ج۔ اخلاق سے متعلق نظریات
اخلاق کے بارے میںمسلمانوں کے درمیان خاص طور سے علمائے علم اخلاق کے درمیان تین نظریات پائے جاتے ہیں ابتداء میں اِن تین نظریوں کے بارے میں اجمالی طور پر گفتگو کی جائے گی پھر ان میں مورد قبول نظریہ کو پیش کیا جائے گا۔
١۔فیلسوفوں کا نظریۂ اخلاق
اس مکتب فکر کے افراد، افراط و تفریط کے مقابلہ میںجو رذائل اخلاقی میں سے ہیں، اخلاقی فضائل کے لئے حد اعتدال کو اختیار کرتے ہیں اور خوبی و بدی کے لئے اسی کو کسوٹی قرار دیتے ہیں۔اس بناء پر چونکہ انسان کے عمل کا سرچشمہ نفسانی قوتیں ہیںلہٰذا اس کے اعمال و کردار باطنی قوتوں میں اعتدال یا عدم اعتدال سے مربوط ہیں اس بناء پر اس مکتب میں قوائے نفسانی میں اعتدال اور اس میں افراط وتفریط سے بحث ہوتی ہے اور تمام دینی اخلاقی باتوں کو اسی معیار پر پیش کیا جاتا ہے۔ تربیت اخلاقی کے بارے میں یہ مکتب نفسانی قوتوں میں اعتدال کی نصیحت کرتا ہے ۔ ابن مسکویہ کی تہذیب الاخلاق و طہارت الاعراق، نصیر الدین طوسی کی اخلاق ناصر ی اور کافی حد تک جامع السعادات، تصنیف مولیٰ محمد مہدی نراقی اسی مکتب ونظریہ کی بنیاد پر لکھی گئی ہیں۔
اعتدال کی توضیح کے سلسلہ میں موجود مشکلوں کی وجہ سے نیز اخلاق کے تمام مفاہیم کی تفسیر میں جامعیت کے نہ ہونے کی بناء پر یہ مکتب تنقید کا شکار ہوا ہے اور چونکہ یہ موضوع علمی اور بہت زیادہ خشک ہے لہٰذا علماء اور فلاسفر کو چھوڑ کر عوام کے درمیان رائج نہ ہو سکا۔ (١)
٢۔ عارفوں کا نظریۂ اخلاق
یعنی وہ اخلاق جس کو رائج کرنے والے صوفی اور عرفاء تھے۔اس طرح کے اخلاق نے جس کازیادہ دار ومدار اخلاقی تربیت اور سیر سلوک پر ہے، ایک تربیتی نظام کو رائج کرنے اور اس کے آغاز وانجام و مراحل کے علاوہ
.......................................
١۔ استاد مطہری، مرتضیٰ: تعلیم وتربیت در اسلام، ص: ٢٠٠۔
اس راہ پر چلنے کے لئے ضروری وسیلوں کو معیّن کرنے پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ عارفانہ اخلاق کا محور (اصل مقصد) نفس سے جنگ وجہاد کرنا ہے۔پرہیز گار عارفوں کی ہمیشہ یہ کوشش تھی کہ اپنے اعمال و کردار کو شریعت کے ظاہر و باطن کے مطابق قرار دیں اور اس سلسلہ میں اُنھوں نے زیادہ کامیابی حاصل کی ہے۔ان لوگوں نے اسی طرح دل اور محبت کی قدرت پر زور دے کر اور اشعار کی نفوذی زبان سے استفادہ کر کے اور تشبیہات واستعارات وکنایات کو استعمال کر کے لوگوں کے درمیان زیادہ مقبولیت حاصل کر لی ہے۔خواجہ عبداﷲ انصاری کی لکھی ہوئی کتاب ''منازل السائرین، ، اور بہت سے معنوی وعرفانی مضامین والے فارسی اشعار کے معتبر دیوان جیسے مولوی کی مثنوی معنوی اور عطار نیشاپوری کی منطق الطیر اسی طرح کے اخلاق کو بیان کرتی ہیں۔
اس نظریۂ اخلاق میں بھی متعدد نظریات پائے جاتے ہیں۔اس مکتب کا تنقیدی جائزہ اور اس کی قدر وقیمت کو طے کرتے وقت ضروری ہے کہ اس بات پر بھی توجہ کی جا ئے کہ اُن نظریات کو بطور کلی تقسیم کر نے پراُن کے دو گروہ بنتے ہیں:
پہلا گروہ: وہ نظریات جو معنوی سلوک میں اصولی طور پر شریعت کی پابندی کو ضروری نہیں جانتے یا مختصر مدت اور ایک خاص مرحلہ تک ہی لازم مانتے ہیں۔
دوسرا گروہ: وہ نظریات جو شرعی احکام کی پابندی کو بلند معنوی مقامات تک پہنچنے کے لئے تنہا راستہ اور اسے ہمیشہ ضروری جانتے ہیں۔
پہلے گروہ کی قدر وقیمت کا اگر اندازہ لگایا جائے توکہا جا سکتا ہے کہ وہ لوگ ایک طرح سے نفس سے جنگ کرنے
میں افراط کا شکار ہوگئے اور اخلاق اسلامی کو زندگی سے موت کی طرف لے گئے ہیں۔اس کے علاوہ اخلاق میں غور و فکر کی اہمیت کو بھی کافی حد تک فراموش کرچکے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں وہ لوگ ایسی تعلیمات سے نزدیک ہو گئے ہیں جو قرآن وسنت کے بر خلاف ہے مثلاًخود پرستی (تکبر) اور نفس سے جہاد کے بہانے، نفس کی عزت اور کرامت کو فراموش کر دیا ہے۔ حالانکہ اخلاق اسلامی میں نفس کی شرافت و کرامت نہ صرف ایک اخلاقی فضیلت ہے (١) بلکہ اسے حاصل کرنا اور تقویت پہنچانا تربیت کا خود ایک طریقہ ہے۔ (٢)
لیکن عرفانی نظریہ کے دوسرے گروہ والے جو شریعت سے وفاداری کو اپنی تعلیم کے لئے سرِ لوح (بنیاد) اور لازم قرار دیتے ہیں، معنوی سفر کے قاعد وں کو منظم کرنے اوراُن کے مبدأ و مقصد اور اس سفر کے مرحلوں کو معین کرنے سے حاصل نتیجوں کواور ان قدرتمند عناصر (جیسے محبت، ذکر، معنوی بلندی کے لئے نظارت) کے استعمال کر نے کی کیفیتوں کو جو اخلاقی تربیت کے سلسلہ میں بہت ہی کار آمد و مفید ہیں، اپنے ہمراہ رکھتے ہیں۔ یہ لوگ اِن تمام امور کو قرآن و روایات کے مطابق جانتے ہیں۔ تربیت کے ان جذاب نتیجوں کو اخلاق اسلامی کے توصیفی مباحث کے ہمراہ کرنا اسلام کے اخلاقی نظام کے لئے مفید ثابت ہوگا۔
٣۔اخلاق نقلی (٣)
یعنی وہ اخلاق جسے محدثین نے اخبار واحادیث کو نقل ونشر کر کے لوگوں کے در میان بیان کیا ہے اور اس طرح اسے وجود میں لائے ہیں۔ (٤)
اس نظریہ میں اخلاقی مفاہیم کو کتاب وسنت کی بنیاد پر بیان کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ عمل اُن مفاہیم پر حاکم، واقعی تربیت اور ان کے درمیان پائی جانے والی مناسبتوں پر کافی و وافی توجہ کے بغیر ہوتا ہے۔ اس طرح کے متن اکثر اخلاقی مفاہیم کی توصیف کو اپنا مقصد قرار دیتے ہیں اور ان کی بنیادوں اور عملی نمونوں پر کم توجہ دیتے ہیں۔ اس بناء پر (اس نظریہ میں ) اخلاق کی ابتداء و انتہا مخصوصاً اخلاقی تربیت زیادہ واضح نہیں ہے۔ اس اخلاقی روش میں ایسی کوئی چیز نظرنہیں آتی ہے جس کی بناء پر اسے ایک اخلاقی نظام کہا جاسکے اور جو اخلاق کی بنیادی بحثوں کو بھی شامل کئے ہو اور تربیتی و توصیفی بحثوں کو بھی عقلی ترتیب کے لحاظ سے پیش کئے ہو۔اس روش پر لکھی ہوئی
.......................................
١۔ (وَ لِلّٰہِ العِزَّةُ وَ لِرَسُولِہ وَ لِلمُومِنین ) (سورہ: منافقون، آیت: ٨)۔
'' وَلاَ تَکُن عَبد غَیرکَ وَ قَد جَعَلَکَ اﷲُ حُرّاً، ، (نہج البلاغہ: نامہ٣١)۔
٢۔ مقدس اسلامی کتابوں میں مکارم اخلاق (مکارم یعنی بڑی خوبیاں) سے مراد یہی ہے۔
بعض روایتیں، جیسے'' مَن کَرُمَت عَلَیہ نَفسَہ ھَانَت عَلَیہ شَھوَاتہ، ،۔(نہج البلاغہ، حکمت: ٤٤١)۔
ایضاً: ''مَن ھَانَت عَلَیہ نَفسَہ فَلَا تَمَن شَرَّہ، ،۔(تحف العقول، ص: ٤٨٣) اس بات کو بیان کرتی ہیں۔
٣۔ نقلی سے مراد آیات و روایات یا کسی کے قو ل کو نقل کرنا ہے۔
٤۔ استاد مطہری، مرتضیٰ: تعلیم وتربیت در اسلام، ص: ٢٠١۔
کتابیں، اخلاقی مواد و مطالب کے لحاظ سے غنی ہونے کے باوجود، شکل وصورت کے لحاظ سے مناسب ورضایت بخش نہیں ہیں۔محمد غزالی کی احیاء العلوم اور فیض کاشانی کی المحجة البیضاء جیسی کتابیں اس طرح کے اخلاقی مضامین کی ترجمانی کرتی ہیں۔
اس کتاب میں ایسا قابل قبول قاعدہ ہے جو تینوں مذکورہ طریقوں میں پائے جانے والے مثبت نکات کی ترکیب اور ان کا مجموعہ ہے۔اسی کے ساتھ اس قاعدہ میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ مذکورہ طریقوں میں پائی جانے والی کمیوں کو پورا کیا جائے۔ اس بناء پر اس قاعدہ میں اولاًیہ کوشش کی گئی ہے کہ حتی الامکان اخلاق اسلامی کو شکل ومضمون کے لحاظ سے منطقی و عقلی قاعدوں کی بنیاد پر بیان کیا جائے۔ثانیاًعارفوں کے نتیجوں اورتجربوں سے حتی المقدوراستفادہ کیا جائے اور ثالثاً اخلاقی فیصلوں کا معیار ہمیشہ قرآن و روایات کو قرار دیا جائے۔
اس روش میں کتاب خدا اور نبی اکرمۖ اوراُن کے اہلبیت اطہار (ع) کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے جن خوبیوں کو گذشتہ اخلاقی طریقوں اور مکاتب میں شمار کیا گیا ہے، وہ سبھی موجود ہیں۔ اخلاق اسلامی میں وسعت کی بناء پر اصلی اخلاقی سوالوں کے جواب بھیملیں گے اور اس میں اخلاقی مفاہیم پر بحث بھی شامل ہوگی اور اسی کے ساتھ طریقۂ کار اور تربیت کے عملی طریقوں اور قوانین کی توضیح بھی کی گئی ہے۔ یہاں اسلامی مفاہیم پر ایک خاص نظام حاکم ہے۔ ہر مفہوم کی دوسرے مفاہیم سے نسبتوں پر اور اخلاقی نظام کے مجموعہ میں ان کی اہمیت پر بھی دقت کی گئی ہے۔ اخلاق تربیتی پر زیادہ توجہ کے ساتھ ہی مخاطبین کے شعور کی مناسبت سے راستوں اور وسیلوں کو پہچنوایا گیا ہے اور اس میں مبدأ و مقصد، درجات و مراتب کا بھی خیال کیا گیا ہے۔معر فت اور جہاد بالنفس پر خا ص توجہ کے ساتھ ہی انسان کی عزت و شرافت و بزرگی پر بھی تاکید کی گئی ہے۔ اسی کے ساتھ اخلاقی مفاہیم کو سمجھنے اور بیان کرنے اور عمل کی ترغیب کے لئے عقلی نتیجوں کو سامنے رکھ کر محبت و دوستی کو اس معنوی سفر کے لئے کامیاب اور نتیجہ تک پہنچانے والے وسیلہکے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔
اس نظریہ کا وحی سے نسبت رکھنا اور اس کا شریعت کے مطابق ہونا اس کی جوہری خصوصیت ہے۔ اس کے باوجود، عقلی میزانوں، عرف و عقل کے مسلّم اصولوں، اور معنوی سفر میں پیش قدمی کرنے والے سچے لوگوں کے عملی تجربوں سے، نیز قرآن و سنت میں جو کچھ آیا ہے اسے سمجھنے، اس کی تفسیر، تطبیق و اجرا ء کر نے میں غفلت نہیں کی گئی ہے۔
اس بناء پر اس مقبول اخلاقی نظریہ کی کچھ خاص خصوصیتوں کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے:
١۔مباحث کا کتاب و سنت کے مطابق ہونا اور ان کے بر خلاف نہ ہونے کو واضح کرنا۔
٢۔ایسا جامع نظام پیش کرنے کی کوشش کرنا جو تمام اخلاقی سوالوں کا جواب دے سکے۔
٣۔ایک ایسی تفسیر پیش کرنا جو معتدل اور اخلاقی مفاہیم کے موافق ہو۔
٤۔ اخلاقی بحثوں کوعقلی لحاظ سے مطالعات کے تین حصوں (اصولی، توصیفی، ترتیبی ) میں تقسیم و ترتیب دینا۔
٥۔اخلاقی تربیت کے وسیلوں اور ان کی طبیعی ترتیب پر توجہ دینا اور ان کا شرعی ہونا۔
٦۔ تہذیب اخلاق (خوش اخلاقی ) میں پیش قدم و کہنہ مشق (تجربہ کار ) لوگوں کے تجربوں سے عملی فائدہ حاصل کرنا۔
٧۔ کتاب و سنت میں وارد ہوئے مصداقوں کے درمیان سے اخلاق کے کلی اصولوں اور قاعدوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔
٨۔عمل اور نفسانی ملکات کے مختلف حلقوںکے بارے میں اسلام کے نظریہ کو مستقل طور پر البتہ ہر ایک کی تثیر پر توجہ کرتے ہوئے بیان کرنا۔
٩۔ فکر، نفسانی ملکات، ر فتار و کردار پر آپس میں پڑنے والے ہر ایک کے اثرات پرتوجہ کرنا۔
١٠۔ اخلاقی مفاہیم کی تفسیر اور عمل میں، عقل، فطری رجحانات اور عملی آثار اور تجربوں کے مرتبہ پر توجہ کرنا۔
١١۔ اخلاقی لیاقتوں کے توازن اور اُن سب کی باہمی ترقی پر تا کید کرنا اور اُن میں افراط و تفریط سے پرہیز کرنا۔
١٢۔ اخلاقی قوانین کو استعمال کرنے میں مخاطبین کی خاص حالت و کیفیت پرتوجہ کرنا۔
د: اخلاق اسلامی کے مباحث کی تقسیم
یہ اخلاق، اسلامی مفہوم کے مطابق اور قرآن و عترت اطہار (ع) کے ذریعہ جو کچھ ہم تک پہنچا ہے اس کی روشنی میں علم اخلاق کے اُن بنیادی سوالوں کا جن کی گفتگو آج فلسفہء اخلاق میں کی جاتی ہے، جواب دیتا ہے اور مطلوب و کامل انسان کو نفسانی صفات اور عمل کے مختلف نمونوں کے طور پر نمایاں بھی کرتا ہے۔ان دو مسئلوں کے علاوہ، مثالی انسان اور سب سے بلند معنوی مقامات تک پہنچنے کے لئے علمی و اجرائی، عملی قاعدوں اور ضابطوں کو پہچنواتا ہے۔ اس بناء پر اخلاق اسلامی منظّم ومرتّب طور پر مندرجہ ذیل تین فصلوں میں تقسیم وترتیب پاتا ہے:
١۔اخلاق کی بعض بنیادی اور فلسفی بحثیں
اخلاق کی حقیقت اوراخلاقی عمل کے ضروری عناصر سے واقفیت اور ان کو پہچنوانا۔
٢۔اخلاقی خوبیوںاوربرائیوں کی توصیف
نفسانی صفت کے عنوان سے بھی اور عمل کے مختلف حدود میں بھی۔
٣۔اخلاق تربیتی
انسان کو اخلاقی فضیلتوں سے آراستہ اور برائیوں سے پاک کرنے کے لئے وسیلوں اور طریقوں کو بیان کرنا۔
|