اسلامی ا خلاق
 
دوسری فصل: ا سلا م میں ا خلا قی تر بیت کے طر یقے


1۔ عقلانی قوت کی تربیت
(اقدار اور موعظہ کی دعوت)گذشتہ روش کے برعکس کہ عام طور پر انسان کے عاطفی پہلو پر تاکیدکرتی ہے، اس روش میں بنیادی تاکید انسان کے شناختی، معرفتی اور ادراکی پہلو پر ہے، جس طرح عاطفی محرّک رفتار کے اصول ومبادی میںشمار ہوتا ہے، فائدہ کا تصور وتصدیق بھی شناخت کیاصول ںومبادی میں سے ہے کہ یہ روش اس کی ضرورت پوری کرنے کی ذمہ دار ہے۔
قرآن کریم اور معصومین علیہم السلام کے ارشادات وتعلیمات اس روش اور طریقے پرتاکید کرتے ہیں، اور اس کے حدود، موانع اور مقتضیات کو بیان کرتے ہیں۔
قرآن نے تعقل، تفقہ، تدبر، لبّ، حجر، نہیٰ، حکمت، علم وفہم جیسے الفاظ کا استعمال (ان ظریف تفاوت کے لحاظ سے بھی جو ان کے درمیان پائے جاتے ہیں) کا اس روش سے استفادہ کے لئے کیا ہے۔ قرآنی آیات مندرجہ باتوں کے ذریعہ اپنے مخاطبین کی معرفت اور عقثلانی قوت کی پرورش کرتی ہے:
استفہام تقریری یا تاکیدی کے ذریعہ سے (١) گذشتہ افراد یا اکثریت کی اندھی تقلیداورپیروی کرنے کی ممانعت ہے، (٢) ان لوگوں کی مذمت جوتعقل نہیں رکھتے، (٣) ان لوگوں کی مذمت جوبغیر دلیل کے کسی چیز کو قبول کرلیتے ہیں، (٤) تعقل وتدبرکی دعوت، (٥) موازنہ اور تنظیر، (٦) احسن انتخاب پرترغیب وبشارت (٧) وغیرہ۔
.......................................
١۔ سورہ ٔبقرہ، آیت٤٤۔سورہ ٔقیامت، آیت٢۔
٢۔ سورہ ٔزخرف، آیت٢٢۔٢٣۔٢٤ اور سورہ ٔانعام، آیت١١٦۔
٣۔ سورہ ٔانفال، آیت٢٢۔
٤۔ سورہ ٔانعام، آیت١١٦۔ سورہ ٔزخرف، آیت٢٠۔
٥۔ سورہ ٔیوسف، آیت ١٠٥۔
٦۔ سورہ ٔزمر، آیت٩، سورہ ٔرعد، آیت ١٦ اور سورہ ٔنحل، آیت٧٦۔
٧۔ سورہ ٔزمر، آیت ١٨۔
روایات بالخصوص اصول کافی کی کتاب عقل وجہل اور دیگرروائی ماخذمیں بھی عقل وتعقل کو عظیم مرتبہ کا حامل قرار دیا گیاہے اورانسان کے اخلاقی تربیت سے متعلق خاص طورپر اس کے نقش وکردارکو موردتوجہ قراردیا گیا ہے۔ (١)
علمائے اخلاق کی تربیتی روش میں بھی ان کی اصلاحی تدبیروں راہنمائیوں کا ایک قابل توجہ حصہ انسان کی شناختی پہلوسے متعلق ہے ،جیسے انسان کے ذہنی تصورات کی ایجاد یا تصحیح خود عمل یا اخلاقی صفت سے، اعمال کے دنیوی اور اخروی عواقب و نتائج کی ترسیم، اخلاقی امور کے بُرے یا اچھے لوازم اور ملزومات ان کے اخلاقی نظریہ میں بھی، غضب اور شہوت کی قوتوں پر عقلانی قوت کے غلبہ کواخلاقی رذائل سے انسان کی نجات اور اخلاقی فضائل کی طرف حرکت کا سبب ہے، اس لئے کہ قوۂ عقل کے غلبہ سے تمام قوتوں کے درمیان اعتدال پیدا ہوتا ہے اور فضیلت کا معیار بھی اعتدال۔ تفکر وتعقل کے وہ موارد جو اخلاقی تربیت میںموثر ہوسکتے ہیں، آیات وروایات میں ان کا تعارف کرایاگیا ہے:

١۔ طبیعت:
''زمین وآسمان میں کتنی زیادہ علامتیں اور نشانیاں ہیں کہ جن پر سے لوگ گذرتے ہیںاس حال میں کہ اُن سے روگرداں ہوتے ہیں''۔(٢)

٢۔تاریخ:
حضرت علی ـ فرماتے ہیں:
''حضرت اسماعیل کے فرزندوں، اسحاق کے فرزندوںاور یعقوب کے فرزندوں سے عبرت حاصل کرو، کس قدر ملتوں کے حالات آپس میں مشابہ اور ان کے افعال وصفات ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ اُن کے پراگندہ اور متفرق ہونے کے بارے میں غور کرو، جس وقت روم وفارس کے بادشاہ اُن کے ارباب بن گئے تھے (٣) ... میرے بیٹے! یہ سچ ہے کہ میں نے اپنے گذشتہ افراد کی عمر کے برابر زندگی نہیں پائی ہے، لیکن اُن کے کردار میں غور وفکر کیا ہے، ان کے اخبار کے بارے میں تفکر کیا ہے اور ان کے آثار میں سیر وسیاحت کی ہے کہ ان میں سے ایک کے مانند ہوگیا، بلکہ گویا جو کچھ ان کی تاریخ سے مجھ تک پہنچا ہے ان سب کے ساتھ میں اول سے آخر تک ہمراہ تھا''۔(٤)
.......................................
١۔ اصول کافی، ج١، باب جنود عقل وجنود جہل۔
٢۔ سورہ ٔیوسف، آیت١٠٥۔
٣۔ نہج البلاغہ، خطبہ قاصعہ، ١٩٢۔
٤۔ نہج البلاغہ، مکتوب ٣١۔

٣۔قرآن:
''آیا قرآنی آیات میں غور وفکر نہیں کرتے؟ یا (یہ کہ) ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں''۔ (١)

٤۔انسان:
حضرت امام حسین ـ کی دعائے عرفہ کے پہلے فقرات سے اور توحید مفضل(بحار، ج٣) سے مفید اور کار آمد نکات معلوم ہوتے ہیں:
اخلاقی قواعد کا اثبات اور تزکیہ باطن عام طور پر بغیر عقلانی قوت کی تربیت کے ممکن نہیں ہے، یہ روش خود سازی اور دوسروں کی تربیت سے وجود میں آسکتی ہے شناخت و معرفت کے ماہرین نفسیات بالخصوص ''پیاژہ'' اس روش کی بہت زیادہ تاکید کرتا ہے وہ اخلاقی نمونوں تک رسائی کو ''قابل تعمیر'' اور فعّال وخود سازی روش جانتا ہے نیز معتقد ہے کہ اخلاقی تحول وانقلاب شناخت کے رشد وتحول کے بغیرممکن نہیں ہے:
یہاں پر ایک قسم کی عجیب وحیرت انگیز ہماہنگی، اخلاقی وعقلانی تربیت میں پائی جاتی ہے جسے یوں ذکر کیاجاتا ہے کہ آیا جو کچھ تربیت خارج سے انسان کو دیتی ہے تاکہ اس کے اکتسابی یا فردی ادراک کو بے نیازاور مکمل کرے، سادہ قواعد اور حاضر آمادہ معراف میں محدود منحصر ہوسکتا ہے ؟ ایسی صورت میں آیا مراد یہ نہیں ہے کہ (صرف) کچھ تکالیف ایک طرح کی اور حس اطاعت انسان پر لازم کی جائے... یایہ کہ اخلاقی تربیت سے استفادہ کا حق عقلی تربیت حق کے مانند یہ ہے کہ انسان حق رکھتا ہو کہ عقل واخلاق کو اپنے اندر واقعاً جگہ دے یا کم ازکم ان کے فراہم کرنے اور ان کی تعمیر میں شریک اور سہیم ہو، تاکہ اس مشارکت کے نتیجہ میں وہ تمام افراد جو ایک دوسرے کے معاون اور مددگار ہیں، ان کی تعمیر پر مجبور ہوجائیں۔ لہٰذا اخلاقی تربیت کی راہ میں، ''خود رہبری'' کا مسئلہ عقلی خود سازی کے مقابلہ میں ان افراد کے درمیان جو اس کی تلاش میں ہیں ذکرکیا جاتا ہے۔(٢)
جو طریقے اس روش کے تحقق میں استعمال کئے جاسکتے ہیں درج ذیل ہیں:

الف ۔افکار کی عطا اور اصلاح:
اخلاقی اعمال فکر کی دوقسموں سے وجود میں آتے ہیں:
پہلی قسم :
انسان کا اپنی ھستی کے بارے میں آگاہ ہونا، دنیا، نظام عالم، مبدأ اور معادکی نسبت وہ کلی یقین ومعتقدات ہیں کہ انھیں خداشناسی اور فلسفہ حیات کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ واضح ہے کہ انسان کی نگاہ اپنے اطراف کے عالم پر اُس کی اخلاقی رفتار میںموثر ہے۔ اعتقادات جیسے خدا کی قدرت کااحاطہ اور حضور عالم کا توحیدی انسجام یا نظام تقدیر، خدا پر توکل، تمام امور کا اس کے حوالہ کرنا، تسلیم ورضا وغیرہ سارے کے سارے ہمارے اخلاقی رفتار میں ظاہر ہوتے ہیں۔
.......................................
١۔ (اَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرآنَ اَمْ عَلیٰ قُلُوبٍ اَقْفَالُہَا۔)(سورہ ٔمحمد، آیت٢٤)
٢۔ پیاژہ: تربیت رہ بہ کجا می سپرد، ص٥٣۔
آج کل سلامتی کے ماہرین نفسیات اس نکتہ کی طرف توجہ رکھتے ہیں کہ خدا شناسی اور انسجام عالم کی حس کی نسبت، انسان کی مقاومت کے لئے ایک ایسا مرکز فراہم کرتی ہے کہ جو اخلاقی متانت کہ انسان کی سلامتی کے لئے عالم کو دبائو میں ڈالنے والے حوادث کے مقابل تاثیر گذار ہے۔
انسجام کی حس ایک مقابلہ کا مأخذ ہے، حس انسجام (دنیا کے نظم وضبط میں تنظیم ویگانگی کا احساس کرنا) ایک قسم کی خداشناسی ہے کہ جس سے مراد مندرجہ امور کی نسبت دائمی اور مستمرّ اطمینان کے احساس ہے:
١۔ ایسے محرک جو انسان کی پوری زندگی میں باطنی اور بیرونی ماحول سے پیدا ہوتے ہیں، تشکیل شدہ منظم، پیشین گوئی کے قابل اور قابل توجیہ ہیں۔
٢۔انسان ان ضرورتوں سے روبرو ہونے کے لئے کہ جن کو ان محرکات نے ایجاد کیا ہے، کچھ وسائل ماخذ رکھتا ہے؟
٣۔یہ ضرورتیں، ایسی کوششیں ہیں جو سرمایہ گذاری اور وقت صرف کے لائق ہیں۔ یہ لوگ دنیا کو قابل درک اور قابو میں کرنے کے لائق جانتے ہیں اور زندگی کے واقعات وحوادث کو بامعنی محسوس کرتے ہیں۔(١)

دوسری قسم :
ایسے افکار ہیں کہ جو عمل کی اصلاح اورصحت سے متعلق ہیں اور یہ کہ یہ خاص رفتار عمل کرنے والے کے ہدف سے یگانگت رکھتی ہے۔اور حقیقت میں اطلاعات دینے کے ایک طریقہ سے مربوط ہے۔
البرٹ الیس شناخت سے متعلق ماہرنفسیات ہے کہ جو اپنی نجاتی روش کے سلسلہ میں عقلی اور عاطفی علاج سے استفادہ کرتا ہے اُس نے غیر عقلی تفکر کے نمونے پیش کرنے کے شاتھ اُس کا علاج جدید آمادگی اور جدید افکار ومعتقدات کو اُن کا جاگزین کیا جانا ہے کبھی غیر اخلاقی رفتار یانامطلوب صفات غلط نظریہ اور خیال کا نتیجہ ہوتے ہیں کہ جو دھیرے دھیرے انسان کے فکری نمونے بن جاتے ہیں اورایسے نظریوں کا تبدیل ہونا اخلاقی تربیت کے لئے ضروری ہے، غیر عقلی (غیر معقول) تفکر کے بعض نمونے ہر طرح کی اخلاقی رفتار کی تبدیلی سے مانع ہوسکتے ہیں، الیس ان موارد کو اس طرح بیان کرتا ہے:
١۔انسان اس طرح فرض کرے کہ اُن افراد کی جانب سے جو اس سے متعلق اور اُس کے لئے اہم ہیں مورد تائید، اور لائق محبت و احترام واقع ہو۔
.......................................
١۔ Psyhology Health/.p327
٢۔جب بھی انسان سے کوئی لغزش ہوجائے تو اس کے لئے صرف اتنا اہم ہے کہ وہ مقصّر کا سراغ لگائے اور اسے سزا دے۔
٣۔اگر مسائل اس کی مراد کے مطابق نہ ہوں تو اُس کے لئے حادثہ آمیز چیز ہوگی۔
٤۔سب سے زیادہ آسان یہ ہے کہ انسان مشکلات اور ذمہ داریوں سے فرار کرے، نہ کہ اُن کا سامنا کرے۔

ب۔ ا خلاقی استدلال:
پیاژہ اور کلبرگ نے اس روش سے استفادہ کیا ہے اس طرح سے کہ داستانوں کو بچوں کے شناختی تحوّل وانقلاب کی میزان کے مطابق اس طرح بیان کرتے تھے کہ ان کے ضمن میں داستان کا ہیرو اخلاقی دوراہہ پر کھڑا ہے اوریہاں پر داستان کے مخاطب کو چاہئے کہ جو استدلات وہ بیان کرتا ہے ان سے اپنی اخلاقی قضاوت کااستخراج کرے مربی جزئی دخالتوں سے اس اخلاقی بحران کی بحث چھیڑے ( البتہ ان سے آگے قدم نہ بڑھائے یا کوئی استدلال پیش نہ کرے) اور صرف بالواسطہ ہدایت کرے اور ان کے استدلات کو صاف وشفاف کرے۔ یہ استدلات تربیت پانے والے کے ذہن میں نقش چھوڑتے ہیں اور اُسے انجانے طریقہ سے اس کی اخلاقی رفتار میں ہدایت کرتے ہیں۔
اخلاقی استدلال بلاواسطہ اورخود عمل پر بھی ناظر ہوسکتے ہیں؛ یعنی انسان کا روبرو ہونا اپنے اعمال کے نتائج کے ساتھ۔ علمائے اخلاق کی روش میں بھی اس طرح کے اقدامات پائے جاتے ہیں: عمل کے نتائج و آثار روش سے واضح انداز میں انسان کے لئے مجسّم ہوتے ہیں اور مخاطب کو یقین حاصل ہوتا ہے کہ یہ عمل اس طرح کے نتائج وآثار کا حامل ہے، درحقیقت ہم اس کے لئے موقعیت کی توصیف کرتے ہیں ( بغیر اس کے کہ اُس میں امرو نہی درکار ہو) اوریہ خود انسان ہے کہ جو ان نتائج کو درک کرکے انتخاب کرتا ہے اور اس کے عمل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے قرآنی آیات کبھی عمل کے ملکوتی کو مجسّم کرکے اس روش اور اسلوب سے استفادہ کرتی ہیں:
''اے صاحبان ایمان !... تم میں سے بعض بعض کی غیبت نہ کرے آیا تم میں سے کوئی چاہتاہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ یقیناً اُسے ناپسند کروگے (لہٰذا) بے شک خدا سے ڈرو کہ خدا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے''۔(١)
.......................................
١۔ سورہ ٔحجرات، آیت ١٢۔
کبھی اعمال کے دنیوی یا اخروی نتائج کی منظر کشی کرکے افراد کو ان کے عواقب سے آشنا کرتا ہے:
''ایک دوسرے سے مجرموں کے بارے میں سوال کریں گے : ''کس چیز نے تمہیں سقر (کی آگ) میں جھونک دیا ہے؟ '' وہ کہیں گے : ''ہم نمازگذاروں میں سے نہیں تھے، اور مسکینوں اور بے نوائوں کو ہم کھانا نہیں دیتے تھے...''(١)

ج۔ مطالعہ اور اطلاعات کی تصحیح:
مطالعہ لغت میںان معانی میں استعمال ہوتا ہے: کسی چیز کے معلوم کرنے کے لئے اُس کو دیکھنا ، کسی کتاب یا کسی نوشتہ کا پڑھنا اور اس کا سمجھنا.......۔
آخری سالوں میں اطلاعات فراہم کرنے والوں کے اقدام نے بہت سے ماہرین نفسیات کی توجہ اپنی طرف جلب کرلی ہے(٢) کیونکہ جو اطلاعات انسان کے ذہنی سسٹم میں وارد ہوتی ہیں، وہ انسانی رفتار کو جہت دینے میں ایک اہم اور قابل تعیین کردار ادا کرتی ہیں۔ البتہ اطلاع کی فراہمی کا اندازبھی اہم ہوتا ہے کہ افکار کی عطا کی بحث میں ان کی طرف اشارہ ہواہے۔ بِک ]Beck[منجملہ ان کے ماہریں نفسیات میں سے ہے کہ جو اسی طریقۂ عمل سے افسردگی کی بیماریوں کا علاج کرتا ہے۔ اخلاقی بیماریوں کا علاج کرنے یا کلی طور پر صحیح اخلاقی تربیت یا فضائل اخلاقی کی ر اہ پیدا کرنے میں اسی طرز واسلوب سے مدد لے سکتے ہیں، یعنی اخلاقی مشکلات کے سلسلہ میں علم اخلاق کی مناسب کتابوں کا مطالعہ اور جدید اطلاعات کے حصول سے انسان اپنے عمل کے اسباب وعوامل کو پہچان لیتا ہے اور اس میں تبدیلی یااصلاح انجام دیتا ہے اور بالواسطہ طور پر اخلاقی تربیت کا باعث ہوتاہے۔ کبھی اس کی سابق اطلاعات سے متعارض اطلاعات اُسے غور وفکر اور فیصلہ کرنے نیز تجدید نظر کرنے کی دعوت دیتی ہیں۔

د ۔مشورت ومشاورہ:
اس سے مراد مربی اور تربیت دیئے جانے والے یاوالدین اور فرزندوں کے درمیان ایک طرح کا معاملاتی رابطہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی مدد اور حمایت سے مسئلہ کا تجزیہ وتحلیل کریں اور اخلاقی مسائل میں ایک مشترک راہ حل تک رسائی حاصل کریں۔ یہ طرز تربیت پانے والی شخصیت کے احترام واکرام
.......................................
١۔ سورہ ٔمدثر، آیت ٤٠تا ٤٤۔
٢۔ روان شناسی رشد بانگرش بہ منابع اسلامی، ج٢، ص٦٢٦۔
کے علاوہ اخلاقی تربیت کے اعتبار سے رشد عقلی کا باعث ہوتا ہے:
''مَنْ شَاوَرَ ذَوِی الْعُقُوْل اسْتَضَاء بانوار العقول ''(١)
''جو انسان صاحبان عقل وہوش سے مشورہ کرے، وہ ان کے نور عقل وخرد سے استفادہ کرتا ہے''۔
اسلامی روایات، مشورہ کو رشد وہدایت کا ذریعہ سمجھتی ہیں اور شایستہ افراد سے مشورہ کرنے کی زیادہ سے زیادہ تاکید کرتی ہیں:
''دوسروں سے مشورہ کرنا ہدایت کا چشمہ ہے اور جوکوئی خود کو دوسروں کے مشورہ سے بے نیاز تصور کرے تو اُس نے اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال دیا ہے''۔(٢)
اس روش میں تربیت پانے والے کا مقصد عقلانی توانائی کا حصول اور اخلاقی مسائل میں فیصلہ کرنا ہے، یعنی مشورت کے ذریعہ اسے آمادہ کریں کہ ''خود رہبری'' اور ''فعّال'' کی روش کو ہدایت کے ساکنین کو اخلاقی تربیت کی راہ میں لے آئے اور اپنی اخلاقی مشکل کو حل کرسکے، مشورہ میں پہلا قدم مراجع (تربیت دیا جانے والا) نہیں اٹھاتا؛ بلکہ مربی کو اس سے نزدیک ہونا چاہئے اور رابطہ ایجاد کرکے یا کبھی مسائل میں اُس سے راہ حل طلب کرکے، اُسے اپنے آپ سے مشورت سے کرنے کی تشویق کرنی چاہئے۔(٣)

2-۔ عبرت حاصل کرنے کے طریقے
کلمہ ''عبر'' ایک حال سے دوسرے حال میں گذرنے اور عبور کرنے کو کہتے ہیں اوراعتبار (عبرت آموزی) ایک ایسی حالت ہے کہ مشہور چیز دیکھنے اورجوکچھ اس کے نزدیک حاضر ہونے سے ایک نامشہود پیغام تک رسائی حاصل کرلیں لہٰذا اس روش سے مراد یہ ہے کہ انسان کے اندر امور وحوادث کے دقیق مشاہدہ اور اس میں غور وخوض کرنے سے باطنی تبدیلی حاصل ہوجاتی ہے کہ اس انفعال نفسانی کی حالت کے نتیجہ میں، اُس حادثہ کی گہرائی میں موجود پیغام کو قبول کرنے کے لئے آما دہ ہوجائے، عینی مشا ہدہ وہ بھی نزدیک سے انسان میں ایسا اثر کرتا ہے کہ سننا اوردوسروں کا بیان کرنا اتنا اثر نہیں رکھتا۔
.......................................
١۔ غرر الحکم ودرر الکلمج٥ص٣٣٦ش ٨٦٣٤۔
٢۔ الاستشارة عین الہدایة وقد خاطر من استغنی برایہ نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج١٩ص٣١۔
٣۔ اسلامی تعلیمات مختلف جہات سے مشورت کے مسئلہ پر تاکید کرتی ہیں؛ مزید معلومات کے لئے سید مہدی حسینی کی کتاب ''مشاورہ وراہنمائی درتعلیم وتربیت '' ملاحظہ ہو۔
اس کی دلیل پہلے مشاہدات کا زیادہ سے زیادہ قابل قبول ہونا ہے؛ سنی سنائی چیزوں کے برعکس کہ اُس میں عام طور پرشکوک وشبہات پائے جاتے ہیں۔ برہان عقلی میں یقینیات میں سے ایک مشاہدات یا محسوسات ہیں۔ دوسرے حادثہ کی جانب اس کے جزئیات سمیت توجہ دینا،کے شناختی وعاطفی قالب اور ڈھانچوں کے مطابق دیکھنے والے اس بات کا باعث ہوتا ہے کہ وہ واقعہ بہتر جا گزیں ہو اور انسان کے نفسیاتی قالب میں جگہ پائے۔ البتہ کبھی تاریخی یاداستانی بیانات بیان کرنے والے کی ہنر نمائی کے زیر اثر اس درجہ دقیق ہوتے ہیں کہ گویا سننے والا یاپڑھنے والاخود اس حادثہ کے اندر اپنے موجود محسوس کرتاہے ۔ نمائشی ہنر میں جیسے فیلم وغیرہ میں اس طرح کا امکان پایاجاتا ہے۔ قرآن وروایات میں عبرت آموزی کا طریقہ کثرت سے استعمال کیا گیا ہے، عبرت آموزی کے طریقے درج ذیل ہیں:

الف۔گذشتگان کے آثار کا مشاہدہ :
تاریخ کے صفحات ایسے لوگوں کے وجود سے بھرے پڑے ہیں جنھوں نے خطا کے بار کو کاندھے پر اٹھایا اور غیر صحیح راہ پر گامزن ہوگئے ہیں، گذشتگان کے باقی ماندہ آثار میں غور وفکر کرنے سے ہمیں تعلیم کرناپڑتا ہے کہ ہر گناہ وخطا سے کنارہ کشی کے لئے لازم نہیں ہے کہ خود تجربہ کریں اور اس کی سزا اور انجام دیکھیں۔ تاریخی عمارتیں، میوزیم، کھنڈر، دفینے وغیرہ ان انسانوں کی علامتیں ہیں جنھوں نے انھیں وجود بخشا ہے۔ قرآن ہمیں ان کی جانب سیر وسفر اور گذشگان سے تجربہ حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے:
''آیا ان لوگوں نے زمین میں گردش نہیں کی ہے تاکہ اپنے پہلے والوں کے انجام کا مشاہدہ کریں کہ وہ کس طرح تھا؟ وہ لوگ ان سے زیادہ قوی تھے اور انھوں نے روئے زمین پر زیادہ ثابت اور پائدار آثار چھوڑے ہیں، خدا نے انھیں ان کے گناہوں کے عذاب میں گرفتار کردیا اورخدا کے مقابل ان کا کوئی بچانے والا نہیں تھا''۔ (١)
عمار ساباطی نقل کرتے ہیں:حضرت امیر المومنین علی ـ مدائن آئے اور ایوان کسریٰ میں نازل ہوئے اور ''دلف بن بحیر'' ان کے ہمراہ تھا، آپ نے وہاں نماز پڑھی اور اٹھ گئے.... حضرت کی کے خدمت میں ساباطیوں کا ایک گروہ تھا، آپ نے منازل کسریٰ میں چکر لگایا اور دلف سے فرمایا:
''کسریٰ اس جگہ مقام ومنزلت کا حامل تھا''دلف نے کہا: خدا کی قسم ایسا ہی ہے جیسا آپ فرمارہے ہیں۔
.......................................
١۔ سورہ ٔمومن آیت٢١۔
پھر اس گروہ کے ہمراہ اُن تمام جگہوں پر گئے اور دلف کہہ رہے تھے: ''اے میرے سید وسردارآپ اس جگہ کے بارے میں اس طرح آگاہ ہیں گویا آپ ہی نے ان چیزوں کویہاں رکھا ہے۔ جب حضرت مدائن کی طرف سے گذرے اور کسریٰ اور اس کی تباہی کے آثار مشاہدہ کئے تو حضرت کی خدمت میں موجود افراد میں سے ایک نے یہ شعرپڑھا:

جرت الریاح علی رسوم دیارہم
فکأنہم کانوا علی میعاد
ان کے گھروں کے مٹے ہوئے نشانات پر ہوائیں چل رہی ہیںپس گویا وہ اپنی وعدہ گاہ پر ہیں۔
حضرت نے فرمایا: تم نے یہ آیات کیوں نہیں پڑھیں؟
واہ! انھوں نے کیسے کیسے باغات اور بہتے چشمے چھوڑے ہیں، کھیتیاں اور عمدہ مکانات چھوڑ گئے ہیں اور وہ نعمتوں میں مزے اڑا رہے ہیں، (ہاں) ایساہی تھا اور ہم نے دیگرلوگوں کو ان کی میراث دے دی پھر تو ان پر آسمان وزمین نے گریہ وزاری نہیں کی اور نہ انھیں مہلت دی گئی ۔(١)
اس کے بعد حضرت نے فرمایا: یہ لوگ گذشتگان کے وارث تھے،پس وہ خود بھی آئندہ والوں کے لئے میراث چھوڑکر گئے ، انھوں نے نعمت کا شکر ادا نہیں کیا لہٰذا ناشکری کے زیر اثر اُن سے ساری نعمتیں سلب ہوگئیں، نعمات کی ناشکری سے پرہیز کرو کہ تم پر بلائیں نازل ہوجائیں گی...۔ (٢)
نہج البلاغہ میں اس نکتہ کی طرف زیادہ توجہ دلائی گئی ہے:
''تمہارے لئے گذشتہ امتوں کی سرنوشت میں عبرتیں ہیں، عمالقہ اور ان کی اولاد کہاں ہیں؟ فراعنہ اور ان کے اخلاف کہاں ہیں؟ اصحاب رس جنھوں نے پیغمبروں کو قتل کیا ہے کی سنتوں کو پامال کیاہے اور جبّاروں کی رسومات کو باقی رکھا ، کہاں ہیں؟ ۔''(٣)
خداوند متعال فرماتاہے: ''پھر آج تم ]فرعون[ کوتمھارے بدن کے ساتھ بچالیتے ہیں تاکہ ان کے لوگوں کے لئے جو تمہارے بعد آئیں گے، عبرت ہو۔(٤)
.......................................
١۔ سورہ ٔدخان آیات ٢٥، ٢٩۔
٢۔ بحارالانوار ج٧٨ص٩٢۔
٣۔ نہج البلاغہ خطبہ١٨٢۔
٤۔ (فالیوم ننجیک ببدنک لتکون لمن خلفک آیة)(سورہ ٔیونس آیت٩٢ )۔
قبروں کی زیارت اور ان لوگوں کے حالات کے بارے میں غور وفکرجو روئے زمین پر سرکشی اور تکبر کرتے تھے اور آج بغیر حرکت کے اورانتہائی ذلت وخواری کے ساتھ خاک میں دفن ہیں، انسان کو خاضع بلکہ اسے فرمانبردار بنا دیتا ہے، کبرو نخوت کو فروتنی وخاکساری سے تبدیل کردیتا ہے اورآدمی کو یہ فرصت دیتا ہے کہ خود کو درک کرے اور اپنی عاقبت کے بارے میں غور کرے۔
حضرت علی ـ نے آیہ شریفہ: ''کثرت مال واولاد کے باہمی مقابلہ (یا اس پر تفاخر) نے تمہیں غافل بنادیا ہے یہاں تک کہ تم نے قبروں سے ملاقات کرلی'' (١) کی تلاوت کے بعد فرمایا:
''آیا اپنے آباء واجداد کے مقام نزول پر افتخار کرتے ہیں ؟ یہ لوگ فخر وافتخار سے زیادہ عبرت کے سزاوار ہیں اگرچہ اُن کے آثار بینانہیں ہیں اور ان کی زندگی کی داستان ختم ہوچکی ہے، لیکن عبرت آموز نگاہیں ان کی طرف دیکھ رہی ہیں اور عقلمندوں کے گوش شنواآوازوں کودرک کرتے ہیںاور بے زبانی سے ہم سے گفتگو کرتے ہیں...۔(٢)
مربی حضرات معمولی توجہ اور بصیرت و عبرت آموزی کی دعوت سے، ان تفریح گاہوں سے جو تاریخی جگہوں پر برپاہوتی ہیں، اخلاقی اور تربیتی ضرورت کااستفادہ کرسکتے ہیں، گروہی یا فردی مسافرت وسعت نظر اور دل ایجاد کرنے کے علاوہ بہت زیادہ مفید اورعبرت آمیز ہے۔

ب ۔ طبیعت اور موجودات کی طرف نظر:
زمین میں سیر وسیاحت کرنے سے انسان کو عجائب خلقت سے بہرہ مند ہوتا ہے ''اے پیغمبر! آپ کہہ دیجئے! زمین میں گردش کرو پھر موجودات کی وجہ تخلیق کے بارے میں غورو فکر کرو۔ '' قرآن کریم نے موجودات طبیعت سے عبرت حاصل کرنے کو مورد توجہ قراردیاہے:
''چوپائوں کے وجود میں تمہارے لئے عبرت کے (اسباق) ہیںکہ ان کے شکم اندر سے گوبر اور خون کے درمیان سے تمہیں خالص دودھ پلاتے ہیںجو پینے والوں کے لئے انتہائی خوشگوار معلوم ہوتا ہے اور کجھور اورانگور کے پھلوں سے اچھی اور پاکیزہ روزی حاصل کرتے ہو، صاحبان عقل وہوش کے لئے اس میں واضح نشانیاں ہے''۔(٣)
.......................................
١۔ سورہ ٔتکاثر آیت ١، ٢۔
٢۔ بحار الانوار ج٧٧ ص٤٣٠و٤٣٢۔
٣۔ سورہ، نحل آیت ٦٦تا٦٧۔
''خدا شب وروز کو دگرگوں کرتا ہے، اس میں صاحبان بصیرت کے لئے ایک عبرت ہے ''۔(١)
عالم کی حیرت ا نگیز چیزیں، انسان کو خاضع اور خاشع بناتی ہیں، بہت سی گندگیوں کاسرچشمہ اور اخلاقی پستیوں کا منبع ''خود خواہی '' (٢) اور خود بینی وتکبر ہے ، اس وجہ سے اخلاقی تربیت کے اہداف میں ''خود خواہی '' سے دوری اختیار کرنا ہے، پیاژہ کے بقول: ''... اخلاقی تربیت کے دو بنیادی مسئلے یہ ہیں: ''انضباط کا برقرارکرنا'' اور ''خود پسندی سے نکلنا '' (٣)عالم کی عظمت کی اور اس کے عجائب کی طرف ، انسان کو خودی سے باہر نکالتے ہیں اور مکارم اخلاق کے قبول کرنے کے لئے آمادہ کرتے ہیں۔

ج ۔ موجودہ حوادث اور واقعات کی جانب توجہ:
ہم اپنے زمانے میں زندگی گزارتے ہیں اور قبل اس کے کہ تاریخ کے سینہ میں حوادث اور واقعات دفن ہوجائیں ہم اُن سے عبرت حاصل کرسکتے ہیں حضرت امیر المومنین علی ـ فرماتے ہیں: ''میں اپنے قول کا خود ذمہ دار اور اس کی صحت کا ضامن ہوں، جو شخص بھی زمانے کے ناگوار حوادث سے عبرت حاصل کرے، شبہات میں مبتلا ہونے کے وقت تقویٰ اس کی حفاظت کرے گا''۔(٤)
اپنے بارے میں ایک سرسری نظر اوران مختلف واقعات کا نظارہ کہ کبھی ہم زمان ہونے کا حجاب ہمیں اُس سے غافل کردیتا ہے، شخصیتوں کی پستی وبلندی اور ان کی ظاہری عزت وذلت کا گردش زمانہ میں ہمیں پتہ دیتا ہے، عمل کی جزائیں اور پوشیدہ حکمتیں راہ حوادث کے پس پردہ انتہائی نصیحت آموز ہیں اور یہ عینی تجربے عبرت کے قیمتی ذخیروں میں سے ہیں۔

د۔ گذشتگان کے قصوں میں غور و فکر:
گذشتہ افراد کی داستان زندگی بھی ہمارے لئے عبرت آموز ہوسکتی ہے۔ یہاں پر عبرت حاصل کرنے والا گذشتہ افراد کے آثار کے واقعی میدانوں اور وقت حاضر نہیں ہوتا، لیکن داستان اور اس کے نشیب وفراز میں غور وفکرکے ساتھ ، اس کی خالی فضا میں پرواز کرتا ہے کہ اس کاعبرت آمیز رخ عینی مقامات سے کمتر ہے لیکن اس سے نزدیک ہے۔
.......................................
١۔ سورۂ نورآیت ٤٤۔
٢۔ من رضی عن نفسہ ظہرت علیہ المعایب، ما اضرّالمحاسن کا لعجب۔(غررالحکم ) فصل ٦، ص٣٠٨)۔
٣۔ تربیت رہ بہ کجا می سپرد، ص٩٣۔
٤۔ نہج البلاغہ خطبہ ١٦۔
قرآن حضرت یوسف کی داستان نقل کرتے ہوئے فرماتاہے: ''ان کی داستانوں میں صاحبان عقل کے لئے درس عبرت ہے''۔(١)
یا غزوہ نضیر کے واقعات نقل کرنے کے بعد فرماتاہے: ''پس اے صاحبان بصیرت عبرت حاصل کرو''۔(٢)
ایک دوسرے جگہ پر جنگ بدر کے اہم واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہمیں عبرت حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے: ''یقیناً اس ماجرہ میں صاحبان بصیرت کے لئے ایک عبرت ہے ''۔(٣)
قرآنی آیات اور روایات کے طرز تربیت میں جو کہ عبرت آموز ی کی تاکید کرتی ہیں، دونکتے قابل توجہ ہیں:
١۔ عبرت حاصل کرنا ایک (٤) دور اندیش عقل (٥)اور بیدار دل(٦) رکھنے کا مستلزم ہے۔
اسی لئے یہ روش عقلانی قوت کی روش کی پرورش کے بعد ذکر ہوئی ہے، یعنی عام طور پر عقلانی عمیق نظر کے بغیر عبرت آموزی ممکن نہیں ہے۔ اسی لئیحضرت امیر المومنین علی ـ نے مکرر فرمایا ہے: ''عبرتیں کتنی زیادہ ہیں اور عبرت حاصل کرنے والے کتنے کم ہیں''۔(٧)
٢۔ دوسرے یہ کہ آیات وروایات کی روشنی میں عبرت کے لئے ان صفات کا ہونا ضروری ہے:
عصمت وپاکدامنی، دنیا سے کنارہ کشی، لغزش وخطا کی کمی ، اپنی معرفت ، طمع وآرزو کا کم ہونا، فہم ودرک اور تقویٰ۔(٨)
.......................................
١۔ سورہ ٔیوسف آیت ١١١۔
٢۔ سورہ ٔحشر آیت٢۔
٣۔ سورہ ٔآل عمران، آیت١٣۔
٤۔(ان فی ذلک لعبرة لاولی الابصار)سورہ ٔآل عمران، آیت١٣۔
٥۔ ( لقد کان فی قصصہم عبرة لاولی الالباب)سورہ ٔیوسفآیت١١١۔
٦۔(ان فی ذلک لعبرة لمن یخشی) سورہ ٔنازعات، آیت ٢٦۔
٧۔ نہج البلاغہ خطبہ ٢٩٧۔
٨۔ میزان الحکمة ج٦ص٣٨تا ٣٩۔