ہ۔ دنیوی نعمتوں کی طرف نفس کارجحان
انسان کے بہت سے اعمال ورفتاردنیا کی نسبت ان کے نفسانی رجحان سے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ رجحان بہت سے نفسانی صفات اور ملکات کی پیدائش کا سر چشمہ ہے ایسا لگتاہے کہ اخلاق اسلامی میں مواہب دنیوی کی نسبت نفسانی مطلوب کا رجحان زہد کے محور پرگھومتا ہے اور وہ تمام عام مفاہیم جو اس باب میں ذکر ہوئے ہیں جیسے قناعت، عفت، حرص، طمع و حسرت وغیرہ ان سب کو زہد کی بنیاد پر بیان کیا جاسکتا ہے۔
زہد
ایک۔ زہد کا مفہوم
ارباب لغت کی نظر میں کسی چیز کی نسبت زہد اختیار کرنے کے معنی اس چیز سے اعراض اور اس سے بہت کم خوش ہونا ہے۔ (١) علماء اخلاق کے فرہنگ میں '' زہد '' نام ہے دنیا سے قلبی اور عملی اعتبار سے کنارہ کشی اور اعراض کرنے کا مگر اتنی ہی مقدار میں جتنی انسان کو اس کی ضرورت ہے۔
بعبارت دیگر زہد یعنی آخرت کے لئے دنیا سے رو گردانی اور خدا کے علاوہ ہر چیز سے قطع رابطہ کرنا ہے۔ اس تعریف سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاً، زہد اس شخص پر صادق آتا ہے جس کے یہاںدنیا کے تحصیل کرنے اور اس سے بہرہ مندہونے کا امکان پایا جاتا ہو۔ دوسرے، دنیا سے روگرداں ہونا آخرت کی بہ نسبت دنیا کی پستی اور حقیر ہونے کے اعتبار سے۔ جب بھی دنیا کا ترک کرنا امکان تحصیل نہ ہونے کی وجہ سے ہو ( یعنی دنیا کی تحصیل کرنااس کے لئے ممکن ہی نہ ہو) یا خدا کی رضایت اور تحصیل آخرت کے علاوہ کوئی اورہدف و مقصد ہو جیسے لوگوں کی خوشنودی اور دوستی جذب کرنے کے لئے ہو یا اس کی تحصیل میں سختی اور مشقت سے فرار کرنے کی وجہ سے ہو تو اسے '' زہد '' نہیںکہا جائے گا۔ (٢)
.......................................
١۔ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، ص ٣٨٤ ؛ ابن منظور، لسان العرب، ج ٣، ص ١٩٦ اور ص ١٩٧۔
٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادت، ج ٢ ص ٥٥ اور ص ٥٦۔
دو۔ زہدکی اہمیت
آیات و روایات میں زہد اختیار کرنے کی نسبت جو تعبیریں وارد ہوئی ہیں نیز وہ علائم جو اس نفسانی صفات کے لئے بیان کئے گئے ہیں سب کے سب اسلام کے اخلاقی نظام میں دنیا کی نسبت اس کے بلند و بالا مرتبہ کو بیان کرنے والے ہیں ۔
جیسا کہ پیغمبر اکرم ۖ نے فرمایا: ''دنیا میں زہد اختیار کرنا جسم و دل کے سکون کا باعث ہے ''۔ (١) حضرت امام جعفر صادق ـ نے بھی فرمایا ہے: ''دنیا سے بے رغبتی اور بے توجہی آخرت کی جانب متوجہ ہونے کے لئے دل کی فراغت وسکون کا باعث ہے''۔ (٢) خلاصہ یہ کہ پیغمبر اکرم ۖ اعلان فر ماتے ہیں: ''دنیا سے بے توجہ ہوئے بغیر تمہارے دلوں پر ایمان کی چاشنی حرام ہے''۔ (٣)
تین۔ زہد کے مراتب اوردرجات
علماء اخلاق نے مختلف اعتباروں سے زہد کے انواع اور درجات ذکر کئے ہیں، اختصار کے ساتھ ہم انھیںذکر کررہے ہیں۔
١۔ زہد کے شدت و ضعف کے اعتبا ر سے مراتب: زہد کو دنیا سے کنارہ کشی کی شدت و ضعف کے اعتبار سے تین درجوں تقسیم کرتے ہیں:
الف۔ انسان دنیا سے رو گرداں ہے اس حال میں کہ اس کی طرف مائل ہے اور حقیقت میں زحمت، مشقت اور تکلّف کے ساتھ خود کو دنیا سے دور کرتا ہے۔
ب۔ انسان خواہش، رغبت اور آسانی کے ساتھ دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے، بغیر اس کے کہ اس کی طرف کوئی میلان ہو کیونکہ اس کی نظر میں دنیا اخروی لذتوں کے مقابل حقیر و پست ہے، در حقیقت اس نے ایک ایسے معاملہ کا اقدام کیا ہے جس میں معمولی اور کم اہمیت چیز کو اس سے قیمتی جنس کی امید میں چھوڑ دیا ہے لیکن اس معاملہ سے وہ راضی وخوشنود ہے۔
.......................................
١۔ شیخ صدوق ِ خصال، ص٧٣ ح ١١٤۔
٢۔ کافی، کلینی، ج ٢، ص ١٦، ح ٥۔
٣۔ کافی، ص ١٢٨، ح ٢۔
ج۔ زہد کا سب سے بلند درجہ یہ ہے کہ اپنی خواہش اور شوق سے دنیا کو ترک کرے اور کبھی کسی چیز کے ہاتھ سے نکل جانے کا احساس نہ کرے۔یعنی احساس نہ کرے کہ کوئی معاملہ ہوا ہے، اسی طرح جیسے کوئی ایک مشت خاک کو چھوڑ دے تاکہ یاقوت حاصل کرے، وہ کبھی احساس نہیں کرتا کہ کوئی چیز اس نے قیمتی چیز کے مقابل گنوائی ہے اور کوئی معاملہ کیا ہے۔
٢۔ زہد کے مراتب اعراض کی جانے والی چیزوں کے اعتبار سے:
اس اعتبار سے زہد کے چند درجے درج ذیل بیان کئے گئے ہیں:
الف۔ محرَّمات سے اعراض کرنا ؛ یعنی محرَّمات سے دوری اختیار کرنا کہ جسے '' واجب زہد '' کہتے ہیں۔
ب۔ شبہوںسے اعراض کرنا اور ان کی نسبت زہد اختیار کرنا جو کہ انسان کو ارتکاب گناہ اور محرمات سے سالم رکھنے کا باعث ہیں۔
ج۔ حلال چیزوں سے ضرورت سے زیادہ مقدار کی نسبت زہد اختیار کرنا، یعنی غذا، پوشاک، رہائش، زندگی کے ساز وسامان وغیرہ میں اور ان کو حاصل کرنا کے اسباب و ذرائع جیسے مال وجاہ میں ضرورت بھر پر اکتفا کرنا۔
د۔ زہد اختیار کرنا ان تمام چیزوں کی نسبت کہ جو نفس کی لذت کا باعث ہوتے ہیں، حتیٰ کہ دنیا سے ضرورت بھرچیزوں میں بھی اس معنی میں کہ ضروری مقدار سے فائدہ اٹھانا اور فیضیاب ہونا بھی اس کی لذت کے لئے نہ ہو، نہ یہ کہ دنیا کی ضرورت بھر چیزوں کو بھی ترک کردے کہ اصولی طور پر ایسی چیز کا امکان ہی نہیں ہے۔ زہد کا یہ درجہ اور اس سے ماقبل تیسری قسم حلال میں زہد اختیار کرنا ہے۔
رسول خدا ۖ نے فرمایا: ''وہ لوگ مبارک وخوشحال ہیں جو خدا کے سامنے فروتنی کرتے ہیں اور جو کچھ ان کے لئے حلال کیا گیا ہے اس میں زہد اختیارکرتے ہیں بغیراس کے کہ وہ میری سیرت سے رو گرداں ہوں''۔ (١)
ہ۔ جو کچھ خدا کے علاوہ ہے اس سے روگرداں ہونا، حتیٰ خود سے بھی، لیکن بعض اشیاء کی طرف بقدر ضرورت توجہ جیسے خوراک، پوشاک اور لوگوں سے معاشرت زہد کے اس درجہ سے منافات نہیں رکھتی، کیونکہ خداوند رحمان کی جانب توجہ انسان کے زندہ اور باقی رہے بغیر ممکن نہیں ہے اور انسان کی زندگی کے لئے ضروریات حیات ضروری ہیں۔
.......................................
١۔ کافی، ج٨، ص١٦٩، ح ١٩٠ ۔ حرانی، تحف العقول، ص٣٠۔ اسی طر ح ملاحظہ ہو صدوق، فقیہ، ج٤، ص ٤٠٠، ح ٥٨٦١، اور تفسیر عیاشی، ج٢، ص٢١١، ح٤٢۔
جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق ـ سے منقول ہے: ''زہد جہنم سے برائت اور جنت کے دروازہ کی کنجی ہے اوروہ ہر اس چیز کا ترک کرنا ہے جو انسان کو خداسے غافل کردے، دنیا کے گنوادینے پر افسوس نہ کرنا اور اس کے ترک کردینے پر خود پسندی میں مبتلانہ ہونا ہے''۔(١) حضرت علی ـ زہد کی تعریف کے سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: ''سارا زہد قرآن کے دو کلموں میں جمع ہے، خدا وند سبحان نے فرمایا ہے: ''تاکہ جو کچھ تمہارے ہاتھوںسے چلا ہو گیا ہے اس پر افسوس نہ کرواور جو کچھ تمہیں دیا گیا ہے اس پر شادمان اور مسرورنہ ہو'' (٢) اور جو شخص گذشتہ پرافسوس نہ کرے اور آئندہ پر مسرور نہ ہو تو اس نے دو طرف سے زہد اختیا ر کیا ہے''۔ (٣)
٣۔زہد کے مراتب اس چیز کے اعتبار سے کہ انسان جس کی طلب میں دنیا سے روگرداں ہو تا ہے:
اس وجہ سے زہد کے درج ذیل تین درجے ہیں:
١۔ خدا ترس لوگوں کا زہد: انسا ن آتش جہنم سے نجات اور اخروی عذاب سے بچنے کے لئے دنیا سے روگرداں ہوتا ہے۔
٢۔ امید واروں کا زہد: یعنی دنیا سے اس امید میں رو گرداں ہونا کہ خدا کا ثواب اور جنتی تعمتیں حاصل ہوں۔
٣۔ عرفاء کا زہد: نہ ہی درد والم کی طرف توجہ رکھتا ہے تاکہ اس سے نجات طلب کرے اور نہ ہی لذتوں کی اعتناء کرتا ہے تاکہ ان سے فیضیابی کا طالب ہو۔ بلکہ صرف اور صرف خدا سے ملاقات اور اس کے دیدار کااشتیاق رکھتاہے۔ ایسا زہد صرف اہل معرفت کی شان ہے ۔(٤)
جو کچھ زہد کی تعریف اور اس کے درجات کے سلسلہ میں کہا گیا ہے اس کے اعتبار سے معلوم ہوتاہے کہ دنیا سے مرادصرف مال و ثروت، خوراک وپوشاک نہیں ہے، کیونکہ ان تمام امور سے اعراض ایسے افراد کے لئے جو شہرت کے طالب اورپارسائی کی تعریف کو دوست رکھتے ہیں۔ بہت آسان ہوجائے گا بلکہ دنیا تمام مرتبہ وریاست نیز وہ تمام نفسانی استفادے جو دنیا سے ممکن ہیں سب کو شامل ہے۔ حقیقی زہد یعنی مال و مرتبہ سے بے تعلق ہونا اوراس سے روگرداں ہونا ہے۔ سچا زہد وہ ہے جس کی نظر میں فقر و غنا، تعریف و برائی، عزت وذلت جو لوگوں کے نزدیک پائی جاتی ہیں، سب یکساں ہوں، اور و ہ صرف محبت خداوندی اور رضائے الہی کا طالب ہو ۔
.......................................
١۔ گیلانی، عبدالرزاق، مصباح الشریعة، ص ١٣٧۔
٢۔ بقرہ ٢٣٧۔
٣۔ نہج البلاغہ حکمت ٤٣٩ اسی طرح ملاحظہ ہو: کافی، ج٢، ص ١٢٨، ح٤۔ شیخ صدوق، امالی، ص ٧١٤، ح ٩٨٤ ۔ خصال، ص٤٣٧، ح ٢٦۔
٤۔ نراقی، جامع السعادات، ج ٢، ص ٦٥ تا ص ٧٤ ۔فیض کاشانی، محسن، المحجة البیضا ئ، ج٧، ص ٣٥٧ تاص٣٦٤۔
چار۔ زہد کے علائم
زہد کے بعض اہم علائم کہ جو اپنی جگہ پر خود بھی ایک عام اخلاقی مفہوم ہیں، درج ذیل ہیں۔
١۔ قناعت:
عربی ادب میں بخشش کی معمولی مقدار پر راضی ہونے (١) اور اپنے سہم پر رضایت دینے کے معنی میںہے(٢) اخلاق اسلامی کے مشہور مآخذ میں '' قناعت '' '' حرص '' کے مقابل استعمال ہوئی ہے اور اس سے مراد وہ نفسانی ملکہ ہے جس کی وجہ سے انسان اپنی ضرورت بھر اموال پر راضی اور خوش رہتا ہے اور خود کو اس سے زیادہ کی تحصیل کے لئے زحمت و مشقت میں مبتلا نہیں کرتا۔(٣) قناعت کے خود بہت سے مفید علائم ہیں اور دوسری طرف بہت سے اخلاقی رذائل بلکہ حقوقی جرائم سے بچنے کا ذریعہ ہے، اسی وجہ سے اسلام کے اخلاقی نظام میں اس کی تشویق وترغیب کی گئی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوا: ''اور خبر دار ہم نے ان میں سے بعض لوگوں کو جو زندگانی دنیا کی رونق سے مالا مال کردیا ہے اُس کی طرف آپ نظر اُٹھا کر بھی نہ دیکھیں کہ یہ اُن کی آزمائش کا ذریعہ ہے اور آپ کے پروردگار کا رزق ہی بہتر اور پائدا رہے''۔ (٤)
حضرت علی ـ قناعت کی اہمیت کے بارے میںفرماتے ہیں: '' میں نے تونگری تلاش کی لیکن اسے قناعت کے علاوہ کہیں اور نہیںپایا۔ لہٰذا قانع رہو تاکہ مالدار و تونگر ہو جائو '' (٥)
قناعت نہ یہ کہ صرف خود اخلاقی فضیلت ہے، بلکہ بہت سے اخلاقی اقدار کی حامل ہے۔ امام علی رضا ـ سے جب کسی نے قناعت کی حقیقت کے بارے میںسوال کیا تو آپ نے جواب میں اس کے علائم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ''قناعت اپنی ضبط نفس، عزّت وبلندی، حرص وطمع کی زحمت سے آسودہ ہونے اور دنیا پرستوں کے مقابل بندگی کا باعث ہے۔ دوانسان کے علاوہ کوئی قناعت کا راستہ طے نہیں کرسکتا ہے: ایسا عبادت گذار جو آخرت کی اجرت کا خواہاں ہے، یا ایسا بزرگ و شریف انسان جو پست لوگوں سے دوری اختیار کرتا ہے۔ (٦)
.......................................
١۔ ابن اثیر، نہاےة، ج٤، ص ١١٤۔
٢۔ ابن منظور، لسان العرب، ج ٨، ص ٢٩٨۔
٣۔ نراقی، مولی محمد مہدی، جامع السعادات، ج٢، ص ١٠١۔
٤۔ سورۂ طحہٰ: آیت ١٣١۔
٥۔ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج ٦٩، ص ٣٩٩، ح ٩١۔
٦۔ بحار الانوار، ج٧٨، ص ٣٤٩، ح٦۔
درحقیقت انسان دنیا میں قناعت اختیار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رکھتا ورنہ وہ ہمیشہ زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی حرص و ہوس اور حسرت و یاس کی آگ میں جلتا رہے گا۔ ایک شخص نے حضرت امام جعفر صادق ـ سے شکوہ کیا کہ روزی حاصل کرتا ہے لیکن قانع نہیں ہوتا اور اس سے زیادہ کا خواہش مند رہتا ہے اور اس نے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسی چیز سکھائیے جس سے میری مشکل حل ہوجائے توحضرت نے فرمایا:'' اگراس قدر جو تیرے لئے کافی ہو اور تجھے بے نیاز کردے تو دنیا کی تھوڑی سی چیز بھی تجھے بے نیاز کر دے گی اور اگر جو کچھ تیرے لئے کافی ہے وہ تجھے بے نیاز نہ کر سکے تو پھر پوری دنیا بھی تجھے بے نیاز نہیں کر سکے گی''۔ (١)
لیکن کس طرح قناعت کو اختیار کیا جا سکتا ہے ؟ عام طریقوں کے علاوہ بعض خاص طریقے بھی ذکر کئے گئے ہیں، منجملہ ان کے حضرت امام جعفر صادق ـ اس سلسلہ میںراہنمائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ''اپنے سے کمزور تر انسان کو دیکھو اور اپنے سے مالدارتر کو نہ دیکھو، کیونکہ یہ کام تمہیں اس چیز پر جو تمہارے لئے مقدر کیا گیا ہے، قانع کردے گا''۔ (٢)
٢۔لوگوںکے اموال سے بے نیازی اور عفت:
عربی ادب میں '' عفّت '' نا پسند امور اور شہوتوں کے مقابل صبر وضبط کرنے کو کہتے ہیں ۔(٣)
جنسی عفّت اور کلام میں عفّت کے علاوہ عربی ادب اور دینی کتابوں میں دوسروں سے اظہار درخواست کرنے سے پرہیز کرنے کو بھی عفّت کہتے ہیں۔ (٤) دنیا میں زہد کے علائم میں سے ایک علامت لوگوں کے اموال سے بے نیازی اور عفّت اختیار کرنا ہے، قرآن کریم ایسے صاحبان عفّت کے بارے میں فرماتا ہے: یہ صدقہ ''ان فقرائ'' کے لئے ہے جوراہ خدا میںگرفتار ہوگئے ہیں اور وہ( اپنی ضروریات زندگی پورا کرنے کے لئے ) زمین میں سفر نہیں کر سکتے، ان کی حیا وعفّت کی بنا پر ناواقف شخص انھیں تونگراور مالدار خیال کرتا ہے، حالانکہ انھیںتم ان کی علامتوں سے پہچان لوگے، اصرار کے ساتھ وہ لوگوں سے کوئی چیز نہیں مانگتے''۔ (٥)
.......................................
١۔ شیخ کلینی، کافی، ج٢، ص ١٣٩، ح ١٠۔
٢۔ کافی، ج٨، ص ٢٤٤، ح ٣٨٨۔
٣۔ ابن فارس، مقاییس اللغة، ج ٤، ص ٣۔
٤۔ ابن منظور، لسان العرب، ج٩، ص ٢٥٣، ملاحظہ ہو۔
٥۔ سورئہ بقرہ، آیت ٢٧٣۔
حضرت امام جعفر صادق ـ لوگوں سے بے نیازی اختیار کرنے کے بارے میں فرماتے ہیں: ''مومن کا شرف تہجّد سے اور اس کی عزّت لوگوں سے اس کے بے نیاز رہنے میں ہے''۔(١) اور حضرت علی ـاس بات کے بیان میں کہ لوگوں سے بے نیازی کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ ان سے معاشرت اور راہ و رسم نہ رکھی جائے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے مغائرت نہیں رکھتی فرمایا ہے:'' تمہارے دل میںلوگوں سے بے نیازی اور ان کی ضرورت و نیاز دونوں ہی ہونی چاہیے ان کے ساتھ تمہاری نیاز اور ضرورت تمہاری نرم کلامی اور خوشروئی میں ہے اور تمہاری بے نیازی آبرو کی حفاظت اور عزت کے باقی رہنے میں ہے''۔ (٢) بے شک مالی امور میں یہ بے نیازی اور عفّت زہد اور دنیا سے قطع تعلق ہی سے حاصل ہوسکتی ہے۔
پانچ۔ زہد اختیار کرنے کے موانع
انسان کی پارسائی اور زہد اختیارکرنے کے مقابل دو بنیادی رکاوٹیں پائی جاتی ہیں:ایک اس کا دنیا سے محبت کرنا اور دوسرے اس سے بے فیض ہونا اور قطع رابطہ کرنا، تمام مفاہیم جیسے حرص، طمع درحقیقت دنیاوی محبت کے علائم میںشمار ہوتے ہیں اور دنیا طلبی کے نتائج کے عنوان سے مورد بحث واقع ہو تے ہیں۔
١۔دنیاکی محبت:
زہد کا مفہوم اور اس کی اہمیت کی توضیح کے موقع پر ایک حد تک دنیا کا مفہوم بھی آشکار ہوگیا اور اس کی مذمت میں آیات و روایات بیان کی گئیں، اب دنیا طلبی کہ جو زہد اختیار کرنے سے مانع ہے اس کے علائم اختصار کے ساتھ بیان کئے جائیں گے۔
بے شک اسلام کے اخلاقی نظام میں دنیا ہمیشہ مذمو م نہیں ہے بلکہ اہمیت اور تعریف کے قابل بھی ہے۔ دنیا ان تمام چیزوں کو شامل ہے جو انسان کے بہرہ مند ہونے کا باعث ہیں، اس کی ضرورتوں کو پورا کرنے اور مقاصد کی تکمیل کا باعث ہیں۔ یہ لذتیںاور استفادے ہمیشہ برے نہیں ہیں، بلکہ اچھے نتائج کے بھی حامل ہیں۔
''مذموم دنیا'' سے مراد وہ زود گذر استفادے ہیں جو نہ خود اخروی عمل صالح ہیں اور نہ اخروی عمل صالح کے لئے وسیلہ ہیں۔ نتیجہ کے طور پر مذموم دنیا حرام طریقہ سے لذ ت جوئی اور عیش و عشرت اور جو حلال چیزوں سے ضرورت و لازم مقدار سے زیاد ہ مالا مال ہونے کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے۔ (٣)
.......................................
١۔ شیخ کلینی، کافی، ج ٢، ص ١٤٨، ح١۔
٢۔ کافی، ج٢، ص١٤٩، ح٧۔
٣۔ محمد مہدی ، نراقی جامع السعادات، ج٢، ص ١٧، ٣٥۔
یہ وہی دنیاہے جس کی مذمت میں خدا وند سبحان نے فرمایا ہے: ''گونا گوں اور رنگا رنگ خواہشات کی دوستی یعنی عورتیں، اولاد، کثیر اموال سونے چاندی سے، علامت والے (تندرست) گھوڑے، چوپائے اور کھیتیاں یہ سب لوگوں کے لئے آراستہ کر دی گئی ہیں، (لیکن) یہ سب دنیاوی زندگی کے استفادہ کا ذریعہ ہیں۔ (١)
بعض آیات میں ہوائے نفس کے عنوان کے تحت مذموم و نا پسند دنیا سے مخا لفت کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ (٢)
قرآن اس کی حقیقت کی تو ضیح دیتے ہوئے فرماتا ہے:'' جان لو کہ دنیاوی زندگی در حقیقت صرف کھیل کود، تماشہ، آرائش، آپس میں فخرو مباہات اور اولاد واموال میں زیادتی کے مقابلہ کا نام ہے''۔ (٣) سر انجام جو اپنی دنیوی زندگی کا دنیا سے سوداکرتے ہیں، قیامت میں ان سے کہا جائے گا: ''اب اسی میں ذلّت کے ساتھ پڑے رہو اور مجھ سے بات نہ کرو۔(٤) ''یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے آخرت کو دے کر دنیوی زندگی خرید لی ہے لہذا نہ ان کا عذاب کم ہوگا اور نہ ہی ان کی مدد کی جائے گی''۔(٥)
اس دنیا اور اس کے ناگوار علائم کے بارے میں، جو کہ دنیا وآخرت میں ہوں گے، روایات کثرت سے پائی جاتی ہیںاور ان کی مقدار اتنی زیادہ ہے کہ بعض میں یہ توہم ہوتا ہے کہ گو یا اسلامی اخلاق میں دنیاوی چیزوں کی ہمیشہ مذمت ہی کی گئی ہے جب کہ ایسا نہیں ہے۔ ہم ان روایات میں سے انھیں پر اکتفا کریں گے جو زہد کی بحث میں بیان کی جاچکی ہیں۔
ممدوح دنیا نام ہے اس سے اتنا ہی استفادہ کرنا جتنا اپنی بقائ، خدا کی عبودیت اور اعمال صالحہ انجام دینے کے لئے لازم ہے۔ یہ حقیقت میں تحصیل آخرت کا مقدمہ ہے۔ اس طرح کی دنیا اسلامی اخلاق میں قابل ستائش واقع ہوئی ہے اور انسانوں کو اس کی تحصیل اور اس سے بہرہ مندہونے کی ترغیب اور تشویق دلائی گئی ہے۔
بہت سی روایات میں دنیا و آخرت کے خیر کو بہت سے نیک اعمال کے نتیجہ کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے (٦)
.......................................
١۔ آل عمران، ١٤ ؛ منافقون، ٩ ؛انفال ٢٨ اور کہف ٤٧۔
٢۔ نازعات ٤٠۔
٣۔ حدید ٢٠۔
٤۔ مومنون ١٠٨۔
٥۔ بقرہ ٨٦۔
٦۔ کلینی ، کافی، ج٢، ص ٤٩٩، ح ١۔ اور ص ٧١، ح ٢۔ اور ج ٥، ص ٣٢٧، ج ٢ ۔ صدوق، خصال، ص ٤٢، ح ٣٤۔
بہت سی دعاؤ ں میں ہمیشہ اولیاء خداکا مطلوب یہی رہا ہے۔ جیسا کہ خدا وندعالم قرآن مجید میںارشادفرماتا ہے: ''مومنین کی درخواست یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں: '' خدا یا ! ہمیں اس دنیا میں بھی نیکی اور آخرت میں بھی نیکی عطا کر''۔ (١) اس میں شک نہیں کہ خیر دنیا سے مراد وہی ممدوح اور پسندیدہ دنیا ہے اس کے مصادیق کثرت سے پائے جاتے ہیں کہ بعض روایات میں ان کی طرف اشارہ ہوا ہے۔حضرت علی ـ ممدوح اورپسندیدہ دنیا کی ستا ئش میں فرماتے ہیں: ''دنیا مومن کی سواری ہے جس پر سوار ہو کر وہ خداوند سبحان کی طرف سفر کرتا ہے، لہٰذا اپنی سواریوں کو آمادہ (اصلاح) رکھو تاکہ وہ تمہیں تمہارے رب کی جانب پہنچادیں''۔ (٢)
متعدد روایات میں مذکورہے '' جو انسان اپنی معیشت اور اپنے اہل و عیال کی دنیا اصلاح کرنے کے لئے حلال طریقہ سے کوشش کرے تو وہ راہ خدا میں مجاہد کے مانند ہے ''۔ (٣)
دنیا کی محبت کی نشانیاں:
دنیا کی محبت کی اہم نشانیاں میں جو ایک مانع کے عنوان سے انسان کے زہدکے مقابل ہے وہ حرص وطمع ہے جس کو اختصا رکے ساتھ بیان کررہے ہیں۔
الف۔ دنیا کی حرص:
عربی لغت میں ''حرص '' محبوب و مطلوب چیز کی طلب میں شدید خواہش وارادہ ہوتا ہے۔ (٤) نیکی کے حصول میںحرص کرنا ممدوح اورپسندیدہ ہے جیسا کہ رسول اکرم ۖنے واقعی توبہ کرنے والوں کی خصوصیات میں نیکیوں اور خیرات پر حریص ہونا جانا ہے۔ (٥) متعدد روایات میں علم حاصل کرنے (٦) ، فقاہت(٧) ، نیک اور پسندیدہ اعمال انجام دینے(٨) ، راہ خدا میں جہاد کرنا(٩) ، ١خروی درجات(١٠) حاصل کرنے اور ان کے مانند دوسری چیزوں ہیں حریص ہونے کی ستائش ہوئی ہے۔
.......................................
١۔ سورئہ بقرہ، آیت ٢٠١۔
٢۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج ٢٠، ص ٣١٧، ح ٦٤٠۔
٣۔ شیخ کلینی، کافی، ج ٥، ص ٩٣، ح٣۔ ص٨٨، ح٢ ۔ حرانی، تحف العقول، ص ٤٤٥۔
٤۔ ابن منظور، لسان العرب، ج٧، ص١١۔راغب اصفہانی، مفردات الفاظ قرآن، ص ٢٢٧، ٢٢٨ ملاحظہ ہو۔
٥۔ حرانی، تحف العقول، ص ٢٢۔
٦۔ نہج البلاغہ، خطبہ ١٩٣ ۔ حرانی، تحف العقول، ص ١٦٠۔
٧۔ شیخ کلینی، کافی، ج ٢، ص ١ ٢٣، ح٤ ملاحظہ ہو۔
٨۔ شیخ صدوق، خصال، ص ٥١٥، ح ١۔
٩۔ شیخ کلینی، کافی، ج ٢، ص ٢٣١، ح ٤ ملاحظہ ہو۔
١٠۔ حرانی، تحف العقول، ص ٢٨٦۔
دنیا کا حریص ہونا ناپسندیدہ صفات اور زہد کے موانع میں سے ایک مانع ہے۔ اسی بنیادپر متعدد آیات وروایات میں اس کی شدت سے مذمت کی گئی ہے اور اس کے نقصان دہ اثرات مختلف پہلوئوں سے بیان کئے گئے ہیں۔ حریص انسان کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ کبھی سیر نہیںہوتا ہے۔ حرص کا اہم ترین نمونہ روایات معصومین(ع) کی روشنی میں علماء وحکماء کی حرص اور محرمات کے انجام دینے کی حرص ہے۔ سب سے اہم حرص کا سبب موت کو بھلادینا اور دنیا کی محبت ہے۔ ذلت وخواری، حیا و انسانیت کو ترک کرنا، گناہوںمیںڈوب جانا، انجام و عاقبت کو تباہ وبرباد کردینا دنیا کی حرص کے اہم ترین میں سے ہیں ۔ توکل، قناعت اور موت کی یاد کو دنیاکی حرص کے علاج کا بہترین وسیلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
ب۔ طمع اور لالچ :
عربی لغت میں طمع کسی شے سے متعلق(١) شہوت وخواہش نفس کے ساتھ اشتیاق کے مفہوم کو کہتے ہیں، علماء اخلاق کی نظر میں طمع سے مراد ہے لوگوںکے اموال کی خواہش اور لالچ کرنا۔(٢)
حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: ''مومن کے لئے کتنی بری بات ہے کہ وہ ایسی چیز کی خواہش اور دلچسپی پیدا کرے جو اسے ذلیل و خوار کردے''۔(٣)
حضرت امام زین العابدین ـ دوسرے کی چیزوں سے انسان کی طمع کے قطع کرنے کی ترغیب و تشویق کے متعلق فرماتے ہیں: '' میں تمام خیر کو لوگوں کے پاس موجود چیزوں سے قطع طمع کرنے میں دیکھتا ہوں''۔ (٤) ( یعنی اگر انسان تمام خیرکو جمع کرنا چا ہتا ہے تو لوگوں کے پاس موجود چیزوں سے چشم پوشی کرے اور اس پر نظر نہ جمائے)۔ اس وجہ سے طمع اور لالچ بہت سے اخلاقی رزائل کا سرچشمہ ہے جیسے ذلت وخواری، پستی، حسد اور جلن، کینہ توزی، بد گوئی۔ محبت دنیا کے دیگر علائم میں ایک حسرت وافسوس ہے اور یہ کیفیت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان کو دنیا حاصل نہیں ہوپاتی ہے۔
2۔ خمود:
خمود سے مراد زندگی کے لئے ضروری کسب معاش میں سستی و تفریط کرنا نیز جنسی اور تمام لذتوںسے بہرہ مند ہونے میں بے رغبتی، عدم دلچسپی اور سستی کرنا ہے ۔ (٥)
جس طرح دنیا کی محبت اور اس سے دلبستگی زہد کی راہ میںمانع محسوب ہوتی ہے اسی طرح حد سے زیادہ ضروریات زندگی کی لازم مقدار پورا کرنے اور دنیوی مواہب اور عطیوںسے استفادہ کرنے میں سستی کرنا دنیا کی نسبت صحیح موقف کی راہ میں ایک مانع ہے۔ جو آیات وروایات ممدوح اورپسندیدہ دنیا کے بارے میںبیان کی گئی ہیںوہ سب زندگی کی ضروری چیزوں کے حصول سے متعلق سستی اور خمود کا مظاہرہ کرنے کی مذمت پر دلالت کرتی ہیں۔
.......................................
١۔ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ قرآن، ص ٢١٦۔
٢۔ نراقی، مولی محمد مہدی، جامع السعادات، ج٢، ص ١٠٦۔
٣۔ کلینی، کافی، ج ٢، ص ٣٢، ح ١۔
٤۔ ایضاً، ج٢، ص ٣٢٠، ح ٣۔
٥۔ نراقی، مولی محمد مہدی، جامع السعادات، ج٢، ص ١٣، ١٥۔
|