فصل چھارم
دیگر مختلف و صیتیں۲
طلب علم اور اسکی فضیلت سے متعلق وصیتیں
فرزند! خدا تمہیں اپنی مرضی حاصل کرنے کی توفیق دے اور تمہارے مستقبل کو ماضی سے بہتر قرار دے۔ میں تمہیں علم دین حاصل کرنے کی وصیت کرتا ہوں کہ اس پر واجبات کے ادا کرنے اور محرمات سے بچنے کا دارومدار ہے اور اسکے علاوہ وہ خود ایک امر حسن و مستحسن و باشرف و با فضیلت ہے۔ اس کا درجہ عظیم، منزل بلند، قدر و قیمت جلیل اور بحکم عقل و نقل وہ ایک شرف عظیم ہے۔
عقل کا فیصلہ ہے کہ انسان و حیوان کے درمیان وجہ امتیازیہی علم ہے۔ تمام قابل تصور اشیاء کی دو قسمیں ہیں، قابلِ نمو اور جامد اور واضح ہے کہ نامی جامد سے بہتر ہے۔ پھر نامی کی بھی دو قسمیں ہیں۔ حسّاس و غیر حسّاس۔ واضع سی با ت ہے کہ حساس کا مرتبہ غیر حساس سے بہتر ہے اور حساس کی بھی دو قسمیں ہیں، عالم اور جاہل، اور کھلی ہوئی بات ہے کہ عالم کا مرتبہ جاہل سے بہتر ہے اور اس طرح علم تمام معقولات اور قابل تصور امور میں سب سے عظیم درجہ کا مالک ہے۔
نقلیات میں سورہ اقراء جو بقول اکثر مفسرین قرآن مجید کا پہلا تنزیلی سورہ ہے۔ اس میں اعلان ہوتا ہے کہ رب اکرم نے انسان کو خلق کرنے کے بعد تمام امور کی تعلیم دے دی ہے اس طرح نعمت وجود کے بعد نعمت علم کا ذکر کیا گیا ہے جو دلیل ہے کہ علم کائنات کی سب سے عظیم نعمت ہے اور رب کریم نے انسان کو سب سے بڑا شرف یہی دیا ہے کہ اسے علق سے علم تک پہنچا دیا ہے۔ اس کے علاوہ ارشاد ہوتا ہے:
٭ کیا صاحبانِ علم اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں۔ یہ نکتہ صاحبانِ عقل ہی سمجھ سکتے ہیں کہ علم کا مرتبہ جہل سے بالاتر ہے۔[1]
٭ جسے حکمت عطا ہو گئی اسے خیر کثیر مل گیا۔ حکمت توفیق علم و عمل ہے۔[2]
٭ بندوں میں اللہ سے ڈرنے والے صرف علماء ہیں۔[3]
اس کے علاوہ مختلف آیات میں اہل علم کا تذکرہ اپنی ذات کے ساتھ کیا گیا ہے جو شرف و عظمت کی بہترین دلیل ہے۔ روایات میں بھی علم کے بے حد فضائل وارد ہوئے ہیں۔
٭ عبد اللہ بن میمون قداح نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا ارشاد نقل کیا ہے کہ جو شخص بھی دین کے راستے پر چلتا ہے خداوند کریم اسے جنت کے راستے پرلے جاتا ہے اور ملائکہ اس کے پیروں کے نیچے پر بچھا تے ہیں۔ آسمان و زمین کی ہر مخلوق یہاں تک کہ ماہیانِ دریا بھی اس کے حق میں استغفار کرتی ہیں۔ عالم کا مرتبہ عابد کے مقابلے میں جیسے چودہویں کا چاند ستاروں کے مقابلہ میں۔ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ انبیاء اپنی وراثت کے لئے درہم و دینار کا انتظام نہیں کرتے بلکہ علم کو وراثت قرار دیتے ہیں کہ جسے یہ میراث مل جائے اسے بہت کچھ مل گیا۔
(واضح رہے کہ روایات میں انبیاء کے اہتمام کا ذکر کیا گیا ہے کہ وہ درہم و دینار کو اپنی میراث نہیں بناتے ہیں اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ اگر ان کے مرنے پر درہم و دینار بچ جائیں تو ان کے ورثہ کے علاوہ کسی اور کو مل جائیں گے۔ وارث بنانا اور ہے اور وارث ہونا اور ہے۔ علم کے لئے وارث بناتے ہیں اور مال کے لئے وارث ہوتے ہیں چاہے دونوں ایک ہی ہوں یا الگ الگ۔ جوادی)
٭ اصبغ بن بناتہ نے امیر المومنین علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ علم حاصل کرو کہ اس کا پڑھنا نیکی ہے، مذاکرہ تسبیح ہے، بحث جہاد ہے اور تعلیم دینا ایک صدقہ ہے۔ علم صاحب علم کے لئے ذریعہ تقرب، وجہ معرفت حلال و حرام ہے اس کے ذریعہ جنت حاصل ہوتی ہے۔ وہ انیس وحشت، مونس تنہائی، سلاح جنگ اور زینت احباب ہے۔ اور پروردگار نے اسی کے ذریعہ افراد کو خیر کا قائد قرار دیا ہے کہ ان کے اعمال پر نگاہ رکھی جائے اور ان کے آثار کا اتباع کیا جائے۔ علم قلوب کی زندگی۔ آنکھوں کی بصارت، بدن کی قوت اور منازل ابرار تک جانے کا ذریعہ ہے۔ علم سے اللہ کی عبادت اور اطاعت، معرفت و توحید حاصل ہوتی ہے۔ علم کے ذریعہ صلۂ رحم، معرفت حلال و حرام ہوتی ہے۔ علم عقل کا امام ہے اور عقل علم کی تابع، علم نیک بختوں کے لئے الہام خداوندی ہے اور بد بختوں کی محرومی کا اظہار و اعلان ہے۔[4]
٭ حسن بن ابی الحسن الفارسی نے امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا علم حاصل کرنا ہر مسلمان کا فریضہ ہے اللہ طالبان علم کو دوست رکھتا ہے۔[5]
٭ ابو اسحاق نے اپنے وسیلہ سے امیر المومنین علیہ السلام کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ ’’ایہا الناس‘‘ یاد رکھو دین کا کمال علم حاصل کرنا اور اس پر عمل کرنا ہے۔ طلب علم طلب مال سے زیادہ واجب ہے۔ مال مقدر اور مضمون ہے اسے ایک عادل نے تقسیم کر کے اس کی ضمانت لے لی ہے وہ اپنے وعد کو وفا کرے گا۔ علم صاحبان علم کے پاس ذخیرہ ہے وہ تمہیں حاصل کرنا پڑے گا۔ لہٰذا حکم خداوندی کے مطابق علم حاصل کرو۔[6]
٭ بو حمزہ شمالی نے امام سجاد علیہ السلام کا ارشاد نقل کیا ہے کہ اگر لوگوں کو طلب علم دین کا شرف معلوم ہوجائے تو جانیں دے کر اور دریاؤں میں گھس کر علم دین حاصل کرنے لگیں۔ پروردگار نے جناب دانیال کی طرف وحی کی کہ بد ترین بندہ جاہل اور اہل علم کی توہین کرنے والا، ان کی اقتداء نہ کرنے والا ہے اور محبوب ترین بندہ متقی۔ طالب ثواب۔ مصاحب علماء تابع علماء اور حکماء سے اثر قبول کرنے والا ہے۔[7]
٭ وسری روایت میں ہے کہ جس عالم کے علم سے فائدہ اٹھایا جائے وہ ستر ہزار عابدوں سے بہتر ہے۔[8]
٭ عاویہ بن عمار کی روایت ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ جو روایت کرنے والا آپ کی احادیث نشر کرے اور اسے مومنین کے قلوب میں ثبت کرے اور جو عابد یہ شان نہ رکھتا ہو ان دونوں میں کیا فرق ہے؟ فرمایا کہ ایسا بافضل راوی ہزار عابدوں سے بہتر ہے۔[9]
٭ سول اکر صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم فرماتے ہیں کہ زندگی میں خیر صرف دو قسم کے لوگوں کے لئے ہے وہ عالم جس کی اطاعت کی جائے اور وہ سننے والا جو غور سے سنے اور حاصل کرے۔[10]
٭ امام جعفر صادق علیہ السلام نے بشیر دہان سے فرمایا کہ میرے اصحاب میں جو شخص علم دین حاصل نہ کرے وہ لا خیرا ہے۔ بشیر یاد رکھو جو شخص اپنے کو فقہ کے ذریعہ بے نیاز نہ بنائے گا وہ لوگوں کے علم کا محتاج ہوگا اور لوگ اسے لا علمی میں گمراہی کی طرف کھینچ لے جائیں گے۔[11]
٭ لیمان بن جعفر کی روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا کہ عالم کا مرتبہ روزہ دار، قائم اللیل مجاہدہ راہ خدا سے بہتر ہے۔ عالم کی موت سے اسلام میں وہ خلاء پیدا ہوتا ہے، جسے کوئی شے پر نہیں کر سکتی۔[12]
٭ مام علیہ السلام نے فرمایا کہ ابلیس کی نظر میں عالم کی موت سے زیادہ محبوب کسی مومن کی موت نہیں ہے۔[13]
٭ مام موسیٰ بن جعفر علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ مومن کی موت پر آسمان کے ملائکہ، زمین کی تمام عبادت گاہیں اور آسمان کے تمام دروازے جن سے اس کے اعمال بلند ہوتے تھے سب گریہ کرتے ہیں اور اسلام میں ایک رخنہ پیدا ہوجاتا ہے کہ علمائے مومنین اسلام کے قلعے ہیں جس طرح شہر میں شہر پناہ کا قلعہ ہوتا ہے۔[14]
اسکے علاوہ بے شمار روایات ہیں جو حدیث کی تفصیلی کتابوں میں پائے جاتے ہیں لہٰذا فرزند خبردار یہ عظیم مرتبہ، یہ بلند ترین شرف، یہ ثواب جسیم، یہ اجر جزیل تمہارے ہاتھ سے جانے نہ پائے۔ خبردار مالِ دنیا کے چکر میں نہ پڑ جانا کہ اس کی وجہ سے علم دین کو ترک کردو بلکہ علم کے لئے فقر و فاقہ برداشت کرنے پر آمادہ ہو کہ اس کے ذریعہ دائمی بے نیازی اور ابدی عزت نصیب ہوتی ہے۔ امر معاش میں دشواری ہو تو آخرت کے جزا اور اجر جمیل کو یاد کرو اس کی وجہ سے تمام دشواریاں ہلکی ہو جائیں گی اور پھر یہ دیکھو کہ جن لوگوں نے علم دین کو ترک کر کے روزی کما نے کا راستہ اختیار کیا ہے وہی کون سے خوشحال اور مطمئن ہیں۔ وہ تو دنیا و آخرت دونوں کی سعادت سے محروم ہیں تمہیں کم از کم سعادتِ آخرت تو ہاتھ آگئی۔
اور فرزند دیکھو قناعت کو ساتھ رکھنا اور زینت دنیا کے چکر میں نہ پڑ جانا۔ اس دنیا نے فرزند رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کی قدر نہیں کی تو تمہاری کیا حقیقت ہے۔ اس نے جب امام حسین علیہ السلام پر یزید نجس کو مقدم کر دیا تو ایسی بے وفا اور منحوس دنیا سے دل لگانا شعارِ عقل و محبت کے خلاف ہے۔ ابن سینا جیسے فلاسفہ نے بھی اس کی شدید مذمت کی ہے اور یہ کہا ہے کہ اس کا نتیجہ ہمیشہ اخس مقدمات کا تابع ہوتا ہے۔ (یہ ایک منطقی قانون ہے کہ مقدمات میں جو مقدمہ سب سے کمزور ہوتا ہے نتیجہ اسی کا تابع ہوا کرتا ہے۔ جوادی)
فرزند! خواہ علم میں جو بھی زحمت اور فقیری سامنے آئے اس سے بددل نہ ہونا اور اپنا کام کئے جانا۔ یہ یاد رکھنا کہ یہ دار رنج و تعب ہے یہاں راحت کا تلاش کرنا غلط ہے۔ یہ دنیا تمہاری طرف متوجہ ہوگئی تو تمہیں آخرت سے بیگانہ بنا دے گی۔ تقویٰ سے روک دے گی۔ مہملات کے فریب میں مبتلا کردے گی اور دھوکہ میں ڈال کر اپنا سارا بوجھ تمہارے ذمہ ڈال دے گی۔ اس کا طالب ہمیشہ پریشان حال رہتا ہے۔ اس کا حال جہنم کے جیسا ہے جہاں سے ہمیشہ ھَل٘ مِن٘ مَزِی٘د کی آواز آتی رہتی ہے اور کسی کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا۔ اس سے نجات کا ایک ہی راستہ ہے کہ آخرت سے دل لگاؤ پھر کوئی پریشانی، اضطراب اور رنج و غم باقی نہ رہ جائے گا۔
فرزند! میری جان کی قسم! ترکِ دنیا وہ لذت ہے جس کا ہزارواں حصہ بھی وہ شخص محسوس نہیں کر سکتا جو دنیا سے دل لگائے ہوئے ہے اور اس کی محبت میں ڈوبا ہوا ہے مگر یاد رکھنا کہ ترک دنیا سے مراد صوفیت اور اظہار زہد یا ترک لذات اور تمام مال کا لٹا دینا نہیں ہے۔ یہ امور تو شریعت میں ناپسندیدہ ہیں۔ ترکِ دنیا سے مراد اس سے دل نہ لگانا۔ اس کی لذتوں کا عاشق نہ ہونا اور جو کچھ ہاتھ میں ہے اس پر خدا سے زیادہ بھروسہ نہ کرنا اور رضائے الٰہی پر راضی رہنا ہے جس کی طرف عبد اللہ بن ابی یعفور کی روایت صحیحہ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ ایک شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کی کہ میں دنیا سے محبت کرتا ہوں کہ وہ مجھے مل جائے۔ فرمایا اس قدر محبت ہے۔ مل جائے تو کیا کرو گے۔ عرض کی اپنے اوپر اور اپنے عیال پر خرچ کروں گا۔ راہِ خدا میں صدقہ دوں گا۔ حج و عمرہ کروں گا۔ فرمایا یہ طلبِ دنیا نہیں ہے طلب آخرت ہے۔[15]
--------------
[1] سورۂ زمر
[2] صورہ بقرہ ۲۶۹
[3] سورۂ فاطر ۲۹
[4] بحار الانوار ص ۵۴
[5] اصول کافی ص ۳۰
[6] اصول کافی ۱، ص ۳۰
[7] اصول کافی ۱، ص ۳۵
[8] اصول کافی ۱، ص ۳۳
[9] اصول کافی ۱، ص ۳۳
[10] اصول کافی ۱، ص ۳۳
[11] اصول کافی ۱، ص ۳۳
[12] اصول کافی ۱، ص ۳۸
[13] اصول کافی ۱، ص ۳۸
[14] اصول کافی ۱، ص ۳۸
[15] وسائل الشیعہ ۲، ۵۳۰
|