تیسری فصل :اسلام میں اخلا قی تر بیت کے طر یقے
1۔خود پر ناظر ہونا
یہ روش مکمل طور پر ''خود تربیتی'' صورت میں انجام پائے گی، اپنے آپ پر نظارت سے مراد یہ ہے کہ انسان کامل ہوشیاری اور مراقبت کے ساتھ قبول شدہ اخلاقی اقدار کی نسبت کوشش کرے کہ جو (جوارحی یا جوانحی) رفتار وکردار اخلاقی فضائل کے منافی ہیں اس کے وجود میں راستہ پیدا نہ کرنے پائیں اور اُس کے اخلاقی ملکات وقوّتوں کے زوال اور سستی کا باعث نہ بنیں۔
اپنے آپ پر روش نظارت کے نفسیاتی مبانی میں دو مرحلے قابل تفکیک ہیں: پہلا مرحلہ اس روش کے استعمال سے متعلق ہے کہ تربیت پانے والا شوق اور مقصد کے اعتبار سے باندازۂ کافی آمادگی رکھتا ہو۔(١)
یہ مرحلہ گذشتہ روشوں کی مدد سے بالخصوص اقدار کی طرف دعوت کی روش اور عقلانی توانائی کی تربیت کی روش کے ذریعہ عملی ہونا چائیے، یعنی ایک شخص اس نظریہ تک پہنچے کہ یہ اقدار اور اخلاقی مقاصد اُس کے وجود میں پائدار رہیں اور اخلاقی رذائل اُس سے مٹ جائیں دوسرا مرحلہ اس روش کی تاثیر کی کیفیت کو واضح کرنا ہے۔ نفسیاتی نظام کے صادرات اور واردات تدریجی صورت میں بیماری وجود ی شکل کی تعمیر کرتے ہیں ، اور نفس شناسی کی اصطلاح میںہمارے تزکیہ باطن اور ظاہر کو ایک تعادل پسندی کی طرف آگے بڑھاتی ہے، اس وجہ سے واردات وصادرات کی نوع کیفیت پر نظارت (کہ جو ہماری نیّات اور مقاصد کو بھی شامل ہوتی ہے)اس شکل کو جہت دینے میں کہ جو ان کا نتیجہ ہے، مؤثر بلکہ قابل تعیین ہوسکتی ہے۔
َ
١۔ اخلاقی کتب میں اسے ''مقام یقظہ'' یعنی مقام بیداری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
(اسکینز کے )فعال ماحول سازی کے نمونہ میں یہ روش تقریبی طور پر ایک مستقل روش کے عنوان کے تحت تین مرحلہ بیان کی جاتی ہے ۔(١)
١ ۔اپنا مشاہدہ : اپنی رفتارکو دقت کے ساتھ جزئی اورکمّی (مقدار ک )لحاظ سیثبت وضبط کرتا ہے۔
٢ ۔خود سنجی: (اپنے کو تولنا) موجودہ رفتاروں آئیڈیل نمونہ کے ساتھ کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے مقایسہ اور موازنہ کیا جاتا ہے۔
٣ ۔ خود تقویتی: (اپنے آپ کو قوت پہنچانا) ایسی رفتار جو ہدف کو زیادہ قریب کرتی ہے اور اُس سے سنخیت رکھتی ہے ، اس پر جزا دی جاتی ہے اور اس کے مدمقابل رفتار کومنفی تقویت کے ساتھ اور کبھی تنبیہ کے ذریعہ قابو اور کنٹرول میں رکھا جاتا ہے ۔
اس طرح سے رفتاری آثار ونتائج (پاداش اور تنبیہ)سے استفادہ کرنے سے اپنے آپ پر ایک دائمی نظارت اور مراقبت عمل میں آتی ہے دوسرے طریقے جو ا سکینر اپنے کنٹرول اور ضبط نفس کے لئے اس سلسلہ میں ذکر کرتا ہے، یہ ہیں: اور اسباب وشرائط کا آسان یا تنگ کرنا (مثال کے طور پر فضول خرچ انسان، اپنی جیب میں کم پیسہ رکھے)، محرومیت، عاطفی شرائط وحالات پر تسلط، تکلیف دہ محرک سے استفادہ (جیسے گھنٹی والی گھڑی) اور دوسرے امور کی انجام دہی۔
مکتب سلوکیت کا نمونہ ا سکینر کے نظریہ کے مطابق رفتار کی نظارت اور جانچ معمولی اور کم اہمیت کی حامل ہیں ، لیکن ہم اس نمونہ اور توضیح سے بالاترین سطحوں کے لئے اور اپنے آپ پر نظارت کے لئے استفادہ کرسکتے ہیںاور تیّات ، اہداف ومقاصد حتی کہ اپنی رفتار وکردار کی خوبیوں پر کنٹرول کرسکتے ہیں۔ اخلاقی کتابوں میں یہ روش بہت زیادہ مورد توجہ رہی ہے اور اس سے متعلق مستقل کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔ (٢) ان کتابوں میں مراقبہ، محاسبہ یا مرابطہ مرز بانی]دشمن سے سرحد کی حفاظت[ کے عناوین کے تحت یہ بحث کی گئی ہے۔(٣)
.......................................
.1 Psychoegyobhelthp.103;10k
٢۔جیسے ان کے محاسبة النفس از سید ابن طائوس اور محاسبة النفس کفعمی)
٣۔اخلاقی تربیت کی روش میں عرفاء شیعہ نے آخری دوسو سال میں (ملاحسین قلی ہمدانی، میرزا علی آقا قاضی، مرحوم بہاری، حاج میرزا جواد تبریزی ، مرحوم علامہ طباطبائی اور امام خمینی تک نے )اپنے آپ پر نظارت (مراقبہ ومحاسبہ) کی روش پر بہت تاکید کی ہے اور اسے اپنے سلوک کی بنیاد قرار دیا ہے۔
'' ... ابو حامد بندوں کے درمیان صرف صاحبان بصیرت جانتے ہیں کہ خداند عزوجل ان کا محافظ اورنگراں ہے اورمحاسبہ میں دقت سے کام لیا ہے اور ان کی نسبت بہت جزئی امور میں بھی سوال اوربازپرس کرتا ہے، لہٰذا یہ لوگ جانتے ہیں کہ ان امور سے نجات کا راستہ محاسبہ اورمراقبہ کے لزوم کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہ کہ نفس کو حرکات اور لحظات کی نسبت جانچتے رہیں، لہٰذا جو اپنے نفس کو روز قیامت کے حساب وکتاب سے پہلے مورد محاسبہ قرار دے تو اُس دن اُس کا حساب آسان اور سوال کے وقت اُس کا جواب آمادہ ہوگا اورنتیجہ نیک اور اچھا ہوگا۔ اورجو کوئی اپنے نفس کا محاسبہ نہ کرے گا اس کی حسرت دائمی اور قیامت کے مواقف میں اُس کا توقف طولانی ہوگااور اس کی برائیاں اسے ایسی ذلت وخواری کے گڑھے میں ڈھکیل دیں گی۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ خداوندعالم کی اطاعت کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے اور اُسی نے صبر مرزبانی کا حکم دیا ہے:
(یَا اَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوْا۔۔۔)۔(١)
''اے صاحبان ایمان تم لوگ صبر کرو، صبر کی تعلیم دو اور مرابطہ یعنی دشمن سے جہاد کے لئے تیاری کرو...'' لہٰذا تم مرابطہ ومرزبانی کرو پہلے مشارطہ کے ذریعہ اس کے بعد مراقبہ کے ذریعہ پھر محاسبہ اور پھر معاقبہ (سزا دینے) کے ذریعہ پھر اس کے بعد مجاہدہ اورمعاتبہ (عتاب کرنے) کے ذریعہ ...''(٢)
اس لحاظ سے ایک دوسرے رخ سے بھی اپنے آپ پر نظارت اور نگرانی کا لزوم معلوم ہوا، محاسبۂ اعمال کردار کے تولنے کے لئے موازین قسط کے قرار دینا، قیامت کے دن حساب وکتاب کرنااور ہمارے نامہ اعمال میں ان کے جزئیات کو ضبط کرنا کہ جن کو ہر شخص واضح طور پر دیکھے گا، ان سب باتوں کے قطعی ہونے کے پیش نظر محاسبہ اوراعمال پر نظارت کے لزوم کے سلسلہ میں کوئی تردید نہیں رہ جاتی اورخداوند اس سے کہیں زیادہ کریم ہے کہ اپنے بندوں سے دوبارہ حساب کا مطالبہ کرے۔ قرآنی آیات اس سلسلہ میں بہت زیادہ واضح ہیں:
''ہم عدل وانصاف کا ترازو قیامت کے دن قرار دیں گے، پس کسی نفس پر بھی کسی چیز میں ستم نہیں جائے گا، اگر( کسی کا عمل) رائی کے دانہ کے برابر بھی ہوگا اُسے ہم لے آئیں گے اور ہم سب کا حساب کرنے کے لئے کافی ہیں ''۔(٣) ''اور جب نامۂ اعمال سامنے رکھا جائے گا، اُس وقت مجرمین کو اپنے نامۂ اعمال کے مندرجات سے خوفزدہ دیکھوگے اور وہ کہیں گے : اے ہم پروائے ہو، یہ کیسا نامۂ اعمال ہے کہ جس میں کوئی ]کام[ چھوٹا ہو یابڑاچھوڑا نہیں گیاہے، بلکہ سب کو جمع کرلیاہے اور جوکچھ انھوں نے انجام دیا ہے وہ سب اس میں موجود پائیں گے اور تمہارا رب کسی پر ستم روا نہیں رکھتا''۔(٤)
اپنے آپ پر نظارت کے طریقے درج ذیل ہیں:
.......................................
١۔ سورہ ٔآل عمران آیت ٢٠٠۔
٢۔ احیاء العلوم، غزالی ج٤ص ٤١٧، ٤١٨۔
٣۔ سورہ ٔانبیاء آیت٤٧۔
٤۔سورہ ٔکہف آیت٤٩۔
الف۔توبہ:
اپنے آپ پر نظارت کی روش میں جب بھی انسان اپنے آپ پر نظر ڈالتا ہے تو عام طور پر اپنے صحیفۂ اعمال کو اخلاقی رذائل سے آلودہ دیکھتا ہے۔ ایسی صورت میںاگر ان برائیوں سے الگ اورجدا ہونے کی کوئی راہ اورامید نہ ہو تو انسان بدبختی اور شقاوت کے بھنور میں مکمل طور پر پھنس جائے گا، اورنا امیدی اور رذائل کے ہلاکت بار گڑھے میں گرجائے گا، اس کے علاوہ روحی اور نفسیاتی اعتبار سے گناہ کے اندر اسی حالت پیدا کرتا ہے کہ اگر رذائل نہ ہوں تو آئندہ مواقع پر اور بھی زیادہ گناہوں کے ارتکاب کرنے پر آمادہ ہوجاتاتا ہے۔ اس وجہ سے اپنے اعمال کی غیر ارادی بنیادوں کے لحاظ سے ضروری ہے جیساکہ پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں:
''جب انسان سے کوئی گناہ سرزد ہوتا ہے تو اُس کے دل میں سیاہ نقطہ ایجاد ہوجاتا ہے، پس اگر توبہ کرلیتا ہے تو مٹ جاتا ہے اوراگروہ گناہ جاری رکھا تو سیاہی اس کے پورے دل کوڈھانپ لیتی ہے اور کامیابی کی راہ مسدود ہوجاتی ہے''۔(١)
دوسرا قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ ''گناہ'' کے مختلف مفاہیم ہیں:
نافرمانی اور بے وفائی کا احساس، اپنے آپ کو صدمہ پہنچانا، روح کو خراش لگانااور سزا کا مستحق ہونا۔ اگر یہ احساس گناہ انسان کی روح پر غالب آجائے اور سلسلہ باقی رہے، تو ذہنی افسردگی کا پیش خیمہ ہوگا اور انسان کو ہر قسم کی اپنی معنوی تعمیر اور اخلاقی فضائل کسب کرنے سے روک دے گا، اس وجہ سے توبہ اپنی ازسرِنو تعمیر کے لئے دوبارہ بازگشت کو کہتے ہیں، وہ تجدید اعمال کے لئے صاف وروشن نامۂ اعمال کے ہمراہ رحمت خداوندی کی امیدوار، منقلب، پختہ ارادہ کی مالک تعمیر کرتی ہے اور یہ توبہ وہی خدا کا لطف اور اس کی رحمت ہے، حضرت امام جعفر صادق ـ کے بقول ''توبہ اﷲ کی رسی اور عنایت ربوبی ہے، لہٰذا بندے ہمیشہ توبہ کی کوشش کریں اور ہر گروہ کا ایک خاص توبہ ہے......''۔(٢)
.......................................
١۔ ''اذا أذنب الرجل خرج فی قلبہ نقطة سوداء فان تاب انمحت وان زاد زادت حتّی تغلب علی قلبہ فلا یفلح بعدہا ابداً''(کافی ج٢ص ٢٧١)۔
٢۔ مصباح الشریعة ص ٩٧۔
توبہ درحقیقت اپنے اوپر نظارت ہے۔ حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''اپنے نفس سے جہاد کرو اورتوبہ کو مقدم رکھو تاکہ اپنے رب کے مقام طاعت تک پہنچ جائو''۔(١)
یہاںپر توبہ سے مراد راہ خطا اور عمل خلاف سے حسرت وندامت کے ساتھ واپس آنا ہے، یہ حسرت وندامت ہی کی آگ ہے جو اخلاقی گراوٹ اور پستی سے پاکسازی کے لئے راہ ہموار کرتی ہے اورایسا سوز وگذار ہے کہ جو انسان کے ذہن میں عفو وبخشش کا مزہ شیریں بناتی ہے اورطراوت، تازگی، طہارت وپاکیزگی کو انسان کے اندر وجود بخشتی ہے، ہر ابتدا اور ہر قدم کے لئے اپنی تربیت کے سلسلہ میں توبہ لازم ہے تاکہ وہ انسانی عزّت وکرامت کا احساس واپس آجائے، '' اپنے متعلق اپنے قیمتی تصوّرات کا مشاہدہ کرے اور اخلاقی تربیت کے لئے آمادہ ہوجائے۔
''گناہوںکے اشجار کو اپنے قلب ونگاہوں کے سامنے قرار دیتے ہیں اور آب ندامت سے اُس کی آبیاری (سینچائی) کرتے ہیں، پھر صحت وسلامتی، رضا وکرامت کا پھل حاصل کرتے ہیں''۔(٢)
حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں:
''جب کوئی بندہ واقعی (نصوح، خالص) توبہ کرتا ہے تو خدا کا محبوب ہوجاتا ہے اورخداوندعالم دنیا وآخرت میں اس کے گناہ کو پوشیدہ کردیتا ہے....... وہ دو فرشتے جو نامہ اعمال کو ثبت کرتے ہیں انھیں غافل بنا دیتا ہے اور اعضا وجوراح کو حکم دیتا ہے کہ اس کے گناہوں کو مخفی رکھیں اور زمین کے مختلف حصوں سے کہتا ہے کہ وہ سارے گناہ جو تم پر انجام دئے ہیں انھیں نظر انداز کردو، پھر خدا سے وہ ایسی حالت میں ملاقات کرتا ہے کہ ایسی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی جو اس کے گناہوں کی گواہی دے''۔(٣)
حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''توبہ دلوں کو پاک کرتی ہے اورگناہوں کو دھودیتی ہے''۔(٤)
.......................................
١۔ غررالحکم۔
٢۔ بحار الانوار ج٧٨ ص٧٢۔
٣۔ کافی ج٢ص٤٢٣۔
٤۔ ''التوبة تطہر القلوب وتغسل الذنوب''۔(غرر الحکم، فصل٥،ص١٩٥)۔
امام خمینی بھی توبہ کے بارے میںبیان کرتے ہیں:
توبہ نام ہے نفس کا مادیت روحانیت کی طرف رجوع کرنے کا، جبکہ گناہوں اور نافرمانی کی کدورت کے ذریعہ روحانیت (معنویت) اورنورانی فطرت، طبیعت کی ظلمت میں محجوب ہوجاتی ہے۔ اور اس اختصار کی تفصیل یہ ہے کہ نفس ابتدائے فطرت میں ہر طرح کے کمال، جمال، نور اور درخشندگی اور چمک دمک سے خالی ہوتا ہے، جس طرح سے کہ ان کے مقابل ومخالف صفات سے بھی خالی ہوتا ہے، گویا ایک ایسا صفحہ ہوتا ہے جو مطلق نقوش سے خالی ہوتا ہے، جس میں نہ کوئی روحانی اورمعنوی کمالات پائے جاتے ہیں اورنہ ہی صفات اضداد سے متصف ہوتا ہے۔ لیکن ہر مقام ومنصب کے حصول کی استعداد ولیاقت کا نور اُس میں بطور ودیعت رکھا گیا ہے اور اس کی فطرت استقامت پر ہے اور اس کا خمیر انوار ذاتیہ سے گوندھا ہوا ہے اورجب معاصی کا ارتکاب کرتا ہے تواس کے ذریعہ اُس کے دل میں ایک کدورت پیدا ہوجاتی ہے اورگناہ جس قدر زیادہ ہوتے ہیں، کدورت اور ظلمت بڑھتی جاتی ہے، یہاں تک کہ دل بالکل ہی تاریک اور ظلمانی ہوجاتا ہے (یعنی گناہوں کی کثرت سے دل میں سیاہی اور ظلمانی پردہ حائل ہوجاتا ہے پھر اُس پر کوئی بات اثر نہیں کرتی) اور نور فطرت خاموش ہوجاتا ہے اور ابدی شقاوت وبد بختی تک پہنچ جاتا ہے، اگر ان حالات کے دوران، دل کے تما م صفحہ پر ظلمت کے چھانے سے قبل خواب غفلت سے بیدار ہوجائے توپھر بیداری کی منزل کے بعد توبہ کی منزل میں وارد ہو جاتا ہے اور طبیعی کدورت اصلی نور فطرت اور ذاتی معنویت کی طرف واپس ہوجاتی ہے گویا کہ تمام کمالات اور اس کی اضداد سے خالی ایک صفحہ ہوجاتا ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہوا ہے: ''التائب من الذنب کمن لاذنب لہ۔۔۔''۔گناہ سے توبہ کرنے والا بے گناہ کے مانند ہے۔ (١)
اس بات کے لئے کہ انسان توبہ کرے اورمایوسی وناامیدی اس پر غالب نہ آئے، توبہ کی طرف دعوت دینے والی آیات کو پے درپے پڑھنا چاہئے اور یہ جاننا چاہئے کہ خداوندعالم کی عفو و بخشش اور رحمت ورأفت کا دامن نہایت وسیع ہے:
(وَتُوبُوا اِلَی اللّٰہِ جَمِیْعاً اَیُّہَا المؤمِنُونَ لَعَلَّکُم تَفْلِحُون )(٢)
''اور اے صاحبان ایمان! تم سب اﷲ کی بارگاہ میں توبہ کرتے ہو کہ شاید اسی طرح تمھیں فلاح اور نجات مل جائے''۔
.......................................
١۔ چہل حدیث ص٢٣١، ٢٣٢۔
٢۔ سورہ ٔنور آیت٣١۔
(قُل یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ اسْرِفُوا عَلیٰ أنفسِہِمْ لَا تَقْنُطُوا مِن رَحْمَةِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیْعاً اِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیْمِ۔) (١)
''پیغمبر! آپ پیغام پہنچادیجئے کہ اے میرے بندو جنھوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی ہے رحمت خدا سے مایوس نہ ہونا، بے شک اﷲ تمام گناہوں کو معاف کرنے والا ہے اور وہ یقینا بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے''۔
(یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا تُوبُوا اِلَی اللّٰہِ تَوبَةً نَّصُوحاً عَسیٰ رَبُّکُم اَنْ یُکَفِّرَ عنْکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ ) (٢)
''اے ایمان والو! خلوص دل کے اﷲ سے توبہ کرو عنقریب تمھارا پروردگار تمھاری برائیوں کو مٹادے گا''۔
ان باتو ںکو بھی جا ن ودل سے سماعت فرمائیں:
...بالفرض اس فرض کی بنیاد پر ہے کہ اہل نجات اور اس کی عاقبت سعادت ہو پھر بھی اُس عالم میں گناہوں کی تلافی کوئی آسان کام نہیں ہے،پہلے شدائد، زحمات ومشکلات کا برداشت کرنا ضروری ہے تاکہ انسان شفاعت کے قابل بنے اور ارحم الراحمین کی رحمت اُس کے شامل حال ہوجائے، پس اے عزیز!جتنا جلدی ممکن ہو کمرہمت کس لو اورعزم کو محکم اور ارادہ کو قوی کرلو اورگناہوں سے توبہ کرو کیونکہ ابھی جوانی کی عمر یا دنیاوی زندگی میں ہو، اور خداداد فرصت کو ہاتھ سے نہ گنوائو اور شیطانی دھوکوں اور نفس امارہ کی چالوں پر توجہ نہ دو۔(٣)
فرعون کے جادوگروں نے ایک دلیرانہ قدم اٹھایا اور توبہ کرلیا اوربارگاہ الٰہی کے مقربین کے درجہتک پہنچ گئے ابراہیم ادہم، فضیل بن عیاض، حربن یزیدریاحی، جابر جعفی اور بدھ واقعی منقلب ہونے والوں کے نمونے ہیں۔
توبہ کرن یکے بعد اس کے استحکام کے لئے اور گذشتہ گناہ کی تکرار نہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ درج ذیل باتوں کو یاد رکھیں: پیغمبر اکرم ۖنے فرمایا: ''گناہ سے توبہ یہ ہے کہ پھر اس کی طرف واپس نہ آ ئے''۔ (٤)
.......................................
١۔ سورہ ٔزمر آیت٥٣۔
٢۔ سورہ ٔ :تحریم آیت٨۔
٣۔ چہل حدیث ص ٢٣٣، ٢٣٤۔
٤۔ نہج الفصاحةحدیث ١٢١١۔
''خداوند سبحان کے نزدیک توبہ صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو نادانی اور جہالت کی وجہ سے گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں پھر جلد ہی توبہ کرلیتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں کہ خداوندکریم ان کی توبہ قبول کرتا ہے، اور خداوند متعال علیم دانا اور حکیم ہے''۔(١)
''وہ لوگ وہ ہیںکہ جب برا کام کرتے ہیں، یا اپنے نفس پر ستم کرتے ہیں تو خدا کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کی مغفرت چاہتے ہیں، کون ہے خدا کے سوا جو گناہوں کو بخش دے؟ اورجو گناہ وقصور (ناگہانی) کر بیٹھے ہیں اس پر جان بوجھ کراصرار نہیں کرتے ''۔(٢)
تمام متعلق اور مربوط امور میں اصلاح اور تبدیلی: ''مگر جن لوگوں نے توبہ کیا اور اپنے عمل کی اصلاح کی اور خدا سے تمسک رکھا اور اپنے دین کو خدا کے لئے خالص طور پر اختیار کیا تو نتیجہ کے طور پر وہ لوگ مومنین کے ساتھ ہوں گے اور عنقریب خداوند عالم مومنین کو اجر عظیم جزا دے گا''۔(٣)
خود کو خدا کے حضور میں تصور کریں اوریہ جانیں کہ خدا ان کے اعمال کو دیکھ رہا ہے:
ایک حبشی شخص رسول اکرم ۖکی خدمت میں آیا اور بولا: اے رسولۖ خدا! میں ایک بُرے کام کا مرتکب ہوا ہوں، آیا میرے لئے توبہ ہے؟ فرمایا: ہاں۔ پھر وہ چلا گیا مگر تھوڑی ہی دیر بعد واپس آکر بولا: اے رسول خدا! آیا اس وقت خدا نے مجھے دیکھا ہے؟ فرمایا: ہاں، پھر اُس حبشی نے اس طرح چیخ ماری کہ روح اس کے جسم سے نکل گئی۔(٤)
آخری نکتہ:
توبہ کے بعد اپنے آپ پر نظارت اور تحفظ کے لئے اپنے آپ سے عہد کرے اور مشارطہ کرے۔
مشارطہ یہ ہے کہ پہلے دن مثال کے طو رپر اپنے آپ سے شرط کرے کہ آج خداوند عزوجل کے حکم کے خلاف کوئی کام نہیں کرے گا اور اس بات کا عزم بالجزم کرے اور معلوم ہے کہ ایک دن خلاف ورزی نہ کرنا، بہت آسان امر ہے اور انسان آسانی سے عہدہ بر آہو سکتا ہے، تم عازم ہوکر شرط کرو اورتجربہ کرو تودیکھو گے کہ کتنا آسان ہے۔ ممکن ہے کہ شیطان اور اُس ملعون کالشکر تم پراس امر کو بہت سخت دکھائے، لیکن یہ اُس ملعون کا دھوکا ہے۔ اُس پر دل سے حقیقتاً لعنت کرو اور باطل اوہام وخیالات کو دل سے نکال دو اور ایک دن تجربہ تو کرو، اس وقت اس کی تصدیق کروگے۔(٥)
.......................................
١۔ سورہ ٔنسائ آیت١٧۔
٢۔ سورہ ٔآل عمران آیت١٣٥۔ ٣۔ سورہ ٔنساء آیت١٤٦۔
٤۔ احیاء العلوم، ابو حامد غزالیج٤ص١٥۔
٥۔ چہل حدیث ص٨۔
یہ مشارطہ اور معاہدہ کلی طور پر ہفت گانہ اعضا (آنکھ، کان، زبان، شکم، دامن، ہاتھ اور پائوں) کے ساتھ ہو یا یہ کہ ایک ایسی خالص اخلاقی رفتار یا خاص صفت سے متعلق ہو کہ انسان جس سے دوچار ہے، بہتر ہے کہ یہ مشارطہ پہلے ہی دن انجام دیا جائے۔ ملا مہدی نراقی اس سلسلہ میں بڑی خوبصورت تمثیل پیش کرتے ہیں:
''جان لوکہ عقل آخرت کی راہ میں ایک تاجر کے مانند ہے جس کا سرمایہ اور پونجی عمر ہے اور اُسے وہ نفس کی مدد سے استعمال کرتا ہے کہ اس لحاظ سے عقل کے شریک کی مانند ہے کہ اُس کے مال میں تجارت کرتا ہے اور اس تجارت کا فائدہ اعمال صالحہ اور اخلاق فاضلہ کا حصول ہے کہ انسان کو دائمی سعادت اور ابدی نعمت کی جانب راہنمائی کرتے ہیں۔ اُس کا نقصان اس صورت میں ہے کہ اس سے ایسے گناہ سرزد ہوں کہ جو دوزخ کے دردناک عذاب تک منتہی ہوجاتے ہیں... اور اس تجارت کی مدت پوری عمر ہے۔ جس طرح تاجر کی ابتدا میں اپنے شریک سے مشارطہ ومعاہدہ کرتا ہے پھر اس کا مراقب اورنگران ہوجاتا ہے اور آخر میں اس کا محاسبہ کرتا ہے اور ممکن ہے کہ اُس سے تاوان بھی مانگ لے، اسی طرح عقل کو بھی اپنی نفس کے ساتھ مشارکت میں ان امور کی رعایت کرنی چاہئے''۔(١)
ب۔مراقبہ:
امام خمینی اس کی توضیح میں فرماتے ہیں:
'' ... ایسا ہے کہ تمام شرط کی مدت میں اس پر عمل کر نے کی طرف متوجہ رہو اورخود کو اُس پر عمل کرنا لازم سمجھواور اگر خدانخواستہ تمھارے دل میں خیال آئے کہ ایسے کے مرتکب ہو رہے ہو جوکہ حکم خداوندی کے خلاف ہے تو جان لو کہ یہ شیطان اور اس کے لشکر کی طرف ہے وہ چاہتے ہیں کہ جو تم نے شرط کی ہے اُس سے روک دیں اُن پر لعنت کرو اور اُن کے شرّ سے خدا کی پناہ مانگو اور باطل خیال کو دل سے نکال دو اور شیطان سے کہو کہ ایک دن میں نے خود سے شرط کی ہے کہ خدا کے حکم کے خلاف نہ کروں لیکن ولیّ نعمت نے سالوں سال سے مجھے نعمت دی ہے، صحت، سلامتی اور امنیت مرحمت فرمائی ہے کہ اور اس نے مجھ پر ایسے لطف کئے ہیں کہ اگر تاابد اس کی خدمت کروں تب بھی ان میں سے کسی ایک کا حق ادا نہیں کرسکتا ، لہٰذا مناسب نہیں ہے کہ ایک معمولی سی شرط کو بھی وفا نہ کروں... یہ مراقبہ تمہارے کاموں میں بھی جیسے کسب اورکمائی ، تعلیم وتعلم اور مسافرت، کسی ایک سے بھی منافات نہیں رکھتا ہے اور اسی حال پر رات تک باقی رہو کہ وہ محاسبہ کا وقت ہے...۔(٢)
.......................................
١۔ جامع السعادات ج٣ص٩٣۔
٢۔ چہل حدیث ص٨۔٩۔
حضرت حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''سزاوار ہے کہ انسان اپنے نفس پر حاکم، قلب کا نگراں اور زبان کا محافظ ہو''۔(١)
حضرت امام حسین ـ نے فرمایا: ''تین چیزیں اگر ہرمومن میں پائی جائیں تووہ خدا کی پناہ میں ہے... (تیسرے یہ کہ) اپنے نفس سے محاسبہ کرے اور اُس وقت تک اپنے ہاتھ پائوں کو حرکت نہ دے جب تک یہ نہ جان لے کہ خدا کی راہ میں قدم اٹھایا ہے یا اُس کی نافرمانی کی راہ میں اور یہ کہ اپنے بھائی کے کسی عیب پر ملامت نہ کرے مگر یہ کہ خود اُس کا ترک کرنے والاہو''۔(٢)
حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں:
''اُس بندہ پر آفرین ہو جو اپنے نفس سے جہاد کے لئے قدم اٹھائے، جو انسان ہوائے نفس کے سپاہیوں کو مغلوب بنادے اُس نے رضائے خداوندی کاراستہ پا لیا ہے اورجس شخص کی عقل کو شش وتلاش کے ساتھ نفس امارہ پر غلبہ کرے اورخضوع وخاکساری کے ساتھ عقل کی خدمت میں پہنچے تو اس نے عظیم کامیابی حاصل کی ہے، خود نفس اور ہوائے نفس سے زیادہ تاریک اوروحشتناک خداوند متعال اوربندہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہے اور اُس سے مقابلہ کے لئے خدا کی درگاہ میں احتیاج اوراس کے لئے خضوع وخشوع، دن میں بھوکا اور پیاسا رہنے اور تہجد کے علاوہ کوئی تیزتر اسلحہ نہیں ہے، لہٰذااگر راہ جہاد میں مرگیاتو وہ شہادت کے درجہ پر فائز ہوگا اوراگر زندہ رہ گیا اور ثبات وپائداری کا ثبوت دیا تو نتیجہ میں ''رضوان اکبر''کے حاصل کرے۔ خداوند عزّوجل فرماتا ہے:
(وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُم سُبُلَنَا، وَاِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ)۔(٣)
'''اور جن لوگوں نے ہمارے حق میں جہاد کیا ہے ہم انھیں اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے اور یقینا اﷲ حسن عمل کرنے والوں کے ساتھ ہے''۔
.......................................
١۔ غرر الحکم۔
٢ بحار الانوار ج٧٨ص ١٤١۔
٣۔ سورہ ٔعنکبوت آیت ٦٩۔المحجة البیضاء ج٨ص ١٧٠۔
لہٰذا مراقبہ اعضائے ہفتگانہ کے عمل کرنے کے وقت انسان کا فعّالانہ حضور ہے ، عمل سے پہلے فکر و تامل کے ساتھ اپنی نیت اور مقصد کی نسبت توجہ اورمراقبت کرے، عمل کے وقت مراقبت کرے کہیں کہ ایسا نہ ہو کہ اخلاقی اقدار اور الٰہی تعلیمات کے خلاف کوئی عمل اُس سے سرزد ہوجائے اورعمل کے بعد بھی مراقبت کرے کہ اس کے خاص آثار جیسے ریا، منّت، اذیت وغیرہ اس سے صادر ہوکر عمل کو ضائع نہ کریں یہاں پر اگر اس کی نظر میں کوئی خاص اخلاقی صفت ہو تو وہ مراقبہ کو اسی صفت پر یا اس کے مناسب اعمال پر مرکوز کردے ، اس لحاظ سے اپنے آپ پر نظارت کا اساسی مرحلہ یہی مراقبہ ہے۔
مراقبہ کے سلسلہ میں اہم نکتہ یہ ہے کہ آغاز امر میں اپنے اوپرزیادہ سختی نہیں کرنی چاہئے اورعمل کے جزئیات اورظرائف کو بھی انجام نہیں دینا چاہئے ، یہ رویہ موجب ہوگا کہ اُس کی سختی اُسے اس عظیم جہاد سے روک دے گی، آغاز کار میں اُسے چاہئے کہ صرف اپنے بارے میں حلال وحرام کے سلسلہ میں نفرت کا اظہار کرے یا ایک اخلاقی رذیلت کی نسبت اپنا محاسبہ کرے تاکہ بعد کے مراحل میں خلوص نیت اور اُس سے بالاتر مراقبہ مراتب پر عمل کرے ۔
توجہ رکھنی چاہئے کہ خداوندعالم پر ایمان کی پشت پناہی کے بغیر مراقبہ بہت دشوار اور مشکل ہے، ایک بصیر وناظر کے حضور پر یقین واعتقاد ہی مراقبہ کو آسان کرتا ہے اور یہ بات ایمان کی تربیت سے حاصل ہوتی ہے۔
ج۔محاسبہ:
یعنی کوئی وقت معین کرے (بہتر ہے کہ سونے سے قبل ہو) اور روزانہ کے اعمال کا حساب وکتاب کرے، اگر یہ محاسبہ انجام نہ پائے تواپنے آپ پر نظارت اور مراقبہ آئندہ ایّام میں عملی طور پرممکن نہیں ہوگا۔
''اے صاحبان ایمان! خدا سے ڈرو اورہرانسان کو غور کرنا چاہئے کہ اپنے کل (آئندہ) کے لئے پہلے سے کیا بھیجا ہے''۔(١)
''تم لوگ اپنے دل کی باتوں کو ظاہر کرو یا پوشیدہ رکھو ، خدا تمہارا ان سب کے سلسلہ میں محاسبہ کرے گا''۔(٢)
''حضرت ابراہیم کے صحیفوں میں اس طرح مذکور ہے: عقلمندانسان جب تک کہ اس پر اس کی عقل حاکم ہے اس کو چاہئے کہ اپنے لئے چار اوقات معین کرے... اورایک ساعت اپنے نفس کا محاسبہ کرنے کے لئے معین کردے''۔ (٣)
.......................................
١۔ سورہ ٔحشر آیت١٢۔
٢۔ سورہ ٔبقرہ آیت٢٨٤۔
٣۔ بحار الانوار ج٧٧ ص٧١۔
''اپنے نفس کو محاسبہ کے ذریعہ کنٹرول کرو اور اس (نفس) کی مخالفت کرکے اُس کے مالک ہوجائو''۔(١)
''اپنے نفس کا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارامحاسبہ کیا جائے اورخود کو بھاری اورہلکا کرو قبل اس کے کہ اس کا وزن دیکھیں اور اپنے اعمال کو پیش کرنے کے لئے آمادہ ہوجائو''۔(٢)
عاقل انسان کے لئے مناسب ہے کہ اپنی برائیوں کا دین، اعتقاد، اخلاق وادب کے اعتبار اپنے نزدیک حساب کرے پھر انھیں سینوں میں یا کسی کاغذ پر محفوظ کرے اور ان کی اصلاح کرے۔
محاسبہ کی ترکیب اس طرح ہے کہ دن کی ابتدا سے شروع کرے اور جوکچھ اُس سے اعمال سرزد ہوئے ہیں ان کی جانچ کرے کہ آیا اخلاقی معیار کے مطابق ہیںیا نہیں؟ آیااُن کے اندر خدا کی رضایت اورخوشنودی پائی جاتی ہے... ؟ حضرت امیر المومنین علی ـ سے سوال کیا گیا: انسان کس طرح اپنا محاسبہ کرے؟ فرمایا:
''جب صبح کو بیدار ہو تواُس وقت سے عصر تک اپنے نفس کی طرف رجوع کرے اور کہے: اے نفس! آج کا دن ایسا دن تھا جو تم پر گذر گیا اوردوبارہ کبھی واپس نہیں آئے گا اور خدا اُس سے متعلق تم سے بازپرس کرے گا کہ تم نے اس کو کس طرح سے گذارااور اس میں کونسا عمل انجام دیا آیا خدا کی یاد اوراس کے شکرانہ میں مشغول تھے؟ آیا اپنے مومن بھائی کا حق ادا کیا؟ آیا اس کی مشکلات کو برطرف کیا؟ آیا اس کی غیبت میں اُس کے اہل وعیال کی سرپرستی کی؟ آیامرنے کے بعد اُس کے ورثاء کی نسبت مہربان رہے ہو؟ آیا اپنی موقعیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے برادرمومن کی غیبت سے روکا ہے؟ آیا کسی مسلمان کی مدد کی ہے؟ اس دن تم نے کیا کیا؟ پھر دل میں سوچے جو کچھ اُس سے سرزد ہوا ہے: اگر نیک اورخیرکام تھے، تو خدا کی حمد وستائش کرے اور اس توفیق پر اس کی تعریف وتمجید کرے۔ اگر گناہ اورکوتاہی اُس سے سرزد ہوئی تو خدا سے طلب مغفرت کرے اوراُسے ترک کرے اور توبہ کرے۔
اخلاقی تربیت سے متعلق محاسبہ نفس بہت سے آثاراور فوائد کا حامل ہے کہ ان میں سے بعض فوائد اپنے ناپسند صفات و عیوب سے واقف ہونا اور گناہوں سے خالی ہو نا اوراصلاح وسعادت کی راہ ہموار ہیں۔
اسی طرح بھولنا نہیں چاہئے کہ اگرمحاسبہ کچھ سخت معلوم ہو ، تو اُس پر مجاہدہ (جہاد بالنفس) کے ذریعہ غالب آجانا چاہئے اور اس کے آثار و فوائد کے بارے میں غور کرنا چاہئے۔ پھر کچھ مدت بعد روزانہ ایٹومیٹک صورت میں دن بھر یہ محاسبہ اور مراقبہ انجام پائے گا اور رات کے لئے کوئی کام نہیں رہ جائے گا ۔
.......................................
١۔ غررالحکم۔
٢۔ بحار الانوار ج٧٠ ص٧٣۔
امام موسیٰ بن جعفر ـ نے فرمایا ہے:
''جو شخص روزانہ اپنا محاسبہ نہ کرے وہ ہم سے نہیں ہے، لھٰذااگراُس نے کو ئی اچھااور نیک کام کیا ہے تو خدا سے اس کی زیادتی کی دعا کرے اور اس کی حمدوستائش کرے اور اگر برا کام کیا ہے تو خداسے مغفرت طلب کرے اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرے''۔ (١)
د۔معاقبہ:
محاسبہ کے بعد قانون تقویت (فعال ماحول سازی ) کے مطابق ان مقامات پر جہاں انجام دیئے گئے اعمال اخلاقی معیار کے مطابق تھے اس کے لئے ایک جزا معین کرے (جیسے مناسب تفریح وگردش، اچھی غذا...) اور اگر اس کے برخلاف ہو تو اُس کے لئے مناسب سزا تجویز کرے، جیسے یہ کہ سب سے پہلے اپنے آپ کو سرز نش اور ملامت کرے اس کے بعد مشقت آمیز اعمال کو برداشت کرے ؛جیسے روزہ رکھے یا خود کو وقتی طور پر بعض لذیذ چیزوں اور عطیوں سے محروم کرے۔ان موارد میںبرے عمل سے مشابہت کا لحاظ کیا جاسکتا ہے؛ مثال کے طورپر حرام غذا ئوں سے پرہیز نہ کرنے کے سلسلہ میں، خودکو بھوکا رکھے اور نا محرم کی طرف نگاہ کرنے کے سلسلہ میں بعض پسند یدہ اور محبوب امورکو دیکھنے سے اپنی آنکھ کو (جسے ایک جالب نظرفیلم دیکھنے سے ) دور کرے اور اگر زبان سے متعلق ہو تو اُسے سکوت کے ذریعہ سزادے اور اگر کسی کو رنج پہنچا یا ہو تو اس کے پاس جائے اور اُس سے عذر خواہی کرکے اپنے آپ کو ذلیل وخوار کرے...۔
مجازات معاقبہ پر جو کہ جہاداکبرہے ضرور بالضرور عمل کریںورنہ انسان کے لئے برے اعمال اور اخلاقی رذائل آسان ہو جائیں گے اور وہ اُن سے اس حدتک مانوس ہو جائے گاکہ اس کا ترک کرنا مشکل اور دشوار ہو جائے گا۔
حضرت علی ـ نے فرمایا:
''سب سے بڑاجہاد نفسانی خواہشات سے مقابلہ کرنا اور اسے دنیاوی لذّتوں سے بازرکھنا ہے ''۔(٢)
''جان لوکہ جہاد اکبر نفسانی خواہشات سے مقابلہ کرنا ہے لہٰذا اس جہاد میں مشغول رہو تاکہ کامیابی کی سعادت نصیب ہو''۔(٣)
آخرمیں دوباتوں کی یاد دہانی ضروری اور لازم ہے: اوّل یہ کہ اپنے آپ پر نظارت کی بحث میں آداب ورسوم (عرفی عادات ) اصول اور افعال اخلاقی کے درمیان فرق رکھنا چاہئے: اول کلیت نہیں رکھتے لہٰذاان کی ہمیشہ مراعات کرنا ضروری نہیں ہے ؛بر خلاف دوسرے کے۔دوسرے یہ کہ تقویت ارادہ کی ترکیبوں سے استفادہ کرنا اپنے آپ پر نظارت کرنے کی کامیابی میں بہت زیادہ موثرہے۔
.......................................
١۔ بحار الانوار ،ج٧٠ ،ص٧٣۔
٢۔ غررا لحکم، فصل١، ص١٤٢۔
٣۔ غررا لحکم، فصل ٧، ص٢٢٦۔
|