاعلی بن ابی طالب (ع) کو بالکل نہ سمجھتی ھو کہ وہ کیا ھیں؟ مگر اب اس وقت تو تاریخ کے خزانہ میں علی بن ابی طالبع کی وہ تصویر بھی موجود ھے جو ھجرت کے ایک سال بعد بدر میں اور پھر دو سال بعد احد میں اور پھر خیبر اور خندق اور ھر معرکہ میں نظر آتی ھے۔
جذبات کے لحاظ سے، قوت دل کے اعتبار سے، جراٴت و ھمت کی حیثیت سے ۲۲ سال اور ۲۳ سال اور پھر ۲۴۔۲۵ سال میں کوئی خاص فرق نھیں ھوتا۔ یقیناً علیع جیسے ھجرت کے ایک دو اور تین سال بعد بدر واحد اور خندق و خیبر میں تھے۔ ایسے ھی ھجرت کے وقت اور ھجرت کے دو چار سال پھلے بھی تھے۔ یھی بازو، یھی بازوؤں کی طاقت، یھی دل اور یھی دل کی ھمت، یھی جوش، یھی عزم، غرض کہ سب کچھ اب بعد میں نظر آ رھا ھے۔ اب اس کے بعد قدر کرنا پڑے گی کہ اس ھستی میں وہ ۱۳ برس اس عالم میں کیونکر گزارے۔
اور کوئی غلط روایت بھی یہ نھیں بتاتی کہ کسی وقت علیع نے جوش میں آ کر کوئی ایسا اقدام کر دیا ھو جس پر رسول کو کھنا پڑا ھو کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ یا کسی وقت پیغمبر کو یہ اندازہ ھوا ھو کہ یہ ایسا کرنے والے ھیں تو بلا کر روکا ھو کہ ایسا نہ کرنا۔ مجھے اس سے نقصان پھنچ جائے گا۔
کسی تاریخ اور کسی حدیث میں غلط سے غلط روایت ایسی نھیں حالانکہ حالات ایسے ناگوار تھے کہ کبھی کبھی سن رسیدہ افراد کو جوش آ گیا اور انھوں نے رسول کے مسلک کے خلاف کوئی اقدام کر دیا اور اس کی وجہ سے انھیں جسمانی تکلیف سے دوچار ھونا پڑا۔ مگر حضرت علی بن ابی طالبع سے کسی سے تصادم ھو گیا ھو اس کے متعلق کمزور سے کمزور روایت پیش نھیں کی جا سکتی۔
یہ وہ غیرمعمولی کردار ھے جو عام افراد انسانی کے لحاظ سے یقیناً خارق عادت ھے یہ کسی جذبات انسانی کا کردار نھیں ھو سکتا۔ یہ ۱۳ برس کی طولانی مدت اس عمر میں جو ولولوں کی عمر ھے حوصلوں کی عمر ھے۔ بھلا ممکن ھے اس سکون کے ساتھ گزاری جا سکے۔
اس کے بعد ھجرت ھوتی ھے۔ ھجرت کے وقت وہ فداکاری۔ پیغمبر کا فرمانا کہ آج رات کو میرے بستر پر لیٹو۔ میں مکہ سے روانہ ھو جاؤں گا۔ پوچھا حضور کی زندگی تو اس صورت میں محفوظ ھو جائے گا۔ فرمایا ھاں مجھ سے وعدہ ھوا ھے میری حفاظت ھو گی یہ سن کر حضرت علی بن ابی طالبع نے سر سجدہ میں رکہ دیا کھا شکر ھے کہ اس نے مجھے اپنے رسول کا فدیہ قرار دیا۔
چنانچہ رسول تشریف لے گئے اور آپ پیغمبر کے بستر پر آرام کرتے رھے اس کے بعد چند روز مکہ معظمہ میں مقیم رھے مکہ میں مشرکین کی امانتیں ان کے مالکوں کو واپس کیں اور پیغمبر کی امانتیں ساتھ لیں یعنی مخدراتِ کاشانھٴ رسالت جن میں فواطم یعنی فاطمہ بنت محمد۔ فاطمہ بنت اسد اور فاطمہ بنت زبیر بن عبدالمطلب تھیں ان کو لے کر روانہ ھوئے۔ خود مھارِ شتر ھاتہ میں لی۔ اور حفاظت کرتے ھوئے پا پیادہ مدینہ پھنچے یھاں آنے کے ایک سال بعد اب جھاد کی منزل آئی اور پھلی ھی جنگ یعنی بدر میں علیع ایسے نظر آئے جیسے برسوں کے نبرآزما، معرکے سر کئے ھوئے اور کڑیاں میدان کی جھیلے ھوئے۔
ادھر کے سب سے بڑے سورما عتبہ شیبہ اور ولید دونوں کا حضرت علی بن ابی طالبع کی تلوار سے خاتمہ ھوا۔ یہ کارنامہ خود جنگ کی فتح کا ضامن تھا۔ وہ تو صرف نفسیاتی طور پر عامھٴ مسلمین میں قوت دل پیدا کرنے کے لئے اس جھاد میں فرشتوں کی فوج بھی آ گئی یہ ثابت کرنے کے لئے کہ گھبرانا نھیں وقت پڑے گا تو فرشتے آ جائیں گے۔ حالانکہ اس کے بعد پھر کسی غزوہ میں ان کا آنا ثابت نھیں۔ اس کے باوجود احد میں علی بن ابی طالبع نے تن تنھا بگڑی ھوئی لڑائی کو بنا کر اور فتح حاصل کرکے دکھلا دیا کہ بدر میں بھی اگر فوج ملائکہ نہ آتی تو یہ دست و بازو اس جنگ کو بھی سر کر ھی لیتے۔ اس کے بعد خندق ھے خیبر ھے۔ حنین ھے یھاں تک کہ ان تمام کارناموں سے علیع کا نام دشمنوں کے لئے مرادفِ موت بن گیا۔
خیبر و خندق۔ ذوالفقار اور علیع میں دلالت التزامی کا رشتہ قائم ھو گیا کہ ایک کے تصور سے ممکن ھی نھیں دوسرے کا تصور نہ ھو۔ یہ وھی ۱۳ برس تک خاموش رھنے والے علیع ھیں۔ ان دس برس کے اندر جن کا عالم یہ ھے مگر اسی دوران میں حدیبیہ کی منزل آتی ھے اور وھی ھاتہ جس میں جنگ کا علم ھوتا تھا یھاں اسی میں صلح کا قلم ھے جو صاحب سیف تھا وھی صاحب قلم نظر آتا ھے اور ان شرائط صلح کو جن فر فوج اسلام کے اکثر افراد میں بے چینی پھیلی ھوئی ھے اور اسے کمزوری سمجھا جا رھا ھے بلا کسی بے چینی اور بغیر کسی تردد و تذبذب کے حضرت علی بن ابی طالبع تحریر فرما رھے ھیں جس طرح میدان جنگ میں قدم میں تزلزل اور ھاتہ میں ارتعاش نظر نھیں آیا اسی طرح آج عھدنامھٴ صلح کی تحریر میں ان کے قلم میں کوئی تزلزل اور انگلیوں میں کوئی ارتعاش نھیں ھے۔ ان کا جھاد تو وھی ھے جس میں مرضیٴ پروردگار ھو۔ جس کی راہ میں تلوار چلتی تھی اسی کی راہ میں آج قلم چل رھا ھے اور صلح نامہ کی کتابت ھو رھی ھے۔
اسی زمانہ میں ایک ملک بھی فتح کرنے بھیجے گئے تھے اور وہ یمن ھے مگر وہ شمشیرزن اور صاحب ذوالفقار ھوتے ھوئے یھاں تلوار سے کام نھیں لیتے۔ انھوں نے اسلامی فتح کا مثلہ پیش کر دیا۔ پورے یمن کو صرف زبانی تبلیغ سے ایک دن میں مسلمان بنا لیا۔ ایک قطرھٴ خون نھیں بھا۔ دکھا دیا کہ فتح ممالک اس طرح کرو۔ ملک پر قبضہ کے معنی یہ ھیں کہ اھل ملک کو اپنابنا لو۔ بس ملک تمھارا ھو گیا۔
بھرحال ان دو مثالوں کو چھوڑ کر حضرت علی بن ابی طالبع کی زندگی کے اس دور میں بھت سے مواقع پر تلوار نمایاں نظر آئے گی اور لافتی الاعلی لا سیف الا ذوالفقار میں آپ کی شان مضمر معلوم ھو گی مگر اب پیغمبر خد اکی وفات ھو جاتی ھے اس وقت حضرت علی بن ابی طالبع کی عمر ۳۳ برس کی ھے اسے اواخرِ شباب بلکہ بھرپور جوانی کا زمانہ سمجھنا چاھئے مگر اس کے بعد پچیس سال کی طولانی مدت حضرت علی بن ابی طالبع یوں گزارتے ھیں کہ تلوار نیام میں ھے اور آپ کا مشغلہ عبادتِ الٰھی اور آزوقہ کی فراھمی کے لئے محنت و مزدوری کے سوا بظاھر اور کچھ نھیں۔
یہ ایسی وادیٴ پرخار ھے جس میں ذرا بھی کھل کر کچھ کھنا تحریر کو مناظرانہ آویزشوں کا آماجگاہ بنا دینا ھے۔ پھر بھی یہ سوچنے اور سمجھنے کی بات لازماً ھے کہ باوجودیکہ یہ مسلمانوں کی جنگ آزمائیوں کا زمانہ اور فتوحاتِ عظیمہ کا دور ھے جس میں اسلام قبول کرنے کے بعد گمنام ھو جانے والے افراد سیف اللہ اور فاتح ممالک اور غازی بن رھے ھیں پھر بھی جو تلوار ھر مقام پر عھد رسول میں کارنمایاں کرتی نظر آتی تھی وہ اس دور میں کلیتہ نیام کے اندر ھے۔ آخر کیا بات ھے کہ وہ جوھر میدان کا مرد تھا اب گوشہ عافیت میں گھر کے اندر ھے۔ اگر اس کو بلایا نھیں جاتا تو کیوں؟ اور اگر بلایا جاتا ھے اور وہ نھیں آتا تو کیوں؟ دونوں باتیں تاریخ کے ایک طالب علم کے لئے عجیب ھی ھیں ایسا بھی نھیں کہ وہ بالکل غیرمتعلق ھے۔ نھیں اگر کبھی کوئی مشورہ لیا جاتا ھے تو وہ مشورہ دے دیتا ھے کوئی علمی مسئلہ درپیش ھوتا ھے اور اس کے حل کرنے کی خواھش کی جاتی ھے تو وہ حل کر دیتا ھے مگر ان لڑائیوں میں جو جھاد کے نام سے ھو رھی ھیں اسے شریک نھیں کیا جاتا۔ نہ وہ شریک ھوتا ھے۔ ۲۵ سال کی طولانی مدت گزری اور اب حضرت علی بن ابی طالبع کی عمر ۵۸ سال کی ھو گئی یہ پیری کی عمر ھے جس طرح مکہ کی ۱۳ برس کی خاموشی کے درمیان بچپنا گیا تھا اور جوانی آئی تھی اسی طرح اس پچیس برس کی خاموشی کے دوران میں جوانی گئی اور بڑھاپا آیا۔ گویا ان کی عمر کا ھر دوراھہ صبر و تحمل اورضبط و سکون کے عالم میں آتا رھا۔ بھلا اب کسے تصور ھو سکتا ھے کہ جس کو جوانی گزر کر بڑھاپا آ گیا اور اس نے تلوار سے نیام نہ نکالی وہ اب کبھی تلوار کھینچے گا اور میدان جنگ میں حرب و ضرب کرتا نظر آئے گا۔ عالم اسباب کے عام تقاضوں کے لحاظ سے تو اس پچیس برس کے عرصہ میں ولولہ و امنگ کی چنگاریاں تک سینہ میں باقی نھیں رھیں۔ ھمت کے سوتے خشک ھو گئے اور اب دل میں ان کی نمی تک نھیں رہ گئی۔ اب نہ دل میں وہ جوش ھو سکتا ھے نہ بازوؤں میں وہ طاقت۔ نہ ھاتھوں میں وہ صفائی اور نہ تلوار میں وہ کاٹ مگر ۵۸ سال کی عمر میں وہ وقت آ گیا کہ مسلمانوں نے باصرار زمام خلافت آپ کے ھاتہ میں دے دی۔ آپ نے بھت انکار کیا مگر مسلمانوں نے تضرع و زاری کی حد کر دی اور حجت ھر طرح تمام ھو گئی۔ لیکن جب آپ سریز خلافت پر متمکن ھوئے اور اس ذمہ داری کو قبول کر چکے تو کئی جماعتوں نے بغاوت کر دی۔ آپ نے ھر ایک کو پھلے تو فھمائش کی کوشش کی اور جب حجت ھر طرح تمام ھو گئی تو دنیا نے دیکھا کہ وھی تلوار جو بدر و احد اور خندق و خیبر میں چمک چکی تھی اب جمل، صفین اور نھروان میں چمک رھی ھے۔ اور پھر یہ نھیں کہ فوجیں بھیج رھے ھوں اور خود گھر میں بیٹھیں بلکہ خود میدان جنگ میں موجود اور بنفس نفیس جھاد میں مصروف۔ اب ایسا محسوس ھو رھا ھے جیسے کوئی نوجوان طبیعت جو مقابل سے دو دو ھاتہ کرنے کے لئے بے چین ھو۔ چونکہ حضرت کی ھیبت فوج دشمن کے ھر سپاھی کے دل پر تھی اس لئے صفین میں جب آپ میدان میں نکل آتے تھے تو پھر مقابل جماعت کا پرا بند ھو جاتا تھا اور کوئی مقابلہ کو باھر نہ آتا تھا۔ اسے دیکہ کر آپ نے یہ صورت اختیار فرمائی تھی کہ دوسرے اپنے ھمراھیوں کا لباس پھن کر تشریف لے جاتے تھے۔ چونکہ جنگ کا لباس خود و مغضر اور زرہ و بکتر وغیرہ پھننے کے بعد چھرہ نظر نھیں آتا تھا۔ اس لئے لباس بدلنے کے بعد پتا نہ چلتا تھا کہ یہ کون ھے اور آپ کبھی عباس بن ربیعہ اور کبھی فضل بن عباس اور کبھی کسی اور کا لباس پھن کر تشریف لے جاتے تھے اور اس طرح بھت سے نذرِ تیغ ھو جاتے تھے۔
لیلة الحریر میں طے کر لیا کہ فتح کے بغیر جنگ نہ رکے گی۔ پورے دن لڑائی ھو چکی تھی سورج ڈوب گیا تب بھی لڑائی نہ رکی۔ پوری رات جنگ ھوتی رھی یھاں تک کہ نقشھٴ جنگ بدل گیا اور صبح ھوتے ھوتے فوج شام سے قرآن نیزوں پر بلند ھوگئے جن سے التوائے جنگ کی درخواست مطلوب تھی اور یہ جنگ میں شکست کا کھلا ھوا اعلان تھا۔
یہ ۶۰ برس کی عمر میں جھاد ھے اور یھی وہ ھیں جو ۳۳ برس کی عمر سے ۵۷ برس تک کی مدت یوں گزار چکے ھیں جیسے کہ سینہ میں دل ھی نھیں اور دل میں ولولہ اور جنگ کا حوصلہ ھی نھیں۔
اب ایسے انسان کو کیا کھا جائے؟ جنگ پسند یا عافیت پسند؟ ماننا پڑے گا کہ یہ کچھ بھی نھیں ھیں یہ تو فرائض کے پابند ھیں جب فرض ھو گا خاموشی کا تو خاموش رھیں گے۔ چاھے شباب کی حرارت اور اس کا جوش و ولولہ کچھ بھی تقاضا رکھتا ھو۔
اس وقت کتنے ھی صبرآزما مشکلات پیش آتی رھیں وہ صبر کریں گے اور گھبرائیں گے نھیں۔
اور جب فرض محسوس ھو گا کہ تلوار اٹھائیں تو تلوار اٹھائیں گے، چاھے بڑھاپے کا انحطاط جو عام افراد میں اس عمر میں ھوا کرتا ھے کچھ بھی تقاضا رکھتا ھو۔ اب حرب و ضرب کی سختیوں کا مقابلہ کرنے میں وہ جوانوں سے آگے نظر آئیں گے۔ یھی وہ ”معراج انسانیت“ ھے، جھاں تک طبیعت، عادت اور جذبات کے تقاضوں میں گرفتار انسان پھنچا نھیں کرتے۔

معراجِ انسانیت سیرتِ حَسْنَیْن کی روشنی میں
جبکہ حضرت پیغمبر خدا کی واحد زندگی میں مختلف نمونے سامنے آ گئے جو بظاھر متضاد ھیں۔ حضرت علی بن ابی طالب (ع) کی واحد زندگی میں ایسی ھی مثالیں سامنے آ گئیں تو اب اگر دو شخصیتوں میں باقتضائے حالات اس طرح کی د و رنگی نظر آئے تو اس کو اختلاف طبیعت یا اختلاف رائے کا نتیجہ سمجھنا کیونکر درست ھو سکتا ھے اور یہ کیوں کھا جائے کہ حسن مجتبیٰ (ع) طبعاً صلح پسند تھے اور امام حسین (ع)طبعاً جنگ پسند تھے بلکہ یھی سمجھنا چاھئے کہ اس وقت کے حالات کا تقاضا وہ تھا اور اس وقت کے حالات کا تقاضا یہ ھے کہ اس وقت حسن مجتبیٰ (ع) امام تھے ان کو فریضھٴ الٰھی وہ محسوس ھوا اور اس وقت حضرت حسین بن علی(ع) امام تھے، ان کو فریضھٴ ربانی اس وقت کے حالات میں یہ محسوس ھوا۔ اس میں جذبات کا کوئی دخل نہ تھا۔
یھی وہ حقیقت ھے جس کا حضرت پیغمبر خدا نے مختلف الفاظ میں پھلے سے اظھار فرما دیا تھا۔ کبھی ان الفاظ میں کھ: ابنای ھٰذان امامان قاما اوقعدا۔ ”یہ میرے دونوں فرزند امام (ع) ھیں چاھے کھڑے ھوں اور چاھے بیٹھے ھوں۔“
اس وقت کی دنیا اس کو نھیں سمجھ سکتی تھی کہ امام (ع) کھنے کے ساتھ قاما اوقعدا۔ کس لئے کھا جا رھا ھے؟ امامت میں اٹھنے اور بیٹھنے کا کیا دخل۔ مگر جب مستقبل نے واقعات پر سے پردہ ھٹایا تو اب معلوم ھوتا ھے کہ پیغمبر ماضی کے آئینہ میں مستقبل کا نقشہ دیکہ رھے تھے کہ ایک صلح کرکے بیٹہ جائے گا اور ایک تلوار لے کر کھڑا ھو جائے گا۔ کچھ لوگ حسن(ع) کی صلح پر اعتراض کریں گے اور کچھ لوگ حسین(ع) کی جنگ پر۔ آپ نے اسی لئے ارشاد فرمایا کہ یہ دونوں امام(ع) ھیں چاھے کھڑے ھوں اور چاھے بیٹھے ھوں۔ یعنی حسن(ع) صلح کرکے بیٹہ جائے تو اعتراض نہ کرنا اور حسین(ع) تلوار لے کر کھڑا ھو جائے تو اعتراض نہ کرنا وہ بیٹھنا بھی حکم خدا سے ھے اور یہ کھڑا ھونا بھی حکم خدا سے ھے وہ اس وقت کے حالات کا تقاضا ھے اور یہ اس وقت کے حالات کا۔
اور کبھی اس طرح جسے علامہ ابن حجر نے لکھا ھے کہ سیدھ(ع) عالم اپنے والد بزرگوار حضرت رسول کے پاس دونوں شاھزادوں کو لے کر حاضر ھوئیں اور عرض کیا۔ یَا آبَتِ ھٰذَانِ ابْنَاک انحَلْھُمَا ابا جان یہ دونوں بچے آئے ھیں انھیں کچھ عطا فرمائیے۔“ حضرت نے فرمایا: اَمَّاالْحُسْنُ فَلَہ حِلمِی وَ سوُدَدِی واَمّالْحُسَیْنُ فَلَد‘ جُراٴتِی وَجُودِی مطلب یہ ھوا کہ انھیں اور کسی عطیہ کی کیا ضرورت ھے ان میں تو میری صفتیں تقسیم ھو گئی ھیں حسن(ع) میں میرا حلم ھے اور میری شان سرداری اور حسین(ع) میں میری جراٴت و ھمت ھے اور میری فیاضی…اب تقسیم پر غور کیجئے۔ معلوم ھوتا ھے۔ کہ ظرف زمانہ کے لحاظ سے جس کو جس صفت کا مظھر بننا تھا اسی صفت کو رسول نے اپنا قرار دیا۔ تاکہ اس صفت سے جو کارنامہ ظھور میں آئے وہ کسی مسلما ن کے نزدیک قابل اعتراض نہ ھو سکے۔
اب اس کا مطلب یہ ھوا کہ حسن(ع) کی صلح کو حسن(ع) کی طبیعت کا تقاضا نہ سمجھنا بلکہ وہ میرے حلم کا نتیجہ ھے اس کا مطلب صاف یہ ھے کہ اس موقع پر میں ھوتا تو وھی کرتا جو حسن(ع) کرے گا اور حسین(ع) کی جنگ کو حسین(ع) کی طبیعت کا تقاضا نہ سمجھنا بلکہ وہ میری جراٴت کا نتیجہ ھے اور اس کا مطلب یہ ھوا کہ اس موقع پر میں ھوتا تو وھی کرتا جو حسین(ع) کرے گا۔
اب حسن(ع) کی صلح پر اعتراض رسول(ع) کے حلم پر اعتراض ھے اور حسین(ع) کی جنگ پر اعتراض رسول(ع) کی جراٴت پر اعتراض ھے۔
حقیقت یہ ھے کہ حسن(ع) نے صلح کرکے جھاد حسین(ع) کے لئے زمین ھموار کر دی۔ وہ صلح اس وقت نہ ھوتی تو اس کے بعد جھاد کا یہ ھنگام نہ آ سکتا۔ کیونکہ اسلام میں جنگ بہ مجبوری ھوتی ھے عدم امکانِ صلح کی بنا پر جب تک اصول کے تحفظ کے ساتھ صلح کا امکان ھو اس وقت تک جنگ کرنا غلط ھے جب کہ آئین اسلام میں صلح کا درجہ جنگ پر مقدم ھے تو اگر امام حسن(ع) صلح نہ کر چکے ھوتے تو اتمام حجت نہ ھوتی اور حضرت امام حسین(ع) کے لئے جنگ کا موقع پیدا نہ ھوتا۔
امام حسن(ع) کے شرائط صلح پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ھو گا کہ اس صلح کے شرائط میں ان مقاصد کا پورا پورا تحفظ کیا گیا تھا جن کے لئے پھر کربلا کی جنگ ھوئی۔ یہ نہ دیکھئے کہ بعد میں شرائط پر عمل نھیںھوا۔ بعد میں عمل تو حدیبیہ کی صلح کے شرائط پر بھی نہ ھوا تھا مگر یہ تو ایک معاھدہ صلح کا وقوع میں آیا جب ھی فریق مخالف پر الزام عائد ھو سکا کہ اس نے ان شرائط پر عمل نھیں کیا اور اگر کوئی ایسا معاھدہ ھوا ھی نہ ھوتا تو یہ خلاف ورزی کا الزام فریق مخالف پر کھاں عائد ھو سکتا تھا۔ جب حدیبیہ کے شرائط پر عمل نہ ھوا تو فتح مکہ ھوئی اسی طرح اس صلح پر عمل نہ ھوا۔ تو معرکھٴ- کربلا ھوا۔
معلوم ھوا کہ یہ تاریخی واقعات کی رفتار کا لازمی اقتضاء تھا کہ اس وقت صلح ھو اور اس وقت جنگ ھو۔ اور وہ حصہ وقت کا امام حسن(ع) کے حصہ میں آیا اور یہ ھنگام امام حسین(ع) کے حصہ میں آیا۔ اگر معاملہ بالعکس ھوتا یعنی ۴۱ہ میں امام وقت امام حسین(ع) ھوتے تو وہ صلح امام حسین(ع) کرتے اور اگر ۶۱ہ میں امام حسن(ع) موجود ھوتے تو یہ جھاد امام حسن(ع) فرماتے۔
حضرت امام حسن جانتے تھے کہ میرا جھاد ھی صلح کرنا۔ ان کی صلح مقتضائے شجاعت تھی اور امام حسین(ع) کا جھاد تھا یزید کے مقابلہ میں تلوار کھینچنا۔ یہ ان کی شجاعت کا مظاھرہ تھا۔ کیونکہ جس طرح علمائے اخلاق نے بیان کیا ھے شجاعت ھر موقع پر تلوار لے کر بڑھ جانے کا نام نھیں ھے۔ بلکہ شجاعت قوت غضب کے تابع حکم عقل ھونےکا نام ھے اور یہ قوت غضبیہ کے اعتدال کا درجہ ھے اگر انسان نے بے موقع غصہ سے کام لیا اور قدم آگے بڑھا دیا تو یہ ”تھوُّ“ ھو گا اور اگر موقع آنے پر بھی اس سے کام نہ لیا اور بے محل کمزوری دکھائی تو اس کا نام ”جُبن“ ھو گا یہ دونوں چیزیں شجاعت کے خلاف ھیں۔ شجاعت یہ ھے کہ بے محل قدم آگے نہ بڑھے اور محل آنے پر خاموشی نہ ھو۔ ان دونوں رخوں کو حسن(ع) و حسین نے پیش کیا اور اس طرح دونوں نے مل کر شجاعت کی مکمل تصویر کھینچ دی۔
آئندہ آئے گا کہ حضرت امام حسین(ع) نے بھی صلح کی کوشش میں کوئی کمی نھیں کی یہ تو فریق مخالف کا طرز عمل تھا کہ اس نے وہ تمام شرائط مسترد کر دیئے۔ اگر دشمن ِشرائط کو منظور کر لیتا تو کارنامہ کربلا بھی صلح پر ختم ھوتا۔ اس کے بعد کسی کو یہ کھنے کا کیا حق ھے کہ امام حسن(ع) طبعاً صلح پسند تھے اور امام حسین(ع) نسبتاً جنگ پسند تھے۔
اس کا بھی بیان ابھی آئے گا کہ وھاں حاکم شام نے سادہ کاغذ بھیج دیا تھا کہ حسن مجتبیٰ جو چاھیں وہ شرائط لکہ دیں۔ امام نے شرائط لکھے اور حاکم شام نے ان کو منظور کیا دنیا غلط کھتی ھے کہ امام حسن(ع) نے حاکم شام کی بیعت کر لی۔ بیعت تو حقیقتاً اس نے کی جس نے شرائط مانے۔ انھوں نے تو بیعت لے لی۔ بیعت کی نھیں۔ اور امام حسین(ع) کے سامنے تھا یزید ایسے شخص سے بیعت کا سوال جسے آلِ محمد میں سے کوئی بھی منظور نھیں کر سکتا تھا۔
امام حسین(ع) زندگی کے اس ایک دن یعنی عاشور کو ھی حسین(ع) نہ تھے وہ اپنی زندگی کے ۵۷ برس میں ھر دن حسین(ع) تھے۔ پھر آخر صرف ایک دن کے کردار کو سامنے رکہ کر کیوں رائے قائم کی جاتی ھے۔ آخر اس ایک دن کو نکال کر جو ۵۷ برس ھیں وہ ان کی فھرست حیات سے کیونکر خارج ھو سکتے ھیں اسی طرح حضرت امام حسن(ع) صرف اس دن جب صلح نامہ پر دستخط کئے ھیں اسی وقت امام حسن(ع) نہ تھے۔ حسن(ع) نام تو اس پوری زندگی کا تھا لھٰذا آپ کی پوری زندگی کو سامنے رکہ کر رائے قائم کرنا درست ھو گا اور اگر صرف ایک حصہ حیات سامنے رکہ کر مخالفین اسلام نے آپ کی یہ تصویر کھینچی کہ آپ کے ایک ھاتہ میں تلوار ھے اور ایک ھاتہ میں قرآن جس طرح یہ تصویر نامکمل اور غلط ھے اسی طرح امام حسن(ع) کے متعلق جو تصویر کھینچی جاتی ھے یا امام حسین کی جو تصویر کھینچی جاتی ھے وہ بھی غلط ھے اور یہ غلطی اتنی عام ھے کہ ان کے نام لیوا تک اور سیرت و کردار کی پیروی پر زور دینے والے بھی ان کا وھی صرف ایک دن کا کردار جانتے اور اسی کو پیش کرتے ھیں اس لئے تقریروں میں گرمی پیدا کرنے کے لئے اور کسی بڑے معرکہ میں قدم بڑھانے کے واسطے خون میں جوش پیدا کرنے کے لئے حضرت امام حسین(ع) کا نام لیتے اور ان کے کارنامہ کو یاد دلاتے ھیں چاھے مقصد صحیح ھو یا غلط اور وہ جو اپنی تمام عمر شھادت سے ایک دن پھلے تک معرکہ آرائی کو ٹالتے رھے وہ حسین(ع) کا کردار گویا نھیں ھے کسی اور کا ھے پوری تصویر تو اسی وقت ھو گی جب پوری سیرت سامنے رکہ کر تصویر کھینچی جائے گی۔

حسنِ مجتبیٰ ع
امام حسنع کی ولادت ۲ یا ۳ ھجری میں ھوئی۔ رسول کی وفات کے وقت ساتواں یا آٹھواں برس تھا اور ان کی یہ عمر پوری پیغمبر خدا کے غزوات کی عمر ھے۔ ۲ ہ میں جنگ بدر ھوئی اور اس کے بعد ان کی عمر کے ساتھ غزوات کی فھرست آگے بڑھی۔ جس طرح علی کی پرورش پیغمبر کی گود میں تبلغ اسلام کے ساتھ ھوئی ویسے ھی حسن مجتبیٰ کی پرورش رسول کی گود میں رسول کے غزوات اور اپنے والد (حضرت علیع مرتضیٰ) کے فتوحات کے ساتھ۔ ھوئی ان کے بچپن کی کھانیاں اور سوتے وقت کی لوریاں گویا یھی تھیں کہ علیع کسی جھاد سے واپس آئے ھیں۔ حضرت فاطمہ زھرا (س) سے تذکرہ ھو رھا ھے خندق میں یہ ھوا۔ یہ تذکرے کانوں میں پڑ رھے ھیں اور آنکھیں جو دیکہ رھی ھیں وہ یہ کہ دشمنوں کے خون میں بھری ھوئی تلوار ھے اور سیدھٴ عالم اسے صاف کر رھی ھیں۔ پیغمبر کے ارشادات بھی گوش زد ھو رھے ھیں کبھی معلوم ھوا کہ آج نانا نے والد بزرگوار کے لئے کھا:
ضرْبةُ علٍیّ یَوْمَ الْخَنْدقٍ اَفْضَلُ مِنْ عِبَادَةِ الثَقَلین۔ کبھی سنا فرمایا: لَاُعْطَیّن رَایةً غدًا رَجُلاً غَیر فّرارٍ یُحِبُّ اللّٰہ وَرَسُوْلَھ‘… کبھی ملک کی صدا گوش زد ھوئی: لَا فَتٰی اِلَّا علّی لَا سَیف الّا ذوالفقار۔ ان تذکروں کے علاوہ بس ھے تو عبادت اور سخاوت کی مثالوں کا مشاھدھ۔ یہ ھے سات آٹہ برس کا حسنع کا رسول کی زندگی میں دور حیات۔
سات آٹہ برس کی عمر کے بچے چاھے معاملات میں عملی حصہ نہ لیں اور ادب و حفظِ مراتب کی بنا پر بزرگوں کے سامنے گفتگو میں بھی شرکت نہ کریں مگر وہ احساسات و تاثرات، جذبات اور قلبی واردات میں بالکل بزرگوں کے ساتھ شریک رھتے ھیں اور ان کے دلوں کے اندر ولولوں کا طوفان بھی اٹھتا ھے۔ اور منصوبوں کی عمارتیں بھی کھڑی ھوتی ھیں اور اس وقت کے تاثرات و تصورات کے نقوش اتنے گھرے ھوتے ھیں کہ وہ مٹا نھیں کرتے۔
یقیناً یہ اتنا زندگی کا دور امام حسنع کے دل و دماغ میں عام انسانی فطرت کے لحاظ سے ولولہ و ھمت کی لھروں میں تموج ھی پیدا کرنے والا تھا سکون پیدا کرنے والا نھیں مگر اس سات آٹہ سال کے بعد ایک دم ورق الٹتا ھے۔ اب یہ منظر سامنے ھے کہ باپ گوشہ نشیں ھیں۔ اور ماں گریہ کناں۔ وہ تمام ناگوار حالات سامنے ھیں جن کا اظھار کسی کے لئے پسندیدہ ھے یا ناپسند۔ بھرحال تاریخ کے اندر وہ موجود اور ھمیشہ کے لئے محفوظ ھیں۔ یقیناً اگر حضرت علی بن ابی طالبع کا دس برس کی عمر کے بعد ۱۳ برس رسول کے ساتھ رہ کر مکہ کی خاموش زندگی میں خاموشی کے راستے پر قائم رھنا ایک جھادِ نفس تھا تو حسن مجتبیٰ کا بھی ۸ برس کی عمر کے بعد پچیس سال باپ کے صبر و استقلال کے ساتھ ھم آھنگ رھنا ان کا ایک عظیم جھاد تھا۔ وھاں علیع کے سامنے ان کے مربی رسول کے جسم پر پتھر پھینکے جاتے تھے اور وہ خاموش تھے اور یھاں حسنع کے سامنے ان کے باپ علی بن ابی طالبع کے گلے میں رسی باندھی جاتی ھے اور مادر گرامی کے دروازے پر آگ لگانے کے لئے لکڑیاں جمع کی جاتی ھیں اور انھیں ھر طرح کی ایذائیں پھنچائی جاتی ھیں اور حسن مجتبیٰ(ع)خاموش ھیں۔ اسی خاموشی میں آٹہ برس سے اٹھارہ برس اور اٹھارہ برس سے اٹھائیس برس بلکہ سات آٹہ برس کی عمر کے بعد ۲۵ سال میں ۳۳ برس کے ھوئے مگر وہ جس طرح ساتھ آٹہ برس کے بچپن کے دور میں حضرت علی بن ابی طالبع کے ساتھ ایک کم عمر بچہ کی طرح تھے بالکل اسی شان سے اٹھارہ اور اٹھائیس اور تیس بتیس برس کی عمر کے جوان ھو کر بھی ھیں۔ مسلک ھے تو باپ کا طریقھٴ کار ھے تو باپ کا۔ نہ ان کے بچپن میں کوئی نادانی کا قدم اٹھتا ھے نہ جوانی میں کوئی جوش کا قدم اٹھتا ھے پھر حضرت علیع نے خاموشی کے ماحول میں آنکہ ھی کھولی تھی اور امام حسنع تو آٹہ برس کی عمر اس جنگ کے ماحول میں گزار چکے تھے جس سے شجاعانہ اقدامات کو طبیعت میں رچ بس جانا چاھئے اس کے بعد ۲۵ سال اس طرح گزار رھے ھیں۔ اتنی طولانی مدت کے اندر کبھی جوش میں نہ آنا۔ اپنے ھم عمروں سے کبھی تصادم نہ ھونا کسی دفعہ بھی ایسی کوئی بات نہ ھونا جو مصلحتِ علیع کے خلاف ھو۔ یہ ان کی زندگی کا کارنامہ ھے۔ یہ اور بات ھے کہ تاریخ کی دھندلی نگاہ حرکت کو دیکھتی ھے سکون کو نھیں۔ آندھیوں کو دیکھتی ھے سناٹے کو نھیں۔ شورش طوفان دیکھتی ھے سمندر کے سکون پر نظر نھیں ڈالتی۔ اسی کا نتیجہ ھے کہ اس دور کے فتوحات جو اکثریتی طاقت نے کئے جزو تاریخ بن گئے اور اسلام کی جو خدمت خاموش رہ کر کی گئی اور اس کے جو نتائج ھوئے وہ تاریخ میں کھیں نظر نہ آئیں گے بھرحال اب یہ ۲۵ سال گزرے اور وہ وقت آیا جب حضرت علی بن ابی طالبع برسراقتدار ھیں اس کے بعد جمل صفین اور نھروان کے معرکے ھیں اور حضرت امام حسنع ان میں اپنے والد بزرگوار حیدرِ کرارع کے ساتھ ساتھ ھیں۔
حسن کے ھاتہ میں جمل کی لڑائی میں تلوار اسی طرح پھلی بار ھے جس طرح بدر میں علیع کے ھاتہ میں پھلی بار۔ مگر جیسے انھوں نے پھلی ھی لڑائی میں شجاعان آزمودہ کار پر اپنی فوقیت ثابت کر دی ویسے ھی جمل میں جو کارنامہ دوسروں سے نھیں ھوتا وہ حسن مجتبیٰ(ع)اپنی تلوار سے کرکے دکھا دیتے ھیں۔
اسی طرح صفین میں ایسا معیاری نمونہ پیش کرتے ھیں کہ حضرت امیرع اپنے فرزند محمد حنیفھع کے لئے اسے مثال قرار دیتے ھیں او جیسا کہ دینوی نے ’الاخبارالطوال“ میں لکھا ھے ایک ایسے موقع پر جب لشکر امیرالمومنینع کے ایک بڑے حصہ نے شکست کھائی تھی، یہ اپنے باپ کے سامنے اس طرح تھے کہ انھیں تیروں سے بچا رھے تھے اور خود اپنے کو تیروں کے سامنے پیش کئے دیتے تھے۔
مخالف حکومت کا پروپیگنڈا بھی کیا چیز ھے؟ اس نے حکایتیں تصنیف کی ھیں کہ حسن مجتبیٰ(ع)تو طبعاً صلح پسند تھے۔ مگر ان کی بے جگری کے ساتھ ان نبردآزمائیوں میں عملی شرکت ان تصورات کو غلط ثابت کر دیتی ھے۔
جنگ جمل میں کوفہ والوں کو ابو موسیٰ اشعری نے جو وھاں حاکم تھے نصرت امیرالمومنینع سے روک دیا تھا۔ یہ حسن مجتبیٰ ھی تھے جنھوں نے جا کر تقریر کی اور پورے کوفہ کو جناب امیرع کی نصرت کے لئے آمادہ کر دیا۔
ھاں جب صفین میں نیزوں پر قرآن اٹھائے گئے اور امیرالمومنینع نے حالات سے مجبور ھو کر معاھدہ تحکیم پر دستخط کئے تو جوان سال بیٹے حسنع و حسینع دونوں باپ کے ساتھ اس معاھدہ میں بھی شریک تھے بالکل جس طرح حضرت امیر پیغمبر خدا کے ساتھ ساتھ تھے جنگ اور صلح دونوں میں۔ اسی طرح حسنع و حسینع اپنے والد بزرگوار کے ساتھ ھر منزل میں شریک نظر آتے ھیں۔
جب ۲۱ ماہ رمضان ۴۰ ہ کو جناب امیرع کی وفات ھو گئی اور حضرت امام حسنع خلیفہ تسلیم کئے گئے تو آپ نے خود بھی حاکم شام کے خلاف فوج کشی کی۔ اور فوجوں کو لے کر روانہ بھی ھوئے اور اس طرح بھی ثابت کر دیا کہ راستہ آپ کا وھی ھے جو آپ کے والد بزرگوار کا راستہ تھا۔
اب اس کے بعد جو کچھ ھوا وہ حالات کی تبدیلی کا نتیجہ ھے۔ واقعہ یہ ھے کہ اھل کوفہ کی اکثریت جنگِ نھروان کے بعد سے جناب امیرع کے ساتھ ھی سردمھری برتنے لگی تھی اور جنگ سے عاجز آچکی تھی جس پر خود حضرت علی بن ابی طالبع کے اقوال جو نھج البلاغہ میں مذکور ھیں، گواہ ھیں اس کا علم حاکم شام کو بھی اپنے آدمیوں کے ذریعہ سے ھو گیا تھا چنانچہ حضرت امیرع کے بعد انھوں نے اپنے آدمیوں کے ذریعہ سے بھت سے روسائے کوفہ کو اپنے ساتھ ملا لیا اور ان لوگوں نے خطوط بھیجے کہ آپ عراق پر حملہ کیجئے اور ھم یھاں ایسی تدبیر کریں گے کہ حضرت امام حسنع کو قید کرکے آپ کے سپرد کر دیں۔
معاویہ نے یہ خطوط بعینہ حضرت امام حسن(ع)کے پاس بھیج دیئے۔ پھر بھی وہ جانتے تھے کہ حضرت امام حسنع کوئی ایسی صلح کبھی نہ کریں گے جس میں ان کے نقطھٴ نظر سے حق کا تحفظ نہ ھو۔ اس لئے انھوں نے اس کے ساتھ ایک سادہ کاغذ بھیج دیا کہ جو شرائط آپ چاھیں اس پر لکہ دیں میں انھیں منظور کرنے کے لئے تیار ھوں۔ ان حالات میں جب کہ اپنوں کا حال وہ تھا اور مخالف یہ رویہ اختیار کر رھا تھا جنگ پر قائم رھنا ایک بلاوجہ کی ضد ھوتی جو آلِ رسول کی شان کے خلاف تھی۔
حضرت پیغمبر خدا نے تو حدیبیہ میں امن وامان کی خاطر مشرکین کے پیش کردہ شرائط پر صلح کی جسے سطحی نگاہ والے مسلمان سنجھ رھے تھے کہ یہ دب کر صلح ھے اور امام حسن نے جو صلح کی وہ ان شرائط پر جو خود آپ نے پیش کئے تھے اور جنھیں فریق مخالف سے منظور کرایا۔
ذرا اس صلح نامہ کے شرائط میں نظر ڈالئے۔ اس کی مکمل عبارت علامہ ابن حجر مکی نے صوائق محرقہ میں درج کی ھے۔
اس میں شرط اول یہ ھے کہ حاکم شام کتاب و سنت پر عمل کریں گے اس شرط کو منظورکراکے حضرت امام حسن(ع)نے وہ اصولی فتح حاصل کی ھے جو جنگ سے حاصل ھونا ممکن نہ تھی۔
ظاھر ھے کہ صلح نامہ کے شرائط میں بنیادی طور پر ایسی ھی چیز درج ھوتی ھے جو بنائے مخاصمت ھو۔ حضرت امام حسنع نے یہ شرط لگا کر ثابت کر دیا کہ ھماری بنائے مخاصمت معاویہ سے کوئی ذاتی یا خاندانی نھیں ھے بلکہ وہ صرف یہ ھے کہ ھم کتاب اور سنت رسول پر عمل کے طلب گار ھیں اور یہ اس سے اب تک منحرف رھے ھیں۔ پھر صلح نامہ کی دستاویز تو فریقین میں متفق علیہ ھوا کرتی ھے۔ وہ دونوں فریق اس کے کاتب ھوتے ھیں۔ یہ شرط درج کرکے امام حسنع نے حاکم شام سے تسلیم کرا لیا کہ اب تک حکومت شام کا جو کچھ رویہ رھا ھے وہ کتاب و سنت کے خلاف ھے۔ اگر ایسا نہ ھوتا تو اس شرط کی کیا ضرورت تھی؟
غلط اندیش دنیا کھتی ھے کہ امام حسنع نے بیعت کر لی۔ میں کھتا ھوں۔ اگر حقیقت پر غور کیجئے تو جب امام حسنع شریعت اسلام کے محافظ ھیں اور آپ نے اس کا اقرار حاصل کیا ھے کہ حاکم شام کتاب اور سنت کے مطابق عمل کریں گے تو اب یہ فیصلہ آسان ھے کہ جس نے شرائط مانے اس نے بیعت کی یا جس نے شرائط منوائے اس نے بیعت کی۔ حقیقت میں حضرت امام حسنع نے تو بیعت لے لی۔ خود بیعت نھیں کی۔
دوسری شرط یہ تھی کہ تمھیں کسی کو اپنے بعد نامزد کرنے کا اختیار نہ ھو گا اس طرح حضرت امام حسن(ع)نے برفرض مخالفت شرط اول اس ضرر کو جو حاکم شام کی ذات سے مذھب کو پھنچتا محدود بنایا اور آئندہ کے لئے یزید ایسے اشخاص کا سدباب کر دیا۔
خواھانِ حاکم شام زیادہ نمایاں طور پر یہ شرط پیش کرتے ھیں کہ حضرت امام حسنع نے سالانہ ایک رقم مقرر کی تھی کہ یہ تمھیں ادا کرنا ھو گی میں کھتا ھوں کہ یہ شرط اگرچہ مسلم نھیں ھے پھر بھی اگر یہ شرط رکھی ھو تو یہ آئینی حیثیت سے اپنے اصلی حقدار حکومت ھونے کے اعتراف کا فریق مخالف کے عمل سے قائم رکھنا ھے اور اگر زیادہ گھری نظر سے دیکھا جائے تو حضرت رسول خدا کا نصاریٰ سے جزیہ لے کرجنگ کو ختم کر دینا درست ھے تو حضرت امام حسنع کا حاکم شام پر سالانہ ایک ٹیکس عائد کرنا بھی بالکل صحیح ھے۔ یہ عملی مظاھرہ ھے اس کا کہ ھم نے دب کر صلح نھیں کی ھے بلکہ خونریزی سے بچنے کی ممکن کوشش کی ھے۔
حضرت امام حسن(ع)کو اس صلح پر برقرار رھنے میں بھی کتنے شدائداور زخم ھائے زبان کا مقابلہ کرنا پڑا ھے مگر مفادِ دینی کے لئے یہ صلح ضروری تھی تو پُرجگری کے ساتھ حضرت(ع)تمام ایذاء و اھانت کے صدموں کو برداشت کرتے رھے۔ اور دس برس مسلسل پھر گوشہ نشینی کے ساتھ زندگی گزار کر حضرت علی بن ابی طالبع کے ۲۵ سال کے دور گوشھٴ نشینی کا مکمل نمونہ پیش کر دیا۔
اموی ذھنیت والوں کا یہ پروپیگنڈا کہ حسن مجتبیٰ(ع)اپنے والد بزرگوار حضرت علی بن ابی طالب(ع)اور اپنے چھوٹے بھائی حضرت امام حسین(ع)سے مختلف ذھنیت رکھتے تھے اور وہ صلح ان کی انفرادی افتاد طبع کا نتیجہ تھی۔ خود اموی حاکم شام کے عمل سے بھی غلط ثابت ھو جاتا ھے۔ اس طرح کہ اگر یہ بعد والا پروپیگنڈا صحیح ھوتا تو اس مصالحت کے بعد حاکم شام کو حضرت امام حسن(ع)سے بالکل مطمئن ھو جانا چاھئے تھا بلکہ حاکم شام کی طرف سے واقعی پھر امام حسن(ع)کی قدرومنزلت کے مسلمانوں میں بڑھانے اور نمایاں کرنے کی کوشش کی جاتی۔ بلاتشبیہ جس طرح مشھور روایات کی بنا پر جناب عقیل کو حضرت علی بن ابی طالب(ع)سے بظاھر جدا کرنے کے بعد ان کی خاطرداریوں میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا جاتا تھا۔ یھی بلکہ اس سے زیادہ حضرت امام حسن(ع)کے ساتھ ھوتا مگر ایسا نھیں ھوا۔ صلح کرنے کے بعد بھی امام حسن(ع)کو آرام اور چین نھیں لینے دیا گیا اور بالآخر زھر دغا سے آپ کو شھید کر دیا گیا۔ اسی سے ظاھر ھے کہ حاکم شام بھی جانتے تھے۔ کہ یہ رائے، مسلک، خیال اور طبیعت کسی اعتبار سے بھی اپنے باپ بھائی سے جدا نھیں ھیں۔ یہ اور بات ھے کہ اس وقت انھیں فرض کا تقاضا یھی محسوس ھوا لیکن اگر مصلحت دینی میں تبدیلی ھو تو یھی کوئی نیا صفین کا معرکہ پھر آراستہ کر سکتے ھیں اور انھی کے ھاتہ سے کربلا بھی سامنے آ سکتی ھے اسی لئے ان کی زندگی اس کے بعد بھی ان کے سیاسی مقاصد کے لئے خطرہ بنی رھی اور جب ان کی شھادت کی خبر ملی تو انھوں نے اطمینان کی سانس ھی نھیں لی بلکہ اپنے سیاسی ضبط و تحمل کے دائرہ سے بھی تجاوز کرکے بالاعلان انھوں نے مسرت سے نعرھٴ تکبیر بلند کیا۔ اس سے صاف ظاھر ھے کہ حسن مجتبیٰ(ع)کی صلح کسی مخصوص ذھنیت یا طبیعت کا نتیجہ نھیں تھی۔ وہ صرف فرض کے اس احساس کا تقاضا تھی جو انسانی بلندی کی معراج ھے۔