|
انصاف و مروّت
فرزند! ان دونوں صفتوں کو اپنائے رہنا اور کبھی ترک نہ کرنا۔ یہ نجات دہندہ صفتیں ہیں اور ان کا ترک کر دینا باعثِ ہلاکت ہے۔
٭ روایات میں ہے کہ جس کے پاس مروت نہیں ہے اس کے پاس دین نہیں ہے۔[1]
٭ سخت ترین فریضۂ پروردگار اپنے نفس سے انصاف کرنا ہے۔[2]
انصاف کے معنی یہ ہیں کہ دوسروں کے لئے وہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے اور دوسروں کے لئے وہی ناپسند کرے جو اپنے لئے ناپسند کرتا ہے۔
وفا و عہد
فرزند! خدا تمہارے بارے میں عہد محبت کو پورا کرے۔ جب بھی کسی شے کا وعدہ کرو تو اسے وفا ضرور کرو۔ کتاب و سنت میں اس کی بے حد تاکید وارد ہوئی ہے۔ ارشاد احدیت ہوتا ہے ’’عہد کو پورا کرو کہ اس کے بارے میں روز قیامت سوال ہوگا۔[3]
٭ مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ جس سخص کا بھی خدا اور آخرت پر ایمان ہے اس کا فرض ہے کہ وعدہ کو وفا کرے۔[4]
٭ امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ مومن کا مومن سے وعدہ ایک ایسی نذر ہے جس کا کوئی کفارہ نہیں ہے۔ لہٰذا جو شخص بھی وعدہ کی خلاف ورزی کرے گا وہ حکم خدا کی مخالفت کرے گا اور اس کی ناراضگی کا حقدار ہوگا۔[5]
٭ وفاء عہد کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ پروردگار عالم نے اسے جناب اسماعیل علیہ السلام کے اوصاف و کمالات میں شمار کیا ہے اور مومنین کو وعدہ کی خلاف ورزی پر سخت تنبیہ کی ہے کہ خبردار جو کرنا نہ ہو اسے کہنا بھی نہیں۔ پروردگار کو یہ بات سخت ناپسند ہے۔
٭ جناب اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں روایت ہے کہ ایک شخص سے انتظار کرنے کا وعدہ کر لیا تھا اور وہ جاکر بھول گیا تو آپ ایک سال تک اسی مقام پر کھڑے رہے۔ یہاں تک کہ شدت تمازتِ آفتاب میں بھی جگہ نہیں چھوڑی کہ کہیں وعدہ کی خلاف ورزی نہ ہو جائے۔ درختوں کے پتے چباتے رہے لیکن وعدہ پر قائم رہے۔[6]
فرزند! ایفائے وعدہ میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کا طریقہ اختیار کرو اور اگر ایسانہ کر سکو تو اس کے قریب تر رہنے کی کوشش کرو۔
خبردار جس وعدہ کے وفا کرنے کی طاقت نہ ہو اس کا وعدہ نہ کرنا۔ خلف وعدہ سے انسان بدنام ہو جاتا ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
’’نعم‘‘ سے پہلے ہی ’’لا‘‘ کہہ دے یہ ہے طرزِ حسن
کہ ’’لا‘‘ ہو بعد ’’نعم‘‘ یہ ہے غیر مستحسن
)جوادی(
سخاوت
فرزند! سخاوت اختیار کرو کہ اس کا انجام دنیا اور آخرت دونوں میں بہتر ہے۔ سخی ہر مقام پر با عزت ہوتا ہے۔ بخیل دنیا و آخرت دونوں میں ذلیل رہتا ہے۔
٭ سخاوت کی فضیلت کے لئے یہ کافی ہے کہ حاتم طائی جہنم میں رہ کر بھی آگ کی شدت سے محفوظ ہے جیسا کہ مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حاتم کے فرزند عدی سے فرمایا تھا۔
٭ فرزند! بخل دنیا و آخرت کی روسیاہی ہے لیکن خبردار اتنی سخاوت کا شوق نہ کرنا کہ خالی ہاتھ ہو کر بیٹھ جاؤ۔ (اسراء ۲۹)
٭ میانہ روی سے کام لو اور بخل و اسراف کے درمیان سے زندگی کا راستہ نکالو۔
------------
[1] ومستمسک ۵، ص ۲۱۴
[2] اصول کافی ۲، ص ۱۴۵
[3] سورۂ اسراء ۳
[4] اصول کافی ۲، ص ۳۶۴
[5] اصول کافی ۲، ص ۳۶۳
[6] اصول کافی ۲، ص ۱۰۵
| |