58
ساتواں سبق :
غيبت اور تہمت
1) .........غيبت اور تہمت كے معني
2) .........قرآن وحديث ميں غيبت كى مذمت
3) .........مومن كو غيبت سے بچنا چاہيئي
4) .........غيبت كے آلات ( غيبت كا سر چشمہ )
5) .........غيبت كے اسباب
6) .........غيبت كا كفّارہ
7) .........قرآن و حديث ميں تہمت كى مذّمت
59
(1)_غيبت اور تہمت كے معني:
-----غيبت،، اور'' تہمت ،،گناہ كبيرہ اور اخلاقى لحاظ سے برى عادتيںہيں ، اورمومن كو ان كے ارتكاب سے بچنا چاہيے _''غيبت ،،سے مراد يہ ہے كہ دوسروں كے با رے ميں ايسى بات كر نا كے اگر وہ سُن ليں تو انہيں تكليف پہنچي، اور ''تہمت،، كا مطلب يہ ہے كہ دوسروںكى طرف كسى ايسے گناہ يا عيب كى نسبت ديناجو ان ميں نہ پائے جاتے ہوں_
حديث ميں ہے كہ رسول خدا صلى اللہ عليہ والہ وسلم نے كسى شخص سے پوچھا كيا جانتے ہو كہ''غيبت ''كيا ہوتى ہي؟اس نے جواب ديا:خدا اور اس كے رسول بہتر جانتے ہيں،تو حضور (ص) نے فرمايا :
''ذكرك اخاك بما يكرہ،،
''تم اپنے بھائي كا ذكر ايسى چيز كے ساتھ كرے جو اسے پسند نہ ہو''_
60
اس نے پو چھا :
''جو بات ميرے مومن بھائي ميںپائي جاتى ہي،اگر ميں اس كا ذكر كروں تو كيا وہ بھى اپ(ص) كى نظر ميں غيبت ہے ؟''فرمايا:
'' وان كان فيہ ما تقول فقد اغبتہ وان لم يكن فيہ فقد بھتہ،، _1
''جو اس ميں ہيں اس كا ذكر غيبت 'اور جو اس ميں نہيں ہے اسے بيان كرنا تہمت ہي_''
(2)_قران اور حديث ميں غيبت كى مذمّت :
قران مجيد نے غيبت كى سخت مذمّت كى ہي'اور اسے مردہ بھائي كے گوشت كھانے كے برابر قرار ديا ہي،اور اس سے سختى سے منع فرمايا ہے _ارشاد ہي:
''ولا يغتب بعضكم بعضا ايحب احدكم ان يا كل لحم اخيہ ميتا فكر ھتموہ''2
''تم ميں سے كوئي، كسى كى غيبت نہ كرے ،كيا تم ميں سے كوئي اس بات كو پسند كرتا ہے كہ وہ اپنے مردہ بھائي كا گوشت كھائي؟تم لوگ تو اس سے نفرت كرتے ہو''_
رسول خدا صّلى اللہ عليہ والہ وسلم سے منقول ہے كہ:
''الغيبة اسرع فى دين الرجل المسلم من الاكلتہ فى جو فہ''_3
---------------------------
1_ جامع السعادات_ ج 2_ ص 303_ مطبوعہ: بيروت_
2_ سورہ حجرات _ آيت 12
3_ اصول كافى _ ج 2_ ص 357
61
''مسلمان كى دين (كى تباہي)كے لئے غيبت ،اس كے با طن ميں پيداہونے والى بيمارى سے زيادہ مہلك ہوتى ہي''_
امير المو منين عليہ السّلام فرما تے ہيں -:
''لا تعود نفسك الغيبة فا ن معتادھا عظيم الجرم'' _1
''خود كو غيبت كا عادى نہ بنائو،كيونكہ غيبت كے عادى شخص كا جرم بہت سنگين ہي''_
خدا وند متعال كى عبادت و اطاعت جہاں بذات خود اچّھى اور نيك چيز ہے اور اپنے دامن ميں اخرت كا ثواب ليے ہوئي ہي، وہاں دوسرے نيك كا موں كى انجام دہى كے لئے بھى راہ ہموار كرتى ہے ،اسى طرح معصيت جہاں بذات خود ايك جرم اور گنا ہ ہے اور اپنے ساتھ اخرت كا عذاب بھى ركھتى ہے ،وہاں بہت سے دوسرے نيك كاموں كى تباہى كا موجب بھى بن جا تى ہي_ چنا نچہ حضرت امام جعفر صادق عليہ السلاّم فرماتے ہيں:
'الغيبتہ تاكل الحسنات كما تاكل النار الحطب_''_ 2
''غيبت نيك كاموں كو ايسے ہى كھا جاتى ہے جيسے اگ لكڑى كو''_
(3)مومن كى غيبت سے بچنا چاہيي:
مومنين كے درميان برادرى كا رشتہ اس بات كا تقاضا كرتا ہے كہ ايك مومن اپنے بھائي كى نہ صرف جان و مال اور عزّت وابرو كو نقصان نہ پہنچائي'بلكہ دوسرے لوگوں كى
-------------------------------
1_ شرح غرر الحكم _ ج 6_ ص 293
2_ مصباح الشريعہ_ ص 276
62
دست درازى كى صورت اس كا دفاع كرے ،اور اس سے اپنے حمايت كا اعلان كري_
اسى بناپر كسى مومن كے لئے مناسب نہيں ہے كہ وہ اپنے بھائي كى عزّت و ابرو كى پامالى كو ديكھتا رہے ،اگر كوئي نا سمجھ انسان اس كى غيبت كے لئے زبان كھولے تو اسے اس بات سے منع كرنا چاہيئي_حضرت رسول خدا (ص) فرماتے ہيں:
''اگاہ رہو كہ جو شخص كسى محفل ميں اپنے بھائي كى غيبت سني،اسے چاہيے كہ وہ اس پر احسان كر تے ہوئے غيبت كر نے والے كو اس بات سے روكے ،كيو نكہ ايسا كر نے سے خدا وند عالم اس كى پا نچ ہزار برا ئياں دو نوں جہا نوں ميں اس سے دور كرے گا،ليكن اگر قدرت ركھنے كے با وجود ايسا نہ كرے تو غيبت كرنے والے كے گنا ہوں سے ستّر گناہ اور عذاب اس كے حصّے ميں اتے ہيں_''1
(4)_غيبت كے الات (غيبت كا سر چشمہ):
صرف زبان كى نوك ہى غيبت نہيں كرتى كہ جس سے سننے والے كو رو حانى دكھ ہو تا ہو ، بلكہ ہر قسم كا اشارہ،كنايہ،سر اور ہاتھ پائوں كى وہ تمام حر كتيں بھى غيبت شمار ہوتى ہيںجن سے كسى كى غيبت كا ارادہ كيا جائي_حضرت عائشيہ كہتى ہي:
''ايك دن ايك عورت ہمارے گھر ائي _جب وہ واپس جارہى تھى تو ميںنے ہا تھ كے اشارہے سے كہا كہ اس كا چھو ٹا قد ہي''
------------------------------
1_وسائل الشيعہ_ ج 8_ ص 6
63
رسول خدا (ص) نے فر مايا :
''تم نے اس كى غيبت كى ہي_''1
(5)_غيبت كے اسباب:
غيبت ايك قسم كى روحا نى بيمارى ہي،جس ميں غيبت كر نے والا مختلف اسباب و عوامل كى وجہ سے مبتلا ہو جا تا ہے ،حضرت امام جعفر صادق عليہ السّلام نے ايك روايت ميںاس كے دس اسباب ذكر فرمائے ہيں،ملا حظہ كيجئي:
''واصل الغيبة متنوع بعشرة انواع،شفاء غيظ و مسا عدة قوم و تہمة و تصديق بلا خبر كشفہ و سو ء ظن و حسد و سخرية و تعجب و تبرم وتزين''_2
غيبت كے سرزد ہونے كے مند رجہ ذيل دس اسبا ب ہيں:
1) ......غصّہ اور غيظ و غضب جو انسان كے اندر موجود ہو تا ہے ،وہ غيبت كے ذريعہ اسے ٹھنڈا كر كے خود كو تسكين پہنچاتا ہي_
2) ......غيبت كر نے والوں كے گروہ كے ساتھ تعاون اور انكى مدد كر تا ہي_
3) ......كسى پر الزام لگانے كے لئے غيبت كا سہارا ليتا ہي_
4) ......كسى كى با ت كى تحقيق اور چھان بين كئے بغير تصديق كرتا ہے اور اسے سچّا ثا بت كرنے كے لئے غيبت كر تا ہي_
5) ......دو سروں پر بد گمانى ،اسے غيبت پر اكساتى ہي_
---------------------------------
1_ جامع السعادات_ ج 2_ ص 303
2_ مصباح الشريعة _ ص 206
64
6) ......حسد ،اسے غيبت پر بھڑ كا تا ہي_
7) ......كسى كا مذاق اڑانے كے لئے اس كى غيبت كرتا_
8) ......اس كا تعجّب كر نا بھى غيبت ہي_
9) ......كسى سے تنگدل ہو جا تاہي، تو اس كى غيبت كر تا ہي_
10) ......اپنى با ت كو بنا سنوار كر پيش كر نے كے لئے كسى كى غيبت كر تا ہي_
(6)غيبت كا كفا رہ :
چو نكہ غيبت خد اكے حرام كردہ امور ميں سے ايك ہے ،لہذا غيبت كر ناحُّق ُُّاللہ غصب كر نے كے زمرہ ميں اتى ہي،اور چونكہ كسى انسان كى ابرو كو بر با د كر تى ہے لہذا حق النّاس پر تجا وز _ بھى شما ر ہو تى ہي_پس غيبت كر نے والے كو چاہيئے كہ پہلے تو وہ خدا كى با ر گا ہ ميںتوبہ كر ے اور اور اپنے اس گنا ہ كى معا فى مانگے ،تا كہ خدا وند تعالى اس كے اس گنا ہ كو بخش دے اور اس كى توبہ كو قبول كرے ،پھر وہ اس انسان كے حق كاتدارك كرے جس جس كى اس نے غيبت كى ہي،اگر وہ زندہ ہے اور اس تك رسائي ممكن ہے ،اگر اس كے رنجيدہ خا طر يا غصّے ہو نے كا مو جب نہيں بنتا تو اس سے معا فى ما نگے ،بہر حال ہر طريقے سے اسے راضى كر نے كى كو شش كرے _اور اگر وہ اس دنيا سے رخصت ہو گيا ہے يا زندہ ہي،ليكن اس تك رسا ئي مشكل ہے تو خدا سے اس كے لئے گناہوں كى بخشش كى دعا كرے ، اور اگر اس تك رسائي ممكن ہي،ليكن وہ غيبت سن كر نا را ض يا رنجيدہ خا طر ہو جا تا ہي،يا فتنہ كھڑا ہو نے كا با عث ہو تا ہے تو بھى اس كے لئے استغفار اور گناہوں كى بخشش كى دعا كرے _ ايك
65
حديث ميں ہے كہ رسول صلّى اللہ عليہ و الہ وسّلم سے كسى نے سوال كيا:''غيبت كا كيا كفّارہ ہي''؟تو انحضرت (ص) نے فرمايا:
''تستغفر اللہ لمن اغتبتہ كلما ذكرتہ''_1
''يعنى جب بھى تم اس شخص كو ياد كرتے ہو جس كى غيبت كى ہے ، تو اس كے لئے خدا سے استغفار كرو''_
حضرت امام جعفر صادق عليہ السّلام فرماتے ہيں:
''فان اغتبت فبلغ المغتاب فاستحل منہ وان لم تبلغہ ولم تلحقہ فاستغفر اللہ لہ''_2
'' اگر تم نے كسى كى غيبت كى ہے اور وہ اس كے كان تك جا پہنچى ہے تو تم اس سے معافى مانگ كر بخشش طلب كر ليا كرو ، اور اگراس تك نہيں پہنچى ہو تو اس كے لئے خدا سے دعائے مغفرت كرو'' _
قرآن و حديث ميں تہمت كى مذمّت :
جو برائياں ہم نے غيبت كے لئے ذكر كى ہيں وہ سب تہمت كو بھى شامل ہيں، علاوہ بريں تہمت لگانے والا جانتا ہے كہ جو متہَّم كى طرف نسبت دے رہا ہے وہ جھوٹى اور حقيقت كے خلاف ہے _
قران مجيد نے تہمت كو ''اثم مبين''(كھلا گناہ)كے نام سے ياد كيا ہي،اور خبر دار كيا ہے كہ تہمت لگانے والا اچھى طرح جا نتا ہے كہ وہ جو كام كر ر ہا ہے وہ نا جائز
---------------------------
1_ اصول كافي_ ج2 ص 357
2_ مصباح الشريعہ_ ص 205
66
اور گناہ ہي،قر ان مجيد كا ارشادہي:
''والذين يو ذون المو منين والمومنات بغير ما اكتسبوا فقد احتملو ابھتانا وا ثما مبينا''_1
''جو لوگ مومن مر دوں اور عورتوں كو ان كے نا كر دہ گنا ہوں كى وجہ سے تكليف پہنچاتے ہيں، وہ بھتان اور كھلم كھلّا گناہ كے متحمل ہو تے ہيں_''
حضرت امام جعفر صادق _نے تہمت كو دين و ايمان كے تباہ كر نے والے مادّہ كا نام ديا ہي،فر ماتے ہيں:
''اذا اتھم المومن اخاہ انماث الايمان من قبلہ كما ينماث الملح فى المائ''_2
''جب مو من اپنے كسى بھائي پر تہمت لگاتا ہے تو اس كے دل سے ايمان يوں نيست ونابود ہو جاتا ہے جس طرح نمك پانى ميں گُھل جا تا ہي_''
حضرت امام ر ضا عليہ السّلام فر ما تے ہيں كہ رسول خدا (ص) نے فر مايا:
''من بھت مو منا او مو منة او قال فيہ ما ليس فيہ ا قامہ اللہ يوم القيامة على تل من نا ر حتى يخرج مما قال فيہ''_3
''جو شخص كسى مو من مرد يا عورت پر تہمت لگا تا ہے يا اس كے بارے ميں كوئي ايسى بات كر تا ہے جو اس ميں نہيں ہي، تو خدا وند عالم اسے بروز قيامت آگ كے ايك ٹيلے پر اس وقت تك كھڑ ركھے گا جب تك وہ اس
---------------------------
1_ سورہ احزاب _ آيت 58
2_ اصول كافى _ ج2 ص 361
3_ بحارالانوار _ ج 72_ ص 194
67
كے عہدہ سے بر نہيں ائے گا (اپنى با توں كا ثبوت پيش نہيں كر يگا)_ليكن يہ با ت واضح ہے كہ وہ اس كا ثبوت تو نہيں پيش كر سكے گا ،لہذا عذاب ميں ہميشہ مبتلا رہے گا''
دعا ہے كہ خدا وند عا لم ہميں ان دو نوں گنا ہوں سے ہميشہ محفوظ ركھي_
آمين_
|