اسلامی ا خلاق
 
دو۔ نفس کے لئے خطر ناک شئی
نفس کے لئے خطر ناک شئی اس کا ضعیف ہونا ہے جس کے مضر اثرات ہیں اور یہ نفس کے موانع میںشمار ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض اثرات جیسے عدم ثبات، پست ہمتی، غیرت و حمیت کا نہ ہونا ان مباحث کے ضمن میں جو قوت نفس کے علائم میںبیان ہوئے ہیں، آشکار ہوگئے۔ یہاں پر ایک دوسرا مانع یعنی ''تہاون'' اور ''مداہنہ ''کا ذکر اس کی اہمیت کی بنا پر کیا جا رہا ہے۔
''مداہنہ'' سے مراد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں نرمی، کوتاہی اور سستی سے کام لینا ہے''۔ (١) امر
با لمعروف اور نہی عن المنکر میں سستی اور کوتاہی یا نفس کے ضعیف ہونے سے پیدا ہوتی ہے یا اس شخص کے مال اور اعتبار میں دنیوی طمع و آرزو کی وجہ سے جس کی نسبت سستی اور کوتاہی کو روا رکھتا ہے۔(٢)
آیات وروایات میں دین میں نرمی اور کوتاہی کرنے کی شدت کے ساتھ مذمت کی گئی ہے اور اس کے نقصان دہ اثرات بیان کئے گئے ہیں ، جیسا کہ خدا وندعالم کفارو مشرکین کی سرزنش کرتے ہوئے فرماتا ہے: ''وہ چاہتے ہیں کہ تم نرمی سے کام لو تو وہ بھی نرمی سے کام لیں ''۔(٣) یعنی طرفین میںسے ہر ایک دوسرے کے دین سے متعلق سہل انگاری اور نرمی سے کام لے۔(٤ ) حضرت علی ـ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: '' میری جان کی قسم، حق کے مخالفین گمراہی و فساد میں غوطہ لگا نے والوں سے ایک آن بھی مقابلہ و جنگ کرنے میں سستی نہیں کروں گا''۔ (٥) حضرت امام محمد باقر ـ فرماتے ہیں: '' خداوند سبحان نے حضرت شعیب کو وحی کی کہ تمہاری قوم میں سے ایک لاکھ افراد پر عذاب نازل کروں گا، ان میں سے ٤٠ ہزار افراد برے ہیں اور ٦٠ ہزار ان کے برگزیدہ ہیں۔ حضرت شعیب نے پوچھا: خدایا ! اخیار اور برگزیدہ افراد کا جرم و گناہ کیاہے ؟ تو خداوند سبحان نے جواب دیا: ان لوگوں نے گناہگاروں کے مقابل سستی اور نرمی سے کام لیا ہے اور میرے ناراض ہونے سے وہ ان پر ناراض نہیں ہوئے ''۔ (٦)
.......................................
١۔ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، ص ١٧٣ ؛ طریحی، مجمع البحرین، ج ١، ص ٦٦ ؛ ابن منظور، لسان العرب، ج١٣، ص ٢ ١٦ ؛ مجلسی ،بحار الانوار، ج ٧٥، ص ٢٨٢۔
٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ٢٣٢ تا٢٤٠۔
٣۔ قلم ٩۔
٤۔ طباطبائی، المیزان، ج١٩، ص ٣٧١۔
٥۔ نہج البلاغہ، خطبہ ٢٤۔
٦۔ تہذیب، طوسی، ج ٦، ص ١٨١ ،ح ٣٧٢ ؛ کلینی، کافی، ج ٥، ص ٥٦، ح ١۔
دین میں سستی ،سہل انگاری اور کوتاہی سے متعلق روایات میں جو نقصان دہ اور ضرر رساں اثرات بیان کئے گئے ہیں ان میں سے انسانی سماج کی گراوٹ، فسادو تباہی، گناہ و عصیان کی زیادتی، سزا ودنیوی اور اخروی عذاب اور دنیا وآخرت میں نقصان وخسارہ کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ (١)

٢۔ حلم و برد باری اور غصہ کا پینا
'' حلم '' عربی زبان میں امور میں تامل، غوروفکر، تدبیر کرنے اور جلد بازی نہ کرنے کو کہتے ہیں۔ '' حلیم '' اس انسان کو کہتے ہیں جو حق پر ہونے کے باوجود جاہلوں کو سزا دینے میں جلد بازی نہ کرے اور مقابل شخص کی جاہلانہ رفتار سے وجود میں آنے والے غیض وغضب سے اپنے کو قابو میں رکھے۔(٢) بعض علماء اخلاق حلم کو اطمینان قلبی اور اعتماد نفس کا ایک درجہ خیال کرتے ہیں کہ اس کا مالک انسان آسانی سے غضبناک نہیںہوتا اور ناگوار حوادث جلدی اسے پریشان اور مضطرب نہیں کرتے۔ اس وجہ سے حلم کی حقیقی ضد غضب ہے، کیونکہ حلم اصولی طور پر غضب کے وجود میں آنے سے مانع ہوجاتا ہے۔ حلم اور '' کظم غیظ '' ( غصہ کو پینے ) کے درمیان فرق کے بارے میں کہا گیا ہے کظم غیظ صرف خشم و غضب کے پیدا ہوجانے کے بعد اسے ضبط کر کے ٹھنڈا کردیتا ہے جب کہ حلم بے جا غیض و غضب کے پیدا ہونے سے مانع ہوتا ہے، پس حلم غیض و غضب کو پیدا ہی نہیں ہونے دیتا ''کظم غیظ '' اس کے پیدا ہونے کے بعد اس کے علائم کے ظاہر ہونے کو روک کر درحقیقت اس کا علاج کرتا ہے۔(٣)
قرآن کریم میں حلم ١٠ بار سے زیادہ خداوندسبحان کے صفات میں شمار کیا گیا ہے کہ ان موارد میں نصف سے زیادہ ''غفور'' اور ''حلیم '' ایک ساتھ ذکر ہوا ہے۔ (٤)
.......................................
١۔ کلینی، کافی، ج ١، ص ٤٥، ح ٦، اور ج ٨، ص ٤ ٣ ١، ح ١٠٣، اور ص ١٢٨، ح ٩٨ ؛ حرانی، تحف العقول، ص ١٠٥، ٧ ٣ ٢؛ نہج البلاغہ، خ ٨٦، ٢٣٣؛ شیخ مفید، ارشاد، ص ٩٢۔
٢۔ ابن اثیر، نہایہ، ج ١، ص ٣٤ ٤، ؛ ابن منظور، لسان العرب، ج ١٢، ص ١٤٦ ؛ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، ص ١٢٩، مجمع البحرین، ج ١، ص ٥٦٥۔ اور فیض کاشانی، ملا محسن، المحجةالبیضائ، ج ٥، ص ٣١٠۔
٣۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٥ ٢٩، ٢٩٦۔
٤۔ عبد الباقی، محمد فؤاد، المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم، ص ٢١٦، ٢١٧۔
اسلام کے اخلاقی نظام میںحلم اور بردباری کی قدر و منزلت اس درجہ بلند ہے کہ لوگوں کی رہبری و امامت کے ایک لوازم میں شمار کیا گیا ہے۔ رسول خدا ۖ فرماتے ہیں: ''امامت اوررہبری تین خصوصیات کے مالک افراد کے علاوہ کسی کے لئے سزاوار نہیں ہے، ایسا تقویٰ جو اسے خدا کی نافرمانی سے روکے، ایسا حلم وبرد باری جس کے ذریعہ وہ اپنے غصہ کو کنٹرول کرے اور لوگوں پر ایسی پسندیدہ حکمرانی کہ ان کے لئے ایک مہربان باپ کی طرح ہو''۔ (١) حضرت علی ـ نے فرمایا: '' حلم ڈھانکنے والا پردہ اور عقل شمشیر براں ہے، لہٰذا اپنی اخلاقی کمی کو برد باری سے چھپاؤ اور اپنی نفسانی خواہشات کو عقل کی شمشیر سے قتل کرڈالو ''۔ (٢) یعنی انسان کی اخلاقی کمی کے لئے حلم ایک پردہ ہے۔ دوسری جگہ حلم کو عزت کا بلند ترین مرتبہ (٣) عاقلوں کی سرشت ، (٤) اور قدرت کی علامت (٥) تصور کیا گیا ہے۔ کظم غیظ اور غصہ کو پینا در حقیقت تحلّم اور زحمت و کلفت کے ساتھ حلم اختیار کرنا ہے۔ اس وجہ سے کظم غیظ اہمیت کے اعتبار سے حلم سے کم درجہ رکھتا ہے، اگر چہ اپنی جگہ اہم اور قابل تعریف ہے۔ قرآن کریم کظم غیظ کو متقین کی صفت اور ایک قسم کی نیکی اور احسان جانتاہے۔ قرآن فرماتا ہے: ''اپنے پروردگار کی عفو و بخشش اورایسی بہشت کی طرف سبقت کرو جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے اور وہ ان پرہیز گاروں کے لئے آمادہ کی گئی ہے ۔(٦) وہ لوگ جو فراخی اور تنگی حالتوں میں انفاق کرتے ہیں اور اپنے غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں، اور خدا وند عالم احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے''۔ پیغمبر اکرم ۖ نے غصہ کے پینے کی فضیلت میں فرمایا ہے: ''خدا تک انسان کے پہنچنے کے محبوب ترین راستے دو گھونٹ نوش کرنا ہے،ایک غصّہ کا گھونٹ جو حلم وبردباری کے ساتھ پیاجاتا ہے اور غصّہ بر طرف ہوجاتا ہے، دوسرا مصیبت کا گھونٹ کہ جو صبر وتحمّل سے زائل ہوتا ہے ''(٧)
.......................................
١۔ کلینی، کافی، ج ١، ص ٤٠٧، ح ٨۔
٢۔ نہج البلاغہ، حکمت ٤٢٤۔
٣۔ کلینی، کافی ج ٨، ص ١٩، ح ٤۔
٤۔ صدوق، فقیہ، ج ٤، ص ٢٧٤، ح ٨٢٩۔
٥۔ صدوق، خصال، ج ١، ص ١١٦، ح ٩٦۔
٦۔ سورئہ آل عمران، آیت ٣٣ ١ ، ١٣٤۔
٧۔ کلینی، کافی، ج ٢، باب کظم غیظ، ح ٩۔
حضرت امام جعفر صادق ـ نے اس سلسلہ میں فر مایا ہے: ''جو کوئی ایسے خشم وغضب کو کہ جسے وہ ظاہر کرسکتا ہے پی جائے تو قیامت کے دن خدا وند تعالیٰ اپنی رضا سے اس کے دل کو پرکردے گا '' (١)

الف۔ حلم اور کظم غیظ کے اسباب و موانع:
روایات میں علم، عقل، فقہ، تحلم، بلند ہمتی اور حلیم و برد بار افراد کی ہمنشینی کو حلم اختیار کرنے کے اسباب و علل میں ذکر کیا گیا ہے، جیسا کہ حضرت امام علی رضا ـ فرماتے ہیں: ''فقاہت کی علامتوں میں سے حلم اور سکوت ہے''۔ (٢)
نیز حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''اگر تم واقعاً حلیم نہیں ہو تو حلم کا اظہار کرو کہ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی کسی قوم کی شباہت اختیار کرے اور ان میں سے نہ ہوجائے''۔(١) اسی طرح آپ نے فرمایا: ''حلم اور صبر دونوں جڑواں ہیں اور دونوں ہی بلند ہمتی کا نتیجہ ہیں ''۔(٢) اس کے مقابل کچھ صفات ایسے ہیں جو حلم و برد باری کے موانع کے عنوان سے ذکر کئے گئے ہیں کہ ان میں سے سفاہت ، بیوقوفی، حماقت ، دُرشت مزاجی، تند خوئی، غیض وغضب، ذلت وخواری اور ترش روئی کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ (٣)

ب۔حلم و برد باری کے فوائد:
اخروی جزا کے علاوہ آیات و روایات میں دنیوی فوائد بھی حلم و برد باری کے بیان کئے گئے ہیں۔ یہ فوائد خواہ انسان کی انسانی زندگی میں نفسانی صفات اور عملی صفات ہوں خواہ ا نسان کی اجتماعی زندگی کے مختلف ادوار میںظاہر ہوں، ان میں سب سے اہم فوائد یہ ہیں: سکون قلب، وقار، نجابت، رفق ومدارا، صبر، عفو و بخشش، خاموشی، سزادینے میںجلد بازی نہ کرنا، اور خندہ روئی فردی فائدے کے عنوان سے اور کرامت وبزرگواری، کامیابی ،صلح و آشتی، ریاست و بزرگی، لوگوں کے دلوں میں محبوبیت اور پسندیدہ وخوشگوارزندگی حلم و برد باری کے اجتماعی فوائد ہیں ۔ان میں سے بعض فوائد پر اس کے پہلے بحث ہوچکی ہے اور بعض دیگر ایک قسم کی رفتار (عمل) ہیں کہ عملی صفات کے بیان کے وقت ان میں سے بعض کا ذکر کریں گے۔
.......................................
١۔کلینی، کافی، ج ٢، باب کظم غیظ، ح ٦۔
٢۔ کلینی، کافی، ج ١، ص ٣٦، ح ٤۔
٣۔ نہج البلاغہ، حکمت ٧ہ٢؛ کلینی، کافی، ج ٢، ص١١٢، ح ٦، ص ٢٠، ح ٤ اور تحف ا لعقول، ص ٦٩۔
٤۔ نہج البلاغہ، حکمت ٤٦٠۔
٥۔ صدوق، خصال، ج ٢، ص ٤١٦، ح ٧ ؛ مجلسی، بحار الانوار، ج ١٣، ص ٤٢١، ح ١٥ ؛ غرر الحکم، ح ٢٠٠٩ اور ٣٩٤٠ ؛نراقی، جامع السعادات، ج ١، ص ٢٧٥ اور ٢٩٥ ؛ فیض کاشانی، المحجة البیضائ، ج١٥، ص ٢٨٨، ٣٠٨۔


٣۔ حیا
حیا نفسانی صفات میںایک اہم صفت ہے جو ہماری اخلاقی زندگی کے مختلف شعبوں میں بہت زیادہ اثر رکھتی ہے۔ اس تاثیر کا اہم ترین کردار خود کو محفوظ رکھنا ہے۔ '' حیا'' لغت میں شرم وندامت کے مفہوم میںہے اور اس کی ضد ''وقاحت'' اور بے حیائی ہے۔ (١) علماء اخلاق کی اصطلاح میں حیا ایک قسم کا نفسانی انفعال اور انقباض ہے جو انسان میں نا پسندیدہ افعال کے انجام نہ دینے کاباعث بنتا ہے اور اس کا سر چشمہ لوگوں کی ملامت کا خوف ہے۔ (٢)
آیات و روایات میں ''حیا '' کے مفہوم کے بارے میں مطالعہ کرنا بتاتا ہے کہ اس حالت کی پیدائش کا مرکز ایک آ گا ہ ناظر کے سامنے حضور کا احساس کرنا ہے، ایسا ناظر جو محترم اورگرامی قدر ہے۔ اس مفہوم کو کتاب و سنت میں مذکور حیا کے مسائل اور ابواب میں بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ مفہوم حیا کی تمام اقسام کے درمیان ایک مشترک مفہوم ہے اس وجہ سے حیا کے تین اصلی رکن ہیں: فاعل، ناظر اور فعل۔ حیا میں فاعل وہ ہے جو نفسانی کرامت و بزرگواری کا مالک ہے۔ ناظروہ ہے کہ جس کی قدرو منزلت فا عل کی نگاہ میںعظیم اور قابل احترام ہے اور فعل جو کہ حیا کے تحقق کا تیسرا رکن ہے، برا اور ناپسنددیدہ فعل ہے لہٰذا نتیجہ کے طور پر ''حیا ''''خوف '' و '' تقویٰ '' کے درمیان فرق کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ حیا میں روکنے والا محور ایک محترم اور بلند مرتبہ ناظر کے حضور کو درک کرنا اور اس کی حرمت کی حفاظت کرنا ہے، جبکہ خوف وتقویٰ میں روکنے والا محور، خدا کی قدرت کا درک کرنا اور اس کی سزا کا خوف ہے۔
قابل ذکر ہے کہ حیا کا اہم ترین کردار اور اصلی جوہر برے اعمال کے ارتکاب سے روکنا ہے، لامحالہ یہ رکاوٹ نیک اعمال کی انجام دہی کا باعث ہوگی۔ اسی طرح یہ بات قابل توجہ ہے کہ حیا مختلف شعبوںمیںکی جاتی ہے کہ اس کی بحث اپنے مقام پر آئے گی، جیسا کہ عورتوں کی حیا '' اخلاق جنسی'' میں، گھرمیں حیا کی بحث '' اخلاق خانوادہ ''میں اور دوسروں سے حیا '' اخلاق معاشرت '' میں مورد تحقیق قرار دی جائے گی۔ یہاں پر حیا سے متعلق صرف عام اور کلی مباحث ذکر کررہے ہیں۔
.......................................
١۔ ابن منظور، لسان العرب، ج٨، ص ٥١ ؛ مفرادات الفاظ قرآن کریم، ص ٢٧٠ اور ابن اثیر نہایہ، ج ١، ص ٣٩١۔
٢۔ ابن مسکویہ، تہذیب الاخلاق، ص ٤١، ؛طوسی اخلاق نا صری، ص ٧٧۔

الف۔ حیا کی اہمیت:
رسول خدا ۖ حیا کو انسان کی زینت شمار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ''بے حیائی کسی چیز کے ہمراہ نہیں ہوئی مگر یہ کہ اس کو نا پسند اور برا بنا دیا، اور حیا کسی چیز کے ہمراہ نہیں ہوئی مگر یہ کہ اسے اس نے آراستہ کردیا ''۔(١) حضرت علی ـ نے بھی فرمایا ہے: ''جو حیا کا لباس پہنتا ہے کوئی اس کا عیب دیکھ نہیں پاتا''۔ (٢ ) اور دوسرے بیان میں فرماتے ہیں: ''حیا اختیار کروکیونکہ حیا نجابت کی دلیل و نشا نی ہے''۔ (٣) حضرت امام جعفر صادق ـ حیا کے مرتبہ کو اخلاقی مکارم میں سر فہرست قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ''مکارم اخلاق میں ہر ایک دوسرے سے مربوط اور جڑے ہوئے ہیں، خدا وندعالم ہر اس انسان کو جو ان مکارم اخلاق کا طالب ہے دیتا ہے، ممکن ہے کہ یہ مکارم ایک انسان میں ہو لیکن اس کی اولاد میں نہ ہو، بندہ میں ہو لیکن اس کے آقا میں نہ ہو (وہ مکارم یہ ہیں ) صداقت و راست گوئی، لوگوںکے ساتھ سچائی برتنا، مسکین کو بخشنا، خوبیوںکی تلافی، امانت داری، صلہ رحم، دوستوں اور پڑوسیوںکے ساتھ دوستی اور مہربانی ،مہمان نوازی اور ان سب میں سر فہرست حیا ہے۔ (٤) حضرت علی ـ نے حیا کے بنیادی کردار کے بارے میں فرمایا: ''حیا تمام خوبصورتی اور نیکی تک پہنچنے کا وسیلہ ہے''۔ (٥) حیا کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''جو حیا نہ رکھتا ہو اس کے پاس ایمان نہیں ہے''۔ (٦) رسول اکرم ۖکی سیرت کے بارے میں منقول ہے کہ آنحضرت ۖجب بھی لوگوں سے بات کرتے تھے تو عرق شرم (حیا کا پسینہ ) آپۖ کی پیشانی پر ہوتا تھا اور کبھی ان سے آنکھیں چار نہیں کرتے تھے۔ (٧)

.......................................
١۔ شیخ مفید، امالی، ص ١٦٧۔
٢۔ نہج البلاغہ، حکمت ٢٢٣ ؛ صدوق، فقیہ، ج ٤، ص ٣٩١ ح٥٨٣٤ ۔ کلینی، کافی، ج٨، ص ٢٣۔
٣۔ آ مدی، غرر الحکم، ح ٨٢ ٠ ٦۔
٤۔ کلینی، کافی ج ٢، ص ٥٥ ح١۔ طوسی، امالی، ص ٣٠٨۔
٥۔ حرانی، تحف العقول ِ ،ص ٨٤۔
٦۔ کلینی، کافی، ج٢، ص١٠٦۔
٧۔ کافی ، ج٥ ،ص٥٦٥، ح٤١۔
کبھی حیا کا منفی رخ سامنے آتا ہے اور وہ اس صورت میں کہ جب اس کا سبب حماقت، جہالت، اور نفس کی کمزوری ہو۔ اسلامی اخلاق میں ایسی شرم و حیا کی شدت کے ساتھ مذمت کی گئی ہے اور اسے اخلاقی فضیلت شمار نہیں کیا گیا ہے بلکہ انسان کے رشد و علو کے لئے رکاوٹ اور مختلف شعبوںمیں اس کے پچھڑنے کا سبب ہوتی ہے۔ روایات میں اس طرح کی شرم کو جہل و حماقت اور ضعف کی حیا کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ (١)

ب۔ حیا کے اسباب و موانع :
بعض وہ امور جو روایات میں حیا کے اسباب کے عنوان سے ذکر کئے گئے ہیں، درج ذیل ہیں:
١۔عقل:
رسول خدا ۖ نے ایک عیسائی راہب ( شمعون بن لاوی بن یہودا) کے جواب میں کہ اس نے آپۖ سے عقل کے علائم وماہیت کے بارے میں سوال کیا تھا، فرمایا: ''عقل حلم کی پیدائش کا باعث ہے اور حلم سے علم، علم سے رشد، رشدسے عفاف اور پاک دامنی، عفاف سے خوداری، خوداری سے حیا، حیا سے وقار، وقار سے عمل خیر کی پابندی اور شر سے بیزاری اور شر سے تنفرسے نصیحت آمیز اطاعت حاصل ہوتی ہے۔(٢)
٢۔ایمان:
حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: '' جو حیا نہیں رکھتا وہ ایمان بھی نہیں رکھتا ''۔
اسی طرح روایات میں کچھ امور کو حیا کے موانع بے حیا ئی کے اسباب و علل کے عنوان سے پہچنوایا گیا ہے۔ ان میں سب سے اہم درج ذیل ہیں:
ایک۔ حرمتوں اور پردوں کو اٹھا دینا: حضرت امام موسیٰ کاظم ـ اپنے اصحاب سے فرماتے ہیں: '' شرم وحیا کا پردہ اپنے اور اپنے بھائیوںکے درمیان سے نہ اٹھاؤ اور اس کی کچھ مقدار باقی رکھو، کیونکہ اس کا اٹھانا حیا کے اٹھانے کے مترادف ہے''۔(٣)
3۔ لوگوںکی طرف دست سوال دراز کرنا:
حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: '' لوگوں کی طرف دست سوال دراز کرنا عزت چھین لیتا ہے اور حیا کو ختم کردیتا ہے''۔(٤)
.......................................
١۔ صدوق، خصال، ج ١، ص٥٥، ح ٧٦ ؛ کلینی، کافی، ج٢، ص ١٠٦، ح ٦۔
٢۔ حرانی، تحف العقول، ص ١٩، اسی طرح ملاحظہ ہو، ص ٢٧ ؛ صدوق، خصال، ج ٢، ص٤٠٤، ٤٢٧ ؛ کلینی، کافی، ج١، ص ١٠، ح ٢ ۔اور ج ٢، ص ٢٣٠۔
٣۔ کافی، ج ٢، ص ٦٧٢، ح٥۔
٤۔ ایضاً، ج٢، ص ١٤٨، ح ٤۔
٣۔ زیادہ بات کرنا: حضرت علی ـ نے فرمایا: ''جو زیادہ بولتا ہے وہ زیادہ خطا کرتا ہے اور جو زیادہ خطا کرتا ہے اس کی شرم و حیا کم ہو جا تی ہے اور جس کی شرم کم ہوجاتی ہے اس کی پارسائی کم ہوجاتی ہے اور جس کی پارسائی کم ہوجاتی ہے اس کا دل مردہ ہوجاتا ہے''۔(١)

٤۔ شراب خوری: حضرت امام علی رضا ـ کی طرف منسوب ہے کہ آپ نے شراب کی حرمت کی علت کے بارے میں فرمایا: ''خداوندسبحان نے شراب حرام کی کیونکہ شراب تباہی مچاتی ہے، عقلو ں کو حقائق کی شناخت میں باطل کرتی ہے اورانسان کے چہرہ سے شرم و حیا ختم کردیتی ہے''۔ (٢)

ج۔ حیا کے فوائد:
روایت میں حیا کے کثرت سے فوائد پائے جاتے ہیں خواہ وہ دنیوی ہوں یا اخروی، فردی ہوں یا اجتماعی، نفسانی ہوں یا عملی، ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:
١۔ خدا کی محبت:
پیغمبر اکرم ۖ نے فرمایا: '' خدا وند سبحان، حیا دار،با شرم اور پاکدامن انسان کو دوست رکھتا ہے اور بے شرم فقیر کی بے شرمی سے نفرت کرتا ہے ''۔(٣)
٢۔عفّت اور پاکدامنی:
حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''حیا کا نتیجہ عفّت اورپاکدامنی ہے''۔ (٤)
٣۔ گناہوں سے پاک ہونا:
حضرت امام زین العابدین ـ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:'' چار چیزیں ایسی ہیں کہ اگر وہ کسی کے پاس ہوں تو اس کا اسلام کامل اور اس کے گناہ پاک ہوجائیں گے اور وہ اپنے رب سے ملاقات اس حال میں کرے گا، کہ خدا وند عالم اس سے را ضی و خوشنود ہوگا، جو کچھ اس نے اپنے آپ پر لوگو ں کے نفع میں قرار دیا ہے خدا کے لئے انجام دے اور لوگوں کے ساتھ اس کی زبان راست گوئی کرے اور جو کچھ خدا اور لوگوں کے نزدیک برا ہے اس سے شرم کرے اور اپنے اہل وعیال کے ساتھ خوش اخلاق ہو''۔ (٥)
.......................................
١۔ نہج البلاغہ، حکمت ٣٤٩۔
٢۔ فقہ الرضا، ص ٢٨٢۔
٣۔ طوسی، امالی، ص ٣٩، ح ٤٣۔ کلینی، کافی، ج ٢، ص ١١٢، ح٨ ؛ صدوق، فقیہ، ج٣، ص ٥٠٦، ح٤٧٧٤۔
٤۔ آمدی، غرر الحکم، ح ٤٦١٢۔
٥۔ صدوق، ، خصال، ج١، ص ٢٢٢، ح ١٥٠ ۔ مفید، امالی، ص ١٦٦، ح ١۔
٤۔ رسول خدا ۖ نے شرم و حیا کے کچھ فوائد کی شرح کے ذیل میں فرمایا ہے:
''جو صفات حیا سے پیدا ہوتے ہیں یہ ہیں: نرمی، مہربانی، ظاہر اورمخفی دونوں صورتوں میں خدا کو نظر میںرکھنا، سلامتی، برائی سے دوری، خندہ روئی، جود وبخشش، لوگوںکے درمیان کامیابی اور نیک نامی، یہ ایسے فوائد ہیں جنھیں عقلمند انسان حیا سے حاصل کرتا ہے''۔ (١)
اسلام کی اخلاقی کتابوں میں ''وقاحت '' اور ''بے شرمی'' سے متعلق بہت سے بیانات ہیںکہ ہم اختصار کی خاطر صرف ایک روایت پر اکتفا کرتے ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق ـ اپنے شاگرد ''مفضل '' سے فرماتے ہیں: ''اے مفضل! اگرحیا نہ ہوتی تو انسان کبھی مہمان قبو ل نہیں کرتا، اپنے وعدہ کو وفا نہیںکرتا، لوگوں کی ضرورتوں کو پورا نہ کرتا، نیکیوں سے دور ہو تا اور برائیوں کا ارتکاب کرتا۔ بہت سے واجب اور لازم امور حیا کی وجہ سے انجام دئے جاتے ہیں، بہت سے لوگ اگرحیا نہ کرتے اور شرمسار نہ ہوتے تو والدین کے حقوق کی رعایت نہیں کرتے، کوئی صلہ رحمی نہ کرتا، کوئی امانت صحیح وسالم واپس نہیں کرتااور فحشاو منکر سے باز نہیں آتا''۔ (٢)

د۔حیا کے مقامات :
بیان کیا جاچکا ہے کہ ''حیا'' ناظر محترم کے حضوربرے اعمال انجام دینے سے شرم کرنا ہے۔ اس بنا پر پہلے: اسلام کی اخلاقی کتابوں میں خدا، اس کی طرف سے نظارت کرنے والے، اس کے نمایندے، انسان اور دوسروں کی انسانی اور الہی حقیقت کا ذکر ایک ایسے ناظر کے عنوان سے ہوا ہے کہ جن سے شرم وحیا کرنی چاہیے۔ (٣)
دوسرے: حیا کے لئے ناپسندیدہ اور امور ہیں اور نیکیوں کی انجام دہی میں شرم و حیا کبھی ممدوح نہیں ہے لیکن اس حد و مرز کی رعایت بہت سے افراد کی طرف سے نہیں ہوتی ہے، اس کا سبب کبھی جہالت ہے اور کبھی لاپرواہی۔ بہت سی روایات میں بعض موقع پر حیا کرنے سے ممانعت کی گئی ہے معلوم ہوتا ہے کہ حیا کے مفہوم میں پہلے بیان کئے گئے ضابطہ و قانون کے باوجود یہ تاکید اس وجہ سے ہے کہ انسان ان موارد کی نسبت ایک طرح علمی شبہہ رکھتا
.......................................
١۔ حرانی، تحف العقول، ص ٢٠۔
٢۔ مجلسی، بحار ج ٣، ص ٨١۔
٣۔ صدوق، عیون اخبار الرضا ، ج ٢، ص٤٥، ح ١٦٢ ؛ تفسیر قمی، ج ١، ص ٣٠٤ ؛ کراجکی، کنز الفؤائد، ج ٢، ص ١٨٢ ؛ طوسی، امالی، ص ٢١٠۔
ہے اور ایک حد تک ان موارد میں حیا کرنے کی تائید کے لئے توجیہات گڑھنے کی کوشش کرتا ہے، جب کہ اس کے خیالات و تصورات باطل ہیں۔ وہ بعض موارد اور مقامات جہاں حیا نہیں کرنی چاہیے، درج ذیل ہیں:
١۔ حق بات، حق عمل اور حق کی درخواست میں حیا کرنا: پیغمبر اکرم ۖ نے فرمایا: '' کوئی عمل بھی ریا اور خود نمائی کے عنوان سے انجام نہ دو اور اسے شرم و حیا کی وجہ سے ترک نہ کرو ''۔(١)

٢۔تحصیل علم سے حیاکرنا:
حضرت علی ـ نے فرمایا: '' کوئی شخص جو وہ نہیں جانتا ہے اس کے سیکھنے میں شرم نہ کرے''۔(٢)

٣۔ حلال درآمد کے حصول میں حیا کرنا:
حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''اگر کوئی مال حلال طلب کرنے میں حیا نہ کرے تو اس کے مخارج آسان ہوجائیں گے اور خدا اس کے اہل و عیال کو اپنی نعمت سے فیضیاب کرے گا''۔(٣)

٤۔ مہمانوںکی خدمت کرنے سے حیا کرنا:
حضرت علی ـ نے فرمایا: '' تین چیزیں ایسی ہیں جن سے شرم نہیں کرنی چا ہیے، منجملہ ان کے انہیں میں مہمانوں کی خدمت کرناہے''۔(٤)

٥۔دوسروں کا احترام کرنے سے حیا کرنا:
حضرت علی ـ نے فرمایا: ''تین چیزوں سے شرم نہیں کرنی چا ہیے: منجملہ ان کے اپنی جگہ سے باپ اور استاد کی تعظیم کے لئے اٹھنا ہے''۔ (٥)

٦۔ نہ جاننے کے اعتراف سے حیا کرنا:
حضرت علی ـ نے فرمایا: '' اگر کسی سے سوال کریں اور وہ نہیں جانتا تو اسے یہ کہنے میں کہ ''میں نہیں جانتا'' شرم نہیں کرنی چاہیے''۔ (٦)
.......................................
١۔ حرانی، تحف العقول، ص ٤٧، ؛ صدوق، امالی، ص ٩٩ ٣ ، ح١٢، ؛ کلینی، کافی، ج٢، ص ١١ ١، ح ٢، اور ج ٥، ص ٥٦٨، ح ٥٣ ۔
٢۔ نہج البلاغہ، حکمت ٨٢ ؛ حرانی، تحف العقول، ٣١٣۔
٣۔ حرانی، تحف العقول، ص٥٩ ؛ صدوق، فقیہ ،ج ٤، ص ٤١٠، ح ٥٨٩٠۔
٤۔ آمدی، غرر الحکم، ح ٤٦٦٦۔
٥۔ غرر الحکم۔
٦۔ نہج البلاغہ، حکمت، ٨٢ ؛ صدوق، خصال، ج ١، ص ٣١٥، ح ٩٥۔
٧۔ خداوند عالم سے درخوست کرنے میں حیا کرنا: امام جعفر صادق ـنے فرمایا: ''کوئی چیز خدا کے نزدیک اس بات سے زیادہ محبوب نہیں ہے کہ اس سے کسی چیز کا سوال کیا جائے، لہٰذا تم میں سے کسی کو رحمت خدا وندی کا سوال کرنے سے شرم نہیں کرنی چاہیے، اگر چہ اس کا سوال جوتے کے ایک فیتہ کے متعلق ہو ''۔ (١)
٨۔ معمولی بخشش کرنے سے حیا کرنا:حضرت علی ـ نے فرمایا: ''معمولی بخشش کرنے سے شرم نہ کروکہ اس سے محروم کرنا اس سے بھی کمتر ہے۔''(٢)
٩۔اہل و عیال کی خدمت کرنے سے حیا کرنا: حضرت امام جعفر صادق ـ نے مدینہ کے ایک انسان کو دیکھا کہ اس نے اپنے اہل و عیال کے لئے کوئی چیز خریدی ہے اور اپنے ہمراہ لئے جا رہا ہے، جب اس انسان نے امام کو دیکھا تو شرمندہ ہوگیا امام نے فرمایا: ''یہ تم نے خود خریدا ہے اور اپنے اہل و عیال کے لئے لے جا رہے ہو ؟ خدا کی قسم، اگر اہل مدینہ نہ ہوتے (کہ ملامت اور نکتہ چینی کریں) تو میں بھی اس بات کو دوست رکھتا کہ کچھ خرید کر اپنے اہل و عیال کے لئے لے جائوں''۔ (٣)

٤۔ عفّت
نفسانی صفات میںایک دوسر ی روکنے والی صفت عفّت اور پاکدامنی ہے۔ '' عفّت '' لغت میں نا پسند اور قبیح امر کے انجام دینے سے اجتناب کرنے کے معنی میں ہے۔ (٤) علم اخلاق کی اصطلاح میں ''عفت'' نام ہے اس نفسانی صفت کا جو انسان پر شہوت کے غلبہ اور تسلّط سے روکتی ہے۔ (٥) شہوت سے مراد اس کا عام مفہوم ہے کہ جو شکم وخوراک کی شہوت، جنسی شہوت، بات کرنے کی شہوت اور نظر کرنے کی شہوت اور تمام غریزوں (شہوتوں) کو شامل ہوتی ہے، حقیقت عفّت یہ ہے کہ شہوتوںاورغریزوں سے استفادہ کی کیفیت میں ہمیشہ شہوتوں کی جگہ عقل و شرع کا غلبہ اور تسّلط ہو۔ اس طرح شہوتوں سے منظّم ومعیّن عقلی وشرعی معیاروں کے مطابق بہرہ مند ہونے میں افراط و تفریط نہیں ہوگی۔
.......................................
١۔ کلینی، کافی، ج٤، ص ٢٠ ح ٤۔
٢۔ نہج البلاغہ، حکمت، ٦٧۔
٣۔ کلینی، کافی، ج٢، ص١٢٣، ح١٠۔
٤۔ لسان العرب، ج ٩، ص ٢٥٣ ،٢٥٤ ؛ جوہری ،صحاح اللغة، ج ٤، ص ١٤٠٥، ١٤٠٦ ؛ نہایہ، ج ٣، ص ٢٦٤۔
٥۔ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ قرآن ص ٣٥١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ١٥ ۔


الف۔ عفّت کے اقسام:
عفّت کے لئے بیان شدہ عام مفہوم کے مطابق عفّت کے مختلف ابعاد وانواع پائے جاتے ہیں کہ ان میں سب سے اہم درج ذیل ہیں:
١۔ عفّت شکم: اہم ترین شہوتوںمیں سے ایک اہم کھانے کی شہوت و خواہش ہے۔ کھانے پینے کے غریزہ سے معقول ومشروع (جائز ) استفادہ کو عفّت شکم کہا جاتا ہے جیسا کہ اس عفّت کے متعلق قرآن میں اس آیت کی طرف اشارہ کیاجا سکتا ہے کہ فرماتا ہے: ''تم میں جو شخص مالداراور تونگر ہے وہ (یتیموں کا مال لینے سے) پرہیز کرے اور جو محتاج اور تہی دست ہے تو اسے عرف کے مطابق ( بقدر مناسب) کھا نا چاہیے''۔(١) اس عفّت کی تفصیلی بحث اقتصادی اخلاق میںکی جاتی ہے۔
٢۔ دامن کی عفت: جنسی غریزہ قوی ترین شہوتوں میں سے ایک ہے اسے جائز ومشروع استعمال میں محدود کرنا اور محرمات کی حد تک پہونچنے سے روکنا ''عفّت دامن '' یا پاکدامنی کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ اسی معنی میں عفّت کا استعمال درج ذیل آیت میں ہوا ہے: ''جن لوگوںمیں نکاح کرنے کی استطاعت نہیں ہے انھیں چاہیے کہ پاکدامنی اور عفّت سے کام لیں یہاں تک کہ خدا انھیںاپنے فضل سے بے نیاز کردے ''۔ (٢)
اس عفّت کی بحث تفصیلی طور پراخلاق جنسی میں بیان کی جائے گی ۔اگر چہ اپنے آپ کو شہوتوںکے مقابل بچانا شکم اور دامن کی شہوت میں منحصر نہیں ہے، بلکہ تمام شہوتوں کو شامل ہے لیکن چونکہ یہ دونوں ان سب کی رئیس ہیں اور اخلاق کی مشہور کتابوں میں صرف انھیںدو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے حتیٰ بعض علماء نے ان دو کو عفّت کی تعریف میں بھی شامل کیا ہے، (٣) لہٰذا انھیں دو قسموں کے ذکر پر اکتفا کی جاتی ہے۔ دوسری طرف ان دو قسموں میں سے ہر ایک، ایک خاص عنوان سے مربوط ہے لہٰذا ہر ایک کی اپنے سے متعلق عنوان میں مفصل بحث کی جائے گی، یہا ں پر ان کے بعض کلی اور مشترک احکام کا ذکر کررہے ہیں۔
.......................................
١۔ سورئہ نسائ، آیت ٦، اسیطرح سورئہ بقرہ، آیت ٢٧٣ ملاحظہ ہو۔
٢۔ سورئہ نور، آیت ٣٣؛ اسی طرح ملاحظہ ہو: آیت ٦٠۔
٣۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص١٥۔


ب۔عفّت کی اہمیت:
حضرت علی ـ نے فرمایا: '' سب سے افضل عبادت عفّت ہے '' ۔(١) اور حضرت امام محمد باقر ـ سے منقول ہے: ''خدا کے نزدیک بطن اور دامن (شرمگاہ) کی عفّت سے افضل کوئی عبادت نہیں ہے ''۔ (٢) اور جب کسی نے آپ سے عرض کیا کہ میں نیک اعمال انجام دینے میں ضعیف اور کمزور ہوں اور کثرت سے نماز نہیں پڑھ سکتا اور زیادہ روزہ نہیں رکھ سکتا، لیکن امید کرتا ہوںکہ صرف مال حلال کھاؤں اور حلال طریقہ سے نکاح کروں تو حضرت امام محمد باقر ـ نے فرمایا: '' عفّت بطن ودامن سے افضل کون سا جہاد ہے ؟'' (٣) رسول خدا ۖ اپنی امت کے سلسلہ میں بے عفتی اور ناپاکی کے بارے میںاپنی پریشانی کا اظہار یوں کرتے ہیں: ''میں اپنے بعد اپنی امت کے لئے تین چیز کے بارے میں زیادہ پریشان ہوں معرفت کے بعد گمراہی، گمراہ کن فتنے اور شہوت بطن ودامن''۔(٤)
ایک دوسرے بیان میں فرماتے ہیں: ''میری امت کے جہنم میں جانے کا زیادہ سبب شہوت شکم ودامن کی پیروی کرناہے'' ۔(٥)

ج۔ عفّت کے اسباب:
شکم اور دامن کی عفّت میں سے ہرایک کے پیدا ہونے کے اسباب اقتصادی اور جنسی اخلاق سے مربوط بحث اور اس کے مانند دوسری بحثوں میں بیان کئے جاتے ہیں۔ لیکن روایت میں عام عوامل واسباب جیسے عقل، ایمان، تقویٰ حیا و مروت کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ اختصار کی رعایت اور ایک حد تک ان کی علت کے واضح ہونے کی وجہ سے ان میں سے ہر ایک کے ذکر سے صرف نظر کرتے ہیں۔
.......................................
١۔ کلینی، کافی، ج٢، ص٧٩ ،ح ٣۔
٢۔ جامع السعادات، ص ٨٠، ح ٨ ۔ ص ٧٩، ح ١۔
٣۔ جامع السعادات، ص ٧٩، ح ٤ ۔
٤۔ جامع السعادات، ح ٦ ۔
٥۔ جامع السعادات، ص ٨٠، ح ٧۔


د۔ عفّت کے موانع:
عفّت کے عام موانع میں ''شرارت '' اور ''خمود '' ( سستی اور سہل انگاری ) ہے، ان دونوں کی مختصرتوضیح درج ذیل ہے:
١۔ شرارت:
شرارت سے مراد اپنے عام مفہوم کے لحاظ سے شہوانی قوتوں کی پیروی کرنا ہے اس چیز میں جو وہ طلب کرتی ہیں، (١) خواہ وہ شہوت شکم ہو یا شہوت مال دوستی یا اس کے مانند کسی دوسری چیز کی شہوت ۔ شرارت یعنی جنسی لذتوں میں شدید حرص کا ہونا اور ان میں زیادتی کا پایا جانا۔(٢) حضرت علی ـ نے شرارت کی مذمت میں فرمایا ہے: '' شرارت تمام عیوب کی رئیس ہے''۔(٣) حضرت امام جعفر صادق ـ کا بیان اس سلسلہ میں یہ ہے: کہیںایسا نہ ہو کہ جو کچھ خدا نے تم پر حرام کیا ہے اس کا تمہارا نفس حریص ہوجائے کیونکہ جو شخص بھی دنیا میں حرام خدا وندی کا مرتکب ہوگا خداوند سبحان اسے جنت سے اور اس کی نعمتوں اور لذتوں سے محروم کردے گا ''۔ (٤)
٢۔ خمود:
''شرارت'' کے مقابل ہے یعنی ضروری خوراک کی فراہمی میں کاہلی اور کوتاہی کرنا اور جنسی غریزہ سے ضروری استفادہ کرنے میں سستی اور کوتاہی کرنا اس طرح سے کہ صحت و سلامتی، خاندان کی تباہی اور نسل کے منقطع ہونے کا سبب بن جائے ۔ یہ واضح ہے کہ یہ حالت غریزوں اور شہوتوں سے استفادہ میں تفریط اور کوتاہی کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ (٥) ''خمود'' حکمت خلقت کے مخالف اور نسل انسان کے استمرار و دوام نیز اس کی بقا اور مصلحت کے مخالف ہے، اس کے علاوہ اسلامی اخلاق میں غرائز وشہوات سے جائز استفادہ کی جوکثرت سے تاکید پائی جاتی ہے اور جو کچھ رہبانیت اور دنیا سے کنارہ کشی کی مذمت کے سلسلہ میں بیان ہوا ہے وہ سب '' خمود '' کی قباحت کو بیان کرتے ہیں ۔اس امر کی تفصیلی بحث '' اخلاق جنسی '' میں ہوگی۔
.......................................
١۔ ابن منظور، لسان العرب، ج ١٣، ص ٥٠٦۔
٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ٤۔
٣۔ ؛ کلینی، کافی، ج٨، ص ٩ ١، ح٤ ؛ نہج البلاغہ، حکمت، ٣٧١۔
٤۔ کلینی، کافی ، ج٨، ص ٤، ح ١۔
٥۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ١٣۔


ہ۔ عفّت کے فوائد :
روایات میں عفّت کے متعدد دنیوی اور اخروی فوائد بیان کئے گئے ہیں جیسے پستیوں سے نفس کی حفاظت کرنا، شہوتوں کو کمزور بنانا اور عیوب کا پوشیدہ ہونا کہ یہاں اختصار کے پیش نظررسول خدا ۖ کے ایک کلام کے ذکر پر اکتفا کرتے ہوئے اس بحث کو ختم کررہے ہیں۔
عفّت کے علائم یہ ہیں: جو کچھ ہے اس پر راضی ہونا، اپنے کو معمولی اور چھوٹا سمجھنا، نیکیوں سے استفادہ کرنا، آسائش اور راحت میں، اپنے ما تحتوں اور مسکینوں کی دل جوئی، تواضع، یا د آوری ( غفلت کے مقابل )، فکر، جو د و بخشش اور سخاوت کرنا۔(١)

٥۔ صبر
نفسانی صفات میں سب سے عام اور اہم روکنے والی صفت ''صبر '' ہے۔ ''صبر '' کے معنی عربی لغت میں حبس کرنے اور دباؤ میں رکھنے کے ہیں۔(٢) اور بعض نے اسے بے تابی اور بے قراری سے نفس کو باز رکھنے سے تعبیر کیا ہے۔ (٣) اخلاقی اصطلاح میں صبرنام ہے نفس کو اس چیز کے انجام دینے اور آمادہ کرنے جس میں عقل و شرع کا اقتضاء ہونیز اس چیز سے روکنا جسے عقل وشرع منع کرتے ہیں۔ (٤) مذکورہ تعریفوں کے پیش نظر ''صبر '' ایک ایسی عام اور روکنے والی نفسانی صفت ہے کہ جس میں دو اہم جہت پائے جاتے ہیں : صبر ایک طرف انسان کی غریزی اور نفسانی خواہش اور میلان کوحبس اور دائرئہ عقل وشرع میںمحدود کرتا ہے۔ دوسری طرف نفس کو عقل وشرع کے مقابل ذمہ داری سے فرار اختیار کرنے سے روکتا ہے اور اسے اس بات پر ابھارتا ہے کہ اپنے کو فرائض الہی کی پابندی کے لئے زحمت اٹھانے اور دشواریوں کا سامنا کرنے کے لئے آمادہ کرے، البتہ اگر یہ حالت انسان میں سہولت و آسانی سے پیدا ہوجائے تو اسے ''صبر'' اور اگر انسان زحمت ومشقت میں خود کو مبتلا کرکے اس پر آمادہ کرے تو اسے '' تصبر '' (زبردستی صبر کرنا )کہتے ہیں۔
.......................................
١۔ حرانی، تحف العقول، ص٢٠۔
٢۔ زبیدی، تاج العروس، ج ٧، ص ٧١ ؛ راغب اصفہانی، مفردات، ٤٧٤ ؛ ابن منظور، لسان العرب، ج ٤، ص ٤٣٨۔
٣۔ جوہری، صحاح اللغة، ج ٢، ص ٧٠٦۔ طریحی، مجمع البحرین، ج ٢، ص ١٠٠٤۔
٤۔ راغب اصفہانی، معجم مفردات الفاظ قرآن، ص ٤٧٤۔

الف۔ صبر کی قسمیں:
صبر کے لئے جو عام اور وسیع مفہوم بیان کیا گیا ہے اس کے مطابق علماء اخلاق نے متعدد جہات سے صبر کے لئے مختلف اقسام و انواع بیان کی ہیں کہ ان میں سے اہم ترین اقسام کو اختصار کے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے۔
١۔ مفہوم کے لحاظ سے:
مذکورہ تعریفوں کے مطابق کبھی صبر سے مراد نفسانی جاذبوں اور دافعوں میں ہر قسم کی محدودیت کا ایجاد کرنا ہے کہ جو ایک عام مفہوم ہے اور کبھی اس سے مرادناگوار امور کی نسبت عدم رضایت اور بے تابی کے اظہار سے نفس کو روکنا ہے۔ اس لحاظ سے صبر کے دو مفہوم ہیں کہ کبھی خاص مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔
٢۔ موضوع کے لحاظ سے:
صبر اپنے عام مفہوم میں موضوع کے اعتبار سے متعدد انواع کا حامل ہے۔
کبھی صبر سختیوں اور مصیبتوںپر ہوتا ہے جو کہ ان سختیوں اور مصیبتوں کے مقابل مضطرب وپریشان نہ ہونا اور سعہ صدر کی حفاظت ہے، اسے '' مکروہات پر صبر '' کہتے ہیں اور اس کے مقابل ''جزع '' اور بے قرار ی ہے صبر کی رائج قسم یہی ہے۔ جنگ کی دشواریوں پر صبر کرنا '' شجاعت'' ہے اور اس کے مقابل '' جبن '' بزدلی اور خوف ہے۔ اور کبھی صبر غیض و غضب کی سرکشی اور طغیانی کے مقابل ہے کہ اسے '' حلم '' اور '' کظم غیظ '' کہتے ہیں۔ کبھی صبر عبادت کے انجام دینے میں ہے کہ اس کے مقابل ''فسق '' ہے جو شرعی عبادت کی پابندی نہ کرنے کے مفہوم میں ہے۔ اور کبھی صبر شکم کی شہوت اور جنسی غریزہ کے مقابل ہے کہ جسے '' عفّت ''کہتے ہیں۔ اور دنیا طلبی اور زیادہ طلبی کے مقابل ہے جو کہ ''زہد '' ہے اور اس کے مقابل '' حرص '' ہے۔ اور کبھی صبر اسرار کے کتمان پر ہوتا ہے کہ جسے راز داری کہتے ہیں۔ (١)
٣۔ حکم کے لحاظ سے:
صبر اپنے تکلیفی حکم کے اعتبارسے پانچ قسم میں تقسیم ہوتاہے: واجب صبرجو کہ حرام شہوات ومیلانات کے مقابل ہے۔ اور مستحب صبر مستحبات کے انجام دینے پر ہونے والی دشواریوں کے مقابل ہے۔ حرام صبر جو بعض اذیت و آزار پر ہے جیسے انسان کے مال، جان اور ناموس پر دوسروں کے تجاوز کرنے پر صبر کرنا۔ صبر ناگوار اور مکروہ امور کے مقابل جیسے عاشور کے دن روزہ رکھنے کی سختی پر صبر کہ جو مکروہ ہے ان موارد کے علاوہ
مباح ہے، لہٰذا ہمیشہ صبر پسندیدہ اور محبوب شیٔ نہیں ہے، بلکہ کبھی حرام اور کبھی مکروہ بھی ہوجاتا ہے۔ (٢)
.......................................
١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٣، ص٢٨٠، ٢٨١؛ رسول اکرم ۖنے ایک حدیث میں صبر کی تین قسم بیان کی ہے: مصیبت کے وقت صبر، طاعت و بندگی پر صبر، اور معصیت و گناہ پر صبر۔ کلینی، اصو ل کافی، ج ٢، ص ٩١، ح ١٥۔ اسی طرح بعض علماء اخلاق نے صبر کو اس وجہ سے دو قسم پر تقسیم کیا ہے متاع دنیا (سراء ) پر صبر اور بلا (ضراء ) پر صبر۔ ملاحظہ ہو نراقی، جامع السعادات، ج٣، ص ٢٩٣، ٢٩٤۔
٢۔ نراقی، جامع السعادات، ج٣، ص ٢٨٥۔

ب۔ صبر کے درجات:
بعض علماء اخلاق اور اہل معرفت نا گوار امور پر صبر کرنے ( صبر خاص )کے لئے تین درجوں کے قائل ہوئے ہیں۔
١۔ تائبین کا صبر: اوراس سے مراد ہے شکوہ کا ترک کرنا، بے تابی اور بے قراری کا ثبوت نہ دینا، اور غیر فطری اور پریشان کن رفتارنہ رکھنا۔
٢۔ زاہدین کا صبر: یعنی اول درجہ کے علاوہ جوسختیاں، درد والم انسان کے لئے مقدر ہوئی ہیں ان پر قلبی طور سے راضی ہونا۔
٣۔ صدیقین کا صبر: یعنی پہلے دودرجہ کے علاوہ نسبت اس چیز سے جو خدا وند عالم نے اس کے لئے معین کر رکھا ہے، عشق کرنا اور اسے دوست رکھنا ۔(١)

ج۔ صبر کی اہمیت:
کلمہ ''صبر ''مختلف صورتوں میں سو بار سے زیادہ قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے کہ جس سے خود ہی اس موضوع کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ قرآن کریم بعض بنی اسرائیل کی ہدایت وپیشوائی کے منصب تک پہونچنے کی علت کے بیان میںفرماتا ہے: ''اور جب انہوں نے صبر کیا اس حال میں میری آیتوں پر یقین رکھتے تھے تو ہم نے ان میں سے بعض کو پیشوا قرار دیا کہ وہ ہمارے حکم سے (لوگوں کی) ہدایت کرتے تھے''۔ (٢) اور آخرت میں صابروں کی کیفیت جزا کے بارے میں ایک جگہ پر ان کے عمل سے بہتر جزا کا وعدہ دیتا ہے: ''یقینا ً جن لوگوں نے صبر کیا تو جو انہوں نے عمل کیا ہے ہم انھیں اس سے بہتر جزا دیں گے''۔ ٣)
دوسری آیت میں صابروں کی مقدار جزا کی تعیین کے بارے میں ارشاد ہو تا ہے: ''وہ لوگ کہ جنہوں نے صبر کیا اور نیکیوں سے برائی کو دور کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انھیںروزی دی ہے اس میں سے انفاق کرتے ہیں اس لئے وہ لوگ دہر ی جزا پائیں گے''۔ (٤)
.......................................
١۔ نراقی، جامع السعادات، ج٣ ، ص ٢٨٤۔
٢۔ سجدہ ٢٤۔
٣۔ نمل ٩٦۔
٤۔ قصص ٥٤۔
دوسری جگہ پر اعلان کرتا ہے کہ صابروں کا اجر اور ان کی جزابے حد اور ناقابل شمار ہے اور وہ لوگ بے حساب جزا پائیں گے: ''بے شک صابرین اپنی جزا بے حساب پوری پوری پائیں گے''۔ (١) اسی طرح خداوند عالم نے صابروں کو ہمراہی کا وعدہ دیا ہے: '' صبر کروکیونکہ خدا صابروں کے ساتھ ہے ''۔(٢ ) وہ نصرت اور کامیابی کو صرف اور صر ف صبر و شکیبائی کے سایہ ممکن جانتا ہے''۔ (٣) ہدایت، درود اور رحمت پروردگار کو صابروں کے حق میں قرار دیتا ہے۔ (٤) صابروں کو اپنے دوستوں اور محبوبوںکے زمرہ میں بیان کرتا ہے۔ (٥) بارہا اور بارہا اپنے رسولوںاور تمام انسانوں کو صبر کی تاکید کرتا ہے۔ (٦) اپنے خاص بندوں کے بارے میں نقل کرتا ہے کہ وہ لوگ ہمیشہ خداوند سبحان سے صبر و شکیبائی کی توفیق کی درخواست کرتے رہے ہیں۔ (٧) اس کے علاوہ مزید اور دسیوںمورد ہیں جو اسلام کے اخلاقی نظام میںصبر کی اہمیت بیان کرتے ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق ـ بھی فرماتے ہیں: ''صبر ایمان کے لئے وہی حیثیت رکھتا ہے جو جسم کے لئے سر کی حیثیت ہے، جس طرح سر کے نہ ہونے سے جسم کا خاتمہ ہوجاتاہے اسی طرح اگر صبر نہ ہوتوایمان بھی جاتارہے گا ''۔ (٨) حضرت امام محمد باقر ـ سے صبر کی اہمیت کے بارے میں نقل ہوا ہے : '' جنت نا گواریوں سے گھری ہوئی ہے لہٰذا جو بھی دنیا میں نا گوارچیزوں پر صبر کرے وہ بہشت میں جائے گا۔ اور دوزخ نفسانی خواہشات اور لذّات میں گھری ہوئی ہے، لہٰذا جو بھی نفسانی خواہشات ولذات کی تکمیل کرے گا، وہ جہنم میںجائے گا ''۔ (٩)
.......................................
١۔ زمر ١٠۔
٢۔ انفعال ٤٦۔
٣۔ آل عمران ١٢٥۔
٤۔ بقرہ ١٥٧۔
٥۔ آل عمران ١٤٦۔
٦۔ احقاف ٣٥۔
٧۔ بقرہ ٢٥٠ ؛ اعراف ١٢٦۔
٨۔ کلینی، کافی ج ٢، ص٨٩، ح ٥۔
٩۔ ایضاً، ح٧۔


د۔ صبر کے فوائد:
صبر کے بہت سے دینی و دنیوی فوائد شمار کئے جاسکتے ہیں، منجملہ ان کے حضرت علی ـ بعض گذشتہ امتوں کی عزت وذلت کے بارے میں اپنے ایک خطبہ میں فرماتے ہیں: ''جب خدا نے دیکھا کہ وہ کس طرح اس سے دوستی کی راہ میں اذیت و آزار پر صابر ہیں اور اس کے خوف سے نا گواریوں پر صبر و تحمل کرتے ہیں تو اس نے انھیںگرداب بلا سے نکال کر گشائش عطا کی، اور ذلت و خواری کے بعد انھیںبا آبرو بنایا اور سکون و اطمینان کو خوف کا جا گزیں بنادیا۔ پھر وہ حکمراں بادشاہ اور باعظمت و شان پیشوا ہوگئے اور خدا کی کرامت ان کے حق میں یہاںتک پہنچ گئی کہ دیدۂ آرزو ان کے آخری درجہ کہ وہ اس جگہ پہونچا ان کی نگاہ اور اس کی انتہا کو نہ دیکھ سکی''۔ (١)
بعض علماء اخلاق نے صبر کو مقدّرات الٰہی پر راضی رہنے کے مقام رضایت تک پہونچنے کا دروازہ قراردیا ہے، اور مقام رضا کو محبت پروردگار کی وادی تک پہونچنے کا دروازہ جانا ہے۔ (٢) اس لحاظ سے صبر کے اہم فوائد میں سے اسی دنیا میں مقام '' رضا '' و'' محبت '' تک رسائی کا نام لیا جا سکتا ہے۔
''صبر '' کے لئے دیگر متعدد موضوعات بھی قابل ذکر ہیں، جیسے صبر و شکر میں مناسبتیں، صبر کے حصول کی راہیں اور اس کے مانند دوسرے موضوعات کہ اختصار کے پیش نظر ان کا ذکر نہیں کیا جارہا ہے۔
.......................................
١۔ نہج البلاغہ، خطبہ ١٩٢۔
٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٣، ص ٢٨٣۔