و۔ دوسروں کی نسبت نفس کا رجحان
ہمارے خیال میں دوسروں کی نسبت انسان کے نفسانی مطلوب رجحان کو اللہ کی دوستی اور دشمنی کے محو ربیان کیا جاسکتا ہے '' حب فی اللہ '' اور '' بغض فی اللہ '' یہ دونوں ایسے مفاہیم ہیں جو اسلامی کتابوں کے اندر شدت کے ساتھ مورد تاکید واقع ہوئے ہیں اور دراصل دوسروں کی نسبت ہمارے دراز مدت موقف اور ہماری حکمت عملی کی تعیین کرتے ہیں۔ اسی سے اس حصہ کے مطالب انھیںدو عنوان کے تحت بیان کئے جائیںگے اور دیگر وہ تمام مفاہیم جو دوسروں سے متعلق ایک طرح سے نفسانی رجحان کو بیان کرتے ہیں ان کو ان دونوں کے توابع اور ملحقات کے عنوان سے بیان کریں گے۔
١۔ خدا وندعالم کی محبت
ایک۔دیگر دوستی کی حقیقت اور اس کے اقسام
علماء اخلاق نے دیگر دوستی (دوسروں کو دوست رکھنے) کے لئے چار صورتیں بتائی ہیں کہ پہلے ان کے بارے میںبیان کر یں گے پھر ان کی پسند شکلوں کو واضح کریں گے۔
١۔ انسان کا اپنے لئے دوسروںسے محبت کرنا نہ اس لئے کہ وہ محبوب تک رسائی کے لئے ایک راہ ہے۔ چونکہ خود اسے قابل دوستی اور صاحب کمال و جمال محسوس کرتا ہے اور اس کے دیدار سے لذّت حاصل کرتا ہے لہٰذا اسے دوست رکھتا ہے۔
کبھی اس طرح کی دوستی ایک قسم کی محض و باطنی ہم آہنگی کی وجہ سے بھی ہوتی ہے بغیراس کے کہ کوئی خوبصورتی اور کمال معلوم ہو۔ اس طرح کی دوستی کے مخفی اسرار کا کشف کرنا معمولی انسان کے بس سے باہر ہے، کہا گیا ہے: پیغمبر اکرم ۖ نے اس طرح کی دوستی کی طرف جو کہ مخفی ارتباط سے ہوتی ہے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:'' ارواح مثل لشکر کے ہیں، ان میں سے جو ایک دوسرے کو پہچانتی ہیں وہ باہم مانوس ہوتی ہیں اور جوایک دوسرے کو نہیںپہچانتیں وہ ایک دوسرے سے جدا ہوجاتی ہیں ''۔ (١)
.......................................
١۔ صدوق، فقیہ، ج ٤، ص ٣٨٠، ح ٥٨١٨ ؛ اعتقادات، ص ٤٨ ؛ جامع الاخبار، ص ٤٨٨، ح ١٣٥٩ ؛ علل الشرائع، ص ٨٤، ح١۔
اس طرح کی دیگردوستی خدا وند سبحان کی دوستی میں شمار نہیں ہوتی لیکن خود بخود مذموم اور بری بھی نہیں ہے، بلکہ انسان کی نفسانی خواہشات میںسے ایک ہے لیکن اگر مذموم اور نا پسند مقصد تک پہونچنے کا ذریعہ ہوتو خود بھی مذموم اور قابل ملامت ہوجائے گی۔
٢۔ ایسے محبوب تک رسائی کے لئے وسائل و ذرائع کے عنوان سے انسان کا دوسرے کو دوست رکھنا کہ جو اس کے لئے دنیاوی فوائد اور منافع رکھتا ہے، کیونکہ انسان ان وسائل و آلات جو اسے محبوب تک پہونچاتے ہیں عشق کرتا ہے۔ واضح ہے کہ اس طرح کی دوستی بھی خدا کی محبت شمار نہیں ہوتی۔
٣۔ دوسرے کودوست رکھنا ایک ایسے وسیلہ کے عنوان سے جو اسے ایسے ہدف تک پہونچا ئے کہ وہ ہدف اس کے لئے آخرت کے مثبت فوائد کاحامل ہو، جیسے وہ محبت جو اپنے استاد سے راہ حق کاسالک رکھتا ہے۔ کیونکہ اس کا ہدف سعادت اخروی کا حصول ہے اور معلم ایسا وسیلہ ہے جو اسے اس ہدف تک راہنمائی کرتا ہے۔
اسی طرح ہے وہ محبت بھی جو معلم اپنے شاگردوںسے رکھتا ہے، کیونکہ شاگردوں کے وجود کے واسطہ سے وہ استاد کے کمال و مرتبہ تک پہونچا ہے اور اس مرتبہ کو پا کر حضرت عیسیٰ ـ کے بقول ''اس کی بزرگی کا تذکرہ ملکوت اعظم میں ہوتا ہے''۔(١) بلکہ کلی طور پر ہر اس انسان کی دوستی جس کے علم وفن، صنعت وہنر، کام کاج اور عمل کے ذریعہ انسان خدا کے نزدیک ہوتا ہے جیسے ایسے لوگوں کو دوست رکھنا جو انسان کی دنیوی ضرورتوں کو فراہم کرتے ہیں تاکہ ان سے استفادہ کر کے اپنے اخروی و دنیوی اہداف تک پہنونچ سکیں، بے شک یہ تمام دیگر دوستی خدا کی دوستی محسوب ہوتی ہے۔
٤۔ دوسروں سے صرف خداکے لئے محبت کرنا، نہ اس لئے کہ اس کے علم و عمل سے فا ئدہ اٹھا ئے گا یا اسے کسی دوسرے ہدف تک پہونچنے کے لئے وسیلہ قرار دے گا، بلکہ اس لئے کہ وہ خدا سے ایک نسبت رکھتا ہے، وہ عام نسبت ہو جیسے یہ کہ وہ خدا کے بندوں میں سے ایک بندہ ہے یاخاص نسبت جیسے یہ کہ وہ خدا کا سچا اور واقعی دوست اور اس کا مقرب اور راہ خدا میں خدمت گذار ہے۔ اس کی محبت کی شدت کے نتائج نیز اس کے عالی مراتب سے میںیہ ہے کہ محبت اساسی طور پر محبوب سے متعلق تمام چیزوں تک سرایت کرجاتی ہے ( یعنی انسان محبوب کے ساتھ ساتھ اس سے متعلق چیزوں کو بھی دوست رکھنے لگتا ہے ) خواہ رابطہ اور نسبت دور ہی کی کیوں نہ ہو۔ جیسے جو انسان کسی دوسرے سے شدید محبت کرتا ہے وہ ان لوگوں کو بھی دوست رکھتا ہے جو اس کے محبوب کو دوست رکھتے ہیں، اس کی خدمت کرتے ہیں، اس کی تعریف توصیف کرتے ہیں یا اس کے محبوب کے محبوب ہیں۔(٢)
.......................................
١۔ ابوفراس، تنبیہ الخواطر، ج١، ص ٨٢۔
٢۔ نراقی، مولی محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص١٨٤تا ١٨٧۔
دو۔خداسے محبت کرنے کی فضیلت
اسلامی اخلاق میں خدا کی محبت بلند مرتبہ کی حامل ہے اور اس کی کثرت سے تاکید کی گئی ہے اور اس کے لئے دنیا اور آخرت میں بہت سے علائم بیان کئے گئے ہیں۔
حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: ''ایک دن پیغمبر اکرم ۖنے اپنے اصحاب سے سوال کیا: ''ایمان کی دستا ویزوںمیں سے کونسی زیادہ محکم و مضبوط ہے '' انہوں نے جواب دیا: خدا اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ ا ن میں سے بعض نے کہا: نماز۔ کچھ نے کہا: زکات۔ کچھ نے کہا: روزہ۔ کچھ نے کہا حج و عمرہ اور بعض نے جہاد کوسب سے محکم خیال کیا۔ رسول خدا ۖ نے فرمایا: ''ان سب کی فضیلت ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی محکم ترین نہیں ہے بلکہ محکم ترین ایمان کی د ستاویز خدا کے لئے دوستی کرنا اور اسی کے لئے دشمنی کرنا، خدا کے دوستوں کو دوست رکھنا اور اس کے دشمنوں سے دشمنی اور بیزاری کرناہے'' ۔(١)
حضرت امام محمد باقر ـ انسان کے خیر و صلاح سے استفادہ کی علامت خدا کے لئے دوستی کو جانتے تھے، جیسا کہ آپ فرماتے ہیں:'' جب تم جاننا چاہو کہ تم میں کوئی خیر پایا جارہا ہے تو اپنے دل کی طرف نگاہ کرواگر خدا کی اطاعت کرنے والے کو تم نے دوست رکھا اور اہل معصیت وگناہ کو دشمن توتم میں خیر ہے اور خدا بھی تم کو دوست رکھتا ہے لیکن اگر خدا کی اطاعت کرنے والوںکو دشمن اور خدا کی معصیت کرنے والوں کو دوست رکھا تو تم میں خیر کا وجود نہیں ہے نیز خدا بھی تمہیں دشمن رکھتا ہے، انسان( کا حساب و کتاب) اسی کے ساتھ ہے جسے وہ دوست رکھتا ہے''۔(٢)
آخرت میں خدا کی محبت کے علائم بارے میں حضرت امام زین العابدین ـ فرماتے ہیں: ''جب خدا وندعالم اولین سے لے کر آخرین تک تمام انسانوںکو جمع کرے گا تو ایک آوازلگانے والا اٹھے گا اور ایسی آواز سے کہ سب سن سکیں گے آواز لگائے گا: '' کہاں ہیں وہ لوگ جو خدا کے لئے دوستی کرتے تھے؟'' تو لوگوں کا ایک گروہ اٹھے گا اور ان سے کہا جائے گا : بغیر حساب و کتاب کے تم لوگ جنت میں داخل ہوجاؤ ''۔(٣) خدا وند عالم سے دوستی اور دشمنی کی اہمیت و منزلت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ متعدد روایات میں ایمان کی ساری حقیقت خدا کی دوستی اور دشمنی میں خلاصہ کی گئی ہے۔
.......................................
١۔ کلینی، کافی، ج٢، ص ١٢٥، ح ٢ ؛ برقی، محاسن، ج١، ص ٤١١ ؛مجلسی، بحار الانوار، ج ٦٩، ص ٢٤٢، ح ١٧۔
٢۔ ایضاً، ج ٢، ص ١٢٦، ح ١١ ؛ بر قی، محاسن، ج١، ص ٤١٠، ح ٩٣٥۔
٣۔ ایضاً، ج ٢، ص ١٢٦، ح ٨ ؛ بر قی، محاسن، ج١، ص ٤١٢، ح ٩٤٠۔
جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق ـکا ایک صحابی آپ سے سوال کرتا ہے:'' آیا دوستی اور دشمنی ایمان میں شمار کی جائے گی ؟ امام نے جواب دیا: ''کیا ایمان دوستی اور دشمنی کے علاوہ کوئی اورچیز ہے ؟ ''(١)
تین۔خدا سے محبت کرنے کی نشانیاں
ان میں سے بعض نشانیاں جو خود نفسانی صفات اور بہت سے گراں قیمت اور اہم اخلاقی نشانیاں نتائج کا سر چشمہ ہیں، درج ذیل ہیں:
١۔ نصیحت اور خیرخواہی:
نصیحت و خیر خواہی ''حقد '' (کینہ) اور حسد( جلن) کے مقابلہ میں ہے اوراس سے مراد یہ ہے کہ انسان اللہ کی نعمتوں سے دوسروں کے استفادہ کی نسبت راضی و خوشنود ہواور ان پر بلا اور مصیبت کا نازل ہونا اس کے لئے ناگوارہو۔ اس خیر خواہی کا لازمہ یہ ہے کہ آدمی دوسروں کو اس بات کی طرف جس میں ان کے لئے خیر و صلاح ہے ہدایت کرے۔ حضرت امام جعفر صادق ـ پیغمبر اکرم ۖ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ''لوگوں میں سب سے زیادہ خداکے نزدیک قیامت کے دن عظیم انسان وہ ہے جو خلق کی خیر خواہی میں دوسرے افرادسے زیادہ قدم اٹھائے''۔(٢) اسی طرح پیغمبر اکرم نے فرمایا ہے:'' لوگوںمیںسب سے زیادہ عبادت گذار وہ انسان ہے جس کا دل تمام مسلمانوںکی نسبت سب سے زیادہ پاک و صاف ہو''۔(٣) جب رسول خدا ۖ سے لوگوں کی نصیحت اور خیر خواہی کی علامت کے بارے میں پوچھا گیا توآپ نے فرمایا: ''خیر خواہ انسان کی چار علا متیں ہیں: حق کے ساتھ فیصلہ کرنا اور اپنا حق دوسروں کو بخشنا، لوگوں کے لئے وہی پسند کرنا جو اپنے لئے پسند کرتا ہو، حق کے واسطے کسی کے ساتھ دست درازی نہ کرنا''۔ (٤) دراصل چاروں علامتوں کو تیسری علامت میں خلاصہ کیا جاسکتا ہے۔ اسی بنیاد پر حضرت علی ـفرماتے ہیں: ''انسان کی خیر خواہی میں اتنا ہی کافی ہے کہ جو کچھ وہ اپنے لئے پسند نہیں کرتا دوسروں کو بھی اس سے روکتا ہو''۔ (٥)
.......................................
١۔ کلینی، کافی، ج٢، ص ١٢٥ ح ٥۔ اسی طرح ملاحظہ ہو کافی، ص١٢٧ ح ١٦ ؛ تفسیر عیاشی، ج١، ص ١٦٧، ح ٢٥۔
٢۔ کلینی، کافی، ج٢، ص ٢٠٨ ،ح ٥۔
٣۔ ایضاً، ص ١٦٣، ح٢۔
٤۔ حرانی، تحف العقول، ص ٢٠۔
٥۔ اردبیلی، ابولفتح، کشف الغمہ، ج٣، ص١٣٧، ١٣٨۔
٢۔مومنین سے حسن ظن:
حسن ظن، انصاف، کرم وبخشش اور مروت جیسے مفاہیم کا بھی خدا وندعالم کی محبت کے علائم کے عنوان سے ذکر کیا جاسکتا ہے لیکن چونکہ یہ فضیلتیں حقیقت میںنصیحت اور خیر خواہی کی نشانی میں شمار ہوتی ہے لہٰذا حسن ظن کی طرف اشارہ کو اس مختصر کتاب میںکافی سمجھتے ہیں۔ مومنین سے بد گمانی کی مذمت میں قرآن کریم فرماتا ہے: '' اے صاحبان ایمان، بہت سے گمانوں سے پرہیز کروکیونکہ کچھ گمان گناہ ہیں''۔ (١)
واضح ہے ان گمانوں سے مراد کہ جن سے اجتناب لازم ہے ناروا گمان ہیں، یعنی سوء ظن ( بد گمانی)۔ اسی طرح گمان سے اجتناب کرنے سے مراد اپنی بد گمانیوں پر ترتیب اثر نہ دینا ہے۔(٢) آیت کے استمرار سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگرآیت صرف مومنین سے بد گمانی کی مذمت سے متعلق نہ ہو، تب بھی کم از کم ان سے بد گمانی کی مذمت اور حقیقت میں مومنین کی نسبت حسن ظن آیت کی بعض مراد ہے۔
امیرا لمومنین حضرت علی ـ مومنین سے حسن ظن رکھنے کے بارے میں فرماتے ہیں: ''اپنے بھائی کے عمل کو بہترین وجہ پرحمل کرو اس وقت تک جب تک کہ اس سے کوئی ایسا کام سرزد ہوجو توجیہ کی راہ بند کردے اور جب بھی کوئی بات تمہارے برادر (ایمانی ) کے دہن سے نکلے تو جب تک اسکا بہترین معنی پائو بد گمانی نہ کرو۔ (٣)
پیغمبر اکرم ۖ بھی حسن ظن کے نفسانی علائم کے بارے میں فرماتے ہیں: '' اپنے ایمانی بھائیوں سے حسن ظن رکھو تاکہ دل کی پاکیزگی اور صفائے نفس تک حاصل کرو ''۔ (٤) بد گمانی کے جملہ تباہ کن اثرات میں غیبت، اختلافات کا ظاہر ہونا، بخل حسد ہے جن کو بحث کے تسلسل میں ان کے عوامل واسباب کو بیان کریں گے۔(٥)
بد گمانی ایجاد کرنے کا سب سے اہم عامل تہمت کی جگہ اور الزام کے مقام پر واقع ہوناہے۔ حضرت علی ـ ان لوگوں کی مذمت میں جو خود کو تہمت کی جگہ قرار دیتے ہیں،فرماتے ہیں: ''جو شخص کسی بری جگہ اور ٹھکانہ پر رفت و آمد کرے تووہ متہم ہوجائے گا اور جو اپنے آپ کو مقا م تہمت میںقرار دے تو اسے اس کو جو اس سے بد گمان ہوگیا ملامت نہیں کرنا چاہیے''۔(٦)
.......................................
١۔ سورئہ حجرات، آیت ١٢۔
٢۔ طباطبائی ، المیزان، ج ١٨، ص ٣٢٣۔
٣۔ کافی ج٢، ص ٣٦٢، ح ٣۔نہج البلاغہ حکمت ٣٦٠ ۔ حرانی، تحف العقول، ص ٢٧١ ۔
٤۔ گیلانی، عبد الرزاق، مصباح الشریعة، ص ٤٦٤۔
٥۔ مصباح الشریعة، ص ٤٦٣تا٤٦٧ ۔مجلسی، بحار الانوار، ج ٧٥، ص ٢٠١ ۔ صدوق، فقیہ، ص ٤٠٩، ح ٨٩ ٥٨۔
٦۔ نہج البلاغہ حکمت ٥٩ا۔ شیخ صدوق، امالی، ص ٢٥٠، ح ٨ ۔ کراجکی، کنز الفوائد ج٢، ص١٨٢۔ حرانی، تحف العقول، ص ١٥٧تا ٢٧١۔
اپنے سے دوسروں کی بد گمانی کو دور کرنے کا طریقہ حضرت علی ـ مالک اشتر سے بیان فرماتے ہیں:
'' اگر رعیت تمہارے بارے میںظلم و ستم کا گمان کرے تو اپنے عذرکو ان کے درمیان آشکار طورپر بیان کرو اور ایسا کرکے ان کی بد گمانی دور کرو کہ اس میں تمہارے نفس کی تربیت بھی ہے اور رعیت کے ساتھ نرمی اور مدارا کا اظہار بھی اور وہ عذر خواہی بھی ہے جس کے ذریعہ تم انھیںحق کی راہ پر چلانے کا مقصد بھی حاصل کر سکتے ہو''۔(١)
جی ہاں، ہمیشہ حسن ظن پسندیدہ اور محبوب نہیں ہے بلکہ کبھی بے موقع اور ناپسند بھی ہے۔ مثال کے طور پر ایسے زمانے میں حسن ظن رکھنا جب کہ ظلم و فساد حق اور خیر وصلاح پر غلبہ رکھتا ہے اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے علاوہ کوئی اور چیز نہیںہے، جیسا کہ حضرت علی ـ نے فرمایا ہے: ''اگر زمانہ اور اہل زمانہ پر برائی غالب آجائے اورکوئی دوسرے پر حسن ظن رکھے تو گویا اس نے اپنے آپ کو دھوکہ دیا ہے ''۔(٢) دوسری جگہ دشمنوں سے حسن ظن رکھنے کی مذمت کے بارے میں مالک اشترکو ہوشیار کرتے ہیں: صلح کے بعد اپنے دشمن سے مکمل طور پر چوکنا اور ہوشیار رہنا کیونکہ دشمن کبھی کبھی اپنے آپ کو تم سے اس لئے نزدیک کرتا ہے تاکہ تمہیں غافل بنادے لہٰذا دور اندیش اور محتاط رہو اور اپنے دشمن سے حسن ظن نہ رکھو''۔(٣)
چار۔ خداوندسبحان سے دوستی کے موانع
یہاں پر خدا کی راہ میںموانع محبت سے مراد ایسے موانع ہیں جو خود نفسانی صفات میں سے ہیں اس طرح کے اہم ترین موانع، حسد، حقد اور کینہ توزی وغیرہ ہیں۔
١۔ حسد:
ارباب لغت کے نزدیک حسد، اس بات کا نام ہے کہ انسان دل میں کسی شخص کی ایسی نعمت سے محرومیت کی تمنا رکھتا ہو جس کا وہ استحقاق رکھتا ہو۔(٤)
علماء اخلاق نے اس مفہوم کی مزید شرح میں زیادہ کہا ہے: حسد یعنی ایسی نعمت کے زوال کی آرزو کرنا جس سے استفادہ کرنے میں مسلمان شخص کی صلاح ہے۔ اس تعریف میں دو معتبر عنصر تصور کئے گئے ہیں: اول یہ کہ انسان
.......................................
١۔ نہج البلاغہ، مکتوب ٥٣۔
٢۔ نہج البلاغہ حکمت ١١٤، اسی طرح ملاحظہ ہوکلینی کافی ج٥، ص ٢٩٨، ح٢ ؛ ؛حرانی، تحف العقول، ص٣٠٢۔
٣۔ نہج البلاغہ، مکتوب ٥٣۔
٤۔ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، ص١٦ا۔
دل میں دوسرے انسان سے نعمت کے زوال کی تمنا رکھتا ہو اور دوسرے یہ کہ اس نعمت سے اس کا مالا مال ہونا اس کے لئے مصلحت کا حامل ہو، لیکن اگر اس کی آرزو ایسی نعمت کا رکھنا ہو جس سے دوسرا انسان مالا مال ہے تو ایسی حالت کو ''غبطہ''اور ''منافسہ' 'کہتے ہیں، جیسا کہ قرآن کریم فرماتاہے: '' ان نعمتوں '' میں مشتاقین کو چاہئے کہ ایک دوسرے پر سبقت کریں''۔ (١) اور اگر ایسی نعمت کہ مسلمان شخص کے پاس سے جس کے زوال کی تمنا رکھتا ہو اور اس کا اس شخص میں ہونا صلاح نہ ہو، مثال کے طور پر اس کے فساد اور تباہی میں مبتلا ہونے کا باعث ہو تو ایسی حالت کو ''غیرت '' کہتے ہیں۔ (٢) اس لحاظ سے ''غبطہ'' ''منافسہ'' اور غیرت '' بااہمیت نفسانی حالات ہیں اور صرف
''حسد '' کہ جو دوسروں کی نصیحت اور خیر خواہی کے مقابلہ میں آتا ہے وہ اخلا ق کی برائی میں شمار ہوتا ہے۔
البتہ حسد اور خیر خواہی کے درمیان تشخیص یقین یا اطمینان کے ساتھ افرادکی واقعی مصلحت شناخت پر موقوف ہے اور جب بھی ایسی شناخت کا حصول ممکن نہ ہو تو انسان کو چاہیے کہ صرف دوسروں کی واقعی مصلحت کی تمنّا پر اکتفا ء کرے اور اس نعمت کی نسبت کوئی موقف نہ رکھتا ہو۔ روایات میں حسد کی متعدد علامتیں بیان کی گئی ہیں جیسے غیبت، شماتت، دوستی کا اظہار، دشمنی کا پوشیدہ کرنا، احسان کے مقابل ناشکری اور اہلیت و شائستگی سے کم تعریف کرنا وغیرہ۔ کہ ہم اختصار کی رعایت کرتے ہوئے اس کی تفصیل سے صرف نظر کرتے ہیں۔
لفظ ''حسد''قرآن کریم میں پانچ بارمختلف صورتوں میں ذکرہوا ہے کہ سب ہی صریحی طور پر یا اشارہ کے طور پر حسد کی مذمت پر دلالت کرتے ہیں۔ جیسا کہ خدا پیغمبر ۖ کو حکم دیتا ہے کہ تمام برائیوں با لخصوص ان کے بعض خاص مصادیق جیسے حاسدین کے حسد سے خداکی پناہ مانگو: '' کہو: ''میں صبح کے رب کی پناہ مانگتا ہوں جو کچھ اس نے خلق کیا ہے اس کے شر سے .... اور ہر حاسد کے شر سے جب وہ حسد کرے ''۔ (٣) اسی طرح بارہا کافروں کو پیغمبر اکرم ۖ، وحی اور دینی معارف جیسی نعمتوں سے مسلمانوں کے مالامال ہونے کی نسبت ان کے حسد کرنے کی وجہ سے سرزنش کرتا ہے '' یا وہ ان لوگوں سے اس بات پر حسد کرتے ہیں کہ خدا نے اپنے فضل سے انھیں عطا کیا ہے ''۔(٤)
.......................................
١۔ سورئہ مطففین، آیت ٢٦۔
٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص١٩٢؛فیض کاشانی، المحجة البیضا ئ، ج٥، ص ٣٣٠۔
٣۔ سورئہ فلق، آیات، ١، ٢، ٣۔
٤۔ سورئہ نسا ئ، آیت ٤ ٥ ؛ اسی طرح ملا حظہ ہو طباطبائی، ا لمیزا ن، ج٤، ص٣٧٦۔
قرآن مجید کے بقول کفار مومنین سے حسد کی شدت کی بنا پر آرزو کرتے ہیں کہ مومنین کو ان کے ایمان لانے کے بعد دوبارہ کفر کی طرف پلٹادیں: '' بہت سے اہل کتاب جب کہ ان پر حق واضح ہو چکا ہے، اس حسد کی وجہ سے جو ان کے اندر پایا جاتا ہے آرزو کرتے تھے کہ تمہیںایمان لانے کے بعد کا فر بناڈالیں''۔(١)
پیغمبر اکرم ۖ خبر دیتے ہیں کہ خداوند عظیم نے موسٰی ـ سے فرمایا: ''اے عمران کے فرزند ! جو کچھ میں نے لوگوں کو اپنے فضل سے دیا ہے اس پر حسد نہ کرو اور اس کے پیچھے اپنی نگاہ کو د ر ا ز نہ کرواور اس کے چکر میںاپنا دل نہ الجھاؤ کیونکہ میری نعمت سے حسد کرنے والا غمگین رہتا ہے اور جو تقسیم میں نے اپنے بندوں کے درمیان کی ہے اس میں حائل ہوتا ہے لہٰذا جو ایسا ہو گا وہ مجھ سے نہیں ہے اور میںاس سے نہیں ہوں۔ (٢)
حسد کے نقصان دہ اور خطر ناک علائم روایات میں بیان کئے گئے ہیں، جیسے لذت کی کمی، حاسدوں کے سکون و اطمینان اور اس کی راحت وخوشی کا سلب ہونا، اس کی آہ و حسرت درد ورنج کی کثر ت حتیٰ کے جسمانی سلامتی اور قوت کا کھو دینا، اس کے دین و ایمان کا نابود ہونا اس کے علاوہ اخروی مقامات اور سعادت کا ضائع ہو جانا۔
علماء اخلاق نے حسد کے درجات ومراتب درج ذیل عنوان سے بیان کئے ہیں:
١۔ یہ کہ انسان دوسرے سے نعمت کے زائل ہو نے کی تمناو آرزو دل میں رکھتا ہو، خواہ وہ نعمت اس کے ہاتھ نہ لگے ۔ یہ حسد کی بد ترین قسم ہے۔
٢۔دوسرے سے نعمت زائل ہونے کی خواہش خو د اس تک پہو نچنے کیلئے۔ مثال کے طور پر وہ خاص مرتبہ تک پہنچنا چاتا ہے اور چونکہ اس کا اس مرتبہ تک پہونچنا دوسرے سے اس کے سلب پر موقوف ہے لہٰذ وہ اس کے دوسرے سے زائل ہونے کی تمنا کرتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ درج ذیل آیت اسی طرح کے حسد کی ممانعت پر دلالت کرتی ہے: '' خبردار! جو کچھ خدا نے تم میں سے بعض کو بعض سے زیادہ دیا ہے اس کی آرزو نہ کرنا''۔ (٣)
٣۔ اس نعمت کے مشابہ جوکسی دوسرے کے پاس ہے طلب کرے اور اگر خود اس نعمت تک نہ پہونچ سکے تو چاہے کہ دوسرے سے بھی سلب ہو جائے اور اگر دوسرے سے اسی نعمت کو سلب کرسکتا ہو تو اس کے لئے کوشش کرے۔
.......................................
١۔ سو رئہ بقرہ ، آ یت ٩ ١٠۔
٢۔ کلینی کافی، ج ٢، ص٧ ٠ ٣، ح٦۔
٣۔ سو ر ئہ نسا ئ، آ یت ٣١۔
٤۔ وہی تیسری صورت، اس فرق کے ساتھ کہ اس کی عقل و دین کی قوت اس بات سے مانع ہوتی ہے کہ دوسرے سے اس نعمت کے سلب کرنے کا اقدام کرے اورا پنی اس نفسانی حالت سے (یعنی دوسرے سے نعمت کے سلب کرنے کی تمنا سے) ناراض اور غمگین ہے، یہ نفسانی حالت اگر چہ ناپسند ہے، لیکن عذاب خداوند ی کا باعث نہیں ہوگی اور ایسے انسان کی نجات کی امید پائی جاتی ہے۔(١)
حسد کے اہم عوامل عوامل و اسباب مندرجہ ذیل ہیں:
١۔ نفسانی پستی اور گندگی جس کے نتیجہ میں بغیر اس کے کہ کوئی خاص دشمنی اس کے اور دوسروں کے درمیان ہو دوسروں سے نعمت کے زوال پر خوش اور نعمت خدا وندی سے ان کے فیضیاب ہونے پر محزون و مغموم اور دوسروں کے درد والم، رنج و غم میںمبتلا ہونے سے خوش ہے، اگر چہ ان کے مالا مال ہونے سے اسے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔
٢۔ دشمنی اور بغض حسد کے وسیع ترین عوامل میں سے ہے، کیونکہ خدا کے خاص دوستوں کے علاوہ تمام لوگ اپنے دشمن کے پریشانی میں مبتلا ہوجانے پر شاد و مسرور ہوجاتے ہیں۔
٣۔ ریاست طلبی اور مال و منصب سے لگاؤ، جو شخص دوست رکھتا ہے کہ اپنے فن میں منفرد جیسے شجاعت، عبادت اور اس کے مانند دوسری چیزوںمیں یکتا اور قابل مدح و ستائش رہے، جب وہ اپنے لئے کوئی رقیب اور نظیر دیکھتا ہے تو اس کے لئے ناگوارہوتا ہے، اور یہی چاہتا ہے کہ کسی صورت اس کے رقیب سے نعمت سلب ہوجائے۔
٤۔ اہداف ومقاصد تک نہ پہنچنے کا خوف، ایسی جگہ جہاں بہت سے افراد ایک ہی ہدف کے پیچھے لگے ہوئے ہیں، اور ہر ایک یہی چاہتا ہے کہ صرف اس ہدف تک پہنچے۔
٥۔ اپنے ہم پلّہ اور ہم پیشہ افراد کی برتری کا تحمل نہ کرنا، کیونکہ احساس کرتا ہے کہ اگر اس کاہم پلّہ فوقیت لے جائے گا تو اس پر فخرو مباہات کرتے ہوئے اس کی تحقیروتوہین کرے گا۔ اس بنا پر کہ سب ایک دوسرے کے برابر ہوں اور کوئی دوسرا اس پر تکبرنہ کرے، اپنے ہم پلّہ سے حسد کرتا ہے۔
٦۔ تکبر: حاسد انسان چاہتاہے کہ دوسروں پربزرگی جتائے اور دوسرے لوگ اس کے پیرو اور تابع رہیں، چونکہ نعمت خدا وندی سے دوسروں کا فیضیاب ہونا اس تشویش کو اس کے اندر ابھارتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کا بہرہ مند ہونا اس کے تہی دست ہونے کا باعث ہوجائے، جیسا کہ کفار پیغمبر اکرم ۖ کے بارے میں کہتے تھے: ''کیوں یہ قرآن ان دونوں شہروں (مکّہ ومدینہ) کے کسی بڑے شخص پر نازل نہیں ہوا ؟''(٢)
.......................................
١۔ نراقی، محمد مہدی ، جامع السعادات، ج ٢، ص ٩٨ ١، ٩ ٩ ١۔
٢۔ زخرف ٣١۔
٧۔ دوسروںکے عظیم نعمتوں سے فیضیاب ہونے کی توقع نہ کرنا:
اور اس پر حیرت کرنا یعنی انسان کو اس لائق نہیں سمجھنا کہ اس طرح کی عظیم نعمتوں سے وہ بہرہ مند ہو، نتیجہ کے طور پر اس سے حسد کرتا ہے۔ (١) جیسا کہ مشرکین پیغمبرسے کہتے تھے: '' تم ہمارے جیسے انسان کے سوا کچھ نہیں ہو''۔(٢)
رہا سوال یہ کہ ہم کس حد تک اپنے سے حسد کو دور رکھیں، اس کا جواب یہ ہے کہ حسد کبھی انسان کے قول و فعل سے غیبت اور تہمت کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے اورکبھی انسان کی رفتار وگفتار سے ظاہر نہیں ہوتابلکہ وہ صرف اپنے دل میں خواہش رکھتا ہے کہ دوسرے سے نعمت زائل ہوجائے۔ بلا شبہہ دونوں گناہ شمار ہوتے ہیں اور اس سے مقابلہ کرنا واجب ولازم ہے لیکن کبھی حسد کے علائم انسان کی گفتار و کردار سے ظاہر نہیں ہوتے اور انسان بھی اپنے اندر دوسروں سے زوال نعمت کے متعلق پائی جانے والی نفسانی خواہشات کی مذمت و ملامت کرتا ہے۔اس قسم کا حسد گناہ شمار نہیںہوتا اور عقاب کا باعث نہیںہے، اگر چہ اس سے مقابلہ بھی نیک اور معنوی بلندی کا باعث ہے۔ (٣)
٢۔حقد اور کینہ توزی :
''حقد وکینہ '' کینہ سے مراد ہے دل میں دوسرے کی عداوت ودشمنی رکھنا اور اس کے ظاہر کرنے کے لئے موقع کی تلاش میں رہنا۔(٤) در حقیقت حقد، وہ خشم وغضب ہے کہ جو ظاہر نہیں ہو پاتا ہے اوردل میں دب کر رہ جاتا ہے،یہاں تک کہ ایک دن موقع پا کر ظاہر ہو جائے ۔ (٥) بلا شبہہ حقد نفسانی رذائل میں سے ایک رذیلت اور خداوند سبحان سے دوستی کے موانع میں سے ایک مانع ہے۔ معصومین (ع) کے گہر بارکلمات میں کینہ توزی، اس کے علائم و اسباب اور اس سے نجات کے بارے میں بہت سے ارشادات بیان کئے گئے ہیں۔ حضرت علی ـ نے حقد و کینہ توزی کی مذمت میں فرمایا ہے: لہٰذا اپنے دلوں میں مخفی آتش تعصب کو خاموش کردو اور جاہلیت کے کینوں کو نکال پھینکو کہ مسلمانوں میں اس غرور کا ہونا شیطانی خصلتوں میں سے ہے '' (٦)
.......................................
١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ١٩٩تا ٢٠٢۔
٢۔ یس ١٥ ۔مومنون ٣٤، ٤٨۔
٣۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ٢١٠ ، ١ ١ ٢۔
٤۔ ابن منظور، لسا ن العر ب، ج ٣، ص ٤ ٥ ١
٥۔ نراقی، جامع السعادات، ج ١، ص٣١١۔
٦۔ نہج البلاغہ، خطبہ ١٩٢۔
ایک دن پیغمبر اکرم ۖ نے لوگوں سے پوچھا: ''کیا میں تمہیں تم میں اپنے سے سب سے کم شباہت رکھنے والے انسان سے آگاہ نہ کروں ؟ انہوں نے عرض کی: کیوں نہیں، فرمایا: بدگو، بے آبرو، بے حیا، بخیل، متکبر، کینہ توز، حاسد، سنگدل، ایسا انسان جس سے کوئی خیر نہیںہوتا اور کوئی اس کے شر سے محفو ظ نہیں ہے ''۔(١)
حضرت علی ـ سے کینہ توزی کے عوامل و اسباب کے بارے میں منقول ہے: ایسے انسان کے پاس علم بیان کرنے سے پرہیز کروجو اس کا شوق نہیں رکھتا نیز گذشتہ مرتبہ و شرف کے بیان سے پرہیز کرو ایسے انسان کے پاس جو ماضی میں کوئی افتخار آمیز چیز نہیں رکھتا تھا اس لئے کہ یہ ا مرتیری نسبت اس کی کینہ توزی کا سبب ہوگا۔(٢)
حقد و کینہ توزی کے علائم کے بارے میں حضرت امام حسن عسکری ـنے فرمایا: '' لوگوں میں سب سے زیادہ رنجیدہ اور سب سے کم آسودہ کینہ توز انسان ہے ''۔(٣) حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: ''خداوند عالم ہر روز ایک فرشتہ کو حکم دیتا ہے کہ آسمان پر آواز لگائے اور میرے بندوں کو نوید دے کہ میں نے تمہارے گذشتہ گناہوں کو بخش دیا اور شب قدر میں تم میں سے بعض کو بعض کا شفیع قرار دیا جز اس انسان کے جو شراب سے افطارکرے یا اپنے مسلمان بھائی سے کینہ توز ی کرے۔ (٤)
حقد کے دنیوی نقصانات میں ایک یہ ہے کہ کینہ توز انسان کی گواہی قابل قبول نہیںہے۔ (٥) حقد اور کینہ توزی سے مقابلہ اس درجہ اہم ہے کہ قرآن کریم بعض مومنین کے قول کو نقل کرتاہے کہ وہ لوگ اپنی دعاؤں میں خداوند عالم سے اظہار کرتے ہیں: '' خدا یا! ہمیں اور ہمار ے ان بھائیوں کو جو ایمان میں ہم پر سبقت رکھتے ہیں بخش دے ا ور ہمارے دلوں میں صاحبان ایمان کی نسبت کسی طرح بھی کینہ قرار نہ دے، خدا یا یقینا تو روؤف ومہربان ہے''۔ (٦) وہ تمام چیز یں جو کینہ توزی کے بر طرف کرنے کا سبب ہیں، ان میں سے ایک ہدیہ دینا ہے۔ پیغمبر اکرم ۖنے فرمایا: ''ہدیہ دینا دلوں سے کینوں اور کدورتوں کو دور کردیتا ہے''۔ (٧) اسی طرح ضیافت اور مہمانداری کرنا کینہ کے برطرف ہونے کاسبب ہوتا ہے، حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: ''کینوں کی آگ کو گوشت اورروٹی سے دورکرو'' (مہمان نوازی کرکے اسے ختم کرو)۔ (٨)
.......................................
١۔ کلینی، کافی، ج ٢، ص ١ ٩ ٢،ح٩۔ ٢۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج ٢٠، ص ٣٢٢، ح ٩٦ ٦نیز ،ص٣٢٧، ح٧٤٣۔
٣۔ حرانی، تحف ا العقول، ص ٣٦٣۔ ٤۔ قطب راوندی، دعوات، ص ٣٠٧، ح٥٦١۔
٥۔ صدوق، معانی الاخبا ر، ص ٠٨ ٢، ح ٣۔ ٦۔ سورئہ حشر، آیت ١٠۔
٧۔ صدوق، عیون اخبارالرضا، ج ٢، ص ٧٣، ح ٣٤٣ ۔ کلینی، کافی، ج ٥، ص ١٤٣، ح ٧۔
٨۔ کلینی، کافی، ج ٦، ص٣١٨، ح ١٠۔
2۔خدا وند سبحان کے لئے دشمنی
خدا وند سبحان کے لئے دشمنی کا مطلب یہ ہے کہ انسان اس انسان کو جو خدا کے سامنے عصیان وگناہ، طغیانی وسر کشی کرتا ہے دشمن رکھے۔ البتہ جس طرح خداکی معصیت کے درجات و مراتب ہیں اسی طرح خدا کے لئے دشمنی کے بھی درجات مراتب ہیں۔ خدا کے مقابل سر کشی کبھی عقیدہ کے ساتھ ہے جیسے کفر و شرک اختیارکرنا اوردین میں بدعت کرنا اور کبھی رفتار وگفتار اور کبھی قول وفعل کے ساتھ دوسروں کی اذیت و آزار سے جڑی ہوتی ہے، جیسے قتل، ضرب، زخم لگانا جھوٹی گواہی دینا۔ اور کبھی دوسروں کی اذیت وآزار کا باعث نہیں ہوتی۔ یہ قسم کبھی دوسروں کے فساد کا باعث ہوتی ہے، جیسے دوسروں کے لئے فساد کے اسباب و وسائل فراہم کرنا، اور کبھی دوسروں کے فساد کا باعث نہیںبنتی۔ یہ آخری قسم کبھی گناہ کبیرہ ہے تو کبھی گناہ صغیرہ ہے۔دشمنی بھی مختلف طرح کی ہوتی ہے جیسے دوری اختیار کرنا، جداہونا، بات چیت بند کرنا، سخت کلامی کرنا، توہین و تحقیر کرنا، اس کی پیروی نہ کرنا، اس کے لئے برائی کی کوشش کر نا اور اس کی ضرورتوں اور آرزوؤں کے پورانہ ہونے کی سعی کرنا۔
واضح ہے کہ خدا کے لئے بغض کے درجات ومراتب شدت و ضعف کے اعتبارسے خدا وند سبحان کی معصیت کے مراتب و درجات کے تابع ہیں، کہ درحقیقت وہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مراتب ہیں۔ قابل ذکر بات ہے کہ اگر گناہگا ر انسان پسندیدہ صفات کا مالک ہو جیسے علم و سخاوت، تو پسندیدہ صفات کے لحاظ سے محبوب ہے لیکن خدا کی نافرمانی اور عصیان کی بنا پر مبغوض اور نا پسند ہے۔(١)
اس بنا پر بعض لوگوں سے محبت کرنا حرام اور بعض دیگرسے مکروہ اور خدا کے نزدیک نا گوار ہے یعنی ان سے بغض رکھنا واجب یا مستحب ہوگا۔(٢)
.......................................
١۔ نراقی، محمد مہدی، جا مع السعادات، ج ٣، ص ١٨٧، ١٨٨۔
٢۔ ان موارد کی مزید معلومات کے لئے رجوع کیجئے سورئہ مجادلہ، آیت ٢٢۔ سورئہ ممتحنہ، آیت ١، ٨، ٩ ۔سورئہ آل عمران، آیت ١١٩ ۔ سورئہ ھود، آیت ١١٣ ۔ صفات الشیعہ، ص ٨٥، ح ٩۔ صدوق، امالی، ص ٧٠٢ ح ٩٦٠۔ مجلسی، بحار الانوار، ج ٦٩، ص ٧ ٢٣، ح ٤۔ج ٧٤، ص ١٩٧، ح ٣١۔ اور ج ٩ ٦، ص ٢٣٧، ح ٣ ۔ کلینی، کافی، ج ٢ ص، ١٢٦، ح ١١، ج ٥ ص ١٠٨، ح ١٢ ۔ ابن ابی فراس، تنبیہ الخواطر، ج ١، ص ٧٢۔ شعیری، جامع الاخبار، ص ٤٢٨، ح ١١٩٨ ؛ صدوق، فقیہ، ج ٤، ص ١٧ ٤، ح ٥٩٠٧ ؛ تفسیر قمی، ج٢، ص٢٨٧۔
|