تیسرا باب : اسلام کی نظر میں اخلا قی تر بیت
پہلی فصل :اسلام میں اخلا قی تر بیت کے طر یقے
مقدمہ: اخلاق اسلامی کے اصول اور مفاہیم سے آشنائی کے بعد یہ بات مناسب ہے کہ اپنے آپ سے سوال کریں '' نا مطلوب موجود '' کی حالت کو کس طرح '' ناموجود مطلوب '' سے تبدیل کیا جا سکتا ہے ؟ واضح عبارت میں اخلاقی تربیت کے طریقے کیا ہیں ؟
تربیتی طریقے، کبھی خود تربیتی اپنے ( لئے تربیتی) ہیں تو دیگر تربیتی کبھی دوسرے کے( لئے تربیتی) ہیں، کبھی قولی ہیں تو کبھی عملی، کبھی سلبی ( روکنے والے ) ہیں اور کبھی ایجابی (اصلاحی )، کبھی عام( یعنی تمام سن کے مراحل کے لئے ) ہیں اور کبھی خاص۔ رفتار کے مبادی (١) کے پیش نظر ان اخلاقی تربیت کی روشوں کو جو رفتار یا اس کے مبادی یعنی ابتدائی مرحلوں سے تعلق رکھتی ہیں، تین چیزوں: شناخت، سبب اور رفتار کے اعتبار سے مورد توجہ قرار دیں گے اور تفصیل سے آئندہ مباحث کے ضمن میں ان کے بارے میں گفتگو کریں گے۔ چونکہ علوم تربیتی کی اصطلاحا ت (منجملہ اصول، روشیں، اہداف و مقاصد وغیرہ وغیرہ ) کی دقیق تعریف محل اختلا ف ہے اور ان کے سلسلہ میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں لہٰذا یہاںپر اس کتاب میں مورد نظر تعریف کی طرف اشارہ کریں گے۔ ''روش'' (طریقہ) سے مراد وہ کلی قوانین ہیں کہ ہر ایک جدا گانہ طور پر یا دوسری روشوں کی مدد سے مقصد تک پہنچانے کی خصوصیت کی حامل ہیں۔ ہر روش کے تحقق کیلئے ممکن ہے کہ ہر ایک کے لئے مختلف اسلوب اور متعدد فنون پائے جاتے ہوں جو روشوں کی نسبت جزئی تر قوانین کا مقصود ہیں۔
.......................................
١۔گذشتہ علماء کے نظریات کے مطابق مبادی رفتار اس طرح ہیں: فائدہ کا تصوّر، اس کی تصدیق، شوق موکد۔ معاصر ماہرین نفسیات نے اس سے مشابہ ایک دوسری ترکیب پیش کی ہے ؛ وہ اس طرح ہے: شناخت، باعث اور عملی توانائی۔
روشوں کے بیان میں ایک عقلی ترتیب پائی جاتی ہے کہ آسان تر دیگر تربیتی روشوں سے شروع ہوتی ہے اور مشکل تر خود تربیتی روشوں پر ختم ہوتی ہے۔ یہ عقلی ترتیب انسان کے اخلاقی اور نفسیاتی رشد سے بھی منطبق ہے اور اسلام کی تربیتی تعلیمات سے بھی ہم آہنگ ہے۔
ہر روش کو اس کی تعریف اور توضیح سے شروع ہے اور بعد کے مرحلہ میں آیات وروایات سے استفادہ کرتے ہوئے اس کا استناد اسلام سے ثابت کیا گیاہے پھراس کے بعد ( یا اس کے ضمن میں ) نفسیات کے علمی مطالعہ سے استفادہ کرتے ہوئے روش کی توضیح وتکمیل کی گئی ہے، یعنی نفسیات میں کون سے نظری اصول ومبانی کے ذریعہ اس روش کا دفاع کرسکتے ہیں اور اخلاقی تربیت میں اس کی تاثیر ثابت کی جاسکتی ہے، یہاں پر نفسیات کے اہم ترین نظریوں کے متعلق جو کہ تربیت اخلاقی سے مربوط ہیں بحث کی جارہی ہے۔
طریقے
١۔ تربیت کے لئے مناسب ماحول بنانا
انسان کی تکوین اور تغییر کا اہم ترین عامل مختلف ما حول کے حالات ہیں خواہ وہ زمانی یا مکانی یا اجتماعی ماحول ہو۔ بہت سے مقامات میں ماحول کی ترمیم واصلاح سے تربیت کے لئے مساعد اورسازگار ماحول فراہم کرکے جس کی تربیت کی جاتی ہے اس کی عادتوں، خصلتوں، افکار اور رفتار کو بدلا جا سکتا ہے اور جدیدخصوصیات کو اس کا جاگزین بنایا جا سکتا ہے، اس روش کی نفسیاتی بنیاد اس ماحول کے حالات سے انسان کے متاثر ہونے کی اصل ہے جو ماحول سازی ( بعض رفتار کی ہمراہی اور ہمنوائی بعض دیگر کے ساتھ ان کے ثابت کرنے کا باعث ہوتی ہے)، فعّال وکردار ساز ماحول سازی ( ایک ماحول میں خاص طرز عمل ورفتار پر جزا دی جاتی ہے ) یا اجتماعی تعلّم وتربیت ( رفتارکے مشاہدہ سے خاص نمونوں کی پیروی) کے نظریات کے بیان ہوتی ہے ضمن میں یہ روش خاص طور سے دوسروں کے ذریعہ اور انسان کے اولیاء کے ذریعہ بروئے کار لائی جاتی ہے، لیکن انسان خود بھی کسی حد تک موثر ہوسکتا ہے، اس روش کو وجود میں لانے کے جو طریقے لازم ہیں وہ ترتیب وار یہ ہیں:
مقدمہ سازی، نمونہ سازی، ماحول کو صحیح و سالم بنانا اور حیثیت اور ماحول کو بدلنا۔
الف۔ مقدمہ سازی:
اس سے مراد یہ ہے کہ مناسب ماحول فراہم کرکے اخلاقی فضائل کے وجود میں آنے کا امکان اعلی حد تک فراہم کریں اور اس کے برعکس ایسے مقدّمات جو کہ منفی رخ رکھتے ہیں اور اخلاقی رذائل پیدا کرسکتے ہیں، ان کے وجود ہیں آنے کی روک تھام کریں، اس حصہ میں اسلام کی ہدایات قابل توجہ ہیں۔
ایک۔زوج یا زوجہ کے انتخاب میں کہ جو خاندان کا ایک رکن ہے، اس کے اخلاقی فضائل پر توجہ دینی چاہیے، انظر فی ای شی تضع ولدک فان العرق دساس(١) اس کے مقابل ایسے افراد جو غیر شائستہ گھرانے کے پروردہ ہیں، یاکم عقل اور احمق ہیں تو ایسے لوگوں سے شادی بیاہ کرنے سے اجتناب کرناچاہیے۔
حضرت امیرا لمومنین علی ـنے جومالک اشتر کو خط لکھا ہے اس میں اس کا رساز عنصر کی اس طرح تصریح فرمائی: ''ضروری ہے کہ اداری امور میں با فضیلت افراد سے استفادہ کرو ، وہی لوگ کہ جو نیک اور شریف خاندان سے ہوں اور اچھے ماضی اور نیک نامی کے ساتھ زندگی گذارچکے ہوں، جو لوگ عقل و ہوش، شجاعت و بہادری کے مالک، سخی اور بلند ہمت ہیں، وہ کرم کامرکز اور نیکی و فضیلت کا سرچشمہ ہیں''۔ (٢)
لہٰذا ایسی اولاد جو شائستہ ماں اور با فضیلت باپ کی حمایت کے زیر سایہ پروان چڑھے ہیں اہم ترین مقدّمہ ساز عنصر ما حول اور تربیت کے لحاظ سے ان کا مددگار ہے۔ (٣)
دو۔ اچھے نام کا انتخاب اولاد کا والدین پر جوحق ہے اور اس کی تاکید کی گئی ہے یہ ہے کہ۔''ہر انسان کی سب سے پہلے نیکی اس کے فرزند کے حق میںاس کا اچھا نام رکھنا ہے لہٰذا تم میں سے ہر ایک کو چا ہیے کہ اپنے فرزندوں کا اچھا نام رکھو''۔ ( اول ما یبر الرجل ولدہ ان یسمیہ باسم حسن فلیحسن احدکم اسم ولدہ)۔ (٤)
نیک اور شائستہ نام تربیتی اور نفسیاتی اثر رکھتا ہے اور انسان کی صلاح و فلاح نیز خوبیوں کو فراہم کرنے کا مقدّمہ ہے یا پھر اسے فرو مائگی اور پستی کی سمت لے جاتا ہے۔ ( الاسم یدل علی المسمی ) ۔
.......................................
١۔ فلسفی، کودک، ج ١، ص ٦٤۔ حسن الاخلاق، برہان کرم الاعراق، افراد کی اخلاقی خصلتیں خاندان کی پاکیزگی اور فضیلت کی دلیل ہیں، غرر الحکم۔
٢۔ نہج البلاغہ، نا مہ ٥٣۔
٣۔ جنٹک کے علاوہ کہ جن کا ذکر فی الحال مقصود نہیںہے۔
٤۔ وسائل الشیعہ: ج ١٥، ص ١٢٢۔
٣۔ محل زندگی کا انتخاب (ملک، شہر یا دیہات، محلہ اور پڑوسی کا انتخاب) بھی مقدّمہ ساز عنا صر میں ہے۔ اسی طرح محل تحصیل، کام کاج، احباب اور معاونین سب ہی ( تربیت کی ) راہ ہموار کر نے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ (١)
ب۔ نمو نہ سازی :
کہا جا سکتا ہے کہ ہر ماحول کو بنا نے والے اس سماج اور ماحول برگزیدہ اور سر بر آور دہ افراد ہی ہوتے ہیں۔ لہٰذ ایک اچھے تر بیتی ماحول کی ایجاد کا ایک طریقہ اس ماحول میں اچھے نمونوں کو وجود میں لانا ہے اور برے نمونوں دور کر نا ہے۔ سماج میں پسندیدہ اور محبوب نمونہ خود بخود اس ماحول میں رہنے والوں کو ان کی طرف کھینچ لا تاہے اور ان کے مکارم اخلاق کو دوسرے لوگ نمونہ بنالیتے ہیں۔
آلبرٹ بنڈورا (١٩٧٨) کہ جو اجتماعی تعلّم کے نظریہ کا واضع ہے۔ تعلّم (سیکھنے) کا سب سے اہم طریقہ مشاہداتی تعلّم کو جانتا ہے کہ وہی تقلید یا نمونہ کا اختیار کرنا ہے انسان ایک نمونہ یا سر مشق کا انتخاب کرکے اس کے عمل کی تقلید کرنے لگتا ہے۔ بنڈ ور ا اس طرح کے تعلّم کو چار مر حلہ میں تو ضیح دتیا ہے: مر حلہ توجہ، حا فظہ کے حوالے کرنا، دوبارہ تخلیق اور سبب ومحرّک۔ ممتا ز صفات، عطو فت ومہر بانی کا بار، پیچید گی، برجستگی اور استعمالی اہمیت نمونہ میں اور حسّی ظرفیت، ابھارنے کی سطح، درک کرنے کی آماد گی اور گزشتہ تقویت مشا ہدہ کر نے والے کے اندر نمونہ شخص کے عمل سے منطبق نتیجۂ عمل کی مدد کرتی ہے۔ (٢)
زندہ نمونوں کے علا وہ جو کہ مساعد اورسازگار تر بتیی ماحول ایجاد کر تے ہیں مر بی حضرات ماضی کے اخلاقی اور انسانی نمونوں کی شناخت کر ا کے انھیں حیات نو عطا کر سکتے ہیں اور بنڈورا کے نظریہ میں مذ کو رہ خصو صیات پر نظر کر تے ہو ئے بار عاطفی، ممتاز حالت، بر جستگی وغیرہ کے اعتبار سے ان کے متعلق تا کید اور سر مایہ گذاری کرسکتے ہیں نمونوں کے دقیق موئثر اور محبوب چہرہ کی ترسیم تربیت پانے والوں کے لئے ان کے ذہن وروح میں حسب ضرورت نمونوں کے فقدان کے خلا کو پر کرسکتی ہے اور وہ تدریجاً ان کے مثل بن سکتے ہیں۔
.......................................
١۔ ہمنشینوں اور دوستوں کی تاثیر کے بارے میں اس کے بعد بحث کریں گے۔
٢۔ روانشناسی پرورشی، ص ٣١٤۔
قرآن کر یم میں اس شیوہ سے بہت زیادہ استفاد ہ کیا گیا ہے، بالخصوص اکثر قرآنی نمونے جو ان اور تا ثیر گذار ہیں۔ یوسف شہوت کے مقا بل قہرمان مقا ومت، کہف کے جوان راہ خدا میں رشد و ہد ایت کیلئے ہجرت کے نمونے، اسماعیل حکم خدا کے سا منے سر اپاتسلیم کی مثال اور ابر اہیم عادت شکن اور بت شکن جوان ہیں۔ قرآن کے جوان نمو نوں کے علا وہ دیگر نمونے بھی پائے جا تے ہیں کہ ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:
دین کی تبلیغ میں نوح پا یداری اور استقامت کا نمو نہ، مصا ئب زمانہ اور شدائد روز گا رپر ایوب صبر وتحمل کا نمونہ، طاغوت سے جنگ ومبازرہ کرنے میں داؤد شجاعت اور شہامت کا نمو نہ وغیر ہ وغیرہ، قرآن ان تما م حضرات کی شان میں فرماتا ہے: ''...... وہ لوگ(خدا کے پیغمبر ) ایسے لوگ ہیں جن کی خدا نے ہدایت کی ہے لہٰذ ان کی ہدایت کا اقتدا کرو''۔(١)
بالآخرہ پیغمبر اکرم ۖ زندگی کے تمام مراحل میں تمام عالمین کے لئے مطلق نمونہ ہیں ، '' لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنہ''(٢) کیو نکہ آپ ''خلق عظیم '' کے ما لک، ''مکارم اخلا ق کا آئینہ '' اور '' رحمة للعالمین '' ہیں۔
ماں باپ اور ان کے بعد اساتذہ اور تربیت کرنے والے بھی تربیت سیکھنے والوںکے لئے پہلا نمونہ ہیں۔ تربیت کا اہم نکتہ یہ ہے کہ اہم موقعیت وحیثیت کے مالک، زیادہ کامیاب، زیادہ علم ودانش یا معنوی بلندی کے مالک اکثر دوسروں کی نظر کو اپنی طرف جلب کرتے ہیں اور ان کے لئے نمونہ بن جاتے ہیں۔
خوش قسمتی سے طالب علموں کی نظر میں عام طور پر اساتذہ اور والدین ان خصوصیات کے یا ان میں سے بعض کے مالک ہوتے ہیں۔ لیکن بہر صورت اس برتری اور برجستگی کا نہ ہونا معنوی، علمی اور اجتماعی شعبوں میں تربیت پانے والوں کوکسی اور سمت لے جاتا ہے۔
حضرت امیر المومنین علی ـ فرماتے ہیں:'' پیغمبر اکرم ۖ ہر روز میرے لئے اپنے مکارم اخلاق میں سے ایک کو بیان کرتے تھے اور مجھے اس کی پیروی کرنے کا حکم دیتے تھے ''۔(٣) حضرت امام موسیٰ کاظم ـ فرماتے ہیں: ''بچے اپنے والدین کی خوبیوںاور صلاحیتوں سے محفوظ ہوتے ہیں ''۔(٤)
.......................................
١۔ اولئک الذین ھدی اللہ فبھد یھم اقتدہ، سورئہ انعام، آیت ٩٠۔
٢۔ سورئہ احزاب، آیت، ٢١۔
٣۔ یرفع لی کل یوم علما من اخلاقہ و یامرنی با لاقتداء بہ ؛نہج البلاغہ، خ ١٩٢۔
٤۔ یحفظ الاطفال بصلاح آبائھم، بحار الانوار ج ٥، ص ١٧٨۔
نمونہ سازی کے طریقہ سے استفادہ کرنے کے سلسلہ میں قرآن کریم نے کم از کم دو اخلاقی اور تربیتی نکتوں کی طرف توجہ دلائی ہے ؛ اول یہ کہ اس نے محبوب اور پسندیدہ افراد کو کلی طور پر نیز عام عنوان سے بیان کیا ہے، جیسے: تائبین، متطہّرین،متّقین، صالحین، صابرین، محسنین اور مجاہدین وغیرہ اور کبھی خاص طور سے اور نا م کے ساتھ (پیغمبروں سے متعلق) بیان کیا ہے، لیکن قابل نفرت ومذمّت افراد کا ذکر قرآن میں استثنائی موارد (جیسے ابو لہب) کے علاوہ کلی عناوین کے تحت ہوا ہے، جیسے: تجاوز کرنے والے، اسراف کرنے والے، خود پسند افراد، کفار، ظالمین اور متکبرین وغیرہ۔ اس وجہ سے ہم کو بھی چاہیے کہ قرآن کریم کی پیروی کرتے ہوئے اسی روش کا انتخاب کریں کہ اخلاقی فضائل کی شناخت کرانے میں کلی عناوین بھی اور صاحبان فضائل کے اسماء بھی بیان کریں، منفی مقامات پر اشخاص کے نام بیان کرنے سے اجتناب کریں۔
دوسرے نمونوں کا انتخاب کرنا ہے، قرآن کریم ایک ساتھ محبوب اور منفور افراد کا ذکر کرکے انسانی سماج کو علم وآگہی کے ساتھ اپنے منظور نظر نمونوں کے انتخاب کی دعوت دیتا ہے، حتیٰ کہ گذشتہ آباء اجداد کے سلسلہ میں بھی آگاہ کرتا ہے کہ بغیر علم و آگہی کے ان کی اندھی تقلید کرکے اپنی زندگی تباہ و برباد نہ کریں۔ ........ انہوں نے کہا: ''ہم نے آباو اجداد کو ایک آئین پر پایا ہے لہٰذا ہم بھی انھیںکا اتباع کرتے ہیں ' اس (پیغمبر) نے کہا ''خواہ جس پر تم نے اپنے آباء واجداد کو پایا ہے اس سے زیادہ ہدایت کرنے والا بھی تمہارے لئے لے آؤں تب بھی ایسا کرو گے''؟ (١) اس وجہ سے ہم پر لازم ہے کہ انسانوں کی آزادی کو باقی رکھتے ہوئے نیز مطلوب نمونوں اور معیاروں کا تعارف کراتے ہوئے تربیت پانے والوں کے لئے آگاہانہ انتخاب کی راہ فراہم کریں۔
ج۔ما حول کوصحیح و سالم رکھنا:
برے اور شر پسند افراد ہر ماحو ل اور سماج میںعام طور پر پائے جاتے ہیں۔ بیشک فاسد اور برے ماحول اخلاقی تربیت کے معاملہ کو دشوار بلکہ بعض اوقات نا ممکن بنا دیتا ہے، اس وجہ سے ماحول کو صحیح وسالم رکھنا کہ جو تقریبا ً امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کے زندہ کرنے کے مساوی فریضہ ہے،سب کے لئے ایک عقلی، انسانی نیز دینی فریضہ ہے۔ اس طرز اور شیوہ سے مراد معاشرے کے تمام افراد کے اندر خوبیوں کی ایجاد اور ان کا احیاء کرنا ہے اور برے امور کو ختم کرنا ہے۔ درج ذیل نکات امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت اور ان کے پہلوئوں کو کہ جو دراصل معاشرہ میں اخلاقی تربیت کو آسان کرنے والے ہیں، زیادہ واضح کرتے ہیں۔
.......................................
١۔ سورئہ زخرف، آیت ٢٣، ٢٤۔
١۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اس نکتہ کو واضح انداز میں اپنے دامن میں رکھتا ہے کہ دعوت ایک شناختہ شدہ شرعی اور عقلی معیار پر ہونی چاہیے۔(١) اس وجہ سے جب بھی بات شرعی واجب یا حرام کی ہوتو چاہیے کہ اس کی ثقافتی پشت پناہی ایجاد کی جائے ا ورایک معروف یامنکر کے عنوان سے اکثر لوگوں کے نزدیک متعار ف ہو۔ ایسے حالات میں امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کو عام مقبولیت حاصل ہو گی۔ بعبارت دیگر امر با لمعروف کی دشواری اور کلی طور پر اس کاقبول نہ ہونے میں مشکل نہیں ہے بلکہ مشکل ان خاص موارد اور مصادیق میں ہے کہ جن کا معروف یا منکر ہونا کافی حد تک مستدل طور سے لوگوں کے لئے واضح نہیں کیاگیا ہے۔
٢۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سب کا فریضہ ہے، لیکن امر و نہی کرنے والے خاص شرائط کے حامل ہوں، منجملہ ان کے امر و نہی کے شرائط کی شناخت (٢) نیز خود معروف اور منکر کی پہچان ضروری ہے، اس کے علاوہ یا د دہانی اور بیان کا طریقہ اس طرح ہو کہ زیادہ سے زیادہ تاثیر کی امید ہو۔
٣۔ امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کے موارد کو وسیع ہونا چاہئے اور خاص مصادیق میں کہ جو اس وقت سماج اور معاشرہ میں زیادہ رایج اور شائع ہے (جیسے بے حجابی) میں محصور نہ ہو۔ اخلاق کے خلاف اعمال جیسے رشوت لینا، تہمت لگانا، غیبت کرنا اور بد گوئی وغیرہ ایک عام ثقافت اور تہذیب کی صورت میں معیّن شدہ نصائح اور نہی عن المنکر کا مورد واقع ہوں، تاکہ مثال کے طور پر بے حجاب یہ خیال نہ کریں کہ نہی عن المنکر ہمیشہ انہیں کے بارے میں ہے۔
د۔ موقعیت کا تبدیل کرنا:
کسی ماحول کے حالات کی قوّت اور اس کی اثر گذاری اس حد تک ہوتی ہے کہ صرف موقعیت اور حالات کے تبدیل کرنے سے اخلاقی تربیت حاصل ہوپاتی ہے۔ اگر چہ ماحول کی تبدیلی بہت زیادہ مالی اخرجات اور نفسیاتی بوجھ کی حامل ہوتی اخراجات ہے، ایک سا ز گار تربیتی ماحول ایجاد کرنے کے لئے آخری طرز کے عنوان سے ضروری ہے۔ ''ہجرت'' منجملہ ان دستورات میں سے ہے کہ جس کی دین میں تاکید ہوئی ہے اور کبھی واجب حد تک پہونچ جاتی ہے۔ قرآن مجید کے بقول جب فرشتے کچھ لوگوں کی روح قبض کرنے آتے ہیں تووہ لوگ ماحول کے ناموافق ہونے کو اپنا عذر بیان کرتے ہیں، لیکن فرشتے کہتے ہیں ''.... کیا خدا کی زمین وسیع نہیںتھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے ....''۔(٣)
.......................................
١۔'' المعروف'' اسم لکل فعل یعرف بالعقل او الشرع حسنہ والمنکر ما ینکر ھما (المفردات ) معروف ہر اس فعل کو کہتے ہیں جسے عقل یا شرع کے ذریعہ نیک جانا جائے اور منکر ہر اس فعل کو کہتے ہیں جسے عقل یا شرع ناپسند کریں۔
٢۔ سورئہ توبہ، آیت ٧١ اور ملاحظہ ہو: المیزان، ج ٣ ، ص ٣٧٣۔
٣۔ الم تکن ارض اللہ واسعة فتھاجروا فیھا۔۔۔ سورئہ نسا ئ، آیت ٩٧۔
جو انسان ایسے گھر یا محلہ میں زندگی بسر کرتا ہے کہ وہاں کے رہنے والے اپنی یا اپنی اولاد کی شائستہ تربیت کے لئے موافق اور ساز گار ماحول نہیں رکھتے وہ اسی طریقہ سے استفادہ کرتے ہوئے جدید امکانات کو اپنے اہل وعیال اور خاندان کے افراد کے رشد و تغیرّ کے لئے فراہم کرسکتا ہے۔ اپنے یا اپنے اقرباء کے نا پسند ناموں کا تبدیل کرنا بھی اس خاص نفسیاتی ماحول کو نظر میں رکھتے ہوئے جو اسی سے پیدا ہوتا ہے تغییر موقعیت کے موارد میں شمار ہوتا ہے۔ (١) ایسی نشست جس میں اخلاق کے خلاف اعمال کی روک تھام نہ ہوسکے اسے ترک کردینا چاہیے: ''مجرمین کے بارے میں وہ سوال کررہے ہوں گے: کس چیز نے تمہیں جہنم کی آگ میں جھونک دیا؟ وہ کہیں گے: .... ہم لوگوں کے برے کاموں میں شامل ہوجایا کرتے تھے۔ (٢)
اسلام ایک مسلمان کے روزانہ کے معمول کی تعیین میں اسی طر یقہ اور روش سے مدد لیتا ہے اور اسے مذہبی مراکز جیسے مساجد میں مسلسل حاضر ہونے کی دعوت دیتا ہے یہ اسے خود ہی ایک قسم کی تغییر موقعیت ہے اگر چہ ہجرت شمار نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ ایک قسم کی اخلاقی تازگی اورشادابی انسان کو عطا کرتی ہے اور اسے ایک ہی طرح کے ماحول سے اور بسا اوقات روزانہ کے نا مساعد اور غیرموافق ماحول سے جدا کردیتی ہے۔
٢۔ ضرورتوں کو صحیح طریقہ سے پورا کرنا
ضرورتو ںکو صحیح طریقہ سے پورا کرنے سے مراد یہ ہے کہ ضروریات زندگی کو ایک متعادل حد تک اخلاقی تربیت دینے اور بالاتر ضرورتوں کی تکمیل کرنے سے پہلے پورا کیا جائے۔ سبب اور محّرک کے ا ثر کے پیش نظر جو کہ عمل کے اصول ومبادی میں سے ایک ہے، جب تک کہ انسان بھوک کے زیراثر یاجنسی میلان کے تحت تاثیر ہے یا کم از کم اپنی زندگی کیلئے کوئی پناہ گا ہ نہیں رکھتا، ایسا انسان اخلاق کی بلندیوں کی طرف قدم نہیں بڑھا سکتا۔
اسلامی تعلیمات میں یہ نکتہ مورد توجہ واقع ہوا ہے، سورئہ ''قریش '' میں خدا وند سبحان کی عبادت کی دعوت کا ذکر ان کی خوراک فراہم کرنے اور امنیت کے ذکر کے بعدہوتی ہے: '' لہٰذا انھیں چا ہیے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں، وہی ذات کہ جس نے انھیںبھوک سے نجات دی اورنا امنی سے انھیںرہائی دلائی''۔ ''فلیعبدو ا رب ھذا البیت الذی اطعمھم من جوع وآمنھم من خوف''۔ (٣ )
.......................................
(١) ان رسول ا للّہ کان یغےّرا لاسماء القبیحة فی الرجال والبلدان، وسائل الشیعہ، ج ١٥، ص ١٢٤۔
(٢) ....یتسائَ لون عن المجرمین ما سلککم فی سقر قالوا۔۔۔ و کنا نخوض مع الخائضین، سورئہ مدثر، آیت ٤٠ تا٤٥ ۔
(٣) سورہ ٔقریش، آیت ٣، ٤۔
مندرجہ ذیل آیات میں غور خوص کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اخلاقی صفات، تقویٰ، شکر، اور عمل صالح وغیرہ انسان کی اوّلین ضرورتوں کو پورا کرنے کے بعد ذکر ہوئے ہیں: و کلوا مما رزقکم اللہ حلالاً طیبا واتقو اللہ ۔۔۔(١)۔ اور جو کچھ خدا نے تمہیں حلال اور پاکیزہ رزق دیا ہے اس میں سے کھائو اور خدا سے درتے رہو....۔ ''یا ایھا الذین آ منوا کلوا من طیبات ما رزقناکم واشکرو اللہ۔۔ اے ایمان لانے والوں! جو ہم نے تمہیں پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اس میںسے کھائو اور خدا کا شکر ادا کرو....۔ (٢) ''یاایھا الرسل کلو ا من الطیبات و اعملوا صالحا۔۔۔'' اے میرے رسولو! تم پاکیزہ غذائیں کھائو اور نیک عمل انجام دو.....۔(٣) پیغمبر اکرم ۖ نے حدیث ایک شریف میں زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے اثر کے سلسلہ میں اس سے بلند تر ضرورتوں پر نظرکرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے: '' اگر روٹی نہ ہوتی توہم نماز نہیں پڑھتے، روزہ نہیں رکھتے اور پروردگار کے واجبات کو ادا نہیں کرسکتے تھے ''۔(٤) اور دوسری جگہ پر فرماتے ہیں: ''قریب ہے کہ فخرو نا داری کفر و ناشکری کا سبب بن جائے '' ۔(٥) پیغمبر اکرم ۖ اور ائمہ طاہرین (ع) کی سیرت میں بھی ہم ملاحظہ کرتے ہیں آپ حضرات عملی طور پر محرومین کی طرف توجہ دیتے اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرتے تھے، شب کے سناٹے اور سردی اور گرمی کے موسم میں بھی ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتے تھے (٦) اور یہی بات انوارہدایت کے درک کرنے کے مقدمات ان کے لئے فراہم کرتی تھی۔ حتی کہ دشمنوں سے ملاقات کے موقع پر بھی صلاح وہدایت کی دعوت سے پہلے ان کی معاشی ضرورتوں کو پورا کرتے تھے۔
.......................................
١۔ سورہ ٔما ئدہ، آیت ٨٨۔
٢۔سورہ ٔبقرہ ، آیت ١٧٢۔
٣۔ سورئہ مومنون، آیت ٥١۔
٤۔ فلو لا الخبز ما صلینا ولا صمنا ولا ادینا فرائض ربنا عز وجل۔ کا فی ،ج ٦، ص ٢٨٧۔
٥۔کاد الفقر ان یکون کفرا، کا فی، ج ٥، ص ٣ ٧۔
٦۔ الحیاة، ج ٣، ص ٢٣٢تا ٢٣٤ ملاحظہ ہو۔
حضرت امام حسن ـکی سیرت نادان مخالفین کے ساتھ یہی انسانی روش اور سیرت تھی:
ایک شامی نے معاویہ کے ورغلانے پر ایک دن امام حسن کو گالی دی، امام نے اس سے کچھ نہیں کہا یہاں تک کہ خاموش ہو گیا، اس وقت آپ نے شیریں مسکراہٹ کے ساتھ اس کو سلام کیا اور فرمایا: '' بوڑھے آدمی! فکر کرتا ہوں کہ تو ایک پردیسی ہے اور خیال کرتا ہوں کہ تو راستہ بھول گیا ہے اگر مجھ سے رضایت طلب کرے گا تو تجھے رضایت دوں گا اور اگر کچھ ہم سے طلب کرے گا اور راہنمائی چاہے گا تو تیری راہنمائی کروں گا اور اگرتیرے دوش پر کوئی بوجھ ہے تو اسے اٹھا لوں گا اور اگر بھوکا ہے تو شکم سیر کردوںگا اور اگر محتاج ہے تو تیری ضرورت پوری کردوں گا، (خلاصہ ) جو کا م بھی ہو گا اسے انجام دیدوںگا اور اگر میرے پاس آئے گا تو بہت آرام سے رہے گا کہ مہمان نوازی کے ہر طرح کے وسائل و اسباب میرے پاس فراہم ہیں''۔
وہ شامی شرمندہ ہوگیا اور رو کر کہنے لگا: ''میں گواہی دیتا ہوں کہ روئے زمین پر آپ خدا کے جانشین ہیں، خدا بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کہاں قرار دے۔ آپ اور آپ کے والد میرے نزدیک مبغوض ترین انسان تھے لیکن اب آپ سب سے زیادہ محبوب ہیں ''بوڑھا آدمی اس دن امام حسن ـ کا مہمان ہوا اور جب وہاں سے گیاتو حضرت کی دوستی کا دم بھر نے لگا۔(١)
آبراھام مزلو ہیومینسٹ ماہر نفسیات نے آدمی کے اغراض واسباب کی طبقہ بندی کے لئے جدید طریقہ پیش کیا ہے، اس نے ضرورتوں کے ترتیب و ار سلسلہ کو پیش کیا کہ جو زندگی کی اساسی ضرورتوں سے شروع ہو تا ہے اور اس سے بالا تر سطحوں میں نفسیاتی اغراض واسباب تک پہونچ جاتا ہے وہ کہتا ہے: ''..... انسان کی با مقصد حیات میں تنظیم کی اہم اصل اساسی ضرورتوں کی ترتیب اولویت کے مراتب کے سلسلہ کی صورت میں کمتر یا بیشتر غلبہ کی قدرت کے ساتھ ہوتی ہے۔ وہ اہم محرّک جو اس تنظیم کا باعث ہوتی ہے وہ ضعیف تر ضرورتوں کا پیدا ہونا ہے جو کہ قوی تر ضرورتوںکو پورا کرنے سے ایک سالم انسان میں پائی جاتی ہے۔ جب بھی ضرورت زندگی پوری نہیں ہوتی، جسم پر غلبہ پا جاتی ہے اور تمام استعداد اور صلاحیتوں کو اپنے کنٹرول میں لے لیتی ہے اور ان صلاحیتوںکو اس طرح منظّم کرتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ان سے استفادہ کرسکے۔ نسبی رضا مندی ان
.......................................
١۔ بحار الانوار، ج، ٣ ٤، ص ٣٤٤۔
ضرورتوں کو محو کردیتی ہے اور بعدکے سلسلہ میں مراتب کی ضرورتوں سے بلند مجموعہ کو موقع دیتی ہے کہ وہ ظاہر ہوں، شخصیت پر غلبہ پاکر انھیںمنظّم کریں اس طرح کہ، بھوک کا درد اٹھانے کے بجائے امن و سلامتی کے لئے پریشان ہو۔ یہ اصل سلسلہ مراتب میں ضرورتوں کے دوسرے مجموعوں یعنی محبت، احترام اور خود آگے بڑھنے اور ترقی کرنے پر بھی صادق ہے۔(١)
اسی وجہ سے محتاج سماج اوراجتماع میں علمی، ہنری اور اخلاقی تخلیق کم وجود میں آتی ہے۔
مزلوکا نظریہ ہے کہ سالم افراد بلند ضرورتوں کی طرف رخ کرتے ہیں، یعنی اپنی با لقوة استعدادوں کے عمل ہونے کے خواہشمند ہوتے ہیں اور آس پاس کی دنیا کو پہچاننا چاہتے ہیں۔ مقصد، بے نیاز کرنا، تجربہ حیات کی توسیع، سرور و شادمانی کا اضافہ اور زندہ ہونے کی تحریک ہے.... نیک اخلاقی صفات جن کو و ہ'' وجود میں اقدار ''سے تعبیر کرتا ہے اس موقعیت کی طرف رخ کرتے ہیں۔ بعض ہستی کی قدریں اس کی نظر میں یہ ہیں: حقیقت (بے اعتمادی بد گمانی اور تشکیک کے مقابل)، نیکی (نفرت کے مقابل)، کمال (ناامیدی اور بے معنی ہونے کے مقابل)، یکتائی (بے ثباتی کے مقابل)، نظم (عدم امنیت واحتیاط کے احساس کے مقابل )، خود کفائی ( ذمہ داری کو دوسروں کے حوالے کرنے کے مقابل ) (٢)۔
یہ نظریہ کہ انسان کمتر ضرورتوں کی طرف توجہ کئے بغیر یا ایک حد تک ان کی تکمیل، انسانی فضائل کی طرف قدم نہیں اٹھاتا، یہ سماج کے اکثر افراد کے بارے میں صادق آتا ہے۔
دو نکتوں کی طرف توجہ دیتے ہو ئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ '' ضرورتوں کو صحیح طور سے پورا کرنے کی روش ''اس بات کے علاوہ کہ دوسری روشوں کا مقدمہ ہے، خود اسے بھی ایک اخلاقی تربیت کی روش کے عنوان سے پیش کیا جاسکتا ہے۔پہلے یہ کہ ادنی ضرورتوںکو پورا کرنے سے بلند ترین ضرورتیں پیدا ہو تی ہیں، یعنی علّت وسبب کا جنبہ پیدا کرتی ہیں۔ عمل کے علّی اور سببی جنبہ کا وجود تر بیت اخلاقی کے ایک اہم حصہ کو منظّم کرتا ہے۔
.......................................
١۔ انگیزش و ہیجان، ص ١٠١۔
٢۔ اپنی جلوہ نمائی تحقق نفس تک ر سائی اور بالقوة توانائی کے لئے ذوقی تقارن خوبصورتی اور نظم تعارف، جاننا، سمجھنا، تلا ش کرنا، سنجیدگی، عزت نفس، کفایت، اجراء اور اصول تعلق و محبت کی ضرورت غیر سے وابستہ ہونا، سا لمیت کی ضرورت کی مقبولیت، امنیت کا احسا س اور خطرے سے دوری فیز یولوژیائی ضرورتیں، گرسنگی، تشنگی اور جنسی خواہشروانشناسی کمال، ص ١٢٥۔
دوسرے یہ کہ اس سے توانائیوں کو تخلیہ اورباطنی قوتوں کے اعتدال کے لئے آمادگی حاصل ہوتی ہے۔ جیسا کہ علماء اخلاق کے اخلاقی نظام میں ذکر ہوا ہے یہ نکتہ نہایت قابل توجہ اور اہمیت کا حامل ہے کہ سہ گانہ قوتیں شہوت، غضب، اور عقل، عدالت اور اعتدل کے سایہ میں ایک دوسرے کے ساتھ اکھٹا ہو جائیں۔ یہ رویہ یعنی اعتدال قوتوں کے استعمال کرنے میں تربیت اخلاقی کی ترقی میں ایک نا گزیر امر ہے۔
سید قطب الدین لکھتے ہیں: انسان کی تربیت کے لئے اسلام کے اسباب و وسائل میں ان ذمہ دارریوں سے چھٹکارا دلانا ہے جو کبھی کبھی جسم و جان میں اکھٹا ہوتی ہیں اسلام ان باروں اور ذمہ داریوں کو اکھٹا جمع نہیں کرتا مگر یہ کہ انھیںچھوڑنے کے لئے یکبارگی جمع کرے۔(١)
اس روش کے محقق ہونے کے لئے لازم طریقے یہ ہیں: معاشی نظام کی جانب توجہ، ازدواج، ورزش اور کام کاج ۔
الف ۔معاشی نظام کی طرف توجہ:
بہت سے اخلاقی جرائم کی بنیاد مال اور خوراک اور غذا کی کمی ہے۔ پہلے مرحلہ میں معاش کی فراہمی خانوادہ کے ذمہ ہے دوسرے مرحلہ میں حکومت کی ذمہ داریوں میں سے ہے نیز اس نظام کے ذمہ ہے جو سماج پر حکومت کررہا ہے اور تیسرے مرحلہ میں نیکو کا راور قدرت مند افراد کے ذمہ ہے۔ بہر صورت تربیت کرنے والوں کی تگ و دو اس مسئلہ کی نسبت تربیتی نقطہ نظر سے تربیت اخلاقی میں بہت سے موانع کو دور کرنے والی ہے۔
ب۔ ازدواج:
ازدواج کے تربیتی اور اخلاقی فوائد (جیسے خود خواہی و خود غرض سے دور ہونا، دوسروں کی خدمت کے لئے آمادگی اور ان کی طرف توجہ، عواطف و جذبات کا بار آور ہونا، محبتوں کا ثمر دینا اور ذمہ داری قبول کرنے کے لئے آمادگی وغیرہ وغیرہ ) کے علاوہ ازدواج کا اہم اور ابتدائی کردار غریزہ جنسی کی ضرورت کو فطری اور شرعی طریقہ سے صحیح طور پر پورا کرنا۔ اس نکتہ کی طرف توجہ کرنا چاہیے کہ ایسا جوان جس کا غریزہ جنسی شباب پر ہے اور ماحول کے بہت سے محرک بھی اس کے اندر اور زیادہ اس آگ کو بھڑکا رہے ہیں، وہ جوان سختی سے خود کو گناہ سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔(٢)
.......................................
١۔ روش تربیتی در اسلام، ص ٢٨٢۔
٢۔ مراد یہ ہے کہ جنسی غریزہ جوانوں کو زیادہ مشکلات سے دو چار کرتا ہے، نہ یہ کہ کلی طور پر تربیت اور اصلاح کا راستہ ہی بند کردے ۔
پیغمبر ۖ نے فرمایا ہے : '' جب کوئی انسان شادی کرتا ہے تو اس کا نصف دین کامل ہو جاتا ہے لہٰذا بقیہ نصف کے سلسلہ میں اسے تقویٰ اختیار کرنا چاہئے''۔ (١) پیغمبر ۖ کے اس حکیمانہ ارشاد سے یہ نکتہ بھی قا بل استفادہ ہے کہ اللہ کا تقویٰ ا ور اخلاقی ورع، شادی کے بعد زیادہ آسان اور قابل حصول ہے۔
ج۔ورزش: جسمانی ضرورتوں کو صحیح طور پر پوراکرنے میں اور جوانی کی قوتوں کی جلاء میں ورزش کا کردار قابل انکار نہیںہے۔ اخلاقی تربیت میں ورزش کا کردار دو جہت سے قابل اہمیت ہے:
اول۔
وہ جسمانی سلامتی اور فرحت کہ جو ورزش سے پیدا ہوتی ہے، روحی، ذہنی اور نفسیاتی سلامتی نیز اخلاقی فضائل کے لئے مقدمہ ہوتی ہے۔ ہماری تہذیب اور ثقافت میں قوت اورجوانمردی ہمیشہ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ رہی ہیں۔ ورزش اخلاقی توجیہ نبی اور ائمہ (ع) کی سیرت میںآتی ہے ۔ پیغمبر اکرم ۖ ایسے مردوں سے ملاقات کے وقت جو زور آزمائی کے لئے وزن اٹھا رہے تھے، فرماتے ہیں: ''لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر وہ انسان ہے جو خواہشات نفس پر غالب ہو''۔ (٢) امیر المومنین ـ دعائے کمیل میں خدا سے جسمانی قویٰ کی تقویت کی درخواست خدمت الٰہی کے لئے کرتے ہیں، یارب.... قو علی خدمتک علی جوارحی۔ اس کے مقابل کمزور اور پست افراد تربیت کے خلاف امور انجام دیتے ہیں۔
دوسری جہت
۔ ضرورتوں سے توجہ ہٹانا ہے، بالخصوص جوانی کے زمانہ میں جنسی ضرورتیںاپنی تکمیل کا تقاضہ کرتی ہیں۔ ایسے حالات میں کہ ابھی جائز اور مشروع طریقہ سے صحیح طور پر جنسی خواہشات کی تکمیل کے امکانات فراہم نہیں ہوئے ہیں، ورزش ضرورتوں سے توجہ ہٹانے کا ایک مفید اور اہم ذریعہ ہے۔
د۔ کام: کام کاج کے مسئلہ کو '' معاشی نظام کی طرف تو جہ '' کی بحث میں ذکر کیا جاسکتا ہے، لیکن چونکہ اس کا اسلام میں ایک خاص مرتبہ ہے، اور استاد مطہری کے بقول: کام اسلام میں ایک مقدس اور پاکیزہ شے ہے، (٣)
نیز بہت سے تربیتی جہات اس میں پائے جاتے ہیں، لہٰذا ہم نے اسے جدا گانہ طور پر ذکر کیا ہے، ایک طرف کام صحیح طور پر قوتوں کی جلاء اور اضافی بار کے تخلیہ کاموجب ہوتا ہے اور دوسری طرف شخصیت کے احساس، ذہنی علاج، تمرکز خیال، ضرورتوں سے توجہ ہٹانے ..... کا باعث ہوتا ہے، کہ یہ سب اخلاقی تربیت کے لئے معاون وسیلہ ہیں۔(4)
.......................................
١۔ اذا تزوج العبد فقد استکمل نصف الدین فلیتق اللہ فی نصف الباقی ۔ بحا ر الانوار، ج ٣ ١٠، ص ٢١٩۔''من تزوج فقد احرز نصف دینہ ، فلیتق اللہ فی النصف الباق''۔بحار الانوار ،ج١٠٣، ص٢١٩۔
٢۔ اشجع الناس من غا لب ھواہ۔ میزان الحکمة، ج ١٠، ص ٣٨٧۔
٣۔ تعلیم وتربیت در اسلام، ص ٤١١۔
4 ۔ ان جملوں کی طرف توجہ دینا مذکورہ بالا مطلب کی تائید میں موثر ہے: سقراط: ''دیانت کے بعد کام نیک بختی اور سعادت کا سرمایہ ہے''۔ پاسکال: '' تما م فکری اور اخلاقی برائیوں کی جڑ بے کاری ہے جو ملک بھی اس عظیم عیب کو بر طرف کرنا چاہتا ہے اسے لوگوں کو کام پر آمادہ کرنا چائیے تاکہ اس سے روحی سکون کہ جس سے معدودے چند افراد آگاہ ہیں، حاصل ہو ''۔ ساموئل اسمایلز: '' دیانت کے بعد انسان کی تربیت کے لئے کام سے بہتر کوئی مدرسہ تعمیر نہیں کیا گیا ہے ''۔ بحوالۂ تعلیم و تربیت در اسلام، ص ٤٣٠۔
|