گناھان کبیرہ
 
مکروفریب
وہ گناہِ کبیرہ جس کے لیے جہنم کا وعدہ کیا گیا ہے مگر اور غدر یعنی وعدہ خلافی اور دھوکا دینا ہے۔ چنانچہ روایات میں ان تینوں کی سزا آتشِ دوزخ بتائی گئی ہے۔ اصول کافی کی کتاب ایمان وکفر کے باب مکرو غدروخدیعہ میں اس مضمون سے متعلق چھ حدیثیں بیان کی گئی ہیں جن میں سے دو بطور نمونہ یہاں پیش کی جاتی ہیں:
حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "اگر مکروفریب کی سزا آتش جہنم نہ ہوتی تو میں سب لوگوں سے زیادہ مکار ہوتا۔" آپ یہ بھی فرماتے ہیں: "بلاشبہ دھوکے بازی، عیاشی اور خیانت کی سزا آتشِ جہنم ہے۔" (کافی)
وسائل میں لکھا ہے کہ پیغمبر اکرم فرماتے ہیں: "مسلمان کو مکر اور دھوکا نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ میں نے جبرئیل سے سُنا ہے کہ مکر اور دھوکے کا نتیجہ جہنم ہے۔" پھر فرمایا: "جو کوئی کسی مسلمان کو دھوکا دے یا اس سے خیانت کرے وہ ہم میں سے نہیں ۔ (وسائل الشیعہ کتاب حج باب ۱۳۷) اور قریب قریب اسی مضمون کی کچھ اور حدیثیں نقل کی ہیں اور ویسے ہی مستدرک میں اس مضمون کی کچھ روایتیں نقل کی گئی ہیں۔ مثلاً
لوگوں نے امیرالمومنین سے کہا کہ جو آپ کا مخالف (معاویہ) ہے وہ جس حکومت پر قابض ہے اسے اس وقت تک معزول نہ کیجئے جب تک آپ کی حکومت مستحکم نہ ہو جائے۔ آپ نے فرمایا کہ مکر، فریب اور وعدہ خلافی کا انجام جہنم ہے۔ (مستدرک)

مکر، غد ر اور خد عہ کے معنی
غدر کا جس کے معنی بے وفائی اور وعدہ خلافی کے ہیں۔ مکروفریب اور خدعہ دونوں کے معنی دوسرے کے ساتھ اس طرح بُرائی کرنے کے ہیں کہ وہ سمجھ نہ پائے۔ مثلاً ظاہر میں اس کے ساتھ بھلائی لیکن باطن میں بدی ہو یا ظاہر میں تو یہ جتایا جائے کہ اس سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے اور در پردہ آزار رسانی کی گھات میں رہے۔ غرض مکر اور خدعہ دوغلا پن یعنی منافقت اور دورنگی یعنی ظاہر میں اچھا اور باطن میں بُرا ہونا ہے اور اس کی دو قسمیں ہیں، ایک خدا، پیغمبر اور امام کے ساتھ مکر اور خدعہ اور دوسری قسم لوگوں کے ساتھ مکرو فریب۔

خدا سے دھوکا
خدا سے دھوکے کی بدترین قسم منافقوں کا دھوکا ہے یعنی وہ لوگ جو اپنا کفر چھپائے رکھتے ہیں اور ظاہر میں اسلام اور ایمان کا اظہار کرتے ہیں۔ چنانچہ خدا سورة البقرہ میں فرماتا ہے: "وہ خدا اور اہلِ ایمان کا دھوکا دیتے ہیں حالانکہ وہ اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں لیکن یہ بات نہیں سمجھتے۔" (آیت۹)
اگر یہ کہا جائے کہ خدعہ اس وقت کہتے ہیں جب وہ شخص جسے دھوکا دیا جائے بے خبر ہو اور خدعہ کو نہ سمجھے تو پھر یہ خدعہ خدا کے ساتھ کس طرح ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ یہ لوگ پیغمبر اور مومنوں سے فریب کرتے تھے تو وہی خدا کے ساتھ فریب کہلاتا ہے یا یہ کہ منافقین خدا سے اس طرح دھوکا اور فریب کرتے ہیں کہ اپنا کفر چھپاتے اور ایمان ظاہر کرتے تھے۔
اس بات کے معنی کہ یہ اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں یہ ہیں کہ ان کے فریب سے پیغمبر اور مومنوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا بلکہ یہ خود ہی چوٹ کھا جاتے ہیں کیونکہ یہ ہر نیکی اور بھلائی سے محروم رہ جاتے ہیں اور دُنیا میں بدنام اور آخرت میں عذابِ الہٰی میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔
خدا سے دھوکا کرنے میں دکھاوے کی عبادت شامل ہے جس کا ذکر شرک کی بحث کے آخر میں تفصیل سے کیا جا چکا ہے۔

روحا نی مقاما ت کا دعویٰ
خدا کو دھوکا دینے میں بعض بلند دینی مناصب ومقامات کا دعویٰ کرنا شامل ہے جبکہ وہ حقیقت میں ان سے محروم ہو مثلاً صبر، شکر، توکل، محبت، رضا، تسلیم، اخلاص وغیرہ مقامات کا دعویٰ۔ مثلاً وہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا معبود خدائے واحد ہے۔ اس کے سوا کوئی نہیں ہے اور کہتا ہے: "ایاک نعبد"حالانکہ وہ شیطان کو پوجتا ہے یا کہتا ہے "اللّٰہ اکبر" یعنی خدا میرے نزدیک ہر چیز سے بڑا اور اونچا ہے جبکہ مال ومرتبہ اور دنیاوی حیثیتوں نے اس کے دل میں ریشہ دوانی کر کے بڑی اہمیت حاصل کر رکھی ہے۔ چنانچہ اگر اس سے کہیں کہ خدا کی خاطر فلاں گناہ چھوڑ دے تو آمادہ نہیں ہوتا البتہ اگر یہ سمجھ لیتا ہے کہ اس سے اس کے مال، آبرو یا اس کی دوسری دُنیاوی حیثیتوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے تو اسے ترک کر دیتا ہے۔
حضرت امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "جس وقت تم تکبیر کہو تو تمہیں چاہیئے کہ دُنیا کی تمام چیزوں کو خدا کی بزرگی کے سامنے چھوٹا سمجھو کیونکہ جس وقت بندہ تکبیر کہتا ہے اور خدا یہ جان لیتا ہے کہ اس کے دل میں اس کی تکبیر کے خلاف کوئی بات موجود ہے۔ یعنی وہ خدا کے سوا کسی اور کو زیادہ سمجھتا ہے تو خدا اس سے فرماتا ہے اے جھوٹے! تُو مجھے فریب دیتا ہے۔ مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم ہے کہ میں تجھے اپنی یاد کی مٹھاس، اپنی مناجات کے مزے اور اپنے قریب پہنچنے سے محروم کر دوں گا۔" (صلوٰة مستدرک باب ۲)

بزرگا نِ دین سے دھوکے بازی
بزرگانِ دین سے دھوکے بازی مثلاً ایک شخص ان سے کہتا ہے: "موال لکم ولا لیائکم"یعنی میں تم سے اور تمہارے دوستوں سے محبت کرتا ہوں حالانکہ دوستوں سے اسے کوئی تعلق ہی نہیں ہے اور اہل بیت سے ان کی نسبت کا لحاظ ہی نہیں کرتا یا کہتا ہے: "التارک للخلاف علیکم"جو بات تمہارے خلاف جاتی ہے وہ میں نے ترک کر دی ہے حالانکہ اس نے ہزاروں باہر ان کی مخالفت کی ہے اور کرتا ہے جیسا کہ جھوٹ کی گفتگو میں بیان کیا گیا ہے۔

خدا کے بندوں سے دھوکا
ان آخرت سے بے خبر لوگوں میں جو طرح طرح کی دھوکے بازی ، بہانے بازی اور فریب کاری عام ہے وہ اسی قسم سے متعلق ہے اور سب کی سب حرام اور گناہ کبیرہ ہے اور جتنا اس کا فساد زیادہ ہوتا اس کی حرمت اور سزا بھی اتنی شدید ہو گی۔
خدا سورة فاطر آیت ۴۲ میں فرماتا ہے: "دھوکا خود اپنے ہی کرنے والے کی طرف پلٹتا ہے۔" یعنی ہر دھوکہ باز کا دھوکا اسی کی طرف واپس آتا ہے اور جو کچھ اس نے دوسرے کے بارے میں سوچا ہے وہ خود اپنے ہی بارے میں مشاہدہ کرتا ہے کیونکہ ہر مکر، مکر کرنے والی ذات اور گراوٹ کا اور جس سے مکر کیا جاتا ہے اس کی عزت بڑھانے اور درجہ بلند کرنے کا سبب ہو گا یا مکر کرنے والا آخرت میں اپنے بُرے کام کی وجہ سے جہنم کے سب سے نچلے درجے میں جائے گا اور جس کے ساتھ مکر کیا گیا ہے اس ظلم کی وجہ سے جو اس پر ہوا ہے بہشت میں بلند مقام پائے گا یا دُنیاوآخرت دونوں میں۔ چنانچہ اس بات کا مطلب کہ دُنیا میں مکر کرنے والا رسوا ہوتا ہے اور اس کے مکر سے اسی کو نقصان پہنچتا ہے اس قدر واضح ہے کہ "منہج الصادقین "میں لکھا ہے کہ یہ جملہ عرب میں کہاوت بن گیا ہے کہ : جو اپنے بھائی کے لیے کنواں کھودے گا کہ وہ خود اس میں سر کے بل جا گرے گا۔ اسی طرح ایرانی کہاوت ہے: بُرائی نہ کر جو بُرائی آگے آئے۔ کنواں نہ کھود جو خود اس میں گرے۔ یہ بھی کہتے ہیں : جو کوئی کسی کے لیے کنواں کھودے گا اس میں پہلے خود، پھر دوسرا گرے گا۔" (۱)
(۱) تفسیر منہج الصادقین میں تاریخی کتابوں کے حوالے سے تحریر کیا گیا ہے کہ دو آدمیوں نے پیسہ جمع کیا اور اسے چوری کے خوف سے ایک معینہ درخت کے اندر چھپا دیا۔ ان دونوں میں سے ایک رات کو چھپ کر آیا اور وہ پیسے اٹھا لیے۔ دوسرے دن جب دونوں پیسے لینے کے لیے آئے تو اس پیسے کو وہاں نہیں پایا۔ وہ آدمی جو رات کو پیسے چوری کر کے لے گیا تھا اس نے دوسرے آدمی کا گریبان پکڑ لیا کہ مال چھپاتے وقت تمہارے علاوہ کوئی اور نہیں تھا یقینا پیسے تم نے اٹھائے ہیں۔ اس بے چارے نے کافی قسمیں کھائیں لیکن چور اپنی بات پر بضد تھا۔ یہاں تک کہ معاملہ حاکم کے سامنے پیش ہوا۔ حاکم نے چوری کرنے والے سے گواہ طلب کیے تو اس نے کہا :"درخت خود گواہی ( بقیہ اگلے صفحے پر)

منافقت اور تضاد بھی د ھوکا ہے
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "جو کوئی مسلمانوں سے منافقت اور تضاد برتے گا جب قیامت میں آئے گا تو اس کی آگ کی دو زبانیں ہوں گی۔" (کافی)
حضرت امام باقر (علیہ السلام) سے روایت ہے: "وہ شخص کتنا بُرا ہے جو منافقت اور تضاد رکھتا ہے۔ اپنے بھائی کے سامنے اس کی تعریف کرتا ہے اور پیٹھ پیچھے اسے بُرا کہتا اور اس کا گوشت کھاتا ہے (یعنی اس کی غیبت کرتا ہے)۔ اگر بھائی کو نعمت ملتی ہے تو اس سے جل جاتا ہے اور اگر وہ پریشان ہو جاتا ہے تو اسے چھوڑ جاتا ہے اور اس کی مدد نہیں کرتا۔ (کافی)
رسولِ خدا فرماتے ہیں: "جو منافق ہے وہ قیامت میں اس طرح آئے گا کہ اس کی دو زبانیں ہوں گی، ایک پیچھے کی طرف اور دوسری آگے کی طرف دونوں لٹکتی ہوں گی اور ان سے آگ کی اس قدر لپٹیں نکلتی ہوں گی کہ اس کے تمام بدن میں آگے لگ جائے گی، اس کے بعد کہا جائے گا کہ یہ وہ شخص ہے جو دُنیا میں منافق تھا اور متضاد باتیں کرتا تھا، قیامت میں بھی دو چہرے اور آگ کی دو زبانیں رکھتا ہے۔" (وسائل الشیعہ کتاب حج باب ۱۴۳)

منا فقت اور تضا د کیا ہے؟
(۱) دو زبان آدمی یعنی وہ شخص جو دو متضاد باتیں کہتا ہے اور موقع کے مطابق دُنیاوی فائدہ
حاصل کرنے کے لیے اور بے ضرورت بھی مختلف باتیں کرتا ہے۔ مثلاً ایک چیز کا اقرار کرتا ہے بعد میں اس سے انکار کر دیتا ہے یا کسی بات کی گواہی دیتا ہے پھر اس کے خلاف بیان دے دیتا ہے یا کسی کے سامنے اس کی تعریف کرتا ہے پیٹھ پیچھے اسے بُرا کہتا ہے۔
(۲) منافق اور دو زبان آدمی یعنی وہ شخص جو دو آدمیوں کے پاس آتا جاتا ہے اور ہر ایک سے اس کے مطابق بات کرتا ہے اور یہی منافقت ہے۔
(۳) اگر کوئی شخص دو ایسے آدمیوں میں سے ایک کی بات دوسرے سے جا کر لگاتا ہے جو آپس میں دشمنی رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کے پیٹھ پیچھے خلاف اور نامعقول باتیں کرتے رہتے ہیں تو یہ دو زبانی ہے اور یہ
گذشتہ سے پیوستہ: دے گا کہ پیسے دوسرا آدمی لے کر گیا ہے۔" اس چور نے پوشید طور پر اپنے بھائی سے کہا کہ رات کے وقت درخت کے کھوکھلنے تنے میں بیٹھ جائے تاکہ جب صبح حاکم گواہی طلب کرے تو وہ اندر سے گواہی دے کہ پیسے دوسرا آدمی لے گیا ہے۔ جب صبح حاکم لوگوں کے ساتھ درخت کے قریب پہنچا تو اس نے درخت سے کہا: "اے درخت اس خدا کے لیے جس نے تجھے خلق کیا ہے یہ بتا کہ وہ پیسے جو تجھ میں چھپائے گئے تھے کس نے چوری کیے ہیں؟" تو چور کے بھائی نے درخت کے بیچ میں سے چلا کر کہا: "پیسے فلاں آدمی یعنی چور کے ساتھی نے لیے ہیں:" حاکم اپنی فراست کی بناء پر سمجھ گیا کہ اصل بات کیا پء؟ کیونکہ درخت کا کلام کرنا خلافِ عادت ہے۔ اس نے درخت کو آگ لگانے کا حکم دیا تاکہ فساد کا سبب نہ بنے۔ چنانچہ درخت کو آگ لگا دی گئی۔ چور کا بھائی خوف کے مارے کچھ نہ بولا لیکن جب آگ اس تک پہنچی تو مجبور ہو گیا اور اس نے نالہ وفریاد کرنا شروع کیا۔ بالآخر لوگوں نے اسے نیم مردہ حالت میں درخت سے نکالا۔ جب اس سے حقیقت دریافت کی تو اس نے حاکم کے سامنے اپنے بھائی کے تمام مکروفریب کو آشکار کر دیا۔ حاکم نے مال لیا اور دوسرے آدمی کو دے دیا اور دھوکے باز کو سخت ترین سزا دی۔
چغل خوری سے بدتر ہے کیونکہ چغل خوری صرف وہ بات جا کر دہرانا ہے جو کسی نے دوسرے شخص کے بارے میں کہی ہو اب اگر اس دوسرے شخص کی بات اگر پہلے شخص سے ہے تو یہ دو زبانی ہو گی۔
(۴) جو دو آدمی آپس میں دشمن ہیں ان میں سے ہر ایک سے ملاقات کے وقت اس کے دشمن اور مخالف کے مقابلے میں اس کی تعریف کرے تو یہ بھی دو زبانی ہو گی۔
(۵) ایسے دو آدمیوں میں سے ہر ایک سے دوسرے کے مقابے میں ساتھ دینے اور مدد کرنے کا وعدہ کرے تو یہ بھی دو زبانی ہے۔ غرض ایسے تمام موقعوں پر اس شخص کو منافق اور دو زبان کہتے ہیں۔
واضح رہے کہ ایسے دو شخصوں میں سے ہر ایک سے جو آپس میں دشمن ہیں ایک کی بات دوسرے کے سامنے دہرائے بغیر صرف رفاقت اور دوستی اظہار کرنے، اس کی تعریف کرنے اور مدد کا وعدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور یہ دو زبانی نہیں ہے۔

ملاوٹ بھی لوگوں کے ساتھ دھوکا ہے
لوگوں کے ساتھ دھوکے کی ایک قسم لین دین میں ملاوٹ بھی ہے بِکری کی چیز میں کوئی دوسری جنس اس طرح ملانا کہ ظاہر نہ ہو ملاوٹ کہلاتا ہے مثلاً دودھ میں پانی ملانا یا اچھی اور بُری چیزوں کو ملا کر اچھی بنا کر بیچنا۔ (۱)
بے ایمانی اور ملاوٹ کرنے کو یکجا کر دیا۔" (وسائل الشیعہ کتاب تجارت باب ۱۱۵)
حضرت امام باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "رسول خدا کا مدینے کا بازار میں کھانے کی ایک جنس (گیہوں یا جَو) پر سے
گذشتہ سے پیوستہ: محدث الجزائری نے زہرا الربیع میں نقل کیا ہے کہ اصفہان میں ایک آدمی نے اپنی بیوی کی پٹائی کرنی چاہی اور اسے چند ڈنڈے مارے لیکن اتفاقاً عورت مر گئی حالانکہ وہ آدمی اس کے قتل کا ارادہ نہ رکھتا تھا بلکہ اس کا مقصد عورت کی سزنش کرنا تھا۔ اسے عورت کے رشتہ داروں سے خوف ہوا اور وہ ان کے شر سے بچاؤ کے لیے سوچنے ہوئے گھر سے باہر آیا اور اپنے ایک جاننے والے سے اپنی روداد سنائی تو اس شخص نے عورت کے رشتہ داروں سے چھٹکارے کے لیے یہ مشورہ دیا کہ کوئی خوبصورت جوان تلاش کرو، اسے مہمان بنا کر اپنے گھر لے جاؤ اور اس کا سر کاٹ کر عورت کے پہلو میں رکھ دو اور عورت کے رشتہ داروں کے استفسار پر کہنا کہ میں نے اس جوان کو عورت کے ساتھ زنا کرتے ہوئے دیکھا تو میں ضبط نہ کر سکا اور میں نے دونوں کو قتل کر دیا۔ اس آدمی کو یہ ترکیب پسند آ گئی اور وہ اپنے گھر کے دروازے پر آ کر بیٹھ گیا۔ ایک خوبصورت جوان کا اس کے گرھ کے پاس سے گذر ہوا تو وہ آدمی اسرار کر کے اسے اپنے گھر لے گیا اور اس کے بعد اسے قتل کر دیا۔ جب اس عورت کے رشتہ دار آئے اور دو جنازے دیکھے تو اس آدمی نے اپنی گڑھی ہوئی کہانی سنائی۔ جس پر وہ لوگ مطمئن ہو کر چلے گئے۔ بدقسمیت سے وہ آدمی جس نے اس عورت کے شوہر کو یہ مشورہ دیا تھا اس کا بیٹا اس روز گھر نہیں پہنچا تو وہ بہت پریشان ہوا اور اس عورت کے شوہر کے گھر آیا اور کہا: "وہ مشورہ جو میں نے تمہیں دیا تھا کیا تم نے اس پر عمل کیا؟" اس آدمی نے کہا: "ہاں۔" تو اس نے کہا "اس مقتول آدمی کو دکھاؤ۔" جب وہ جنازے کے سرہانے آیا تو اس نے اپنے بیٹے کو پایا جو اسی کے مشورے سے قتل کیا گیا تھا۔ پس وہ اس بات کا مصداق ٹھہرا کہ جو اپنے بھائی کے لیے کنواں کھودے گا خدا خود اسے اس کنویں میں گرا دے گا۔ ان دونوں واقعات کی مانند بہت سے واقعات تاریخی کتابوں میں پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کتاب محجة البیضاء میں ایک حکایت نقل کی گئی ہے جو دھوکا اور حد دونوں کی مناسبت سے ہے اور جس کا حد کی بحث میں ذکر ہو گا۔
(۱) لین دین میں ملاوٹ اگرچہ حرام ہے لیکن بعض صورتوں میں لین دین صحیح رہتا ہے اس کی تفصیل اور متعلقہ مسائل کی وضاحت کے لیے دیکھئے رسالہ توضیح المسائل شمارہ نمبری ۲۰۶۳۔ ۲۱۳۲۔۲۱۳۳۔
گذر ہوا تو آپ نے اس کے مالک سے کہا: "اچھی جنس ہے، اس کی قیمت کیا ہے؟" آپ کو الہام ہوا تو آپ نے اس کے بیچ میں ہاتھ ڈال کر مٹھی بھر جنس باہر نکالی۔معلوم ہوا کہ بیچ میں خراب ہے اور اوپر سے اچھی ہے۔ رسول خدا نے اس
سے فرمایا: "تُو نے مسلمان سے آپ نے یہ بھی فرمایا: "جو کوئی کسی مسلمان کے ساتھ مول لینے یا بیچنے میں ملاوٹ کرتا ہے وہ مسلمان نہیں ہے اور وہ قیامت میں یہودیوں کے ساتھ اُٹھایا جائے گا کیونکہ مسلمانوں کے ساتھ سب سے زیادہ یہودی ہی ملاوٹ کرتے ہیں۔" (وسائل الشیعہ کتاب تجارت باب ۱۵۵)
آپ نے یہ بھی فرمایا: "جو کوئی اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ ملاوٹ کرنے کا خیال دل میں لے کر سو جاتا ہے وہ خدا کی ناخوشی میں سو جاتا ہے اور صبح کو اٹھتا ہے تو بھی بدستور خدا
کے غضب اور ناخوشی میں اس وقت تک رہتا ہے جب تک توبہ نہیں کر لیتا اور ملاوٹ سے دست بردار نہیں ہو جاتا اور اگر اسی حالت میں مر جاتا ہے تو وہ دینِ اسلام پر نہیں مرتا۔" اس کے بعد آپ نے تین بار فرمایا: "جان لو کہ جو مسلمانوں سے ملاوٹ کرتا ہے وہ مسلمان نہیں ہے اور جو کوئی اپنے مسلمان بھائی سے ملاوٹ کرتا ہے خدا اس سکے رزق سے برکت اُٹھا لیتا ہے، اس کی روزی کا راستہ بند کر دیتا ہے اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔" (وسائل الشیعہ کتاب تجارت باب ۱۵۵)
حضرت امام صادق (علیہ السلام) نے ایک شخص سے فرمایا جو آٹا بیچا کرتا تھا: "ملاوٹ کرنے سے بچنا کیونکہ جو کوئی دوسرے سے ملاوٹ کرے گا خود اس کے مال میں بھی ملاوٹ ہو جائے گی اور اگر مال نہیں ہو گا تو اس کے اہل وعیال کے ساتھ ملاوٹ ہو گی۔" (وسائل الشیعہ کتاب تجارت باب ۱۱۵)
اس سے متعلق بہت سی روایتیں ہیں جن میں سے کچھ کم تولنے کے تحت بیان کی جا چکی ہیں۔

مہنگا بیچنا بھی د ھوکا ہے
لین دین میں ملاوٹ کرنے کی طرح غبن کرنا بھی ہے اور وہ بیچنے والے کا قیمت میں دھوکا دینا ہے یعنی کسی چیز کو اس کی اصلی قیمت سے زیادہ قیمت پر اس شخص کے ہاتھ بیچنا ہے جو اس سے بے خبر ہے۔
حضرت امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "کسی ایسے شخص کو دھوکا دینا اور زیادہ قیمت پر مال بیچنا جو اصلی قیمت سے بے خبر ہے (اور مال والے پر بھروسہ اور اعتبار کرتا ہے) سحت ہے۔" (وسائل الشیعہ کتاب تجارت اخیار باب ۱۶) اور "گناہ ۲۵" کی بحث میں "سحت کھانے" کا بیان گذر چکا ہے۔
آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ مومن کو لین دین میں دھوکا دینا حرام ہے۔ ایک اور روایت میں آپ نے فرمایا ہے کہ جو تجھ پر اعتبار کرتا ہے اسے دھوکامت دے کیونکہ اسے دھوکا دینا حلال نہیں ہے۔

ذخیرہ اندوزی
لوگوں کی غذا گیہوں، جو، چاول اور روغن اکٹھا کر کے اس کے مہنگے ہو جانے کے انتظار میں روکے رکھنا ذخیرہ اندوزی ہے تاکہ لوگوں کو ضرورت پڑے اور پھر نہ مل سکے جو ان کی ضرورت رفع ہو۔ یہ حرام ہے اور گناہِ کبیرہ ہے جس کے لیے آتشِ جہنم کا وعدہ کیا گیا ہے۔
پیغمبر اکرم فرماتے ہیں: "جبرئیل نے مجھے خبر دی ہے کہ انہوں نے جہنم میں ایک گھاٹی دیکھی جس میں آگ بھڑکی ہوئی تھی۔ انہوں نے مالک جہنم سے پوچھا: یہ کن لوگوں کی جگہ ہے؟ اس نے کہا: تین گروہوں کی۔ ذخیرہ اندوزی کرنے والے، شرابی، اور دلالی (حرام کاری سے کمائی) کرنے والے۔"
اور آپ یہ بھی فرماتے ہیں: "گناہگار شخص ہی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے۔" (وسائل الشیعہ کتاب تجارت باب ۲۷)
آپ یہ بھی فرماتے ہیں: "جو شخص لوگوں کی غذا خرید کر چالیس دن تک اس لیے روکے رکھتا ہے کہ مسلمانوں میں مہنگائی ہو جائے تو اتنا سخت گناہ کرتا ہے کہ تمام غلہ بیچ کر اس کی رقم خیرات بھی کر دے تب بھی اس کے کیے ہوئے گناہ کا کفارہ ادا نہیں ہو سکتا۔" (وسائل الشیعہ کتاب تجارت باب ۲۷)
کچھ روایتوں میں ذخیرہ اندوزوں کو ملعون بھی کہا گیا ہے۔
آپ فرماتے ہیں: "ایک رات بنی اسرائیل کے کچھ لوگوں پر عذاب نازل ہوا تو صبح تک ان کے چار طبقے ہلاک ہو چکے تھے۔ ڈھول بجانے والے، گویے، ذخیرہ اندوز اور سود کھانے والے مہاجن۔" (مستدرک الوسائل کتاب تجارت باب ۲۱)
آپ یہ بھی فرماتے ہیں: "جو شخص چالیس دن سے زیادہ تک ذخیرہ رکھے گا وہ بہشت کی خوشبو نہیں سونگھ سکے گا جبکہ بہشت کی خوشبو پانچ سو سال کی مسافت تک پہنچتی ہے اور جب اس پر بہشت کی خوشبو ہی حرام ہے تو پھر خود بہشت کا تو ذکر ہی کیا ہے۔" (مستدرک الوسائل کتاب تجارت باب ۲۱)
آپ یہ بھی فرماتے ہیں: "جو شخص مہنگائی کے انتظار میں چالیس دن تک لوگوں کی غذا روکے رکھے گا وہ خدا سے کٹ جائے گا اور خدا اس سے بیزار اور بے تعلق ہو جائے گا۔" (مستدرک۔ تجارت باب۲۱)
جاننا چاہیئے کہ اگر کوئی لوگوں کی غذا ایسی صورت میں روک لیتا ہے جب لوگوں کو اس کی ضرورت نہیں ہوتی یا اگر ضرورت پڑتی بھی ہے تو پھر مل جاتی ہے کہ وہ انہیں بیچ دیتا ہے اور ان کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے یا وہ مہنگی بیچنے کے لیے نہیں اپنے کنبے کے خرچ کے لیے روک لیتا ہے تو ان تینوں صورتوں میں سے کسی صورت میں ذخیرہ اندوزی حرام نہیں ہے۔ اس کے علاوہ حرام اور گناہِ کبیرہ ہے۔ حاکم شرع کو چاہیئے کہ وہ اسے اس قیمت پر بیچنے کے لیے مجبور کرے جس پر وہ خود راضی ہو جائے اور اگر وہ زیادہ قیمت وصول کرنا چاہے تو حاکم شرع منصفانہ نرخ سے اس کی قیمت ادا کر کے اس کے گیہوں حاجت مندوں کو فروخت کرے۔

حسد
وہ گناہ جس کے لیے معتبر احکام میں عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے حسد ہے اور حسد یہ ہے کہ دوسرے کے پاس کوئی نعمت نہیں دیکھ سکتا اور چاہتا ہے کہ اس سے وہ نعمت چھن جائے۔
صاحب شرایع فرماتے ہیں: "مومن سے حسد اور دشمنی گناہ ہے اور اس کا ظاہر کرنا عدالت کے خلاف ہے یعنی گناہِ کبیرہ ہے۔ شہید ثانی نے بھی مسالک میں فرمایا ہے کہ مومن سے حسد اور دشمنی تمام فقہاء کے نزدیک حرام ہے۔ دونوں کے لیے بہت سی روایتوں میں عذاب کا وعدہ ملتا ہے اور دونوں گناہِ کبیرہ ہیں۔ اس لیے عدالت کے خلاف اور حسد اور بغض کے اظہار کو جو عدالت کے خلاف سمجھا ہے اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ حسد اور دلی بغض حرام نہیں ہیں اور صرف ان کا اظہار حرام ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک کوئی ان کو ظاہر نہیں کرتا ان سے عدالت کی نفی نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ دل کی بات ہے اور اس کے ثابت ہونے کا طریقہ صرف اس کا اظہار ہے۔ اگرچہ اظہار کیے بغیر بھی حسد اور بغض حرام ہے۔"
حسد کے بارے میں بہت سی روایتیں ہیں۔ یہاں ان میں سے کچھ کا ذکر کیا جاتا ہے:

حسد آگ کی طرح ایمان کو کھا جاتا ہے
حضرت امام باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "انسان غصے کے وقت ہر قسم کی عجلت ظاہر کرتا اور خود کو کافر بنا لیتا ہے لیکن حقیقت میں حسد ایسی چیز ہے جو ایمان کو یوں کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو۔ (کافی)
حضرت امام صادق (علیہ السلام) بھی فرماتے ہیں کہ حسد ایمان کو یوں ختم کر دیتا ہے جیسے آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔ آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ حسد، غرور اور ڈینگیں مارنا دین کے لیے مصیبت ہے۔ (کافی)
مومن ہر چیز پر رشک کرتا ہے لیکن حسد نہیں کرتا اور منافق حسد کرتا ہے رشک نہیں کرتا۔ (کافی)
پیغمبر اکرم فرماتے ہیں: "خدا نے موسیٰ بن عمران سے فرمایا تھا کہ میں نے اپنے فضل سے لوگوں کو جو کچھ عطا کیا ہے اس پر حسد نہ کرنا اپنی آنکھیں اس کے پیچھے نہ لگانا اور اپنے دل کو اس کے پیچھے نہ دوڑانا کیونکہ جس نے حسد کیا اس نے میری نعمت کو بُرا سمجھا اور میں نے اپنے بندوں میں جو تقسیم کی ہے اس کو روکا اور جو ایسا ہو گا میں اس سے نہیں ہوں اور وہ مجھ سے نہیں۔" (کافی)
حضرت امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "کفر کی بنیاد تین چیزوں پر ہے: حرص، غرور اور حسد۔" (وسائل الشیعہ کتاب جہاد باب ۵۴)

کفر کی جڑ

حسد کا کفر کی جڑ ہونا جیسا کہ اس روایت میں ہے اور نفاق ہونا جیسا کہ حدیث میں گذر چکا ہے بالکل ظاہر ہے کیونکہ حاسد شخص اس نعمت کو جو اس شخص کو ملی ہے جس سے وہ حسد کرتا ہے اگر خدا کی طرف سے نہیں سمجھتا تو گویا اس نے کسی اور کو خدا کا شریک بنا لیا ہے جس کی تفصیل باب شرک میں گذر چکی ہے اور اگر اسے خدا کی طرف سے سمجھتا ہے تو خدا کو عادل اور حکیم نہیں سمجھتا اور اس کے فعل پر ناراض ہو گیا ہے۔ کیا خدا سے ناراضگی اور دشمنی سے بدتر بھی کوئی کفر ہو سکتا ہے اور کیا ایسی صورت میں ایمان ظاہر کرنا یعنی اپنے آپ کو مومن کہنا منافقت نہیں ہے؟
رسولِ خدا فرماتے ہیں: "بلاشبہ جو بیماری اور مصیبت پچھلی قوموں میں تھی وہی تم تک بھی پہنچی ہے اور وہ حسد ہے جو دین کو ختم کرنے والا ہے۔ نجات اس میں ہے کہ انسان اپنی زبان اور ہاتھ کو حسد کرنے سے روکے اور اپنے مومن بھائی سے دشمنی نہ رکھے۔" (وسائل الشیعہ کتاب جہاد باب ۵۴)
حضرت امیرالمومنین فرماتے ہیں: "خدا چھ گروہوں کو چھ گناہوں کے باعث عذاب دے گا۔ عرب کو غلط تعصب کی وجہ سے، کسانوں اور زمینداروں کو غرور کی وجہ سے، حاکموں کو ظلم کرنے کی وجہ سے، عالموں کو حسد کرنے کی وجہ سے، لین دین کرنے والوں کو خیانت کی وجہ سے اور دہقانوں (گاؤں والوں) کو نادانی کی وجہ سے۔" (خصائل ص ۱۵۸)
شہید کشف الریبہ میں فرماتے ہیں: "حسد انسانی دل کے لیے سب سے بڑا، سب سے بُرا اور سب سے زیادہ برباد کرنے والا گناہ ہے اس سے بُری کوئی بیماری نہیں ہے۔ یہ پہلا گناہ ہے جو زمین پر کیا گیا۔ جس وقت شیطان نے آدم سے حسد کیا اور انہیں گناہ پر مجبور کر دیا۔ قابیل نے بھی اپنے بھائی ہابیل سے حسد کیا اور اسے مار ڈالا۔ خدا اپنے پیغمبر اکرم کو حکم دیتا ہے کہ شیطان اور جادوگر کے شر سے خدا کی پناہ مانگنے کے بعد حاسد کی شر سے خدا کی پناہ طلب کرو۔ اس طرح خدا نے حاسد کو شیطان اور جادوگر کے زمرے میں رکھا ہے۔ حسد کے بارے میں نبی کی بہت سی حدیثیں ملتی ہیں۔"
واقعی حاسد شخص نہ دُنیا ہے اور نہ آخرت کیونکہ دنیا میں وہ سخت پیچ وتاب، تکلیف اور نامرادی میں مبتلا رہتا ہے کیونکہ اس کے حسد کے باوجود دسرے کی نعمت نہیں چھنتی بلکہ ہو سکتا ہے زیاد ہی ہو جائے جبکہ وہ اس کی نعمت زائل ہو جانے کے لیے کس قدر محنت کرتا اور تکلیفیں جھیلتا ہے پھر بھی جو وہ چاہتا ہے وہ حاصل نہیں ہو پاتا۔
آخرت کے متعلق بھی شک نہیں ہے کہ حاسد حضورِ قلب سے عبادت نہیں کر پاتا اور کچھ بڑی بڑی عبادتوں جیسے مومنوں سے بھلائی، ان پر احسان اور ان کی عزت کرنے سے محروم رہتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر کچھ نیک اعمال بھی رکھتا ہے تو وہ اس شخص کی نذر کر دیتا ہے جس سے حسد کرتا ہے۔ اس کی نیکیوں کا پلڑا بھاری اور اپنے مال کا پلڑا ہلکا کر دیتا ہے کیا اس سے بھی بدتر نقصان ہو سکتا ہے؟

حسد کا ظاہر کرن

مشہور فقہاء نے فرمایا ہے کہ حسد گناہِ کبیرہ ہے اور اس کے ثابت کرنے کا طریقہ زبان، ہاتھ اور دوسرے اعضاء سے حسد کرنا ہے جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا ہے کہ حسد جب تک ظاہر نہیں ہوتا حرام نہیں ہے ۔ اس کا اظہار حرام ہوتا ہے یعنی اعضاء سے حسد کو عمل میں لانا حرام ہے کیونکہ پہلے تو دلی حسد اپنے اختیار میں نہیں ہے یعنی ذاتی بدباطنی یا پُرانی دشمنی کی وجہ سے جو کسی سے ہوتی ہے اگر وہ دوسرے کو نازو نعمت میں دیکھتا ہے تو اسے بے اختیار بُرا لگتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ یہ نعمت اس سے چھن جائے اور جو چیز اختیاری نہ ہو اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی۔ دوسرے اس بات کی کئی روایتوں میں صراحت ہو چکی ہے کہ دلی حسد جب تک ظاہر نہ ہو اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ چنانچہ پیغمبر اکرم کی بھی حدیث رفع ہے جس میں آپ فرماتے ہیں: "میری امت سے نو باتوں کی ذمہ داری اُٹھا لی گئی ہے، بھولنے کی غلطی، جس بات کا عِلم نہ ہو، جس کو نہ کر سکیں، جس میں بے بس ہوں، جس کے لیے زبردستی مجبور کر دئیے جائیں، بدشگونی، آفرینش کے سوچ بچار میں وسوسہ، حسد جب تک کہ ہاتھ یا زبان سے ظاہر نہ ہو۔" (کافی باب مارفع من الامة)

حسد اختیار میں ہوتا ہے

حسد کے اختیاری نہ ہونے کا جواب یہ ہے کہ وہ بات جس کے لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اختیاری نہیں ہے دلی خیالات ہیں جس وقت یہ معلوم ہوتا ہے کہ فلاں نعمت کسی ایسے شخص کو مل گئی ہے جس سے پچھلی دشمنی چلی آ رہی ہے تو از خود اور بے اختیار بُرا لگتا ہے اور انسان یہ چاہنے لگتا ہے کہ وہ نعمت اس سے چھن جائے لیکن اس حالت کا باقی رہنا اور دل کو ایسے بُرے خیال میں مشغول رکھنا اختیاری اور دلی گناہ ہے کیونکہ اپنے دل کو اس گناہ سے عِلمی اور عملی طریقے سے روکا جا سکتا ہے۔

حسد کو روکنے کا عِلمی اور عملی طریقہ

علمی طریقہ حسد کی ان خرابیوں پر جو بیان کی گئی ہیں بلکہ دنیا اور اس کی فناکی بُرائی پر سوچنا اور غور کرنا ہے جس سے دنیا کی محبت کا منحوس پودا جوہر گناہ کی جڑ ہے دل سے نکل جائے اور دُور ہو جائے۔
عملی طریقہ اس بُرے خیال کو عمل میں نہ لانا ہے کیونکہ جس خیال کی تائید نہیں کی جاتی وہ ازخود ختم ہو جاتا ہے۔ چنانہ روایت میں یہ آیا ہے: "وسوسہ کتے کے حملہ کرنے کی طرح ہوتا ہے اگر اس پر توجہ دی جائے تو وہ زیادہ جھپٹے گا اور اگر لاپروائی برتی جائے تو دُور ہو جائے گا۔"

حد یث رفع کی توجیہ

حسد کی جو چند دلیلیں بیان کی گئیں ان سے دلی حسد کی حرمت ظاہر ہوتی ہے۔ یعنی حاسد یہ چاہتا ہے کہ وہ جس سے حسد کرتا ہے اس کی نعمت ختم ہو جائے اور اگر اس نے زبان اور ہاتھ سے حسد کیا، جیسے گالی، غیبت اور دکھ دینا، تو پھر ان میں سے ہر ایک گناہ علیحدہ ہے۔ اس لیے حدیث رفع کو حسد کی طرف بعض قسموں تک محدود سمجھنا چاہیئے تاکہ ان دلیلوں سے اس کا تضاد نہ ہو اور وہ قسم یا درجہ یہ ہے کہ ایک شخص جب یہ سنتا ہے کہ اس کے دشمن کو کوئی نعمت ملی ہے تو اسے بُرا لگتا ہے اور اس کا دل چاہنے لگتا ہے کہ اس سے یہ نعمت چھن جائے، جب اس حالت میں اس کو عقل اور ایمان کی روشنی کی بدولت یہ کیفیت اچھی نہیں لگی اور اس نے چاہا کہ یہ بُرا خیال دُور ہو جائے تو حسد کا یہ درجہ (جو صرف خیال) قابلِ معافی ہے اور اس کی کوئی سزا نہیں ہے لیکن جب کوئی اسے بُرے خیال سے نہ جھجکے بلکہ اسے دل میں رکھے اور روکے رہے تو چاہے اپنے اعضا سے کچھ نہ کرے وہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے کیونکہ درحقیقت وہ اس بُرے خیال کو تقویت دیتا ہے حالانکہ ایک اور حدیث میں کہا گیا ہے: "جب تجھے حسد لاحق ہو جائے تو ظلم مت کرے۔" (خصال صدوق)
علّامہ مجلسی اصولِ کافی میں حسد کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"اپنے دشمنوں کی نسبت سے تیرا حال تین طرح کا ہوتا ہے: پہلا یہ کہ تُو فطری طور پر تو اپنے دشمن کی تکلیف اور پریشانی پسند کرتا ہے لیکن خود تجھے یہ حالت بُری لگتی ہے اور اپنے آپ پر غصہ آتا ہے کہ تُو ایسا کیوں ہے یعنی دوسرے کی تکلیف کیوں پسند کرتا ہے چاہے وہ تیرا دشمن ہی کیوں نہ ہو اور تُو چاہتا ہے کہ تیری یہ بُری کیفیت دُور ہو جائے۔ اس میں شک نہیں کہ تیرا یہ حال قابلِ معافی ہے کیونکہ اس سے زیادہ تیرے بس سے باہر ہے۔
دوسرے یہ کہ تو اپنے دشمن کی پریشانی پسند کرتا ہے اور اس کی تکلیف پر تُو اپنی زبان یا اعضاء سے خوشی وخرمی کا اظہار کرتا ہے۔ یہ وہی حسد ہے جو حرام ہے۔
تیسرے یہ کہ دونوں کی ایک درمیانی حالت ہے یعنی تو اپنے دشمن کی پریشانی پسند کرتا ہے اور تجھے یہ حالت بُری نہیں لگتی لیکن تُو اپنی خوشی کا اظہار بھی نہیں کرتا اور دلی حسد ظاہر نہیں کرتا۔ اس قسم پر فقہاء کا اختلاف ہے۔ چنانچہ بعض نے کہا کہ یہ قسم دل کی اس محبت کی کمزوری یا قوت کی مقدار کے مطابق گناہ سے خالی نہیں ہے۔

با قی تما م روا یتوں سے تضا د نہیں

ایسی روایتیں ملتی ہیں کہ جب مومن گناہ کی نیت کرتا ہے جب تک وہ اس کا ارتکاب نہیں کرتا، اس پر کوئی بوجھ نہیں ہوتا اور اس کے اعمال نامے میں کوئی گناہ نہیں لکھا جاتا، اس لیے حاسد بھی جب تک کوئی کام نہیں کرتا اس کا کوئی گناہ نہیں ہوتا۔
جواب یہ ہے کہ یہ روایتین ان گناہوں کے بارے میں ہیں جو اعضاء اور جوارح سے کیے جاتے ہیں اور جب تک کیے نہیں جاتے گناہ نہیں ہوتے لیکن جن گناہوں کی جگہ دل میں ہے جیسے منافقت، غرور، مومن کی دشمنی، حسد وغیرہ یہ سب کے سب معافی کی روایتوں سے خارج ہیں۔
جو کچھ کہا گیا ہے اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ جب بھی کسی انسان کے دل میں کسی مسلمان کی نعمت چھن جانے سے دلچسپی اور لگاؤ پیدا ہوا اسے واجب ہے کہ اس حالت کو بُرا سمجھے اور اسے دُور کرنے کی کوشش کرے اور اگر اسی حالت پر باقی اور قائم رہا تو سمجھ لے کہ گناہ کبیرہ واقع ہو گیا اور پھر واجب ہے کہ ہر وقت پچھتاتا اور اپنے گناہ سے توجہ کرتا رہے۔

رشک حرام نہیں ہے

حسد کے معنی کسی کے نعمت پانے پر ناخوش ہونا اور اس سے اس نعمت کے چھن جانے کی خواہش کرنا جیسا کہ ذکر کیا گیا اور رشک کے معنی ہیں اس نعمت جیسی نعمت پانے کی تمنا کرنا جو دوسرے کو ملی ہے لیکن نہ اس میں دوسرے کے نعمت پانے کا بُرا لگتا ہے نہ اس سے نعمت چھن جانے کی آرزو کی جاتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ رشک میں ویسی ہی نعمت پانے کی آرزو ہوتی ہے جیسی دوسرے کو ملی ہے اور حسد میں دوسرے کی نعمت ختم ہو جانے کی تمنا ہوتی ہے۔
رشک اپنے موقع ومحل کے لحاظ سے مختلف قسم کا ہو سکتا ہے چنانچہ علّامہ مجلسی نے مرآت العقول میں فرمایا ہے کہ یہ فرائض کے پانچ احکام کے تحت منقسم ہو سکتا ہے۔ کبھی یہ واجب ہوتا ہے اور وہ واجبات کا رشک ہے مثلاً کسی کا دوست حج کر آیا اور وہ رہ گیا اب وہ تمنا کرے کہ وہ بھی اس کی طرح یہ فرض ادا کرتا کیونکہ اگر وہ یہ نہ چاہے کہ وہ بھی اس شخص کی طرح واجب بجا لاتا تو معلوم ہو گا کہ وہ اس واجب کو ترک کرنے پر رضا مند ہے اور یہ خود حرام ہے (توبہ کے واجب ہونے، واجب کے ترک ہونے پر پشیمان ہونے اور حرام فعل کرنے کی دلیل کے مطابق)۔
مستحب کاموں پر رشک بھی مستحب ہے۔ مثلاً اپنے اس دوست کی حالت پر رشک کرنا جس نے زیارت یا اور کوئی مستحب کام کیا ہے۔ کبھی رشک حرام اور کبھی مکروہ بھی ہوتا ہے۔ مثلاً اس شخص کی حالت پر رشک کرنا جسے کوئی حرام منصب یا حرام مال ملا ہو یا اس پر رشک کرنا جس سے کوئی مکروہ عمل صادر ہوا ہو اور مباح کاموں پر رشک مباح ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ حرام چیز پر رشک اگرچہ خود حرام ہے۔ لیکن جب تک اسے عملی جامہ نہیں پہنایا جاتا اہل ایمان کا یہ گناہ قابلِ معافی ہے چنانچہ اس بارے میں بہت سی روایتیں ملتی ہیں۔

مومن سے دشمنی کرنا

جواہر الکلام کے مصنف نے لکھا ہے:
جس طرح حسد خود گناہ اور اس کا اظہار عدالت کے خلاف ہے اسی طرح مومن کی دشمنی اور اسے زبان یا اعضاء سے ظاہر کرنا پاپ ہے کیونکہ بہت سی روایتوں میں مومن بھائی کی دشمنی اور اسے چھوڑ دینے سے منع کیا گیا ہے اور اس سے محبت اور اس پر مہربانی کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور انسان اپنے مومن بھائی سے ملنے میں اس کے کسی برتاؤ سے جو بھاری پن اپنے دل میں محسوس کرتا ہے ظاہر ہے کہ اسے حرام نہیں کہا گیا کیونکہ اس موقع پر کوئی شخص ایسی حالت کے پیدا ہو جانے سے بری نہیں رہ سکتا۔ (جواہر، کتاب شہادت)
یہاں چند روایتیں مختصر طور پر نقل کی جاتی ہیں:
حضرت امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "جو کوئی ہمارے شیعوں سے دشمنی کرے گا وہ ہم سے دشمنی رکھے گا کیونکہ یہ ہم سے ہیں اور ہماری ہی مٹی سے پیدا ہوئے ہیں۔ جو انہیں دوست رکھے گا وہ ہم سے ہے اور جو انہیں دشمن سمجھے گا وہ ہم سے نہیں ہے۔" یہاں تک کہ آپ نے فرمایا: "جو کوئی ان کو رد کرتا ہے گویا اس نے خدا کو رد کیا اور جو انہیں بُرا کہتا ہے اس نے گویا خدا کو بُرا کہا۔" (وسائل الشیعہ کتاب الامربالمعروف باب ۱۷)
پیغمبر اکرم فرماتے ہیں: "جو دو مسلمان ایک دوسرے پر غصہ کریں اور تین دن تک اسی صورت میں جاری رکھیں اور میل نہ کریں تو وہ دونوں کے دونوں اسلام سے خارج ہیں اور ان میں دینی تعلق باقی نہیں ہے اور جو کوئی اپنے مسلمان بھائی سے بات کرنے میں پہل کرے وہ قیامت کے دن بہشت میں جانے میں بھی پہل کرے گا۔" (وسائل الشیعہ کتاب حج باب ۱۴۴)
اس بارے میں بھی وسائل میں گیارہ اور حدیثیں بیان کی گئی ہیں۔
حضرت امام صادق (علیہ السلام) اپنے اصحاب سے فرماتے تھے: "خدا کی راہ میں ایک دوسرے کے بھائی بنو اور ایک دوسرے سے دوستی کرو اور آپس میں رشتہ کرو اور مہربان رہو۔" (وسائل الشیعہ)
اس بارے میں مومن کے حق کے بارے میں اور اللہ سے محبت اور دشمنی کے بارے میں بہت سی روایتیں ہیں لیکن مثال کے لیے انہیں تھوڑی سی روایتوں پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔