آئینۂ اخلاق
  فصل پنجم
امور معاش سے متعلق وصیتیں
فرزند!
خدا تمہارے امور کی اصلاح کرے۔ تمہاری عمر دراز کرے اور تمہیں اپنی مرضی کے لئے موفق قراردے۔ جہاں تک ممکن ہو نجف اشرف میں قیام کرنا کہ یہ جوار امیر المومنین علیہ السلام ہے اور امیر المومنین علیہ السلام اپنے ہمسایہ کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ اسے شرِّ اشرار سے محفوظ رکھتے ہیں۔ جیسا کہ اس آخری دور ۱۳۲۴؁ھ میں تجربہ ہوا ہے۔ نجف و کوفہ دونوں کے بارے میں روایات ہیں کہ جو ظالم و جابر انھیں فنا کرنا چاہے گا وہ خود تباہ و برباد ہو جائے گا۔
(خدا دورِ حاضر کے ظالم و جابر کو بھی قرار واقعی سزادے اور نجف اشرف کا تحفظ کرے۔ انشاء اللہ خونِ شہیداں رائگاں نہ ہوگا اور ظالم و جابر کو اس کے کیفر کردار تک پہونچایا جائے گا۔ جوادی)
نجف میں امیر المومنین علیہ السلام کی زیارت ہے اور ان کی زیارت اور ان کے پاس نماز پڑھنے کی فضیلت سے کوئی عاقل اپنے کو محروم نہیں کرسکتا ہے۔[1]
نجف کا قیام انسان کو بہت سے گناہوں سے قہری طور پر محفوظ رکھتا ہے کہ یہاں گناہ کے وہ اسباب فراہم نہیں ہیں جو دوسرے مقامات پر پائے جاتے ہیں جیسے ایران وغیرہ میں۔
(مصنف نے اس مقام پر ایران کا حوالہ دیا ہے حالانکہ تاریخ نے اپنا نظام الٹ دیا ہے اور اب ایران مرکز خیر بن گیا ہے اور بے دین حکام نے نجف اشرف میں فساد اخلاق کے مراکز قائم کر دیئے ہیں۔ خدا ان ظالموں سے ان جرائم کا انتقام لے اور انھیں توہین حرم امیر المومنین علیہ السلام کی قرار واقعی سزادے۔ جوادی)
اور اگر کسی وجہ سے نجف اشرف میں قیام ممکن نہ ہو یا اس میں توہین و ذلت کا خطرہ ہو تو کربلا کے علاوہ دوسرے عتبات عالیات کے جوار میں قیام کرنا کہ کربلا میں قیام کو مکروہ قرار دیا گا ہے۔ وہاں کے آداب میں ہے کہ زیارت کر کے واپس ہو جاؤ اس لئے کہ قیام سے سنگدلی پیدا ہوتی ہے اور مصائب مظلوم کربلا کی طرف سے بے توجہی پیدا ہو جاتی ہے جو بہت بڑا دینی خسارہ ہے (ہاں کوئی شخص اس طرف سے مطمئن ہو اور اس کے نفس میں اتنی پاکیزگی پائی جاتی ہو تو کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے۔ جوادی)
فرزند! جب تک عتبات عالیات میں زندگی کا سہارا رہے دوسرے مقام پر قیام نہ کرو اور جب مجبور ہو جاؤ تو وہ علاقہ تلاش کرو جہاں اہل صلاح و تقوی اور صاحبانِ علم و فہم رہتے ہوں۔ عتبات عالیات میں بھی حرم محترم سے قریب تر مکان میں رہنا کہ ہر حال میں زیارت سے مشرف ہو سکو۔ اور دوسرے شہروں میں وسطِ شہر میں قیام کرنا کہ وسط بلاؤں سے زیادہ محفوظ رہتا ہے۔
اور یاد رکھو کہ جب تک ملکیت یا وقف کا مکان مل سکے کرایہ کے مکان میں نہ رہنا کہ وقف و ملکیت کا معمولی مکان بھی کرایہ کی کوٹھی سے بہتر ہوتا ہے۔ کرایہ کے مکان میں ہر وقت ذلت کا اندیشہ رہتا ہے۔
٭ مکان خریدنا چاہو یا کرایہ پر لینا چاہو تو پہلے ہمسایہ کی تحقیق کرو کہ میں نے جب بھی اس نکتہ سے غفلت برتی ہے تلخ تجربات کا سامنا کیا ہے۔
٭ مکان کی تعمیر کرنا چاہو تو سارا مکان ایک سال میں نہ بناؤ بلکہ تھوڑا تھوڑا کر کے تعمیر کرو اور بلا وجہ سارا مکان منہدم نہ کر دو بلکہ جس قدر قابل تعمیر ہو اسی کی مرمت کرو تاکہ اسراف اور فضول خرچی نہ ہونے پائے۔
٭ مال دنیا کتنا ہی زیادہ ہو مکان زیادہ منظم اور آراستہ تعمیر نہ کرو کہ دنیا رہنے کی جگہ نہیں ہے۔ اس میں صرف مقدار ضرورت پر اکتفا کرنا چاہئیے اور باقی مال کو تعمیر آخرت پر صرف کرنا چاہئے کہ دوسروں کے مکان کی مرمت کرادے ناکتخداؤں کی شادی کرا دے اور محتاجوں کی حاجت روائی کر دے۔
٭ ممکن ہو تو وسیع مکان میں قیام کرو کہ مکان کی وسعت اسباب سعادت و نیک بختی میں ہے چاہے دنیا میں ہو یا آخرت میں۔[2]
فرزند! لباس میں بھی متوسط درجہ کے لباس پر اکتفا کرو جسے مالدار اور فقیر دونوں اختیار کر سکیں کہ اگر تم فقیر ہو تو اپنی حد کے اندر رہو گے اور کسی اسراف میں مبتلا نہ ہو گے اور صاحب دولت ہو تو تمہارا یہ عمل زہد و تقویٰ میں شمار ہوگا اور اس سے فقراء کی تسکین خاطر بھی ہوگی۔ یاد رکھو کہ دنیادار انقلاب ہے۔ یہ کسی وقت بھی پلٹا کھا سکتی ہے۔ ایسا طریقہ نہ اختیار کرو کہ انقلاب کے بعد پریشانی پیدا ہو جائے۔
خبردار! ایسا لباس اختیار نہ کرنا جو غربت یا دولت کی شہرت کا ذریعہ ہے کہ یہ دونوں باتیں روایات میں مذموم قرار دی گئی ہیں۔ لباس میں نظافت اور طہارت کا خاص خیال رکھنا کہ یہ بات شرعاً مطلوب ہے۔
فرزند! ہم نشینی کے لئے اچھے انسانوں کا انتخاب کرنا کہ انسان اپنے ہم نشین سے پہچانا جاتا ہے اور خبردار فاسد العقیدہ، بد عمل، پست کردار انسانوں کے ساتھ نہ بیٹھنا کہ انسان پر صحبت کا بہرحال اثر پڑتا ہے۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے ’’دیوانِ مشہور‘‘ میں اسی نکتہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ اور لقمان حکیم نے بھی اپنے فرزند کو وصیت کی ہے کہ مجالس کا دیکھ بھال کر انتخاب کرنا جہاں دیکھو کہ ذکر خدا ہو رہا ہے وہاں بیٹھ جاؤ کہ تم عالم ہو گے تو لوگ تم سے فائدہ اٹھائیں گے اور جاہل ہوگے تو تمہیں علم دیں گے۔ شاید خدا ان پر رحمت نازل کرے تو تم بھی شریک رحمت ہو جاؤ۔[3]
٭ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ مزبلہ کے قریب کھڑے ہو کر عالم سے گفتگو کرنا فرش مخمل پر بیٹھ کر جاہل سے بات کرنے سے بہتر ہے۔[4]
٭ مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم فرماتے ہیں کہ حواریین نے جناب عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھا کہ ہم کس کے پاس بیٹھیں تو آپ نے فرمایا کہ جس کا دیدار خدا کو یاد دلائے، جس کی گفتگو علم میں اضافہ کرے اور جس کا عمل آخرت کی طرف رغبت پیدا کرائے۔[5]
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا ارشاد ہے ’’اہل دین کی ہم نشینی شرف دنیا و آخرت ہے۔[6]
٭ امام محمد باقر علیہ السلام فرما تے ہیں معتبر افراد کے پاس بیٹھنا ایک سال کے عمل سے زیادہ بہتر ہے۔
٭ امیر المومنین علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ خبردار پست انسانوں کے ساتھ نہ رہنا کہ ان سے کسی خیر کی امید نہیں ہے۔
٭ شیخ صدوق علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ روایات میں پست انسانوں کی تفسیر حسب ذیل معانی سے کی گئی ہے۔
۱۔ پست وہ ہے جسے نہ یہ خیال ہو کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور نہ یہ ہوش ہو کہ میرے بارے میں کیا کہا جارہا ہے۔
۲۔ پست آدمی باجا بجانے والے کو کہتے ہیں۔
۳۔ پست آدمی وہ ہے جسے نہ نیک برتاؤ سے خوشی ہو نہ بد سلوکی سے افسوس ہو۔
۴۔ پست آدمی وہ ہے جو اہلیت نہ رکھنے کے باوجود قیادت کا دعویٰ کرے۔
٭ البتہ اگر ایسے لوگوں کی صحبت سے اصلاح کی امید ہو اور یہ خیال ہو کہ ان کی اصلاح ہوجائے گی اور ان کے کردار کا اپنے اوپر کوئی اثر نہ ہوگا تو بقدرِ ضرورت ان کے ساتھ رہنا چاہئے۔ اس لئے کہ مردانگی فقط اپنے نفس کی اصلاح کر کے اسے جہنم سے بچا لینے کا نام نہیں ہے بلکہ دوسروں کی تادیب کرنا اور ان کی اصلاح کرنا بھی ضروری ہے اور اسی لئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو واجب کیا گیا ہے اور اس پر سارا زور اسی لئے دیا گیا ہے کہ دوسروں کو اطاعت کی طرف لایا جائے اور جہنم سے بچایا جائے۔
فرزند! عقد کرنا ہو تو صحیح النسب عورت کا انتخاب کرنا کہ اس سے اولاد کو پیدا ہونا ہے اور وہ تمہاری نسل کے لئے ایک ظرف ہے اور ظرف اور دودھ کا بچہ پر اثر ہوتا ہے۔ اس میں نیک اوصاف کا بھی لحاظ رکھو اور ایمان و تقوی کے ساتھ شکل و صورت کا بھی لحاظ کرو کہ پھر دوسری عورت کی طرف میلان نہ پیدا ہو اور خاطر خواہ انس فراہم ہوتا رہے۔
حسن و جمال کی خاطر عقد سے ممانعت کا مطلب یہ ہے کہ دین و کردار کے بجائے انھیں بنیاد نہ بناؤ۔ اس کا یہ طلب ہرگز نہیں ہے کہ اس کالحاظ ہی نہ کرو۔ یہی حال مال و دولت کا ہے کہ اسے دین و کردار کا بدل نہ قرار دو ورنہ صاحبِ مال عورت ادائے حقوق کی پابند ہے تو اس سے عقد کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے بلکہ اس کے اختیار کرنے میں یہ فائدہ ہے کہ اس کا مال تمہاری اولاد کے کام آئے گا۔ وہ سکون کے ساتھ علم دین حاصل کر سکیں گے اور بے فکری سے کام کر سکیں گے بشرطیکہ دین و نجابت کا معاملہ استوار رہے اور خبردار ’’نودولت‘‘ خاتون سے عقد نہ کرنا کہ اس میں دولت کا غرور ہوگا اور وہ تمہیں حقیر سمجھے گی۔ روایات میں ’’نودولت‘‘ شخص سے قرض لینا تک مکروہ قرار دیا گیا ہے کہ اس میں احساس بلندی زیادہ ہوتا ہے۔
بلکہ ’’نودولت امیر‘‘ اور نجیب و شریف فقیر خاتون میں معالمہ دائر ہو جائے تو فقیر سے عقد کر لے کہ نودولت عورت بھی بنیادی طور پر فقیر ہی ہوتی ہے۔ صرف دولت کے غرور کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ فارسی شاعر نے خوب کہا ہے (ترجمہ)

نعیم زادہ ہو مفلس تو کیا برائی ہے
خزاں کے بعد شجر پھر سے بارور ہو گا

لئیم زادہ کی دولت سے ہوشیار رہو
کہ مزبلہ پہ اضافہ بھی گندہ و تر ہو گا۔
جوادی

فرزند! اپنی زوجہ، دختر اور تمام اہل حرم خواتین کو گھر کے اندر رکھو اور بلا ضرورت نہ جانے دو کہ عورت قوتِ امتیاز کی کمزوری کی بنا پر دوسری عورتوں سے اثر قبول کر کے دین و دنیا دونوں کو تباہ کر سکتی ہے۔
اور دیکھو اپنی اولاد کی تربیت کا مکمل خیال رکھنا اور انھیں شرعی اور عقلی آداب سے آراستہ کرنا۔ یہ کبھی نہ سوچنا کہ ابھی بچے ہیں اور حکم خدا کے مخاطب نہیں ہیں کہ جن کی تربیت بچپن سے نہیں ہوتی ہے ان کی تربیت بڑے ہو کر بھی مشکل ہو جاتی ہے۔
بچوں کو احکام دین، آثارِ شریعت کی تعلیم دو کہ بچپنے کا نقش محو نہیں ہوتا۔ قرآن مجید کے بعد معجزات کی کتابوں کی تعلیم دو کہ عقیدہ صرف موروثی نہ ہو بلکہ دلیل و برہان سے حاصل ہو۔
سب سے زیادہ خیال اس بات کا رکھو کہ بچے گھر سے تنہا نہ نکلنے پائیں اور دوسروں کے ساتھ نہ کھیلنے پائیں اور کھیلیں تو اپنے ہی گھر میں کھیلیں کہ بچوں کی طبیعت بہت جلد اثر قبول کرتی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ اغیار سے متاثر ہو جائیں طلب علم کے مرحلہ میں بھی اپنے بچے کو ضرورت سے زیادہ دوسرے بچوں کے ساتھ نہ رہنے دو اور وہاں مذاکرہ اور مباحثہ کا انتظام کرو جہاں تیسرا دیکھنے والا ہو تاکہ اپنے ساتھی سے شیطانت اور فساد نہ سیکھ سکیں۔
یہ تمام باتیں میں نے تجربہ کی بنا پر لکھی ہیں کہ بچپنے میں میرا ایک ساتھی انتہائی شریف اور شریف خاندان کا تھا لیکن اس کے باوجود اس کی وجہ سے میں نے سگریٹ نوشی سیکھ لی اور اس کا خمیازہ آج تک بھگت رہا ہوں۔ جب چھوڑنے کا ارادہ کیا عادت کی وجہ سے کوئی نہ کوئی بیماری پیدا ہو گئی اور پھر ترک نہ کرسکا اور آج تک اس اثر صحبت کو برداشت کر رہا ہوں۔ اور خبردار بچوں کو پیسے کاعادی نہ بنانا کہ اس میں بڑے عظیم مفاسد ہیں۔ ان کا دل دولت سے آشنا ہو جاتا ہے اور یہ محبت دل سے نہیں نکلتی پھر وہ اسے ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہتے ہیں اور یہ فساد اخلاق کا بدترین ذریعہ ہے۔
فرزند! خبردار اولاد لڑکا ہو یا لڑکی اسے اچھے کھانے کپڑے کا عادی نہ بنانا ورنہ اگر زمانہ نے ساتھ نہ دیا تو وہ سخت مصیبت میں پڑ جائیں گے اور اگر اوسط درجہ کے عادی رہے تو بہتر مل جانے پر خوش ہوں گے۔ اس بات کا خصوصیت سے خیال رکھنا کہ اولاد کی شادی ابتدائِ بلوغ ہی میں کر دینا کہ ان کا دین اور آبرو محفوظ رہے اور کسی طرح کا فساد نہ پیدا ہو سکے۔ اس سلسلہ میں غربت کا خیال نہ کرنا کہ پروردگار نے رزق کا وعدہ کیا ہے۔
اگر تم نے میرے ان احکامات پر عمل نہ کیا تو میرے لئے عاق شمار ہوگے اور میری روح تم سے خوش نہ ہوگی۔ زیادہ غربت ہو تو متعہ ہی کا انتظام کردو کہ وہ جنسی فساد کا شکار نہ ہوں (متعہ ممکن نہ ہو تو غریب گھرانے کی لڑکی سے شادی کردو۔ اس کے بعد استطاعت پیدا ہونے پر دوسرا عقد بھی کر دینا اس میں کوئی شرعی مضائقہ بھی نہیں ہے اور سماجی فساد بھی نہیں ہے خصوصاً اگر عقد اوّل کے موقع پر یہ بات واضح کردی جائے اور حقیقت بھی یہ ہے کہ دور حاضر میں لڑکیوں کی تعداد کی زیادتی اور ان میں بعض معذور، مجبور، مریض ہونا اس بات کا متقاضی ہے کہ تعداد ازواج کا سلسلہ رائج کیا جائے ورنہ ایک بڑی تعداد روحانی قلق کا شکار ہو کر گونا گوں امراض میں مبتلا ہوجائے گی یا بے راہ روی کا شکار ہوجائے گی۔ جوادی)
فرزند! میری تمام وصیتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمیشہ معاش و معاد کے مسائل پر غور کرتے رہنا، شرعاً بہتر ہو اسے اختیار کرنا۔ انجام کار نگاہ میں بہر حال رہے تاکہ پروردگار تمہیں جملہ پسندیدہ اعمال کی توفیق دے اور تمہارے مستقبل کو ماضی سے بہتر بنا دے۔
وَ الْحَمُدُ لِلّٰهِ وَ الصَّلٰوةُ وَ السَّلاَمُ عَلَى النَّبِىِّ الْاَمِيْنِ وَ اٰلهِ الغُرا المياميْن وَ لَعْنَةُ اللهِ عَلٰى اَعْدَآئِهِمْ اَجْمَعِيْن مِنَ الْاٰن اِلٰى يَوْمِ الدِّيْن

عبد اللہ المامقانی
۷ جمادی الاولیٰ ۱۳۲۴؁ھ

ترجمہ السید ذیشان حیدر جوادی
۳۰! جمادی الثانیہ ۱۴۰۳؁ ھ
----------
[1] مستدرک ۲، ص ۱۹۵
[2] مستدرک ۲، ص ۵۳۴
[3] وسائل الشیعہ ۱، ص ۴۴۲
[4] اصول کافی ۱، ص ۳۹
[5] اصول کافی ۱، ص ۳۹
[6] اصول کافی ۱، ص ۳۹