آئینۂ اخلاق
 
مطالعہ احادیث و مواعظ
فرزند! احادیث و مواعظ کا برابر مطالعہ کرتے رہو اور روزانہ کم سے کم ایک گھنٹہ مطالعہ کرو کہ اس میں عجیب و غریب تاثیر پائی جاتی ہے اس سے دل زندہ ہوتا ہے اور نفس امارہ سر کشی سے محفوظ رہتا ہے۔
فرزند! خبردار زیادہ کھانا نہ کھانا کہ اس سے سستی اور سنگ دلی پیدا ہوتی ہے۔
٭ روایات میں ہے کہ انسان شیطان سے اس وقت قریب تر ہو جاتا ہے جب اس کا پیٹ بھرا ہوتا ہے۔[1]
٭ خدا کے نزدیک نا پسندیدہ ترین شے شکم سیری ہے۔[2]
٭ مومن کے لئے مضرترین شے پیٹ کا بھرا ہونا ہے ہمیشہ ایک تہائی شکم پانی کے لئے رکھو۔ ایک تہائی سانس کے لئے اور ایک تہائی کے برابر کھانا کھاؤ کہ یہی مزاج کے لئے سازگار اور بدن کے لئے صالح ہے۔
خبردار! یہ نہ سمجھنا کہ قوت زیادہ کھانے سے پیدا ہوتی ہے ہرگز نہیں قوت کا تعلق ہاضمہ سے ہے کھانے سے نہیں۔ اور ہاضمہ کم کھا نے ہی میں کام کرتا ہے زیادہ کھانے میں نہیں۔ معدہ ایک پتیلی ہے او پتیلی میں جتنی جگہ خالی ہوگی اتنی ہی اچھی غذا پختہ ہوگی۔
خبردار! شکم سیری میں اشتہاء کے بغیر نہ کھانا کہ اس سے بد ہضمی، برص، حماقت اور نادانی پیدا ہوتی ہے۔[3]
خبردار زیادہ سونا بھی نہیں کہ اس سے عمر عزیز ضائع ہوتی ہے۔ اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم ریاضت میں لگ جاؤ، نہیں، یہ کام تو اور بُرا ہے، اس سے تو الگ ہی رہنا چاہئے اور آب و ہوا کے مطابق غذا استعمال کرتے رہنا چاہئے۔ مطلب صرف یہ ہے کہ ہر کام بقدرِ ضرورت انجام دو اور زیادتی نہ ہونے پائے۔

زیادہ ہنسی
فرزند! خبردار، زیادہ ہنسی سے کام نہ لینا کہ اس سے دل مردہ اور چہرہ بے آبرو ہو جاتا ہے۔ ہنسی کا بہترین علاج انگوٹھے پر نگاہ کرنا ہے کہ اس سے ہنسی رک جاتی ہے اور ہنسی کا کفارہ اَللّٰہُمَّ لاَ تَمقُتنِی ہے۔
مختصر ہنسی میں کوئی مضائقہ نہیں ہے یہ خوش خلقی کی علامت ہے ممدوح صفت ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہنسی بقدرِ تبسّم ہوا کرتی تھی۔
٭ ہنسی کی طرح زیادہ مذاق بھی نہ کرنا کہ اس سے آبرو جاتی رہتی ہے۔[4]
٭ نورِ ایمان ختم ہوجاتا ہے۔[5]
٭ مروّت کم ہو جاتی ہے۔[6]
٭ عداوت پیداہوتی ہے۔[7]
٭ مختصر مزاح بہترین شے ہے اور یہی ائمہ معصومین (ع) کا طریقہ رہا ہے۔ اور انھوں نے اصحاب کو بھی یہی تعلیم دی ہے کہ اس کا شمار مومن کو خوش کرنے میں ہے جو بہترین کارِ ثواب ہے۔
فرزند! خبردار کسی مومن کے قتل پر خوش نہ ہونا کہ امام رضا علیہ السلام کا ارشاد ہے جو کسی کے عمل سے خوش ہوتا ہے اس کا شمار عمل کرنیوالوں میں ہوتا ہے۔
٭ ارشاد ہوتا ہے کہ اگر مومن کا قتل مشرق میں ہوتا ہے اور دوسرا شخص مغرب میں اس سے خوش ہوجائے تو اس کا شمار بھی قاتلوں میں ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ امام عصر علیہ السلام ظہور کے بعد قاتلانِ حسین علیہ السلام کی اولاد سے انتقام لیں گے کہ وہ اپنے بزرگوں کے عمل سے راضی رہی ہے۔[8]
فرزند! خبردار، غیبت اور بہتان سے اپنے کو محفوظ رکھنا کہ ان کی وجہ سے نامہ عمل نیکیوں سے خالی اور برائیوں سے پر ہو جاتا ہے۔ اور غیبت کرنے والے کی نیکیاں اس کی طرف منتقل ہو جاتی ہیں جس کی غیبت کی ہے اور اس کی برائیاں اس کی طرف آجاتی ہیں اور اس طرح یہ بالکل خالی ہاتھ ہوجاتا ہے۔[9]

حسد
فرزند! خبردار، حسد سے ہوشیار رہنا کہ حسد کرنے والے کا عمل چھٹے آسمان تک بھی نہیں پہونچتا اور راستے ہی سے اس کے منھ پر مار دیا جاتا ہے۔ دنیا اور آخرت دونوں میں پریشان رہتا ہے۔ دنیا میں اپنے حسد کی بنا پر اور آخرت میں عذاب الٰہی کی بنا پر۔
٭ حسد کی برائی کے لئے یہ کافی ہے کہ شیطان حسد ہی کا مارا ہوا ہے، برادرانِ یوسف علیہ السلام کی ذلت و رسوائی حسدہی کا نتیجہ تھی۔[10]
٭ حسد کرنے والا کبھی سردار ہو نہیں سکتا۔[11]
٭ حسد ایمان کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔ خبردار! پروردگار کے افعال پر اعتراض نہ کرنا۔ یہ بھی نہ کہنا کہ ہوا کس قدر گرم یا سرد ہے۔ یا کاش اس نے مجھے مالدار بنایا ہوتا۔ کاش مجھے شفادے دی ہوتی۔ کاش لڑکی کی بجائی لڑکا دے دیا ہوتا۔ کاش میری اولاد، میرا مکان یا میری ملکیت باقی رہ جاتی۔ کاش ایسا ایسا ہوتا تو بہت بہتر ہوتا کہ ان سب کا مقصد مصالح خدا پر اعتراض کرنا ہے اور اس کا شمار مخفی شرک میں ہوتا ہے۔
فرزند! خبردار، اپنے لئے کسی برائی کو طلب نہ کرنا کہ پروردگار مجھے موت دے دے یا میری زندگی لے لے کہ یہ سب مصلحت خدا وندی کے خلاف ہے۔ جناب یوسف علیہ السلام نے قید خانہ میں دعا کی کہ پروردگار مجھے یہ زندان کیوں دے دیا گیا ہے تو ارشاد ہوا کہ تم نے کہا تھا کہ ان کے ملک سے قید خانہ بہتر ہے یہ کیوں نہ کہا کہ ان کی دعوت سے عافیت بہتر ہے۔[12]
(یعنی انسان کو دعائے عافیت کرنی جاہئے اور اس کا طریقہ معین نہیں کرنا چاہئے۔ وہ پروردگار کی مصلحت پر ہے جس شے میں عافیت دیکھے گا وہی عطا کرے گا۔ بندہ کو اعتراض یا شکایت کرنے کا حق نہیں ہے۔ جوادی)
بردار! کسی کے خوف سے معصیت اختیار نہ کرنا کہ معصیت ترک کر دینے ہی میں نجات اور عافیت ہے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جب یوسف علیہ السلام نے خوف خدا سے زلیخا سے دامن بچا لیا تو پروردگار نے انھیں ملک مصر عطا کردیا۔

کذب
فرزند! خبردار غلط بیانی سے کام نہ لینا کہ اس سے خدا ناراض ہوتا ہے اور بندہ کو ذلیل بنا دیتا ہے۔ جھوٹے کا دنیا میں کوئی اعتبار نہیں ہوتا اس کے اقوال و افعال کا بھروسہ نہیں رہ جاتا۔ حتی الامکان توریہ سے بھی پرہیز کرنا چاہئے اگرچہ یہ جھوٹ نہیں ہے لیکن تجربہ یہی کہتا ہے کہ نجات سچائی ہی میں ہے۔ اکثر اوقات یہ دیکھا گیا ہے کہ پروردگار نے سچ کے طفیل میں بڑے بڑے مصائب سے نجات دلا دی ہے۔
(توریہ کے معنی ایسے الفاظ کا استعمال کرنا ہے کہ سننے والا دوسرے معنی سمجھے اور کہنے والے کا منشا دوسرا ہو۔ مثال کے طور پر کوئی دروازہ پر آواز دے کر صاحب خانہ کے بارے میں سوال کرے اور نوکر کہہ دے کہ یہاں نہیں ہیں کہ سننے والا ’’یہاں‘‘ کا مطلب پورا گھر سمجھے اور کہنے والا ’’یہاں‘‘ سے وہ جگہ مراد لے جس جگہ وہ خود کھڑاہے۔ ظاہر ہے کہ ایک جگہ پر دو آدمی کھڑے نہیں ہو سکتے۔ جوادی)
اور دیکھو ایسی باتیں بھی نہ کرنا جن سے کوئی بد نفس جھوٹ بولنا سیکھ لے جیسا کہ مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جب جناب یعقوب علیہ السلام نے یہ کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں یوسف (ع) کو بھیڑیا نہ کھا جائے تو انھوں نے اپنے علم غیب کا اظہار کیا تھا لیکن برادرانِ یوسف علیہ السلام نے اسی سے بھیڑئے کی داستان تیار کرلی۔ یعنی مومن کو ایسے الفاظ سے بھی پرہیز کرنا چاہئے جس سے دوسروں کو جھوٹ بنانے کا راستہ مل سکے۔

طعن و طنز
خبردار! کسی کو برے حالات کا طعنہ نہ دینا کہ ایسے آدمی کے اعمال اس کے منھ پر مار دیئے جاتے ہیں اور یہ اندیشہ رہتا ہے کہ کہیں پروردگار اسے بھی ایسے حالات میں مبتلا نہ کردے۔[13]

سنگ دلی
خبردار! ایسا کوئی عمل نہ کرنا جس سے سنگ دلی پیدا ہو کہ سنگ دلی بدترین شے ہے۔ (شاید آخر کتاب میں سنگدلی کے اسباب پر روشنی ڈالی جا سکے)
-------------
[1] مستدرک ۳، ص ۸۱
[2] مستدرک وسائل ۳ ص ۸۰
[3] وسائل ۳، ص ۲۶۳
[4] وسائل ۲، ص ۲۰۶
[5] مستدرک ۲، ص ۷۸
[6] مستدرک ۲، ص۷
[7] وسائل ۲، ص ۲۱۷
[8] تفسیر صافی
[9] مستدرک ۲، ۱۰۶
[10] مجمع البیان ۵، ص ۲۱۱
[11] مستدرک
[12] تفسیر صافی، ص ۲۲۴
[13] وسائل ۱، ص ۷۳