|
حُسنِ اخلاق
فرزند! بہترین اخلاق اختیار کرو کہ اس میں دنیا و آخرت دونوں کے فائدے ہیں۔ پروردگار نے حسنِ اخلاق کو اپنے حبیب کی صفت خاص قرار دیا ہے۔ حسنِ اخلاق نصف دین ہے۔[1]
حسنِ اخلاق بہتبرین عطائے پروردگار ہے۔[2]
روز قیامت انسان کی نیکی کے پلّے میں حسنِ اخلاق سے بہتر کوئی شے نہ ہوگی۔[3]
احب حسن اخلاق مثلِ مستقل نمازی اور روزہ دار کے ہے۔ اسکے لئے مجاہد فی سبیل اللہ کا اجر و ثواب ہے۔[4]
حسنِ اخلاق گناہوں کو پگھلا کر رکھ دیتا ہے جس طرح پانی میں نمک گھل جاتا ہے۔ جنت جانے والوں کی اکثریت متقین اور صاحبان حسنِ خلق کی ہوگی۔[5]
پروردگار کا ارشاد ہے کہ صاحب حسنِ اخلاق کے گوشت کو جہنم کے حوالے کرنے سے مجھے حیا آتی ہے۔[6]
حسنِ اخلاق سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے۔ حد یہ ہے کہ یہودی کا ساتھ بھی ہو تو حسنِ اخلاق کا مظاہرہ ضروری ہے۔[7]
فرزند! میں نے حسنِ اخلاق کے بہترین آثار دیکھے ہیں اور امام صادق علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا کہ اگر لوگوں کے ساتھ مالی برتاؤ نہ کر سکو تو کم از کم حسنِ اخلاق کا مظاہرہ تو کرو۔[8]
امیر المومنین علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ ہر شخص کے ساتھ اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرو تاکہ چلے جاؤ تو محبت کرے اور مر جاؤ تو گریہ کرے اور اِنَّا لِلّٰہِ کہے ایسا نہ ہو کہ اَلحَمدُ لِلّٰہِ کہنا پڑے۔[9]
امام صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ حسنِ اخلاق کی حد کیا ہے؟ تو فرمایا کہ پہلو کو نرم رکھو، کلام کو پاکیزہ رکھو اور خوش خلقی سے ملاقات کرو۔[10]
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی کا ارشاد ہے کہ مومنین کے ساتھ خوش اخلاقی بشاشت کے ساتھ ملاقات کرنا ہے اور مخالفین کے ساتھ حسن اخلاق مودت کے ساتھ گفتگو کرنا ہے تاکہ ایمان کی طرف کھنچ آئے۔ اور ایمان سے مایوس ہو تو کم سے کم مومنین اس کے شر سے محفوظ رہیں گے۔[11]
فرزند! خبردار اہل و عیال کے ساتھ بد اخلاقی کا برتاؤ نہ کرنا کہ بد خلقی موجب جہنم ہے۔ بد اخلاقی سے ایمان یوں ہی برباد ہو جاتا ہے جس طرح سرکہ سے شہد۔
سعد بن معاذ کے مرنے پر ستّر ہزار فرشتوں نے مشائعت جنازہ کی ہے مگر اس کے باوجود فشار قبر میں مبتلا ہوئے ہیں کہ اہل و عیال کے ساتھ برتاؤ اچھا نہ تھا۔[12]
حلم و عفو
فرزند! حلم اور عفو سے کام لو کہ اہل حلم و عفو جنت میں بلا حساب داخل ہوں گے۔ ان صفات کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ پروردگار نے انہیں اپنے اوصاف میں شمار کیا ہے۔ حلم کے بارے میں انبیاء و اولیاء کے واقعات بکثرت پائے جاتے ہیں اور بعض روایات میں یہ ہے کہ انسان جب تک حلیم نہ ہو عبادت گذار نہیں ہو سکتا۔[13]
اللہ بندۂ بردبار کو دوست رکھتا ہے۔
حلم صفات مومنین میں سے ہے۔[14]
جو شخص اقدام کی طاقت رکھتا ہو اور حلم سے کام لے پروردگار روز قیامت اس کے دل کو رضا و امن و ایمان سے بھر دے گا اور قیامت کے بھرے مجمع میں اسے اختیار دے گا کہ جس حور العین کا چاہے انتخاب کر لے اور اسے اجر شہید عطا فرمائے گا۔[15]
نگاہِ پروردگار میں بندۂ مومن کا کوئی گھونٹ اس گھونٹ سے زیادہ عزیز نہیں ہے جو غصہ کو پی جانے میں استعمال ہوتا ہے چاہے صبر کے ذریعہ ہو یا حلم کے ذریعہ۔ انسان جس قدر بھی غصہ کو ضبط کرتا ہے پروردگار اسی مقدار میں دنیا و آخرت میں عزت عطا کرتا ہے اور قیامت کے دن جب اولین و آخرین ایک زمین پر جمع ہوں گے تو ایک منادی آواز دےگا ’’صاحبانِ فضیلت کہاں ہیں؟‘‘
اس وقت ایک جماعت برآمد ہوگی اور ملائکہ سوال کریں گے ’’تمہاری فضیلت کیا ہے؟‘‘ وہ جواب دیں گے کہ ہم قطع تعلقات کرنے والوں سے صلۂ رحم کرتے تھے۔ محروم کرنے والوں کو عطا کرتے تھے، ظلم کرنے والوں کو معاف کر دیتے تھے۔ آواز آئے گی ’’سچ کہا تم نے، جاؤ جنت میں بلا حساب داخل ہو جاؤ۔‘‘[16]
٭ معافی کامیابی کی زکوٰۃ ہے۔ [17]
٭ سب سے زیادہ معاف کرنے کا حقدار وہی ہے جو سزا دینے پر سب سے زیادہ قدرت رکھتا ہے۔[18]
فرزند! جو تم پر ظلم کرے اسے معاف کرو تاکہ جس پروردگار کی نافرمانی کر کے تم نے ظلم کیا ہے وہ تمہیں معاف کر دے اور تمہیں بلند ترین درجات حاصل ہوں۔ خبردار غیظ و غضب سے کام نہ لینا کہ یہ غیظ و غضب سے کام نہ لینا کہ یہ ضعف عقیدہ کی علامت ہے۔ روایات میں ہے کہ غضب سے ایمان یوں ہی برباد ہو جاتا ہے جیسے سرکہ سے شہد۔[19]
٭ کفر کے چار ارکان ہیں رغبت، خوف، غصہ اور غضب۔ اور غضب ہر برائی کی کنجی ہے۔[20]
٭ غضب سے صاحبان حکمت کا دل بھی تباہ ہو جاتاہے۔[21]
٭ جو اپنے غضب پر قابو نہ رکھ سکے وہ اپنی عقل پر بھی قابو نہ رکھے گا۔[22]
٭ ابلیس کا قول ہے کہ غضب میرا جال اور میرا پھندا ہے۔ میں اس کے ذریعہ بہترین افراد کو جنت کی راہ سے شکار کرتا ہوں۔[23]
علماء نے غضب پر قابو پانے کے لئے چند نسخے تجویز کئے ہیں۔
۱. اَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیمِ کہنا۔
۲. خدا کو یاد کرنا کہ توریت میں ارشادِ احدیت ہے، ’’فرزند آدم جب تجھے غصّہ آئے تو مجھے یاد کرنا تاکہ میں اپنے غضب میں تجھے یاد رکھوں اور تجھے تباہ نہ کر دوں اور جب تجھ پر کوئی زیادتی ہو تو میرے انتقام کا انتظار کرنا کہ میرا انتقام تیرے انتقام سے بہر حال بہتر ہے۔[24]
۳. اگر کھڑا ہے تو بیٹھ جائے اور بیٹھا ہو تو لیٹ جائے اور لیٹا ہو تو کھڑا ہو جائے۔[25]
۴. جگہ بدل دے کہ شیطان نے جناب موسیٰ علیہ السلام سے گفتگو کرتے ہوئے یہ نصیحت کی کہ جب تمہیں غصہ آئے تو اپنی جگہ بدل دینا ورنہ میں مصیبت میں مبتلا کردوں گا۔
۵. وضو کرلے اور ٹھنڈے پانی سے ہاتھ منہ دھو ڈالے۔[26]
۶. اگر قرابتدار پر غصّہ ہے تو اس کے جسم سے اپنے جسم کو مس کر دے کہ اس طرح غصّہ فرو ہو جاتا ہے۔ (اصول کافی۲، ص ۳۰۲)
۷. پانی پی لے۔ (محاسن برقی، ص۵۷۲)
۸. کشمِش کھالے کہ اس سے غصّہ دب جاتا ہے۔ (مستدرک ۳، ص ۱۱۵)
۹. یہ دعا پڑھ لے:
اَللّٰهُمَّ اَذْهِبْ عَنِّىْ غَيْظَ قَلْبِىْ وَ اَجِرْنِىْ مِنْ مُضِلاَّتِ الْفِتَنِ اَسْئَلُكَ جَنَّتَكَ وَ اَعَعُوْذُ بِكَ مِنَ الشِّرْكِ اَللّٰهُمَّ ثَبِّتْنِىْ عَلَى الْهُدٰى وَ الصَّوَابِ وَاجْعَلْنِىْ رَاضِيًا مَرْضِيًّا غَيْرَ ضَآلٍّ وَ لاَ مُضِلٍّ.[27]
روایات میں وارد ہوا ہے کہ جو شخص اپنے غصّہ کو روک لے گا، پروردگار روز قیامت اسے معاف کرے گا اور اس کے گناہوں کی پردہ پوشی کرے گا اور اسے جنت عطا فرمائے گا۔[28]
------------
[1] وسائل الشیعہ ۳، ص ۳۳۱
[2] وسائل الشیعہ
[3] اصول کافی ۲، ص ۹۹
[4] اصول کافی ۲، ص ۱۰۱
[5] اصول کافی ۲، ص ۱۰
[6] وسائل الشیعہ ۲، ص ۲۲۱
[7] مستدرک
[8] اصول کافی ۲، ص ۱۰۳
[9] وسائل ۲، ص ۲۷۷
[10] اصول کافی ۲، ص ۱۰۳
[11] وسائل ۲، ص ۵۱
[12] مستدرک وسائل ۲، ص ۳۳۴
[13] مستدرک ۲، ص ۳۰۴
[14] مشکوٰۃ الانوار، ص ۱۹۵
[15] مستدرک ۲، ص ۸۸
[16] مستدرک ۲، ص ۸۷
[17] نہج البلاغہ
[18] وسائل الشیعہ ۲، ص ۲۲۳
[19] اصول کافی ۲، ص ۳۰۲
[20] اصول کافی ۲، ص ۳۰۳
[21] اصول کافی ۲، ص ۳۰۵
[22] اصول کافی ۲، ص ۳۰۵
[23] مستدرک ۲، ص۳۲۶
[24] وسائل الشیعہ ۲، ص ۴۷۰
[25] وسائل الشیعہ
[26] جامع السعادات ۱، ص ۲۹۶
[27] مستدرک۲، ص ۳۲
[28] وسائل الشیعہ ۲، ص ۴۷۰
| |