اسلامی ا خلاق
 

3۔عمل کی پابندی اور مداومت
یہاں تک ان طریقوں کی بحث تھی جو اخلاقی( عاطفی یا شناختی رفتار کے مبادی پر اثر انداز ہوتی ہیں یا وہ روشیں جو ماحول کے عوامل میں موثر ثابت ہوتی ہیں۔ پیاژہ نفسیاتی عوامل کے تحول کے شمار میں رشد داخلی کے علاوہ اجتماعی تعامل وتعویض اور اکتسابی تعادل جوئی، تمرین ومشق اور اکتسابی تجربہ کو ایک مستقل عامل جانتا ہے۔(١)
اخلاقی تربیت میں ہدف یہ ہے کہ تربیت پانے والا اخلاقی رفتارکے کمال تک پہنچ جائے یعنی عمل کرے۔ جتنا اس عملی تجربہ کی تکرار ہوگی اور اس کی مداومت کی جائے گی''ظاہر سازی ''(٢) کی صورت میں جدید نفسیانی شکلیں تشکیل پاجائیں گی، بعینہ جیسے اخلاق کی اصطلاح میں جنھیں ملکات اخلاقی کہتے ہیں۔
قرآن کریم عمل کو خاص اہمیت دیتا ہے: ''انسان کے لئے اس کی کوشش اور تلاش کے سوا کچھ نہیں ہے اور اس کی کوشش ]کانتیجہ[ عنقریب دکھائی دے گا''۔(٣)
بہت سی آیات میں قرآن ایمان کو کافی نہیں جانتابلکہ عمل کو اس کی تکمیل کے لئے لازم وضروری شمار کرتا ہے:
جو لوگ نیک عمل کرتے ہیںخواہ مرد ہوں یا عورت، جبکہ مومن ہوں، وہ لوگ جنت میں داخل ہوجائیں گے اور خرمے کی گٹھلی کے گڑھے کے برابر بھی ان پر ستم نہیں ہوگا''۔(٤)
شایستہ کاموں (عمل صالح) سے مراد غالباً وہی اخلاقی اعمال ہیں۔ افراد کے درجات ومراتب بھی ان کے اعمال کے اعتبار سے ہیں، یعنی افراد کی درجہ بندی کا ایک معیار ان کا عمل ہے۔
''ان میں سے ہر ایک کے لئے جو عمل انھوں نے انجام دیا ہے، اس کے مطابق مرتبے ہیں اورتمہا را رب وہ جو کچھ کرتے ہیں اس سے غافل نہیں ہے''۔(٥)
.......................................
١۔ دیدگاہ پیاژہ ص ٣٥تا٣٧۔
٢۔ وہ فعالیت جو آدمی کے پہلے والے نفسیاتی تار وپود کو کو تبدیل کرتی ہے تاکہ وہ خود کو اس ماحول کے حالات کے موافق بنائے جس میں وہ موجود ہے۔ (روانشناسی ژنیتک، ص٢٤٤)۔
٣۔ سورہ ٔنجم آیت٣٩، ٤٠۔
٤۔ (مَنْ یَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثیٰ وَہُوَ مُؤمِن فَاُوْلٰئِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ وَلَایُظْلَمُوْنَ نَقِیْراً)(سورہ ٔنسائ، آیت١٢٤)۔
٥۔ ( لِکُلٍّ دَرَجَات مِمَّا عَمِلُوا، وَمَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُوْنَ۔)(سورہ ٔانعام، آیت١٣٢)۔
روایات بھی عمل کی ترغیب وتشویق کے ساتھ اسے ایک فائق مرتبہ دیتی ہیں:
حضرت علی ـ: ''آج عمل کا دن ہے اور کوئی محاسبہ نہیں ہے، اور کل محاسبہ کا وقت ہے اور عمل کی گنجائش نہیں ہے''۔(١)
حضرت امام محمد باقر ـ فرماتے ہیں : ''کوئی بھی شخص جو کچھ خدا کے نزدیک اُس کے لئے فراہم ہوا ہے اسے نہیں پاسکتا مگر عمل کے ذریعہ ''(٢)
حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''انسان کی ہمراہی عمل کے سوا کوئی بھی نہیں کرے گا''۔(٣)
عمل کے استمرار اور اس کی مداومت کے بارے میں درج ذیل آیات و روایات کو بعنوان شاہد پیش کیا جاسکتا ہے:
''اگروہ لوگ راہ راست میں ثبات قدمی اور پائداری کا مظاہرہ کریں تو یقیناً انھیں خوشگوار پانی نوش کرائیں گے''۔(٤)
حضرت علی ـ: '' وہ کم اعمال جس کی پابندی اور مداومت کرو، ایسے زیادہ اعمال سے زیادہ امید بخش ہیں کہ جن سے تھک جاتے ہو۔'' (٥)
امام محمد باقر ـ : ''خدا کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ عمل ہے جس پر مداومت اور پابندی ہو، اگرچہ کم ہی ہو''۔ (٦)
سلوکی مکتب کے ماہرین نفسیات پاولف، ثراندایک اور ا سکینر میں سے ہر ایک حصول تعلیم کے متعلق عمل کی مشق اور تکرار کے بارے میں ایک نظر رکھتے ہیں، ثراندایک اپنے قانون تمرین(٧) میں کہتا ہے: ''محرک اور جواب کے درمیان پیوند اور ارتباط استفادہ کے زیر اثر قوی ہوجاتے ہیں'' (٨)
.......................................
١۔ ''الیوم عمل ولا حساب وغداً حساب ولا عمل ''۔(نہج البلاغہ، خ٤٢)۔
٢۔ ''لا ینال ما عند اللّٰہ الّا بالعمل'' (وسائل الشیعہ ج١ص ٦٩)۔
٣۔ ''المرء لایصبحہ الّا العمل''(غرر الحکم، فصل٤، ص١٥١)۔
٤۔ (وَاَنْ لَواسْتَقَامُوا عَلَی الطَّرِیْقَةِ لَاَسْقَیْنَاہُم مَائً غَدْقاً)(سورہ ٔجن، آیت١٦)۔
٥۔ ''قلیل تدوم علیہ ارجی من کثیر مملول منہ۔''(شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج١٩، ص١٦٩)۔
٦۔ ''احب الاعمال الی اﷲ عزوجل مادام العبد علیہ وان قلّ''(وسائل الشیعہ ج١ ص٧٠ )۔
٧۔ ہرگنہان نظریہ ھای یاد گیری، ترجمہ یوسف،٢٧٥۔
٨۔ ہرگنہان نظریہ ھای یاد گیری، ترجمہ یوسف، ص٧٨۔
گاتری ایک دوسرا سلوکی ماہر نفسیات ہے جو اپنے تعلیم وتربیت کے نظریہ میں اس سلسلہ میں کہ کیوں مشق نتیجۂ عمل کو بہتر بناتی ہے لکھتا ہے: .. کسی عمل کا سیکھنا یقیناً مشق کا محتاج ہے، ہماری نظر میں اس امر کی دلیل یہ ہے کہ عمل ایسا نتیجہ دیتا ہے کہ جو مختلف موقعیت کے تحت اور مختلف حرکتوں کے ذریعہ کہ جو ان موقعیتوں سے مناسبت رکھتی ہیں حاصل ہوتا ہے، ایک عمل کا سیکھنا ایک حرکت کے (جیسے جسم کے کسی حصہ کاعام طور سے سکڑنل جو کہ تداعی سے حاصل ہوتا ہے) سیکھنے کے برعکس یقیناتمرین ومشق کا محتاج سے۔ اس لئے کہ ضروری ہے کہ مقتضی حرکتیں اپنی نشانیوں کے ساتھ ایک دوسرے کو وجود بخشیں۔حتی کہ ایسا سادہ عمل جیسے کہ ایک کھلونا ، فاصلہ جہت اور کسی چیز کی موقعیت کی بنیاد پر مختلف حرکتوں کو شامل ہوتا ہے۔ ایک کامیاب تجربہ اس بات کے لئے کہ بچوں کو کسی عمل کے لئے آمادہ کرے، کافی نہیں ہے، کیونکہ جو حرکت ایک حالت میں حاصل ہوتی ہے ممکن ہے کہ دوسری بار کامیاب نہ ہو''۔(١)
پھرمہارت اورتشکیل عادت کے بارے میں کہتاہے:
دلیل اس بات کی کہ کامل مہارت حاصل کرنے کے لئے کیوں زیادہ مشق اور تکرار کی ضرورت ہے؟ یہ ہے کہ یہ مہارتیں محتاج ہیں کہ زیادہ اور خاص حرکتیں بہت سی محرکانہ موقعیتوں کے ساتھ جڑی ہوں، ایک مہارت، ایک عام عادت نہیں ہے، بلکہ عادتوں کا ایک عظیم مجموعہ ہے کہ جو مختلف موقعیتوں میں ایک معین نتیجہ دیتا ہے... خلاصہ یہ کہ ایک مہارت کثرت عمل سے تشکیل پاتی ہے (٢)
تھوڑا سا غور کہا جاسکتا ہے کہ اخلاقی ملکات اور فضائل بھی اس نظریہ میں مہارتوں سے مانند وجود میں آتے ہیں اور انسان میں ثبات پاتے ہیں، اس وجہ سے اگرچہ صرف مکتب سلوکیت کا نظریہ (تعلیم وتعلم میں شناختی یا عاطفی کے عوامل کی جانب توجہ نہ ہونا) ہمارے نزدیک قابل قبول نہیں ہے (٣) لیکن کسی عمل کی مشق کا اثر ایک اساسی عامل کے عنوان سے قابل انکار نہیں ہے۔ ارسطو'' اخلاق'' نامی کتاب میں کہتا ہے: ''جس طرح ہم گھر بنا کے معمار ہوجاتے ہیں، عادلانہ عمل انجام دینے سے عادل ہوجاتے ہیں اور پرہیزگاری کا عمل انجام دے کر پرہیزگار بن جاتے ہیں اورکوئی بہادری کا کام کرنے سے بہادر ہوجاتے ہیں''(٤) اور یہ بالکل اسی دقیق طور پر مداومت عمل کی روش کو بیان کرتاہے۔
.......................................
١۔ ہرگنہان نظریہ ھای یاد گیری، ترجمہ یوسف ، ص٢٧٥و٢٧٦۔
٢۔ ایضاً، ص٢٧٧۔
٣۔ مکاتب روانشناسی ونقد آن ج٦ص١٤١۔
٤۔ ارسطو، اخلاق نیکو ماخس، ترجمہ ابو القاسم حسینی، ج١، ص٣٧۔
اخلاقی کتابوں کے مؤلفین بھی عملی روش پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں اور اخلاقی بیماریوں کے علاج کے سلسلہ میں نظری روش ساتھ یا اس عمل پہلو پر بڑی تاکید کرتے ہیں کہ جس سے مقصود اخلاقی فضائل کے مطابق افعال انجام دینے کا اہتمام وتمرین ہے ایسے اعمال میں مشغول ہونا ہے جو اخلاقی رذائل کے خلاف ہیں ۔
ملا محمد مہدی نراقیاخلاقی بیماریوں کے طریقہ علاج کے بارے میں فرماتے ہیں:
''انحراف اور کج روی (عدم اعتدال)کی علت اگر جسمانی بیماری ہو تو اس کے برطرف کرنے کے لئے ضروری ہے کہ جلد سے جلد طبی علاج کریں، اور اگر اس کی علت نفسانی ہو تو اس کا علاج وہی بالکل جسمانی علاج کی طرح ہے، جسمانی علاج میں سب سے پہلے ایسی غذا سے جو بیماری کی ضد ہو علاج کرتے ہیں، مثال کے طور پر سرد مزاج بیماری کا علاج گرم مزاج اور تند غذائوں سے کرتے ہیں، اگر فائدہ نہ ہوا تو پھر دوا سے ، اس کے بعد زہر مار کے ذریعہ آخر میں عضو کو جلاکے یاکاٹ کے (جراحی) کے ذریعہ معالجہ کرتے ہیں۔ نفسانی بیماریوں میں بھی قانون ایسا ہی ہے، اس طرح سے کہ انحراف اور کجروی کو جاننے کے بعد اس اخلاقی فضیلت کو حاصل کرنے لئے کہ جو اس انحراف کی ضد ہے، اقدام کرے اور ان افعال سے جو اس فضیلت کے آثار شمار ہوتے ہیں یہ امر غذا کے مانند اس اخلاقی رذیلت کو زائل کرنے میں اثر کرتا ہے۔ پھر اگر مفید واقع نہ ہوتو پھر مختلف صورتوں میں فکری، زبانی اورعملی طور پر اپنے نفس کو مورد توبیخ وسرزنش قرار دے، پھر اگر وہ بھی موثر نہ ہو تو پھر ایک منفی اور متضاد صفت کے آثار کو کہ جو اس اخلاقی صفت سے تضاد رکھتے ہوں حدّاعتدال میں انجام دے گا، جیسے ڈرپوک انسان دلیرانہ عمل انجام دے اورخود کو خطرناک کام میں ڈال دے اور کنجوس انسان اس صفت کے زوال کے لئے جود و بخشش کا سہارا لے ۔ یہ مرحلہ جسمانی مداوا میں تریاق اور زہرمار دواکے مانند ہے۔ اگر اس مرحلہ تک بھی اخلاقی بیماری مستحکم طور پر برطرف نہ ہوئی، تو پھر خود کو طرح طرح کی ان سخت تکلیفوں اور ریاضتوں کے ساتھ رنج وزحمت میں مبتلا کرے جو اس اخلاقی رذیلت کو بیخ وبن سے اکھاڑنے کا باعث ہوں، یہ مرحلہ جسمانی علاج میں عضو کے جلانے اور قطع کرنے کے مشابہ ہے کہ جو آخری مرحلہ ہے''۔(١)
.......................................
١۔ جامع السعادات ج١ ص٩٧، ٩٨۔
جیساکہ معلوم ہے کہ اخلاقی تربیت کے سلسلہ میں علمائے اخلاق نے عمل اور مشق پر خاص طور سے توجہ دی ہے، اس وجہ سے اس روش کے تحقق کے لئے درج ذیل طریقوں کو بیان کیا جاسکتا ہے:

الف ۔مشق اور عادت ڈالنا:
ہم یہاں پر ''عادت'' کے متعلق اخلاقی فلسفہ کے لحاظ سے بحث نہیں کرنا چاہتے جیسے یہ بحث کہ آیا اخلاقی فعل عادت کی حاکمیت اور اس کے غلبہ کے ساتھ اخلاقی ہونے سے خارج ہوجاتا ہے یا نہیں؟ (١) اور نہ نفس شناسی کے لحاظ سے بحث کرنا چاہتے ہیں مثال کے طور پر عادت کیا ہے، اس کی کتنی قسمیں ہیں اور کس طرح وجود میں آتی ہے؟ (٢) بلکہ اس سے یہاں پر مراد یہ ہے کہ مشق اور تکرار کے ذریعہ ایسے مرتبہ تک پہنچاجاسکتا ہے کہ اخلاقی مسائل ملکات میں تبدیل ہوجائیں، جیساکہ حضرت علی ـ نے فرمایا ہے: ''اَلْعَادَة طبع ثانٍ'' (٣) ''عادت انسان کی دوسری طبیعت اور شرست ہے''۔
بلند ترین اصول ومبادی اور مکارم اخلاق میں تربیت کی مرکزیت حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ تربیت پانے والے کے لئے کچھ حد تک جسمانی، نفسیاتی اور اخلاقی پسندیدہ عادات حاصل ہوں، تاکہ زیادہ سے زیادہ ارادہ اور توانائی کا مصرف ان کی جانب توجہ دینے سے آزاد ہوجائے۔
اس موضوع میں اسلام کی تربیتی روش سے متعلق دو نکتے قابل توجہ ہیں:
١۔دینی واجبات اور فرائض میں عمل کا استمرار اور پابند:
۔دینی واجبات اور فرائض میں عمل کا استمرار اور پابند اس حد تک اہمیت کی حامل ہے کہ ترک عمل کے لئے اس کی قضا اور کبھی کفار بھی لازم ہوجاتا ہے، اخلاقی امور میں بھی ''نذر'' اور ''عہد وقسم'' کو اخلاقی فعل کو اپنے لئے ایک فریضہ کی صورت میں اپنا سکتا ہے، اگرچہ ان روشوں سے زیادہ استفادہ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اپنی حیثیت اور منزلت کو کھو بیٹھے گایا انسان پر بہت گراں اور شاق گزرے گا، البتہ معمولی انداز میں بھی خود سے تعہد کرسکتا ہے کہ اخلاقی فعل کو پابندی کے ساتھ انجام دے گا، تاکہ اُس کا ملکہ نفس میں راسخ ہوجائے۔
.......................................
١۔ استاد مطہری، تعلیم وتربیت دراسلام، ص٧٥ پر ملاحظہ ہو۔
٢۔ احمد صبور اردوبادی: معمائے عادت۔
٣۔ غررالحکم، فصل٢، ص٣٢٢۔

٢۔کیفیت عمل کی جانب توجہ کرنا:
اسلام میں عمل کی ظاہری شکل وصورت آخری مقصود نہیں ہے، بالخصوص اخلاقی فعل اسلام کی نظر میں خاص اخلاقی اصول و مبادی کا حامل ہونا چاہئے ، جیسے صحیح نیت، عمل کی صحیح شکل وصورت اور لوازم عمل کی جانب توجہ (جیسے یہ کہ عمل کے بعد ریا، منّت گذاری اور اذیت کے ذریعہ اس عمل کو ضائع نہ کرے)۔ حضرت امام جعفر صادق ـ نے خداوندعالم کے ارشاد:(لِیَبْلُوَکُم اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً )(١) (تاکہ خدا تمھیں آزمائے کہ تم میں سب سے بہتر عمل کرنے والا کون ہے ؟) کے متعلق فرمایا: ''اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ کوئی زیادہ عمل کا مالک ہو، بلکہ خشیت خداوندی اور درست نیت کے لحاظ سے بہتر اعمال مراد ہیں''۔(٢)

ب ۔ اضداد سے استفادہ:
اخلاقی رذائل کو زائل کرنے سے متعلق یہ طریقہ تربیتی طریقوں میں سے سب سے زیادہ مؤثر ہے، اضداد سے سلوکی مکتب کے نظریات میں ''تقابلی ماحول سازی'' کے عنوان سے رفتار بدلنے کے لئے استفادہ کیا جاتا ہے۔ تقابلی ماحول سازی ایسا نتیجہ ہے کہ جس میں ایک ماحول کا جواب ایک دوسرے ماحول کے جواب سے جو اُس سے ناسازگار اور ناموافق ہوتا ہے ،جانشین ہوتا ہے، اور یہ سبب ہوتا ہے کہ اس ماحول کا جواب جو کہ نامطلوب ہے (اورہم چاہتے ہیں کہ تبدیل ہوجائے) جدید ماحول کے محرک کے ہوتے ہوئے نہ دیا جائے، اس کا اہم ترین فن منظم طریقہ سے (خیالی) حساسیت کا ختم کرنا اور واقعی حساسیت اور خود حساسیت کاختم کرنا ہے۔(٣)
اخلاقی کتابوں میں بھی اس روش سے کثرت کے ساتھ استفادہ کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پرابو حامد غزالی ''کبر'' کے ختم کرنے سے متعلق لکھتا ہے:
''اگر کوئی اپنے دوست ورفیق سے علمی مناظرہ میں کوئی حق بات سنے اور احساس کرتا ہے کہ رقیب کی حقانیت کا اعتراف اُس کے لئے مشکل ودشوار ہے، تو اسے چاہئے کہ اس کبر کے معالجہ کے لئے اپنے اندر کوشش کرے...... عملی طریقہ اس طرح ہے کہ رفیق کی حقانیت کا اعتراف جو کہ اس کے لئے دشوار ہے، اپنے اوپر لازم کرے اور اُسے برداشت کرے اور اس کی تعریف وتوصیف کے لئے اپنی زبان کھولے اور مطلب سمجھنے کے سلسلہ میں اپنی ناتوانی اور کمزوری کا اقرار کرے اور اس کا چونکہ اُس نے اُس سے ایک بات سیکھی ہے، شکریہ ادا کرے.... لہٰذا جب بھی اس امر کی متعدد بار پابندی کرے گا، اُس کے لئے طبیعی اور عادی ہوجائے گا اور حق قبول کرنے کی سنگینی، آسان ہوجائے گی''۔(٤)
َ
١۔ سورہ ٔہود آیت ٧۔
٢۔ کافی ج٢ص ١٦۔
٣۔ علی اکبر سیف، تغییر رفتار و درمانیص ٢٥٢۔
٤۔ احیاء علوم الدین ، ج٣ ،ص ٣٤٤۔
مرحوم نراقی نے بھی علاج کے طریقوں میں ایک طریقہ اخلاقی رذائل کے خلاف افعال کا انجام دینا قرار دیا ہے، اس توضیح کے ساتھ کہ کبھی اخلاق کی ایک منفی صفت کے زائل ہونے کے لئے ایک دیگر منفی صفت (کہ جو اعتدال کی حد میں ہو) کا سہارا لیں، مثال کے طور پرخوف ختم کرنے کے لئے جسارت آمیز اور شجاعانہ عمل انجام دینا چاہئے تاکہ خوف ختم ہوجائے۔
حضرت امیر المومنین علی ـ فرماتے ہیں: '' جب کسی چیز سے ڈر محسوس کرو تو اُس میں کود پڑو، کیونکہ کبھی کسی چیز سے ڈرنا، خود اس چیز سے سخت اور ناگوار ہوجاتا ہے''۔(١) اس روش سے متعلق قرآن کاتربیتی نکتہ یہ ہے کہ بری عادات اور اخلاقی رذائل کا یکبارگی اوراچانک ترک کرنا ممکن نہیں ہے بلکہ اسے مرحلہ وار اور تدریجاً انجام دیا جائے۔ شرابخوری، ربا، جوئے بازی اور بعض دیگر امور کے بارے میں قرآن نے تدریجی مقابلہ پیش کیا ہے۔

ج ۔ ابتلاء اور امتحان:
''ابتلا'' ''بلیٰ'' کے مادہ سے ہے یعنی اس کی اصل ''بلیٰ'' ہے بوسیدہ اور فرسودہ ہونے کے معنی میں اور ابتلا(یعنی آزمائش )کو اس لئے ابتلا کہتے ہیں کہ گویا کثرت آزمائش کی وجہ سے فرسودہ ہوجاتا ہے۔ ابتلا افراد کے متعلق دو نکتوں کا حامل ہے:
١۔ جو کچھ اس کے لئے مجہول اور نامعلوم ہے اُس سے آگاہی اور شناخت۔
٢۔انسان کی یکی یابرائی کا ظاہر ہونا(٢)۔ امتحان کی تعبیر بھی ابتلا اور آزمائش کی نوع پر بولی جاتی ہے (٣) امتحان اور آزمائش ہمیشہ عمل کے ذریعہ ہے، کیونکہ ابتلا بغیر عمل کے بے معنی ہے، عمل کے میدان میں انسان کے باطنی صفات ظاہر ہوتے ہیں اور اس کی صلاحتیں قوت سے فعلیت تک پہنچتی ہیں۔ اسی لئے ابتلا اور امتحان فیزیکل اعتبار سے ایک عملی طرز ہے یاعمل کی پابندی کرنا ہے۔ اس میں اور تمرین و عادت میں فرق یہ ہے کہ مشق وتمرین ایک اخلاقی فضیلت کی نسبت ملکہ ایجاد کرنے کے لئے معین ہے لیکن طرز ابتلاء میں، کام عمل اور سختیوں اور مشکلوں کی تہ میں واقع ہونا مقصود ہے۔ اس روش اور طرز کی بنیاد پر مربی کو چاہئے کہ تربیت حاصل کرنے والے کو عمل میں اتار دے تاکہ خود ہی پستیوں اور بلندیوں کو پرکھے اور تلخ وشیرین کا تجربہ کرکے میدان سے سرفراز اور سربلند باہر آئے۔ تربیت پانے والے خود بھی مستقل طور سے ایسے شیوہ پر عمل کرسکتے ہیں۔
.......................................
١۔ ''اذا ہبت امراً فقع فیہ فانّ شدّة توقیہ اعظم ممّاتخاف منہ''۔(نہج البلاغہ، ح١٧٥)۔
٢۔ المفردات۔
٣۔ ایضاً۔
''المیزان'' میں مرحوم علامہ طباطبائی کا کلام الٰہی کے امتحانوں کے سلسلہ میں تربیتی عنوان سے قابل توجہ ہے: ''... اس وجہ سے انسانوں کے لئے عام الٰہی تربیت حُسن عاقبت اور سعادت اس دعوت دینے کے اعتبار سے امتحان ہے کیونکہ انسان کے لئے حالات کو مشخص و معین اور آشکار کرتی ہے کہ آیا یہ شخص کس عالم سے متعلق ہے: عالم ثواب وا جزا یا عالم عقاب و سزا۔ اس وجہ سے خداوند متعال اپنے تصرفات کو حوادث کی تشریع اور توجیہ کے عنوان سے بلائ، ابتلأ اور فتنہ نام دیتا ہے، مثال کے طور پر عام عنوان سے فرماتا ہے: (اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَةً لَہَا لِنَبْلُوَہُمْ اَیُّہُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً )(١) ''بے شک ہم نے روئے زمین کی ہر چیز کو زمین کی زینت قرار دیا ہے تاکہ ان لوگوں کا امتحان لیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے '' یا فرماتا ہے: (وَنَبْلُوکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَةً)(٢)''... اور ہم اچھائی اور برائی کے ذریعہ تم سب کو آزمائیں گے...'' یافرماتا ہے:(اَنَّمَا اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَة)(٣) '' تمہارے اموال اور اولاد فتنہ ہیں'' وغیرہ۔
یہ آیات جیسا کہ آپ ملاحظہ کررہے ہیں انسان سے متعلق ہر مصیبت وبلا کو ''الٰہی امتحان وآزمائش'' شمار کرتی ہیں تمام امور کے لئے جیسے اس کا وجود، اس کے اجزا اور اعضاء جیسے آنکھ، کان یا اس کے وجود سے خارج چیزیں جو اُس سے مربوط ہیںجیسے اولاد بیوی، رشتہ دار، احباب، مال، جاہ و مرتبہ مقام اور وہ تمام امور کہ جن سے وہ کسی قسم کا فائدہ حاصل کرتاہے، اسی طرح ان کے مقابل امور جیسے موت اور تمام مصیبتیں ۔ ان آیات میں افراد کے اعتبار سے بھی ایک عمومیت پائی جاتی ہے یعنی مومن وکافر، نیکوکار اور گناہگار، انبیاء اور ان سے کم درجہ والے سارے افرادمعرض بلا و امتحان میں ہیں، لہٰذا یہ اﷲ کی ایک جاری وساری سنت ہے کہ کوئی اس سے الگ نہیں ہوسکتا''۔ (٤)
.......................................
١۔ سورہ ٔکہف آیت ٧۔
٢۔ سورۂ انبیاء آیت ٣٥۔
٣۔سورۂ تغابن آیت ١٥ ۔
٤۔ المیزان ج٤ ص٣٦۔
یہ بات کہ امتحان اور ابتلاء جملہ امور میں تمام افراد کے لئیاﷲ کی بلا استثناء ایک جاری سنت ہے ، ابتلا کے تربیتی روش سے منافات نہیں رکھتی، کیونکہ اس طرح کے امور کے ساتھ ہمارے طرز عمل کو ایک تربیتی طرز کے عنوان سے مانا جاسکتا ہے یعنی مشکلات میں صبر وتحمل اور نعمات میں شکر کہ جس کی بازگشت ہمارے طرز عمل ہی کی جانب ہے، خود اخلاقی تربیت کے عوامل میں محسوب ہوسکتا ہے: اور ہم قطعی طور پر تم کو کچھ چیزوں جیسے خوف،بھوک، اموال، نفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور ان صابروں کو بشارت دیدو، (وہی لوگ) کہ جب ان پر مصیبت پڑتی ہے، کہتے ہیں: ''ہم خدا ہی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ جائیں گے''(١)
اس کے علاوہ اگرچہ آیات میں خیر وشر، نعمت ونقمت، سختی اور سہولت سب کو امتحان اور ابتلا کے مصادیق میں شمار کیا گیا ہے حتی کہ بعض روایات میں شکر و کشادگی کی منزل میں طرز عمل کو صبر وناگواری کے وقت سے زیادہ سخت جانا گیا ہے، لیکن جو چیز امتحان کے موقع پر افراد کی توجہ کا زیادہ تر مرکز ہوتی ہے وہ ناگوار ، رنج آمیز اور اندوہگین حوادث وواقعات کا مقابلہ کرنا ہے، چنانچہ مذکورہ آیت میں تصریح کی گئی ہے کہ خوفناک اور ہولناک امور، بھوک، دلبندوں اور عزیزوں کے فقدان، اموال اور سرمایہ حیات کی نسبت آفات وحوادث وغیرہ سے (کہ جنھیں اصطلاح میں ''مصیبت'' کہا جاتا ہے) تمھیں آزمائیں گے، ان امور کا مقابلہ کرنے کے لئے آمادگی اور اُن سے ہمارا طرز مقابلہ ان میدان کو ایک تربیتی اور اصلاحی مدرسہ بناسکتا ہے۔
ابتلاء اور سختیوں سے مقابلہ کے تربیتی علائم روایات میں یوں بیان ہوئیہیں: گناہ سے پاک ہونا، باطنی خاکساری وتذلل اور خارجی سرافرازی وسربلندی، کبرونخوت کا زائل ہونا، درجہ بلند ہونا، شدائد ومشکلات کے سامنے ثابت قدمی، آخرت اور خدا کی ملاقات کا اشتیاق۔
''...یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ خدا نے جو کچھ تمھارے دلوں میں ہے (عمل میں) آزمائش کرے اور جوکچھ تمہارے ضمیر کی حقیقت ہے اُسے آشکار کردے اور خدا سینوں کے اسرار سے آگاہ ہے''۔(٢)
.......................................
١۔ سورہ ٔبقرہ آیت ١٥٥۔١٥٦۔
٢۔ (وَلِیَبْتَلِیَ اللّٰہُ مَا فِی صُدُوْرِکُمْ وَلِیُمَحِّصَ مَا فِی قُلُوبِکُم، وَاللّٰہُ عَلِیْم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ)(سورہ ٔآل عمران آیت ١٥٤)۔
حضرت امام جعفر صادق ـنے بھی فرمایا: '' وہ لوگ آزمائش کی بھٹی میں آزمائے جائیں گے، جس طرح سونے کو بھٹی میں آزمایا جاتا ہے اور خالص کئے جائیںگے جس طرح سونا کھرا اور خالص کیا جاتا ہے''۔(١)
سید قطب کی تحریر کے مطابق: تمام وسائل پر حوادث کی ایک تربیتی وسیلہ کے عنوان سے فضیلت وبرتری یہ ہے کہ ایسی خاص حالت روح میں پیدا کرتے ہیں کہ گویا اس کو پگھلادیتے ہیں۔ حادثہ روح کو کامل طور سے جھنجھوڑدیتا ہے وردّ عمل (تاثیر وتاثر) ایک حرارت اس کے باطن میں ایجاد کردیتا ہے کہ کبھی نرم کرنے کے لئے یانرم کرنے کی حد تک پہنچنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ یہ حالت روح میں نہ ہمیشہ پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی نفس کے لئے آسان ہے کہ سکون واطمینان اور امن وامان یا راحت طلبی کی حالت میں اس تک پہنچ جائے۔
''... ایک مثل لوگ کہتے ہیں: جب تک لوہا گرم ہے کوٹ لو، () کیونکہ لوہے کی گرمی کے وقت اُس پر ہتھوڑا مارنا آسان ہے اور اسے جس شکل میں چاہے بدل سکتے ہیں... اس وجہ سے سختیوں اور حوادث سے استفادہ کرنا تربیت کے اہم مطالب میں سے ہے، کیونکہ نفس کے پگھلنے اور گداز ہونے کی صورت میں مربی تربیت دئے جانے والے کو ارشاد وتہذیب کے جس رنگ میں چاہے رنگ سکتا ہے وہ اس طرح کہ کبھی اس کا اثرزائل نہیں ہو گا یا کم ازکم جلدی زائل نہیں ہو گا''۔(٢)
اسی طرح سختیو ں سے استفادہ اور عیش وراحت سے دوری کو اس شیوہ کا مکمِّل (پوراکرنے والا) جانا جا سکتا ہے، سختیاں انسان کے گوہروجودکو جلابخشتی ہیں، اور اس میں نکھاراورچمک پیدا کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ سختی، مقاومت کہ جوحادثوں اور سختیوں کی طوفان میں ہمیں حاصل ہو تی ہے، انسان کو نادرست اخلاقی میلانات اور رجحانات کے مقابل محفوظ رکھتی ہے اس وجہ سے روایات میں تاکیدکی گئی ہے کہ بچہ تھوڑا سا کو مشکلات اور سختیوں سے دوچارکرو۔
حضرت امام موسیٰ کاظم ـ فرماتے ہیں:
''بہترہے بچہ عہدطفولیت میںزندگی کی ناگزیرسختیوں اور مشکلوں کا سامنا کرے جو کہ حیات کا تاوان ہے تاکہ جوانی اوربڑھاپے میں بردباراورصابرہو'' ۔(٣)
.......................................
١۔ ''یفتنون کما یفتن الذہب، یخلصون کما یخلص الذہب''۔(کافی ج١ص ٣٧٠۔)
٢۔ روش تربیتی اسلام، ص٢٨٧،٢٨٨۔
٣۔ وسائل الشیقہ، ج٥، ص١٢٦۔
حضرت علی ـ فرماتے ہیں:
''جنگل، ہوا اور طوفان میں پرورش پانے والے درخت باغبا ن کے پر و ر دہ اور تروتازہ درختوں سے بہتر ہوتے ہیں''۔(١)
اسلام میں جہاد اسی زاویہ سے قابل تو جہ و تحقیق ہے دین کے دشمنوں سے جہاد اور مقابلہ خواہ صدر اسلام میں ہو یا بعد کے زمانوں میں ( بالخصوص آخری دفاع مقدس کے دوران) ایک تربیتی اور اخلاقی مدرسہ رہا ہے ، اور اخلاق کی بلندیوں پر فائز انسان اُس مدرسہ سے فارغ التحصیل ہوئے ہیں:
''ہم یقینا تمہیں آزمائیں گے تاکہ تم میں سے مجاہدین اور صابرین کو جان لیں اور (اس طرح) تمھارے حالات کو باقاعدہ جانچ لیں ''۔(٢)
ڈاکٹر'' ویکٹور فرانکل ''سویڈن کا ماہر نفسیات ہے اور ہیومنسٹ معالجین میں سے محسوب ہوتا ہے اور خود بھی ایک طولانی مدت تک جرمنی کے نازیوں چھائونی میں دوسری عالمی جنگ میں اسیر رہا ہے، اس نے اپنی آنکھوں سے جو انسان سوزی کی بھٹیاں دیکھیں اور بھوک، سردی، بیماری اور سخت ترین رنج والم اٹھائے لیکن اس کی جان بچ گئی۔ چھائونی سے آزاد ہونے کے بعد اُس نے اپنے معنوی علاج کے مکتب (Logothrapy)کی بنیاد ان تین راہوں میں سے ایک راہ کے کشف وتفہیم پر رکھی:
١: ۔اچھے امور کا انجام دینا۔
٢: ۔تجربۂ اعلیٰ جیسے عشق۔
٣رنج والم برداشت کرنا۔
وہ تیسری راہ کی وضاحت میں کہتا ہے: رنج والم کابرداشت کرنا انسان کی بہترین وجودی جلوہ گاہ ہے اور جو بات اہم ہے وہ انسان کا رنج والم کے ساتھ فکر اور سلوک کا انداز ہے۔ ہدف زندگی رنج والم سے فرار کرنا نہیں ہے، بلکہ زندگی کو بامعنی بنانا ہے کہ اُسے واقعی مفہوم عطا کرے۔ ہر چیز کو ایک انسان سے لیاجاسکتا ہے مگر انسان کی آخری آزادی کو اس کی رفتار کے انتخاب میں ڈاسٹایوفسکی کے بقول: میں صرف ایک چیز سے ڈرتاہوں اور وہ یہ کہ اپنے رنج والم کی شایستگی اور لیاقت نہ رکھوں۔ (٣)
.......................................
١۔ نہج البلاغہ، نامہ، ٤٥۔
٢۔ سورہ ٔمحمد آیت٣١۔
٣۔ دیکٹور فرانکل: انسان درجستوی معنا۔


د ۔معاشرت و مجالست:
اخلاقی ملکات کے رسوخ کے لئے ایک دوسرا عملی شیوہ صالح اور اخلاقی فضائل کے حامل افراد کے ساتھ زندگی گذارنا اور ناپاک نیز اخلاقی رذائل میں مبتلا افراد کی مجالست وہمنشینی سے اجتناب کرنا ہے، نفس شناسی کے دلائل بہت سی جہتوں سے قابل توجہ ہیں کہ جو تفصیل اور تکرار کے محتاج نہیں ہیں، منجملہ ان کے تقلید اور دوسروں کے اعمال کا مشاہدہ (باندوار کا نظریہ)،قوت بخش چیزوں کے وجود کے ساتھ ماحول سازی اور تداعی (موافقت وہماہنگی) کی ایجاد (ا سکینر کا فعال ماحول سازی کا نظریہ ، یعنی مثال کے طور پر ایک اچھے اور صالح گروہ میں اگر ایک اچھا باعمل انسان سے صادر ہو تو دیگر تمام افراد کے ذریعہ اس کی تقویت کی جائے)۔ (نظریہ تسہیل اجتماعی ) (١) ہے (دوسروں کا وجود حتی غیر فعال تماشائیوں کا وجود انسان کی فعّالیت کو قوت بخشتا ہے (کیونکہ انسان کے مقصد کو بلندی عطا کرتا ہے) ۔
آیات وروایات میں نیکو کاروں کی معاشرت اخلاقی تربیت کے ایک شیوہ کے عنوان سے مورد تاکید واقع ہوئی ہے اور بزرگوں نے بھی اس سلسلہ میں مستقل کتابیں تالیف کی ہیں۔
قال الحواریون لعیسیٰ ـ: یاروح اللّٰہ مَن نجالسُ اذاً؟ قال: من یذکرکم اللّٰہ رؤیتہ ویزید فی عملکم منطقہ ویرغبکم فی الآخرة عملہ۔ (٢)حواریوں نے حضرت عیسیٰ ـ سے پوچھا:
اے روح اﷲ! اس وقت ہم کس کے ساتھ ہمنشینی رکھیں؟ انھوں نے فرمایا: جس کا دیدار تمھیں اﷲ کی یاد دلائے، جس کی بات تمھارے علم میں اضافہ کرے اور جس کا عمل تمھارے اندر آخرت کے متعلق رغبت پیدا کرے۔
یا ابن مسعود، فلیکن جلساؤک الابرار واخوانک الاتقیاء والزہاد لانّ اللّٰہ تعالیٰ قال فی کتابہ: (الاخلاء یومئذ بعضہم لبعض عدو الّا المتقین)۔(٣) اے ابن مسعود! تمھارے ہمنشین نیک لوگ ہونے چاہئیں اور تمھارے بھائی (دوست) متیقن وزاہدین ہونے چاہئیں اس لئے کہ تم خدائے تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے: ''اس دن صاحبان تقویٰ کے علاوہ تمام دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیںگے'' ۔
.......................................
١۔زمینہ روانشناسی ج٢ ص٢ ٣٧۔
٢۔ بحار الانوار ج٧٧ ص١٤٧۔
٣۔ بحار الانوار ج٧٧ ص١٠٠۔
امام علی ـ: جالس العلماء تزدد حلماً۔(١) علمائے کی ہمنشینی اختیار کرو کہ ان کی ہمنشینی حلم میں اضافہ کرتی ہے۔
امام حسین ـ: مجالس الصالحین داعیة الی الصلاح۔(٢)صالحین کی مجالس (نشست) صلاح ونیکی کی طرف دعوت دیتی ہے۔
امام علی ـ: جالس العلماء یزددعلمک ویحسن ادبک وتزکوا نفسک۔(٣) علماء کی ہمنشینی اختیار کرو کہ اس سے تمھارے علم میں اضافہ ہوگا، تمھارا ادب اچھا ہوگا اور تمھارا نفس پاک ہوگا۔
امام علی ـ: علیک باخوان الصدق فاکثر من اکتسابہم فانّہم عدة عند الرخاء وجُنَّة عند البلائ۔(٤) تم پر سچے (نیک) دوستوںکی ہمنشینی لازم ہے پس ان سے زیادہ زیادہ سے زیادہ کسب فیض کرو اس لئے کہ وہ آسائش کے وقت وسیلۂ دفاع ہیں اور مصیبت کے وقت سپر ہیں۔
امام علی ـ: جانبوا الاشر وجالسوا الاخیار۔(٥) بروں سے پرہیز کرو اور نیکوں کی ہمنشینی اختیار کرو۔
حضرت امام محمد باقرـ: لاتقارن ولاتواخ اربعة: الاحمق والبخیل والجبان والکذاب۔(٦) چار افراد سے ہمنشینی اور دوستی اختیار نہ کرو: احمق، کنجوس، ڈرپوک اور جھوٹے سے۔
امام علی ـ: مجالسة اہل الہویٰ منساة للایمان۔(٧) خواہش پرست کی ہمنشینی ایمان کو بھلادیتی ہے۔
.......................................
١۔ غرر الحکم فصل ٣ص ٤٧۔
٢۔ بحار الانوار ج٧٨ ص١٤١۔
٣۔ غرر الحکم فصل ١ص ٤٣٠۔
٤۔ بحار الانوار ج٧٤ ص١٨٧۔
٥۔ غرر الحکم
٦۔ بحار الانوار ج٧٤ ص١٨٧۔
٧۔ نہج البلاغہ ج٨٦۔

4: ۔ تشویق اور تنبیہ کا طریقہ
''تشویق ''لغت میں آرزومند کرنے، شوق دلانے اور راغب کرنے کے معنی میں ہے۔(فرہنگ معین)
یہاں پر ''تشویق'' سے مراد انسان کی درخواست سے متعلق اور مطلوب امور سے عمل انجام دینے کے بعد عمل کے اضافہ یا اس کی تثبیت کے لئے استفادہ کرناہے۔
''تنبیہ''بھی لغت میں آگاہ کرنے، بیدار کرنے، تادیب اورسزادینے کے معنی میں ہے (فرہنگ معین)۔ یہاں پر تنبیہ سے مراد انسان کے لئے تکلیف دہ اسباب ووسائل سے عمل انجام دینے کے بعد عمل کو دور یا کم کرنے کے لئے استفادہ کرناہے۔ اس وجہ سے تشویق یا تنبییہ کو خود انسان یا دوسروں کے ذریعہ عملکو کنٹرول کرنے کا ایک سسٹم جاننا چاہئے کہ پسندیدہ یا ناپسندیدہ عمل کے بعد اس عمل کی زیادتی یا کمی کے لئے ان چیزوں کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔
تشویق یا تنبیہ کا نفسیاتی مبنیٰ، فعال ماحول سازی کے نظریہ کے مطابق، درج ذیل آزمائشوں پر استوار ہے:
١ ۔ہر جواب جو ایک قوت بخش محرک کے نتیجہ میں حاصل ہو، اس کی تکرار کی جاتی ہے ۔
٢ ۔قوت بخش محرک ایک ایسی چیز ہے کہ جواب ملنے کے احتمال کو بڑھاتا ہے۔
٣۔ان قوت بخش چیزوں جو ذاتی طور پر تقویت کرنے کی خاصیت کے حامل ہیں،اولین یا غیر شرطی قوت بخش کہتے ہیں، اوّلین مثبت قوت بخش جاندار کی جسمانی قوت ضرورتوں کو پورا کرتی ہیں جیسے: پانی، غذا، ہوا، وغیرہ۔ اوّلین منفی قوت بخش چیزیں ذاتی طور پر تکلیف دہ خاصیت رکھتی ہیں جیسے: مارپیٹ، گالم گلوج ، زیادہ حرارت اور زیادہ نور وغیرہ۔
٤ ۔ثانوی یاشرطی قوت بخش چیزیںوہ ہیں جو کلاسیک ماحول سازی (اوّلین بخش چیزوں کے ساتھ ہمراہی چیزوں کے ساتھ ہمراہی اور تداعی ) کے اصول کے مطابق تقویت کرنے کی خاصیت رکھتی ہیں جیسے: روپیہ، انعام، نمبر وغیرہ ۔
٥ ۔اگر کوئی رفتار کسی چیز کی تقویت سے بڑھ جائے اور اسے ایک مدت تک تقویت نہ کریں، تو وہ تدریجاً موقوف ہوجائے گی کہ اُسے ''خاموشی''بھی کہتے ہیں۔
٦ ۔تنبیہ، ایک نادرست اورنامطلوب رفتار کے دور کرنے کے لئیتکلیف دہ محرک وسبب کے واردکرنے کے معنی میں ہے۔
٧ ۔ کبھی کبھی تقویت مسلسل تقویت سے زیادہ اثر رکھتی ہے، لہٰذا اگر مربی (تربیت دینے والا) ہر بار مطلوب اور پسندیدہ رفتار کے ظاہر ہونے کے بعد جزاوسزا دے، تو ناخواستہ طور پر اس کے وقوع کا احتمال کم ہوتا جائے گا، لیکن اگر مربی کبھی کبھی چند بار مطلوب رفتار انجام دینے کے بعد جزا دے، تو اس کے توقعکا احتمال زیادہ ہوجائے گا زیادہ موثر یہ ہے کہ تربیت کی ابتدا میں مسلسل جزا ہو اور رضایت بخش سطح تک پہنچنے کے بعد نوبت وار کبھی کبھی ہوجائے ۔
٨۔ آغاز میں اجتماعی قوت بخش (ستائش، تائید اور مسکراہٹ وغیرہ) محسوس طور پر قوت بخش چیزوں کے ساتھ استعمال کی جائے اور اس کے بعد محسوس قوت بخش چیزیں ترک کردی جائیں ، آیات وروایات میں تشویق وتنبیہ کے تربیتی کردار پر تاکید کی گئی ہے۔
حضرت امیر المومنین علی ـ مالک اشتر کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
''تمہارے نزدیک نیکو کار اور بدکاریکساں نہ ہوں، کیونکہ یہ امر (یکساں قرار دینا) نیکو کاروں کے نیکی ترک کرنے اور نااہلوں کی بدکاری میں اضافہ کا باعث ہوگا، لہٰذا ادب کی رعایت کے لئے ان میں سے ہر ایک کے ساتھ حالات کے مطابق برتائو رکھو''۔(١)
''نیکوکاروں کی اصلاح ان کا ادب و احترام کرنے سے ہوتی ہے اور بدکاروں کی اصلاح ان کی تادیب کرنے (سزا دینے)سے''۔(٢)
''جوکچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے وہ سب خدا کے لئے ہے، تاکہ جن لوگوں نے برا کیا ہے وہ ان کے کرتوت کی انھیں سزا دے اور جن لوگوں نے احسان ونیکی ہے انھیں اچھا بدلہ دے ''۔(٣)
''خداوند سبحان نے جزا اپنی اطاعت پراور سزا اپنی معصیت پر قرار دی ہے، تاکہ اپنے بندوں کو اپنے عذاب سے باز رکھے اور بہشت کی طرف روانہ کرے''۔(٤)
َ
١۔ بحار الانوار ج٧٧ ص٤٦۔
٢۔ ''استطلاح الاخیار باکرامہم والاشراربتأدیبہم''(بحار الانوار ج٧٨ ص٢٤٥)۔
٣۔ سورہ ٔنجم آیت ٣١۔
٤۔ نہج البلاغہ حکمت ٣٦٨۔
ادیان الٰہی اور اسلام میں قانون عذاب وثواب کو دو اعتبارسے دیکھا جاسکتا ہے
: اول
یہ کہ ان کا اعلان کرنا انذار وتبشیر کا پہلو رکھتا ہے ، دوسرے یہ کہ ثواب وعقاب کی واقعیت عینی ہے کہ اُن میں سے بعض دنیا میں (جیسے سکون واطمینان، راحت وچین ، زندگی کی آسائش اور عیش وعشرت کو احساس ) اور درک کرتا ہے، اس لحاظ سے تشویق وتنبیہ اُن دونوں کی تطبیق واقع سے دور نہیں ہے۔ اُس کا اخروی حصہ جیسے حور وقصر ومحلات وغیرہ بھی ایمانی بصیرت (انسان کا دوسرے عالم اور وعدہ الٰہی کے قطعی ہونے اور اس بات پر اعتقاد رکھنا کہ انسان اپنے اعمال سے اس ثواب یاعقاب کو اس وقت بھی عینی تجسم بخشتا ہے ) کے اقتضا کے مطابق حاضر وموجود ہیں اور انھیں بھی تنبیہ وتشویق کے مصادیق میں شمار کرسکتے ہیں۔ اس بناپر بہشت ودوزخ اور ا ﷲ کے وعدہ و وعید سے متعلق تمام آیات ایک طرح بندوں کی تشویق اورتنبیہ کے لئے ہیں تاکہ وہ اپنی عادت اور روش کو بدل ڈالیں اور فلاح وکامیابی اور فضائل اخلاقی کے حامل ہونے کی راہ میں گامزن ہوجائیں۔ لیکن ان لوگوں کے لئے جن کا عقیدہ وایمان کمزور ہے، ان کے لئے وہ آیات انذار وتبشیر ہی کی حد میں ہوں گی ۔

دوسرانکتہ
جس کی ہمیں تاکید کرنی ہے یہ ہے کہ یہاں پر تشویق، ترغیب اور تحریض (ابھارنے) کے علاوہ ایک چیز ہے، تشویق عمل انجام دینے کے بعد کی چیز ہے، لیکن ترغیب وتحریض قبل ازعمل سے مربوط ہیں۔ تشویق وتنبیہ کے وہ طریقے جن میں ایک طرح منطقی ترتیب کا لحاظ کیا جاسکتا ہے، درج ذیل ہیں:

الف ۔ عاطفی توجہ:
محبت آمیز نگاہ ، مسکرانا، اور ہر قسم کی تائید ، مہر ومحبتاور طلف کا احساس تربیت پانے والے کو عزت نفس کے عمیق احساس میں مبتلا کردیتاہے، کیونکہ ہر انسان حُبّ ذات کے زیر اثر غیروں کی محبت اورتوجہ حاصل کرنے کا محتاج ہوتا ہے۔ (١)درج ذیل آیات اس سلسلہ میں قابل توجہ ہیں:
(وَاخْفِضْ جِنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ المُؤمِنِیْنَ )(٢)
''اور جو صاحبان ایمان آپ کی اتباع کرلیں ان کے لئے اپنے شانوں کو جھکادیجئے''۔
.......................................
١۔اس بات کی مزید توضیح ''تکریم شخصیت کی روش ''کی بحث میں گذر چکی ہے۔
٢۔ سورہ ٔشعراء آیت٢١٥۔
(وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰواةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہُ وَلَاتَعْدُ عَیْنَاکَ عَنْہُمْ)(١)
''اور اپنے نفس کو ان لوگوں کے ساتھ صبر آمادہ کرو جو صبح وشام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اسی کی مرضی کے طلبگار ہیں اور خبردار تمھاری نگاہیں ان کی طرف سے نہ پھرجائیں...''۔
ان آیات میں خداوند متعال اپنے مہربان حبیب سے چاہتا ہے کہ مومنین کے لئے لطف ومرحمت کے بازو جھکادیں، ان کی طرف سے چشم محبت نہ ہٹائیں اوران کے ساتھ ہمراہی اور صبر وشکیبائی کریں دوسری آیت میں اپنے رسول کی بلند ترین ان صفات کے حامل ہونے اور مومنین کے ساتھ ایسی معاشرت رکھنے پر معاملات کرنے کی توصیف کرتا اورفخرو مباہات کرتا ہے:
''یقیناً تمھارے پاس تمھیں میں سے وہ پیغمبر آیا ہے کہ تمہاری ہر مصیبت پراس کے لئے بہت ناگوار ہے وہ تمہاری ہدایت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور مومنین پر دلسوز ومہربان ہے''۔(٢)
جی ہاں، وہ روح پرورنگاہ جو انسانوں پر عشق ومحبت کے ساتھ پڑتی ہے، انسان کو متحرک کرنے کے لئے کافی ہے اور بلال وسلمان کی صف میں بٹھادیتی ہے۔

ب ۔ زبانی تشویق:
تعریف وتمجید ، دعا، شکریہ ادا کرنا اور زبانی قدردانی بھی اُن عام وسائل اور اسباب میں سے ہیں کہ بلند مقاصد اور گرانمایہ اخلاقی اعمال تک رسائی کے لئے اُن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے خداوند عالم اپنے پیغمبر سے چاہتا ہے کہ مومنین سے زکات لینے کے بعد ان کے لئے دعا کریں۔(٣)
حضرت امیر المومنین علی ـ نے بھی مالک اشتر سے خطاب کرتے ہوئے انھیں اس نکتہ کی یاد آوری کی ہے:
... ان کی پے درپے تشویق کرو اور جو انھوں نے اہم کام انجام دئے ہیں انھیں شمار کرو (اہمیت دو) کیونکہ ان کے نیک کاموں کی یاد آوری ان کے دلیروں کو زیادہ سے زیادہ حرکت کرنے پر ابھارتی ہے، اور وہ لوگ جو کام میں سستی کرتے ہیں انھیں کام کرنے کا شوق پیدا ہوگا، انشاء اﷲ ۔(٤)
.......................................
١۔ سورہ ٔکہف آیت٢٨۔
٢۔ سورہ ٔتوبہآیت ١٢٨۔
٣۔ سورہ ٔتوبہ آیت ١٠٣۔
٤۔ نہج البلا غہ نامہ ٥٣۔
زبانی تشویق میں اہم نکتہ یہ ہے کہ اور موقع ومحل سے اس حد تک استفادہ ہو اور افراط وتفریط یا چاپلوسی کی حالت پیدا نہ ہو امام علی ـ نے فرمایا ہے:
جب تم تعریف وثنا کر و تو اختصار پر اکتفاکرو۔(١)
سب سے زیادہ بے عقلی اور حماقت، تعریف وستائش یا مذمت میں زیادتی کرناہے۔(٢)
''استحقاق سے زیادہ تعریف کرناچاپلوسی ہے اور اس (استحقاق) سے کم تعریف کرنا حسد یا عاجزی کی علامت ہے''۔(٣)
بہت سے افراد اپنی تعریف وتمجید ہونے سے مغرور ہوجاتے ہیں۔(٤)

ج ۔ عملی تشویق:
انعام، ہدیہ، تحفہ وغیرہ دینا، نمبر، تنخواہ یا حقوق یا مزدوری میں اضافہ کرنا، سیاحت اور تفریح کے لئے لے جانا، کھیلنے کی یا دوستوں کے ہمراہ باہر جانے کی اجازت دیناوغیرہ ، یہ سب عملی تشویق شمار ہوتی ہے کہ موقعیت کے اعتبار سے ان کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔
پیغمبر اکرم ۖ اور ائمہ اطہار علیہم السلام کی سیرت میں ایسے متعددمقامات پائے جاتے ہیں کہ کسی ایک آدمی کے نیک عمل کا مشاہدہ کرنے کے بعد اُسے صلہ اورہدیہ دیتے ہیں حتی کبھی اپنا لباس بھی دیدیتے تھے، جیسے کمیت بن زیاداسدی کی داستان کہ حضرت امام زین العابدین ـ کی خدمت میں پہنچے اور کہا: میں نے آپ کی مدح وثنا میں کچھ اشعار کہے ہیں اور چاہتا ہوں کہ انھیں پیغمبر ۖسے تقرب کا وسیلہ قراردوں۔پھر اپنا معردف قصیدہ آخرتک پڑھا، جب قصیدہ تمام ہو گیا، امام ـ نے فرمایا: ''ہم تمہاری جزا نہیں دے سکتے، امید ہے کہ خداوندعالم تمہیں جزادے۔''پھر اس کے بعد اپنے بعض لباس انھیں دیدیئے اوراُن کے حق میں اس طرح دعا کی: ''خدا یا! کمیت نے تیرے پیغمبر کے خاندان کی نسبت، اس حالت میں نیک فریضہ اداکیا کہ اکثرلوگوں نے اس کام سے نجل کیا اور شانہ خالی کیا ہے جوحق دوسروں نے پوشیدہ رکھا تھا اس نے آشکار کردیا۔ خدایا! اسے سعادت مندزندگی عطا کر اور اُسے شہادت نصیب کر اور اُسے نیک جزا دے کہ ہم اُس کی جزا نہیں دے سکتے جزا ور ناتواں ہیں۔
.......................................
١۔ ''اذا مدحت فاختصر ''(غرر الحکم، فصل ٤ص٤٦٦)۔
٢۔ ''اکبر الحمق الاغراق فی المدح والذم '' (غرر الحکم، فصل ٧ص٧٧)۔
٣۔ ''الثناء بأکثر من الاستحقاق ملق والتقصیر عن الاستحقاق عیّ أوحسد'' (بحارالانوار ج٧٣ص ٢٩٥)۔
٤۔ ''رُبّ مفتون بحسن القول فیہ''(بحارالانوار ج٧٣ص ٢٩٥)۔
کمیت نے بعد میں کہا: ''میں ہمیشہ ان دعائوں کی برکت سے بہرہ مند رہا ہوں'' حضرت نے اس طریقہ سے کمیت کی روح شجاعت اور حق گوئی کی تشویق اور تائیدکی۔ اسی کے مشابہ داستان حضرت امام علی رضا ـ کے بارے میں بھی دعبل خز اعی کی نسبت ہے جب وہ قصیدہ پڑھ چکے تو حضرت نے وہ دس ہزار درہم کہ جن پر آپ کا نام کندہ تھا اُنھیں عطا کیا اور دعبل نے ہر درہم کو اپنی قوم کے درمیان (دس) درہم میں فروخت کیا۔(١)
درج ذیل نکات کی رعایت تشویق کی تاثیرمیں اضافہ کرتی ہے:
١۔تشویق ابھارنے اور قوت بخشنے کا ذریعہ ہے لہٰذا خودوہی ھدف نہیں بن جانا چاہئیکہ اور تربیت پانے والے کے تمام افکار داذہان کو اپنے ہی لئے سرگرم رکھے۔ تشویق کبھی کبھی کرنا، اس کا فیزیکی سطح سے اجتماعی ومعنوی بلندی کی طرف لے جانااور تشویق کا مستحق ہونا (رشوت کی حالت کا نہ رکھنا ) ایک حدتک مذکورہ اشکال واعتراض کو برطرف کردیتاہے۔
٢۔ تربیت پانے والے کو تشویق کی علت مکمل طور پرواضح اور معلوم ہونی چاہئے۔
٣۔تشویق موقع ومحل کے اعتبار سے ہو تاکہ کار آمد اور موثر ثابت ہو۔
٤۔تشویق کرتے وقت اُس کا کسی دوسرے سے مقائسہ اور موازنہ نہیں کرنا چاہئے ؛کیونکہ اُس پر بُرااثرپڑے گا۔
٥۔ مجمع میں تشویق وتحسین کرنا زیادہ اثر رکھتا ہے کیونکہ دوسروں کو بھی آمادہ کرتا ہے۔

د۔ جزاسے محرومیت اور نیکو کار کو جزادینا:
اس مرحلہ کے بعد تبنیہ کے طریقوں میںداخل ہو جائیں گے۔ مربی تربیت دئے جانے والے کی نا شائستہ حرکات وسکنات کو ختم کرنے کے لئیاسے ان بعض جزائوں اورمواہب سے محروم کردے جن کی وہ امید رکھتا ہے یایہ کہ نیکوکاروں کو جزادے کر اُسے اپنی محرومیت کی جانب متوجہ کرے اور اس کے اشتباہ وخطا کی نشاندہی کرے۔حضرت علی ـ کے گہربار اور زریں کلام میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ''نیکو کار کو جزا دے کر بدکار کو ان کی بدکاری سے روک دو''۔(٢)
.......................................
١۔عیون اخبارالرضا ـ، ج١، ص١٥٤۔
٢۔ ''از جرالمسء بثواب المحسن''بحار، ج٧٥، ص٤٤، باب ٣٦
(اَفَمَنْ کَانَ مُؤمِناً کَمَنْ کَانَ فَاسِقاً لَایَسْتَوُونَ )۔(١)
''کیا وہ شخص جو صاحب ایمان ہے اس کے مثل ہوجائے گا جو فاسق ہے؟ ہرگز نہیں، دونوں برابر نہیں ہوسکتے''۔
(لَایَسْتَوِی اَصْحَابُ النَّاسِ وَاَصْحَابُ الْجَنََّةِ۔۔۔)(٢)
''اصحاب جنت اور اصحاب جہنم ایک جیسے نہیں ہوسکتے''۔
(وَمَایَسْتَوِی الاعمیٰ والبصیروالّذین آمنواوعملواالصالحات ولاالمسء قلیلا ماتتذکرون )۔(٣)
''اور یاد رکھو کہ اندھے اور نابینا برابر نہیں ہوسکتے ہیں اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کئے ہیں وہ بدکاروں جیسے نہیں ہوسکتے ہیں، مگر تم لوگ بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو''۔
خداوند عالم ان آیات میں واضح طورپر نیکوکاروں اوربدکار روں کے مسادی نہ ہو نے کا اعلان کرتا ہے، اس سے اس کا مقصود یہ ہے کہ سب جان لیں کہ اچھے لوگوں کے لئے جزا ہے اور ناشائستہ اور قبیح اعمال والوں کے لئے محرومیت کے سوا کچھ نہیں ہے۔

ہ۔جرمانہ اور تلافی:
جرمانہ نمبرکم کرنے ، پیسہ دینے، دوستوں کے لئے مٹھائی خریدنے وغیرہ کی صورتوں میں ہوتا ہے۔ تلافی جیسے اس انسان سے عذر کرنا جس کی توہین کی ہے یا جس جگہ کوئی نقصان پہنچایا ہے اس کی تعمیر کرے یا مرمت کرے جرمانہ کے سلسلہ میں توجہ رکھنا چاہئے کہ ادا کرنے یا کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اوربے چارگی اوربیزاری کی حالت پیدا نہ ہو۔ جرمانہ کے شیوہ سے استفادہ کی شرط یہ ہے کہ انسان کی ایک مدت تک تقویت کی جائے تاکہ پہلے جو اُسے جزائیں دی گئی ہیں بعد میں اُس سے واپس لی جاسکیں۔
اسلام میں دیت کاقانون اس کے حقوقی جنبہ کے علاوہ تربیتی جنبہ سے بھی ایک قسم کا جرمانہ حساب ہوتا ہے۔

و۔ سرزنش وتوبیخ اور جسمانی توبیخ وتنبیہ:
توبیخ ، غیض وغضب کی نظر سے شروع ہوتی ہے اور علانیہ توبیخ تک پہنچتی ہے۔ (٤)
.......................................
١۔ سورئہ سجدہ، آیت ١٨۔
٢۔ سورہ ٔحشرآیت ٢٠۔
٣۔ سورہ ٔغافر، آیت ٥٨۔
٤۔ ایک اعتبار سے مخفی اور پوشیدہ توبیخ کو جرمانہ اور تلافی سے قبل جاننا چاہئے)۔
حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''عقلمندوں کی سزا کنایہ اور اشارہ کی صورت میں ہوتی ہے اورنادانوں کی سزا واضح اور صریح انداز میں ہوتی ہے۔(١)
''تعریض (کنایہ میں توبیخ کرنا) عقلمند کے لئے آشکار توبیخ سے کہیں زیادہ سخت ہے''(٢)
حضرت امام جعفر صادق ـ ''شعرانی'' جوکہ پیغمبر کے چاہنے والوں میں سے تھے، خلوت میں بالواسطہ طور پر نصیحت کے ذریعہ انھیں ان کے ناپسند عمل (شرابخوری ) کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
''اچھا کام سب کے لئے اچھا ہے اور تمہارے لئے سب سے بہتر ہے اس انتساب کی وجہ سے جو تم ہم (اہل پیغمبرۖ)سے رکھتے ہو اور برا کام سب کے لئے برا ہے لیکن تم سے سب سے زیادہ برا ہے اس انتساب کی وجہ سے کہ جو تم ہم سے رکھتے ہو''۔(٣)
جسمانی تنبیہ سب سے آخری مرحلہ میں ہے کہ گذشتہ مراحل میں ناکامی کی صورت میںخاص شرائط وحالات پائے جانے کی صورت میں اُس سے استفادہ ہوتا ہے، تنبیہی طریقہ کلی طریقے پر اور جسمانی تنبیہ خاص طور پر صاحبان نظر کے نزدیک محل اختلاف میں ہے، بعض جیسے سعدی ومولوی جسمانی تنبیہ کے طرفدار تھے، اور اس سے استفادہ کو جائز سمجھتے ہیں کہ بعض دیگر جیسے غزالی، بوعلی اور ابن خلدون نے مربی کو جسمانی تنبیہ سے تین بار سے زیادہ یا غصہ کی حالت میں روکا ہے۔(٤)
ماہرین نفسیات کے درمیان بھی بعض جیسے رین اور ہولز خاص شرائط وحالات پائے جانے کی صورت میں تنبیہ سے استفادہ کو رفتار تغییر کے معاملہ میں مفید جانتے ہیں (٥)
.......................................
١۔ ''عقوبة العقلاء التلویح وعقوبة الجہال التصریح ''(میزان الحکمة ج١ص ٧٢)۔
٢۔ ''التعریض للعاقل اشد من عقابہ'' (میزان الحکمة ج١ص ٧٢)۔
٣۔ ''یا شقر ان انّ الحسن لکل احد حسن وانہ منک احسن لمکانک منّا وان القبیح لکل احدٍ قبیح وانّہ منک اقبح''(بحار الانوار ج٤٧ ص٣٤٩ باب ١١)۔
٤۔ نقش تربیت معلم، دفتر ہمکاری حوزہ ودانشگاہ۔
٥۔ ہیلگارد:روان شناسی یادگیر ص ٣٣٧۔
اس کے باوجود اکثر ماہرین نفسیات رفتار کی تبدیلی اور تربیت کے لئے تنبیہ سے استفادہ کے مخالف ہیں۔
ا سکینرنہایت تاکید کے ساتھ تنبیہ سے استفادہ کو کلی طور پر خطرناک ، نامطلوب اور بے اثر شمار کرتا ہے اور متعدد دلائل بھی اپنے مدعا کے لئے پیش کرتا ہے:(١)
١ ۔تنبیہ دوسرے نامطلوب مضر آثار کا پیش خیمہ ہوتی ہے، جیسے عمومی خوف۔
٢ ۔تنبیہ اجسم کو پتہ دیتی ہے کہ کیا کام نہ کرے نہ یہ کہ کیا کام کرے۔
٣ ۔تنبیہ دوسروں کو صدمہ پہنچانے کی توجیہ کرتی ہے۔
٤۔تربیت پانے والا اگر مشابہ موقعیت میں واقع ہو جائے اور قابل تنبیہ نہ ہوتو ممکن ہے وہ اسی کام کے کرنے پر مجبور ہوجائے۔
٥ ۔تنبیہ، تنبیہ کرنے والے اور دوسروں کی نسبت پر خاش ایجاد کرتی ہے۔
٦ ۔تنبیہ عام طور پر ایک نامطلوب جواب کو دوسرے نامطلوب جواب کا جانشین بنادیتی ہے، جیسے بد نظمی کی جگہ رونا۔
ا سکینر اس کے بعد تنبیہ کے لئے بہت سی جانشین چیزوں کا ذکر کرتا ہے، جیسے ایسے مقتضیات کی تبدیلی جو نامطلوب رفتار کا باعث ہوتی ہے اور ناموافق رفتار کی نامطلوب رفتار سے تقویت ، آخر میں نتیجہ نکالتا ہے کہ نامطلوب عادات کے ختم کرنے کا بہترین طریقہ انھیں نظرانداز کرنا یا پھرخاموشی (تغافل اسی کے مانند ہے) اسلام کی نظر میں(٢) اگرتربیت نچلے درجوں اور طریقوں سے ممکن ہو تو جسمانی تنبیہ سے استفادہ جائز نہیں ہے اور اس کے علاوہ جسمانی تادیب اور تنبیہ (اس شرط کے ساتھ کہ اس حد میں نہ ہو کہ دیت لازم آجائے تو) جائز ہے انسان کے ولی کے علاوہ کی طرف سے بھی اجازت کے ساتھ ہونا چاہئے۔اس کی مقدار بھی محدود ہے (زیادہ سے زیادہ تین سے دس ضرب تک) فقہاء کے فتاویٰ بھی اسی طرح ہیں۔(٣)
.......................................
١۔ ہرگنھان: روان شناسییاد گیری ص١٣٣۔
٢۔ البتہ تنبیہ کے موضوع پر اسلام کی فقہی نظر کا استخراج (حکم اولیہ اور ثانویہ کی صورت میں) مستقل فرصت کا محتاج ہے۔
٣۔ امام علی رضا ـ: ''التادیب ما بین ثلاث الی عشرةٍ''مستدرک الوسائل ج٣ص٢٤٨۔تحریر الوسیلة ج٢ص ٤٧٧۔
تنبیہ کی نفی پر ا سکینرکے اعتراضات کے بارے میں کلی طور پر کہا جاسکتا ہے:
١۔ بعض ماہرین نفسیات جیسے رین اور ہولز خاص شرائط وحالات کے تحت( جیسے یہ کہ تنبیہ نامطلوب کاموں کے بعد فوراًبلافاصلہ ہو اور اس حد تک ہو کہ انسان کے لئے تکلیف دہ ہو... تنبیہ کو رفتار کی تبدیلی میں موثر جانتے ہیں اور اس سلسلہ میں آزمائشیں بھی کی ہیں۔
٢ ۔تنبیہ کے ہیجان آور نتائج (جیسے خوف یا پرخاش) کہ اسکینز جس کا ذکر کرتا ہے اس صورت میں منفی ہوجائیں گے جبکہ پہلے سے مربی اور تربیت پانے والے کے درمیان صرف ایک عاطفی ررابطہ رہا ہو کہ تنبیہ کی تاثیرکی شرط بھی اس طرح کے رابطہ موجود ہونا ہے۔
حضرت امیرالمومنین ـ کے ایک چاہئے والے نے چوری کی تو حضرت نے اُس کے ہاتھ کو قطع کردیا۔ ''ابن کوائ'' جو کہ خوارج میں سے تھا اس نے موقع غنیمت سمجھتے ہوئے اس سے سوال کیا: کس نے تمھارے ہاتھ کو قطع کردیا ہے؟ اس نے جواب دیا: میرے ہاتھ کو پیغمبروں کے اوصیاء کے سید وسردار، قیامت کے دن سرخرو حضرات کے پیشوا، مومنین کی نسبت سب سے زیادہ حقدار ... نے ابن کواء غصہ میں بولا: وائے ہو تم پر! وہ تمہارے ہاتھ کو قطع کرتے ہیں اور تو ان کی اس طرح مدح و ثنا کرتا ہے؟ اس نے جواب دیا: کیوںتعریف نہ کروں جبکہ ان کی محبت میرے گوشت وخون میں ملی ہوئی ہے، خدا کی قسم میرے انھوں نے ہاتھ کو صرف حق کی خاطر قطع کیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ مجھے آخرت کی سزا سے نجات دیں۔(١)
٣ ۔تنبیہ نا پسند استعدادوں اور صلاحیتوں کے کنٹرول کرنے اور خاموش کرنے کا ذریعہ ہے۔ ان لوگوں کے لئے جن کے بارے میں نرم رویّہ نتیجہ بخش ثابت نہیں ہوتا ہے، صرف ممکن طریقہ یہ ہے کہ ایک توبیخ وسرزنش یا پھر نفسیاتی جھنجھوڑ ان کے اندر ایجاد کریں، بالخصوص اگر تسلط پسند اور طغیان آمیز طبیعت رکھتے ہوں، جس طرح انسان کے جسم میں بدبودار اور کثیف غدود کو قطع کردیتے یا جلادیتے ہیں تاکہ دیگر حصوں تک سرایت نہ کرے۔ ''البرٹ الیس ''ان ماہرین نفسیات میں ہے کہ جواپنے علاج اور مشاورہ میں ناگہانی سرزنش وتوبیخ اور اس کے مانند دوسری چیزوں سے استفادہ کرتا ہے اور ایک جھٹکا دے مشاورہ کے درمیان مراجع کو اپنی طرف متوجہ کر لیتا ہے۔
.......................................
١۔ بحار الانوار ج٤٠ ص٢٨١،٢٨٢۔
اسلام کا سزائی اور جزائی نظام بھی جوکہ خاص جسمانی سزائوں پر مشتمل ہے، اپنے حقوقی پہلوئوں کے علاوہ، تربیتی رخ سے بھی قابل توجہ ہے، کیونکہ انسان کو جرم کی تکرار سے روکتا ہے۔
مذکورہ نکات کے علاوہ تنبیہ کے استعمال میں درج ذیل چیزیں اس کی تربیتی تاثیر میں اضافہ کرتی ہیں:
١۔ہر قسم کی تنبیہ سے پہلے ناپسند عمل کی علت کی شناخت سے مطمئن ہوں، بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مختلف گھریلو اور روحی مسائل ومشکلات کی بنا پر جوکہ ہم پرپوشیدہ ہیں، یہ خطا سرزد ہوگئی ہو، ایسی صورت میں تنبیہ مشکلات اور پیچیدگی کواضافہ کرتی ہے۔
٢ ۔ وہ تنبیہ مؤثر ہے جو جذبۂ انتقام اور غیض وغضب کی عنوان سے نہ ہو، اس وجہ سے بے جاسرزنش اور حد سے زیادہ تحقیر وتوہین سے پرہیز کیاجانا چاہئے۔
٣ ۔تنبیہ سنجیدہ اور حسب ضرورت ہو اور میزان خطا سے آگے نہ بڑھ جائے۔ حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''ملامت میں زیادہ روی ضد اور ہٹ دھرمی کی آگ کو بھڑکادیتی ہے''۔(١)
٤۔تنبیہ انسان کی نامطلوب صفت یاعمل سے دقیق رابطہ رکھتی ہو اور اسے تنبیہ کی علت کی نسبت مکمل آگاہی حاصل ہو۔
٥ ۔اگر انسان اپنے عمل سے شرمندہ وپشیمان ہوگیا اور اپنی رفتار سے باز آگیا تو اسے لطف ومہربانی کے ساتھ قبول کرلینا چاہئے۔
.......................................
١۔ ''الافراط فی الملامة یشبّ نار اللجاجة'' (غرر الحکم ،ج١،ص ٨٨)۔