9
پہلا سبق:
اخلاق حسنہ
1)_'' حسن خلق'' كا معني:
''حُسن خلق '' يعنى ''پسنديدہ اور اچھى عادت''، چنانچہ اس شخص كو ''خوش اخلاق'' كہا جاتا ہے كہ اچھى عادتيں اُس كى ذات و فطرت كا جزو بن چكى ہوں اور وہ دوسروں كے ساتھ كھلے چہرے اور اچھے انداز كے ساتھ پيش آنے كے ساتھ ساتھ پسنديدہ ميل جول ركھے_ امام جعفر صادق عليه السلام نے حسن خلق كى تشريح كرتے ہوئے فرمايا :
''تُلين جانبك' وتطيّبُ كلامك وتلقى ا خاك ببشر: حَسَن:''_
''تم اپنى ملاقات كے انداز ميںنرمى پيدا كرو' اپنى گفتگو كو شائستہ بنائو اور اپنے بھائي سے خندہ پيشانى سے ملو''_ 1
عام طور پر اخلاق و حديث كى كتابوں ميں حسن خلق سے يہى معنى مراد ليا جاتاہے_
-----------------------------
1_ اصول كافى _ ج 3 ، ص 162، (ايمان و كفر :حُسن بشر)_بحارالانوار ج 71 ، ص 389(مطبوعة اسلامية)
10
اسلام ميں اخلاق حسنہ كا مقام:
اسلام ہميشہ اپنى پيروكاروں كو دوسروں كے ساتھ نرمى اور خوش مزاجى سے پيش آنے كى طرف دعوت ديناہے، اسلام نے خوش اخلاق انسان كى اہميت كو صرف مسلمانوں تك محدود نہيں ركھا ہے بلكہ اگر غير مسلمان بھى اس نيك صفت كا حامل ہوں تو وہ بھى اس كے فوائد كو پاسكتاہے_ جيسا كہ تاريخ ميں بيان ہوا ہے كہ : آنحضور (ص) نے حضرت امام على عليه السلام كوايسے تين افراد كے ساتھ جنگ كرنے كا حكم ديا جو آپ (ص) كو شہيد كرنے كى سازش ميں متحد ہوچكے تھے، امام على عليه السلام نے ان ميں سے ايك كوقتل كيا اور باقى دو كو قيدى بنا كر آپ (ص) كے سامنے پيش كيا _ آنحضرت (ص) نے پہلے انہيں دين مبين اسلام كى طرف دعوت دي، ليكن انہوں نے اسے قبول كرنے سے انكار كيا ، پھر آپ (ص) نے قتل كى سازش كے جرم پر ان كے خلاف قتل كا حكم جارى فرمايا ، اسى دوران آپ (ص) پر جبرئيل (ع) نازل ہوئے اور عرض كى : ''اللہ تعالى فرماتا ہے كہ ان دونوں ميں سے ايك شخص كو معاف كريں كيونكہ وہ خوش اخلاق اور سخاوتمند ہے'' _ آپ (ص) نے بھى اس شخص كو معاف فرمايا، جب اس شخص كو معلوم ہو اكہ اللہ تعالى نے اسے ان دو نيك صفات كى خاطر معاف فرمايا ہے تو اس نے اسلام كو تہ دل سے قبول كرليا_ پھر آپ (ص) نے اس شخص كے بارے ميں فرمايا :
'' ان لوگوں ميں سے ہے جو خوش اخلاق اور سخاوتمند ہونے كى بناء پر جنت كا مستحق ہوے''_1
اسلامى مقدس نظر يہ ميں حسن خلق كا معنى كبھى يہ نہيں كہ اگر كسى نے كوئي غلط اور ناپسند يدہ فعل انجام ديا تو اس كے سامنے خاموش ہوجائيں يا ہنس ديں بلكہ ايسے موقع پر
------------------------
1_ بحارالانوار ج 71، ص 390
11
اس بات پر تاكيد كى گئي ہے كہ اس فعل كے خلاف مناسب رد عمل كا اظہار كرنا چاہئے' اگرچہ چند افراد كى ناراضگى كا سبب بن جائے _ كيونكہ ہميں اس وقت تك دوسروں كو ناراض نہيں كرنا چاہئے، جب تك اسلامى احكام اور اس كے اصول كى پامالى نہ ہوپائے_
2)_معصومين (ع) كے ارشادات:
رسول خدا (ص) اور ا ئمہ معصومين عليہم اسلام اخلاق حسنہ كى اعلى ترين مثاليں ہيں اور يہ بے مثال ''حُسن خلق ''ان كے كردار اور گفتار سے عياں تھا_ ان ہى عظےم شخصيتوں كے ارشادات كى روشنى ميں ہم ''حُسن خلق'' كے اعلى درجہ پر فائز ہوسكتے ہيں_ چنانچہ ہم يہاں اُن كے ارشادات سے چند نمونے پيش كررہے ہيں تاكہ وہ ہمارى زندگى كے لئے مشعل راہ بن جائيں : رسول خدا (ص) نے صحابہ كو مخاطب كركے فرمايا :
''كيا ميں تمہيں وہ چيز نہ بتائوں كہ اخلاق كے لحاظ سے تم ميں سے كون مجھ سے زيادہ مشابہ ہے؟ صحابہ نے عرض كى : ''اے اللہ كے رسول (ص) ضرور بتايئے_'' تو آپ (ص) نے فرمايا :
''جس كا اخلاق بہت اچھا ہے''_1
آپ (ص) ہى كا ارشاد گرامى ہے:
''خوش نصيب ہے وہ شخص جو لوگوں سے خوش خلقى سے ملتا ہے ' ان كى مدد كرتا ہے اور اپنى برائي سے انہيں محفوظ ركھتا ہے''_2
------------------------
1_ اصول كافى (مترجم ) ج2، ص 84يا تحف العقول ص48
2_ تُحف العقول ، ص28
12
امام جعفر صادق عليه السلام فرماتے ہيں:
''خداوند عالم نے اپنے ايك پيغمبر كو مخاطب كركے فرمايا :
''خوش خلقى گناہوں كو اُسى طرح ختم كرديتى ہے جس طرح سورج برف كو پگھلاديتا ہے''_1
آپ (ع) ہى كا ارشاد ہے:
''بے شك بندہ اپنے حسن اخلاق سے دن كو روزہ ركھنے والے اور رات كو نماز قائم كرنے والے كا درجہ حاصل كرليتا ہے''_2
3)_اخلاق معصومين (ع) كے چند نمونے:
ہمارے معصوم رہبروں (ع) نے جس طرح ''اخلاق حسنہ'' كے بارے ميں نہايت ہى سبق آموز ارشادات فرمائے ہيں ' اسى طرح دوست اور دشمن كے سامنے نيك اخلاق كے بہترين على نمونے بھى پيش كئے ہيں; ملاحظہ كيجئے:
1_انس (پيغمبر اكرم (ص) كے خادم) سے مروى ہے كہ : ميں نے رسالت مآب (ص) كى نوسال تك خدمت كى 'ليكن اس طويل عرصے ميںحضور (ص) نے مجھے حتى ايك بار بھى يہ نہيں فرمايا: ''تم نے ايسا كيوں كيا؟'' _ ميرے كسى كام ميں كبھى كوئي نقص نہيں نكالا، ميں نے اس مدت ميں آنحضرت (ص) كى خوشبو سے بڑھ كر كوئي اور خوشبو نہيں سونگھي، ايك دن ايك باديہ نشين (ديہاتي) آيا اور آنحضرت (ص) كى عبا كو اتنى زور سے كھينچا كہ عبا كے نشان آپ (ص) كى گردن پر ظاہر
-------------------------
1_ تحف العقول _ ص 28_ بحارالانوار ج 71، ص 383
2_ وسائل الشيعہ ج8، ص 56_ تحف العقول ص 48
13
ہوگئے_ اس كا اصرار تھا كہ حضور اكرم (ص) اسے كوئي چيز عطا فرمائيں_ رسالتمآب (ص) نے بڑى نرمى اور مہربانى سے اُسے ديكھا اور مسكراتے ہوئے فرمايا:
''اسے كوئي چيز دے دو''_
چنانچہ خداوند عالم نے يہ آيت نازل فرمائي:
''انّك لَعلى خُلق: عظيم'' 1_
''بے شك آپ اخلاق (حسنہ) كے اعلى درجہ پر فائز ہيں''_
2_حضرت امام زين العابدين _ كے قريبى افراد ميں سے ايك شخص آپ (ع) كے پاس آيا اور بُرا بھلا كہنے لگا ' ليكن آپ (ع) خاموش رہے ، جب وہ شخص چلا گيا تو امام (ع) نے حاضرين كو مخاطب كركے فرمايا:
''آپ لوگوں نے سن ليا ہوگا كہ اس شخص نے مجھ سے كيا كہا ہے اب ميں چاہتا ہوں كہ آپ ميرے ساتھ چليں اور ميرا جواب بھى سن ليں''_
امام عليه السلام راستے ميں اس آيت كى تلاوت فرماتے جارہے تھے:
''و الكاظمين الغيظ والعافين عن الناس واللہ يحب المحسنين ''2_
''جو لوگ غصے كو پى جاتے ہيں اور لوگوں كو معاف اور درگذر كرديتے ہيں اوراللہ تعالى ايسے احسان كرنے والوں كو دوست ركھتا ہے''_
ساتھيوں نے سمجھ ليا كہ امام (ع) آيت عفو كى تلاوت فرما رہے ہيں، لہذا اسے كوئي تكليف نہيں پہنچائيں گے ،جب اس كے گھر پہنچے تو امام (ع) نے اس كے خادم سے فرمايا
-------------------------------
1_منتہى الآمال، ج ا ، ص 31_ سورہ قلم ، آيت 4
2 _ سورہ آل عمران آيت 134
14
كہ اپنے مالك سے كہدو كہ على ابن الحسين عليه السلام تمہيں بلا رہے ہيں_
جب اس شخص نے سنا كہ امام (ع) فوراً ہى اس كے پاس آئے ہيں تو اس نے دل ميں كہا كہ يقينا حضرت (ع) مجھے ميرے كئے كى سزا ديں گے اور اس كا انتقام ليں گے_ چنانچہ اس نے يہ سوچ كر خود كو مقابلہ كے لئے تيار كرليا، ليكن جب باہر آيا تو امام (ع) نے فرمايا :
''ميرے عزيز تم نے اب سے كچھ دير پہلے ميرے متعلق كچھ باتيں كہى تھيں ' اگر يہ باتيں مجھ ميں پائي جاتى ہيں تو خدا مجھے معاف كرے' اور اگر ميں اُن سے پاك اور بَرى ہوں تو خدا تمہيں معاف كرے''_
اُس شخص نے جب يہ سنا تو بہت شرمندہ ہوا ' امام (ع) كى پيشانى پر بوسہ ديا اور معافى مانگنے لگا اور عرض كى :''ميں نے جو كچھ كہا ' غلط كہا' بے شك آپ (ع) ايسى باتوں سے پاك ہيں'ہاں ' ميرے اندر يہ باتيں موجود ہيں ''_1
4)_ حسن خلق كے ثمرات و فوائد:
الف: ... ... دُنيوى فوائد:
1_دوستانہ تعلقات مضبوط ہوتے ہيں_
چنانچہ حضرت رسول خدا (ص) فرماتے ہيں:
----------------------------
1_منتہى الآمال، ج3 ، ص 5_ مطبوعہ انتشارات جاويدان
15
''حُسن خلق يُثبت المَوَدَّةَ''_1
'' حسن خلق، دوستى اور محبت كو مستحكم كرتا ہے''_
2_اس سے زمين آباد اور عمريں طولانى ہوتى ہيں_
چنانچہ حضرت امام جعفر صادق _ فرماتے ہيں:
'' انّ البرَّ و حُسن َ الخلق يَعمر ان الدّيارَ و يزيدان فى الاعمار''_2
''نيكى اور اچھے اخلاق سے زمينيں آباد اور عمريں طولانى ہوتى ہيں''_
3_رزق و روزى ميں بركت پيدا ہوتى ہے_
امام جعفر صادق عليه السلام فرماتے ہيں:
''حُسن الخلق منَ الدين و ہو يزيدُ فى الّرزق:''_3
''حسن خلق دين كا جزو ہے اور روزى ميں اضافہ كا سبب ہے''_
4_عزّت اور بزرگى كا موجب بنتا ہے_
چنانچہ حضرت اميرالمومنين عليه السلام فرماتے ہيں:
''كَم من وَضيع: رَفَعہ حُسن خُلقہ''_4
''كتنے ہى پست لوگ ايسے ہيں كہ جنہيںاُن كے نيك اخلاق نے بلند كيا ''_
-----------------------
1_ تحف العقول، ص 38_ بحارالانوار ج 71، ص 150
2_ اصول كافى ، ج 3، ص 157 _ بحارالانوار ج 71، ص 395
3_ تحف العقول ، ص373_
4_ شرح غررالحكم، ج 7، ص 94_
16
5_كينہ پرورى اور كدورتوں كو دو ر كرتا ہے _
رسالتمآب (ص) كا ارشاد ہے:
''خندہ پيشانى اور كشادہ روئي كينوں كو دور كرديتى ہے''_1
ب: ... ...اُخروى فوائد:
1_''حُسن خُلق'' كے سبب قيامت كے دن حساب ميں آسانى ہوگى _
حضرت اميرالمومنين على عليه السلام فرماتے ہيں :
''صلہ رحمى كرو كہ يہ تمہارى عمر كو بڑھائے گا ' اپنے اخلاق كو اچھا بنائو كہ خدا تمہارا حساب آسان كرے گا ''_2
2_جنت ميں جانے كا موجب بنتا ہے _
حضرت رسول خدا (ص) فرماتے ہيں :
''ميرى امت ' تقوى اور حسن اخلاق جيسى صفت كے زيادہ ہونے كى وجہ سے جنت ميں جائےگي''_3
3_بلند درجات كا سبب قرار پاتا ہے_
چنانچہ پيغمبر اكرم (ص) كا ارشاد ہے:
''بے شك حسن اخلاق كى وجہ سے بندہ آخرت كے بلند درجات اور اعلى
-------------------
1_تحف العقول، ص 38_
2 _ بحارالانوار ج 71، ص 338_
3_اصول كافى ، ج 2، ص 100_ مستدرك الوسايل ج 2، ص 82_
17
مراتب تك جا پہنچتا ہے، اسكا حسن خلق اسكى عبادت كو چار چاند لگا ديتاہے_1
5)_بدخلقي:
بدخُلقي' حُسن خُلق كى متضاد ہے_ جس قدر حُسن خُلق لائق تحسين اور قابل ستائشے ہے ' بدخلقى اسى قدر قابل مذمت اور قابل تنفر ہے_
اسلام نے جہاں اخلاق حسنہ كى بے حد تعريف كى ہے وہاں بدخُلقى كو نفرت كى نگاہ سے ديكھاہے _
رسول اكرم (ص) فرماتے ہيں :
''خَصلَتان لاَ تَجتَمعان فى مسلم:' اَلبُخلُ و سُوئُ الخلق''_2
''كسى مسلمان ميں دو خصلتيں جمع نہيں ہوسكتيں' كنجوسى اور بداخلاقي''_
حضرت على عليه السلام اس بُرى خصلت كو ذلّت اور پستى كى علامت قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں :
''منَ اللوَّم سُوء الخُلق''_3
''بداخلاقى ايك لعنت وپستى ہے ''_
دوسرى جگہ اسے جہالت اور نادانى كا نتيجہ قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں :
''الخلق المذموم من ثمار الجھل''_
''بدخلقى جہالت كے ثمر ات ميں سے ہے''_
------------------------
1_ اصول كافى ، ج 3، ص 157_
2_ ميزان الحكمہ، ج 3، ص 153
3_ شرح غررالحكم ، ج 7، ص 95
18
6_بداخلاقى كا انجام:
بداخلاقى كا انجام بہت برا ہوتا ہے نمونے كے طور پر ملاحظہ فرمائيں :
الف_ انسان كو خدا كے قرب سے دور كرديتى ہے _
جيسا كہ امام محمد باقر عليه السلام كا ارشاد ہے:
''عُبُوس الوجہ: وسوئُ البشر مكسَبَة لّلمقت وبعد من اللہ ''_1
''تُرش روئي اور بدخلقى خدا كى ناراضگى اور اس سے دورى كى سبب ہے''_
ب_ بداخلاقى انسان كى روح كو دكھ پہنچاتى ہے_
جيسا كہ حضرت امام جعفر صادق عليه السلام فرماتے ہيں :
''مَن ساء خلقہ عذب نفسہ''_2
''جو شخص بد اخلاق ہوتا ہے وہ خود ہى كو عذاب ميں مبتلا ركھتا ہے''_
ج_ نيك اعمال كو تباہ وبرباد كرديتى ہے_
رسول خدا (ص) فرماتے ہيں:
''الخلق ُ السَّي يُفسد العمل كَما يُفسد الخَلُّ العَسَل''_3
''بد اخلاقى ' انسان كے عمل كو ايسے ہى تباہ كرديتى ہے جس طرح سركہ شہد كو تباہ كرديتاہے''_
د_ توبہ كے قبول ہونے ميں ركاوٹ بنتى ہے_
جيسا كہ آنحضرت (ص) كا ارشاد ہے:
------------------------
1_تحف العقول ، ص 296_
2 _ بحارالانوار ، ج78، ص 246_
3_ميزان الحكمة، ج 3، ص 152_
19
''خداوند عالم بداخلاق شخص كى توبہ كوقبول نہيں كرتا''_
لوگوں نے پوچھا: ''يا رسول اللہ (ص) ايسا كيوں ہے؟'' فرمايا :
''اس لئے كہ جب انسان كسى گناہ سے توبہ كرتا ہے ' تو پھر اس سے بڑے گناہ كا مرتكب ہوجاتا ہے''_1
ھ_ رزق كو كم كرديتى ہے_
اميرالمومنين عليه السلام فرماتے ہيں :
''مَن سَآء خلقہ ضاقَ رزقہ''_ 2
''بداخلاقى روزى كو كم كرديتى ہے''_
و_ انسان كو جہنمى بناديتى ہے_
جيسا كہ رسول خدا (ص) كى خدمت ميںجب عرض كيا گيا كہ فلاں شخص دن كو روزہ ركھتا ہے' اور رات كو عبادت ميں گزار ديتا ہے' ليكن بداخلاق ہے اور ہمسايوں كو ستاتا ہے ' تو آنحضرت (ص) نے فرمايا :
''اس شخص ميں كوئي اچھائي نہيں' وہ جہنمى ہے''_3
----------------------------
1_ بحارالانوار ، ج 73، ص 299
2_ميزان الحكمة، ج 3، ص 155
3 _ ميزان الحكمة ، ج 3، ص 154
|