چوتھی فصل: مؤثر نفسانی صفات
ز۔ نفس کو قابو میں رکھنے والے رجحان
نفس کو قابو میں رکھنے والے رجحان سے مراد وہ نفسانی صفات اور ملکات ہیں جو بہت سے اخلاقی رذائل سے روکنے کا کردار ادا کرتے ہیں اور دوسری طرف متعدد اخلاقی فضیلتوںکی راہ ہموار کرتے ہیں، اس قسم میں ممتاز نفسانی صفات درج ذیل ہیں:
١۔ نفس کی قوت
ایک ایسا نفسانی ملکہ ہے جو انسان کو اس بات کی قدرت بخشتاہے کہ پیش آنے والے حوادث خواہ کتنے ہی عظیم کیوں نہ ہوں آسانی سے تحمل کر سکے۔ قوت نفس کی فضیلت و عظمت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ خدا وند عالم قرآن کریم میںارشاد فرماتا ہے: '' عزت خدا، پیغمبر خدا ۖ اور مومنین ہی کے لئے ہے ''۔ (١)
حضرت امام جعفر صادق ـ نے اس سلسلہ میں فرمایا: ''خدا وند عالم نے مومنین کے تمام امور اس کے حوالے کر رکھے ہیں، لیکن اس نے اجازت نہیں دی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ذلیل و خوار کردے۔ آیا خدا وندعالم کا یہ کلام نہیں دیکھتے کہ اس نے فرمایا ہے: '' وللہ العزة و لرسولہ وللمومنین'' (عزت اﷲ، اس کے رسول اور مومنین ہی مخصوص ہے) لہٰذا سزاوار ہے کہ مومن با عزت ہو، ذلیل نہ ہو''۔(٢)
(ایک) قو ت نفس کے فوائد
نفسانی قوت وقدرت، نفس پر بہت سے سود مندو مفید اثرات و نتائج چھوڑتی ہے کہ ان میں سے ہر ایک خود بھی نفسانی ملکہ اس کے مقابلہ نفس کیضعیف ہونے سے بہت سے اخلاقی رذائل مرتب ہوتے ہیں۔ ذیل میں انسان کی روحی عظمت فوائد کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔
.......................................
١۔ سورئہ منافقون، آیت ٨۔
٢۔ کلینی، کافی، ج ٢۔
١لف۔ ثبات اور اطمینان ( عدم اضطراب ) :
ثبات ایک ایسا نفسانی ملکہ ہے جو انسان کو اس بات کی قدرت عطا کرتا ہے کہ خطروں میں پڑ کر مشکلات اور رنج والم کی سختیوں کا ،خواہ کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہوں، مقابلہ کرے، بغیر اس کے کہ اس میں ذر ہ برابر بھی شکستگی پیدا ہو۔ اس کے مقابل مشکلات وخطرات کے وقت اضطراب، تزلزل ہے۔ ثبات وپا یداری کے گونا گوں مظاہر پائے جاتے ہیں کہ ان میں سب سے نمایاں شکوک وشبہات کے مقابل ایمان میں پایداری اور ثبات ہے۔ قرآن کریم اس سلسلہ میں فرماتا ہے: '' خدا وندعالم صاحبان ایمان کو دنیوی اور اخروی زندگی میں محکم واستوار سخن سے ثابت وپایداربناتا ہے ''۔(١)
واضح ہے کہ ایمان میں ثبات اور عد م تزلزل تمام اہم نفسانی رجحانا ت کی پایداری و ثبات کا مقدمہ ہے۔ یہ امر خود بھی عمل صالح انجام دینے میں پایداری و ثبات کاباعث ہوگا۔ ثبات و پایداری معرفت کا نتیجہ ہونے کے ساتھ ساتھ روح کی قوت وعظمت کا بھی نتیجہ ہے جوکہ اہم نفسانی فضائل میں سے ایک ہے۔(٢)
ب۔ بلند ہمتی:
یعنی کمال و سعادت کے حصول اورعالی ترین امور تک پہنچنے کے لئے اس طرح سے کوشش کرنا کہ ان تک پہنچنے کی راہ میں دینوی نفع ونقصان کی طرف توجہ نہیںدے۔ بلند ہمت افراد کو دنیوی منافع شاد و مسرور اور اس کے نقصانات غمگین ومحزون نہیں کرتے حتی کہ بلند اہداف تک پہنچنے میں موت اور قتل کئے جانے کی بھی پرواہ نہیں کرتے ۔اس کے مدمقابل کوتاہی اورپست ہمتی ہے کہ پست ہمت شخص بلند اہداف کی طلب میںکوتاہی کرتا اور صرف پست اور معمولی امور پر قناعت کرتا ہے یہ نفسانی صفت خود ہی روح کی عظمت وقوت کا نتیجہ ہے اوربلا شبہہ نفسانی فضائل میں سے ایک ہے، کیونکہ قابل قدر اوربلند انسانی اہداف تک رسائی بلند ہمتی اور عظیم جد و جہد کے بغیر میسر نہیں ہے، شہامت ( شجاعت) جوکہ خود ایک با اہمیت نفسانی ملکہ ہے، اسے بلند ہمتی کے مصادیق میں شمار کیا گیا ہے۔(٣)
ج۔ غیرت وحمیت:
یعنی جس چیز کی حفاظت لازم ہے اس کی پاسداری و محافظت کی کوشش کرنا، یہ حالت روح وشہامت کی قوت و عظمت کے نتائج میں سے ایک ہے۔ حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا ہے: ''خدا وند تبارک و تعالی غیرت مند ہے اور ہر غیرت مند کو دوست رکھتاہے اس کی غیرت مندی ہی ہے کہ اس نے برائیوں کو خواہ ظاہر ہوں یا پنہاں، حرام کیا ہے''۔(٤)
.......................................
١۔ سورئہ ابراہیم، آیت ٢٧۔
٢۔ نراقی، محمد مہدی، جا مع السعادات، ج ١، ص ٢٦٢۔
٣۔ ایضاً، ج١، ص ٢٦٣، ٢٦٤۔
٤۔ کلینی، کافی، ج ٥، ص ٥٣٥، ح ١۔
حضرت علی ـ نے بھی فرمایا ہے : '' نسان کی قدر وقیمت اس کی ہمت کے اعتبار سے ہے ..... اور اس کی دلیری اس کے ننگ رکھنے کے بقدر ہے (پستیوں اور رذالتوں کو تسلیم کرنے کے اعتبار سے) ، اور اس کی پاکدامنی اس کی غیرت کے بقدر ہے''۔ (١)
علماء اخلاق نے غیرت کے متعدد مقامات اور موارد ذکر کئے ہیں اور چونکہ بعض اخلاقی نصوص اس کے خاص موارد کی طرف ناظر ہیںلہٰذا بہتر ہے کہ ان میں سے ہر ایک کو اختصار کے ساتھ بیان کیا جائے۔
١۔ دین میں غیرت:
دین میں غیرت کا لازمہ یہ ہے کہ بدعتوں اوراہانتوں کے مقابل دین کے تحفظ کی کوشش کریں، اور شبہہ ایجاد ہونے کی صورت میں اس کاشائستہ انداز میں دفاع کریں۔ دین کے احکام کی نشرو اشاعت کے لئے میں کوشاںرہیں اورامربہ معروف ونہی عن المنکر کرنے میں تساہلی سے کام نہ لیں۔
٢۔ نامو س کے لئے غیرت:
اسلام کے اخلاقی نصوص میں مردوں کو ایسی غیرت مندی کی طرف شدت کے ساتھ ترغیب دلائی گئی ہے اور ان کا یہ فریضہ بیان کیاگیا ہے اور جو انسان ایسی غیرت کا مالک نہیں ہے اس کی سختی کے ساتھ مذمت ہوئی ہے۔ حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: '' بے حس اور بے غیرت مردوں پربہشت حرام کردی گئی ہے '' ۔(٢) اور پیغمبر اکرم ۖ نے فرمایا: '' بہشت کی خوشبو پانچ سو سالہ راہ کے فاصلہ سے انسان کے مشام تک پہنچے گی لیکن نا خلف اولاد اور بے حس وبے غیرت انسان اسے سونگھ نہیں سکتا''۔ (٣) امام محمد باقر ـ نقل کرتے ہیں: اسیروںکے ایک گروہ کو رسول خدا ۖ کے پاس لایا گیا توپیغمبر ۖنے دستور دیا کہ ان کے درمیان ایک شخص کو آزاد اور باقی کوقتل کردیا جائے ۔ آزاد شدہ شخص نے سوال کیا: آپ نے مجھے کیوں آزاد کردیا ؟ پیغمبر اکرم ۖ نے جواب دیا: جبرئیل نے خدا کی طرف سے مجھے خبر دی ہے کہ تم میں پانچ ایسی خصلتیں پائی جاتی ہیں جنھیں خدا اور اس کا رسول دوست رکھتا ہے اپنی ناموس کے سلسلہ میں غیرت مند، جود و سخا، خوش اخلاقی، قول میں صداقت اور شجاعت۔ وہ انسان اس بات کے سنتے ہی مسلمان ہو گیا اور اپنے ایمان پر ثابت قدم رہا یہاں تک کہ ایک غزوہ میں درجہ شہادت پر بھی فائز ہوا''۔(٤)
.......................................
١۔ کلینی، کافی، ج٥، ص ٥٣٧، ح ٨۔
٢۔ نہج البلاغہ، حکمت ٤٧، ٣٠٥۔
٣۔ صدوق، فقیہ، ج٣، ص ٤٤٤، ح ٤٥٤٢۔
٤۔ حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج ٢٠، ص ١٥٥۔
یہ بات مخفی نہ رہے کہ ناموس کے سلسلہ میں حد سے زیادہ غیرت دکھانا ہرگز پسندیدہ نہیں ہے بلکہ بعض اوقات فساد کاباعث بھی ہوسکتا ہے۔ غیرت کا مقام وہاں ہے جہاںحرام کے ارتکاب کا یقین ہو یا انسان کو مقام تہمت وبد گمانی میں واقع ہونے کا خطرہ ہو۔ حضرت علی ـاپنے فرزند امام حسن ـ کو وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ''بے جاغیرت سے پرہیز کرو کہ یہ چیز صحیح و سالم عورت کو بیمار بنادے گی اور پاکدامن کو بد گمانی (اور گناہ کی فکر) میں ڈال دے گی۔(١)
٣۔ اولاد کے سلسلہ میں غیرت:
اولاد کے سلسلہ میں غیرت کا مطلب یہ ہے کہ آغاز طفولیت سے ہی ان کی مادی ضرورتوں کو پوراکرنے کے لئے حلال راستوںسے کوشش کرے۔ ان کی صحیح تربیت کرنے کے لئے کوشاں رہے اور ایسے خطرات سے اولاد کی حفاظت کرے جو ان کی جسمانی یا اخلاقی صحت و سلامتی کے لئے چیلنج ہوں۔
٤۔ مال کے سلسلہ میںغیرت:
اس میں کوئی شک نہیں کہ مال دنیا میں انسان کی بقا کا ضامن نیز علم و عمل اور اخروی سعادت کی تحصیل کا وسیلہ ومقدمہ ہے۔ اس وجہ سے ہر عاقل پر لازم ہے کہ اس کی تحصیل کے لئے جائز و مشروع راستوں سے کوشش کرے اور اس کی محافظت ونگہداری کے سلسلہ میںاپنی غیرت کا مظاہرہ کرے۔ مال کے متعلق غیرت دکھانے کا مطلب یہ ہے کہ اسے دنیا اور آخرت کی بھلائی کے علاوہ کسی اور راہ میں ضایع نہ کرے، خود نمائی اور دکھاوے میں خرچ نہ کرڈالے، اسے بے نیازوں کے حوالے نہ کردے، اس کے خرچ کرنے اوربخشش کرنے کے سلسلہ میں اسراف کا راستہ نہ اپنائے(٢)
د۔ وقار اور قلبی سکون:
اخلاقی لغت میں ''وقار '' رفتار و گفتار اور حرکات میں پائے جانے والے سکون واطمینان کانام ہے۔ اس وجہ سے ''وقار'' ایک ایسا عام مفہوم ہے جو''تأنی ّ'' اور ''توقّف '' دونوں کو شامل ہوتا ہے؛ اس لئے کہ ''توقف '' ہر طرح کے اقدام سے پہلے لمحہ فکریہ اور اپنے اوپر کنٹرول کرنے کا نام ہے تاکہ اس اقدام کا درست ہونا انسان پر آشکار ہوجائے۔ ''تأنی ّ'' گفتار ورفتار کے شروع ہونے کے بعد ذہنی سکون و اطمینان کا نام ہے تاکہ امور کو شائستگی کے ساتھ مرحلہ انجام تک پہنچاسکے۔
.......................................
١۔ نہج البلاغہ، مکتوب ٣١۔
٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج١، ص ٢٦٥، ٢٧٤۔
وقار اور قلبی اطمینان وسکون کے درمیان نسبت کے بارے میںکہا گیا ہے کہ جب بھی کوئی انسان رفتار و گفتار میں زحمت و تکلف کے ساتھ سکون کو حاکم قرار دے تو ایسے انسان کو با وقار کہتے ہیں، لیکن قلبی سکون و اطمینان اس وقت حاصل ہوگا جب سکون ایک صفت اور ملکہ کی صورت میں نفس کے اندر موجود ہو۔ بعبارت دیگر وقار ظاہری سکون اور سکینہ باطنی سکون کو کہتے ہیں۔(١) رسول خدا ۖ وقار کی اہمیت کوبیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ''اسلام عریاں ہے اور اس کا لباس حیا اور اس کا زیور وقار ہے ''۔ (٢)
حضرت علی ـ پرہیزگاروںکی خصوصیت کے بارے میں فرماتے ہیں: '' وہ لوگ زلزلوں (سختیوں) میں ہیں''۔ (٣) حضرت امام جعفر صادق ـ اس گراں قیمت صفت کی تحصیل کے سلسلہ میں فرماتے ہیں: ''طلب علم کی کوشش کرواور اس کے ساتھ ساتھ خود کو حلم و وقار سے آراستہ کرو'' ۔(٤) قرآن قلبی سکون و اطمینان کو مومنین کے صفات میں شمار کرتا ہے اور اس کی تحصیل کی راہ خداوند عالم کی یاد کو جانتا ہے۔ '' وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کے دل یاد الہی سے مطمئن ہیں، آگاہ ہو جاؤ کہ یاد الہی سے دلوںکو اطمینان نصیب ہوتا ہے ''۔ (٥) خداوند عالم متعدد مقامات پر اعلان کرتا ہے کہ ہم نے سکون و اطمینان کوپیغمبر اکرم ۖ اور مومنین کے دلوں پر نازل فرمایا ہے۔ '' وہ ہے جس نے مومنین کے دلوں میں سکون نازل کیا تاکہ وہ اپنے ایمان میں مزید ایمان کا اضافہ کریں ''۔ (٦)
واضح ترین اسباب و علل جو وقار کے حصول کے لئے روایات میں بیان ہوئے ہیں مندرجہ ذیل ہیں:
١۔ خدا وند عالم کی بندگی:
حضرت علی ـ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: جو شخص خاندان اور قبیلہ کے بغیر عزت، سلطنت کے بغیر ہیبت، مال کے بغیر بے نیازی اور جود و بخشش کے بغیر فرمانبرداری کا طالب ہو تو اسے چاہیے کہ خدا کی نافرمانی کی ذلّت سے نکل کر اس کی بندگی کی عزّت کی طرف آجائے۔(٧)
.......................................
١۔ جامع السعادات، ص ٢٧٩ ،٢٨٠۔ ابو ہلال عسکری ؛ معجم الفروق اللغة، ص٢٨٠ ؛ المیزان، طباطبائی، ج٩، ص٧ ٢٢تا ٣ ٢٢۔ اورج٢، ص٢٨٩تا ٢٩١۔
٢۔ کلینی، کافی، ج٢، ص ٤٦، ح٢۔
٣۔ نہج البلاغہ، خطبہ ١٩٣۔ اسی طرح ملاحظہ ہو: صدوق، فقیہ، ج ٤، ص٣٥٤، ح ٥٧٦٢۔
٤۔ کلینی، کافی، ج ١، ص ٣٦، ح١۔
٥۔ سورئہ رعد، آیت ٢٨۔
٦۔ سورئہ فتح، آیت ٤، نیز ملاحظہ ہو آیات ١٨، ٢٦ ؛ طباطبائی، المیزان، ج ٢ ص ٢٨٩تا ٢٩١ اور ج ٩، ص٢٢٣تا ٢٢٧۔
٧۔ خزاز، قمی، کفاےة الاثر، ص ٢٢٨ ؛ مجلسی بحار الا نوار، ج ١ ٧، ص ٩ ١٧، ح ٢٩۔
٢۔ علم و حکمت:
حضرت علی ـاس سلسلہ میں فرماتے ہیں: ''جو شخص حکمت سے آگاہ ہے اس کو نگاہیں ہیبت اور وقار کی نظر سے دیکھتی ہیں ''۔(١)
٣۔ حلم:
حضرت علی ـسے منقول ہے: ''حلم وقا رکا باعث ہے '' ۔(٢)
٤۔سکوت:
حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''زیادہ خاموشی انسان کے وقار میں اضافہ کرتی ہے ''۔(٣) نیز مومنین اور پرہیز گاروں کی خصوصیات کے سلسلہ میں فرماتے ہیں: '' اے ہمام ! مومن زیادہ سے زیادہ خاموش رہتا ہے اور باوقار ہوتا ہے ''۔(٤)
٥۔ تواضع و فروتنی:
حضرت علی ـ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: ''فروتنی تم پر بزرگی اور شان و شوکت کا لباس پہناتی ہے '' ۔(٥) اسی طرح روایات میںدوسرے اسباب جیسے آہستہ گفتگو کرنا (٦) وغیرہ بیان ہوا ہے کہ اختصار کی وجہ سے انھیںہم ذکر نہیں کررہے ہیں۔ آیات و روایات میںاطمینان قلب کے لئے بہت سے اسباب و علل بیان کئے گئے ہیں کہ ان میں سب سے اہم درج ذیل ہے:
١۔ ازدواج:
قرآن کریم اس سلسلہ میں فرماتا ہے: ''اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تم ہی میں سے تمہارے جوڑوں کو تمہارے لئے خلق فرمایا تاکہ ان سے سکون حاصل کرواور تمہارے درمیان محبت ورحمت قرار دی۔ ہاں، اس (نعمت ) میں صاحبان عقل و فکر کے لئے یقینا ً نشانیاںہیں''۔ (٧) دوسری جگہ فرماتا ہے: ''وہ ایسی ذات ہے جس نے تم کو ایک نفس سے خلق فرمایا اور اس سے جوڑے پیدا کئے تاکہ اس سے سکون حاصل کرو'' ۔(٨)
٢۔ عدالت:
حضرت فاطمہ زہرا ٭ فرماتی ہیں: ''خداوند عالم نے ایمان کو شرک دور کرنے کا ذریعہ....... اور عدالت کو دلوں کے سکون کا باعث قرار دیا ہے ''۔(٩)
.......................................
١ ۔ کلینی، کافی، ج ٨، ص ٢٣، ح ٤، اور ملاحظہ ہو : صدوق، علل الشرائع، ج ١، ص ١١٠، ح ٩ ؛ مجلسی، بحار لا نوار، ج ١، ص ١١٧تا ١٢٤۔
٢۔ آمدی، غرر الحکم، حکمت ٥٥٣٤۔
٣۔ کلینی، کافی، ج ٢، ص ٢٢٦، ح ١۔ ٤۔ ایضاً۔
٥۔ آمدی، غرر الحکم، ح ٤١٨٤۔
٦۔ کافی، ج٥، ص٣٩،ح٤۔
٧۔ سورئہ روم، آیت ١ ٢۔
٨۔ سورئہ اعراف، آیت ١٨٩۔
٩۔ صدوق، من لا یحضر الفقیہ،ج٣، ص٥٦٨،ح٤٩٤٠۔ علل الشرایع، ص٢٤٨، ح٢۔ طبرسی، احتجاج، ج١،ص١٣٤۔
٣۔ایمان:
حضرت امام جعفر صادق ـنے فرمایا: ''کوئی مومن نہیں ہے مگر یہ کہ خداوندعالم اس کے ایمان کے نتیجہ میں اس کے لئے ایک انس قرار دیتا ہے کہ جس سے وہ سکون حاصل کرتا ہے، اس طرح سے کہ اگر وہ پہاڑ کی چوٹی پر بھی ہو تو اپنے مخالفین سے وحشت نہیں رکھتا''۔(١)
واضح ہے کہ اس سکون و اطمینان کا درجہ ایمان کے اعتبار سے ہے، جتنا ایمان کا درجہ زیادہ ہوگا اس سے حاصل شدہ سکون بھی زیادہ پایدار ہوگا۔
٤۔ خدا کی یاد:
قرآن کریم میں مذکور ہے: '' وہ لوگ جو ایمان لا چکے ہیںاور ان کے دل یاد الہی سے مطمئن ہیں آگاہ ہوجائیں کہ یاد الہی سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے ''۔ (٢)
٥۔ حق تک پہنچنا:
حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا:'' انسان کا دل ہمیشہ حق کی تلاش و جستجو میں مضطرب اور پریشان رہتاہے اور جب اسے درک کرلیتا ہے تو مطمئن ہو جاتا ہے ''۔(٣) اس لحاظ سے شک وتردید کے علائم میں سے ایک اضطراب اور عدم سکون ہے کہ یہ بھی ایک قسم کا ذہنی درد و الم ہے۔
اُن تمام مذکورہ موارد کا فقدان جو سکون و وقار کے اسباب و علل میں شمار کئے گئے ہیں ان دونوں کے تحقق کے موانع شمار ہوتے ہیں مگر چونکہ بعض دیگر امور روایات میں سکون و وقار کے موانع کے عنوان سے ذکر کئے گئے ہیں لہٰذا ذیل میںان میں سے اہم ترین امور کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے:
1۔ لوگوں سے سوال و درخواست کرنا:
حضرت امام زین العابدین ـ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: ''لوگوں سے سوال کرنا انسان کی زندگی کو ذلت وخواری سے جوڑ دیتا ہے، حیا کو ختم کردیتا اور وقار کو کم کردیتا ہے ''۔ (٤)
حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''فقیر انسان میں ہیبت و عظمت کا وجود محال ہے ''۔
2۔ حد سے زیادہ ہنسنا اور ہنسی مذاق کرنا:
حضرت علی ـ نے فرمایا: ''جو زیادہ ہنستا ہے اس کی شان و شوکت کم ہوجاتی ہے ''۔ رسولخدا ۖ فرماتے ہیں: ''زیادہ ہنسی مذاق کرنا انسان کی آبرو کو ختم کردیتا ہے''۔ (٥)
.......................................
١ ۔ مجلسی، بحار لا نوار ج ٦٧، ص ٨ ٤ ١، ح ٤۔ ٢۔ رعد ، ٢٨۔
٣۔ کلینی، کافی، ج ٢، ص٤٢١، ح ٥۔
٤ ۔ مجلسی، بحار لا نوار، ج ٧٨، ص ١٣٦، ح ٣و ج ٧٥، ص ١٠٨۔
٥ ۔ کلینی، کافی، ج ٨، ص٢٢، ح ٤، اور ملاحظہ ہو حرانی، تحف العقول، ص ٩٦۔
نیز حضرت علی ـ سے وصیت فرماتے ہیں : ''ہنسی مذاق کرنے سے اجتناب کروکیونکہ تمہاری شان و شوکت اور عظمت ختم ہوجائے گی ''۔(١) حضرت علی ـ نے بھی فرمایا ہے: ''جو زیادہ ہنسی مذاق کرتا ہے وہ کم عقل شمار ہوتا ہے''۔ (٢)
٣۔ مال، قدرت،علم، تعریف اور جوانی سے سر مست ہونا:
حضرت علی ـ کی طرف منسوب بیان کے مطابق عاقل انسان کو چاہیے کہ خود کو مال، قدرت، علم، ستائش و جوانی کی سرمستی سے محفوظ رکھے، کیونکہ یہ سر مستی انسان کی عقل کو زائل کردیتی ہے اوراس کے وقارکو ختم کردیتی ہے۔(٣)
٤۔ جلد بازی:
جلد بازی سے مراد کسی کام کو بغیر سونچے سمجھے انجام دینا ہے۔ حضرت علی ـ مالک اشتر کو لکھتے ہیں: ہر گز کسی ایسے کام میں جلد بازی نہ کرو جس کا ابھی وقت نہ ہوا ہو! یا جس کام کا وقت ہوچکا ہو اس کے کرنے میں سستی نہ دکھاؤ! کوشش کروکہ ہر کام کو اس کے موقع و محل اور اس سے مخصوص وقت میں ہی انجام دو''۔ (٤) ایک دوسرے موقع پر فرماتے ہیں: '' کسی کام میں جب تک کہ واضح نہ ہو اس کے کرنے میں جلد بازی نہ کرو''۔ (٥) اور فرماتے ہیں: اس چیز میں جس میںخدا نے جلد بازی لازم نہیں قرار دی ہے اس میںجلد بازی نہ کرو ۔ ''(٦)
اسلام کے خلاقی نظام میںجلد بازی ہمیشہ نا پسندنہیں ہے، بلکہ بعض امور میں اس کی تاکید بھی کی گئی ہے، لیکن درج ذیل موارد میں جلد بازی سے روکا گیا ہے جیسے سزادینے، جنگ و خونریزی کرنے، کھانا کھانے، نماز تمام کرنے اور غور خوص کرنے میں جلد بازی سے منع کیا گیا ہے۔ نیکیوں، خدا کی خوشنودی، توبہ، عمل صالح اور تحصیل علم وغیرہ کے لئے جلد بازی کی تاکید کی گئی ہے۔ قرآن کریم نیک امور کی جانب سبقت کرنے کی تاکید فرماتا ہے: '' نیک کاموں میںایک دوسرے پر سبقت کرو''۔(٧)
.......................................
١۔ صدوق، امالی، ص ٣ ٢٢، ح ٤۔ اختصاص، ص ٢٣٠ ؛ کلینی، کافی، ج ٢، ص ٦٦٤، ح ٦، اور ٦٦٥، ح١٦۔
٢۔ کلینی، کافی، ج ٨، ص٢٢، ح ٤۔ حرانی، تحف العقول، ص ٦٩۔
٣۔ آمدی، غرر الحکم، ح ٩٤٨ ١٠۔
٤۔ نہج البلاغہ، نامہ ٥٣۔
٥۔ نہج البلاغہ، خطبہ ١٧٣۔
٦ْ۔ ایضاً، خطبہ ٠ ١٩۔
٧۔ سورئہ بقرہ، آیت ٤٨ اور سورئہ مائدہ، آیت ٨ ٤۔
|