اسلامی ا خلاق
 

ب: اخلاقی ذمہ د اری کی شرطیں
گزشتہ بحث میں اخلاقی عمل کی اہمیت کی شرطوں اور ان کے عنصروں کے بارے میں گفتگو ہو چکی ہے۔ اخلاقی تعریف، جزا اور اس کی اہمیت اور قدر وقیمت کے مقابلہ میں اخلاقی سرزنش، مذمّت وسزااوراس کی ذمہ داری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ علم اخلاق میں ''قدروقیمت ''اور''ذمہ داری'' دوفیصلہ کن بنیادی رکن کی حیثیت رکھتی ہیں اور اُن میں سے کسی ایک کے فقدان کی وجہ سے ایک اخلاقی نظام کے بارے میں کوئی گفتگو نہیں کی جاسکتی۔ اس وجہ سے مناسب ہے کہ اخلاقی ذمہ داری کے اصلی عناصر اور ارکان کے بارے میں بھی کچھ بیان کیا جائے۔
اخلاقی ذمہ داری سے مراد پروردگار کے حضور میں ذمہ داری ہے اوراس کے نتیجہ میں اخروی جزاوسزاہوتی ہے خواہ دنیوی ذمہ داری اورسزا وجودرکھتی ہو یانہ رکھتی ہو۔دوسرے لفظوں میں اخلاقی ذمہ داری کی علامت، عمل پر مترتب ہو نے والااخروی عقاب اور سزا ہے، یہ اسی طرح ہے جیسے اخلاقی قدر وقیمت آخرت میں جزا وثواب کو وجودمیں لاتی ہے ۔ مسلمان متکلمین، اخلاقی دستوروں کے مقابلہ میں ذمہ داری کی شرطوں کو چارحصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ان شرطوں میں کچھ اصل دستور اور اخلاقی تکلیف سے مربوط ہیں، کچھ دوسری شرطیں، دستور دینے والے سے مربوط ہوتی ہیں اُن میں سے بعض شرطیں ایسی ہیں جواُن موضوعات کے لئے ہیں جن سے دستور کا رابطہ ہو تا ہے اوربعض دوسری شرطیں مسئول وذمہ دارانسان سے مربوط ہو تی ہیں۔ (١)
اخلاقی اوامر واحکام کے پسندیدہ ہونے کی وہ شرطیں جو شریعت کی اساس اور بنیاد کا اہم حصہ ہیں اور اسی طرح حاکم اور اخلاقی فرمان جاری کرنے کے لائق انسان کی خصوصیات، علم اخلاق کے کلامی موضوعات وافکار کی جزٔ ہیں اوران کے سلسلہ میں تحقیق وبحث کرنے کی جگہ، علم کلام ہے جہاں خداشناسی، نبوت اور دین کی ضرورت، جیسے مباحث میں بحث وتحقیق کی گئی ہے۔ اُن عملی شرطوں کو بیان کیا جاچکا ہے جن کے لئے حکم دیا جاتا ہے یا ان کی انجام دہی سے نہی کی جاتی ہے، اب اُن بنیادی عناصر کے سلسلہ میں گفتگو ہوگی جن کا انسان کے اندر موجود ہونا اخلاقی ذمہ داری کو قبول کرنے کے لئے شرط اور ضروری ہے۔

١۔بلوغ
بچے اورنا بالغ افراد اخلاقی ذمہ داری کے بارسے آزاداور بری ہیں۔البتہ اُن کے سرپرست اُن کے اعمال کی خاطر حقوقی طورپر ذمہ دارہیں۔اس وجہ سے اسلام کے اخلاقی نظام میں بچوں کے نیک اعمال اخلاقی اہمیت اور ثواب وجزا کے حامل ہیں لیکن ان کی اخلاقی برائیوں سے متعلق سوال نہیں ہو گا اور اُن کے لئے آخرت میں کوئی کیفروسزانہ ہوگی۔
اسلام کی مقدس کتابوں میں اخلاقی ذمہ داری کی بنیادی شرطوں میں سے بلوغ کو ایک شرط کے طور پرپیش کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پرحضرت امام محمد باقر ـ ایک روایت میں بلوغ کے زمانہ آغاز کو بیان کرتے ہو ئے فرماتے ہیں: ''انسان کے سنّ بلوغ تک پہنچنے کے بعد حدودالہی مکمل طورپراس کے نفع اورنقصان میں جاری ہو جائیں گے۔'' (٢)
.......................................
١۔ علامہ حلی: کشف المراد، ص ٣٢٢، شیخ طوسی: الاقتصاد فی ما یتعلق بالاعتقاد، ص١٠٧۔ حمصی رازی شیخ سدید الدین: المنقذسن التقلید، ص٢٨٨کی طرف رجوع کیجئے۔
٢۔ رک۔ کلینی: کافی، ج: ٧، ص: ١٩٨۔ شیخ صدوق: فقیہہ، ج٤، ص١٦٤۔


٢۔عقل
طبیعی وفطری بلوغ کے علاوہ قوۂ عقل کی موجودگی اخلاقی ذمہ داری کی شرط ہے۔ اس بناپر وہ افراد جو عقل سلیم نہیں رکھتے اورقدرت تعقل کی کمی سے دوچارہیں وہ اخلاقی ذمہ داری کے حامل نہیں ہیں۔ اگر چہ ان کے سرپرست اُن کے اعمال کے نتیجہ میں دوسروں کو ہو نے والے نقصانات کے تئیں حقوقی طور پر ذمہ دار ہوتے ہیں۔
فاعل میں عقل کے موجود ہو نے کی ضررت پر جودلیلیں ہیں اُن میں سے ایک وہ اثر ہے جو فاعل میں علم وآگاہی کے لئے عقل رکھتی ہے(١)۔ آئندہ بیان ہو گا کہ اخلاقی ذمہ داری کی شرطوں میں سے ایک فعل کی اچھائی اور برائی سے متعلق فاعل کا علم اور اس کی آگاہی ہے۔ اس وجہ سے کہ یہ شرط عقلی قدرت پر موقوف ہے انسان کے اندر عقل وادراک کی موجودگی آگاہی کے لئے ضروری مقدمہ ہے اور خود اخلاقی ذمہ داری کے لئے ایک شرط محسوب ہو تی ہے۔

٣۔علم یا اسے حاصل کرنے کا امکان
کو ئی انسان اخلاقی طور پراس وقت ذمہ دارہو تا ہے جب ترک کی جانے والے اعمال کی خرابی، برائی اور ممنوعیت کے بارے میں اورانجام دئے جانے والے اعمال کی خوبی، شائستگی، وجوب اور اسی طرح اُن کو انجام دینے کے سلسلہ کی کیفت میں علم وآگاہی رکھتا ہو یا یہ کہ ضروری علم حاصل کرنا اس کے لئے ممکن ہو۔یعنی ایسے حالات وشرائط کے تحت ہو جن میں وہ ان سے متعلق علم کو حاصل کرسکے۔(٢)
اس بنا پر بہت سے ایسے مسلمان یا غیر مسلمان جو اپنے اخلاقی فرائض کے بارے میں علم نہیں رکھتے لیکن اُن کے لئے اس طرح کا علم حاصل کرنا ممکن ہے، وہ اس طرح کے اپنے اعمال کے سلسلہ میں اخلاقی طور پر ذمہ دار ہیں اور اخروی سزائیں ان لوگوں سے بھی متعلق ہیں اگر چہ فی الحال علم نہ رکھتے ہوں ان کے مقابلہ میں وہ مسلمان یا غیرمسلمان جن کے لئے اس طرح کا امکان فراہم نہیں ہے اوران سے ممکن بھی نہیں ہے وہ اس طرح کی اخلاقی ذمہ داری سے بری ہونگے۔اخلاق کے علاوہ موجودہ حقوقی نظام بھی انسان کے علم یا اس کے لئے علم حاصل کرنے کے امکانات کو کیفری طور پر ذمہ دار ہونے کے لئے شرط سمجھتے ہیں۔
.......................................
١۔ رک۔ شیخ طوسی: الاقتصاد فی ما یتعلق بالاعتقاد، ص١١٧۔
٢۔ ایضاً ١١٦، ١١٧۔ علامہ حلی: کشف المراد، ص٣٢٢۔
فرائض سے متعلق علم یااسے حاصل کرنے کے امکان کو اخلاقی ذمہ داری کے لئے ایک شرط کیوں مانا گیاہے؟
علم کی شرط اور اس کی موجو دگی کی ضرورت کے سلسلہ میں اس کیوں کا جواب دینے کے لئے فطری ، وجدانی، عقلی وعقلائی اور دینی لحاظ سے متعدد دلیلیں پیش کی جاسکتی ہیں:

پہلی دلیل :
انسان کا سالم وجدان کسی انسان کے لئے کیفر اورسزاکے اعلان وابلاغ کے بغیر اور اس وقت تک پسند نہیں کرتا جب تک وہ اپنے فریضہ سے متعلق علم کے حاصل کرنے میں کوتاہی نہ کرے۔(١)
یہاں یہ بیان کرنا مناسب ہے کہ یہ شرط حتّیٰ اس نظریہ کی صورت میں بھی قابل قبول ہے کہ بدلہ اور سزاکو اخلاقی عمل کا طبیعی نتیجہ مان لیں، کیونکہ وہ لوگ بھی جو عمل اور بدلہ کے درمیان قراردادی رابطہ کی نفی کرتے ہیں اور تکوینی رابطہ کو قبول کرتے ہیں عمل کا لحاظ اس کے معنوی عناصر کے ساتھ کرتے ہیں نہ کہ فقط مادی عنصر کے ساتھ۔ یعنی اخلاقی عمل اس کے تمام عنصروں، منجملہ ان کے اس کا مادی پیکر کے ساتھ، فاعل کے مقصد اور نیت اور اس کے آگاہ ہونے اور نہ ہونے کے نتیجہ میں بدلہ اور کیفر کی صورت میں نتیجہ دیتاہے اور یہ فقط اس کے مادی پیکر میں نہیں ہے۔

دوسری دلیل:
عقل، فریضہ سے متعلق علم وآگاہی کو فریضہ کی انجام دہی کے لئے تکوینی اور فلسفی شرط کے طور پر مانتی ہے اور اس بنا پر اس کے فقدان کی صورت میں فریضہ کی انجام دہی کو محال جانتی ہے۔ کیونکہ فرائض سے متعلق جہل کی حالت میں فریضہ سے متعلق پابندی کے لئے فاعل میں کوئی مقصد اور اسے تحریک کرنے والی کوئی چیز موجود نہ ہوگی اس طرح مقصد کے بغیر فعل کا صادر ہوناعقلی طور پر محال ہے (٢) اس کے علاوہ عقل اصولی طورپر انسان کی جواب دہی، بازپرس اور سزائوں کو مجہول تکلیف (نامعلوم فریضہ) اوران حالات کی بناپر جن میں انسان نے اپنے اخلاقی فرائض سے آگاہی کے لئے پوری کوششیں کی ہیں، برا، ناپسند، اور حقیقت میں تشریعی عدالت کے خلاف جانتی ہے (٣) عقل کے اس فیصلہ کو علم اصول کے علماء قاعدہ ''قبح عقاب بلابیان'' کے عنوان سے یاد کرتے ہیں۔
.......................................
١۔ رک۔ آخوند خراسانی: کفایة الاصول، ص: ٣٤٣۔
٢۔ میرزا نائینی: فوائد الاصول (تقریر شیخ محمد علی کاظمی) ، ج٣، ص٣٦٥۔٣٧١۔
٣۔ آخوند خراسانی: کفایة الاصول۔
تیسری دلیل:
عقلائی اور عرفی وجدان، مجہول تکلیف (نامعلوم فریضہ) کے ترک کرنے پر سزاکا مستحق نہیں جانتا ہے، دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ سماج کے عقلمند لوگ، اپنے ماتحت رہنے والوں کو اس دستور کی بنا پر جو ان کے لئے اعلان نہیں ہوا اوران تک نہیں پہنچا ہے یا جس کی دستیابی میں ان لوگوں نے کوتاہی اور تقصیر نہیں کی ہے، جواب دہی اور سزا کا مستحق نہیں جانتے ہیں اور اُن لوگوں کو سزا دینا غیر مناسب اور برا مانتے ہیں۔

چوتھی دلیل:
کتاب وسنت میں مذکورہ قاعدہ (قبح عقاب بلا بیان) کی تائید کثرت کے ساتھ کی گئی ہے۔ نمونہ کے طور پر ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کیاجاتاہے:
خداوند عالم فرماتا ہے: ''ہم نے جب تک پیغمبر کو مبعوث نہیں کرتے، اس وقت تک عذاب نازل نہیں کرتے''۔ (١)
معروف تفسیروں کے مطابق پیغمبر کو (بغیر کسی مقصد کے) بھیجنا اہم نہیں ہے بلکہ حقیقت میں اس سے مراد یہ ہے کہ جب تک ضروری علم وآگاہی کو لوگوں تک نہیں پہنچا دیا جاتا، ان لوگوں کو ذمہ دار نہیں جاناجاسکتا ہے اور سزا نہیں دی جاسکتی ہے۔
دوسری جگہ پر فرماتاہے: ''خداکسی کو بھی تکلیف نہیں دیتا مگر صرف اتنی جتنی کہ اسے قدرت دی ہے''۔ (٢) اس آیت کے مطابق بھی انسان اسی قدر ذمہ دار ہے جس قدر اس نے کچھ حاصل کیا ہے یا حاصل کرسکتا ہے۔ خواہ علم وآگاہی ہو یاقدرت واستعداد۔
پیغمبراکرم ۖنے بھی فرمایا ہے:
''ہماری امت سے نو چیزوں (کے بدلہ) کو اُٹھا لیاگیا ہے: خطا، فراموشی، لاعلمی، ناتوانی، وہ امور جن کی خاطر قدرت نہیں ہے، وہ امور جن کو اضطرار یا اکراہ یا اجبار کی وجہ سے انجام دیا جاتا ہے، فال بد نکالنا، خلقت میں اور تفکّر وتدبّر میں وسوسہ پیدا ہونا اور حسد اس صورت میں کہ زبان یا ہاتھ سے ظاہر نہ ہو۔ (٣)
.......................................
١۔ سورۂ اسراء آیت١٥ ( وَمَاکُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّیٰ نَبْعَثْ رَسُوْلاً )۔
٢۔ سورۂ طلاق آیت٧(لَایُکَلِّفَ اللّٰہُ نَفْساً اِلّا مَا آتَاہَا)۔
3۔ کلینی، کافی، ج٢ ]کتاب الایمان والکفر، باب ما رفع عن الامة[ح٢۔ صدوق، فقیہہ، ج١، ص٣٦۔ خصال، ج٢، ص٤١٧۔
اس حدیث میں انسان نوچیزوں سے متعلق اپنی اخلاقی ذمہ داری اور جواب دہی وسزا سے معاف ہوگیا ہے، ان میں سے یہ بھی ہے کہ انسان ان تکلیفوں اور فرائض کے سلسلہ میں جواب دہ نہ ہوگا جن کے بارے میں علم وآگاہی نہیں رکھتا ہے مگر یہ کہ اس کی لاعلمی تقصیر اور کوتاہی کی بنا پر ہو، نہ کہ غلطی اورمجبوری کی بناپر۔ اس (غلطی کی) صورت میں بے خبررہنا ذمہ داری کو ختم نہیں کرتا ہے۔اس وجہ سے کہ علم کا دوام اورباقی رہنابھی اخلاقی ذمہ داری کے تحقق کے لئے مؤثر ہے اور عقلی طور پر بھولنے والے انسان کے لئے تکلیف اور ذمہ داری نہ ہونے کی دلیل کی بنا پر وہ انسان جو پہلے اپنی اخلاقی ذمہ داری سے متعلق علم رکھتا تھا لیکن اسے انجام دیتے وقت غفلت اور فراموشی کا شکار ہوگیا، اخلاقی طور پرذمہ دارنہ ہوگا۔

٤۔قدرت
اس شرط کی بنیاد پرانسان اُن چیزوں کے بارے میں جن کی پابندی کے لئے توانا ئی نہیں رکھتا اخلاقی طور پر ذمہ دارنہیں ہے۔ (خواہ وہ فعل کو انجام دینے کے لئے ہو یا ترک کرنے کے لئے) اور قیامت کے دن اس سلسلہ میں اس سے سوال وجواب نہ کیا جائے گا اور قابل توبیخ نہ ہو گا۔ اسلامی علوم میں یہ شرط ''تکلیف مالا یطاق'' کے عنوان کے تحت محال اور قبیح ہے اور یہ مسئلہ تمام لوگوں کے نزدیک مشہور، رائج اور قابل قبول ہے۔
مسلمان حکما اور متکلمین نے اس شرط کو ثابت کرنے کے لئے اس کے عقلی پہلو (یعنی یہ کہ نا قابل برداشت تکلیف اور فریضہ کی انجام دہی کا حکم دینا عدالت کے باخلاف اور ظلم کے واضح مصداقوں میں سے ہے) پر زور دینے کے علاوہ الہی حکمت اور خدا کے افعال کے بامقصد ہونے کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ خدا کے تکوینی اور تشریعی افعال کے حکیمانہ ہونے کی مصلحت کی بناپر یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اُنہیں تکلیفوں کو بندوں کے لئے مقرر کرتا ہے جن کے نتیجہ میں مقصد حاصل ہوسکے۔یہ بات واضح ہے کہ یہ مقاصد اس صورت میں قابل مقدور ہونگے کہ مقررشدہ فرائض کی انجام دہی افراد کی طاقت و توانائی سے باہر نہ ہو۔ اس بناپر ایسے امور کے لئے تکلیف معین کرنا جو انسان کے لئے غیر مقدور و ناممکن ہے، بے کار وبے فائدہ اور حکمت و مصلحت کے خلاف ہے اور اُن کا حکیم پرور دگار کی طرف سے نافذ ہو نامحال ہے۔(١)
.......................................
١۔ رک۔ سبحانی ، جعفر، الہیات، ج١، ص٣٠١۔ شہیدصدر: دروس فی علم الاصول، حلقہ دوم، ص٢٣٥تا ٢٤٠۔
یہ شرط کتاب وسنت میں بھی کئی بار تائید اور تأکید کے مرحلہ سے گذری ہے۔اُن کی بعض مثالیں ذیل میں درج کی جاتی ہیں:
''خدا کسی کو تکلیف نہیں دیتا مگراسی قدر جتنی کہ اس کے پاس توانائی ہے۔ جو کچھ نیکی سے حاصل کیا اس کے لئے مفید اور جو کچھ برائی سے حاصل کیا اس کے لئے نقصان دہ ہے ''۔(١)
''ہم کسی کو تکلیف نہیں دیتے مگر اسی قدر جتنی کہ اس کے پاس طاقت ہے۔ اور ہمارے پاس وہ کتاب ہے جوحق بیان کرتی ہے اوران پرکوئی ظلم نہیں کیا جاتا ہے''۔(٢)
اس بات کے علاوہ کہ انسان کو اصل فعل کی انجام دہی پر قادرہونا چاہئے، یہ بھی ضروری ہے کہ اگر مکلّف کے لئے فریضہ کو انجام دینے میں وسائل ومقدمات فراہم کرنے کی ضرورت ہو تو مکلف کے لئے ضروری ہے کہ اس کے مقدمات کو بھی حاصل کرنے کی قدرت رکھتا ہو، ورنہ حقیقت میں وہ اس فریضہ سے متعلق قدرت اور توانائی نہیں رکھتا۔ (٣)
یاد رہے کہ جس طرح علم کا فقدان اس صورت میں اخلاقی ذمہ داری کو معاف کرتا ہے جب انسان نے اپنی لاعلمی کے سلسلہ میں تقصیر اور کوتاہی نہ کی ہو، اسی طرح قدرت اور توانائی کی شرط کے سلسلہ میں بھی کہنا چاہئے کہ ہم بہت سے مقامات پر قدرت وتوانائی حاصل کرنے کے لئے ذمہ دار ہیں (٤) ، مثلاً ہمارا فریضہ ہے کہ اسلامی سرزمین اورملکوں کی حفاظت اور ان کے دفاع کی قدرت وتوانائی اور آمادگی کے وسائل کو فراہم کریں۔
''( اے ایمان لانے والو!) تم سب ان کے مقابلہ کے لئے ہر ممکن طاقت (جنگی سامان) اور گھوڑوں کی صف بندی کا انتظام کر لو تاکہ اُن کے ذریعہ خداکے دشمن اور خود اپنے دشمن اور اُن دشمنوں کو جن کو تم نہیں جانتے اور اﷲ جانتا ہے ڈرائو۔ (٥)
.......................................
١۔ سورہ ٔبقرة، آیت٢٨٦ ۔ علامہ طباطبائی: المیزان، ج٢، ص٤٤٣، ٤٤٤۔
٢۔ سورۂ مومنون، آیت ٦٢۔ اور اسی طرح سورۂ انعام، آیت١٥٢۔ اور علامہ طباطبائی: المیزان، ج١٥، ص٤١تا٤٣۔
٣۔ ر،ک۔ شیخ طوسی، الاقتصاد فیما یتعلق بالاعتقاد، ص١١٨،١١٩۔
٤۔ ر،ک۔شہید مرتضیٰ مطہری: مقدمہ ای بر جہان بینی اسلامی (انسان درقرآن ) ، ص٢٧٦،٢٧٧۔
٥۔ سورہ ٔانفال، آیت٦٠


٥۔ اضطرار (مجبوری) کا نہ ہونا
اضطرار (مجبوری) بہت سی جگہوں پر اخلاقی ذمہ داریوں کو ختم کردیتا ہے۔'' مضطر''اس انسان کو کہتے ہیں جسے مشکل حالات کا سامنا ہو۔ جیسے یہ کہ کوئی انسان کسی بیابان میں عاجز وناتوان اور بھوکا ہو اور اسے کھانے کے لئے مردار کے علاوہ کوئی چیز نہیں ملتی۔

٦۔ اکراہ واجبار کا نہ ہونا
اکراہ اس وقت وجود میں آتا ہے جب انسان کو کسی دوسرے جابر انسان یا گروہ کے ذریعہ دھمکی دی جاتی ہے اور وہ اپنی باطنی مرضی کے برخلاف ایسے فعل کو ترک کرنے یا انجام دینے پر مجبور ہوتاہے جو اخلاقی لحاظ سے برا اور ناپسند ہے۔ جیسے یہ کہ اس سے کہا جائے کہ اگر تم نے اپنے روزہ کو نہیں توڑا تو تمہاری جان لے لوں گا یا یہ کہ اگر فلاں مسئلہ میں سچ بولوگے تم کو کام سے ہٹادیاجائے گا۔
وہ حدیث جسے حدیث رفع کہا جاتا ہے ایسے مختلف امور کو بیان کرتی ہے جن میں انسان کے لئے تکلیف اور ذمہ داری نہیں ہے، اُن امور میں سے ایک ''ما استکر ہوا علیہ'' ہے یعنی وہ امور جنہیں انجام دینے یا ترک کرنے کے لئے مجبور کیا جاتا ہے۔اکراہ اور اضطرار میں فرق یہ ہے کہ اضطرار میں دھمکی دینے والا کوئی نہیں ہوتا ہے بلکہ مجموعی حالات اس طرح ہوجاتے ہیں کہ وہ ناپسند حالات انسان کے اوپر بار ہو جاتے ہیں اور انسان ان نامطلوب حالات کو رفع کرنے کے لئے ناچار ہو جاتا ہے کہ اپنے اخلاقی فریضہ کے برخلاف عمل کرے اور اکراہ میں انسان اس مصیبت اور نقصان کو دفع کرنے کے لئے مجبور ہوتاہے کہ اپنے اخلاقی فریضہ کے برخلاف عمل کو انجام دے جو کسی دوسرے کی دھمکی کے نتیجہ میں اس کے سامنے ہے۔
اکراہ اور اضطرار مندرجہ ذیل دو بنیادی اسباب سے وابستہ ہے

ایک۔ ایسا صدمہ اور نقصان جس سے بچنا ضروری ہے۔
دو۔ اس تکلیف اور وظیفہ کی اہمیت کہ انسان اکراہ یا اضطرار کی بناپر اسے انجام دینے سے پرہیز کرتا ہے۔

اسلام کے اخلاقی نظام میں بعض اخلاقی فرائض کو اکراہ یا اضطرار کی بنا پر ہرگز ترک نہیں کیا جاسکتا ہے اور ہر حالت میں ان کی پابندی نہیں کی جاسکتی اور اس کے نتیجہ میں ہونے والے نقصان کو برداشت نہیں کیا جاسکتا ہے، جیسے کبھی بھی اکراہ یا اضطرار کی بناپر دوسروں کی جانوں کو خطرہ میں نہیں ڈالاجاسکتاہے یاسماجی مصلحتوں کے خلاف عمل نہیں کیا جاسکتا ہے یا دین کی اہم مصلحتوں کو نظر اندازنہیں کیا جاسکتا ہے۔ (١)

٧۔قصد وعمد
اخلاقی طور پر ذمہ دار (جوابدہ) ہونے کی دوسری شرط یہ ہے کہ انسان قصداً اورعمداً اپنے اخلاقی فریضہ کو نظر انداز کردے۔ اس بناپر جب بھول چوک کی وجہ سے اپنے اخلاقی فریضہ کو ترک کردے تو اخلاقی لحاظ سے وہ ذمہ دار نہ ہوگا۔

.......................................
١۔رک۔ شہید مرتضیٰ مطہری: مقدمہ ای بر جہان بینی اسلامی، ٢٧٧۔٢٧٨۔