ج۔ نفس کا خود اپنی طرف رجحان
نفس انسانی کے اپنی نسبت رجحان کا تعادل وتوازن بعبارت دیگر اپنے کام سے متعلق صحیح جانچ پڑتال رکھنا اخلاق اسلامی میں عام مفاہیم کے دوسرے گروہ کا ہدف ومقصد ہے۔ سب سے اہم وہ مفہوم جو انسانی کے اپنی نسبت مثبت رجحان اور صحیح جانچ پڑتال کا ذریعہ بیان کرتا ہے وہ '' انکساری '' یا '' خود شکنی '' اور '' تواضع '' ہے۔
١۔ انکسار نفس
نفس کی انکساری اور خود شکنی سے مراد یہ ہے کہ انسان بغیر اس کے کہ اپنا کسی غیر سے مقایسہ کرے خود کو سب سے حقیر چھوٹا سمجھے نیز خود پسند اور اپنے آپ سے راضی نہ ہو، خود شکنی تواضع کا سرچشمہ ہے اور بغیر اس کے تواضع محقق نہیں ہوتی۔ اس بنا پر جو کچھ تواضع کی اہمیت اور فضیلت کے بارے میں بیان کیا جائے گاوہ سب فروتنی اور خود شکنی کی فضیلت پر بھی دلالت کرے گا، اور شاید اسی وجہ سے آیات و روایات میں زیادہ تر ''تواضع '' کے سلسلہ میں تاکید کی گئی ہے اور انکساری نفس اور خود کو حقیر شمار کرنے کے بارے میں کم ذکر آیا ہے۔ انکساری نفس کی فضیلت کے مختلف پہلوئوں کو جب اس کے موانع سے مقایسہ کریں اور ان کے متضاد مفاہیم پر غور کریں تو بخوبی دریافت کرسکتے ہیں، یہ موانع درج ذیل ہیں: (١)
پہلی نظر عُجب(خود پسندی)
عُجب خود ستائی اور غرور فروتنی اور خودکو حقیر شمار کرنے کے اصلی و بنیادی موانع میں سے ایک ہے، چونکہ خودستائی حقیقت میں خود پسندی کی علامت اور اس کے ملحقات میں سے ہے لہذا ہم موانع کی بحث کو خود پسندی اور غرور کے محور پر بیان کریں گے۔
.......................................
١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٣٤٣ملاحظہ ہو۔
الف۔ عُجب کا مفہوم:
عُجب یعنی خود کو اس کمال کی وجہ سے عظیم اور بلند سمجھنا ا جو وہ اپنے اندر سمجھتا ہے خواہ وہ کمال واقعاً اس میں پایا جاتا ہو یا نہ پایا جاتا ہو، نیز جس چیز کو وہ کمال تصور کررہا ہے واقعاً بھی کمال ہو یا نہ ہو اس وجہ سے خود پسندی میں بھی انکسار نفس اور فروتنی کے مانند دوسرے سے مقایسہ نہیںپایا جاتا ہے اور بغیر اس کے کہ انسان اپنا دوسروں سے مقایسہ کرے اپنے اندرپائے جانے والے واقعی یاخیالی کمال کے تصوّر کی وجہ سے نیز اس بات سے غفلت کے سبب کہ ہر کمال خدا کی جانب سے ہے، اپنے آپ پر مغرور اور راضی و خوشنود ہے اور اپنی حالت کوپسند کرتا ہے۔ بر خلاف ''کبر '' کے کہ متکبر انسان اپنے آپ سے راضی و خوشنود ہونے کے علاوہ خود کو دوسروں سے مقایسہ کرکے اور اپنے آپ کو غیروں سے بہتر سمجھتا ہے نیز اپنے لئے دوسروں کے مقابل حق اور اہمیت و امتیاز کا قائل ہے (١)
اس بنا پر، ''کبر'' کا محقق ہونا اس بات کا مستلزم ہے کہ'' عُجب '' بھی پایا جائے، لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہے کہ جہاں عُجب و خود پسندی ہووہاں کبر بھی ضروری ہو۔کبھی انسان کی خود پسندی اس درجہ بڑھ جاتی ہے کہ جو اس کے اندر کمال پایا جاتا ہے اس کی وجہ سے اپنے لئے خدا وند عالم سے حقوق اور مطالبات کا انتظار کرتا ہے اور اپنے لئے خدا کے نزدیک حیثیت و مرتبہ کا قائل ہو جاتا ہے، اس طرح سے کہ ناگوار حوادث کا وقوع اپنے لئے بعید سمجھتا ہے ایسی حالت کو ''ادلال'' کہا جاتا ہے ،درحقیقت یہ حالت خود پسندی کا سب سے بڑا اور بدترین درجہ ہے۔ (٢)
ب۔ خود پسندی کی مذمت :
قرآن کریم میں بارہاخود پسندی کی مذمت کی گئی ہے، منجملہ ان کے جنگ حنین میں مسلمانوں کی شکست کی علّت بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے:
''یقیناً خداوندرحمان نے تمہاری بہت سے مواقع پر مدد کی ہے اورحنین کے روز بھی جب کہ تمہاری کثرت تعداد نے تمہیں فخر وناز میں مبتلا کر دیا تھا لیکن اس نے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا اور زمین اپنی تمام تر وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی، پھر تم دشمن کی طرف پیٹھ کر کے فرار کر گئے''۔ (٣)
اس آیت میں خود پسندی کا ذکر اخلاقی برائی کے عنوان سے ہوا ہے جو کہ لشکر اسلام کی شکست کا باعث بن گئی ۔ پیغمبر اکرم ۖ سے منقو ل ہے کہ خدا وند عالم نے حضرت داؤد ـ سے فرمایا: ''اے داؤد! گناہگاروں کو بشارت دے دو اور صدیقین (سچے اور پاک باز لوگوں کو ) ڈراؤ۔
.......................................
١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٣٢١، ٣٢٢ملاحظہ ہو۔
٢۔ ایضاً، ص٣٢٢۔
٣۔ سورئہ توبہ، آیت٢٥۔ اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ حشر، آیت ٢۔ سورئہ کہف، آیت ٤٠۔ اور سورئہ فاطر، آیت ٨۔
داؤد ـ نے عرض کی: گناہگاروں کو کس طرح مژدہ سنائوں اورصدیقین کوکیسے ڈراؤں ؟ خدا نے فرمایا: اے داؤد! گنہگاروں کو اس بات کی خوش خبری دو کہ میں توبہ قبول کروں گا اوران کے گناہوں کو معاف کر دوں گا اور صدیقین کو ڈراؤ کہ اپنے اعمال پر اترائیں نہیں، کیونکہ کوئی ایسا بندہ نہیں ہے جس کا محاسبہ کروں مگر یہ کہ وہ ہلاک ہو۔(١)
بے شک خود پسندی اور خود بینی اخلاق اسلامی کی رو سے نہ صرف ایک غیر اخلاقی عمل ہے بلکہ اخلاقی رذائل کی ایک شاہراہ ہے اورجو تعبیریں دینی کتابوںمیں اس کی مذمت میں وارد ہوئی ہیں وہ اس مختصر کتاب کی گنجائش سے باہر ہیں۔ (٢)
ج۔خود پسندی کے اسباب:
اسلامی اخلاق کے عالموںنیخود پسندی کے بہت سے اسباب و عوامل ذکر کئے ہیں کہ ان میں سے اہم ترین درج ذیل ہیں:
١۔ جسمانی بنیاد پر خود پسندی، جیسے خوبصورتی، جسم کا تناسب، اس کی صحت اور اس کا قوی ہونا، خوش آواز ہونا ِ اور اس کے مانند۔
٢۔ اقتداراور قدرت کے احساس کی بنا پر خود پسندی، جیسا کہ خدا وندعالم قوم عاد کے بارے میں فرماتا ہے کہ وہ لوگ اسی طرح کے توہم کا شکار ہوکر بولے: '' ہم سے زیادہ قوی کون ہے(٣) ؟'' اس طرح کی خود پسندی عام طور پر جنگ اور ظلم وستم ایجاد کرتی ہے۔
٣۔ عقل ودانش، ذہانت وآگاہی اور دینی اور دنیوی امور کے بارے میں دقیق اور وسیع علم رکھنے کی بنیاد پر خود پسندی۔ اس طرح کی خود پسندی کا نتیجہ خود رائی، ہٹ دھرمی، مشورہ سے بے نیازی کا احساس، دوسروں کو جاہل خیال کرنا اور عالموں اور دانشوروں کی باتوں کو سننے سے پرہیز کرنا ہے۔
٤۔ انتساب کی وجہ سے خود پسندی یعنی باشرف نسب اور با عظمت بزرگوں کی طرف منسوب ہونے کی بنا پر جیسے بنی ہاشم کی طرف منسوب ہونااور سید ہونا یا بزرگ خاندان سے تعلق یاشاہان وسلاطین کی طرف انتساب۔ انسان کاایسا خیال اپنے لئے لوگوں کی خدمت گذاری کی چاہت پیدا کرتا ہے۔
.......................................
١۔ اصول کافی، کلینی، ج٢، ص ٣١٤، ح٨۔
٢۔ علامہ مجلسی ،بحار الانوار، ج ٧١، ص ٢٢٨تا ص ٢٣٥۔ کافی، ج ٢، ص ٣١٣، ٣١٤۔
٣۔ سورئہ فصلت، آیت ١٥۔
٥۔اولاد غلام، قبیلہ وخاندان، رشتہ دار اور پیروی کرنے والوں کی کثرت سے اترانا، چنانچہ خدا وندعالم نے کافروں کے قول کی حکایت کرتے ہوئے فرمایا ہے: '' انہوں نے کہا ہماری دولت اور اولاد سب سے زیادہ ہے اور ہم عذاب میں مبتلا نہیں ہوں گے '' ۔(١)
٦۔ ایسی خود پسندی جو مال و دولت کی فراوانی سے پیدا ہو۔ قرآن دومالکین باغ میں سے ایک کی زبانی نقل کرتا ہے: ''میر ا مال تم سے زیادہ ہے اور افراد کے اعتبار سے بھی میں تم سے قوی ہوں '' (٢) اس نے اپنے مال و متاع کو اپنی جانب سے خیال کیا اور اسے اپنی برتری کا سبب جانا خدا وند عالم نے بھی جو کچھ اسے دیا تھا چھین لیا مجموعی طور پر جب بھی انسان خود کو صاحب کمال خیال کرے، خواہ جسے اس نے کمال سمجھا ہے واقعا ً کمال ہو یا نہ ہو اور اس بات کو بھول جائے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے خدا کا دیاہوا ہے اور اسی کی رحمت و توفیق سے میسر ہوا ہے تو یہ امر اس کے اندر خود پسندی کا سبب بن سکتا ہے، حتی اگر خدا کی عبادت اور تقوی ٰسے فیضیاب ہونے اور خدا سے ڈرنے کا احساس بھی ہو۔ (٣)
د۔ خود پسندی کے نقصان دہ اثرات: جیسا کہ اشارہ ہوا، خود پسندی بہت سی اخلاقی برائیوں کی کنجی ہے ذیل میں ان میں سے بعض اہم ترین برائیوں کی طرف اشارہ کررہے ہیں:
١۔ خود پسندی ''کبر'' کا سرچشمہ نیز اس کے علاوہ بہت سے دوسرے رذائل کا بھی منبع ہے۔ اور کبر خود بینی کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا ۔
٢۔ خود بینی گناہوں کے فراموش کرنے کا باعث ہے۔ اگر انسان اپنے بعض گناہوں کی طرف متوجہ بھی ہو، تو انھیںمعمولی اورقابل مغفرت شمار کرکے ان کی تلافی کی کوشش نہیں کرتا۔
٣۔خود پسند انسان خود بینی کے بالا ترین مراحل میں اپنے کو بہت زیادہ خدا سے نزدیک سمجھتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خود کو عذاب الٰہی سے محفوظ جانتاہے، اسی وجہ سے وہ اپنے اعمال کی اصلاح اور اس کے نقائص کو برطرف کرنے کی کوشش نہیں کرتا آخر کار اپنے اعمال کو ضائع کر دیتا ہے۔
.......................................
١۔سورئہ سبائ، آیت٣٥۔
٢۔ سورئہ کہف، آیت ٣٤۔
٣۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٦، ص٢٨٢تا٢٨٩۔
٤۔ خود پسند انسان چونکہ خداوند عالم سے اپنے لئے کچھ مطالبات رکھتا ہے لہٰذا شکر گذاری اور قدر شناسی کو اپنا فریضہ نہیں سمجھتا اور اللہ کی نعمتوں کی نسبت نا شکر ا ہو جاتا ہے۔
٥۔ خود پسند انسان چونکہ اپنے اعمال سے خوش بین رہتا ہے اس لئے وہ اپنی کمزوری اور احتیاج کا احساس نہیں کرتا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ خود کو سوال کرنے اور مشورہ سے بے نیاز سمجھتا ہے۔
٦۔ خود پسند انسان چونکہ اپنے اندر کوئی کمی اور نقص اور عیب نہیں سمجھتا، لہٰذا خود کو دوسروں کی نصیحت اور خیر خواہی سے بے نیاز تصور کرتا ہے اور ان کی نصیحتوں پر توجہ نہیں کرتا۔ (١)
٧۔ خود ستائی یعنی اپنی آپ تعریف کرنا خود پسندی کا ایک دوسرااثر ہے۔ خود بین انسان کو جو بھی موقع ہاتھ لگتا ہے وہ صرف اپنی تعریف میں زبان کھولتا ہے اور جو کچھ اس سے متعلق ہے اسے اچھے عنوان سے ذکر کرتا ہے۔ (٢) جب کہ آدمی کا حسن اوراس کی خوبی یہ ہے کہ خود کو نقائص، عیوب، گناہوں اور خطاؤں سے بری نہ جانے اور ہمیشہ بارگاہ خدا وندی میں اپنے جرم و گناہ کی معذرت کرتا رہے۔ قرآن کریم میں خود ستائی کی مذمت میں ارشاد ہوتا ہے: ''لہٰذا اپنے آپ کوپاکیزہ خیال نہ کرو وہ اس انسان (کے حال) سے جس نے پرہیز گاری اختیار کی ہے زیادہ آگاہ ہے''۔ (٣)
ہ۔ خود پسندی کا علاج: ہر درد کا علاج اس کے اسباب و علل کو برطرف کرنا ہے، لہذا جو انسان اپنے حسن و جمال اور جسمانی صحت پر مغرور ہو گیا ہے، اسے چاہئے کہ وہ اپنے آغاز پیدائش اور اپنے انجام پر نظر کرے اور یہ جان لے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے وہ سریع الزوال اورفانی ہے۔ صاحب قدرت کو معلوم ہوناچاہیے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ ایک روز کی بیماری میں نابود ہوجائے گا اور ہر آن اس بات کا امکان ہے کہ جو کچھ خدا نے اسے دیا ہے واپس لے لے گا۔ صاحب علم و عقل بھی جان لے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے وہ اللہ کی امانت ہے لہذا ممکن ہے کہ ایک معمولی حادثہ کے ز یراثر اپنے تمام علم وشعور کو کھو دے۔ اسی طرح صاحبان حسب و نسب بھی جان لیں کہ دوسروںکے کمال کے سبب اظہار فضیلت و بلندی عین جہالت اور بیوقوفی ہے کیونکہ خدا کی بارگاہ میں کرامت وبزرگی تقویٰ وپرہیز گاری کے سوا کچھ نہیںہے۔
.......................................
١۔ المحجة البیضائ، ص٢٧٥، ٢٧٦ ملاحظہ ہو۔
٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج١، ص ٣٦٥، ٣٦٦۔
٣۔ سورئہ نجم ، آیت ٣٢۔
مال ودولت کے مضر اثرات کے بارے میں غور وفکر کرنا کافی ہے تاکہ دولتمندوں کو خود پسندی کے خواب سے بیدار کر دے۔ اہل عبادت اور تقویٰ کو بھی توجہ کرنی چا ہئے کہ عبودیت کی غایت خدا کے سامنے تواضع و انکساری کے سواکچھ نہیں ہے اور عبودیت خود بینی، خود پسندی سے میل نہیں کھاتی ۔(١)
دوسری نظر۔ غرور
''غرور ' 'جوکچھ نفسانی خواہشات کے موافق ہے اس کی نسبت قلبی سکون و اطمینان نیز انسانی طبیعت کا اس کی طرف مائل ہونا ہے۔ اس صفت کا سر چشمہ یا تو جہالت ہے یا شیطانی وسوسہ ہے۔ اس وجہ سے جو شخص اوہام اور شبہات کی بنیاد پر خود کو خیر و صلاح پر تصورکرتا ہے حقیقت میںوہ دھوکہ کھا گیا ہے اور مغرور ہو گیا ہے، وہ اپنا اور اپنے امورکا صحیح اندازہ لگانے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔ جیسے کوئی حرام طریقہ سے مال حاصل کرے اوروہ اسے راہ خیر مثلاً مسجد بنانے، مدرسہ تعمیر کرنے اوربھوکوں کو سیرکرنے میں خرچ کرے اس خیال سے کہ وہ راہ خیر اور نیکی میں قدم اٹھا رہاہے، جب کہ وہ مغرور اور دھوکہ کھایا ہوا ہے۔ اس وجہ سے '' غرور '' کے دو اساسی رکن ہیں:
١۔ جہل مرکب: یعنی اس کا قلبی اعتقاد یہ ہے کہ اس کا عمل نیک ہے جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
٢۔ برخلاف اس کے کہ جو وہ ظاہر میں دعویٰ کرتا ہے اس کا اصلی سبب خیر و سعادت نہیں ہے، بلکہ خواہشات وغضب کی پیروی اور انتقام جوئی ہے۔
قر آن و روایات میں غرور کی شدت سے مذمت کی گئی ہے۔ قرآن اس سلسلہ میںانسان کو ہوشیار کرتا ہے: ''تمہیں یہ دنیاوی زندگی دھوکہ ہرگز نہ دے اور شیطان تمہیں ہر گز مغرور (فریب خوردہ) نہ بنائے ''۔ (٢) دوسری جگہ غرور کا سبب دنیا دوستی اور دنیا طلبی جانتا ہے: '' دنیوی زندگی مایۂ فریب کے سوا کچھ اور نہیں ہے ''۔ (٣) اگر چہ لوگوں کے تمام گروہوں میں فریب خوردہ اور مغرور لوگ پائے جاتے ہیں، لیکن بعض گروہ کچھ زیادہ ہی غرور میں مبتلا ہیں یا بعبارت دیگر بعض امور زیادہ تر غرور کا باعث بنتے ہیں۔ اسی وجہ سے علماء اخلاق سب سے اہم ان گروہوں کو جو غرور میں مبتلا ہوتے ہیں، درج ذیل گروہ جانتے ہیں:
الف۔ کفار:
کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ دنیا کا نقد آخرت کے ادھار سے بہتر ہے۔ اسی طرح دنیا کی یقینی لذت آخرت کی وعدہ شدہ لذت سے بہتر ہے۔
.......................................
١۔ نراقی، محمد مہدی،جامع السعادات، ج١، ص ٣٢٦تا ٣٤٢۔
٢ ۔سورئہ لقمان، آیت ٣٣۔ اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ حدید، آیت ١٤۔
٣۔ سورئہ آل عمران، آیت ١٨٥ ۔ سورئہ حدید، آیت ٢٠۔
ب۔ فاسق اور گناہگار مومنین:
کیونکہ یہ لوگ اس بہانہ سے کہ خدا وندعالم عظیم اور وسیع رحمت کا مالک ہے، ان کے گناہ اس کے عفو ورحمت کے مقابل ناچیز ہیں، لہٰذا یقیناً رحمت خداوندی ان کے شامل حال ہوگی۔
ج۔علمائ:
کیونکہ ممکن ہے کہ یہ تصور کریں کہ علم ودانش، نجات وکامیابی کا ذریعہ ہے اور یہ سونچ کر اپنے علم پر عمل نہ کریں۔
د۔ مبلغین اور واعظین:
کیونکہ شاید یہ گمان کریں کہ ان کی نیت لوگوں کی ہدایت ہے جب کہ وہ اپنے نفس کو راضی کرنے کے چکر میں ہیں اور اس راہ میں خلاف واقع امور کی دین کی طرف نسبت دینے سے بھی گریز نہ کریں۔
ہ۔ اہل عبادت اور عمل:
چونکہ ممکن ہے کہ حقیقت میں وہ ریا اور خود نمائی کر رہے ہوں، لیکن تصور کریں کہ ان کی غرض اللہ کی رضا اور اس کے معنوی تقرب کا حصول ہے۔
و۔ عرفان کے دعویدار افراد:
کیو نکہ شاید یہ تصور کریں کہ صرف اہل معرفت کا لباس پہن کر اور ان کی اصطلاحیں استعمال کر کے (بغیر اس کے کہ وہ اپنی حقیقت اور باطن کو تبدیل کریں) سعادت وحقیقت تک پہونچ گئے ہیں۔
ز۔ مالدار اور ثروت مند افراد:
کیو نکہ یہ لوگ کبھی راہ حرام سے تحصیل کر کے لوگوں کو دکھانے کے لئے امور خیر یہ میں اس کا مصرف کرتے ہیں اور اس کو اپنی سعادت ونیک بختی کا ذریعہ سمجھ کر اپنے دل کو خوش رکھتے ہیں۔(١)
٢۔ تواضع
تواضع کا مفہوم یہ ہے کہ انسان دوسروں کے مقابل اپنے امتیاز اور فوقیت کا قائل نہ ہو۔ کسی انسان میں اس حالت کا وجود باعث ہو تا ہے کہ دوسروں کو بزرگ اور مکرم سمجھے۔ (٢) تواضع کبر وتکبر کے مقابل ہے اور یہ دونوں تواضع کے لئے مانع کے عنوان سے زیر بحث واقع ہوں گے۔
ایک۔ تواضع کی اہمیت:
خدا وند عالم قرآن کریم میں تواضع وفروتنی کو اپنے واقعی مومن بندوں کی خصوصیات میں جانتا ہے اور فر ماتا ہے:
''اور خدا وند رحمان کے بندے وہ لوگ ہیں جو روئے زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل ونادان لوگ ان سے خطاب کر تے ہیں تو وہ سلامتی کا پیغام دیتے ہیں'' (٣)
.......................................
١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص ٢٣، ٣٣۔
٢۔ ایضاً ، ج١، ص ٣٥٨، ٣٥٩۔
٣۔ سورئہ فرقان، آیت ٦٣ ۔ اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ مائدہ، آیت ٥٤۔
دوسری جگہ خدا وند عالم پیغمبر اکرم ۖ سے فرماتا ہے: اپنے ماننے والوںکے ساتھ خاضعانہ رفتار رکھیں:
''اور ان مومنین کے لئے جنہوں نے آپ کی پیروی کی ہے اپنے شانوں کوان کے لئے جھکا دیجئے'' (١) حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: خداوند عالم نے موسیٰ کو وحی کی: اے موسیٰ ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے اپنی تمام مخلوقات میں تم کو اپنے سے بات کرنے کے لئے کیوں انتخاب کیا ؟ موسیٰ ـنے عرض کی: خدا یا ! اس کی علت کیا ہے ؟ خدا نے جواب دیا: ''اے موسیٰ! میں نے اپنے بندوں میں اپنے سامنے تم سے زیادہ کسی کو متواضع اور منکسر نہیں دیکھا۔ اے موسیٰ ! جب تم نماز پڑھتے ہو تو اپنے رخسار کوخاک پر رکھتے ہو''۔(٢)
رسول خدا ۖ نے اپنے اصحاب سے فرمایا: ''کیا بات ہے کہ تم میں عبادت کی شیرینی نہیں دیکھتا؟ ''انہوں نے سوال کیا: عبادت کی شیرینی کیا ہے ؟ فرمایا: '' عاجزی وانکساری ''۔(٣)
دو۔ تواضع کی علامتیں: بعض روایات میں متواضع اور خاکسار انسان کے لئے نشانیاں بیان کی گئی ہیں اگر چہ یہ نشانیاں نمونہ کے طور پر ہیں اور اس کا مفہو م صر ف انھیںنشانیوں میں منحصر ہونا نہیں ہے، انھیںنشانیوں میں سے بعض درج ذیل ہیں:
١۔ متواضع اور خاکسار انسان بیٹھنے میں بزم کے آخری حصہ میں بیٹھتا ہے۔ (٤)
٢۔ متواضع انسان سلام کرنے میںدوسروں پر سبقت کرتا ہے۔ (٥)
٣۔ جنگ وجدال سے بازرہتا ہے خواہ حق اس کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو۔(٦)
٤۔ وہ اس بات کو دوست نہیںرکھتا کہ اس کی پرہیز گاری کی تعریف کی جائے۔
تین۔ فروتنی کے موانع : کبر و تکبر، فخر و مباہات، تعصب، طغیانی و سر کشی، ذلت و رسوائی، فروتنی کے سب سے اہم موانع میں شمار ہوتے ہیں، اختصار کے ساتھ ان میں سے بعض کی توضیح دے رہے ہیں۔
الف) کبر:
فروتنی کی راہ میں سب سے بنیادی و اساسی مانع '' کبر '' ہے۔
.......................................
١۔ سورئہ شعرائ، آیت ٢١٥۔
٢۔ کافی، کلینی، ج٢، ١٢٣، ح٧۔
٣۔ورام بن ابو فراس: تنبیہ الخواطر، ج١، ص٢٠١۔
٤۔کافی، ج٢، ص ١٢٣، ح٩۔
٥۔ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج٧٥، ص١٢٠، ح٩۔
٦۔ایضاً ، ص١١٨، ح٣۔
کبرکا مفہوم:
کبر یہ ہے کہ انسان عُجب و خود پسندی کے نتیجہ میں مقابلہ و مقایسہ کے موقع پر خود کو سب سے برتر اور بہتر خیال کرے اس وجہ سے کبر خود پسندی اور عُجب کامعلول ہے (یعنی کبر عُجب و خودپسندی کی وجہ سے وجود میں آتا ہے ) اور اس میںدوسروں سے مقایسہ پوشیدہ ہے۔ اگر خود کو بڑا اور برتر سمجھنے کی کیفیت ایک حالت کے عنوان سے فقط انسان کے اندر باطن میں پائی جائے تو اسے ''کبر '' کہتے ہیں، لیکن اگرخارجی اعمال و رفتار میں ظاہر ہو تو اسے ''تکبر'' کہتے ہیں، جیسے کسی کے ساتھ بیٹھنے یا کھانا کھانے سے پرہیز کرے، اور دوسروں سے سلام کا انتطار کرے اور گفتگو کرتے وقت مخاطب کی طرف نگاہ کرنے سے اجتناب کرے وغیرہ ...۔(١)
تکبّر کی مذمت:
خداوند عالم نے قرآن کریم میں ان لوگوں کی نسبت جو اللہ کی عبادت میں تکبّر کرتے ہیں، جہنم کا وعدہ دیا ہے ''در حقیقت جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب وہ لوگ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میںچلے جائیں گے ''۔ (٢) دوسری جگہ اعلان کرتا ہے کہ سرائے آخرت صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو زمین میں فوقیت و برتری کے خواہاں نہ ہوں: ''اس دارآخرت کو ہم ان لوگوں سے مخصوص کردتے ہیں جو زمین میںفوقیت وبرتری اور فساد کے طا لب نہ ہوں ''۔ (٣)
تکبّر کی قسمیں:
جس کی نسبت تکبّر کیا جاتا ہے اس کے اعتبار سے تکبّر کی تین قسمیں کی جاسکتی ہیں:
ایک۔ خداوندعالم کے مقابل تکبّر کرنا: جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے: '' جو انسان اس کی پرستش سے امتناع کرے اور کبر کا اظہار کرے عنقریب ان سب کو اپنی بارگاہ میں محشور کرے گا''۔ (٤)
دو۔ پیغمبر کے مقابل تکبّر کرنا:
پیغمبر کے مقابل تکبّر اس معنی میں ہے کہ انسان اپنی شان و منزلت کو اس بات سے افضل وبرتر تصور کرے کہ آنحضرت ۖ کی دعوت اور فرامین پر گردن جھکائے ۔جیسا کہ قرآن کفار کے ایک گروہ کے بارے میں اس طرح فرماتا ہے: '' آیا ان دو بشر پر جو کہ ہمارے ہی جیسے ہیں ایمان لے آئیں ''۔ (٥)
.......................................
١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج١، ص ٣٤٤۔
٢۔ سورئہ مومن، آیت ٦٠۔
٣۔سورئہ قصص ٨٣ ۔ جاثیہ ٣٧ ۔ اعراف ١٣، ١٤٦ ۔ ص ٧٣ ، ٧٤ ۔ سورئہ اسرائ، آیت ٣٧ ۔ لقمان ١٨۔ فرقان ٦٣ ۔ نحل ٢٩ اور ٢٣ ۔ غافر، آیت ٣٠، ٥٦، ٦٠ ۔ انعام، آیت ٩٣ ،سورئہ زمر، آیت ٧٢۔
٤۔سورئہ نسائ، آیت ١٧٢ ۔ سورئہ مریم، آیت ٦٩ ۔ نحل، آیت ٢٣۔
٥۔سورئہ مومنون، آیت ٤٧۔
تین۔ لوگوںکے مقابل تکبّر: یعنی خود کو عظیم اور دوسرے لوگوں کو معمولی اور ذلیل و خوار سمجھنا۔ ایک روایت میں اس طرح کے تکبّر کو واقعی جنون سے تعبیر کیا گیا ہے۔ (١)
تکبّر کا علاج:
علماء اخلاق نے تکبّر کے علاج کے لئے علمی اور بعض عملی راہیں بتائی ہیںکہ وہ اسباب تکبّر سے اجتناب یا ان کا برطرف کرنا ہے۔ چونکہ حقیقت میں تکبّر کے اسباب وہی خودپسندی کے اسباب ہیں، لہذا جوکچھ خودپسندی کے علاج سے متعلق بیان کیا گیا ہے، وہی تکبّر کے علاج کے لئے بھی کار آمد ہوگا۔
ب) ذلت وخواری:
جس طرح بزرگ طلبی اور برتری جوئی (کبر وتکبّر) تواضع کے لئے مانع ہے اسی طرح ذلت وخواری بھی تواضع کے لئے مانع ہے اور عزت نفس سے بھی منا فات رکھتی ہے اگر تکبّر اپنی اہمیت جتانے میںافراط اورزیادتی تو ذلت خواری بھی اس امر میں تفریط ہے (٢) اسی بنیاد پراخلاق اسلامی میں متکبّرین کے مقابل تواضع اور خاکساری کرنے کو شدت کے ساتھ منع کیا گیاہے کیونکہ متکبّر انسان ہرطرح کی خاکساری و فروتنی کو مقابل شخص کی پستی اورخواری شمار کرتا ہے۔ (٣)
.......................................
١۔شیخ صدوق، خصال، ص ٣٣٢، ح ٣١۔
٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج١، ص ٣٦٢۔
٣۔ ورام بن ابی فراس، تنبیہ الخواطر، ج ١، ص ٢٠١ ملاحظہ ہو۔
|