اسلامی ا خلاق
 
دوسرا باب : اخلاق کے عام مفاہیم۔

پہلی فصل: ہدایت کرنے والی نفسانی صفت

جیساکہ ذکر ہوچکا ہے اس طرح کی نفسانی صفتیں، انسان میں تاثیر گذار قوتوں کے طریقوں کی وضاحت کرتی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ بنیادی اور اصلی مفاہیم یقین اور ایمان ہیں۔ جو ایک نیک اور قدر وقیمت والی نفسانی صفت کی صورت میں بیان ہوئے ہیں۔ یقین ایمان کی سرپرستی میں عمل کرتا ہے۔ البتہ ناپسندیدہ صفات اور منفی مفاہیم بھی ہیں جو اسی نفسانی صفت کی فہرست میں شمار ہوتے ہیں۔ لیکن چونکہ اس کتاب میں گفتگو کا محور فضیلتیں ہیں اس لئے رذائل کے بارے میں گفتگو آفات اور موانع کے عنوان سے فضائل کی تشریح کے بعد ہوگی۔

ایمان
اخلاق اسلامی میں ''ایمان'' ہدایت کرنے والی سب سے زیادہ اہم نفسانی صفت کے عنوان سے بہت زیادہ مقبول ہے اور اس پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ اسی وجہ سے علم ویقین کی طرح اس کے مبادی اور مقدمات کو حاصل کرنے کے لئے ترغیب و تشویق سے کام لیا گیا ہے اور اسلام کے اخلاقی نظام میں اُن ذرائع اور طریقوں کی خاص اہمیت ہے جو انسان کوان نفسانی صفات تک پہنچاتے ہیں۔ جیسے پسندیدہ فکر، خاطرات وخیالات اور الہامات۔ نفسانی صفات کے سامنے ایسے موانع اور رکاوٹیں ہیں جو انسان کو باایمان ہونے سے روکتی ہیں جیسے جہل بسیط یا مرکب، شک اورحیرت، مکاری اور فریب کاری، ناپسندیدہ نفسانی خیالات اور شیطانی وسوسہ وغیرہ۔ اِن سب کی ہمیشہ سے مذمت ہوئی ہے اوران سے روکا گیاہے۔
ایمان کی حقیقت اور اس کی شرطوں کے سلسلہ میں زمانۂ قدیم سے الٰہی مکاتب کے پیرؤوں خاص طور سے مسلمان متکلمین کے درمیان گفتگو کا سلسلہ جاری ہے (١)۔
.......................................
١۔رک۔جواد محسن، نظریہ ایمان درعرصہ کلام وقرآن، ص١٩تا ١٨٠۔
اخلاق اسلامی کے دو اصلی منابع یعنی قرآن کریم اور روایات میں ایمان کی اہمیت اور اس کے مرتبہ کے بارے میں بہت زیادہ گفتگو کی گئی ہے جس کا خلاصہ یہاں بیان کیا جاتاہے۔

١۔ایمان کی اہمیت
ایمان کے بلند مقام ومنزلت کو بیان کرنے کے لئے یہ حدیث کفایت کرے گی کہ پیغمبر ۖنے اپنی نصیحتوں میں جناب ابوذر سے فرمایا:
''اے ابوذر !خداوندمتعال کے نزدیک اس پر ایمان رکھنے سے اور ان چیزوں سے پرہیز کرنے سے زیادہ کوئی چیز محبوب نہیں ہے جن چیزوں سے منع کرتا ہے ''۔(١)
یہ بات واضح ہے کہ خدا کے ذریعہ منع کی گئی چیزوں سے پرہیز، صرف اس پر ایمان کے سایہ میں ممکن ہے اور حقیقت میں یہ ایمان کی برکتوں میں سے ہے۔ اس سلسلہ میں حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں:
''خداوند متعال دنیا کو، اُن لوگوں کے واسطے بھی قرار دیتا ہے جن کو دوست رکھتا ہے اور اُن لوگوں کے واسطے بھی جن پر غضبناک ہے لیکن ایمان نہیں دیتا مگر اُن لوگوں کو جنہیں دوست رکھتا ہے ''۔ (٢)
حضرت امام جعفر صادق ـ مومن کے مقام ومنزلت کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
''جب بھی لوگوں کی آنکھوں سے پردہ ہٹ جائے گا اور وہ لوگ خدا اور بندۂ مومن کے درمیان وصال ورابطہ پر نظر کریں گے اس وقت اُن کی گردنیں مومنین کے سامنے جھک جائیں گی، مومنین کے امور اُن کے لئے آسان ہوجائیں گے اور اُن کے لئے مومنین کی اطاعت کرنا سہل اور آسان ہوجائے گا''۔(٣)
یہ تمام بلند درجات جو روایتوں میں ایمان کے لئے بیان ہوئے ہیں اس اثر کی وجہ سے ہیں جو ایمان انسان کے کما ل اورسعادت میں رکھتا ہے۔ ایمان ایک طرف خلیفۂ الٰہی کی منزلت پانے کے لئے سب سے آخری کڑی اور قرب معنوی کا وسیلہ ہے اور دوسری طرف قرآن وروایات کے مطابق تمام پسندیدہ نفسانی صفات اور عملی نیکیوں کے لئے مبدأ اور کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
.......................................
١۔ شیخ طوسی: امالی، ص ٥٣١، ح١١٦٢۔
٢۔ کافی، ج٢، ص٢١٥، ح٤،اور ح٣ بھی دیکھئے۔
٣۔ کافی، ج٨، ص٣٦٥، ح٥٥٦۔


٢ ۔ ایمان کی ماہیت
اگرچہ ایمان کی حقیقت اور ماہیت کے بارے میں مسلمان متکلمین کے درمیان اختلاف نظر پایاجاتاہے پھر بھی اُس کی اہم خصوصیتیں یہ ہیں:
ایک۔ ایمان وہ قلبی یقین، تصدیق اور اقرار ہے جو ایک طرف سے کسی امر کی نسبت نفسانی صفت اور حالت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس وجہ سے خالص شناخت اور معرفت سے فرق رکھتا ہے۔(١)
دو۔ ایمان کے محقق ہونے کی جگہ نفس اور قلب ہے اور اگرچہ اس کا قولی اور فعلی اثر ہے لیکن اس کا محقق ہونا قول یا عمل پر منحصر نہیں ہے۔
تین۔ اسلام اور ایمان کے درمیان کی نسبت عام وخاص مطلق جیسی ہے یعنی ہر مومن مسلمان ہے لیکن ممکن ہے بعض مسلمان صرف ظاہر میں حق کو تسلیم کئے ہوں۔

٣ ۔ایمان کے اقسام اوردرجات
اوّلاً:
ایک قسم کے لحاظ سے ایمان کی دو قسمیں ہیں: ''مستقر''اور'' مستودع''( مستودع یعنی وہ ایمان جو عاریت اور امانت کے طور پر لیا گیا ہو)۔
قرآن کریم میںارشاد ہورہاہے:
''وہ وہی ہے جس نے تم کو ایک بدن سے پیدا کیا ہے۔ پھر تمہارے لئے قرارگاہ اورامانت کی جگہ مقرر کردی۔ بے شک ہم نے اپنی نشانیوں کو اہل بصیرت اور سمجھدار لوگوں کے لئے واضح طور سے بیان کردی ہیں''۔ (٢)
حضرت امام موسیٰ کاظم ـ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
''مستقر ایمان وہ ایمان ہے جو قیامت تک ثابت وپائدار ہے اور مستودع ایمان وہ ایمان ہے جسے خداوند موت سے پہلے انسان سے لے لے گا۔ (٣)
.......................................
١۔ ر۔ک: سید مرتضیٰ: الذخیرة، ص ٥٣٦۔ شیرازی، صدرالدین: تفسیر القرآن، ج١، ص٢٤٩۔ شیخ مفید: اوائل المقالات، ص٤٨۔ اس بارے میں مزید اطلاع کے لئے محسن جوادی کی کتابت نظریۂ ایمان درعرصہ کلام وقرآن، ص١١٩تا ١٥٨۔ کی طرف رجوع کیجئے۔
٢۔ سورۂ انعام، آیت ٩٨۔
٣۔ تفسیر عیاشی، ج١، ص٣٧١، ح٧٢۔ تفسیر قمی، ج١، ص ٢١٢، ح١۔
حضرت علی ـ ایمان کی قسموں کے بارے میں فرماتے ہیں:
''کچھ ایمان دل کے اندر ثابت ہوتے ہیں اور کچھ، دل اور سینہ کے درمیان، مرتے وقت تک بطور عاریت اور ناپائدار ہوتے ہیں۔ لہٰذا اگر کسی سے بیزار ہو تو اتنی دیر انتظار کرو کہ اس کی موت آجائے۔ اس وقت میں اس سے بیزار ہونا بر محل ہوگا۔ (١)

ثانیاً:
ایمان کی حقیقت کے مراتب اور درجات ہیں اور اس میں نقصان اورکمی کا بھی امکان ہے۔ قرآن کریم اور احادیث نے اس حقیقت پر تاکید کرنے کے علاوہ ایمان کو زیادہ کرنے یا اس کے کم ہونے کے اسباب کو بھی کثرت سے بیان کیا ہے، منجملہ ان کے قرآن کریم میں آیا ہے:
''مومنین وہی لوگ ہیں جن کے دل اس وقت ڈرنے اور لرزنے لگتے ہیں جب خدا کا ذکر ہوتا ہے اور جب اُن پر اس کی آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے تواُن کاایمان زیادہ ہو جاتا ہے اور وہ اپنے پروردگار پر اعتماد اور بھروسہ کرتے ہیں ''۔(٢)
حضرت امام جعفر صادق ـنے اپنے ایک شیعہ سے فرمایا:
''اے عبدالعزیز! حقیقت یہ ہے کہ ایمان کے دس درجے ہیں سیڑھی کی طرح کہ اسے زینہ بہ زینہ طے کرنا چاہئے اور بلندی پر پہنچنا چاہئے۔ لہٰذا جس کا ایمان دوسرے درجہ پر ہے اسے پہلے درجہ والے مومن سے نہیں کہنا چاہئے کہ تمہارے پاس ایمان نہیں ہے اور اسی طرح تیسرے درجہ والا دوسرے درجہ والے کو یہاں تک کہ دسویں درجہ والے تک کو بھی یہی چاہئے کہ ایسا نہ کہے اور جس کا ایمان تم سے کم ہے اسے ایمان سے جدا (بغیر ایمان کے) نہ سمجھو اگر ایسا ہواتو جس کا ایمان تم سے بڑھ کر ہوگا اسے چاہئے کہ وہ تم کو ایمان سے جدا سمجھے۔ بلکہ اگر کسی کو اپنے
سے کم دیکھو تو تمہیں چاہئے کہ اسے مہر ومحبت کے ساتھ اپنے درجہ تک لے آئو اور جو کچھ اس سے ممکن نہ ہو اسے اس پر بار نہ کرو کہ اس کی کمر ٹوٹ جائے گی اور حق کی قسم اگر کوئی کسی مومن کی دل شکنی کر ے تو اس پر لازم ہے کہ اس کا جبران کرے اور اس کی دلجوئی کرے۔ (٣)
شیخ صدوق کتاب خصال میں اس روایت کے تما م ہونے پر تحریر فرماتے ہیں کہ مقداد ایمان کے آٹھویں درجہ پر، ابوذر نویں درجہ پر اور سلمان دسویں درجہ پر فائز تھے۔ البتہ اس بات پر توجہ ہونی چاہئے کہ اس روایت میں ایمان کے دس درجہ کو معین کرنا صرف دس مرتبہ تک منحصر کردینے کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اس سے مراد صرف ایمان کے درجات کی کثرت کو بیان کرنا ہے۔ اسی وجہ سے دوسری روایتوںمیں ایمان کے لئے کمتر یا بیشتر درجات بھی بیان کئے گئے ہیں۔(4)
.......................................
١۔ نہج البلاغہ، خ١٨٩ چاپ انصاریان ص: ٣٦٨۔
٢۔ سورۂ انفال آیت٢ ۔ سورۂ توبہ آیت ١٢٤۔ مدثر٣١، آل عمران ١٧١تا١٧٣۔ احزاب ٢٢کی طرف رجوع کیجئے۔
٣۔ کلینی: کافی، ج: ٢ص٤٥، ح٢؛ صدوق، خصال، ص٤٤٧، ح٤٨۔
4۔ رجوع کیجئے: صدوق: خصال، ص٣٥٢، ح٣١، کلینی: کافی، ج٢، ص٤٢، ح١، جن میں ایمان کے لئے سات درجہ بیان کئے گئے ہیں۔ تفسیر عیاشی، ج١، ص٢٠٥، ح١٠٥، درجات کو زمین وآسمان کے درمیان کے فاصلہ سے بیان کیا ہے۔