نيكيوں سے مزين ھونا اور برائيوں سے پرھيز كرنا (1)
نيكيوں سے مزين ھونا اور برائيوں سے پرھيز كرنا (1)
  ((كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَي نَفْسِہِ الرَّحْمَةَ اٴَنَّہُ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوء اً بِجَھالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِہِ وَاٴَصْلَحَ فَاٴَنَّہُ غَفُورٌ رَحِيمٌ))۔ 264
”۔۔۔ تمھارے پروردگار نے اپنے اوپررحمت لازم قرار دے لي ھے كہ تم ميں جو بھي از روئے جھالت برائي كرے گا اور اس كے بعد تو بہ كر كے اپني اصلاح كرلے گا تو خدا بھت زيادہ بخشنے والا اور مھربان ھے“۔
زيبائي اور برائي گزشتہ صفحہ ميں بيان ھونے والے دو عنوان سے باطنى، معنوى، اخلاقي اور عملي زبيائي او ربرائي مراد ھے۔
جو شخص اپنے ارادہ و اختيار اور شناخت و معرفت كے ذريعہ الٰھي حقائق (اخلاقي حسنات) اور عملي واقعيات ( احكام خداوندي) كو اپنے صفحہ دل پر نقش كرليتا ھے، اس نقش كو ايمان كے روغن سے جلا ديتا ھے، اور زمانہ كے حوادث و آفات سے نجات پاليتا ھے، جس كے ذريعہ سے انسان بھترين سيرت اور خوبصورت وشائستہ صورت بناليتا ھے۔
الٰھي حقائق يا اخلاقي حسنات خداوندعالم كے اسماء و صفات كے جلوے اور ارادہ پروردگار كے عملي واقعيات كے جلوے ھيں، اسي وجہ سے يہ چيزيں انسان كي سيرت و صورت كو بازار مصر ميں حُسن يوسف كي طرح جلوہ ديتے ھيں، اور دنيا و آخرت ميں اس كو خريدنے والے بھت سے معشوق نظر آتے ھيں۔
ليكن وہ انسان جو اپنے قلم و ارادہ و اختيار سے جھل و غفلت غرور و تكبر، بُرے اخلاق اور برے اعمال كو اپنے صفحہ دل پرنقش كرليتا ھے، جس كي وجہ سے وہ گناھوں ميں غرق ھوتا چلا جاتا ھے، جو انسان كي ھميشگي ھلاكت كے باعث ھيں، انھيں كي وجہ سے ان كي صورت بدشكل اور تيرہ و تاريك ھوجاتي ھے۔
اخلاقي برائياں، بُرے اعمال شيطاني صفات كا انعكاس اور شيطاني حركتوں كا نتيجہ ھيں، اسي وجہ سے انسان كي سيرت و صورت پر شيطاني نشانياں دكھائي ديتي ھيں، جس كي بنا پر خدا، انبياء اور ملائكہ نفرت كرتے ھيں اور دنيا و آخرت كي ذلت و رسوائي اس كے دامن گير ھوجاتي ھے۔
معنوي و روحاني زيبائي و برائي كے سلسلہ ميں ھميں قرآن مجيد كي آيات اور رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم وائمہ معصومين عليھم السلام كي احاديث كا مطالعہ كرنا چاہئے، تاكہ ان الٰھي حقائق اور آسماني تعليمات سے آشنائي كے ذريعہ اپنے كو مزين كريں، اور توبہ و استغفار كے ذريعہ قرآن مجيد كے فرمان كے مطابق اپنے ظاھر و باطن كي اصلاح كو كامل كرليں:
(( وَإِذَا جَائَكَ الَّذِينَ يؤْمِنُونَ بِآياتِنَا فَقُلْ سَلاَمٌ عَلَيكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَي نَفْسِہِ الرَّحْمَةَ اٴَنَّہُ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوء اً بِجَھالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِہِ وَاٴَصْلَحَ فَاٴَنَّہُ غَفُورٌ رَحِيمٌ))۔ 265
”اور جب وہ لوگ آپ كے پاس آئيں جو ھماري آيت وں پر ايمان ركھتے ھيں تو ان سے كہئے كہ سلام عليكم ۔۔۔تمھارے پروردگار نے اپنے اوپررحمت لازم قرار دے لي ھے كہ تم ميں جو بھي از روئے جھالت برائي كرے گا اور اس كے بعد تو بہ كر كے اپني اصلاح كرلے گا تو خدا بھت زيادہ بخشنے والا اور مھربان ھے“۔

اھل ہدايت و صاحب فلاح
(( الَّذِينَ يؤْمِنُونَ بِالْغَيبِ وَيقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاھم ينفِقُونَ۔ وَالَّذِينَ يؤْمِنُونَ بِمَا اٴُنْزِلَ إِلَيكَ وَمَا اٴُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ ھم يوقِنُونَ۔ اٴُوْلَئِكَ عَلَي ہُدًي مِنْ رَبِّھم وَاٴُوْلَئِكَ ھم الْمُفْلِحُونَ))۔ 266
”جولوگ غيب پر ايمان ركھتے ھيں ۔پابندي سے پورے اھتمام كے ساتھ نماز ادا كر تے ھيں اور جو كچھ ھم نے رزق ديا ھے اس ميں سے ھماري راہ ميں خرچ بھي كرتے ھيں ۔وہ ان تمام باتوں پر بھي ايمان ركھتے ھيں جنھيں (اے رسول) ھم نے آپ پر نازل كيا ھے اور جو آپ سے پھلے نازل كي گئي ھيں اور آخرت پر بھي يقين ركھتے ھيں۔يھي وہ لوگ ھيں جو اپنے پروردگار كي طرف سے ہدايت كے حامل ھيں اور يھي لوگ فلاح يافتہ اور كامياب ھيں“۔
مذكورہ آيت سے درج ذيل نتائج برآمد ھوتے ھيں:
1۔ غيب پر ايمان ۔
2۔ نماز قائم كرنا۔
3۔ صدقہ اور حقوق كي ادائيگي۔
4۔ قرآن اور ديگر آسماني كتابوں پر ايمان۔
5۔ آخرت پر يقين۔

غيب پر ايمان
غيب سے مراد ايسے امور ھيں جن كو ظاھري حواس سے درك نھيں كيا جاسكتا، چونكہ ان كو حواس كے ذريعہ نھيں درك كيا جاسكتا لہٰذا ان كو غيبي امور كھا جاتا ھے۔
غيب، ان حقائق كو كھتے ھيں جن كو دل اور عقل كي آنكھ سے درك كيا جاسكتا ھے، جس كے مصاديق خداوندعالم، فرشتے، برزخ، روز محشر، حساب، ميزان اور جنت و جہنم ھے، ان كا بيان كرنا انبياء، ائمہ عليھم السلام اور آسماني كتابوں كي ذمہ داري ھے۔
ان حقائق پر ايمان ركھنے سے انسان كا باطن طيب و طاھر، روح صاف و پاكيزہ، تزكيہ نفس، روحي سكون اور قلبي اطمينان حاصل ھوتا ھے نيز اعضاء و جوارح خدا و رسول اور اھل بيت عليھم السلام كے احكام كے پابند ھوجاتے ھيں۔
غيب پر ايمان ركھنے سے انسان ميں تقويٰ پيدا ھوتا ھے، اس ميں عدالت پيدا ھوتي ھے، اور انسان كي تمام استعداد شكوفہ ھوتي ھيں، يھي ايمان اس كے كمالات ميں اضافہ كرتا ھے، نيز خداوندعالم كي خلافت و جانشيني حاصل ھونے كا راستہ ھموار ھوتا ھے۔
كتاب خدا، قرآن مجيد جو احسن الحديث، اصدق قول اور بھترين وعظ و نصيحت كرنے والي كتاب ھے، جس كے وحي ھونے كي صحت و استحكام ميں كوئي شك و شبہ نھيں ھے، اس نے مختلف سوروں ميں مختلف دلائل كے ذريعہ ثابت كيا ھے كہ قرآن كتاب خدا ھے، جن كي بنا پر انسان كو ذرہ برابر بھي شك نھيں رھتا، قرآن كريم كي بھت سي آيات ميں غيب كے مكمل مصاديق بيان كئے گئے ھيں اور ان آيات كے ذيل ميں پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومين عليھم السلام سے بھت اھم احاديث بيان ھوئي ھيں جن كے پر توجہ كرنے سے انسان كے لئے غيب پر ايمان و يقين كا راستہ ھموار ھوجاتا ھے۔

خدا
قرآن مجيد نے خداوندعالم كو تمام كائنات اور تمام موجودات كے خالق كے عنوان سے پہچنوايا ھے، اور تمام انسانوں كو خدا كي عبادت كي دعوت دي ھے، اس كا شريك اس كي ضدو مثل اوراس كا كفوقرار دينے سے سخت منع كيا ھے اور اس كو غفلت و جھالت كا نتيجہ بتايا ھے، اور كسي چيز كو اس كے خلاف بيان كرنے كو فطرت و وجدان كے خلاف شمار كيا ھے، اس عالم ہستي ميں صحيح غور و فكر كرنے كي رغبت دلائي ھے، اور فطرى، عقلى، طبيعي اور علمي دلائل و شواہد كے ذريعہ غير خدا كے خالق ھونے كو باطل قرار ديا ھے، اور اس جملہ كو بے بنياد، بے معني اور مسخرہ آميز بتايا ھے كہ ”يہ چيزيں خود بخود وجود ميں آگئي ھيں“ اس كي شدت كے ساتھ ردّ كي ھے اور علمي منطق اور عقل سليم سے كوسوں دور بتايا ھے، المختصر: قرآن مجيد نے اپني آيات كے اندر انسان كے جھل اور غفلت جيسي بيماريوں كا علاج بتايا ھے، اورفطرت و وجدان كو جھنجھوڑتے ھوئے عقل و دل كي آنكھوں كے سامنے سے شك و ترديد اور اوھام كے پردوں كو ہٹاديا ھے، اور خداوندعالم كے وجود كو دلائل كے ساتھ ثابت كيا ھے، نيز اس معني پر توجہ دلائي ھے كہ آئينہ ہستي كي حقيقت روز روشن سے بھي زيادہ واضح ھے، اور خدا كي ذات اقدس ميں كسي كے لئے شك و ترديد كا كوئي وجود نھيں ھے:
(( ۔۔۔ اٴَفِي اللهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ يدْعُوكُمْ لِيغْفِرَ لَكُمْ مِنْ ذُنُوبِكُمْ۔۔۔))۔267
”۔۔۔ كيا تمھيں اللہ كے وجود كے بارے ميں بھي شك ھے جو زمين و آسمان كا پيدا كرنے والا ھے اور تمھيں اس لئے بلاتا ھے كہ تمھارے گناھوں كو معاف كردے۔۔“۔
((يااٴَيھا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمْ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ۔ الَّذِي جَعَلَ لَكُمْ الْاٴَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَاٴَنْزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَاٴَخْرَجَ بِہِ مِنْ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ فَلاَتَجْعَلُوا لِلَّہِ اٴَندَادًا وَاٴَنْتُمْ تَعْلَمُونَ))۔ 268
”اے انسانو! پروردگار كي عبادت كرو جس نے تمھيں بھي پيدا كيا ھے اور تم سے پھلے والوں كو بھي خلق كيا ھے ۔شايد كہ تم اسي طرح متقي اور پرھيز گار بن جاوٴ۔اس پروردگار نے تمھارے لئے زمين كا فرش اور آسمان كا شاميانہ بنايا ھے اور پھر آسمان سے پاني برسا كر تمھاري روزي كے لئے زمين سے پھل نكالے ھيں لہٰذا اس كے لئے جان بوجھ كر كسي كو ھمسر اور مثل نہ بناوٴ“۔
جي ھاں! اس نے ھميں اور ھم سے پھلے انسانوں كو خلق كيا، آسمانوں كو بنايا، تمھاري زندگي كے لئے زمين كا فرش بچھايا، تمھارے لئے بارش برسائى، جس كي وجہ سے مختلف قسم كے پھل اور اناج پيدا ھوئے، اگر يہ تمام عجيب و غريب چيزيں اس كا كام نھيں ھے تو پھر كس كا كام ھے؟
اگر كوئي كھتا ھے كہ ان تمام عجيب و غريب خلقت كي پيدائش كي علت ”تصادف“(يعني اتفاقي) ھے تو اس كي مستحكم منطقي اور عقلى دليل كيا ھے؟ اگر كھا گياكہ يہ چيزيں خود بخود پيدا ھوگئيں تو كيا اس كائنات كي چيزيں پھلے سے موجود نھيں تھيں جو خود بخود وجود ميں آگئيں، اس كے علاوہ جو چيز موجود ھے وہ خود بخود وجود ميں آجائيں اس كے كوئي معني نھيں ھيں، پس معلوم ھوا كہ ان تمام چيزوں كا خالق اور ان كو نظم دينے والا عليم و بصير و خبير ”اللہ تعاليٰ“ ھے جس نے ان تمام چيزوں كو وجود بخشا ھے، اور اس مضبوط اور مستحكم نظام كي بنياد ڈالي ھے، لہٰذا انسان پر واجب ھے كہ اس كے حكم كي اطاعت كرے، اس كي عبادت و بندگي كرے تاكہ تقويٰ، پاكيزگي اور كمال كي معراج حاصل كرے:
(( اعْبُدُوا رَبَّكُمْ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُون))۔ 269
”۔۔۔تم لوگ اس پروردگار كي عبادت كرو جس نے تمھيں بھي پيدا كيا ھے اور تم سے پھلے والوں كو بھي خلق كيا ھے ۔شايد كہ تم اسي طرح متقي اور پرھيز گار بن جاوٴ“۔
مفضل بن عمر كوفي كھتے ھيں: مجھ سے حضرت امام صادق عليہ السلام نے فرمايا:
وجود خدا كي سب سے پھلي دليل اس دنيا كا نظم و ترتيب ھے كہ تمام چيزيں بغير كسي كمي و نقصان كے اپني جگہ پر موجود ھيںاور اپنا كام انجام دے رھي ھيں۔
مخلوقات كے لئے زمين كا فرش بچھايا گيا، آسمان پر زمين كے لئے روشني دينے والے سورج چاند اور ستارے لٹكائے گئے، پھاڑوں كے اندر گرانبھا جواھرات قرار دئے گئے، ھر چيز ميں ايك مصلحت ركھي گئي اور ان تمام چيزوں كو انسان كے اختيار ميں ديديا گيا، مختلف قسم كي گھاس، درخت اور حيوانات كو اس كے لئے خلق كيا تاكہ آرام و سكون كے ساتھ زندگي بسر كرسكےں۔
اس دنيا كے نظم وترتيب كو ديكھو كہ جھاں ھر چيز ذرہ برابر كمي و نقصان كے بغير اپني مخصوص جگہ پرھے جو اس بات كي بھترين دليل ھے كہ يہ دنيا حكمت كے تحت پيدا كي گئي ھے، اس كے علاوہ تمام چيزوں كے درميان ايك رابطہ پايا جاتا ھے اور سب ايك دوسرے كے محتاج ھيں جو خود اس بات كي بھترين دليل ھے كہ ان تمام چيزوں كا پيدا كرنے والا ايك ھي ھے، ان تمام چيزوں كے پيدا كرنے والے نے ان تمام چيزوں كے درميان الفت پيدا كي ھے اور ايك دوسرے سے مربوط اور ايك دوسرا كا محتاج قرار ديا ھے!
مفضل كھتے ھيں: معرفت خدا كي گفتگو كے تيسرے دن جب امام ششم كي خدمت ميں حاضر ھوا، تو امام عليہ السلام نے فرمايا: آج چاند، سورج اور ستاروں كے بارے ميں گفتگو ھوگى:
اے مفضل! آسمان كا رنگ نيلا دكھائي ديتا ھے او رجھاں تك انسان آسمان كو ديكھتا چلا جاتا ھے اس كو كوئي تكليف نھيں ھوتى، كيونكہ نيلا رنگ نہ صرف يہ كہ آنكھ كے لئے نقصان دہ نھيں ھے بلكہ آنكھ كي طاقت كے لئے مفيد بھي ھے۔
اگر سورج نہ نكلتا اور دن نہ ھوتا تو پھر دنيا كے تمام امور ميں خلل واقع ھوجاتا، لوگ اپنے كاموں كو نہ كرپاتے، بغير نور كے ان كي زندگي كا كوئي مزہ نہ ھوتا، يہ ايك ايسي حقيقت ھے جو روز روشن سے بھي زيادہ واضح ھے۔
اگر سورج غروب نہ ھوتا اور رات كا وجود نہ ھوتا تو لوگوں كو سكون حاصل نہ ھوتا اور ان كي تھكاوٹ دور نہ ھوتى، ھاضمہ نظام غذا كو ہضم نہ كرپاتا او راس غذائي طاقت كو دوسرے اعضاء تك نہ پہنچاتا۔
اگر ھميشہ دن ھوا كرتا تو انسان لالچ كي وجہ سے ھميشہ كام ميں لگارھتا جس سے انسان كا بدن رفتہ رفتہ جواب ديديتا، كيونكہ بھت سے لوگ مال دنيا جمع كرنے ميں اس قدر لالچي ھيں كہ اگر رات كا اندھيرے ان كے كاموں ميں مانع نہ ھو تا تو اس قدر كام كرتے كہ اپاہج ھوجاتے!
اگر رات نہ ھوا كرتي تو سورج كي گرمي سے زمين ميں اس قدر گرمي پيدا ھوجاتي كہ روئے زمين پر كوئي حيوان اور درخت باقي نہ رھتا۔
اسي وجہ سے خداوندعالم نے سورج كو ايك چراغ كي طرح قرار ديا كہ ضرورت كے وقت اس كو جلاياجاتا ھے تاكہ اھل خانہ اپني ضرورت سے فارغ ھوجائيں، اور پھر اس كو خاموش كرديتے ھيں تاكہ آرام كرليں! پس نور اور اندھيرا جو ايك دوسرے كي ضدھيں دونوں ھي اس دنيا كے نظام اور انسانوں كے لئے خلق كئے گئے ھيں۔
اے مفضل! غور تو كرو كہ كس طرح سورج كے طلوع و غروب سے چار فصليں وجود ميں آتي ھيں تاكہ حيوانات او ردرخت رشد ونمو كرسكيں اور اپني منزل مقصود تك پہنچ جائيں۔
اسي طرح دن رات كي مدت كے بارے ميں غور فكر كرو كہ كس طرح انسان كي مصلحت كا لحاظ ركھا گيا ھے اكثر آباد زمين پر دن 15 گھنٹے سے زيادہ نھيں ھوتا اگر دن سو يا دوسو گھنٹے كا ھوتا تو كوئي بھي جانداز زمين پر باقي نہ بچتا۔
كيونكہ اس قدر طولاني دن ميں دوڑ دھوپ كرتے ھوئے ھلاك ھوجاتے، درخت وغيرہ سورج كي گرمي سے خشك ھوجاتے!
اسي طرح اگر سو يا دوسو گھنٹے كي رات ھوا كرتى، تمام جاندار روزي حاصل نھيں كرسكتے تھے اور بھوك سے ھلاك ھوجاتے، درختوں اور سبزيوں كي حرارت كم ھوجاتى، جس كے نتيجہ ميںان كا خاتمہ ھوجاتا، جيسا كہ آپ نے ديكھا ھوگا كہ بھت سي گھاس اگر ايسي جگہ اُگ آئيں جھاں پر سورج كي روشني نہ پڑے ھو تو وہ بر باد ھوجايا كرتي ھيں۔
سرديوں كے موسم ميں درختوں اور نباتات كے اندر كي حرارت او رگرمي مخفي ھوجاتي ھے تاكہ ان ميں پھلوں كا مادہ پيدا ھو، سردي كي وجہ سے بادل اٹھتے ھيں، بارش ھوتي ھے، جس سے حيوانوں كے بدن مضبوط ھوتے ھيں، فصل بھار ميں درخت اور نباتات ميں حركت پيدا ھوتي ھے اور آہستہ آہستہ ظاھر ھوتے ھيں، كلياں كھلنے لگتي ھيں، حيوانات بچے پيدا كرنے كے لئے ايك دوسرے كے پاس جاتے ھيں، گرمي كے موسم ميں گرمي كي وجہ سے بھت سے پھل پكنے لگتے ھيں، حيوانات كے جسم ميں بڑھي ھوئي رطوبت جذب ھوتي ھے، اور روئے زمين كي رطوبت كم ھوتي تاكہ انسان عمارت كا كام اور ديگر كاموں كو آساني سے انجام دے سكے، فصل پائيز ميں ھوا صاف ھوتي ھے تاكہ انسان كے جسم كي بيمارياں دور ھوجائيں اور بدن صحيح و سالم ھوجائے، اگر كوئي شخص ان چار فصلوں كے فوائد بيان كرنا چاھے تو گفتگو طولاني ھوجائے گى!
سورج كي روشني كي كيفيت پر غور و فكر كرو كہ جس كو خداوندعالم نے اس طرح قرار ديا ھے كہ پوري زمين اس كي روشني سے فيضياب ھوتي ھے، اگر سورج كے لئے طلوع و غروب نہ ھوتا تونور كي بھت سي جھتوں سے استفادہ نہ ھوتا، پھاڑ، ديوار اور چھت نور كي تابش ميں مانع ھوجاتے، چونكہ خداوندعالم نور خورشيد سے تمام زمين كو فيضياب كرنا چاھتا ھے لہٰذا سورج كي روشني كو اس طرح مرتب كيا ھے كہ اگر صبح كے وقت كھيں سورج كي روشني نھيں پہنچتي تو دن كے دوسرے حصہ ميں وھاں سورج كي روشني پہنچ جاتي ھے، يا اگر كسي جگہ شام كے وقت روشني نہ پہنچ سكے تو صبح كے وقت روشني سے فيضياب ھوسكے، پس معلوم ھوا كہ كوئي جگہ ايسي نھيں ھے جوسورج كي روشني سے فائدہ نہ اٹھائے، واقعاً يہ خوش نصيبي ھے كہ خداوندعالم نے سورج كي روشني كو زمين رہنے والے تمام موجودات چاھے وہ جمادات ھوں يا نباتات يا دوسري جاندار چيزيں سب كے لئے پيدا كي اور كسي كو بھي اس سے محروم نہ ركھا۔
اگر ايك سال تك سورج كي روشني زمين پر نہ پڑتي تو زمين پر رہنے والوں كا كيا حال ھوتا؟ كيا كوئي زندہ رہ سكتا تھا؟
رات كا اندھيرا بھي انسان كے لئے مفيد ھے جو اس كو آرام كرنے پر مجبور كرتا ھے، ليكن چونكہ رات ميں بھي كبھي روشني كي ضرورت ھوتي ھے، بھت سے لوگ وقت نہ ھونے يا گرمي كي وجہ سے رات ميں كام كرنے پر مجبور ھوتے ھيں يا بعض مسافر رات كو سفر كرتے ھيں ان كو روشني كي ضرورت ھوتي ھے، تو اس ضرورت كے تحت خداوندعالم نے چاند او رستاروں كو خلق فرمايا ھے تاكہ وہ اپني نور افشاني سے خدا كي مخلوق كے لئے آسائش كا سامان فراھم كرےںاور اپني منظم حركت كے ذريعہ مسافروںكو راستہ كي طرف راہنمائي كريں اور كشي ميں سوار مسافرين كو راستہ بھٹكنے سے روكے رھيں۔
ستاروں كي دو قسم ھوتي ھيں، ايك ثابت ستارے جو ايك جگہ اپنے معين فاصلہ پر رھتے ھيں، اور دوسرے ستارے گھومتے رھتے ھيں ايك برج سے دوسرے برج كي طرف جاتے ھيں، يہ ستارے اپنے راستہ سے ذرہ برابر بھي منحرف نھيں ھوتے، ان كي حركت كي بھي دو قسميں ھيں: ايك عمودي حركت ھوتي ھے جو دن رات ميں مشرق سے مغرب كي طرف انجام پاتي ھے، اور دوسري اس كي اپني مخصوص حركت ھوتي ھے، اور وہ مغرب سے مشرق كي طرف ھوتي ھے، جيسے اگر ايك چيونٹي چكّي كے پاٹ پر بيٹھ كر بائيں جانب حركت كرے درحاليكہ چكّي داہني جانب چلتي ھے، لہٰذا چيونٹي كي دو حركت ھوتي ھيں ايك اپنے ارادہ سے اور دوسري چكّي كي وجہ سے، كيا يہ ستارے جن ميں بعض اپني جگہ قائم ھيں اور بعض منظم طور پر حركت كرتے ھيں كيا ان كي تدبير خداوندحكيم كے علاوہ ممكن ھے؟ اگر كسي صاحب حكمت كي تدبير نہ ھوتي تو يا سب ساكن ھوتے يا سب متحرك، اور اگر متحرك بھي ھوتے تو اتنا صحيح نظم و ضبط كھاں پيدا ھوتا؟
ستاروں كي رفتار انسانوں كے تصور سے كھيں زيادہ ھے، اور ان كي روشني اس قدر شديد ھے كہ اس كو ديكھنے كي تاب كسي بھي آنكھ ميں نھيں ھے، خداوندعالم نے ھمارے اور ان كے درميان اس قدر فاصلہ قرار ديا ھے كہ ھم ان كي حركت كو درك نھيں كرسكتے، اور نہ ھي ان كي روشني ھماري آنكھوں كے لئے نقصان دہ ھے، اگر اپني مكمل رفتار كے ساتھ ھم سے نزديك ھوتے، تو ان كے نور كي شدت كي وجہ سے ھماري آنكھيں نابينا ھوجاتيں، اسي طرح جب پے در پے بجلي كڑكتي وچمكتي ھے آنكھ كے لئے نقصان دہ ثابت ھوسكتي ھے، جس طرح سے اگر كچھ لوگ ايك كمرہ ميں موجود ھوں اور وھاں پر تيز روشني والے بلب روشن ھوں اور اچانك خاموش كردئے جائيں تو آنكھيں پريشان ھوجاتي ھيں اور كچھ دكھائي نھيں ديتا۔
اے مفضل! اگر رہٹ كے ذريعہ كسي كنويں سے پاني نكال كر كسي باغ كي سينچائي كي جائے، عمارت، كنويں اور پاني نكالنے كے وسائل اس قدر منظم اور قاعدہ كے تحت ھوں كہ باغ كي صحيح سنچائي ھوسكے، اگر كسي ايسي رہٹ كو ديكھے تو كيا انسان كہہ سكتا ھے كہ يہ خود بخود بن گئي ھے، اور كسي نے اس كو نھيں بنايا ھے اور كسي نے منظم نھيں كيا ھے، يہ بات واضح ھے كہ عقل سليم اس كے ديكھنے كے بعد يہ فيصلہ كرتي ھے كہ ايك ماھر اور ھوشيار شخص نے اس رہٹ كو اس اندازسے بنايا ھے، اور جب انسان پاني نكالنے والي ايك چھوٹي سي چيز كو ديكھنے كے بعد اس كے بنانے والے كي طرف متوجہ ھوجاتا ھے تو پھر كس طرح ممكن ھے كہ ان تمام گھومنے والے اور ايك جگہ باقي رہنے والے ستاروں، شب و روز، سال كي چار فصلوں كو حساب شدہ ديكھے جبكہ ان ميں ذرا بھي انحراف اور بے نظمي نھيں پائي جاتي تو كيا انسان اس قدر عظيم اور عجيب و غريب چيزوں كو ديكھ كر ان كے پيدا كرنے والے كو نھيں پہچان سكتا؟270
ايك شخص حضرت رسول اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كي خدمت ميں حاضرھوكر عرض كرتا ھے: مجھے علم كے عجائبات سكھاديجئے، تو آنحضرت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے اس سے فرمايا: كيا تجھے اصل علم كے بارے ميں كچھ خبر ھے جو عجائب كے بارے ميں معلومات حاصل كرنا چاھتا ھے؟ تو اس نے كھا: يا رسول اللہ! اصل علم كيا ھے؟ تو حضرت نے فرمايا: معرفت خدا، اور حق معرفت، اس نے كھا: حق معرفت كيا ھے؟ آپ نے فرمايا: خدا كي مثل و مانند اور شبيہ نہ ماننا، اور خدا كو واحد، احد، ظاھر، باطن، اول و آخر ماننا اور يہ كہ اس كا كوئي كفو و نظير نھيں ھے، اور يھي معرفت كاحق ھے۔
پورے قرآن كريم ميں اس مسلم اور ھميشگي حقيقت پر توجہ دلائي گئي ھے كہ وہ حقيقت اصل جھان اوراس دنيا كو پيدا كرنے والے اور اس كو باقي ركھنے والي كي ھے، انسان كے حواس كو ظاھري آنكھوں سے درك نھيں كيا جاسكتا، لہٰذا غيب كھا جاتا ھے، اور يہ تمام موجوات فنا ھونے والي ھيں ليكن اس كي ذات باقي ھے، نيز يہ كہ تمام موجوات كے لئے آغاز و انجام ھوتا ھے ليكن اس كے لئے كوئي آغاز اور انجام نھيں ھے، وھي اول ھے اور وھي آخر ۔
قرآن كريم كے تمام سوروں اور اس كي آيات ميں اس حقيقت كو ”اللہ تعاليٰ“ كھا گيا ھے، اور ھر سورے ميں متعدد بار تكرار ھوا ھے، اور تمام واقعيات اور تمام مخلوقات اسي واحد قھار كے اسم گرامي سے منسوب ھيں ۔
ھم جس مقدار ميں خدا كي مخلوقات اور متعدد عالم كو ايك جگہ ضميمہ كركے مطالعہ كريں تو ھم ديكھيں گے:
يہ تمام مجموعہ ايك چھوٹے عالم كي طرح ايك نظام كي پيروي كرتا ھے يھاں تك كہ اگر تمام وسيع و عريض عالم كو جمع كريں اور انساني علم و سائنس كے جديد وسائل جيسے ٹلسكوپ "Telescop"وغيرہ كے ذريعہ كشف ھونے والي چيزوں كو ملاحظہ كريں تو جو نظام اور قوانين ايك چھوٹے نظام ميں ديكھے جاتے ھيں ان ھي كو مشاہدہ كريں گے، اور اگر عالَموں كو ايك دوسرے سے جدا كركے تجزيہ و تحليل كريں يھاں تك كہ ايك چھوٹے سے ”مولكل“"Molecule" (يعني كسي چيز كا سب سے چھوٹا جز )كو بھي ديكھيں گے تو ملاحظہ فرمائيں گے كہ اس كا نظام اس عظيم جھان سے كچھ بھي كم نھيں ھے، حالانكہ يہ تمام موجودات ايك دوسرے سے بالكل الگ ھيں۔
المختصر يہ كہ تمام عالموں كا مجموعہ ايك موجود ھے، اور اس پر ايك ھي نظام كي حكومت ھے، نيز اس عالم كے تمام اجزاء و ذرات اپنے اختلاف كے باوجود ايك ھي نظام كے مسخر ھيں۔
(( وَعَنَتْ الْوُجُوہُ لِلْحَي الْقَيوم۔۔۔))۔271
”اس دن سارے چھرے خدائے حي وقيوم كے سامنے جھكے ھوںگے۔“
اس آيہ شريفہ سے معلوم ھوتا ھے كہ ان تمام مخلوقات كا پيدا كرنے والا اور ان كي تدبير كرنے والا خداوندعالم ھے۔
(( وَإِلَہُكُمْ إِلَہٌ وَاحِدٌ لاَإِلَہَ إِلاَّ ہُوَ الرَّحْمَانُ الرَّحِيمُ))۔ 272
”اور تمھار ا خدا بس ايك ھے ۔اس كے علاوہ كوئي خدا نھيں ھے وھي رحمن بھي ھے اور وھي رحيم بھي “۔

فرشتے
قرآن مجيد كي تقريباً 90 آيات ميں فرشتوں كا ذكر ھوا ھے۔
قرآن كريم نے فرشتوں كے دشمن كو كافر شمار كيا ھے، اور ملائكہ كا انكار كرنے والوں كو گمراہ قرار دياھے۔
((مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِلَّہِ وَمَلاَئِكَتِہِ وَرُسُلِہِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَالَ فَإِنَّ اللهَ عَدُوٌّ لِلْكَافِرِينَ))۔ 273
”اورجو بھي اللہ، ملائكہ، مرسلين، جبرئيل و مكائيل كا دشمن ھوگا، اسے معلوم رھے كہ خدا بھي تمام كافروں كا دشمن ھے“۔
(( ۔۔۔ وَمَنْ يكْفُرْ بِاللهِ وَمَلاَئِكَتِہِ وَكُتُبِہِ وَرُسُلِہِ وَالْيوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلًا بَعِيدًا))۔ 274
”۔۔۔اورجو شخص اللہ، ملائكہ، آسماني كتابوں، رسولوں اور روز قيامت كا انكار كرے گا وہ يقينا گمراھي ميں بھت دور نكل گيا ھے“۔
نہج البلاغہ كے پھلے خطبہ ميںحضرت علي عليہ السلام فرشتوں كے سلسلہ ميں بيان فرماتے ھيں:
”بعض سجدہ ميں ھيں تو ركوع كي نوبت نھيں آتي ھے، بعض ركوع ميں ھيں تو سر نھيں اٹھاتے، بعض صف باندھے ھوئے ھيں تو اپني جگہ سے حركت نھيں كرتے، بعض مشغول تسبيح ھيں تو خستہ حال نھيں ھوتے، سب كے سب وہ ھيں كہ ان كي آنكھوں پر نيند كا غلبہ ھوتا ھے اور نہ عقلوں پر سھوو نسيان كا، نہ بدن ميں سستي پيدا ھوتي ھے اور نہ دماغ ميں نسيان كي غفلت۔
ان ميں سے بعض كو وحي كا امين بنايا ھے اور رسولوں كي طرف قدرت كي زبان بنايا گيا ھے جو اس كے فيصلوں اور احكام كو برابر لاتے رھتے ھيں، اور كچھ بندوں كے محافظ اور جنت كے دروازوں كے دربان ھيں اوران ميں بعض وہ بھي ھيں جن كے قدم زمين كے آخري طبقہ ميں ثابت ھيں اور گردنيں بلند ترين آسمانوں سے بھي باھر نكلي ھوئي ھيں، ان كي اطراف بدن اقطار عالم سے وسيع تر ھيں اور ان كے كاندھے پايہ ھاي عرش اٹھانے كے قابل ھيں، ان كي نگاھيں عرش الٰھي كے سامنے جھكي ھوئي ھيں، اور وہ اس كے نيچے پروں كو سميٹے ھوئے ھيں، ان كے اور ديگر مخلوقات كے درميان عزت كے حجاب اور قدرت كے پردے حائل ھيں، وہ اپنے پروردگار كے بارے ميں شكل و صورت كا تصور بھي نھيں كرتے ھيں، نہ اس كے حق ميں مخلوقات كے صفات جاري كرتے ھيں، وہ نہ اسے مكان ميں محدود كرتے ھيں اور نہ اس كي طرف اشباہ و نظائر سے اشارہ كرتے ھيں۔275
جي ھاں، فرشتے بھي عالم غيب كے مصاديق ھيں جن كے بارے ميں قرآن مجيد اور روايات ميں بيان ھوا ھے، انساني زندگي سے رابطہ كے پيش نظر خصوصاً نامہ اعمال لكھنے، انسان كے اچھے برے اعمال يا ان كي گفتگو اور زحمتوں كے لكھنے كے لئے معين ھيں، يھي فرشتے ان كي روح قبض كرنے اور اھل جہنم پر عذاب دينے پر بھي مامور ھيں، ملائكہ پر ايمان ركھنے سے انسان كي زندگي پر مثبت آثار پيدا ھوتے ھيں، اور خداوندعالم كي اس نوراني مخلوق پر اعتقاد ركھنا معنوى زيبائيوں ميں سے ھے۔

برزخ
موت كے بعد سے روز قيامت تك كي مدت كو قرآني اصلاح ميں برزخ كھا جاتا ھے۔
اس دنيا سے رخصت ھونے والے افراد پھلے برزخ ميں وارد ھوتے ھيں، اپنے عقائد و اعمال اور اخلاق كي بنا پر ان كي ايك زندگي ھوتي ھے، يہ ايك ايسي زندگي ھے جو نہ دنيا كي طرح ھے اور نہ آخرت كي طرح ھے۔
((حَتَّي إِذَا جَاءَ اٴَحَدَھم الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِي ۔لَعَلِّي اٴَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلاَّ إِنَّھا كَلِمَةٌ ہُوَ قَائِلُھا وَمِنْ وَرَائِھم بَرْزَخٌ إِلَي يوْمِ يبْعَثُونَ))۔ 276
”يھاں تك كہ جب ان ميں كسي كي موت آگئي تو كہنے لگا كہ پروردگار مجھے پلٹا دے ۔شايد ميں اب كوئي نيك عمل انجام دوں۔ھر گز نھيں يہ ايك بات ھے جو يہ كہہ رھا ھے اور ان كے پيچھے ايك عالم برزخ ھے جو قيامت كے دن تك قائم رہنے والا ھے“۔
ليكن چونكہ قانون خلقت نہ نيك افراد كو اور نہ برے لوگوں كودنيا ميں واپس پلٹنے كي اجازت ديتا، لہٰذا ان كو اس طرح جواب ديا جائے گا: ”نھيں نھيں، ھرگز پلٹنے كا كوئي راستہ نھيں ھے“، اور يھي جواب انسان كي زبان بھي جاري ھوگا، ليكن يہ جملہ بے اختيار اور يونھي اس كي زبان پر جاري ھوگا، يہ وھي جملہ ھوگا كہ جب كوئي بدكار انسان يا كوئي قاتل اپنے كئے كي سزا كو ديكھتا ھے تو اس كي زبان پر بھي يھي جملہ ھوتا ھے، ليكن جب سزا ختم ھوجاتي ھے يا بلاء دور ھوجاتي ھے تو وہ انسان پھر وھي پرانے كام شروع كرديتا ھے۔
آيت كے آخر ميں ايك چھوٹا سا ليكن پُر معني اور اسرار آميز جملہ برزخ كے بارے ميں بيان ھوا ھے:” اس كے بعد روز قيامت تك كے لئے برزخ موجود ھے“۔
در اصل دو چيزوں كے درميان حائل ھونے والي چيز كو برزخ كھتے ھيں، اس كے بعد سے دو چيزوں كے درميان قرار پانے والي چيز كو برزخ كھا جانے لگا، اسي وجہ سے دنيا و آخرت كے درميان قرار پانے والے عالم كو ”عالم برزخ “كھا جاتا ھے۔
عالم قبر يا عالم ارواح كے سلسلہ ميں منقولہ دلائل موجود ھيں، قرآن مجيد كي بھت سي آيات برزخ پر دلالت كرتي ھيں جن ميں سے بعض بطور اشارہ اور بعض صراحت كے ساتھ بيان كرتي ھيں۔
آيہ كريمہ (( وَمِنْ وَرَائِھم بَرْزَخٌ إليٰ يوْمِ يبْعَثُوْنَ))، عالم برزخ كے بارے ميں واضح ھے۔
جن آيات ميں وضاحت كے ساتھ عالم برزخ كے بارے ميں بيان كيا گيا ھے وہ شہداء كے سلسلہ ميں نازل ھوئيں ھيں، جيسے:
(( وَلاَتَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللهِ اٴَمْوَاتًا بَلْ اٴَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّھم يرْزَقُونَ))۔ 277
”اور خبر دار راہ خدا ميں قتل ھونے والوںكو مردہ خيال نہ كرنا وہ زندہ ھيں اور اپنے پروردگار كے يھاں رزق پارھے ھيں“۔
نہ صرف يہ كہ شہداء كے لئے برزخ موجود ھے بلكہ كفار، فرعون جيسے ظالم وجابر اور اس كے ساتھيوںكے بارے ميں برزخ موجود ھے، سورہ مومن كي آيت نمبر 26 ميں اس چيزكي طرف اشارہ كيا گيا ھے:
((النَّارُ يعْرَضُونَ عَلَيھا غُدُوًّا وَعَشِيا وَيوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ اٴَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ اٴَشَدَّ الْعَذَابِ))
”وہ جہنم جس كے سامنے ھر صبح و شام پيش كئے جاتے ھيں اور جب قيامت برپا ھوگي تو فرشتوں كو حكم ھوگا كہ فرعون والوں كو بدترين عذاب كي منزل ميں داخل كردو“۔
شيعہ سني مشھور كتابوں ميں بھت سي روايات بيان ھوئي ھيں جن ميں عالم برزخ، عالم قبر اور عالم ارواح كے بارے ميں مختلف الفاظ وارد ھوئے ھيں، چنانچہ نہج البلاغہ ميں وارد ھوا ھے كہ جب حضرت امير المومنين عليہ السلام جنگ صفين كي واپسي پر كوفہ كے اطراف ميں ايك قبرستان سے گزرے تو قبروں كي طرف رخ كركے فرمايا:
”اے وحشت ناك گھروں كے رہنے والو! اے ويران مكانات كے باشندو! اور تاريك قبر كے بسنے والو! اے خاك نشينو! اے غربت، وحدت اور وحشت والو! تم ھم سے آگے چلے گئے ھو اور ھم تم سے ملحق ھونے والے ھيں، ديكھو تمھارے مكانات آباد ھوچكے ھيں تمھاري بيويوں كا دوسرا عقد ھوچكا ھے اور تمھارے اموال تقسيم ھوچكے ھيں، يہ تو ھمارے يھاں كي خبر ھے، اب تم بتاؤ كہ تمھارے يھاں كي خبر كيا ھے؟
اس كے بعد اصحاب كي طرف رخ كركے فرمايا: اگر انھيں بولنے كي اجازت مل جاتي تو تمھيں صرف يہ پيغام ديتے كہ بھترين زاد راہ؛ تقويٰ الٰھي ھے“۔
حضرت امام سجاد عليہ السلام سے روايت ھے:
”اِنَّ الْقَبْرَ اِمّا رَوْضَةٌ مِنْ رِياضِ الْجَنَّةِ، اَوْ حُفْرَةٌ مِنْ حُفَرِ النّيرانِ“۔
”قبر جنت كے باغوں ميں سے ايك باغ ھے، يا جہنم كے گڑھوں ميں سے ايك گڑھا ھے“۔
حضرت امام صادق عليہ السلام سے منقول ھے:
”اَلبَرْزَخُ الْقَبْرُ، وَھُوَ الثَّوابُ وَالْعِقابُ بَينَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةُ۔۔۔وَاللّٰہِ مَانَخافُ عَلَيكُم اِلاَّ الْبَرْزَخَ“۔
”برزخ وھي قبر ھے كہ جھاں دنيا و آخرت كے درميان عذاب يا ثواب ديا جائے گا، خدا كي قسم، ھم تمھارے بارے ميں برزخ سے ڈرتے ھيں“۔
رواي نے حضرت امام صادق عليہ السلام سے سوال كيا: برزخ كيا ھے؟ تو امام عليہ السلام نے فرمايا:
القَبْرُ مُنْذُ حينِ مَوْتِہِ اِليٰ يوْمِ القِيامَةِ“۔
”موت سے لے كر روز قيامت تك قبر ميں رہنے كا نام ھي برزخ ھے“۔
عظيم الشان كتاب ”كافي“ ميں حضرت امام صادق عليہ السلام سے روايت ھے:
”في حُجُراتٍ فِي الجَنَّةِ ياٴْكُلُونَ مِنْ طَعامِھا، وَ يشْرَبُونَ مِنْ شَرابِھا، وَيقولُونَ :رَبَّنا اَقِمْ لَنَا السَّاعَةَ، وَانْجِزْ لَنا ما وَعَدْتَنا“۔
”مرنے كے بعد مومنين كي ارواح جنت كے حجروں ميں رھتي ھے، (وہ لوگ) جنتي غذا كھاتے ھيں، جنت كا پاني پيتے ھيں، اور كھتے ھيں: پالنے والے! جتنا جلدي ھوسكے روز قيامت برپا كردے اور ھم سے كئے ھوئے وعدہ كووفا فرما“۔
عالم برزخ پر عقيدہ كے سلسلہ ميں قرآن مجيد اور روايات ميں بيان موجود ھے، جو معنوى زيبائيوں ميں سے ھے، جس پر توجہ ركھنے سے نيك افراد اور بدكار لوگوں كي زندگي پر مفيد آثار برآمد ھوتے ھيںاور جس سے انسان تقويٰ، پرھيزگاري اور ظاھر و باطن كي پاكيزگي حاصل ھوتي ھے۔

محشر
روز قيامت اور روز محشرايك ايسي حقيقت ھے جس كے با رے ميں تمام آسماني كتابوں، انبياء كرام اور ائمہ معصومين عليہم السلام نے خبر دي ھے جھاں پر تمام لوگ اپني نيكي يا بدي كي جزا يا سزا پائےں گے ۔
روز قيامت پر اعتقاد ركھنا ايمان كا ايك حصہ ھے اور اس كا انكار كرنا كفر ھے۔
قرآن مجيد ميں ايك ہزار آيات سے زيادہ اور بھت سي احاديث ميں قيامت سے متعلق تفصيلي بيان ھوا ھے:
((رَبَّنَا إِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِيوْمٍ لاَرَيبَ فِيہِ إِنَّ اللهَ لاَيخْلِفُ الْمِيعَادَ))۔ 278
” خدا يا! تو تمام انسانوں كواس دن جمع كرنے والا ھے جس ميں كوئي شك نھيں ھے ۔اور اللہ كا وعدہ غلط نھيں ھوتا “۔
((فَكَيفَ إِذَا جَمَعْنَاھم لِيوْمٍ لاَرَيبَ فِيہِ وَوُفِّيتْ كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَھم لاَيظْلَمُونَ))۔ 279
”اس وقت كيا ھوگا جب ھم سب كو اس دن جمع كريں گے جس ميں كسي شك اور شبہہ كي گنجائش نھيں ھے اورھر نفس كو اس كے كئے كا پورا پورا بدلہ ديا جائے گا اور كسي پر (ذرہ برابر) ظلم نھيں كيا جائے گا“۔
((وَلَئِنْ مُتُّمْ اٴَوْ قُتِلْتُمْ لَإِلَي اللهِ تُحْشَرُون))۔ 280
”اور تم اپني موت سے مرو يا قتل ھو جاوٴسب اللہ ھي كي بارگاہ ميں حاضر كئے جاوٴگے“۔
(( ۔۔۔وَاتَّقُوا اللهَ الَّذِي إِلَيہِ تُحْشَرُونَ))۔ 281
”۔۔۔اور اس خدا سے ڈرتے رھو جس كي بارگاہ ميں حاضر ھونا ھے“۔
(( ۔۔۔لَيجْمَعَنَّكُمْ إِلَي يوْمِ الْقِيامَةِ لاَرَيبَ فِيہِ۔۔۔))۔282
”۔۔۔وہ تم سب كو قيامت كے دن اكٹھا كرے گا جس ميں كسي شك كي گنجائش نھيںھے۔۔۔“۔
(( ۔۔۔وَالْمَوْتَي يبْعَثُھم اللَّہُ ثُمَّ إِلَيہِ يرْجَعُونَ))۔ 283
”۔۔۔اور مردوں كو تو خدا ھي اٹھا ئے گا اور پھر اس كي بارگاہ ميں پلٹا دئے جائيں گے“۔
(( ۔۔۔وَسَيرَي اللهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُہُ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَي عَالِمِ الْغَيبِ وَالشَّھادَةِ فَينَبِّئُكُمْ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ))۔ 284
”وہ يقينا تمھارے اعمال كو ديكھ رھا ھے اور رسول بھي ديكھ رھا ھے اس كے بعد تم حاضر وغيب كے عالم خدا كي بارگاہ ميں واپس كئے جاوٴگے اور وہ تمھيں تمھارے اعمال سے با خبر كرے گا“۔
(( ثُمَّ إِنَّكُمْ بَعْدَ ذَلِكَ لَمَيتُونَ۔ ثُمَّ إِنَّكُمْ يوْمَ الْقِيامَةِ تُبْعَثُونَ))۔ 285
”پھر اس كے بعد تم سب مر جانے والے ھو۔پھر اس كے بعد تم روز قيامت دوبارہ اٹھائے جاوٴگے“۔
(( لاَ اٴُقْسِمُ بِيوْمِ الْقِيامَةِ۔ وَلاَاٴُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ ۔ اٴَيحْسَبُ الْإِنسَانُ اٴَلَّنْ نَجْمَعَ عِظَامَہُ۔ بَلَي قَادِرِينَ عَلَي اٴَنْ نُسَوِّي بَنَانَہُ))۔ 286
”ميں روز قيامت كي قسم كھاتا ھوں۔اور برائيوں پر ملامت كرنے والے نفس كي قسم كھاتا ھوں۔كيا يہ انسان يہ خيال كرتا ھے كہ ھم اس كي ہڈيوں كو جمع نہ كرسكيں گے۔يقينا ھم اس بات پر قادر ھيں كہ اس كي انگليوں كے پورتك درست كرسكيں“۔
حضرت امام صادق عليہ السلام فرماتے ھيں: جناب جبرئيل حضرت رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كي خدمت ميں حاضر ھوئے او رآنحضرت كو قبرستان بقيع ميں لے گئے، آپ كو ايك قبر كے پاس بٹھايا اور اس قبر كے مردہ كو آواز دي كہ بہ اذن الٰھي اٹھ كھڑا ھو، وہ فوراً باھر آگيا! ايك ايسا شخص جس كے سر اور داڑھي كے بال سفيد تھے قبر سے باھر نكلادر حاليكہ اپنے منھ سے گردوخاك ہٹاتے ھوئے كھتا تھا:”الحمد لله و الله اكبر“، اس وقت جناب جبرئيل نے اس سے كھا: بہ اذن خدا واپس ھوجا، اس كے بعد پيغمبر اكرم كو ايك دوسري قبر كے پاس لے گئے اور اس سے كھا: حكم خدا سے اٹھ كھڑا ھو، چنانچہ ايك شخص نكلا جس كا چھرہ سياہ تھا اور كہنے لگا: ھائے افسوس! ھائے ھلاكت و بيچارگى! چنانچہ جناب جبرئيل نے اس سے كھا: حكم خدا سے واپس ھوجا۔ اس كے بعد جناب جبرئيل نے كھا: اے محمد! تمام مردے اسي طرح سے روز قيامت محشور ھوں گے۔287
لقمان حكيم اپنے بيٹے كو نصيحت كرتے ھوئے فرماتے ھيں:اے ميرے بيٹے! اگر تمھيں مرنے ميں شك ھے تو سونا چھوڑو ليكن نھيں چھوڑسكتے، اگر روز قيامت قبر سے اٹھائے جانے ميں شك ركھتے ھو تو بيدار رہنا چھوڑدو ليكن نھيں چھوڑسكتے، لہٰذا اگر سونے اور جاگنے ميں غور و فكر كرو تو يہ بات سمجھ ميں آجائے گي كہ تمھارا اختيار كسي دوسرے كے ھاتھ ميں ھے، بے شك نيند موت كي طرح ھے اور بيداري اور جاگنا مرنے كے بعد قبر سے اٹھانے كي مانند ھے۔288
بھر حال پورے قرآن كريم ميں قيامت اور اس كے صفات كے بارے ميں بھت زيادہ تكرار، تاكيد اور وضاحت كے ساتھ بيان ھوا ھے، صرف بعض مقامات پر استدلال اور برھان بيان ھوا، برخلاف اثبات توحيد كے كہ جھاں پر دليل و برھان كے ساتھ ساتھ خداوندعالم كي قدرت و حكمت كا بيان بھي ھوا ھے، كيونكہ جب انسان توحيد خدا كو قبول كرليتا ھے تو اس كے لئے معاد اور قيامت كا مسئلہ واضح ھوجاتا ھے۔
اسي وجہ سے قرآن مجيد ميں روز قيامت كي تشريح و توصيف سے پھلے يا اس كے بعد خدا كي قدرت و توانائي كے بارے ميں بيان ھوا ھے، درحقيقت خداوندعالم كے وجود كے دلائل يقيني طور پر معاد كے دلائل بھي ھيں۔
جھاں پر روز قيامت اور مردوں كے زندہ ھونے پر واضح دليل بيان ھوئي ھے، وھاں بھي يھي دليل و برھان قائم كي گئي ھے؛ كيونكہ كوئي بھي يہ نھيں كھتا: قيامت كا ھونا كيوں ضروري ھے؟ تاكہ گناھوں كے بارے ميں فيصلہ ھوسكے، اور نيك افراد اور برے لوگوں كو جزا يا سزا دي جاسكے، اس پر كوئي اعتراض نھيں كرتا بلكہ انكار كرنے والوں كا اعتراض اور اشكال يہ ھوتا ھے كہ كس طرح يہ جسم خاك ميں ملنے كے بعد دوبارہ زندہ ھوگا؟ اسي وجہ سے خداوندعالم نے واضح طور پر يا دلائل توحيد كے ضمن ميںروز قيامت كے دلائل سے زيادہ منكرين كے لئے جواب دئے ھيں تاكہ منكرين سمجھ ليں كہ جس قدرت خدا كے ذريعہ يہ كائنات خلق ھوئي ھے اسي قدرت كے پيش نظر قيامت كوئي مشكل كام نھيں ھے، وھي خالق جس نے شروع ميں حيات اور وجود بخشا تو اس كے لئے دوبارہ زندہ كرنا اور دوبارہ حيات دينا كوئي مشكل كام نھيں ھے۔
قرآن مجيد نے منكرين، مخالفين اور ملحدين كے اعتراض كو سورہ يٰس ميں اس طرح بيان كيا ھے:
(( اٴَوَلَمْ يرَ الْإِنسَانُ اٴَنَّا خَلَقْنَاہُ مِنْ نُطْفَةٍ فَإِذَا ہُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ۔ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلاً وَنَسِي خَلْقَہُ قَالَ مَنْ يحْي الْعِظَامَ وَہِي رَمِيمٌ۔ قُلْ يحْييھا الَّذِي اٴَنشَاٴَھا اٴَوَّلَ مَرَّةٍ وَہُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ))۔ 289
”توكيا انسان نے يہ نھيں ديكھا كہ ھم نے اسے نطفہ سے پيدا كيا ھے اور وہ
يكبارگي ھمارا كھلا ھوا دشمن ھوگيا ھے۔اور ھمارے لئے مثل بيان كرتا ھے اور اپني خلقت كو بھول گيا ھے كھتا ھے كہ ان بوسيدہ ہڈيوں كو كون زندہ كر سكتا ھے۔ (اے رسول!) آپ كہہ ديجئے كہ جس نے پھلي مرتبہ پيدا كيا ھے وھي زندہ بھي كرے گا اور وہ ھر مخلوق كا بھتر جاننے والا ھے“۔
ان آيات ميں پھلے انسان كو يہ سمجھايا گيا ھے كہ تو پھلے تو كچھ نھيں تھا اور ايك نطفہ سے زيادہ ارزش نھيں ركھتا تھا، لہٰذا انسان كو غور و فكر كي دعوت دي جاتي ھے كہ كيا انسان تونے نھيں ديكھا، توجہ نھيں كى، غور وفكر نھيں كيا كہ ھم نے تجھے ايك نطفہ سے خلق كيا ھے اور اب اتناطاقتور، صاحب قدرت اور باشعور ھوگيا كہ اپنے پروردگار سے مقابلہ كے لئے كھڑا ھوگيا اور علي الاعلان اس سے پر برسرپيكارھے؟!
پھلے انسان كو مخاطب كياگيا ھے، يعني ھر انسان چاھے كسي مذھب كا ماننے والا ھو يا اس كا علم و دانش كسي بھي حد ميں ھو اس حقيقت كو درك كرسكتا ھے۔
اس كے بعد نطفہ كے بارے ميں گفتگو كي ھے، (لغت ميں نطفہ كے معني ناچيز او ربے ارزش پاني كے ھيں)تاكہ انسان مغرور نہ ھوجائے لہٰذا تھوڑا بھت اپني ابتداء كے بارے ميں بھي جان لے كہ وہ پھلے كيا تھا؟ اس كے علاوہ صرف يھي ايك ناچيز قطرہ اس كي رشد و نمو كے لئے كافي نھيں تھا بلكہ اس ايك قطرہ ميں چھوٹے چھوٹے ہزاروں سلولز تھے جو آنكھوں سے نھيں ديكھے جاسكتے اور يہ زندہ سلولز رحم مادر ميں بھت چھوٹے سلولز سے باھم ملے اور انسان ان چھوٹے موجود سے وجود ميں آيا ھے۔
اپنے رشد و نمو كي منزل كو يكے بعد ديگرے طے كيا، سورہ مومنون كي ابتدائي آيات نے ان چھ مراحل كي طرف اشارہ كيا ھے: نطفہ، علقہ (مضغہ) ہڈيوں كا ظاھر ھونا، ہڈيوں پر گوشت پيدا ھونا اور آخر ميں روح كي پيدائش اور حركت۔
انسان پيدائش كے وقت ضعيف و ناتواں بچہ تھا، اس كے بعد تكامل كے مرحلوں كو تيزي كے ساتھ طے كيا يھاں تك كہ عقلاني اور جسماني بلوغ تك پہنچ گيا۔
يہ كمزور اور ناتواں بچہ اس قدر طاقتور ھوا كہ خدا كے مد مقابل كھڑا ھوگيا، اس نے اپني عاقبت كو بالكل ھي بھلاديااور ”خصيم مبين“ كا واضح مصداق بن گيا۔
انسان كي جھالت كا اندازہ لگائيں كہ ھمارے لئے مثال بيان كرتا ھے اور اپنے زعم ناقص ميں داندان شكن دليل حاصل كرلي ھے، حالانكہ اپنے پھلے وجود كو بھول گيا ھے اور كھتا ھے: ان بوسيدہ ہڈيوں كو زندہ كرنے والا كون ھے ؟!
جي ھاں، وہ منكر معاند(دشمن) خصيم مبين (كھلا ھوا دشمن) بغض و كينہ ركھنے والااور بھول جانے والا، جنگل بيابان سے ايك بوسيدہ ہڈي كو پاليتا ھے جس ہڈي كے بارے ميں يہ بھي معلوم نھيں ھے كہ كس كي ھے؟ اپني موت پر مرا ھے يا زمان جاھليت كي جنگ ميں دردناك طريقہ سے ماراگيا ھے يا بھوك كي وجہ سے مرگيا ھے؟ بھر حال ہڈي كو پاكر يہ سوچتا تھا كہ قيامت كے انكار پر ايك دندان شكن دليل مل گئي ھے، غصہ اور خوشحالي كي حالت ميں اس ہڈي كو اٹھاكر كھتا ھے: اسي دليل كے سھارے ميں محمد ( صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم ) سے ايسا مقابلہ كروں گا جس كا كوئي جواب نہ ديا جاسكے!
تيزي كے ساتھ چل كر آنحضرت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كے پاس آيا اور فرياد بلند كى: ذرا بتائےے تو سھي كہ اس بوسيدہ ہڈي كو كون دوبارہ لباس ِحيات پہناسكتا ھے؟ اس كے بعد اس ہڈي كو مسلتے ھوئے زمين پر ڈال ديا، وہ سوچتا تھا كہ رسول خدا ( صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم ) كے پاس اس كو كوئي جواب نھيں پن پائے گا۔
قابل توجہ بات يہ ھے كہ قرآن مجيد نے ايك چھوٹے سے جملہ (( نسي خلقہ)) كے ذريعہ پورا جواب ديديا، اگرچہ اس كے بعد مزيد وضاحت اور دلائل بھي بيان كئے ھيں۔
ارشاد ھوا: اگر تو نے اپني پيدائش كو نہ بُھلايا ھوتا تو اس طرح كي بے بنياد دليل نہ ديتا؛ اے بھولنے والے انسان! ذرامڑكرتو ديكھ اور اپني پيدائش كے بارے ميں غور و فكر كر كہ اول خلقت ميں كس قدر ذليل پاني تيرا وجود تھا، ھر روز ايك نئي زندگي كي شروعات تھى، تو ھميشہ موت و معاد كي حالت ميں ھے، ليكن اے بھولنے والے انسان! تو نے سب كچھ بالائے طاق ركھ ديا اور اپني خلقت كو بھول گيا اور اب پوچھتا ھے كہ كون اس بوسيدہ ہڈي كو دوبارہ زندہ كرسكتا ھے؟يہ ہڈي جب مكمل طور پر بوسيدہ ھوجائے گي تو خاك بن جائے گى، كيا تو روز اول خاك نھيں تھا؟! فوراً ھي پيغمبر كو حكم ھوتا ھے كہ اس مغرور اور بھولنے والے سے كہہ دو: ”وھي اس كو دوبارہ زندہ كرے گا جس نے روز اول اس كو پيدا كيا ھے“۔290
اگر آج يہ بوسيدہ ہڈي باقي رہ گئي ھے تو پھلے تو يہ ہڈي بھي نھيں تھي يھاں تك كہ مٹي اور خاك بھي نھيں تھى، جي ھاں جس نے اس انسان كو عدم كي وادي سے وجود عطا كيا تو اس كے لئے بوسيدہ ہڈي سے دوبارہ پيدا كرنا بھت آسان ھے۔
اگر تو يہ سوچتا ھے كہ يہ بوسيدہ ہڈياں خاك ھوكر تمام جگھوں پر پھيل جائيں گى، تو ان ہڈيوںكو كون پہچان سكتا ھے اور كون ان كو مختلف جگہ سے جمع كرسكتا ھے؟ تو اس چيز كا جواب بھي واضح اور روشن ھے كہ وہ تمام مخلوقات سے آگاہ ھے اور اس كي تمام خصوصيات كو جانتا ھے:
((وَہُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ))
”اور وہ ھر مخلوق كا بھترين جاننے والا ھے“۔
جس كے پاس اس طرح كا علم اور قدرت ھو تو اس كے لئے معاد اور مردوں كو دوبارہ زندہ كرنا كوئي مشكل كام نھيں ھے۔
ايك مقناطيس كے ذريعہ مٹي كے نيچے بكھرے ھوئے لوھے كے ذرات كو جمع كيا جاسكتا ھے جبكہ
يہ مقناطيس ايك بے جان چيز ھے، تو كياخداوندعالم انسان كے بكھرے ھوئے ھر ذرہ كو ايك اشارہ سے جمع نھيں كرسكتا؟
وہ نہ صرف انسان كي خلقت سے آگاہ ھے بلكہ انسان كي نيتوں اور اس كے اعمال سے بھي آگاہ ھے، انسان كا حساب و كتاب اس كے نزديك واضح و روشن ھے۔
لہٰذا اس كے اعمال، اعتقادات اور نيتوں كا حساب كرنا اس كے لئے كوئي مشكل نھيں ھے:
(( ۔۔۔ وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي اٴَنفُسِكُمْ اٴَوْ تُخْفُوہُ يحَاسِبْكُمْ بِہِ۔۔۔))۔ 291
”۔۔۔تم اپنے دل كي باتوں كا اظھار كرو يا ان پر پردہ ڈالو، وہ سب كا محاسبہ كرلے گا۔۔۔“۔
اسي وجہ سے جناب موسيٰ عليہ السلام كو حكم ملا كہ فرعون (جو معاد كے بارے ميں شك كرتا تھا اور صديوں پرانے لوگوں كو دوبارہ زندہ كرنے اور ان كے حساب و كتاب سے تعجب كرتا تھا)سے كہہ دو :
(( ۔۔۔ عِلْمُھا عِنْدَ رَبِّي فِي كِتَابٍ لاَيضِلُّ رَبِّي وَلاَينسَي))۔ 292
”۔۔۔ان باتوں كا علم ميرے پروردگار كے پاس اس كا كتاب ميں محفوظ ھے، وہ نہ بہكتا ھے اور نہ بھولتا ھے“۔293
بھر حال روز قيامت، روز محشر اورحساب و كتاب كا مسئلہ غيب كے مصاديق ميں سے ھے، جس پرقرآني آيات اور روايات كي روشني ميں اعتقاد اور ايمان ركھنا معنوى اور روحاني زبيائيوں ميں سے ھے، جس سے انسان رشد و كمال كے درجات اور صحيح تربيت حاصل كرليتاھے، جو انساني زندگي ميں بھت موثر اور ثمر بخش نتائج كا حامل ھے۔

حساب
روز قيامت ميں تمام انسانوں كے عقائد، اخلاق اور اعمال كا حساب و كتاب ايك ايسي حقيقت ھے جس كو قرآن كريم اور معارف الٰھي نے تفصيل كے ساتھ بيان كيا ھے۔
يہ بات قابل قبول نھيں ھے كہ نيك افراد صدق و صفا، اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ ميں اپني پوري عمر بسر كريں اور دوسروں كو بھي فيض پہنچائيں، اور ان كے مرنے كے بعد ان كے اعمال كي فائل بند ھوجائے اور ان كا حساب و كتاب نہ كيا جائے، ان كي زندگي كي كتاب كا دوبارہ مطالعہ نہ كيا جائے اور ان كو كوئي جزا يا انعام نہ ملے۔
اسي طرح يہ بات بھي قابل قبول نھيں ھے كہ ناپاك كفارو مشركين، ملحداور اھل طاغوت، ظلم و ستم، جھالت و غفلت، پستي و ناپاكى، خيانت و ظلم اور غارت گري ميں اپني پوري عمر گزار نے والے، لوگوں پر ظلم و ستم كريں ان كو اذيت پہنچائيں، بھت سے افراد كو ان كے حق سے محروم كرديں، ان كے مرنے كے بعد ان كے اعمال كي فائل بند كردي جائے، ان كا كوئي حساب و كتاب نہ كيا جائے، ان كي زندگي كي كتاب كا دوبارہ مطالعہ نہ كيا جائے اور ان كو كيفر كردار تك نہ پہنچايا جائے۔
خداوندعالم كے عدل، حكمت، رحمت اور غضب كا تقاضا ھے كہ ايك روز تمام انسانوں كو جمع كرے، ان كے عقائد اور اعمال كا حساب كرے، اور ھر شخص كو اس كے نامہ اعمال كے لحاظ سے جزا يا سزا دے۔
نيك اور صالح افراد كے حساب و كتاب كے بارے ميں قرآن مجيد فرماتا ھے:
(( وَمِنْھم مَنْ يقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ اٴُوْلَئِكَ لَھم نَصِيبٌ مِمَّا كَسَبُوا وَاللهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ))۔ 294
”اور بعض كھتے ھيں كہ پروردگار ھميں دنيا ميں بھي نيكي عطا فرمااور آخرت ميں بھي اور ھم كو عذاب سے محفوظ فرما۔يھي وہ لوگ ھيں جن كے لئے ان كي كمائي كا حصہ ھے اور خدا بھت جلد حساب كرنے والا ھے“۔
(( ثُمَّ رُدُّوا إِلَي اللَّہِ مَوْلاَھم الْحَقِّ اٴَلاَلَہُ الْحُكْمُ وَہُوَ اٴَسْرَعُ الْحَاسِبِينَ))۔ 295
”پھر سب اپنے مولائے برحق پروردگار كي طرف پلٹا ديئے جاتے ھيں ۔۔۔آگاہ ھو جاوٴ كہ فيصلہ كا حق صرف اسي كو ھے اور وہ بھت جلد ي حساب كرنے والاھے۔
(( فَاٴَمَّا مَنْ اٴُوتِي كِتَابَہُ بِيمِينِہِ۔فَسَوْفَ يحَاسِبُ حِسَاباً يسِيراً))۔ 296
”پھر جس كو نامہ اعمال داہنے ھاتھ ميں ديا جائے گا۔اس كا حساب آسان ھوگا“۔
حضرت امام موسيٰ كاظم عليہ السلام اپنے آباء و اجداد كے حوالہ سے آنحضرت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم سے روايت فرماتے ھيں كہ آپ نے فرمايا:
”لَا تَزولُ قَدَما عَبْدٍٴ يوْمَ الْقِيامَةِ حَتّي يسْاٴَلَ عَنْ اٴَرْبَعٍ :عَنْ عُمْرِہِ
فِيما اَفْناہُ، وَشَبابِہِ فِيما اَبْلاہُ وَعَنْ مَالِہِ مِنْ اَينَ كَسَبَہُ وَفِيمااَنْفَقَہُ، وَعَنْ حُبِّنَا اَھل الْبَيتِ“۔297
”روز قيامت انسان كے قدم نھيں بڑھيں گے مگر يہ كہ اس سے چار چيزوں كے بارے ميں سوال كيا جائے : كس چيز ميں اپني عمر گزارى، جواني كو كن چيزوں ميں گزارا، مال و دولت كھاں سے حاصل كي اور كھاں خرچ كى، نيز محبت اھل بيت( عليھم السلام) كے بارے ميں سوال كيا جائے گا“۔
بے شك جن مومنين نے اپني عمر او رجواني كو عبادت و اطاعت ميں صرف كيا ھوگا، اور قرآن كے حكم كے مطابق اپني دولت كو خرچ كيا ھے، اور محبت اھل بيت عليھم السلام ميں اپني عمر گزاري ھے، تو روز قيامت ايسے افراد كا حساب آسان ھوگا، اور حشر كے ميدان ميں ان كو كوئي پريشاني نھيں ھوگى، اور ان كا حساب و كتاب بھت جلد ھوجائے گا۔
ايك شخص امام محمد باقر عليہ السلام كي خدمت ميں عرض كرتا ھے: اے فرزند رسول! ميں آپ كي خدمت ميں ايك حاجت ركھتا ھوں، تو امام عليہ السلام نے فرمايا: مجھ سے مكّہ ميں ملنا، ميںمكّہ ميں حضرت سے ملا اور اپني حاجت كے بارے ميں كھا تو حضرت نے فرمايا: منيٰ ميں مجھ سے ملنا، چنانچہ ميں منيٰ ميں حضرت سے ملااور اپني حاجت كے بارے ميں كھا، تو امام عليہ السلام نے كھا: كھو كيا كہنا چاھتے ھو؟ ميں نے كھا: ميں ايك ايسے گناہ كا مرتكب ھوا ھوں كہ خدا كے علاوہ كوئي اس سے مطلع نھيں ھے، اس گناہ كا بوجھ مجھے مارے ڈال رھا ھے، ميں آپ كي خدمت ميں حاضر ھوا ھوں تاكہ اس سے نجات مل جائے، اور اس گناہ كے بوجھ سے سبكدوش ھوجاؤں، تو امام عليہ السلام نے فرمايا: جب خداوندعالم روز قيامت برپا كرے گا اور اپنے مومن بندوں كا حساب كرے گا تو ان كے تمام گناھوں سے آگاہ كرے گا، پھر اپني رحمت و مغفرت ميں جگہ دے گا اور اپنے بندے كے بخشے گئے گناھوں سے كسي فرشتہ يا رسول كو بھي باخبر نھيں كرے گا! 298
مومنين كے حساب كے سلسلے ميں ايك بھت اھم روايت علامہ مجلسي عليہ الرحمہ نے اپني گزانقدر كتاب بحار الانوار ميں امالي شيخ طوسي عليہ الرحمہ كے حوالہ سے حضرت علي عليہ السلام سے نقل كي ھے، جو واقعاً تعجب خيز اور اميدوار كرنے والي ھے! روايت يوں ھے:
”يوقَفُ الْعَبْدَ بَينَ يدَي اللّٰہِ فَيقُولُ :قيسُوا بَينَ نِعَمي عَلَيہِ وَ بَينَ عَمَلِہِ، فَتَسْتَغْزِقُ النِّعَمُ الْعَمَلَ، فَيقولونَ:قَدِ اسْتَغْرَقَ النِّعَمُ الْعَمَلَ، فَيقُولُ : ھَبُوا لَہُ نِعَمِى، وَ قيسُوا بَينَ الْخَيرِ وَ الشَّرِّ مِنْہُ، فَاِنِ اسْتَوَي الْعَمَلانِ اَذْھَبَ اللّٰہُ الشَّرَّ بِالْخَيرِ وَاَدْخَلَہُ الْجَنَّةَ، وَاِنْ كانَ لَہُ فَضْلٌ اَعْطاہُ اللّٰہُ بِفَضْلِہِ، وَاِنْ كاَنَ عَلَيہِ فَضْلٌ وَھُوَ مِنْ اَھل التَّقْويٰ لَمْ يشْرِكْ بِاللّٰہِ تَعاليٰ وَاتَّقَي الشِّرْكَ بِہِ فَھُوَ مِنْ اَھل الْمَغْفِرَةِ يغْفِر اللّٰہُ لَہُ بِرَحْمَتِہِ اِنْ شاءَِ وَ يتَفَضَّلُ عَلَيہِ بِعَفْوِہِ“۔299
”بندہ كو خدا كي بارگاہ ميں حاضر كيا جائے گا اور خدا فرمائے گا:ميري نعمتوں اور اس كے اعمال كا موازنہ كرو، چنانچہ جب نعمتيں اس كے تمام اعمال كو چھپاليں گي تو فرشتے عرض كريں گے: پالنے والے! اس كے اعمال پر تيري نعمتيں غالب ھيں، خطاب ھوگا: ميري نعمتوں كو بخش دو، اس كي نيكيوں اور برائيوں كے درميان موازنہ كرو، اگر اس كي نيكياں اور برائياں برابر ھوگئيں تو اس كي برائيوں كو نيكيوں كے احترام ميں بخش دو، اس كو بہشت ميں وارد كردو، اور اگر اس كي نيكياں زيادہ ھيں تو نيكيوں كي وجہ سے اس كو مزيد عطا كردو، اوراگر اس كي برائياں زيادہ ھيں ليكن اھل تقويٰ ھے اور خدا كے ساتھ شرك نھيں كيا ھے، تو يہ شخص مغفرت كا سزاوار ھے، خداوندعالم اگر چاھے تو اپني رحمت كے ذريعہ اس كے گناھوں كو بخش دے گا اور اپنے عفو وكرم سے اس پر فضل و كرم كرے گا!“
علامہ مجلسي رحمة اللہ عليہ اپني كتاب بحار الانوار ميں اصول كافي سے روايت نقل كرتے ھيں كہ حضرت امام صادق عليہ السلام نے فرمايا: روز قيامت نعمتوں، نيكيوں اور برائيوں كے درميان مقائسہ كيا جائے گا۔
نعمتوں اور نيكيوں كا آپس ميں موازنہ كيا جائے گا، نعمتيں، نيكيوں سے زيادہ ھوں گى، برائيوں كي فائل كي شكست ھوگى، مومن انسان كو حساب كے لئے بلايا جائے گا، اس وقت قرآن كريم بھترين صورت ميں اس مومن بندے كے پاس حاضر ھوكر يوں گويا ھوگا: پروردگارا! ميں قرآن ھوں اور يہ تيرا مومن بندہ، اس نے ميري تلاوت كے لئے زحمتيں اٹھائي ھيں، راتوں ميري تلاوت ميں مشغول رھا ھے، نماز شب ميں اپني آنكھوں سے آنسو بھائے ھيں، پالنے والے! اس سے راضي ھوجا، اس وقت خدائے عزيز و جباربندہ مومن سے خطاب فرمائے گا: اپنا داہنا ھاتھ كھول، چنانچہ اس كے داہنے ھاتھ كو اپني رضوان سے بھردے گا اور بائيں ھاتھ كو اپني رحمت سے بھر دے گا، اور پھر اپنے مومن بندہ سے خطاب فرمائے گا: يہ بہشت تيرے لئے مباح ھے، قرآن پڑھتا جا اور بلند و بالادرجات كي طرف بڑھتا جا، چنانچہ انسان جس مقدار ميں قرآن كي آيتوں كي تلاوت كرتا رھے گا اسي مقدار ميں جنت كے درجات پر فائز ھوتا جائے گا۔
گناھگاروں، بدكاروں، ملحدوں اور بے دين لوگوں كے حساب اور ان كے نامہ اعمال كے پڑھے جانے كے سلسلہ ميں قرآن مجيد اور روايات ميں پڑھتے ھيں:
(( ۔۔۔وَمَنْ يكْفُرْ بِآياتِ اللهِ فَإِنَّ اللهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ))۔ 300
”۔۔۔اور جو بھي آيات الٰھي كا انكار كرے گا تو خدا بھت جلد حساب كرنے والاھے“۔
(( ۔۔۔وَالَّذِينَ لَمْ يسْتَجِيبُوا لَہُ لَوْ اٴَنَّ لَھم مَا فِي الْاٴَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَہُ مَعَہُ لَافْتَدَوْا بِہِ اٴُوْلَئِكَ لَھم سُوءُ الْحِسَابِ وَمَاٴْوَاھم جَہَنَّمُ وَبِئْسَ الْمِھادُ))۔ 301
”۔۔۔اور جو اس كي بات كو قبول نھيں كرتے انھيں زمين كے سارے خزانے بھي مل جائيں اور اسي قدر اور بھي مل جائے تو يہ بطور فديہ دے ديں گے ليكن ان كے لئے بد ترين حساب ھے اور ان كا ٹھكانا جہنم ھے اور وہ بھت بُرا ٹھكانا ھے“۔
(( وَكَاٴَينْ مِنْ قَرْيةٍ عَتَتْ عَنْ اٴَمْرِ رَبِّھا وَرُسُلِہِ فَحَاسَبْنَاھا حِسَابًا شَدِيدًا وَعَذَّبْنَاھا عَذَابًا نُكْرًا))۔ 302
”اور كتني ھي بستياں ايسي ھيں جنھوں نے حكم خدا و رسول كي نافرماني كي تو ھم نے ان كا شديد محاسبہ كر ليا اور انھيں بد ترين عذاب ميں مبتلا كرديا“۔
(( اِلاَّ مَنْ تَوَلّٰي وَكَفَرَ۔فَيعَذِّبُہُ اللّٰہُ الْعَذَابَ الْاَكْبَرَ۔اِنَّ اِلَينَا اِيابَھُمْ۔ثُمَّ اِنَّ عَلَينَا حِسَابَھُمْ))۔ 303
”مگر منھ پھيرلے اور كافر ھوجائے۔تو خدا اسے بھت بڑے عذاب ميں مبتلا كرے گا۔پھر ھمارے ھي طرف ان سب كي باز گشت ھے۔اور ھمارے ھي ذمہ ان سب كا حساب ھے“۔
حضرت امام صادق عليہ السلام درج ذيل آيہ قرآن (( ۔۔۔إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اٴُوْلَئِكَ كَانَ عَنْہُ مَسْئُولًا))۔ 304 كے بارے ميں فرماتے ھيں:
”يسْاٴَلُ السَّمْعَ عَمّا يسْمَعُ، وَالْبَصَرَ عَمّا يطْرِفُ، وَالْفُوٴادَ عَمّا عَقَدَ عَلَيہِ“۔305
”روز قيامت خدا وندعالم كانوں سے سني ھوئى، آنكھوں سے ديكھي گئي اور دل ميں پيدا ھونے والي چيزوںكے بارے ميں سوال فرمائے گا“۔
ايك شخص نے حضرت امام سجاد عليہ السلام سے عرض كيا: اگر كسي مومن كا كوئي حق كافر كے ذمہ باقي رہ گيا ھے تو روز قيامت كافر سے مومن كے نفع ميں كيا چيز لي جائے گى، حالانكہ كافر اھل جہنم ھوگا؟ تو امام عليہ السلام نے فرمايا: كافر پر حق كے برابر مومن كے گناھوں كو كافر كي گردن پر ڈالديا جائے گا اور كافر اپنے گناھوں اور اس حق كے گناھوں كے برابر عذاب ميں گرفتار ھوگا! 306
حضرت امير المومنين عليہ السلام فرماتے ھيں:
ظلم و ستم كي تين قسميں ھيں: ايك وہ ستم جس كو معاف نھيں كيا جائے، دوسرے وہ ستم جس كو چھوڑا نھيں جائے گا، تيسرے وہ ستم جو بخش ديا جائے گا اور اس كا مطالبہ نھيں ھوگا۔
ليكن وہ ستم جو معاف نھيں ھوگا وہ خدا كے ساتھ شرك كرنا ھے، جيسا كہ خداوندعالم نے ارشاد فرمايا ھے:
((إِنَّ اللهَ لاَيغْفِرُ اٴَنْ يشْرَكَ بِہ۔۔۔))۔ 307
”اللہ اس بات كو معاف نھيں كر سكتا كہ اس كا شريك قرا ديا جائے۔۔۔“۔
وہ ستم جو بخش ديا جائے گا، وہ انسان كا اپنے نفس پر ظلم و ستم ھوگا جو انسان نے گناھان صغيرہ كے ذريعہ انجام ديا ھوگا۔
ليكن وہ ستم جس كو چھوڑا نھيں جائے گا، وہ دوسروں پر كيا ھوا ظلم ھوگا، يہ ستم چاقو يا تازيانہ سے كيا ھوا ستم نھيںھوگا بلكہ اس سے (بھي) كمتر اور چھوٹا ظلم ھوگا۔ 308
حضرت امام صادق عليہ السلام سے روايت ھے:
”يوٴْتيٰ يوْمَ الْقِيامَةِ بِصاحِبِ الدَّينِ يشْكُو الْوَحْشَةَ، فَاِنْ كاَنَتْ لَہْ حَسَناتُ اْخِذَ مِنْہُ لِصاحِبِ الدَّينِ، وَقالَ:وَاِنْ لَمْ تَكُنْ لَہُ حَسَناتٌ اُلْقِي عَلَيہِ مِنْ سَيئاتِ صاحِبِ الدَّينِ۔“
” ايك مقروض كو روز قيامت حاضر كيا جائے گا جو خوف و وحشت كي شكايت كرتا ھوگا، تو اگر اس كے پاس نيكياں ھوں گي تو صاحب قرض كو اس كي نيكياں ديدي جائيں گى، او راگر نيكياں نہ ھوں گي تو صاحب قرض كي برائياں اس كي گردن پر ڈال دي جائيں گي“۔
حساب و كتاب اور روز قيامت بندوں كے اعمال كي كتاب كا دوبارہ مطالعہ بھي غيب كے
مصاديق ميں سے ھے، جس پر عقيدہ ركھنا قرآن و حديث كي بنا پر ايمان كا جزء ھے اور معنوى زيبائيوں ميں سے ھے۔

ميزان
انسان كے اعمال كو پركھنے كي ميزان اور ترازو چاھے جس كيفيت كے ساتھ بھي ھو ايك اھم مسئلہ ھے، جس كا ذكر قرآن كريم اور اور احاديث اھل بيت عليھم السلام ميں تفصيلي طور پر ھوا ھے، جو روز قيامت كے مسائل ميں سے ايك مسئلہ ھے۔
((وَالْوَزْنُ يوْمَئِذٍ الْحَق۔۔۔))۔ 309
”آج كے دن اعمال كا وزن ايك برحق شئے ھے۔۔۔“۔
(( وَ نَضَعُ المَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيوْمِ الْقِيامَةِ فَلاَ تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيئاً۔۔۔))۔ 310
”اور ھم قيامت كے دن انصاف كي ترازو قائم كريں گے“۔
ہشام بن سالم كھتے ھيں: ميں نے اس آيت كے بارے ميں حضرت امام صادق عليہ السلام سے سوال كيا كہ روز قيامت ”ميزان“ سے كيا مراد ھے؟ تو حضرت نے فرمايا: اس سے مراد انبياء اور اوصياء انبياء عليھم السلام ھے۔ 311
جي ھاں، روز قيامت ميں بندوں كے اعمال، عقائد اور اخلاق كو انبياء اور ائمہ معصومين عليھم السلام كے ساتھ تولا جائے گا، اگر انسان كے عقائد، اعمال اور اخلاق انبياء اور ائمہ عليھم السلام كے عقائد و اعمال كے ساتھ ھم آہنگ ھوں گے تو ايسا شخص اھل نجات ھے، اور درحقيقت اس كا پلڑا بھاري ھوگا، اور اگر انسان كے اعمال انبياء و ائمہ عليھم السلام سے ھم آہنگ نہ ھوں گے تو ايسا شخص نجات نھيں پاسكتا، چونكہ اس كا پلڑا ھلكا او ربے وزن ھوگا، قرآن مجيد نے ان دونوں مسائل كے بارے ميں يوں اشارہ كيا ھے:
(( ۔۔۔فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُہُ فَاٴُوْلَئِكَ ھم الْمُفْلِحُونَ ۔ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُہُ فَاٴُوْلَئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا اٴَنفُسَھم بِمَا كَانُوا بِآياتِنَا يظْلِمُونَ))۔ 312
”۔۔۔پھر جن كے نيك اعمال كا پلہ بھاري ھو گا وھي نجات پانے والے ھيں۔اور جن كا پلہ ھلكا ھوگيا يھي وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنے نفس كو خسارہ ميں ركھا كہ وہ ھماري آيت وں پر ظلم كر رھے تھے“۔
(( ۔۔۔وَاِنْ كاَنَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ اٴَتَينَا بِھَا وَكَفَيٰ بِنَا حَاسِبِينَ))۔ 313
”اور كسي كا عمل رائي كے دانہ كے برابر بھي ھے تو ھم اسے لے آئيں گے اور ھم سب كا حساب كرنے كے لئے كافي ھيں “۔
(( فَاٴَمَّا مَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُہُ ۔فَھُوَ فِي عِيشَةٍ رَاضِيةٍ۔وَاٴَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُہُ ۔فَاٴُ مُّہُ ھَاوِيةٌ۔وَمَا اٴَدْرَاكَ مَاھِيہْ۔نَارٌ حَامِيةٌ))۔ 314
”تو اس دن جس كي نيكيوں كا پلہ بھاري ھوگا۔وہ پسنديدہ عيش ميں ھوگا۔اور جس كا پلہ ھلكا ھوگا ۔اس كا مركز ھاويہ ھے۔اور تم كيا جانو كہ ھاويہ كيا مصيبت ھے۔يہ ايك دہكتي ھوئي آگ ھے“۔
عقائد حقہ، اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ خاص اھميت سے برخوردار ھيں، عدل الٰھي كي ميزان ميں ناقابل تصور وزن ركھتے ھيں اور سخت مقامات پر باعث نجات ھيں۔
حضرت امام باقر عليہ السلام اپنے آباء و اجداد كے سلسلے ميں حضرت رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم سے روايت كرتے ھيں كہ آنحضرت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا:
حُبّي وَحُبُّ اَھل بَيتِي نافِعٌ فِي سَبْعَةِ مَواطِنَ اَھْوَالُھُنَّ عَظيمَةٌ، عِنْدَ الْوَفاةِ، وَفِي الْقَبْرِ، وَ عِنْدَ النُّشورِ، وَ عِنْدَ الْكِتابِ، وَعِنْد الْحِسابِ، وَ عِنْدَ الْمِيزانِ، وَ عِنْدَ الصِّراطِ“۔315
”ھماري اور ھمارے اھل بيت كي محبت سات خطرناك مقامات پر كام آئے گى، موت كے وقت، قبرميں، قيامت ميں دوبارہ زندہ ھونے كے وقت، نامہ اعمال كے وقت، حساب كے وقت، ميزان پر، اور پُل صراط پر گزرتے وقت“۔
قارئين كرام! ھم جانتے ھيں كہ محب كي محبت محبوب سے كسب آثار كے لئے بھت اھم چيز ھے، جو محبت انسان كے لئے سات مقامات پر كام آنے والي ھے، جو انسان كو رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم اور آنحضرت كے اھل بيت عليھم السلام كي پيروي اور اطاعت كرنے كے لئے آمادہ كرے۔
حضرت امام سجاد عليہ السلام رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم سے روايت كرتے ھيں:
”ما يوضَعُ في ميزانِ امْرِيءٍ يوْمَ الْقِيامَةِ اَفْضَلُ مِنْ حُسْنِ الْخُلُقِ“۔316
”روز قيامت انسان كي ترازوميں حسن خلق سے بھتر كوئي چيز نھيں ھے“۔
حضرت امام رضا عليہ السلام مامون عباسي كے لئے ايك خط ميں تحرير فرماتے ھيں:
”وَتُوٴْمِنُ بِعَذابِ الْقَبْرِ، وَمُنْكَرٍ وَنَكِيرٍ وَ الْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْمِيزانِ وَالصِّراطِ“۔317
”عذاب قبر، منكر و نكير اور مرنے كے بعد روز قيامت ميں محشور ھونے، ميزان اور پُل صراط پر ايمان ركھ“۔
ميزان كا مسئلہ بھي گزشتہ مسائل كي طرح غيب كے مصاديق ميں سے ھے، اور قرآن كريم اور حديث كي بنا پر اس پر ايمان ركھنا واجب ھے، جس كے انسان كي زندگي ميں بھت سے مفيد آثار نماياں ھوتے ھيں۔

بہشت و جہنم
”بہشت “متقين كے لئے ھميشگي اور ابدي مقام ھے، اور ”جہنم “اھل كفر و معصيت كا ھميشگي مقام ھے، جن كے بارے ميں قرآن مجيد كي بھت سي آيات اور اسلامي تعليمات خصوصاً احاديث اھل بيت عليھم السلام ميں تفصيل كے ساتھ بيان ھوا ھے۔
ھم ان دونوں كي وضاحت كرنے كي ضرورت محسوس نھيں كرتے، كيونكہ اكثر مومنين مجالس اور ديگر طريقوں سے يا اسلامي كتابوں ميں ان دونوں كے بارے ميں سن چكے يا پڑھ چكے ھيں۔
جنت ودوزخ پر ايمان ركھنا ديني ضروريات ميں سے ھے اور ان دونوں پر ايمان نہ ركھنا كفر كے برابر ھے۔
بہشت اپني تمام تر مادي و معنوى نعمتوں كے ساتھ نيك اور صالح افراد كي جزا اور جہنم اپنے تمام ظاھري و باطني عذاب كے ساتھ بدكاروں كے لئے جائے سزا ھے۔
بہشت و جہنم غيب كے مصاديق ميں سے ھے، ان دونوں كے بارے ميں بيان كرنا صرف اورصرف وحي الٰھي كي ذمہ داري ھے، انسان كا علم جس كے درك كرنے سے قاصرھے، اسي وجہ سے انسان وحي الٰھي پر توجہ كئے بغير ان دونوں كے بارے ميں اپنا نظريہ بيان نھيں كر سكتا، اگرچہ علم و دانش كے لحاظ سے بلند مقام پر پہنچ چكا ھے۔
خداوندعالم ؛اھل صدق و صداقت اور نيك افراد كے بارے ميں ارشاد فرماتا ھے:
(( قَالَ اللهُ ہَذَا يوْمُ ينفَعُ الصَّادِقِينَ صِدْقُھم لَھم جَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِھا الْاٴَنھارُ خَالِدِينَ فِيھا اٴَبَدًا رَضِي اللهُ عَنْھم وَرَضُوا عَنْہُ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ))۔ 318
”اللہ نے كھا كہ يہ قيامت كا دن ھے جب صادقين كو ان كا سچ فائدہ پہنچائے گا تو ان كے لئے باغات ھوں گے جن كے نيچے نھريں جاري ھوں گي اور وہ ان ميں ھميشہ ھميشہ رھيں گے ۔خدا ان سے راضي ھوگا اور وہ خدا سے راضي ھوں گے، اور يھي ايك عظيم كاميابي ھے“۔
اسي طرح خداوندعالم گناھگاروں كے بارے ميں ارشاد فرماتا ھے:
(( وَالَّذِينَ كَسَبُوا السَّيئَاتِ جَزَاءُ سَيئَةٍ بِمِثْلِھا وَتَرْہَقُھم ذِلَّةٌ مَا لَھم مِنْ اللهِ مِنْ عَاصِمٍ كَاٴَنَّمَا اٴُغْشِيتْ وُجُوہُھم قِطَعًا مِنْ اللَّيلِ مُظْلِمًا اٴُوْلَئِكَ اٴَصْحَابُ النَّارِ ھم فِيھا خَالِدُونَ))۔ 319
”اور جن لوگوں نے برائياں كمائي ھيں ان كے لئے ھر بُرائي كے بدلے ويسي ھي بُرائي ھے اور ان كے چھروں پر گناھوں كي سياھي بھي ھوگي اور انھيں عذاب الٰھي سے بچانے والا كوئي نہ ھوگا ۔ان كے چھرے پر جيسے سياہ رات كي تاريكي كا پردہ ڈال ديا گيا ھو۔وہ اھل جہنم ھيں اور اسي ميں ھميشہ رہنے والے ھيں“۔
حضرت امام محمد باقر عليہ السلام فرماتے ھيں: جس وقت روز قيامت برپا ھوگى، خداوندعالم ايك منادي كو حكم دے گا كہ اس كي بارگاہ ميں يہ اعلان كرے: غريب اورنادار لوگ كھاں ھو؟ بھت سے لوگ جمع ھوجائيں گے، اس وقت خدا فرمائے گا: اے ميرے بندو! تووہ آواز ديں گے: لبيك يا اللہ، اس وقت خدا فرمائے گا: ميں نے تم لوگوں كو ذليل كرنے كے لئے غريب و نادار نھيں بنايا تھاليكن اس لئے كہ آج كے دن تمھيں نعمتوں سے مالامال كردوں، جاؤ اور لوگوں كو تلاش كرو كہ جس نے بھي تمھارے ساتھ نيكي كي ھو، اس كي نيكي ميري خوشنودي كے لئے تھى، لہٰذا اس كے عمل كي جزا يہ ھے كہ اس كو بہشت ميں داخل كردو۔ 320
حضرت امام صادق عليہ السلام نے فرمايا: اگر كوئي مومن كسي دوسرے مومن كي ضرورت كے وقت حاجت پوري نہ كرے، اپني طرف سے يا دوسرے كے ذريعہ اس كي مشكل كو آسان نہ كرے تو خداوندعالم روز قيامت اس كے چھرہ كو سياہ كردے گا، اس كي آنكھيں اندھي ھوجائيں گي اور اس كے دونوں ھاتھ گردن سے بندھے ھوں گے، اور كھا جائے گا: يہ وہ خيانت كار ھے جس نے خدا و رسول كے ساتھ خيانت كي ھے، اس كے بعد حكم ديا جائے گا كہ اس كو آتش جہنم ميں ڈال دو۔[68]
حضرت امير المومنين عليہ السلام رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم سے روايت فرماتے ھيں كہ آنحضرت نے فرمايا: يا على!جو شخص مجھ سے محبت كا دعويٰ كرے درحاليكہ آپ سے دشمني ركھتا ھو ايسا شخص جھوٹا ھے، يا على! جس وقت قيامت برپا ھوگي اےك منادي عرش سے آواز دے گا، علي عليہ السلام كے عاشق اور ان كے شيعہ كھاں ھيں؟ علي كے محب اور دوستدار اور جس كو علي دوست ركھتے ھيں كھاں ھو؟ جن لوگوں نے رضائے الٰھي كے لئے دوستي كي ھے اور ايك دوسرے سے محبت كي ھے، جنھوں نے خدا كے لئے ايك دوسرے كے ساتھ كرم و بخشش سے كام ليا ھے، وہ لوگ جنھوں نے اپني ضرورت كے باوجود دوسروں كي حاجت كو پورا كيا ھے، جن لوگوں كي زبان گرمي كے روزہ كي وجہ سے خشك ھوئي ھے، جنھوں نے رات كے اندھيرے ميں عبادتيں كي ھيںجبكہ دوسرے لوگ سوئے ھوئے تھے، جن لوگوں نے خوف خدا سے گريہ كيا ھے؟ آج تم لوگوں كے لئے كوئي خوف و ھراس نھيں ھے، تم لوگ (حضرت) محمد صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كے ساتھي ھو، تمھاري آنكھيں منور ھوں، تم اپني ازواج كے ساتھ خوش و خرم بہشت ميں داخل ھوجاؤ۔321
جنت و دوزخ كے بارے ميں قرآن مجيد كي سيكڑوں آيات اور بھت سي احاديث بيان ھوئي ھيں اور امام صادق عليہ السلام كے فرمان كے مطابق (بہشت و جہنم) اب بھي موجود ھيں اور يہ غيب كے مصاديق ميں سے ھيں، جس پر ايمان و عقيدہ ركھنے سے صالح مومنين اور بدكاروں كي زندگي پر مثبت آثار ظاھر ھوتے ھيں، كيونكہ طالب بہشت اپنے كو عقائد حقہ، اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ سے آراستہ ھونے كي كوشش كرتا ھے اور جہنم سے ڈرنے والا درد ناك عذاب كے باعث خود كوگناھوں سے محفوظ كرتاھے۔
قارئين كرام! گزشتہ صفحات ميں خدا، فرشتوں، برزخ، قيامت، حساب و كتاب، ميزان اور بہشت و جہنم كے بارے ميں بيان كئے گئے مطالب آيہ (( الَّذِينَ يوٴْمِنونَ بِالْغَيبِ))۔ 322 كي تفسير تھي۔
قرآن كريم اور احاديث معصومين عليھم السلام پر غور و فكر كرتے ھوئے غيب پر ايمان ركھنا ھر مرد و زن كے لئے ممكن ھے، اور ان چيزوں پر اعتقاد و ايمان ركھنا شرعي اور عقلى طور پر واجب ھے، كيونكہ غيب پر ايمان ركھنا دين كے اصول اور ضروري دين ميں سے ھے، ان عقائد كے بارے ميں كسي انسان كو كسي كي تقليد كرنے كا كوئي حق نھيں ھے، كيونكہ ھر انسان كے دل ميں ان چيزوں پر ايمان ھونا ضروري ھے۔
غيب پر ايمان ركھنے سے انسان كو بلند مقامات عطا ھوتے ھيں، غيب پر ايمان ركھنے والا شخص محبوب خدا بن جاتا ھے، اس كے لئے دنيا و آخرت كي نجات كا دروازہ كھل جاتا ھے، اس كے لئے آج اور كل كي سعادت كا راستہ ھموار ھوجاتا ھے، جس سے انسان كو خدا كي عبادت اور پيغمبر و ائمہ عليھم السلام كي اطاعت كے لئے طاقت ملتي ھے۔
قرآن مجيد نے سورہ بقرہ كي ابتدائي آيات ميں غيب پر ايمان ركھنے كے بارے ميں تاكيد كي ھے اور اس كے بعد نماز و انفاق، آسماني كتابوں اور قيامت كے دن پر ايمان كے بارے ميں بيان كيا ھے جو غيب پر ايمان ركھنے كے آثار ھيں۔
قرآن اور اس سے قبل نازل ھونے والي كتابوں( جن كي تصديق قرآن كريم نے فرمائي ھے) پر ايمان ركھنا قرآن كريم كي آيات اور اس كي تفسير ميں غور و فكر كے بعدھي ممكن ھے۔
قرآن كريم كے ايك (چھوٹے سے )سورے جيسے سورہ توحيد يا سورہ كوثر كا جواب اگر ممكن ھوتا تو دشمنان اسلام اپني تمام تر ترقي كے باوجودجواب لے آئے ھوتے، ليكن قيامت تك كسي قوم و ملت ميں اتني طاقت نھيں ھے كہ وہ قرآن كي مثل لے آئے:
(( وَإِنْ كُنتُمْ فِي رَيبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَي عَبْدِنَا فَاٴْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِہِ وَادْعُوا شُہَدَائَكُمْ مِنْ دُونِ اللهِ إِنْ كُنتُمْ صَادِقِينَ))۔ 322
”اگر تمھيں اس كلام كے بارے ميں كوئي شك ھے جسے ھم نے اپنے بندے پر نازل كيا ھے تو اس جيسا ايك ھي سورہ لے آوٴ اور اللہ كے علاوہ جتنے تمھارے مددگار ھيں سب كو بلا لو اگر تم دعوے اور خيال ميں سچے ھو“۔
(( قُلْ لَئِنْ اجْتَمَعَتْ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَي اٴَنْ ياٴْتُوا بِمِثْلِ ہَذَا الْقُرْآنِ لاَياٴْتُونَ بِمِثْلِہِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُھم لِبَعْضٍ ظَہِيرًا))۔ 324
”(اے رسول)آپ كہہ ديجئے كہ اگر انسان اور جنات سب اس بات پر متفق ھوجائيں كہ اس قرآن كا مثل لے آئيں تو بھي نھيں لاسكتے، چاھے سب ايك دوسرے كے مددگار و پشت وپناہ ھي كيوں نہ ھو جائيں“۔
ان دونوں آيات كے پيش نظر قرآن كريم كے خداوندعالم كي طرف نازل ھونے ميں ذرہ برابر بھي شك باقي نھيں رھتا، لہٰذا قرآن كريم جيسي عظيم الشان كتاب اور ديگر آسماني كتابوں پر ايمان ركھنا، كوئي مشكل كام نھيں ھے۔
اسي طرح قرآني آيات اور دلائل ميں غور و فكر كے ذريعہ آخرت پر ايمان حاصل كرنا بھي ايك آسان كام ھے۔
غيب، قرآن كريم، ديگر آسماني كتب اور آخرت پر ايمان و يقين ركھنا معنوى زيبائيوں ميں سے ھے۔

نماز
نماز وہ حقيقت ھے جس سے انسان كے ظاھر و باطن ميں مادي اور معنوى طھارت و پاكيزگي پيدا ھوتي ھے، جس سے انسان كا ظاھر و باطن مزين ھوجاتا ھے، اور نمازي كے لئے ايك خاص نورانيت حاصل ھوتي ھے۔
قرآن كريم نے بھت سي آيات ميں نماز كي طرف دعوت دي ھے، اور اس كو ايك فريضہ الٰھي كے عنوان سے بيان كيا ھے، نہ صرف يہ كہ نماز كاحكم ديا ھے بلكہ واجبي حكم ديا گيا ھے۔
(( وَاٴَقِيمُوا الصَّلاَةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَمَا تُقَدِّمُوا لِاٴَنفُسِكُمْ مِنْ خَيرٍ تَجِدُوہُ عِنْدَ اللهِ إِنَّ اللهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ))۔ 325
”اور تم نماز قائم كرو اور زكوٰة ادا كرو كہ جو كچھ اپنے واسطے پھلے بھيج دوگے سب خدا كے يھاں مل جائے گا ۔خدا تمھارے اعمال كا ديكھنے والا ھے“۔
قرآن مجيد نے بھت سي آيات ميں مشكلات كے دور ھونے، سختيوں كے آسان ھونے اور بھت سے نيك كاموں ميں امداد ملنے كے لئے نماز اور صبر كي دعوت دي ھے:
(( وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ وَإِنَّھا لَكَبِيرَةٌ إِلاَّ عَلَي الْخَاشِعِينَ))۔ 326
”صبر اور نماز كے ذريعہ مدد مانگو ۔نماز بھت مشكل كام ھے مگر ان لوگوں كے لئے جو خشوع و خضوع والے ھيں“۔
البتہ يہ بات معلوم ھونا چاہئے كہ وھي نماز انسان كو طاقت و بلندي عطا كرتي ھے جس ميں فقھي اور معنوى شرائط پائے جاتے ھوں، جس نماز ميں لباس اور مكان مباح ھو، وضو اور غسل كا پاني اور تيمم كي مٹي مباح ھو، جس نماز ميں ترتيب اور طماٴنينہ (يعني اطمينان) اور وقت كي رعايت كي گئي ھو، جس نماز ميں سستي اور بے توجھي نہ پائي جاتي ھو، جس نماز ميں نيت پاك ھو اور اس ميں اخلاص پايا جاتا ھو، تو اس طرح كي نماز انسان كي مشكلات اور سختيوں ميںمددگار ثابت ھوتي ھے، اور پھر انسان كے لئے تمام نيك كام كرنے كا راستہ ھموار ھوجاتا ھے۔
قرآن مجيد نے بھت سي آيات ميں نماز كو ايمان كي نشاني قرار ديا ھے۔
(( اِنَّمَا الْمُوٴْمِنُونَ الَّذِينَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوبُھُمْ وَاِذَا تُلِيتْ عَلَيھِمْ آيا تُہُ زَادَتْھُمْ اِيمَاناً وَعَلٰي رَبِّھِمْ يتَوَكَّلُونَ۔الَّذِينَ يقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاھُمْ ينْفِقُونَ))۔ 327
”صاحبان ايمان در حقيقت وہ لوگ ھيں جن كے سامنے ذكر خدا كيا جائے تو ان كے دلوں ميں خوف خدا پيدا ھو اور اس كي آيات كي تلاوت كي جائے تو ان كے ايمان ميں اضافہ ھوجاتا ھے اور وہ لوگ اللہ ھي پر توكل كرتے ھيں۔وہ لوگ نماز كو قائم كرتے ھيں اور ھمارے ديئے ھوئے رزق سے انفاق بھي كرتے ھيں“۔
قرآن كريم نے سستى، حالت غنودگي اور حضور قلب ميں مانع ھونے والي ھر چيز كو حالت ميں نماز پڑھنے سے منع كيا ھے، بلكہ ايسے وقت ميں نماز كي ادائيگي چاھي ھے كہ جب خوشي و نشاط، صدق و صفا اور خلوص اور حضور قلب كے ساتھ نماز پڑھي جاسكے اور تمام ظاھري و باطني شرائط كا لحاظ كيا جائے:
(( يااٴَيھا الَّذِينَ آمَنُوا لاَتَقْرَبُوا الصَّلاَةَ وَاٴَنْتُمْ سُكَارَي حَتَّي تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ۔۔۔))۔ 328
”اے ايمان والو ! خبر دار نشہ كي حالت ميں نما زكے قريب بھي نہ جانا جب تك يہ ھوش نہ آجائے كہ تم كيا كہہ رھے ھو۔۔۔“۔
قرآن مجيد نے اپنے اھل و عيال كو نماز كي دعوت كو اخلاق انبياء بتايا ھے، اور نمونہ كے طور پر حضرت اسماعيل كي دعوت كو بيان كياھے:
(( وَكَانَ ياٴْمُرُ اٴَھلہُ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّہِ مَرْضِيا))۔ 329
”اور وہ اپنے گھر والوں كو نما ز اور زكوٰة كا حكم ديتے تھے اور اپنے پروردگار كے نزديك پسنديدہ تھے“۔
قرآن مجيد نے بيان كيا ھے كہ نمازانسان كو فحشاء و منكر سے روكتي ھے۔ جي ھاں، يہ بات تجربہ سے ثابت ھوچكي ھے كہ واقعي نماز انسان كو برائيوں سے روك ديتي ھے، اور انسان كے دل و جان ميں پاكيزگي بھر ديتي ھے، اعضاء وجوارح كو خدا كي اطاعت كرنے پر آمادہ كرديتي ھے۔
(( ۔۔۔ وَاٴَقِمْ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلاَةَ تَنْہَي عَنْ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ۔۔۔))۔330
”۔۔۔اور نماز قائم كرو كہ نماز ھربُرائي اور بدكاري سے روكنے والي ھے۔۔۔۔“
قرآن كريم نے بے نمازى، بخيل، اھل باطل اور قيامت كي تكذيب كرنے والوں كو جہنمي قرار ديا ھے:
((قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ۔وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ۔ وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ۔ وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيوْمِ الدِّينِ))۔ 331
”وہ كھيں گے ھم نماز گذارنھيں تھے۔اور مسكين كو كھانا نھيں كھلايا كرتے تھے۔ لوگوں كے بُرے كاموں ميں شامل ھو جايا كرتے تھے۔اور روز قيامت كي تكذيب كياكرتے تھے“۔
قرآن مجيد نے حقيقت نماز سے غافل اور رياكاري كرنے والے نمازي كو دين كا جھٹلانے والا قرا ديا ھے:
(( فَوَيلٌ لِلْمُصَلِّينَ ۔الَّذِينَ ھُمْ عَن صَلَاتِھِمْ سَاھُونَ۔الَّذِينَ ھُمْ يرَآءُ ونَ ))۔ 332
”تو تباھي ھے ان نمازيوں كے لئے ۔جو اپني نمازوں سے غافل رھتے ھيں۔دكھانے كے لئے عمل كرتے ھيں “۔
نماز اور اس كے فقھي و معنوى شرائط كے سلسلہ ميں بھت سي روايات بھي بيان ھوئي ھيں جن ميں چند كو بطور نمونہ پيش كيا جاتا ھے:
حضرت امام باقر عليہ السلام ايك روايت كے ضمن ميں كچھ چيزوں كي سفارش كرتے ھوئے فرماتے ھيں: اپني نماز كو بھي سبك نہ سمجھو كيونكہ حضرت رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے اپنے آخري وقت ميں فرماياھے:
”لَيسَ مِنّي مَنِ اسْتَخَفَّ بِصَلاتِہِ لَايرِدُّ عَلَي الْحَوْض لَا وَاللّٰہِ، لَيسَ مِنّي مَنْ شَرِبَ مُسْكِراً لَا يرِدُّ عَلَي الْحَوْضَ لَا وَاللّٰہِ۔“333
”جو شخص نماز كو سبك سمجھے وہ مجھ سے نھيں ھے، خدا كي قسم حوض كوثر پر ميرے پاس ايسا شخص نھيں پہنچ سكتا، اور ايسا شخص بھي مجھ سے نھيں ھے جو شراب پئے، خدا كي قسم ايسا شخص (بھي) ميرے پاس حوض كوثر پر نھيں پہنچ سكتا“۔
حضرت موسيٰ عليہ السلام نے خداوندعالم كي بارگاہ ميں عرض كيا:پالنے والے!ايسے وقت پر نماز پڑھنے والے كي كيا جزاء ھے ؟ تو خطاب ھوا:
”اُعْطِيہِ سُوٴْلَہُ، وَاُبيحُہُ جَنَّتِي“۔334
”ميںاس كے سوالوں كو پورا، ا اور اس كے لئے جنت مباح كردوں گا“۔
حضرت امام صادق عليہ السلام سے روايت ھے:
”اَحَبُّ الْعِبادِ اِلَي اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ رجلٌ صَدوقٌ في حَدِيثِہِ مُحافِظٌ عَليٰ صَلَواتِہِ وَمَاافْتَرَضَ اللّٰہُ عَلَيہِ مَعَ اَداءِ الْاَمانَةِ“۔335
”خداوندعالم كے نزديك سب سے زيادہ محبوب وہ شخص ھے جو اپني گفتگو ميں صداقت سے كام لے، نماز و ديگر عبادتوں كي حفاظت كرے اور امانت ادا كرے“۔
ابن مسعود كھتے ھيں: ميں نے حضرت رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم سے سوال كيا: كونساعمل خداوندعالم كے نزديك سب سے بھترھے؟ تو آنحضرت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا:
”اَلصَّلَاةُ لِوَقْتِھَا“۔336
”نماز كو اس كے وقت پر پڑھنا“۔
حضرت رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا:
”لَا تُضَيعُوا صَلاَتَكُمْ فَاِنَّ مَنْ ضَيعَ صَلَاتَہُ حُشِرَ مَعَ قَارُونَ وَھامانَ، وَكاَنَ حَقّاً عَلَي اللّٰہِ اَنْ يدْخِلَہُ النّارَ مَعَ الْمُنافِقينَ، فَالْوَيلُ لِمَنْ لَمْ يحافِظْ عَليٰ صَلَاتِہِ وَاَداءِ سُنَّةِنَبِيہِ“۔337
”اپني نمازوں كو برباد نہ كرو، بے شك جس نے نماز كو ضايع كيا وہ قارون اور ھامان كے ساتھ محشور ھوگا، اور خداوندعالم اس كو منافقين كے ساتھ جہنم ميں ڈال دے گا، پس وائے ھونماز اور سنت پيغمبر كي حفاظت نہ كرنے والے شخص پر !“
حضرت امام صادق عليہ السلام فرماتے ھيں:
” يعْرَفُ مَنْ يصِفُ الْحَقَّ بِثَلَاثِ خِصالٍ:ينْظَرُ اِليٰ اَصْحابِہِ مَنْ ھُمْ؟وَاِليٰ صَلَاتِہِ كَيفَ ھِي وَفِي اَي وَقْتٍ يصَلّيھا، فَاِنْ كَانَ ذَا مالٍ نُظِرَ اَينَ يضَعُ مالَہُ ؟“۔ 338
”جو شخص حق كي معرفت كا دعويٰ كرے وہ تين خصلتوں كے ذريعہ پہچانا جاتا ھے، اس كو ديكھا جائے كہ اس كي دوستي كن لوگوں سے ھے، اور اس كي نماز كس طرح كي ھے اور كس وقت پڑھتا ھے، اور اگر مالدار ھے تو اپني دولت كھاں خرچ كرتا ھے“۔
حضرت امام صادق عليہ السلام نے فرمايا: ھمارے شيعوں كو تين چيزوں كے ذريعہ پہچانو: نماز كے اوقات پر، كہ كس طرح اس كے معين وقت پر ادا كرتے ھيں، دوسرے رازداري ميںكہ كس طرح ھمارے دشمنوں سے اسرار كو چھپاتے ھيں، تيسرے مال و دولت كے سلسلہ ميں كہ اپنے ديني بھائىوں سے كس طرح مواسات كرتے ھيں۔ 339

انفاق
جو كچھ خداوندعالم مومنين كو عطا كرتا ھے وہ اس كو راہ خدا ميں خرچ كرديتے ھيں۔
(( ۔۔۔وَمِمَّا رَزَقْنَاھم ينفِقُونَ))۔ 340
”۔۔۔اور جو كچھ ھم نے رزق ديا ھے اس ميں سے ھماري راہ ميں خرچ بھي كرتے ھيں“۔
اھل ايمان لوگوں كي مشكلات دور كرنے كے لئے اپنے مال و دولت، مقام، آبرو، عہدہ اور موقعيت سے فائدہ اٹھاتے ھيں اور خلوص و محبت كے ساتھ خدا كي عطا كردہ نعمتوں كو كسي رياكاري اور كسي احسان كے بغير خرچ كرتے ھيں۔
اھل ايمان كي زكوٰة پر توجہ، نماز، روزہ اور حج كي طرح ھوتي ھے، اور مالي واجبات كو نماز كي ادائيگي كي طرح اھميت ديتے ھيں۔
اھل ايمان زكوٰة، انفاق، صدقہ اور مومنين كے مدد كرنے ميں ذرہ بھي بخل نھيں كرتے۔
قرآن مجيد نے بھت سي آيات ميں لوگوں كو انفاق كا حكم ديا ھے اور اس سلسلہ ميں اس قدر اھميت دي ھے كہ راہ خدا ميں انفاق نہ كرنے كوخود اپنے ھاتھوں ھلاكت ميں ڈالنے كے برابر مانا ھے۔
(( وَاٴَنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللهِ وَلاَتُلْقُوا بِاٴَيدِيكُمْ إِلَي التَّھلكَةِ وَاٴَحْسِنُوا إِنَّ اللهَ يحِبُّ الْمُحْسِنِينَ))۔ 341
”اور راہ خدا ميں خرچ كرو اور اپنے نفس كو ھلاكت ميں نہ ڈالو ۔نيك برتاوٴ كرو كہ خدا نيك عمل كرنے والوں كے ساتھ ھے“۔
قرآن مجيد نے انفاق نہ كرنے كو انسان كي آخرت خراب ھونے كا باعث بتايا ھے، اور اس كو كفر و ظلم كے برابر قرار ديا ھے، نيز يہ اعلان كرتا ھے كہ جن لوگوں نے انفاق ميں بخل سے كام ليا وہ روز قيامت اپنا كوئي دوست يا شفيع نھيںپائيں گے۔
(( يااٴَيھا الَّذِينَ آمَنُوا اٴَنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ اٴَنْ ياٴْتِي يوْمٌ لاَبَيعٌ فِيہِ وَلاَخُلَّةٌ وَلاَشَفَاعَةٌ وَالْكَافِرُونَ ھم الظَّالِمُونَ)) 342
”اے ايمان والو ! جو تمھيں رزق ديا گيا ھے اس ميںسے راہ خدا ميں خرچ كرو قبل اس كے كہ وہ دن آجائے جس دن نہ تجارت ھوگي نہ دوستي كام آئے گي اور نہ سفارش ۔اور كافرين ھي اصل ميںظالمين ھيں“۔
قرآن مجيد انفاق كو انسان كے لئے خير سمجھتا ھے، اور بخل سے محفوظ رہنے كو فلاح و بھبودي كا باعث مانتا ھے۔
(( فَاتَّقُوا اللهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَاٴَطِيعُوا وَاٴَنفِقُوا خَيرًا لِاٴَنْفُسِكُمْ وَمَنْ يوقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَاٴُوْلَئِكَ ھم الْمُفْلِحُونَ))۔ 343
”لہٰذا جھاں تك ممكن ھو اللہ سے ڈرو اور ان كي بات سنو اور اطاعت كرو اور راہ خدا ميں خرچ كرو كہ اس ميں تمھارے لئے خير ھے اور جو اپنے ھي نفس كے بخل سے محفوظ ھو جائے وھي لوگ فلاح اور نجات پانے والے ھيں“۔
قرآن مجيد راہ خدا ميں انفاق كرنے كا اجز و ثواب 700برابر اور اس سے بھي زيادہ شمار كرتا ھے، چنانچہ انفاق كے مسئلہ كو ھماري آنكھوں ديكھي حقيقت سے مثال بيان كي ھے تاكہ اس خداپسند عمل كے سلسلہ ميں لوگوں كا ايمان پختہ ھوجائے:
(( مَثَلُ الَّذِينَ ينفِقُونَ اٴَمْوَالَھم فِي سَبِيلِ اللهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اٴَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ وَاللهُ يضَاعِفُ لِمَنْ يشَاءُ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ))۔ 344
”جو لوگ راہ خدا ميں اپنے اموال كو خرچ كرتے ھيں ان كے عمل كي م-ثال اس دانہ كي ھے جس سے سات بالياں پيدا ھوں اور پھر ھر بالي ميں سو سو دانے ھوںاور خدا جس كے لئے چاھتا ھے اضافہ بھي كرديتا ھے كہ وہ صاحب وسعت بھي ھے اورعليم و دانا بھي“۔
شب و روز، ظاھر بظاھر اور مخفي طور پر انفاق كرنا ايك ايسي حقيقت ھے جس پر قرآن كريم نے بھت زور دياھے، اور يہ ايك خداپسند عمل ھے جس كا اجر بھي خداوندعالم عنايت فرماتا ھے، جس كي بدولت انسان كو موت اور قيامت كا خوف نھيں رھتا:
(( الَّذِينَ ينفِقُونَ اٴَمْوَالَھم بِاللَّيلِ وَالنَّھارِ سِرًّا وَعَلاَنِيةً فَلَھم اٴَجْرُھم عِنْدَ رَبِّھم وَلاَخَوْفٌ عَلَيھم وَلاَھم يحْزَنُونَ))۔ 345
”جو لوگ اپنے اموال كو راہ خدا ميں رات ميں ۔دن ميں خاموشي سے اور علي الاعلان خرچ كرتے ھيں ان كے لئے پيش پروردگار اجر بھي ھے اورانھيں نہ كوئي خوف ھوگا اور نہ حزن“۔
قرآن مجيد نے آيات الٰھي كي تلاوت كرنے، نماز قائم كرنے اور راہ خدا ميں خرچ كرنے كو ايسي تجارت قرار ديا ھے جس ميں كسي طرح كا كوئي نقصان نھيں اور جس ميںفائدہ ھي فائدہ ھے:
(( إِنَّ الَّذِينَ يتْلُونَ كِتَابَ اللهِ وَاٴَقَامُوا الصَّلَاةَ وَاٴَنْفَقُوا مِمَّا
رَزَقْنَاھم سِرًّا وَعَلَانِيةً يرْجُونَ تِجَارَةً لَنْ تَبُور )) ۔ 346
”يقينا جو لوگ اللہ كي كتاب كي تلاوت كرتے ھيں اورا نھوں نے نماز قائم كي ھے اور جو كچھ ھم نے بطور رزق ديا ھے اس ميں سے ھماري راہ ميں خفيہ اور علانيہ خرچ كيا ھے يہ لوگ ايسي تجارت كے اميد وار ھيں جس ميں كسي طرح كي تباھي نھيں ھے“۔
حضرت امام صادق عليہ السلام فرماتے ھيں:
”تمھارے بدن كے تمام اعضاء و جوارح پر زكوٰة واجب ھے، بلكہ ھر بال اور عمر كے ھر لمحہ پر زكوٰة واجب ھے“۔
آنكھ كي زكوٰة اور اس كا انفاق يہ ھے كہ دوسروں كو عبرت كي نگاہ سے ديكھے اور خدا كي حرام كردہ چيزوں سے اجتناب كرے۔
كان كي زكوٰة يہ ھے كہ انسان علم و حكمت، قرآن اور موعظہ و نصيحت كو سنے، اور ان چيزوں كو سنے جن كے ذريعہ دنيا و آخرت كي نجات شامل ھو خصوصاً جھوٹ، غيبت ا ورتھمت وغيرہ جيسے شيطاني كاموں سے پرھيز كرے۔
زبان كي زكوٰة يہ ھے كہ تمام مسلمانوں كے ساتھ نيكي كرنے، خواب غفلت ميں سوئے ھوئے مسلمانوں كو بيدار كرنے اور خداوندعالم كي تسبيح و تھليل كرنے كے لئے اپني زبان كھولے۔
ھاتھ كي زكوٰة يہ ھے كہ خدا كي عطا كردہ نعمتوں اور مال و دولت كو اس كي راہ خرچ كرے، اس سے ايسے مطالب لكھے جس سے مسلمانوں كي فلاح و بھبودي ھو اور لوگوں كو اطاعت خدا پر آمادہ كرے، اور اپنے ھاتھ كو ظلم و ستم اور فساد سے محفوظ ركھے۔
پيروں كي زكوٰة يہ ھے كہ راہ خدا ميں اٹھيں، خدا كے حقوق كي ادائيگي ميں چليں، خدا كے مخلص بندوں كي زيارت كے لئے بڑھيں، علمي مجالس ميں شركت كريں، اصلاح معاشرہ اورصلہ رحم كے لئے بڑھيں، اور ايسے كاموں كي طرف اٹھيں جن سے دين و دنيا كي اصلاح ھوسكے۔
يہ ايسے مسائل ھيں جن كو ايك انسان انجام دے سكتا ھے، اور سبھي اتني صلاحيت ركھتے ھيں كہ ان تمام چيزوں پر عمل كريں، ليكن وہ تجارت جس سے خدا كے مقرب بندوں كے علاوہ كوئي آگاہ نھيں ھے، اس سے كھيں زيادہ ھيں كہ ھم شمار كريں، صرف ارباب عمل ھي اس سے آگاہ ھيں، اولياء الٰھي كا شعار زكوٰة ِكامل كے سلسلہ ميں دوسروں سے بالكل الگ ھے۔347
حضرت امام عسكري عليہ السلام قرآن مجيد ميں بيان ھونے والي آيات ميں (( وَ آتُوْا الزَّكوٰة)) كے سلسلہ ميں فرماتے ھيں:
مال، آبرو اور قدرت بدن كي زكوٰة دينا مراد ھے۔
مال كي نسبت اپنے مومن بھائىوں سے مواسات كرنامراد ھے۔
آبرو كے سلسلہ ميں زكوٰة يہ ھے كہ اپني عزت و آبرو كے ذريعہ اپنے ديني بھائىوں كي مدد كرے اور ان كي مشكلات كو دور كرے۔
طاقت كي زكوٰة انسان كااپنے برادر مومن كي ھر ممكن طريقہ سے مدد كرناھے۔
يہ تمام چيزيں يعني مال، آبرواور طاقت كي زكوٰة كے ساتھ ساتھ حضرت محمد مصطفي صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم اور پ كے اھل بيت عليھم السلام كي ولايت كا معتقد رھے، اسي صورت ميں خداوندعالم ھمارے اعمال كو پاكيزہ قرار ديتا ھے، اور ان كا چند برابر اجر ديتا ھے كيونكہ يہ عنايت اور توفيق ان حضرات كے لئے ھے جو ولايت محمد و آل محمد(ص) كو قبول كريں اور ان كے دشمنوں سے بيزار رھيں۔ 348
حضرت امير المومنين عليہ السلام رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم سے روايت فرماتے ھيں:
”قِراءَ ةُ الْقُرآنِ فِي الصَّلاةِ اَفْضَلُ مِنْ قِراءَ ِة الْقُرآنِ فِي غَيرِالصَّلاةِ، وَذِكْرُاللّٰہِ اَفْضَلُ مِنَ الصَّدَقَةِ، وَالصَّدَقَةُ اَفْضَلُ مِنَ الصَّوْمِ، وَالصَّوْمُ جُنَّةٌ“۔349
”نماز ميں قرآن پڑھنا غير نماز ميں پڑھنے سے بھتر ھے، اور زندگي كے تمام حالات ميں ياد خدا كرنا صدقہ دينے سے بھتر ھے، اور صدقہ روزہ سے افضل ھے، اور روزہ آتش جہنم كے لئے سپر اور ڈھال ھے“۔
امام زين العابدين عليہ السلام حضرت امير المومنين عليہ السلام سے روايت كرتے ھيں:
”بے شك جنت ميں ايك ايسا درخت ھے جس كے اوپر سے نئے لباس نكلتےھيں، اور اس كے نيچے سے خاكستري رنگ كے گھوڑے نكلتے ھيں، جن پر زين اور لگام ھوتے ھيں، ان گھوڑوں كے پر ھوتے ھيں! وہ پيشاب پاخانہ نھيں كرتے، ان پر اولياء الٰھي سوار ھوتے ھيں اور جنت ميں جھاں جانا چاھيں جاتے ھيں۔
ان ميں سے كم ترين درجہ والے افراد بارگاہ خداوندي ميں عرض كريں گے: پالنے والے! كس چيز كي وجہ سے تيرے بندے اس عظيم مرتبہ پر پہنچے ھيں؟ اس وقت خداوندعالم جواب دے گا: نماز شب، روزہ، دشمن سے بے خوف جھاد، اور راہ خدا ميں صدقہ دينے ميں بخل نہ كرنے كي وجہ سے يہ لوگ اس عظيم مرتبہ پر پہنچے ھيں“۔350
حضرت رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا:
”اَلا وَمَنْ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَلَہُ بِوَزْنِ كُلِّ دِرْھَمٍ مِثْلُ جَبَلِ اُحُدٍ مِنْ نَعِيمِ الْجَنَّةِ؛“ 351
”آگاہ ھوجاؤ! كہ جس شخص نے بھي راہ خدا ميں صدقہ ديا تو اس كے ھر درھم كے بدلے جنت ميں كوہ احد كے برابر نعمتيں مليں گي“۔
حضرت امام صادق عليہ السلام اپنے آباء و اجداد كے متعلق حضرت رسول اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم سے روايت كرتے ھيں:
”كُلُّ مَعْروفٍ صَدَقَةٌ، وَالدَّالُّ عَلَي الْخَيرِ كَفَاعِلِہِ، وَاللّٰہِ يحِبُّ اِغاثَةَ اللَّھْفانِ“۔352
”ھر نيك كام صدقہ ھے، اور ھر خير كے لئے رہنما ھے جيسے خود اس كا فاعل ھو، خداوندعالم صاحب حزن و ملال كي فرياد كو سنتا ھے“۔

صدقہ و انفاق كے سلسلہ ميں ايك عجيب و غريب و اقعہ
حضرت امام موسيٰ كاظم عليہ السلام فرماتے ھيں : امام صادق عليہ السلام ايك قافلہ كے ساتھ ايك بيابان سے گزر رھے تھے۔ اھل قافلہ كو خبردار كيا گيا كہ راستے ميں چور بيٹھے ھوئے ھيں۔ اھل قافلہ اس خبر كو سن كر پريشان اور لرزہ براندام ھوگئے۔ اس وقت امام صادق عليہ السلام نے فرمايا: كيا ھوا؟ تو لوگوں نے بتايا كہ ھمارے پاس (بھت) مال و دولت ھے اگر و ہ لوٹ گيا تو كيا ھوگا؟! كيا آپ ھمارے مال كو اپنے پاس ركھ سكتے ھيں تاكہ چور آپ كو ديكھ كر وہ مال آپ سے نہ لوٹيں۔ آپ نے فرمايا: تمھيں كيا خبر شايد وہ ھميں ھي لوٹنا چاھتے ھوں؟ تو پھر اپنے مال كو ميرے حوالے كركے كيوں ضايع كرنا چاھتے ھو، اس وقت لوگوں نے كھا: تو پھر كيا كريں كيا مال كو زمين ميں دفن كرديا جائے؟ آپ نے فرمايا: نھيں ايسا نہ كرو كيونكہ اس طرح تو مال يونھي برباد ھوجائے گا، ھوسكتا ھے كہ كوئي اس مال كو نكال لے يا پھر دوبارہ تم اس جگہ كو تلاش نہ كرسكو۔ اھل قافلہ نے پھر كھا كہ تو آپ ھي بتائےے كياكريں؟ امام عليہ السلام نے فرمايا: اس كو كسي كے پاس امانت ركھ دو، تاكہ وہ اس كي حفاظت كرتا رھے، اور اس ميں اضافہ كرتا رھے، او رايك درھم كو اس دنيا سے بزرگ تر كردے اور پھر وہ تمھيں واپس لوٹادے، اور اس مال كو تمھارے ضرورت سے زيادہ عطا كرے!!
سب لوگوں نے كھا: وہ كون ھے؟ تب امام عليہ السلام نے فرمايا: وہ”ربّ العالمين“ ھے۔ لوگوں نے كھا: كس طرح اس كے پاس امانت ركھيں؟ تو امام عليہ السلام نے فرمايا: غريب اور فقير لوگوں كو صدقہ ديدو۔ سب نے كھا: ھمارے درميان كوئي غريب يا فقير نھيں ھے جس كو صدقہ ديديں۔ امام عليہ السلام نے فرمايا: اس مال كا ايك تھائي حصہ صدقہ كي نيت سے الگ كرلو تاكہ خداوندعالم چوروں كي غارت گري سے محفوظ ركھے، سب نے كھا: ھم نے نيت كرلي۔ اس وقت امام عليہ السلام نے فرمايا:
”فَاٴَنْتُمْ فِي اٴمَانِ الله فَامْضُوْا“۔
”پس (اب) تم خدا كي امان ميں ھو لہٰذا راستہ چل پڑو“۔
جس وقت قافلہ چل پڑا راستہ ميں چوروں كا گروہ سامنے دكھائي ديا، اھل قافلہ ڈرنے لگے۔ امام عليہ السلام نے فرمايا: (اب) تم كيوں ڈررھے ھو؟ تم لوگ تو خدا كي امان ميں ھو۔ چور آگے بڑھے اور امام عليہ السلام كے ھاتھوں كو چومنے لگے اور كھا: ھم نے كل رات خواب ميں رسول اللہ كو ديكھا ھے جس ميں آنحضرتنے فرمايا: كہ تم لوگ اپنے كو آپ كي خدمت ميں پيش كرو۔ لہٰذا اب ھم آپ كي خدمت ميں ھيں تاكہ آپ اور آپ كے قافلہ والوں كوچوروں كے شر سے محفوظ ركھيں۔ امام عليہ السلام نے فرمايا: تمھاري كوئي ضرورت نھيں ھے جس نے تم لوگوں كے شر كو ھم سے دور كيا ھے وہ دوسرے دشمنوں كے شر كو ھم سے دور كرے گا۔ اھل قافلہ صحيح و سالم شھر ميں پہنچ گئے؛ سب نے ايك سوم مال غريبوں ميں تقسيم كيا، ان كي تجارت ميں بھت زيادہ بركت ھوئى، ھر ايك درھم كے دس درھم بن گئے، سب لوگوں نے تعجب سے كھا:واقعاً كيا بركت ھے؟
امام صادق عليہ السلام نے اس موقع پر فرمايا:
”اب جبكہ تمھيں خدا سے معاملہ كرنے كي بركت معلوم ھوگئي ھے تو تم اس پر ھميشہ عمل كرتے رہنا“۔353

امام جواد عليہ السلام كے نام امام رضا عليہ السلام كا ايك اھم خط
بزنطي جوشيعہ دانشور راوي اور امام رضا عليہ السلام كے معتبر او رمطمئن صحابي ھيں، بيان كرتے ھيں: ميں نے اس خط كو پڑھا ھے جو امام رضا عليہ السلام نے خراسان سے حضرت امام جواد (محمد تقي) عليہ السلام كو مدينہ بھيجا تھا، جس ميں تحرير تھا:
مجھے معلوم ھوا ھے كہ جب آپ بيت الشرف سے باھر نكلتے ھيں اور سواري پر سوار ھوتے ھيں تو خادمين آپ كو چھوٹے دروازے سے باھر نكالتے ھيں، يہ ان كا بخل ھے تاكہ آپ كا خير دوسروں تك نہ پہنچے، ميں بعنوان پدر اور امام تم سے يہ چاھتاھوں كہ بڑے دروازے سے رفت و آمد كيا كريں، اور رفت و آمد كے وقت اپنے پاس درھم و دينار ركھ ليا كريں تاكہ اگر كسي نے تم سے سوال كيا تو اس كو عطا كردو، اگر تمھارے چچا تم سے سوال كريں تو ان كو پچاس دينار سے كم نہ دينا، اور زيادہ دينے ميں خود مختار ھو، اور اگر تمھاري پھوپھىاں تم سے سوال كريں تو 25 درھم سے كم نھيں ديں اگر زيادہ دينا چاھيں تو تمھيں اختيار ھے۔ ميري آرزو ھے كہ خدا تم كو بلند مرتبہ پر فائز كرے، لہٰذا راہ خدا ميں انفاق كرو، اور خدا كي طرف سے تنگدسي سے نہ ڈرو! 354
قارئين كرام! اس حقيقت پر بھي توجہ ركھنا چاہئے كہ قرآن مجيد نے بھت سي آيات ميں اس صدقہ سے منع كيا ھے جس ميں دوسروں پر منت اور احسان يا اس ميں اذيت پائي جاتي ھو، صدقہ و خيرات صرف اور صرف رضائے الٰھي كے لئے ھونا چاہئے، اور صدقہ لينے والے دوسروں كي منت اور احسان جتانے كي شرمندگي سے محفوظ رھيں، ورنہ تو وہ صدقہ باطل ھوجائے گا او رخدا كي نظر ميں اس كا كوئي اجر و ثواب نھيں ھوگا۔
(( الَّذِينَ ينفِقُونَ اٴَمْوَالَھم فِي سَبِيلِ اللهِ ثُمَّ لاَيتْبِعُونَ مَا اٴَنفَقُوا مَنًّا وَلاَاٴَذًي لَھم اٴَجْرُھم عِنْدَ رَبِّھم وَلاَخَوْفٌ عَلَيھم وَلاَھم يحْزَنُونَ))۔ 355
”جو لوگ راہ خدا ميں اپنے اموال خرچ كرتے ھيں اور اس كے بعد احسان نھيں جتاتے اور اذيت بھي نھيں ديتے ان كے لئے پروردگار كے يھاں اجر بھي ھے اور ان كے لئے نہ كوئي خوف ھے نہ حزن“۔
((يااٴَيھا الَّذِينَ آمَنُوا لاَتُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْاٴَذَي۔۔۔))۔ 356
”اے ايمان والو ! اپنے صدقات كو منت گذاري اور اذيت سے برباد نہ كرو۔۔۔“۔
بھر حال نماز، انفاق اور معنوى زيبائيوں ميں سے جو كچھ بھي خداوندعالم نے انسان كو عطا فرمايا ھے، اورگناھوں سے توبہ و استغفار كے بعد ظاھر و باطن كے اصلاح كرنے كے راستہ ھيں۔
غيب پر ايمان ركھنا، نماز كا قائم كرنا، خدا داد نعمتوں ميں سے اس كي راہ ميں خرچ كرنا، قرآن اور ديگر آسماني كتابوں اور آخرت پر يقين وايمان جيسا كہ گزشتہ صفحات ميں وضاحت كي گئي ھے ؛ يہ تمام ايسے حقائق ھيں كہ جس انسان ميں بھي پائے جائيں وہ راہ ہدايت پر ھے اور دنيا و آخرت ميں كامياب و كامران ھے۔
(( اٴُوْلَئِكَ عَلَي ہُدًي مِنْ رَبِّھم وَاٴُوْلَئِكَ ھم الْمُفْلِحُونَ))۔ 357
”يھي وہ لوگ ھيں جو اپنے پروردگار كي طرف سے ہدايت كے حامل ھيں اور فلاح يافتہ اور كامياب ھيں“۔
بعض اھل تحقيق جيسے راغب اصفھاني كے نزديك فلاح و بھبودي كے معني يہ ھيں: فلاح يعني ايسي زندگي جس ميںموت نہ ھو، ايسي عزت جس ميں ذلت نہ ھو، ايسا علم جس ميں جھالت كا تصور نہ ھو، ايسي ثروت جھاں فقر و تنگدستي نہ ھو، اور يہ فلاح آخرت ميں مكمل طريقہ سے ان انسانوں كو نصيب ھوگي جو لوگ غيب ((خدا، فرشتے، برزخ، محشر، حساب، ميزان اور جنت و دوزخ))پر ايمان ركھتے ھوں، نماز قائم كرتے ھوں، زكوٰة ادا كرتے ھوں، صدقہ و انفاق كرتے ھوں، قرآن او رديگر آسماني كتابوں پر ايمان ركھتے ھوں اور آخرت پر يقين ركھتے ھوں۔
يہ بات بھي معلوم ھونا چاہئے كہ انسان كو بارگاہ الٰھي ميں مقبول ھونے كے لئے صرف گناھوں سے توبہ كرنا اور گناھوں سے دوري كرلينا كافي نھيں ھے بلكہ قرآن كريم كي آيات كے پيش نظر جن ميں سے بعض كو آپ حضرات نے گزشتہ صفحات ميں ملاحظہ فرمايا ھے، توبہ كے بعد اپني حالت، اقوال اور اعمال كي اصلاح كرنا بھي ضروري ھے، يا دوسرے الفاظ ميں يوں كہئے كہ عمل صالح، اخلاق حسنہ اور معنوى زيبائيوں كي طرف توجہ كے ذريعہ اپني توبہ كو كامل كرے اور اپنے گزشتہ كي تلافي كرے اور برائيوں كو نيكيوں ميں بدل دے۔
(( إِلاَّ مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاٴُوْلَئِكَ يبَدِّلُ اللهُ سَيئَاتِھم حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللهُ غَفُورًا رَحِيمًا))۔ 358
”علاوہ اس شخص كے جو توبہ كر لے اور ايمان لے آئے اور نيك عمل بھي كرے، تو پروردگار اس كي برائيوں كو اچھائيوں سے تبديل كردے گا اور خدا بھت زيادہ بخشنے والا اور مھربان ھے“۔
عمل صالح اور اخلاق حسنہ كے سلسلہ ميں جو گناھوں سے توبہ كے بعدظاھر و باطن كے اصلاح كے اسباب ميں سے ھے، قرآن مجيد ماں باپ، رشتہ دار، يتيموں اور مسكينوںكے ساتھ نيكي اور احسان، تمام لوگوں كے ساتھ نيك گفتار، نماز قائم كرنے اور زكوٰة ادا كرنے كا حكم ديتا ھے، چونكہ ھمارا ارادہ يہ ھے كہ لازمي حد تك قرآن مجيد اور احاديث سے مدد ليتے ھوئے معنوى زيبائيوں كو بيان كريں تاكہ ھماري حالت اور عمل كي اصلاح ھوسكے، كچھ چيزيں گزشتہ صفحات ميں بيان ھوچكي ھيں ان كي تكرار كي ضرورت نھيں ھے، صرف ھر آيت كے ذيل ميں نئے اور جديد مطلب كي وضاحت كرنے پر اكتفاء كرتے ھيں، عزيز قارئين ! اب آپ قرآن مجيد كي روشني ميں اخلاقي واقعيات كي طرف توجہ فرمائيں:
(( ۔۔۔لاَتَعْبُدُونَ إِلاَّ اللهَ وَبِالْوَالِدَينِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْبَي وَالْيتَامَي وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَاٴَقِيمُوا الصَّلاَةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ۔۔۔))۔ 359
”خدا كے علاوہ كسي كي عبادت نہ كرنا اور ماں باپ، قرابتداروں، يتيموں اور مسكينوں كے ساتھ اچھا برتاوٴ كرنا۔لوگوں سے اچھي باتيں كرنا ۔نماز قائم كرنا۔ زكوٰة ادا كرنا۔۔۔“۔
گزشتہ صفحات ميں عبادت خدا اور احكام الٰھي كي فرمانبرداري كے عنوان سے نمازاور انفاق كے سلسلہ ميں لازمي حد تك وضاحت كي گئي ھے لہٰذا مذكورہ آيت كے ذريعہ ماں باپ، رشتہ داروں، يتيموں اور مسكينوں كے ساتھ نيكي اور احسان، نيز دوسرے لوگوں كے ساتھ نيك گفتار كے سلسلہ ميں كچھ چيزيں بيان كرتے ھيں:

ماں باپ كے ساتھ نيكى
قرآن مجيد كي متعدد آيات نے تمام لوگوں كو خدا كي عبادت كے بعد ماں باپ كے ساتھ نيكى اور احسان كرنے كا حكم ديا ھے، اس حكم سے شرعي اور اخلاقي وجوب كي بُوآتي ھے، يہ ايك ايسا حكم ھے جس كي اطاعت خدا كي عين بندگي اور عبادت ھے اور اس كي مخالفت گناہ و معصيت اور روز قيامت كے عذاب كا باعث ھے۔
خداوندعالم كا ارشاد ھوتا ھے:
(( وَاعْبُدُوا اللهَ وَلاَتُشْرِكُوا بِہِ شَيئًا وَبِالْوَالِدَينِ إِحْسَانًا۔۔۔))۔ 360
”اور اللہ كي عبادت كرو اور كسي شئے كو اس كا شريك نہ بناوٴ اور والدين كے ساتھ نيك برتاوٴكرو۔۔۔“۔
ماں باپ كے ساتھ نيكى اور احسان كرنا ان زحمتوں اور احسان كي تلافي ھے جس كو ان دونوں نے اپني اولاد كے ساتھ كيا ھے، جنھوں نے پيدائش كے وقت سے اب تك كسي بھي طرح كے احسان اور زحمت سے دريغ نھيں كيا۔
انھوں نے تمام مقامات پر اپني اولاد كو اپنے اوپر مقدم كيا، ان كے سلسلہ ميں ايثار كيا قربانياں ديں اور اپني طرف سے درگزر كيا، بلاؤں كے طوفان اور سخت سے سخت حالات ميں اولاد كي حفاظت كى، اور اپني جان سے زيادہ عزيز ركھتے ھوئے اپني آغوش ميں بٹھايا، اولاد كے چين و سكون كے لئے راتوں جاگتے رھے، اور سخت سے سخت حالات كي تلخيوں كو خوش ھوكر برداشت كيا، اس كي تربيت ميں بھت سي مصيتيں برداشت كيں، اور اپنے خون جگر سے ان كو غذا دى، بھت سي سختيوں اور پريشانيوں كو تحمل كيا تاكہ اولاد كسي مقام پر پہنچ جائے، لہٰذا اب اولاد كي ذمہ داري ھے كہ ماں باپ كے ساتھ نيكى اور احسان كركے ان كي زحمتوں كے ايك معمولي سے حصہ كي تلافي كرے۔
(( وَقَضَي رَبُّكَ اٴَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِياہُ وَبِالْوَالِدَينِ إِحْسَانًا إِمَّا يبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اٴَحَدُھما اٴَوْ كِلَاھما فَلاَتَقُلْ لَھما اٴُفٍّ وَلاَتَنْھرھما وَقُلْ لَھما قَوْلًا كَرِيمًا۔ وَاخْفِضْ لَھما جَنَاحَ الذُّلِّ مِنْ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْھما كَمَا رَبَّيانِي صَغِيرًا))۔ 361
”اور آپ كے پروردگار كا فيصلہ ھے كہ تم سب اس كے علاوہ كسي كي عبادت نہ كرنا اور ماں باپ كے ساتھ اچھا برتاوٴ كرنا اور اگر تمھارے سامنے ان دونوں ميں سے كوئي ايك يا دونوں بوڑھے ھوجائيں تو خبر دار ان سے اف نہ كہنا اور انھيں جھڑكنا بھي نھيں اور ان سے ھميشہ شريفانہ گفتگو كرتے رہنا ۔اور ان كے لئے خاكساري كے ساتھ اپنے كاندھوں كو جھكا دينا اور ان كے حق ميں دعا كرتے رہنا كہ پروردگار ان دونوں پر اسي طرح رحمت نازل فرما جس طرح كہ انھوں نے پچپن ميں مجھے پالا ھے“۔
حضرت امام صادق عليہ السلام سے سوال ھوا كہ ماں باپ كے سلسلہ ميں جس احسان كي سفارش ھوئي ھے اس سے كيا مراد ھے؟ تو امام عليہ السلام نے فرمايا: ان كے ساتھ نيكي اور بھلائي كے ساتھ زندگي كرو، ان كو مجبور نہ كرو كہ وہ تم سے كسي چيز كا سوال كريں اگرچہ وہ بے نياز ھوں، بلكہ ان كے كہنے سے پھلے ھي ان كي ضرورتوں كو پورا كردو، كيا خداوندعالم نے قرآن مجيد ميں نھيں فرمايا ھے:
(( لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّي تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ۔۔۔))۔ 362
”تم نيكي كي منزل تك نھيں پہنچ سكتے جب تك اپني محبوب چيزوں ميں سے راہ دا ميں انفاق نہ كرو۔۔۔“۔
ان كو ”اُف“ تك نہ كھو، اور ان كو اپنے سے دور نہ كرو، ان كو مايوس نہ كرو، اگر ان كي وجہ سے تم كو كوئي پريشاني ھے بھي تو اس كو برداشت كرو اور اپني زبان پر كوئي ايسا لفظ نہ لاؤ جس سے وہ ناراحت ھوں، اگر انھوں نے تمھيں مارنے كے لئے ھاتھ اٹھايا يا تم كو مار بھي ديا ھو تو صبر كرو، اور ان سے جدا نہ ھوں، اور ايسي حالت ميں ان سے كھو: خداوندعالم تم سے درگزر فرمائے، اور اپني مغفرت ميں جگہ عنايت فرمائے، كہ”قول كريم“ سے مراد يھي ھے، پيار اور محبت بھري نگاھوں سے ان كي طرف ديكھا كرو، مھرباني كي نگاہ كے علاوہ ان كو نہ ديكھو، اپني آواز كو ان كي آواز سے بلندتر نہ كرو، ان كے ھاتھ سے اپنا ھاتھ اوپر نہ اٹھاؤ، اور ان كے چلتے ھوئے ان سے آگے آگے نہ چلو۔363
حضرت امام صادق عليہ السلام نيكي اور احسان كي وضاحت كرتے ھوئے فرماتے ھيں: اگر خداوندعالم كے نزديك ”اُف“ سے كمتر كوئي لفظ ھوتا تو اولاد كو اپنے ماں باپ كے لئے كہنے سے منع فرماتا۔ نيز اولاد كو يہ بات معلوم ھونا چاہئے كہ عاق كا سب سے كم درجہ ماں باپ كے لئے لفظ ”اُف“ كا استعمال كرنا ھے364
كتاب شريف”كافي“ ميں روايت بيان ھوئي ھے كہ ماں باپ كي طرف ترچھي نگاھوں سے ديكھنا (بھي) عاق كا ايك مرحلہ ھے!۔ 365
ايك شخص نے رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم سے سوال كيا: اولاد پر باپ كا حق كيا ھے؟ تو آنحضرت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا:
”لَا يسَمِّيہِ بِاسْمِہِ، وَلَا يمْشي بَينَ يدَيہِ، وَلَا يجْلِسُ قَبْلَہُ، وَلَا يسْتَسِبُّ لَہُ“۔366
”باپ كا نام لے كر نہ پكارے، اس كے آگے نہ چلے، اس كي طرف پيٹھ كركے نہ بيٹھے اور اپنے برے كاموں كے ذريعہ اپنے بے گناہ باپ كو ذليل و رسوا نہ كرے“۔
ايك روايت ميں بيان ھوا ھے: رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے تين بار فرمايا: ذليل و رسوا ھو، اصحاب نے سوال كيا: يا رسول اللہ! آپ كس كے بارے ميں فرمارھے ھيں؟ تو آپ نے فرمايا: جس كے ماں باپ ضعيف العمر ھوں اوروہ ان كے ساتھ نيكي و احسان نہ كركے بہشت ميں داخل نہ ھو۔ 367
جناب حذيفہ نے رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كي خدمت ميں عرض كيا: ميرا باپ مشركين كي طرف سے ميدان جنگ ميں آيا ھوا ھے كيا آپ مجھے اس پر حملہ كرنے اوراس كو قتل كرنے كي اجازت ديتے ھيں؟ تو آپ نے فرمايا: نھيں، تم يہ كام نہ كرو، كوئي دوسرا اس سے مقابلہ كرے۔368
تفسير امام حسن عسكري عليہ السلام ميں رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم سے روايت ھے:
”اٴَفْضَلُ والِدَيكُمْ وَاَحَقُّھُما بِشُكْرِكُمْ مُحَمَّدٌ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم وَعَلِي عليہ السلام “۔369
”تمھارا سب سے بھترين باپ اور تمھارے شكريہ كے سزاوار ترين ذات محمد صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم اور علي عليہ السلام ھيں“۔
حضرت علي عليہ السلام فرماتے ھيں كہ ميں نے رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم سے سنا ھے:
”اَنَا وَ عَلَي اَبَوَاھٰذِہِ الْاُمَّةِ، وَلَحَقُّنا عَلَيھِمْ اَعْظَمُ مِنْ حَقِّ اَبَوَي وِلَادَتِھِمْ فَاِنَّا نُنْقِذُھُمْ اِنْ اَطاعونا مِنَ النّارِ اِليٰ دَارِالْقَرارِ، وَنُلْحِقُھُمْ مِنَ الْعُبودِيةِ بِخِيارِ الْاَحْرارِ“۔370
”ميں اور علي دونوں اس امت كے باپ ھيں، بے شك ھمارا حق اس باپ سے بھي زيادہ ھے جو اسے دنيا ميں لانے كا سبب بنا، ھم اس امت كو آتش جہنم سے نجات ديتے ھيں اگر ھماري اطاعت كريں، اور ان كو جنت ميں پہنچاديں گے اگر ھمارے حكم پر عمل كرے، اور ان كو عبادت كے سلسلہ ميں منتخب بندوں سے ملحق كرديں گے“۔

رشتہ داروں سے نيكي كرنا
رشتہ داروں سے مراد ماں باپ كے حسبي اور نسبي رشتہ دار مراد ھيں۔
انسان كا چچا، ماموں، پھوپھى، خالہ، اولاد، داماد، بھو اور اولاد كي اولاد رشتہ دار كھلاتے ھيں۔
بھائى، بہن، بھتيجے، بھانجے، داماد اور بھوويں اور ھر وہ شخص جو نسبي يا سببي رشتہ ركھتا ھو انسان كے رشتہ دار حساب ھوتے ھيں۔
ان كے ساتھ صلہ رحم اور نيكي يہ ھے كہ ان سے ملاقات كرے، ان كي مشكلات كو دور كرے اور ان كي حاجتوں كو پورا كرے۔
رشتہ داروں كے ساتھ صلہ رحم اور نيكي كرنا خداوندعالم كا حكم اور ايك اخلاقي و شرعي ذمہ داري ھے، جس كا اجر ثواب عظيم اور اس كا ترك كرنا عذاب اليم كا باعث ھے۔
قرآن مجيد نے پيمان شكنى، قطع تعلق اور زمين پر فتنہ و فساد پھيلانے كو خسارہ اور گھاٹااٹھانے والوں ميں شمار كيا ھے:
(( الَّذِينَ ينقُضُونَ عَہْدَ اللهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِہِ وَيقْطَعُونَ مَا اٴَمَرَ اللهُ بِہِ اٴَنْ يوصَلَ وَيفْسِدُونَ فِي الْاٴَرْضِ اٴُوْلَئِكَ ھم الْخَاسِرُونَ))۔ 371
”جو خدا كے ساتھ مضبوط عہد كرنے كے بعد بھي اسے توڑ ديتے ھيں اور جسے خدا نے جوڑ نے كا حكم ديا ھے اسے كاٹ ديتے ھيں اور زمين ميں فساد برپا كرتے ھيں يھي وہ لوگ ھيں جو حقيقتاً خسارہ والے ھيں“۔
رشتہ داروں سے قطع تعلق كرنا ايك غير شرعي عمل ھے اگرچہ انھوںنے كسي كو رنجيدہ خاطر بھي كيا ھو۔
رشتہ داروں كے يھاں آمد و رفت، ايك خداپسند عمل اور اخلاق حسنہ كي نشاني ھے۔
اگر چہ انسان كے بعض رشتہ دار دين و دينداري سے دور ھوں اور حق و حقيقت كے مخالف ھوں ليكن اگر ان كي ہدايت كي اميد ھو تو ان كي نجات كے لئے قدم اٹھانا چاہئے اور امر بالمعروف و نھي عن المنكر كے لئے ان كے يھاں رفت و آمد كرنا چاہئے۔
صلہ رحم كے سلسلہ ميں بھت سي اھم روايات رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومين عليھم السلام سے بيان ھوئيں ھيں جن كے حكيمانہ مطالب پر توجہ كرنا ھر مومن پر لازم و واجب ھے۔
حضرت رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم سے بھت سي اھم روايات صلہ رحم كے سلسلہ ميں نقل ھوئي ھيں جو واقعاً بھت ھي اھم ھيں:
”اِنَّ اَعْجَلَ الْخَيرِ ثَواباً صِلَةُ الرَّحِمِ“۔
”بے شك ثواب كي طرف تيزي سے جانے والا كار خير صلہ رحم ھے“۔
”صِلَةُ الرَّحِمِ تُھَوِّنُ الْحِسابَ، وَتَقي ميتَةَ السُّوءِ“۔
”صلہ رحم كے ذريعہ روز قيامت ميں انسان كا حساب آسان ھوجاتا ھے، اور بُري موت سے محفوظ رھتا ھے“۔
”صِلُوا اَرْحَامَكُمْ فِي الدُّنْيا وَلَوْ بِسَلامٍ“۔
”دنيا ميں صلہ رحم كي رعايت كرو اگرچہ ايك سلام ھي كے ذريعہ كيوں نہ ھو“۔
”صِلْ مَنْ قَطَعَكَ، وَاَحْسِنْ اِليٰ مَنْ اَساءَ اِلَيكَ، وَقُلِ الْحَقَّ وَلَوْعَليٰ نَفْسِكَ“۔
”جن رشتہ داروں نے تجھ سے قطع تعلق كيا ھے اس كے ساتھ صلہ رحم كرو، اور جس نے تمھارے ساتھ بدي كي ھے اس كے ساتھ نيكي كرو، نيز ھميشہ سچ بات كھو چاھے تمھارے نقصان ميں تمام ھو“۔
”اِنَّ الرَّجُلَ لَيصِلُ رَحِمَہُ وَقَدْ بَقِي مِنْ عُمُرِہِ ثَلاثُ سِنينَ فَيصَيرُھَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ثَلاثينَ سَنَةً، وَيقْطَعُھا وَقَدْ بَقِي مِنْ عُمُرِہِ ثَلاثُونَ سَنَةً فَيصَيرُھَا اللّٰہُ ثَلاثَ سِنينَ [124]ثُمَّ تَلا:(( يمْحُوا اللهُ مَا يشَاءُ وَيثْبِتُ وَعِنْدَہُ اٴُمُّ الْكِتَابِ))۔ 372
”بے شك جب انسان صلہ رحم كرتا ھے تو اگرچہ اس كي عمر كے تين سال باقي رہ گئے ھوں تو خداوندعالم اس كي عمر تيس سال بڑھاديتا ھے، اور جو شخص رشتہ داروں سے قطع تعلق كرتا ھے اگرچہ اس كي عمر تيس سال باقي رہ گئي ھو توبھي خداوندعالم اس كي عمر تين سال كرديتا ھے، اس كے بعد (امام عليہ السلام نے) مذكورہ بالا آيت كي تلاوت كى: (( خداوندعالم جس چيز كو چاھے مٹادے اور جس چيز كو چاھے لكھ دے))“۔
حضرت امير المومنين عليہ السلام نے فرمايا:
”وَاٴَكْرِمْ عَشِيرَتَكَ فَاِنَّھُمْ جَناحُكَ الَّذِي بِہِ تطير، وَاَصْلُكَ الَّذِي اِلَيہِ تَصيرُ، وَيدُكَ الَّذِي بِھا تَصولُ“۔373
”اپنے رشتہ داروں كے ساتھ لطف و كرم كرو، وہ تمھارے بال و پر ھيں جن كے ذريعہ تم پرواز كرسكتے ھو، اور وھي تمھاري اصل ھيں كہ ان كي طرف پلٹ جانا ھے، نيز تمھاري طاقت ھيں كہ انھيں كے ذريعہ اپنے دشمنوں پر حملہ كرسكتے ھو“۔
حضرت امام علي نقي عليہ السلام فرماتے ھيں: جناب موسيٰ عليہ السلام نے خداوندعالم كي بارگاہ ميں عرض كيا:
”فَما جَزاءُ مَنْ وَصَلَ رَحِمَہُ قَالَ:يا مُوسيٰ اُنْسِي ءُ لَہُ اَجَلَہُ، وَاُھَوِّنَ عَلَيہِ سَكَراتِ الْمَوْتِ“۔374
”خداوندا! صلہ رحم كرنے والے كي جزا كيا ھے؟ جواب آيا: اس كي موت دير سے بھيجوں گا، اور اس كے لئے موت كي سختيوں كو آسان كردوں گا“۔


--------------------------------------------------------------------------------


264. سورہٴ انعام، آيت 54۔
265. سورہٴ انعام، آيت 54۔
266. سورہٴ بقرہ، آيت 3۔5۔
267. سورہٴ ابراھيم، آيت 10۔
268. سورہٴ بقرہ، آيت 21۔22۔
269. سورہٴ بقرہ، آيت 21۔
270. توحيد مفضل :39؛بحارالانوار، ج3، ص57، باب 4، حديث1۔8. جاء اعرابي الي النبي صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم فقال:يا رسول اللہ !علمني من غرائب العلم۔قال:ما صنعت في راس العلم حتي تسال عن غرائبہ۔قال الرجل :ما راس العم يا رسول اللہ ؟قال:معرفة اللہ حق معرفتہ ۔قال الاعرابى:وما معرفة اللہ حق معرفتہ؟قال:تعرفہ بلا مثل و لاشبہ ولاند، وانہ واحد اٴحد ظاھر باطن اول آخرلاكفو لہ ولا نظير ۔فذلك حق معرفتہ۔
271. سورہٴ طہ، آيت 111۔
272. سورہٴ بقرہ، آيت 163۔
273. سورہٴ بقرہ، آيت 98۔
274. سورہٴ نساء، آيت 136۔
275. نہج البلاغہ، ترجمہ علامہ جوادي عليہ الرحمہ، ص 31۔
276. سورہٴ مومنون، آيت 99۔100۔
277. آل عمران، آيت 169۔
279. سورہٴ آل عمران، آيت 25۔
280. سورہٴ آل عمران، آيت 158۔
281. سورہٴ مائدہ، آيت 96۔
282. سورہٴ انعام، آيت 12۔
283. سورہٴ انعام، آيت 36۔
284. سورہٴ توبہ آيت 94۔
285. سورہٴ موٴمنون آيت 15۔16۔
286. سورہٴ قيامت آيت 1۔4۔
287. تفسير قمي ج2، ص253، كيفية نفخ الصور؛بحار الانوار ج7، ص39، باب 3، حديث8۔32. عن ابي جعفر عليہ السلام قال:كان فيما وعظ بہ لقمان عليہ السلام ابنہ اٴن قال :يا بنى!ان تك في شك من الموت فارفع عن نفسك النوم، ولن تستطيع ذلك، وان كنت في شك من البعث فارفع عن نفسك الانتباہ، ولن تستطيع ذلك۔فانك اذا فكرت في ھذا علمت ان نفسك بيد غيرك، وانما النوم بمنزلة الموت، وانما اليقظة بعد النوم بمنزلة البعث بعد الموت۔
288. تفسير نوين، ص : 19۔
289. سورہٴ يس آيت 77۔79۔
290. سورہٴ يس آيت 79۔(( قُلْ يحْييھا الَّذِي اٴَنشَاٴَھا اٴَوَّلَ مَرَّةٍ وَہُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ))
291. سورہٴ بقرہ آيت 284۔
292. سورہٴ طہ آيت 52۔
293. تفسير نمونہ ج18، ص456۔
294. سورہٴ بقرہ آيت 201۔202۔
295. سورہٴ انعام آيت 62۔
296. سورہٴ انشقاق آيت 7۔8۔
297. اما لي صدوق :39، مجلس 10، حديث 9؛بحار الانوار ج7، ص258، باب 11، حديث 1۔43. عن ابي جعفر عليہ السلام قال :قلت لہ: ياابن رسول اللہ ان لي حاجة، فقال:تلقاني بمكة۔فلقت :يا ابن رسول اللہ!ان لي حاجة فقال تلقاني بمنى، فقلت :يا ابن رسول اللہ !ان لي حاجة ۔فقال:ھات حاجتك ۔فقلت ياابن رسول اللہ !اني اذنبت ذنبا بيني وبين اللہ لم يطلع عليہ احد فعظم علي واٴجلك اٴن اٴستقبلك بہ۔فقال:انہ اذاكان يوم القيامة وحاسب اللہ عبدہ الموٴمن اٴوقفہ علي ذنوبہ ذنبا ذنبا، ثم غفر ھا لہ لا يطلع علي ذلك ملكا مقربا ولا نبيا مرسلا۔
298. امالي طوسي ص212، مجلس 8، حديث 369؛بحار الانوار ج7، ص262، باب 11، حديث 14۔
299. عن يونس بن عمار، قال:قال ابو عبد اللہ عليہ السلام :ان الدواوين يوم القيامة ديوان فيہ النعم وديوان فيہ الحسنات، وديوان فيہ السيئات، فيقابل بين ديوان النعم وديوان الحسنات، فتسغرق النعم ديوان الحسنات ويبقي ديوان السيئات، فيدعا ابن آدم الموٴمن للحساب فيتقدم القرآن اٴمامہ في احسن صورة فيقول:يارب !اٴنا القرآن وھذا عبدك الموٴمن قدكان يتعب نفسہ بتلاوتى، و يطيل ليلہ بترتيلى، و تفيض عيناہ اذا تھجد، فاٴرضہ كما اٴرضانى، قال:فيقول العزيز الجبار:ابسط يمينك فيملوٴھا من رضوان اللہ العزيز الجبار، ويملا ٴشمالہ من رحمة اللہ ۔ثم يقال:ھذہ الجنة مباحة لك، فاقراٴ واصعد ۔فاذا قراٴ آية صعد درجة۔
300. سورہٴ آل عمران آيت 19۔
301. سورہٴ رعد آيت 18۔
302. سورہٴ طلاق آيت 8۔
303. سورہٴ غاشيہ آيت 23۔26۔
304. سورہٴ اسراء آيت 36۔(ترجمہ آيت:”۔۔۔سماعت، بصارت اور قوت قلب سب كے بارے ميں سوال كيا جائے گا۔“
305. تفسير عياشي ج2، ص292، حديث 75؛بحار الانوار ج7، ص267، باب 11، حديث 30۔
306. كافي ج8، ص104، حديث ابي بصير مع المراٴة، حديث79؛بحار الانوار ج7، ص270، باب11، حديث35۔
307. سورہٴ نساء آيت 48۔54. الا وان الظلم ثلاثة :فظلم لا يغفر، وطلم لا يترك، و ظلم مغفور لا يطلب ۔فاما الظلم الذي لا يغفر :فالشرك باللہ ۔قال اللہ سبحانہ ((إِنَّ اللهَ لاَيغْفِرُ اٴَنْ يشْرَكَ بِہ))۔واٴما الظلم الذي يغفر:فظلم العبد نفسہ عند بعض الھنات۔واٴ ما الظلم الذي لا يترك :فظلم العباد بعضھم بعضا القصاص ھناك شديد اليس ھو جرحا بالمدي ولا ضربا بالسياط ولكنہ ما يستصغر ذلك معہ ۔
308. علل الشرايع ج2، ص528، باب 312، حديث6؛بحار الانوارج7، ص274، باب11، حديث46۔
309. سورہٴ اعراف آيت 8۔
310. سورہٴ انبياء آيت 47۔
311. معاني الاخبار ص31، حديث 1؛بحار الانوار ج7، ص249، باب 10، حديث6۔
312. سورہٴ اعراف آيت 8۔9۔
313. سورہٴ انبياء آيت 47۔
314. سورہٴ قارعہ آيت 6۔11۔
315. اما لي صدوق :10، مجلس 3، حديث3؛خصال ج2، ص360، حديث 49؛بحار الانوار ج7، ص248، باب 10، حديث 2۔
316. كافي ج2، ص99، باب حسن الخلق، حديث2؛بحار الانوار ج7، ص249، باب10، حديث7۔
317. عيون اخبار الرضا ج2، ص125، باب 35، حديث 1؛بحار الانوار ج7، ص249، باب10، حديث5۔
318. سورہٴ مائدہ آيت 119۔
319. سورہٴ يونس آيت 27۔67. عن ابي جعفر عليہ السلام قال:اذا كان يوم القيامة امر اللہ تبارك و تعالي مناديا ينادي بين يديہ: اين الفقراء ؟فيقوم عنق من الناس كثير، فيقول: عبادي۔فيقولون :لبيك ربنا۔فيقول:اني لم افقركم لھوان بكم على، ولكن انما اختركم لمثل ھذا اليوم تصفحوا وجوہ الناس، فمن صنع اليكم معروفا لم يصنعہ الا في فكافوہ عني بالجنة۔
320. عن ابي عبداللہ عليہ السلام قال:ايما موٴمن منع موٴمنا شيئا مما يحتاج اليہ وھو يقدر عليہ من عندہ اومن عند غيرہ، اقامہ اللہ القيامة مسودا وجھہ، مزرقة عيناہ، مغلولة يداہ الي عنقہ، فيقال:ھذا الخائن الذين خان اللہ ورسولہ ثم يوٴمر بہ الي النار۔كافي ج2، ص367، باب من منع موٴمنا سيئا، حديث 1؛بحا الانوار ج7، ص201، باب8، حديث 84۔
321. عن عبد اللہ بن الحسين عن اٴبيہ عن جدہ عن اٴميرالموٴمنين علي ابن اٴبي طالب عليھم السلام قال:قال رسول اللہ(ص) : يا على! كذب من زعم اٴنہ يحبني و يبغضك ۔يا على!انہ اذا كان يوم القيامة نادي مناد من بطنان العرش :اٴين محبو علي و شيعتہ؟اٴين محبوا علي و من يحبہ؟اٴين المتحابون في اللہ؟اٴين المتباذلون في اللہ ؟اٴين الموٴثرون علي انفسھم ؟اٴين الذين جفت اٴلستنھم من العطش ؟اٴين الذين يصلون في الليل والناس اٴين الذين يبكون من خشية اللہ؟لا خوف عليكم اليوم ولا؛انتم تحزنون اٴنتم رفقاء محمد صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم قروا عينا ادخلوا الجنة اٴنتم وازواجكم تحبرون۔
322. سورہٴ بقرہ آيت 3۔، ”جو لوگ غيب پر ايمان ركھتے ھيں-۔“
324. سورہٴ اسراء آيت 88۔
325. سورہٴ بقرہ آيت 110۔
326. سورہٴ بقرہ آيت 45۔
327. سورہٴ انفال آيت 2۔3۔
328. سورہٴ نساء آيت 43۔
329. سورہٴ مريم آيت 55۔
330. سورہٴ عنكبوت آيت 45۔
331. سورہٴ مدثر آيت 43۔46۔
332. سورہٴ ماعون آيت 4۔6۔
333. من لا يحضرہ الفقيہ ج1، ص206، باب فرض الصلاة، حديث 617؛علل الشرايع ج2، ص356، باب 70، حديث 1؛بحار الانوار ج80، ص9، باب 6، حديث3۔
334. امالي صدوق ص207، مجلس 37، حديث 8؛بحا ر الانوار ج80، ص9، باب6، حديث 6۔
335. مشكاة الانوار، 53، الفصل الرابع عشر في اداء الامانة ؛بحار الانوار ج80، ص11، باب6، حديث 10۔
336. خصال ج1، ص163، حديث 213؛وسائل الشيعہ ج4، ص112، باب 1، حديث 4651۔
337. عيون اخبار الرضا ج2، ص31، باب31، حديث 46؛بحار الانوار ج80، ص14، باب 6، حديث 23۔
338. محاسن ج1، ص254، باب 30، حديث281؛بحار الانوار ج80، ص20، باب 6، حديث36؛مستدرك الوسائل ج3، ص96، باب1، حديث3106۔
340. سورہٴ بقرہ آيت 3۔
341. سورہٴ بقرہ آيت 195۔
342. سورہٴ بقرہ آيت 254۔
343. سورہ تغابن آيت 16۔
344. سورہٴ بقرہ آيت 261۔
345. سورہٴ بقرہ آيت 274۔
346. سورہٴ فاطر آيت 29۔
347. مصباح الشريعہ :15، باب الثاني والعشرون في الزكاة؛بحار الانوار ج93، ص7، باب 1، حديث1۔
348. قولہ عزوجل:(( وَآ تُوا الزَّكوٰةَ))من المال والجاہ وقوة البدن۔فمن المال:مواساة اخوانكم الموٴمنين؛ ومن الجاہ:ايصالھم الي ما يتقا عسو ن عنہ لضعفھم عن حوائجھم المترددة في صدورھم ؛وبالقوة:معونة اٴخ لك قد سقط حمارہ اٴو جملہ في صحراء اٴو طريق، وھو يستغيث فلا يغاث تعينہ، حتي يحمل عليہ متاعہ، وتركبہ (عليہ)و تنھضہ حتي تلحقہ القافلہ، واٴنت في ذلك كلہ معتقد لموالاة محمد وآلہ الطيبين، فان اللہ يزكي اعمالك ويضاعفھا بموالاتك لھم، وبراء تك من اعدائھم۔
349. بصائر الدرجات ص11، حديث 4؛بحار الانوار ج93، ص114، باب14، حديث2۔
350. زيد بن علي عن ابيہ عن جدہ عليھم السلام قال:قال اٴمير الموٴمنين علي ابن ابي طالب عليہ السلام :ان في الجنة لشجرة يخرج من اٴعلاھا الحلل ومن اسفلھا خيل بلق مسرجة ملجمة ذوات اٴجنحة لا تروث ولا تبول، فيركبھا اٴولياء اللہ فتطير بھم في الجنة حيث شاء وا، فيقول الذين اسفل منھم:يا ربنا !ما بلغ بعبادك ھذہ الكرامة ؟فيقول اللہ جل جلالہ :انھم كانوا يقومون الليل ولا ينامون، ويصومون النھار ولا ياٴكلون ويجاھدون العدوا ولا يجبنون، ويتصدقون ولا يبخلون۔
351. من لايحضرہ الفقيہ ج4، ص 17، باب ذكر جمل من مناھي النبى، حديث4968؛بحار الانوار ج93، ص115، باب 14، حديث 5۔
352. كافي ج4، ص27، باب فضل المعروف، حديث 4؛بحار الانوار ج93، ص119، باب 14، حديث 20۔
353. عيون اخبار الرضا ج2، ص4، باب 30، حديث 9؛وسائل الشيعہ ج9، ص390، باب10، حديث12309؛ بحارالانوار ج93، ص120، باب 14، حديث 23۔
354. كافي ج4، ص43، باب الانفاق، حديث 5؛عيون اخبار الرضاج2، ص8، باب 30، حديث20؛بحار الانوار ج93، ص121، باب14، حديث24۔
355. سورہٴ بقرہ آيت 262
356. سورہٴ بقرہ آيت 264۔
357. سورہٴ بقرہ آيت 5۔
358. سورہٴ فرقان آيت 70۔
359. سورہ ٴ بقر ہ آيت 83۔
360. سورہٴ نساء آيت 36۔
361. سورہٴ اسراء آيت 23۔24۔
362. سورہٴ آل عمران آيت 92۔
363. كافي ج2، ص157، باب البر بالوالدين، حديث 1؛بحارالانوار ج71، ص39، باب 2، حديث 3۔
364. عن حديد بن حكيم عن ابي عبد اللہ عليہ السلام قال اٴدني العقوق اٴف ولو علم اللہ عز وجل شيئا اٴھون منہ لنھي عنہ۔
365. كافي ج2، ص349، باب العقوق، حديث7۔
366. كافي ج2، ص158، باب البر بالوالدين، حديث 5؛بحار الانوار ج71، ص45، باب2، حديث6۔
367. تفسير صافي ج3، ص185، ذيل سورہٴ اسراء، آيت 24۔
368. تفسير صافي ج3، ص186، ذيل سورہٴ اسراء، آيت 24 ۔
369. تفسير امام حسن عسكري ص330، حديث 189، ذيل سورہٴ اسرائآيت 24 ؛بحار الانوار ج23، ص259، باب15، حديث8۔
370. تفسير صافي ج1، ص150، ذيل سورہٴ اسرائآيت 83، تفسير امام حسن عسكري عليہ السلام ص330، حديث 190؛بحار الانوار ج23، ص259، باب 15، حديث 8۔
371. سورہٴ بقرہ آيت 27۔
372. سورہٴ رعد آيت 39۔
373. نہج البلاغہ ص642، نامہ 31، في الراٴي في المراٴة ؛بحار الانوار ج71، ص105، باب3، حديث67۔
374. امالي صدوق ص207، مجلس 37، حديث 8؛بحار الانوار ج66، ص383، باب38، حديث46۔