اسلامی ا خلاق
 

دوسری نظر: خدا وندسبحان کی بندوںسے محبت
قرآن و روایات ا ہل بیت (ع) ان آیات وروایات کے حامل ہیں جو پروردگار کی اپنے بعض بندوںسے خاص محبت ودوستی کی عکاسی کرتی ہیں، اس محبت کے خاص علائم ہیں جوصرف اور صرف خاص بندوں کو شامل ہوتے ہیں۔
البتہ خداوند سبحان کی عام رحمت و محبت، دنیوی مواہب و احکام شرعی کے قالب میں سب کو شامل ہے جیسا کہ پہلے بھی اشارہ ہوچکا ہے کہ خدا وندعالم قرآن میںاپنی دوستی کو مجاہدین، نیکو کار افراد، زیادہ توبہ کرنے والوں، پرہیزگاروں، عدالت پیشہ افراد، صابروں، پاک وپاکیزہ افراد اور پروردگار پر اعتماد و بھروسہ کرنے والوں کی نسبت اعلان کرتا ہے۔(١)
جمال الہی کا دیداراور اس کا مشاہدہ اتنا لذت بخش اور سرور آور ہے جو ناقابل توصیف وتشریح ہے۔ جن لوگوں نے اس کے ادنیٰ مراتب کو بھی چکھا ہے وہ کبھی دیگر خیالی لذتوں سے اس کا سودا نہیں کرتے اسی وجہ سے انبیاء اور
اولیائے الہی نے اپنے محبوب سے اپنی مناجات میں مسلسل اپنے اشتیاق کااس کی بہ نسبت آشکار طور پر اظہار کیا ہے اورعرفاء اور سالکین نے اپنے اشعار اور قصائد میں جو انہوں نے بطور یادگار چھوڑے ہیں اپنے آتش عشق کے دلکش اور جاذب نظر مناظرکی، جمال محبوب کی مراد و ملاقات و شہود سے متعلق اظہار خیال کیا ہے نیز دوست کے فراق و جدائی کے غم انگیز اور حزن آور حالات کی منظر کشی کی ہے۔ ان کے نزدیک خدا کی ملاقات عرفان کی بلند ترین چوٹی اور سالکین کی سیرکا منتہیٰ ہے انھوں نے ایسی بہت سی کتابیں بھی تحریر فرمائی ہیں جن میں اس مقصد تک رسائی کے اسباب و ذرائع اور ان منازل ومراحل کو بیان کیا ہے جو اس راہ کے سالکوں کے لئے سرراہ پائے جاتے ہیں اور جو خطرات اس راہ میں ہیں ان سے بھی آگاہ کیا ہے نیز اس راہ میںجو زاد و توشہ کام آسکتا ہے اس کا بھی ذکر کیا ہے۔
خدا وند عالم کی داؤد پیغمبر سے گفتگو کے درمیان مذکور ہے: ''اے داؤد! ہمارے زمین میں رہنے والے بندوں سے کہو ! میں اس کا دوست ہوں جو مجھے دوست رکھتا ہے اور اس کا ہمنشین ہوں جو مجھ سے ہمنشینی کرتا ہے اور اس کا ہمدم ہوں جو میری یاد اور نام سے انسیت حاصل کرتا ہے اور اس کے ہمراہ ہوں جو میرے ہمراہ ہے، میں اس کا انتخاب کرتا ہوں جو میرا انتخاب کرتا ہے اور اس کا فرمانبردار ہوں جو میرا فرمانبردار ہے، جو انسان مجھے قلبی اعتبار سے دوست رکھتا ہے اور میں اس پریقین کرلوں تو اسے اپنے ساتھ قبول کرلوں گا ( اور اسے ایسا دوست رکھوںگا ) کہ میرے بندوں میں سے کوئی بندہ اس پر سبقت نہ کر پائے، جو انسان واقعی مجھے تلاش کرے تو پالے گا
.......................................
١۔ ترتیب وار رجوع کیجئے: سورئہ صف، ٤ ؛ بقرہ ١٩٥ ، ٢٢٢ ۔ آل عمران ٧٦، ١٤٦، ١٥٩ ؛ مائدہ ٤٢، اور توبہ ١٠٨۔ منجملہ ان کے میرزاجواد ملکی تبریزی کارسالہ، ' ' لقاء اللہ''ملاحظہ ہو ۔
اور جو کوئی میرے علاوہ کسی دوسرے کو تلاش کرے تو مجھے نہیںپائے گا، لہٰذا اے اہل زمین! دنیا کے فریبوں اور اس کی باطل چیزوںکو چھوڑ دو، اور میری کرامت، مصاحبت، ہمنشینی کے لئے جلدی کرو اور مجھ سے انس اختیار کرو تاکہ میں بھی تم سے انس اختیارکروں اور تم سے دوستی کے لئے جلدی کروں''۔ (١)

٢۔توکل
اخلاق اسلامی میںایک دوسرا عام مفہوم جو نفسانی صفت پر ناظر اور انسان و خدا کے درمیان رابطہ کا بیان کرنے والا ہے''توکل''کامفہوم ہے۔ اس مختصر کتاب میںاس کے مقام و منزلت، ماہیت و درجات اورسعی و کوشش کے ساتھ اس کی نسبت کے بارے میں مطالعہ کریں گے۔

ایک۔ توکل کی حقیقت و ماہیت:
توکل کی حقیقت و ماہیت کس طر ح بیان کی جائے ؟ علماء اخلاق نے اس کی تعریف کے باب میں یہ ذکر کیا ہے: توکل یعنی اپنے تمام امور میں انسان کا خدا پر قلبی اطمینان اور اعتماد کرنا نیز تمام قدرتوں سے بیزاری اختیار کرنا ہے، البتہ انسان کے اندر اس حالت کا تحقق اس بات پر موقوف ہے کہ اس کا ایمان و یقین اور قوت قلب اس بات کو قبول کرے کہ عالم وبنی آدم کے کسی کام میں خدا کے علاوہ کوئی قوت اورطاقت موثر و کار ساز نہیں ہے اور تمام اسباب و علل قدرت الہی کے مقہور اور زیر اثرہیں اوراسی کے ارادہ کے تحت عمل کرتے ہیں کہ یہ خود توحید کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے۔ اس وجہ سے ''توکل'' کی اصل واساس توحید ہے اورحصول توحید کے بقیہ وہ وجود میں نہیں آسکتا۔ (٢) یہ اس اعتبار سے ہے کہ خداوند عالم نے امور کو ان کے اسباب و علل کی طرف اور کاموںکو ان کے فاعل کی طرف منسوب کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔
ایک طرح سے ہے اور علل اور فاعلوں کو حوادث اور افعال پر مسلّط کیا ہے؛ اگر چہ یہ تسلط اور غلبہ اصلی اور ذاتی نہیںہے اور طبیعی علل اور انسانی فاعل تاثیر گذاری میں استقلال نہیں رکھتے، صرف خدا وند عالم ہے جو مستقل سبب اور تمام اسباب سے بالا تر ہے۔ اس بنا ء پر جب ایک عاقل اور رشید انسان نے کسی کام کا ارادہ کیا اور اس کے عادی و معمول کے مطابق اسباب و وسائل کو فراہم کیا تو وہ جانتا ہے کہ تدبیر امور میں مستقل سبب تنہا خدا ہے اورکسی قسم کی اصالت اور استقلال کا اپنے لئے نیز ان اسباب و علل کے لئے جن کا وہ استعمال کرتا ہے قائل نہیںہے، لہٰذا وہ خداوند سبحان پر توکل کرتا ہے، اس بنا ء پر توکل کے معنی انسان یا طبیعی اسباب و علل کی جانب امور کے انتساب کی نفی کرنا اوراصالت و استقلال کو خدا سے مخصوص سمجھنا ہے (٣)
.......................................
١۔ سید بن طاؤوس، مسکن الفواد، ص ٢٧۔
٢۔ اسی لئے بعض علماء اخلاق نے توکل اور توحید کو ایک ردیف میںذکرکیا ہے، رجوع کیجئے: فیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص ٣٧٧۔
٣۔ علامہ طباطبائی کی المیزان، ج ١١، ص ٢١٦ ، ٢١٧ ملاحظہ ہو۔

دو۔ توکل کے درجات:
اخلاق اسلامی بعض علماء خداوند عالم پر توکل کے لئے تین درجات کے قائل ہیں کہ ان کا مختصر بیان درج ذیل ہے:
خداوندذ والجلال پرتوکل کا پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان اس پر اعتماد و اطمینان رکھے۔ بعینہ اس اعتما د کی طرح جو کسی وکیل پراپنے امور کی انجام دہی میں انتخاب کرکے رکھتا ہے۔ درحقیقت یہ توکل کا سب سے ادنی درجہ ہے اور آسانی کے ساتھ دسترسی کے قابل ہے اور زیادہ دن تک باقی رہتا ہے نیز انسان کے اختیار اور تد بیر سے بھی منافات نہیں رکھتا۔
توکل کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ انسان اصل توکل سے غافل اور اپنے وکیل یعنی خداوند سبحان کے بارے میں فانی ہے، بر خلاف پہلی قسم کے کہ انسان کی توجہ زیادہ تر وکالت کے قرار دادی رابطہ کی طرف ہوتی ہے۔ توکل کا یہ درجہ کم محقّق ہوتا ہے اور جلد ختم ہوجاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک دو دن سے زیادہ باقی نہیں رہتا ہے اور صرف خاص افراد کو حاصل ہوتا ہے انسان اس حالت میں اپنی بہتر سے بہتر کوشش گریہ اور خدا وند عالم سے دعا ودرخواست میں صرف کرتا ہے۔
توکل کا بلند ترین درجہ یہ ہے کہ انسان اپنی تمام حرکات و سکنات کو خداوند عالم کے اختیار میں سمجھتا ہے۔ اس قسم اور قسم دوم میں فرق یہ ہے کہ اس میں انسان حتیٰ التماس، درخواست، تضرع و زاری اور دعا کو بھی نظر انداز کردیتا ہے اور اس بات کا اعتقاد رکھتا ہے کہ خداوند عالم اپنی حکمت سے امور کی تدبیر کرتا ہے اگر چہ وہ درخواست والتماس نہ کرے۔ اس توکل کا واقعی نمونہ حضرت ابراہیم ـ کا (خداپر) توکل کرنا ہے۔ کیونکہ جب نمرودیوں نے انھیںمنجنیق میں رکھ کر آگ میں ڈالا تو الہی فرشتہ انھیںیاد آوری کرتا ہے کہ وہ خدا سے امداد کی درخواست کریں، لیکن وہ جواب میں کہتے ہیں: ''خدا وندعالم کا میرے حال سے آگاہ ہونا، مجھے اس سے نجات کی درخواست کرنے سے بے نیاز کرتا ہے ''۔ (١)
البتہ ایسی قسم ندرت سے دیکھنے میں آتی ہے اور نہایت کمیاب ہے۔ یہ صد یقین کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہوتی ہے اور اگر واقع ہو بھی گئی تو جلد ہی زائل ہوجاتی ہے اور چند لحظہ سے زیادہ اس کو دوام نہیں رہتا ۔(٢)
.......................................
١۔ تفسیر قمی، ج٢، ص ٧٣ ملاحظہ ہو۔
٢۔ فیض کاشانی المحجة البیضائ، ج٧، ص ٤٠٨، ٤٠٩ ؛نراقی، ج٣، ص ٢٢٣تا ٢٢٥۔
دوسرے رخ سے، لوگ خداوند عالم پر توکل و اعتماد کرنے میںیکساں مراتب و درجات نہیں رکھتے۔ ہر ایک کو چاہئے کہ اپنے توکل کے بقدر اپنے مقاصد تک پہنچنے میں اسباب و علل سے چارہ جوئی کرے۔ خداوند عالم ان لوگوں کے ساتھ جنہوں نے بالکل اسباب و علل طبیعی سے اپنا قطع تعلق کرلیا ہے اسی اعتماد کے تناسب سے برتائو کرے گا۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا ہے: ''خدا نہیں چاہتا ہے کہ مومنین کی روزی اس جگہ سے فراہم کرے جہاں سے وہ گمان نہیں رکھتے'' (١) خداوند عالم کا یہ برتائو ان مومنین سے مخصوص ہے جو توکل کے اعلیٰ درجہ پرفائز ہیں ؛ لیکن جو لوگ اس درجہ پرفائز نہیں ہوئے ہیں اور ان کا خدا وند عالم پر اعتماد کے ساتھ ساتھ طبیعی اسباب و علل پر بھی اعتماد باقی ہے، خداوند عالم بھی اسباب و علل کے ذریعہ ان کی ضرورتوں کو پورا کرے گا۔ (٢)

تین۔ توکل کی اہمیت:
قرآن کریم نے دسیوں بار صراحت اورکنایہ کے ساتھ انسان بالخصوص مومنین کو خداوند عالم پر توکل کی دعوت دی ہے اور بندوں کے اس اعتماد و اطمینان کے مقابل ان کے امور کی کفالت سے متعلق خداوند عالم کے وعدہ کا اعلان کیا ہے۔ منجملہ ان کے قرآن میں ذکر ہے: '' مومنین کو چاہئے کہ صرف اور صرف خدا پر توکل کریں''۔(٣) ''خداوند عالم توکل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے''۔(٤)
اسی طرح خدا پر اعتماد اور توکل کے انجام کی نسبت اطمینان حاصل ہونے کے بارے میں قرآن فرماتا ہے: '' جو خدا پر اعتماد کرتا ہے اس کے لئے وہی کافی ہے '' (٥)
احادیث نبوی اور اہل بیت (ع) کے ارشادات ان عبارتوں سے بھرے پڑے ہیں جن میں توکل کی اہمیت اور فضیلت بیان ہوئی ہے، مثال کے طور پر حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''بے شک بے نیازی اور عزت گردش کی حالت میں ہیں وہ جیسے ہی توکل کی منزل سے گذرتی ہیں اس جگہ کو اپنا ٹھکانہ اور وطن بنالیتی ہیں''۔ (٦)
.......................................
١۔ کلینی، کافی، ج٥، ص٨٣، ح١۔ ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، ص٦٠۔شیخ طوسی، امالی، ص٣٠٠، ح٥٩٣۔
٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص٢٢٩، ٢٣٠۔
٣۔ سورئہ آل عمران، آیت ١٢٢، ١٦٠۔ مائدہ ، آیت ١٢، ٢٦۔ توبہ آیت ٥٢۔ ابراہیم، آیت ١١۔ مجادلہ، آیت ١٠۔ تغابن، ١٣۔
٤ ۔سورئہ آل عمران، آیت ١٥٩۔
٥۔ سورئہ طلاق، آیت ٣۔
٦۔ کلینی، کافی ج٢، ص ٦٥، ح٣۔

چار۔ سعی وکوشش اور توکل:
اگر چہ توکل کی حقیقت کے بارے میں غور و فکرکرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ توکل سعی وتلاش اور اسباب ووسائل سے استفادہ کرنے سے منافات نہیں رکھتا لیکن کبھی ایسا شبہہ پیش آتا ہے کہ اس کی جانب اشارہ کرنا مفید ہے۔ انسان ان امور کی نسبت جن کے اسباب و علل اس کے ارادہ سے خارج ہیں وہ توکل کے سوا کوئی چا رہ کا ر نہیں رکھتا لیکن ان حوادث کی نسبت جن کے اسباب و علل کی ایجاد اس کے ہاتھ میں ہے باوجودیکہ توکل کے سبب اسباب ووسائل کے لئے مستقل تاثیر کا قائل نہیں ہے، لیکن اس کا فریضہ ہے کہ ان کی فراہمی کے لئے کوشش کرے اور جس چیز کی سببیت کے لئے یقین یا گمان رکھتا ہے اس کا استعمال کرے اور اس حیثیت میں اپنی عقل و ہوش سے استفادہ کرے۔ کیونکہ خدا کی سنت اس بات پر قائم ہے کہ امور عالم اپنے خاص اسباب و علل کے ساتھ آگے بڑھیں، اسی بنیاد پر اس نے فرمایا ہے: '' جنگ کے موقع پر خاص طریقہ اور اسلحہ کے ساتھ نماز پڑھو'' (١) '' اور اپنے لئے دفاعی قوت پیدا کرو''۔ (٢) موسیٰ ـ کو حکم دیا کہ ''ہمارے بندوں کو شب (کے سناٹے) میں فرعونیوں کی نگاہوں سے بچا کر شہر سے نکال لو''۔(٣) پیغمبر اکرم ۖ نے جب ایک اعرابی کو دیکھا کہ اس نے خداوند عالم پر توکل کے بہانہ اپنے اونٹوں کو جنگل میں چھوڑدیا تو فرمایا: ''اعقلھا و توکّل''(٤) ''اونٹ کو باندھ دو اور خدا پر توکل کرو''۔

٣۔شکر
یہ مفہوم بھی چند لحاظ سے تحقیق کے قابل ہے :

ایک۔ شکر کی ماہیت اور درجات:
شکر کی ماہیت کے سلسلہ میں متعدد عبارتیں استعمال کی گئی ہیں'' نعمت کا تصوراور اس کااظہار ''(٥) ''منعم کی نعمت کی شناخت اور اس کی بہ نسبت سرور و شادمانی، اس سرورکے مقتضیٰ کے مطابق عمل کرنا امور خیر پر عزم کے ساتھ، منعم کی شکرگذاری اور خداوند عالم کی راہ بندگی میں نعمت کا استعمال'' (٦) اور ''اظہار نعمت''(٧) یہ ساری تعریفیں شکر کے لئے بیان کی گئی ہیں ان تمام تعریفوںکو یکجا کرکے کہا جاسکتا ہے کہ درحقیقت شکروہی ''نعمت کا اظہار'' ہے ۔
.......................................
١۔ سورئہ نساء ١٠١۔
٢۔ سورئہ انفال ٦١۔
٣۔سورئہ دخان ٢٣۔
٤۔ طوسی، امالی، ص ١٩٣، ح ٣٢٩۔
٥۔ راغب اصفہانی، معجم مفردات الفاظ قرآن، ص ٢٧٢۔
٦۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص ٢٣٣۔ اسی طرح ملا حظہ ہو فیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج٧، ص٤٤تا ١٤٦۔
٧۔ علا مہ طباطبائی، المیزان، ج٤، ص ٣٨، اور ج٦، ص ٢١٥۔
نعمت کا اظہار ایک طرف اس کے تصورو ادراک کا مستلزم ہے اور دوسری طرف یہ اظہار مختلف مراتب اور پہلوؤں کا حامل ہے کیونکہ نعمت کے اظہار سے مراد اس کا ایسی راہ میںاستعمال کرنا ہے جس میں منعم نے ارادہ کیا ہو، اسی طرح اس کی کا ذکر اور اس کی نعمت کے لئے اس کی مدح و ثنا کرنا ہے۔ اس وجہ سے شکر سہ گانہ مراتب کا حامل ہے قلبی: (یاد کرنا ) ، زبانی (مدح و ثنا ) اورعملی۔ شکر خدا وندی سے مرادیہ ہے کہ انسان پہلے دل میں ہمیشہ اس کی نعمتوں کی طرف متوجہ ہواور اس کی نعمتوں کو یادرکھتا ہو۔ دوسرے یہ کہ اللہ کی بیکراں نعمتوں سے استفادہ کرنے کے وقت اللہ کی حمد و ستائش کے لئے زبان کھولے۔ تیسرے خدا کی نعمتوں اور اس کی برکتوں کواس راہ میںاستعمال کرے جس میں اس کی مرضی اور خواہش ہو ۔(١) شکر کے مقابل کفر ہے جو کہ اللہ کی نعمتوں کو پوشیدہ و مخفی کرنے کے معنی میں ہے۔ البتہ واضح ہے کہ اللہ کی بے شمار نعمتوں کی بہ نسبت اللہ کے شاکر بندے بھی شکر گزاری سے عہدہ بر نہیںہو سکتے ، اس کے باوجود ادب بندگی اقتضاء کرتا ہے کہ اس راہ میں اپنی انتھک کوشش کرے۔ قرآن اللہ کی نعمتوں کی وسعت اور نوع بشر کے میزان شکر کے بارے میں فرماتا ہے: ''اور تم نے جو کچھ مانگا اس نے عطا کیا، اور اگر خدا کی نعمتوں کو
شمار کرو تو ان کا شمار نہیں کرسکتے یقینا انسان بڑا ظالم اور ناشکرا ہے''۔ (٢)

دو۔ شکر کی اہمیت:
آیات و روایات میں شکر کی شرح میںذکر ہوا ہے: شکر گزاری خدا کے صفات میں سے ہے '' اور خدا شکر گزار اور برد بار ہے''۔(٣) شکر گزاری جنت میں رہنے والوں کے کلام کی ابتدا وانتہا ہے: ''شکر اس خدا کا جس نے ہم سے کئے گئے اپنے وعدہ کو ہم پر سچ کردکھا یا '' (٤) اور ان کی مناجات کا آخری کلام یہ ہے: '' الحمد للہ رب العالمین ''۔ (٥) خدا وند عالم نے شکر گزاری کو ایمان کے ساتھ ساتھ عذاب سے روکنے کا باعث قرار دیا ہے: '' اگر شکر گذار بنو اور ایمان لے آؤ تو خدا تم پر عذاب کر کے کیا کرے گا ؟ '' (٦)
.......................................
١۔ شکر کے مراتب کو معتبر و مستند احادیث کے مضامین سے استنباط کیا جا سکتا ہے ؛ جیسے کافی، ج٢، ص ٩٦، ح ١٥، اور ص ٩٥، ح٩، ١١۔
٢۔ سورئہ ابراہیم، آیت ٣٤، اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ اعراف، آیت ١٠ اور ١٧، سورئہ یونس، آیت ٦٠ اور سورئہ غافر، آیت ٦١۔
٣۔ سورئہ تغابن، آیت١٧ اسی طرح ملاحظہ ہوسورئہ نساء آیت ١٤٧۔
٤۔ سورئہ زمر ٧٤۔
٥۔ یونس ١٠۔
٦۔ نساء ١٤٧۔
شکر گزاری کی فضیلت میںاتنا ہی کافی ہے کہ خداوندعالم صریحی طور پر بندوںکو اس کا حکم دیتا ہے: '' اور میرا شکر بجا لاؤ اور میرے ساتھ ناشکری نہ کرو '' (١) حضرت امام زین العابدین ـ کے بقول خداوند عالم کا شکر ادا کرنا انسان کو اللہ کی خاص محبت کے دائرہ میں قرار دیتا ہے: '' حقیقت میںخداوندعالم ہر محزون وغمزدہ دل اور ہر شکر گذار و قدرداں بندہ کودوست رکھتا ہے '' ۔(٢)
اس وجہ سے حق شناسی اور شکر گزاری خداوند عالم اور انسان کے درمیان رابطہ بر قرارکرنے و الے اساسی وبنیادی عناصر میں سے ہے یہ انسان کا خدا کے ساتھ رابطہ ہے جس کی اصل الہٰی نعمتوں اور برکتوں کے ادراک اور ان کی نسبت قلبی اعتراف میں پوشیدہ ہے۔
قابل ذکر بات ہے کہ ''شکر ''اپنے مجموعی مفہوم کے اعتبار سے لوگوں کی شکر گزاری بھی لوگوں کی خدمتوں کے سلسلہ میں شامل ہے اس طرح کے شکر کے سلسلہ میں اخلاق معاشرت کی بحث میںگفتگو کی جاتی ہے۔

تین۔ شکر خداوندی کا دنیوی نتیجہ:
سب سے اہم دنیوی اثر جو دینی کتابوں میں شکر گزاری کے لئے بیان کیا گیا ہے، پروردگار کی نعمتوں کا زیادہ ہونا ہے۔ قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے: ''جب کہ تمہارے رب نے اعلان کیا کہ اگر شکر کروگے تو(نعمت) کو تم پر زیادہ کردوں گا اور اگرناشکری کروگے تو یقینا میرا عذاب سخت ہے''۔ (٣) یہ حقیقت بہت سی روایات میں بیان ہوئی ہے ؛ منجملہ ان کے حضرت علی ـ نے فرمایا: ''خداوند عالم کسی بندہ پر شکر گذاری کا دروازہ نہیںکھولتا، اس حال میں کہ نعمت کا دروازہ اس پر بندکردے '' ۔ (٤)
یہ سوال ہمیشہ ہوتا رہتا ہے کہ آیا خداوند سبحان کی شکر گزاری بندوں کے لئے مقدور ہے؟کیونکہ سپاس گذار ی کی توفیق اور اس کی قوت خود خدا کی ایک نعمت ہے اور دوسرے شکر کامستلزم ہے۔
اگراس فریضہ کاانجام دینا انسان کے امکان سے خارج ہے، توپھر کس طرح ا نسان کو اس کے کرنے کاحکم دیتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: ''وہ باتیں جن کی خداوندعالم نے موسٰی ـ کووحی کی تھی ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ موسیٰ میراشکر ایسا اداکرو، جو میرے شایان شان ہو '' موسٰی ـ نے جواب میں پوچھا: خدایا! کس طرح تیری شکرگذاری کا حق ادا کروں جب کہ ہرطرح میری شکرگذاری خود ہی ایک دوسری نعمت ہے ؟ خدا نے جواب میں فرمایا: اب (جب کہ تم نے جان لیا کہ تمہارا شکر کرنا خود ہی ایک دوسری نعمت ہے) تم نے میرے شکرکا حق ادا کردیا '' ۔(١) یعنی شکر الہی کا حق یہ ہے کہ انسان اپنی آخری کوشش کو اس راہ میں صرف کرے، اسی کے ساتھ یہ یقین رکھتاہو کہ اللہ کے شایان شان شکر ادا نہیں ہوسکتا۔
.......................................
١۔ بقرہ ١٥٢ اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ اعراف ١٤٤ اور سورئہ زمر ٦٦۔
٢۔ کافی، کلینی، ج٢، ص٩٩ح٣٠۔
٣۔ ابراہیم ٧۔
٤۔ نہج البلاغہ، حکمت ٤٣٥؛ کافی، ج ٢، ص ٩٤، ح٢اورص ٩٥، ح ٩ ؛ امالی، ص ٥٩۔