تقويٰ و پرھيزگاري كے فوائد
تقويٰ و پرھيزگاري كے فوائد
  ((وَاٴَمَّامَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ وَنَھَي النَّفْسَ عَنِ الْھَويٰ فَإِنَّ الْجَنَّةَ ھِي الْمَاويٰ))۔215
”اور جس نے رب كي بارگاہ ميں حاضري كا خوف پيدا كيا ھے اور اپنے نفس كو خواہشات سے روك لياھے، تو بيشك، اس كا ٹھكانہ جنت ھوگا“۔

انسان اور اس كي خواہشات
انسان بچپن سے آخري وقت تك ديكھتا، سنتا، چكھتا، لمس كرتا، سونگھتا اور سعي و كوشش كرتا ھے۔
جس چيز كو ديكھتا، سنتا، چكھتا، لمس كرتا، سونگھتا اور كوشش كرتا ھے اسي كوچاھتا ھے۔
ديكھنے، سننے، چكھنے، لمس كرنے او رسونگھنے والي چيزوں كے مناظر بھت زيادہ دلربا ھوتے ھيں، چنانچہ انھيں مناظر كي وجہ سے انسان كے خواہشات بھي بھت زيادہ ھوجاتي ھيں۔
ديكھي ھوئى، اورسني ھوئي يا مزہ دار چيزوں ميں، ان اشياء كا استعمال كرنا جو خود اس كے لئے، يا اس كے اھل خانہ اور معاشرہ كے لئے نقصان دہ ھو، حرام اور ممنوع ھيں؛ خداوندعالم كے حكم سے حرام كردہ يہ سب چيزيں انبياء اور ائمہ عليھم السلام كي ذريعہ بيان ھوئي ھيں، اور تمام چيزوں كا بيان كرنا رحمت پروردگار، انبياء اور ائمہ عليھم السلام كي محبت كا نتيجہ ھے۔
انسان روپيہ پيسہ، غذا، لباس، زمين و جائداد، گاڑى، خواہشات نفساني اورجاہ و مقام كي آرزوركھتا ھے، ليكن يہ غور كرنا چاہئے كہ خواہشات بے قيد و شرط كے نہ ھوں، ھماري خواہشات دوسروں كے حقوق كي پامالي كا سبب نہ بنيں، ھماري خواہشات كسي كا گھر يا معاشرہ كو درھم و برھم نہ كرڈاليں، ھماري خواہشات، انساني شرافت كونہ كھوبيٹھے ھمارى، خواہشات اس حد تك نہ ھو ںكہ انسان اپني آخرت كو كھوبيٹھے اور غضب الٰھي كا مستحق بن جائے اور ھميشہ ھميشہ كے لئے نار جہنم ميں جلتا رھے، اس چيز كي اجازت نہ شريعت ديتي ھے اور نہ عقل و منطق، آپ كسي بھي صاحب فطرت اور صاحب وجدان اور عقل سليم ركھنے والے شخص سے سوال كرليں كہ ميں مال و دولت، مقام ومنصب يا عورت كو حاصل كرنے كے بعد دوسرے كے حق كو پامال اور ان پر ظلم كرنا چاھتا ھوں، يا كسي كے دل كو جلانا ياكسي كا گھر برباد كرنا چاھتا ھوں تو ديكھئے وہ كيا جواب ديتا ھے، يا ان تمام سوالوں كو اپني عقل و فكر اور وجدان سے پوچھ كر ديكھيں تو كيا جواب ملے گا؟
خود آپ اور دوسروں كي عقل صرف يھي جواب دے گي كہ ناجائز خواہشات كو ترك كردو، اور جس چيز كي خواہش ھے اسے اس طرح حاصل كرو جس طرح تمھارا حق ھے، اگر اس طرح آپ نے خواہشات پر عمل كيا تونہ كسي كا كوئي حق ضائع ھوگا اور نہ ھي كسي پر ظلم ھوگا۔
اگر يھي سوال خدا، انبياء اور ائمہ عليھم السلام سے كريں گے تو جواب ملے گا اگر تمھارا حق ھے تو چاھو، اور اگر تمھارا حق نھيں ھے تو اس چيز كي خواہش نہ كرو، قناعت كے ساتھ ساتھ حلال طريقہ سے خواہشات كو پورا كرو ليكن اگر تمھاري خواہشات غير شرعي طريقہ سے ھو يا اجتماعي قوانين كے خلاف ھے تو يہ ظلم و ستم ھے۔
اگر تمام خواہشات ميں قوانين الٰھي اور معاشرتي حدود كي رعايت كي جائے تو زندگي كي سلامتى، حفظ آبرو، اور اخلاقي كمالات پر پہنچنے كا سبب ھيں، ليكن اگر ان خواہشات ميں معاشرہ اور الٰھي قوانين كي رعايت نہ كي جائے تو انسان كي زندگي برباد ھوجاتي ھے، اس كي عزت خاك ميں مل جاتي ھے اور انسان ميں شيطاني صفات اور حيواني خصلتيں پيدا ھوجاتي ھيں۔
بھر حال انساني زندگي ميں پيش آنے والي تمام خواہشات دو قسم كي ھوتي ھيں: حساب شدہ خواہشات، اور غير حساب شدہ خواہشات۔
حساب شدہ وہ خواہشات ھوتي ھيں جو خدا كي مرضي كے مطابق ھوں، اور اس كي مرضي كے مطابق ھي انسان آرزو كرے، جو قوانين الٰھي اور اس كے حدود كے مطابق ھوں۔ اس وقت انسان مال و دولت چاھتا ھے ليكن حلال مال و دولت، مكان چاھتا ھے ليكن حلال، شھواني خواہشات كي آگ بجھانا چاھتا ھے ليكن شرعي نكاح كے ذريعہ، مقام و منصب چاھتا ھے ليكن رضائے الٰھي اور محتاج لوگوں كي مدد كرنے كے لئے، T.V ديكھنا چاھتا ھے ليكن صحيح او رمناسب پروگرام، ان تمام صورتوںميں خواہشات ركھنے والا ايسا انسان موٴمن، بيدار، صاحب بصيرت، قيامت كو ياد ركھنے والا، ذمہ داري كا احساس كرنے والا، لوگوں سے نيكي اور مھرباني كرنے والا، معاشرے كے سلسلہ ميں دلسوز، رضائے الٰھي كو حاصل كرنے والا، دين و دنيا كي سعادت چاہنے والا اور جھاد اكبر كرنے والاھوجاتا ھے۔
غير حساب شدہ خواہشات وہ ھوتي ھيں جن ميں صرف نفس شامل ھوتا ھے، جن ميں انانيت كي بو آتي ھو، جن كي وجہ صرف تكبر و غرور اور خود خواھي ھوتي ھے اور وہ ضلالت و گمراھى سے ظاھر ھوتي ھيں۔
اس صورت ميں آدمي مال و دولت چاھتا ھے ليكن جس راہ سے بھي ھو اس كے لئے كوئي مشكل نھيں چاھے سود، چورى، غصب، مكارى، دھوكا فريب، رشوت وغيرہ كے ذريعہ ھي كيوں نہ ھو، مكان چاھتا ھے چاھے وہ اعزاء و دوستوں كے حق كو پامال كرنے سے ھو، شھوت كي آگ بجھانا چاھتا ھے چاھے استمناء، لواط زنا وغيرہ كے ذريعہ سے ھي كيوں نہ ھو، مقام و منصب چاھتا ھے، چاھے دوسروں كو ان كے حق سے نامحروم كرنے ذريعہ ھي كيوں نہ ھو، كچھ سننا چاھتا ھے چاھے غيبت، تھمت اور حرام موسيقي اور گانا ھي كيوں نہ ھو۔
ايسي خواہشات ركھنے والا شخص بے دين، ضعيف الايمان، دل كا اندھا، بے بصيرت، آخرت كو خراب كرنے والا، غضب الٰھي كا خريدنے والا اور ظلمت و گمراھى كے ميدان ميں شيطان كا نوكر ھوتا ھے۔
قرآن مجيد نے ايسي خواہشات ركھنے والے انسان كو ”ھوا و ھوس كے غلام“سے تعبير كيا ھے۔
ھوا و ھوس انسان كي اس باطني قوت كا نام ھے جو انسان پر حكومت كرتي ھے، اور خود خدا كي جگہ قرار پاتي ھے، خود اپني كو معبود كھلواتي ھے، انسان كو اپنا غلام بناليتي ھے اور انسان كو خدا كي عبادت و اطاعت كرنے كے بجائے اپني عبادت كے لئے مجبور كرتي ھے:
((اٴَرَاٴَيتَ مَنْ اتَّخَذَ إِلَہَہُ ہَوَاہُ اٴَفَاٴَنْتَ تَكُونُ عَلَيہِ وَكِيلًا))۔ 216
”كيا آپ نے اس شخص كوديكھاھے جس نے اپني خواہشات ھي كو اپنا خدا بنا ليا ھے، كيا آپ اس كي بھي ذمہ داري لينے كے لئے تيار ھے“۔
انسان اپني زندگي كے آغازسے جس چيز كو ديكھتا ھے اس كو حاصل كرنا چاھتا ھے، جس چيز كو سنتا ھے اس كے پيچھے دوڑتا ھے اور جس چيز كا دل چاھتا ھے اس كو حاصل كرنے كي كوشش كرتا ھے، اپنے پيٹ كو حلال و حرام كي پروا ہ كئے بغير بھرتا ھے، شھوت كي آگ بجھانا چاھتا ھے چاھے جس طرح سے بھي ھو، مال و دولت كے حصول كے لئے، مقام و عہدہ پانے كے لئے كسي بھي حق كي رعايت نھيں كرتا، درحقيقت ايسا انسان ھوا وھوس كے بت سازكارخانہ ميں داخل ھوجاتا ھے، جو كچھ ھي مدت كے بعد اپنے ھاتھوں سے بت تراشناشروع كرديتا ھے، اور اس بت كو دل ميں بساليتا ھے اور يھي نھيں بلكہ اپنے ھاتھ سے بنائے ھوئے بت كي پوجا شروع كرديتا ھے!
افسوس كي بات ھے كہ بھت لوگوں كي عمر كا نتيجہ يہ ھوتا ھے كہ ان كا باطن بت خانہ بن جاتا ھے اور اس كي تلاش و كوشش كا ثمرہ ”ھواپرستي كا بت “ ھوتا ھے اور ان كا كام اس بت كي عبادت كرنا ھوتا ھے، ايك عارف كے بقول:

انساني نفس خود سب سے بڑا بت ھے
اس بت كي پوجا كرنے والے يہ لوگ كسي جاندار كي جان كو جان نھيں سمجھتے، كسي كي عزت كو كوئي اھميت نھيں ديتے، كسي كے حق كي رعايت نھيں كرتے، ايك معاشرہ كي عزت وناموس كو پامال كرديتے ھيں، ھر چيز پر اپنا حق جتاتے ھيں ليكن دوسروں كے لئے كسي بھي طرح كے حق كے قائل نھيں ھوتے۔
خداوندعالم نے تمام بندوں كو دنيا و آخرت كي خير و بھلائي كے لئے نفس اور اس كي بے حساب و كتاب خواہشات كي پيروي نہ كرنے كا حكم ديا ھے، اگرچہ ھوائے نفس كي مخالفت ظاھراً ان كے اور دوسروں كے لئے نقصان دہ ثابت ھوتي ھو۔
((يااٴَيھا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاءَ لِلَّہِ وَلَوْ عَلَي اٴَنفُسِكُمْ اٴَوْ الْوَالِدَينِ وَالْاٴَقْرَبِينَ إِنْ يكُنْ غَنِيا اٴَوْ فَقِيرًا فَاللهُ اٴَوْلَي بِھما فَلاَتَتَّبِعُوا الْہَوَي اٴَنْ تَعْدِلُوا۔۔۔))۔ 217
”اے ايمان والو! عدل و انصاف كے ساتھ قيام كرو اور اللہ كے لئے گواہ بنو چاھے اپني ذات يا اپنے والدين اور اقرباء ھي كے خلاف كيوں نہ ھوں جس كے لئے گواھي دينا ھے وہ غني ھو يا فقير، اللہ دونوں كے لئے تم سے اوليٰ ھے، لہٰذا تم ھوا و ھوس كي پيروي نہ كرو، اور عدالت سے كام لو “۔
قرآن مجيد نے ھوائے نفس كے بت كي پيروي كو ضلالت و گمراھى، حق سے منحرف ھونے اورروز قيامت كو فراموش كرنے كا سبب بتايا ھے، اور قيامت كے دن درد ناك عذاب ميں مبتلا ھونے كا سبب بيان كيا ھے۔
((وَلاَتَتَّبِعْ الْہَوَي فَيضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللهِ إِنَّ الَّذِينَ يضِلُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللهِ لَھم عَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا نَسُوا يوْمَ الْحِسَابِ))۔ 218
”اور خواہشات كا اتباع نہ كرو كہ وہ راہ خدا سے منحرف كردے، بے شك جو لوگ راہ خدا سے بھٹك جاتے ھے ان كے لئے شديد عذاب ھے كہ انھوں نے روز حساب كو بالكل نظر انداز كرديا ھے۔“
قرآن مجيد نے عظمت خدا سے خوف زدہ اورھوائے نفس سے مقابلہ كرنے كو بہشت ميں داخل ھونے كا سبب بتايا ھے:
(( وَاٴَمَّامَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ وَنَھَي النَّفْسَ عَنِ الْھَويٰ فَإِنَّ الْجَنَّةَ ھِي الْمَاويٰ))۔ 219
”اور جس نے رب كي بارگاہ ميں حاضري كا خوف پيدا كيا ھے اور اپنے نفس كو خواہشات سے روكا ھے، تو جنت اس كا ٹھكانہ اور مركز ھے“۔
قرآن مجيد نے حضرت موسيٰ عليہ السلام كے زمانہ كے مشھور عالم ”بلعم باعورا“ كے ايمان سے ھاتھ دھونے، روحانيت اور معنويت سے جدائى، ماديت سے آلودہ ھونے اور اس كے اندر پيدا ھونے والي بُري صفات كي وجہ، ھوائے نفس كي پيروي بتاياھے:
(( ۔۔۔ وَلَكِنَّہُ اٴَخْلَدَ إِلَي الْاٴَرْضِ وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ فَمَثَلُہُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِنْ تَحْمِلْ عَلَيہِ يلْہَثْ اٴَوْ تَتْرُكْہُ يلْہَثْ ذَلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآياتِنَا۔۔۔))۔ 220
”۔۔۔ليكن وہ خود زمين كي طرف جھك گيااور اس نے خواہشات كي پيروي اختيار كر لي تو اب اس كي مثال كتے جيسي ھے كہ اس پر حملہ كرو تو بھي زبان نكالے رھے اور چھوڑ دو تو بھي زبان نكالے رھے ۔يہ اس قوم كي مثال ھے جس نے ھماري آيات كي تكذيب كي ۔۔“۔
قرآن مجيد نے غافلوں، ھوائے نفس ميں گرفتار اور ذليل و پست افراد كي اطاعت كرنے سے سخت منع كيا ھے :
(( ۔۔۔ وَلاَتُطِعْ مَنْ اٴَغْفَلْنَا قَلْبَہُ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ وَكَانَ اٴَمْرُہُ فُرُطًا))۔ 221
”۔۔۔اور ھرگز اس كي اطاعت نہ كرنا جس كے دل كو ھم نے اپني ياد سے محروم كرديا ھے اور وہ اپنے خواہشات كا پيروكار ھے اور اس كاكام سراسر زيادتي ھے“۔
قرآن مجيد كے مختلف سوروں( جيسے سورہ مائدہ، سورہ انعام، سورہ رعد، سورہ مومنون، سورہ قصص، سورہ شوريٰ، سورہ جاثيہ اور سورہ محمد222) كے لحاظ سے ھوائے نفس كي پيروي كتب آسماني كي تكذيب، گمراھى، ولايت خدا سے دورى، زمين و آسمان اوران ميں رہنے والوں ميں فساد، نبوت سے دورى، استقامت كو كھوبيٹھنے، غافل اور جاھل لوگوں كے جال ميں پھنسنے اور ان كے دل پر مھر لگنے كا سبب ھيں۔
ھوائے نفس كي غلامي كي پہچان درج ذيل چيزيں ھيں:
بُرا اخلاق، بُرا عمل، بے حساب و كتاب زندگى، دوسري مخلوق كے حقوق كي رعايت نہ كرنا، دوسروں پر ظلم و ستم كرنا، ترك عبادت، گناھان كبيرہ سے آلودہ ھونا، گناھان صغيرہ پر اصرار كرنا، غيظ و غضب اور غصہ سے كام لينا، لمبي لمبي آرزوئيں كرنا، نيك لوگوں كي صحبت سے دور ھونااورگناھگار او ر بُرے لوگوں كي صحبت سے لذت اٹھانا ۔

جھاد اكبر

اگر ھوائے نفس ميں گرفتار شخص اپني دنيا و آخرت كي بھلائي چاھتا ھے، اگر اپنے ماتحت لوگوں كي خيرخواھي چاھتا ھے، اگر اپنے باطن و عمل اور اخلاق كي اصلاح كرنا چاھتا ھے تو ايسے شخص كے لئے چارہ كار يہ ھے كہ ايك شجاع و بھادر فوج كي طرح ھوائے نفس سے جنگ كے لئے كھڑا ھوجائے اور اس بات پر يقين ركھے كہ اس جنگ ميں خدا كي نصرت و مدد اور اس كي رحمت شامل حال ھوگي اور سو في صد اس كي كاميابي اور ھوائے نفس كي شكست ھے۔
اگر اس جنگ ميں كاميابي ممكن نہ ھوتي تو پھر انبياء عليھم السلام كي بعثت، ائمہ عليھم السلام كي امامت اور آسماني كتابوں كا نزول لغو اوربے ھودہ ھوجاتا۔
چونكہ اس جنگ ميں شريك ھونا اور اس ميں كاميابي حاصل كرنا نيز ھوائے نفس كے بت كو شكست دينا سب كے لئے ممكن ھے، لہٰذا انبياء عليھم السلام كي بعثت، ائمہ عليھم السلام كي امامت اور آسماني كتابوں كا نزول ھوا، اور اس سلسلہ ميں سب پر خدا كي حجت تمام ھوگئيں، اور اب كسي كے پاس دنيا ميں يا آخرت ميںكوئي قابل قبول عذر نھيں ھے ۔
لہٰذا انسان كو چاہئے كہ ھوائے نفس ميں گرفتار ھونے اور اپنے باطن ميں يہ خطرناك بت پيدا ھونے سے پھلے ھي خود اپني حفاظت كرے اور ھميشہ ياد خدا ميں غرق رھے، اور خودكو گناھوں سے محفوظ ركھے تاكہ يہ خطرناك بت اس كے دل ميں گھر نہ بنالے اگر ايساكر ليااور اپنے نفس كو محفوظ ركھ ليا تو يھي عين كرامت اور شرافت ھے جس كے ذريعہ انسان ميں تقويٰ اور انسانيت پيدا ھوتي ھے۔
ليكن جب انسان كے اندر غفلت كي وجہ سے يہ بت پيدا ھوجاتا ھے، اور ايك مدت كے بعد خدائي چمك يا نفساني الھام، يا وعظ و نصيحت، يا نيك لوگوں كي سيرت كے مطالعہ كے بعد اس بت كے پيدا ھونے سے مطلع ھوجائے، اس كي حكومت كے خطرناك آثار سے آگاہ ھوجائے اور اس كے بعد بھي اس سے جنگ كے لئے قدم نہ اٹھائے، بلكہ ھاتھ پر ھاتھ ركھ كر بيٹھ جائے يا سستي سے كام لے توكم از كم ايك واجب كے عنوان سے يا واجب سے بھي بالاتر خداوندعالم كے حكم كي اطاعت، اور انبياء و ائمہ عليھم السلام كي دعوت پر لبيك كھتے ھوئے اپنے اخلاق و اعمال كي اصلاح كے لئے آگے بڑھے اور اپنے گناھوں سے توبہ كرتے ھوئے واجبات كو انجام دے، خدا كي عبادت كرے، نيك اور صالح افراد كے ساتھ بيٹھے، مال حرام سے پرھيز كرتے ھوئے ”ھوائے نفس كے بت “سے جنگ كے لئے تيار ھوجائے كہ اس جنگ ميں فتح كا سھرا اسي كے سر ھوگا، اس جنگ كو ديني تعليمات ميں ”جھاد اكبر“ كھا جا تا ھے۔
حضرت امام صادق عليہ السلام سے روايت ھے:
”اِنَّ النَّبِي بَعَثَ سَريةً، فَلَمَّا رَجَعُوا قَالَ: مَرْحَباً بِقَوْمٍ قَضَوُا االْجِھادَ الاَصْغَرَ، وَ بَقِي عَلَيھم الْجِھادَ الاَكْبَرُ ۔ فَقِيلَ يا رَسُوْلَ اللهِ! وَمَا الْجِھادُ الاَكْبَرُ؟ قَالَ: جِھادُ النَّفْسِ“۔223
”پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے بعض اصحاب كو جنگ كے لئے بھيجا، جب وہ اسلامي لشكر جنگ سے واپس لوٹا، تو آنحضرت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا: مرحبا، اس قوم پر جو جھاد اصغر انجام دے كر آرھي ھے، اور جھاد اكبر ان كے ذمہ باقي ھے۔ لوگوں نے سوال كيا: يا رسول اللہ! جھاد اكبر كيا چيزھے، توآپ نے فرمايا:
”جھاد بالنفس“ (يعني اپنے نفس سے جنگ كرنا)
يہ بات واضح ھے كہ ”نفس سے جنگ “، خود نفس سے جنگ كرنا نھيں ھے بلكہ اس كے خطرناك پھلو سے جنگ كرنا مراد ھے جس كو قرآن كريم نے ”ھواو ھوس“ كا نام ديا ھے۔
ھوائے نفس كے مقابل لڑنا اور جھادكرنا ھر دوسرے جھاد سے بالاتر ھے، ھوائے نفس سے ہجرت كرنے والے كي ہجرت ھر ہجرت سے افضل ھے، ا ور اس جھاد كا ثواب ھردوسرے ثواب سے بھتر ھے۔
حضرت علي عليہ السلام كہ خود آپ نفس سے جھاد كرنے والوں ميں بے نظير ھيں؛ فرماتے ھيں:
”مَاالْمُجَاہِدُ الشَّہِيدُ فِي سَبِيلِ اللهِ بِاَعْظَمَ اَجْراً مِمَّنْ قَدَرَ فَعَفَّ، لَكَادَ الْعَفِيفُ اَنْ يكُونَ مَلَكاً مِنَ الْمَلاَئِكَةِ“۔224
”راہ خدا ميں جھاد كركے شھيد ھوجانے والا اس سے زيادہ اجر كا حقدار نھيں ھوتا ھے جتنا اجر اس شخص كے لئے ھے جو اختيارات كے باوجود عفت سے كام لے كہ عفيف و پاكدامن انسان قريب ھے كہ وہ صفوف ملائكہ ميں شمار ھو “۔

اصلاح نفس كا طريقہ
ايك لاكھ چوبيس ہزار انبياء عليھم السلام كي بعثت كے پيش نظر، معتبر اسلامي كتابوں اور قرآن مجيد ميں احكام الٰھي بيان ھوئے ھيں، اسي طرح آسماني كتابوں كے پيش نظر خصوصاً قرآن مجيد ميںجو خاتم الانبياء حضرت محمد مصطفي صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كا زندہٴ جاويد معجزہ ھے، نيز ائمہ عليھم السلام كي امامت كہ جن كے ارشادات زندگي كے ھر پھلو كے لئے كتب حديث ميں موجود ھيں، اسي طرح انساني فطرت، عقل اور وجدان كے پيش نظر جو انسان كے پاس الٰھي امانتيں ھيں اور دنيا و آخرت كے لئے مفيد سرمايہ ھيں، لہٰذا ان تمام معنوي اور روحاني امور كے ذريعہ زندگي كے تمام پھلوؤں ميں سب انسانوں پر خدا كي حجت تمام ھوچكي ھے، كيا يہ كھا جاسكتا ھے كہ انسان كے لئے اصلاح كا راستہ بندھوگيا ھے يا يہ كہ انسان ميں اصلاح كے راستہ پرچلنے كي طاقت نھيں ھے، يا انسان اپنے اعمال و اعتقادات اور اخلاق ميں مجبور ھے؟
مسلّم طور پر ان تمام مسائل كا جواب منفي ھے، اصلاح كا راستہ روز قيامت تك سب كے لئے كھلا ھے، اور اس راستہ پر چلنے كي طاقت ھر انسان ميںموجود ھے، اور انسان كسي بھي اعتقاد و عمل اور اخلاق كے سلسلہ ميں مجبور نھيں ھے۔
ھميشہ تاريخ ميں ايسے افراد ملتے ھيں جنھوں نے گناھوں ميں مبتلا ھونے، معصيت سے آلودہ ھونے اور ھوائے نفس كا اسير ھونے كے بعد اپنے گناھوں سے توبہ كي اور معصيت كي گندگي سے پاك اور ھوائے نفس كي غلامي سے آزاد ھوگئے، جو خود اس بات كي دليل ھے كہ نہ تو اصلاح كا راستہ بند ھے اور نہ انسان بُرے كام كرنے پر مجبور ھے۔
يقينا اس طرح كے بے بنياد مسائل اور بے دليل مطالب انساني تہذيب ميں ان لوگوں كي طرف سے داخل ھوگئے جو اپنے گناھوں پر عذر پيش كرنا چاھتے ھيں يا دنياوي لذتوں كے شكار ھوچكے ھيں، وہ خود بھي خواہشات اور ھوا و ھوس ميںگرفتار ھوچكے ھيں اور دوسرے كو بھي گمراہ كرنا چاھتے ھيں۔
يہ لوگ اپني باتوں كے بے بنياد ھونے سے آگاہ ھيں اور اس بات كو اچھي طرح جانتے ھيں كہ يہ باتيں بے دليل اور علم و منطق كے برخلاف ھيں اگرچہ ان باتوں كو كبھي كبھي تہذيبي و نفسياتي ماھرين يا مشرقي اور مغربي يونيورسٹي كے اساتيد كي زبان سے سنتے ھيں جن پر شھوتوں كا بھوت سوار رھتا ھے:
((بَلْ الْإِنسَانُ عَلَي نَفْسِہِ بَصِيرَةٌ ۔وَلَوْ اٴَلْقَي مَعَاذِيرَہُ ))۔ 225
”بلكہ انسان خود بھي اپنے نفس كے حالات سے خوب باخبر ھے۔چاھے وہ كتنے ھي عذر كيوں نہ پيش كرے“۔
كيا وہ افراد جو حيلہ او رمكارى، دھوكا اور فريب اور رياكاري كرتے ھيں، اور دوسروں كو ذليل و رسوا كرتے ھيں، يا كسي بے بنياد مسئلہ كو علمي رنگ دے كر پيش كرتے ھيں يا اپنا واقعي چھرہ مخفي ركھتے ھيں يا عوام الناس كو دھوكہ ميں ڈال كر ان پر حكومت كرنا چاھتے ھيں يا كسي قوم و ملت كو بے بنياد مكتب ليكن علمي رنگ دے كر لوگوں كو اس كي دعوت ديتے ھيں، كيا يہ لوگ خود معاشرہ ميں پيش كرنے والے مسائل كے بارے ميں آشنائي نھيں ركھتے؟!
قرآن مجيد كے بيان كے مطابق يہ لوگ ان تمام مسائل كو جانتے ھيں ليكن يہ وہ افراد ھيں جنھوں نے انساني زندگي كے آب حيات كو ھميشہ مٹي سے آلودہ كرديا ھے تاكہ اپني خواہشات كو پورا كرنے كے لئے خوب مچھلي پكڑسكيں۔
بے شك اس ماحول ميں گمراھى اور ضلالت پائي جاتي ھے، يھاں پر نخوت و تكبر اور جھالت كا دور دورہ ھے۔
ايسے لوگ جو حقائق كائنات اورخالق كے وجود كا انكار كرتے ھيں، اور خداوندعالم كي نشانيوں كو جھٹلاتے ھيں، ان لوگوں كايھي كام ھونا بھي چاہئے، بے بنياد اور باطل مسائل ھي ان كے ذہن ميں خطور كرسكتے ھيں، اس كے بعد اس كو ايك ”آئين و مكتب فكر“ قرار ديديتے ھيں، تاكہ دوسرے لوگوں كو حقائق سے اور خداوندعالم سے دور كرديں۔
يہ لوگ زمين پر فتنہ و فساد، نسل كشى، تباھي و بربادي اور قوم و ملت كو گناہ و معصيت ميں آلودہ كرنے كے علاوہ كوئي ہدف نھيں ركھتے۔
(( وَإِذَا تَوَلَّي سَعَي فِي الْاٴَرْضِ لِيفْسِدَ فِيھا وَيھلكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللهُ لاَيحِبُّ الْفَسَادَ۔)) 226
”اور جب آپ كے پاس سے منھ پھير تے ھيں تو زمين ميں فساد برپا كرنے كي كوشش كرتے ھيں اور كھيتيوں اور نسلوں كو برباد كرتے ھيں جب كہ خدا فساد كو پسند نھيں كرتا ھے“۔
صھيونيزم كے رہنماوٴں نے اپني ”پروٹوكل“ "Protocole"كتاب ميں لكھا ھے: ھم نے ”داروين“، ”ماركس“ اور ”نيچہ “كي كاميابي كو انھيں نظريات پر بنياد ركھي ھے، اور جس كے برے اثرات ھمارے لئے بھت واضح ھيں( جس كا اثر غير يھودي لوگوں پر ھورھا ھے)
يھوديت كے اپنے تين دانشوروں : ماركس، فرويڈاور ڈركائم كے ذريعہ ”داروين“ اور ”تدريجي ترقي“پيش كي گئي جس سے يورپ ميں موجود فضيلت كو بالكل ختم كرديا ھے، ان تينوں دانشوروں نے ھميشہ دين كي توھين كي ھے، ان لوگوں نے دين كي صورت كو بگاڑ كر بد صورت بنا كر پيش كيا ھے۔ 227
ان لوگوں نے اپنے سے وابستہ دانشوروں كے نظريات كي بدولت كسي بھي انساني فضيلت كو خراب كئے بغيرنھيں چھوڑا، كيونكہ انھوں نے خالق كائنات كے رابطہ سے لے كرعالم ہستي نوع بشر كے تمام رابطوں كو فاسد او رتباہ و برباد كرديا ھے، انھيںخرافات ميں بدل ديا ھے۔
ان كے اصلي انحرافات خدا كے بارے ميں ھيں اسي طرح انسان كا خدا سے كيا تعلق ھے يااس كائنات كا خداسے اور خدا كا اس سے كيا ربط ھے، نيزانسان كا رابطہ دنيا سے اور دنيا كا رابطہ انسان سے كيا ھے، خلاصہ يہ كہ انھوں نے ان تمام چيزوں ميں انحراف پيدا كرديا ھے۔
زندگي كا تصور، زندگي كے اہداف و مقاصد، انساني نفس، ايك انسان كا دوسرے انسان سے رابطہ، بيوي شوھر كارابطہ اورمعاشرہ كا رابطہ غرض يہ كہ زندگي كے تمام پھلوؤں ميں انحراف پيدا كرڈالا ھے۔
انھي غلط اور خطرناك انحرافات كا نتيجہ يہ ھوا كہ انسان كي حقيقي زندگي ھوائے نفس سے متاثر ھوگئى، انسان طاغوت كے سامنے جھك گيا ھے، شھوت ميں گرفتار ھوگيا ھے، چنانچہ ھر روز فتنہ و فساد ميں اضافہ ھوتا چلا جارھا ھے، اور ان ھلاك كنندہ فساد كي انتھا اس وقت ھوگي جب ”خدا“ كو بے تاثير معبود قرار ديا جانے لگے گا اور دوسرے باطل معبودوں كو انساني زندگي پر قبضہ ھوجائے گا۔ 228
يہ لوگ (بقول خود)اپني علمي چھلانگ كے ذريعہ اس جگہ پہنچ چكے ھيں كہ دنيا كے اكثر لوگوں كو يہ يقين كراديا كہ اقتصاد، اجتماع اور تاريخ كي طاقت ھي انسان كي زندگي پر اثر انداز ھوتي ھے اور انسان كو اس كي مرضي كے بغير اپنے تحت لے كر اس كو مسخر كرليا ھے۔
ان بے بنياد اور باطل گفتگو نے امريكہ اور يورپ ميں بھت سے لوگوں خصوصاً جوانوں كو اس جگہ پہنچا ديا ھے كہ آج كل كے انسان كي زبان پر يہ نعرہ ھے:
”ميں قيد و بند كي زنجير ميں جكڑا ھوا ھوں، مجھے اپني مرضي سے اپني زندگي كو منظم كرنا چاہئے!
ميں اپنے عقائد اور طرز زندگي كو اپني عقل كے لحاظ سے تنظيم كرنا چاھتا ھوں۔
ميں اس وقت اور آئندہ كي زندگي كو مستقل طور پر اور خدا كي سرپرستي كے علاوہ ھي منظم كرنا چاھتا ھوں!“
چنانچہ انسان انھيں چيزوں كي وجہ سے خدا كي حمايت سے دور ھوتاجارھا ھے اور شيطان كے مكر و فريب ميں پھنستا جارھا ھے ۔
اسي نظريہ اور غرور كي وجہ سے پوري دنيا ميں ظلم و ستم كا بول بالا ھے، اور انسان مختلف غلامي كي ذلت ميں گرفتار ھوگيا ھے بعض لوگ مال و دولت كے غلام، بعض لوگ حكومت كے غلام اور بعض لوگ ڈيكٹيٹري كے غلام اور بعض شھوت اور مستي كے غلام بن گئے ھيں۔
اسي وجہ سے ساري دنيا ميں فسق و فجور پھيلا ھوا ھے، اور تمام جوان لڑكوں اور لڑكيوں كو گناھوں كے كھنڈر ميں گراديا ھے۔
اسي انحراف كي وجہ سے انسان جنون كي حد تك پہنچ گياھے اور ماڈرن ممالك كے ہسپتالوںميں ان ديوانوں كے لئے جگہ نھيں ھے، دوسري طرف سے مڈرنيزم پرستى، فلم اور فلمي ستاروں اور دوسري شھوتوں نے انسان كو اپني حقيقت كے بارے ميں غور وفكر كرنے سے روك ديا ھے جس سے اس كي تمام عمر يونھي غفلت و تباھي ميں برباد ھوتي جارھي ھے۔
اس منحوس زندگي كے نتائج نے (جس نے انسان كے ظاھر و باطن كو آلودگى، انحراف اور فسق و فجور ميں غرق كرديا ھے) دنيا بھر كے بھت سے لوگوں كو مايوس كرديا ھے ان كي روح ميں ياس و نااميدي پيدا ھوگئي ھے، اپني فطرت كو برداشت نہ كرتے ھوئے كھتے ھيںكہ انسان كے لئے اصلاح كا راستہ بند ھے اور اگر كھلا بھي ھو تو انسان ميں اس راستہ پر چلنے كي طاقت نھيں ھے، اور نسبتاً اپنے سكون كے لئے كھتے ھيں: انسان اپنے تمام امور ميں قضا و قدر اور جبر كاتابع ھے، يعني انسان خودكچھ نھيں كرسكتا جيسا اس كي تقدير ميں ھوگا ويسا ھوكر ھي رھے گا۔
حقيقي اسلام كي ثقافت نے مذھب شيعہ اثناعشري ميں ايك خاص روشني پيدا كردي ھے، قرآني آيات اور ائمہ عليھم السلام كي تعليمات كے پيش نظر دليل و حكمت او رمنطق و برھان كے ساتھ يہ اعلان ھوتا ھے كہ كسي بھي انسان كے لئے ”اصلاح كا راستہ “بند نھيں ھے اور قيامت تك كسي بھي انسان كے لئے بند نھيں ھوگا، نيز اس راستہ پر چلنا ھر خاص و عام كے لئے ممكن ھے، اگرچہ مختلف گناھوں سے آلودہ ھوں، اور انسان كے اعمال و عقائد اور اس كا اخلاق قضا و قدر كے تابع نھيں ھے، بلكہ انسان اپنے اختيار سے سب كچھ كرتا ھے۔
قارئين كرام! انسان كي خير و بھلائى، پاكيزگي اور پاكدامني كے لئے ديني تعليمات كي طرف ايك اشارہ كرنا مناسب ھے۔
حضرت امام صادق عليہ السلام نے ايك شخص سے فرمايا:
”اِنَّكَ قَدْ جُعِلْتَ طَبِيبَ نَفْسِكَ، وَبُينَ لَكَ الدّاءُ، وَعُرِّفْتَ آيةَ الصِّحَّةِ، وَ دُلِلْتَ عَلَي الدَّوَاءِ، فَانْظُرْكَيفَ قِيامُكَ عَلَي نَفْسِكَ“۔229
”بے شك تم اپنے كو ايك طبيب كي طرح قرار دو، تمھيں مشكلات اور مرض كے بارے ميں بتاديا گيا، اور صحت كي نشانيوں كو بھي بيان كرديا گيا ھے، تمھاري دوائي بھي بتادي گئي ھے، لہٰذا نتيجہ كے بارے ميں غور و فكر كرو كہ كس طرح اپني حالت كي اصلاح كے لئے قدم بڑھاسكتے ھو“۔
جي ھاں انسان اپني حالت سے خوب واقف ھے اس كا درد باطل عقائد، شيطاني بد اخلاقي اور غير صالح اعمال ھيں جن كي تفصيل قرآن و حديث ميں بيان ھوئي ھے، صحيح ايمان، اخلاق حسنہ، باطني سكون اورعمل صالح يہ تمام چيزيں سلامتي اور صحت كي نشاني ھيں، توبہ و استغفار، تقويٰ، عفت اور گناھوں سے مقابلہ ان تمام دردوں كي دوا ھے، لہٰذا انسان كو ان تمام حقائق كے ذريعہ مدد حاصل كرتے ھوئے اپني اصلاح كے لئے قدم اٹھانا چاہئے۔
حضرت امام محمد باقر عليہ السلام اپنے آباء و اجداد عليہم السلام كے حوالے سے نقل فرماتے ھيں كہ پيغمبر اكرم نے حضرت امير المومنين علي بن ابي طالب عليہ السلام سے فرمايا:
”ياعَلِى، اَفْضَلُ الْجِھَادِ مَنْ اَصْبَحَ لاَ يھُمُّ بِظُلْمِ اَحَدٍ“۔230
”يا على! سب سے بھتر اور افضل جھاد يہ ھے كہ انسان صبح اٹھے تو كسي پر ظلم و ستم كا ارادہ نہ ركھتا ھو“۔
اگر انسان ھر روز گھر سے باھر نكلتے وقت كسي شخص پر يھاں تك كہ اپنے دشمن پر بھي ظلم كرنے كا ارادہ نہ ركھتا ھو اور ان كي نسبت خير و نيكي كي نيت ھو اور لوگوں كي خدمت كے علاوہ كوئي دوسرا قصد نہ ھو تو پھر اگر يھي صورت حال رھي تو انسان كے اندر نور ايمان پيدا ھوجاتا ھے اور ظاھري اصلاح و نيكي سے مزين ھوجاتا ھے۔
حضرت امام صادق عليہ السلام فرماتے ھيں:
”مَنْ مَلَكَ نَفْسَہُ اِذَارَغِبَ، وَاِذَا رَھِبَ، وَاِذَا شْتَھَيٰ، وَاِذَا غَضِبَ، وَاِذَا رَضِى، حَرَّمَ اللهُ جَسَدَہُ عَلَي النَّارِ“۔231
”اگر انسان رغبت، خوف، خواہشات، غيظ و غضب اور خوشي و غم كے وقت اپنے كو گناہ و معصيت اور ظلم و ستم سے محفوظ ركھے تو خداوندعالم اس كے بدن كو آتش دوزخ پر حرام كرديتا ھے“۔
حضرت امير المومنين عليہ السلام اكثر فرمايا كرتے تھے:
”نَبِّہْ بِالتَّفَكُّرِ قَلْبَكَ، وَجَافِ عَنِ اللَّيلِ جَنْبَكَ، وَاتَّقِ اللهَ رَبَّكَ“۔232
”اپنے دل كو غور و فكر كے ذريعہ بيدار ركھو، رات كو عبادت كرو، اور زندگي كے تمام امور ميں تقويٰ الٰھي اختيار كرو“۔
حضرت امام صادق عليہ السلام كا ارشاد ھے:
”اَلتَّفَكُّرُ يدعُوا اِلَي الْبِرِّ وَالْعَمَلِ بِہِ“۔233
”تمام امور ميں تفكر اور غور و فكر كرنے سے انسان ميں نيكي اور عمل صالح كا جذبہ پيدا ھوتا ھے“۔
ايك شخص نے امام صادق عليہ السلام كي خدمت ميں عرض كيا: مجھے اخلاقي كر امت اور شرافت تعليم فرمائيں، تو اس وقت امام عليہ السلام نے فرمايا:
”اَلْعَفْوُ عَمَّنْ ظَلَمَكَ، وَصِلَةُ مَنْ قَطَعَكَ، وَاِعْطَاءُ مَنْ حَرَمَكَ، وَ قَوْلُ الْحَقِّ وَلَوْ عَلَي نَفْسِكَ“۔234
”جس نے تجھ پر ظلم كيا ھو اس كو بخش دے اور جس نے تجھ سے قطع تعلق كيا ھو اس سے صلہ رحم كر، جس نے تجھے محروم كرديا ھو اس كو عطا كر، اور حق بات كہہ اگرچہ تيرے لئے نقصان دہ ثابت ھو“۔
حضرت رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا:
اگر كسي كے لئے بُرے كام يا حرام طريقہ سے شھوت بجھانے كا موقع آجائے ليكن خوف خدا كي وجہ سے اس كام سے اجتناب كرے تو خداوندعالم (بھي) اس پر آتش جہنم كو حرام كرديتا ھے، اور روز قيامت كي عجيب و غريب وحشت سے نجات ديديتا ھے، اور اپني كتاب ميں دئے ھوئے وعدہ كو وفا كرتا ھے كہ جھاں ارشاد ھوتا ھے: ”جو شخص اپنے پروردگار سے ڈرتا ھے اس كے لئے دو جنت ھيں“۔
جان لو! كہ اگر كسي شخص نے دنيا كو آخرت پر ترجيح دي تو روز قيامت اس حال ميں خدا سے ملاقات كرے گا كہ عذاب الٰھي سے نجات دلانے والي كوئي نيكي اس كے پاس نہ ھوگى، ليكن اگر كوئي آخرت كو دنيا پر ترجيح دے اور فنا ھونے والي دنيا كو اپنا معبود قرار نہ دے تو خداوندعالم اس سے راضي و خوشنود ھوجاتا ھے اور اس كي برائيوںكو بخش ديتا ھے۔ 235
راوي كھتا ھے كہ ميں نے حضرت امام صادق عليہ السلام سے عرض كيا:
”قَوْمٌ يعْمَلُوْنَ بِالْمَعَاصِي وَ يقُولُونَ :نَرْجُو، فَلاَ يزالُونَ كَذَلِكَ حَتَّي ياتِيھُم الْمَوتُ !فَقَالَ:ھٰوٴُلاَءِ قَومٌ يتَرَجَّحُوْنَ فِي الْاَمَانِى، كَذَبُوا، لَيسُوا بِراجينَ، اِنَّ مَنْ رَجَا شَيئاً طَلَبَہُ، وَمَنْ خَافَ مِنْ شَيءٍ ھَرَبَ مِنْہُ“۔236
”ايك گروہ، گناھگار اور اھل معصيت ھے ليكن وہ لوگ كھتے ھيں كہ ھم ان گناھوں كے باوجود بھي اميد وار ھيں، اور اسي طرح زندگي بسر كرتے ھيں اور اسي حالت ميں مرجاتے ھيں! امام عليہ السلام نے فرمايا: يہ لوگ اميد كے اھل نھيں ھيں، كيونكہ كسي چيز كي اميد كرنے والا شخص اس سلسلہ ميں كوشش كرتا ھے اور جس چيز سے ڈرتا ھے اس سے دور بھاگتا ھے“۔
حضرت امام صادق عليہ السلام نے درج ذيل آيت كے بارے ميں فرمايا:
(( وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ جَنَّتَانِ))۔ 237
”مَنْ عَلِمَ اَنَّ اللهَ يرَاہُ، وَ يسْمَعُ مَايقُولُ، وَيعْلَمُ مَا يعْمَلُہُ مِنْ خَيرٍاَوْ شَرٍّ، فَيحْجُزُہُ ذَلِكَ عَنِ الْقَبِيحِ مِنَ الاَعْمَالِ، فَذَلِكَ الَّذِي خاَفَ مَقَامَ رَبِّہِ وَنَھَي النَّفْسَ عَنِ الھَويٰ“۔ 238
”جو شخص جانتا ھے كہ خدا مجھے ديكھتا ھے اور جو كچھ ميں كھتا ھوں اس كو سنتا ھے، اور جو نيكي يا برائي انجام ديتا ھوں اس كو ديكھتا ھے، چنانچہ يھي توجہ اس كو برائيوں سے روكتي ھے، اور ايسا شخص ھي عظمت خدا سے خوف زدہ اور اپنے نفس كو ھوا و ھوس سے روكتا ھے“۔
حضرت امام صادق عليہ السلام نے عمرو بن سعيد سے فرمايا:
”اُوصِيكَ بِتَقَوي اللهِ وَالْوَرَعِ وَالاِجْتِھادِ، وَاعْلَمْ اَنَّہُ لاَ ينْفَعُ اِجْتِھادٌ لاَ وَرَعَ فِيہِ“۔239
”ميں تم كو تمام امور ميں تقويٰ الٰھى، گناھوں سے دورى، عبادت ميں كوشش، اور خدمت خلق كي سفارش كرتا ھوں، جان لو كہ جس كوشش ميں گناھوں سے دورى نہ ھوں اس كا كوئي فائدہ نھيں ھے“۔
امام صادق عليہ السلام كا فرمان ھے:
”عَلَيكَ بِتَقْوَي اللهِ، وَالْوَرَعِ، وَالاِجْتِھَادِ، وَ صِدْقِ الْحَدِيثِ، وَاَدَاءِ الاَمَانَةِ، وَ حُسْنِ الْخُلْقِ، وَحُسْنِ الْجِوَارِ، وَكُونُوا دُعاةً اِلَي اَنْفُسِكُمْ ِبغَيرِ اَلْسِنَتِكُمْ، وَكُونُوا زَيناً وَلاَتَكُونُوا شَيناً، وَعَلَيكُمْ بِطُولِ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ، فَاِنَّ اَحَدَكُمْ اِذَااَطالَ الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ ھَتَفَ اِبْلِيسُ مِنْ خَلْفِہِ وَقاَلَ:يا وَيلَہُ، اَطَاعَ وَ عَصَيتُ، وَسَجَدَ وَاَبَيتُ“۔240
”تمام امور ميں تقويٰ الٰھي اختيار كرو، گناھوں سے بچو، عبادت خدا اور خدمت خلق ميں كوشش كرتے رھو، صداقت و امانت كا لحاظ ركھو، حسن خلق اپناؤ، پڑوسيوں كا خيال ركھو، اپني زبانوں كے علاوہ اپني نفسوں كے ذريعہ بھي دين حق كي دعوت دو، دين كے لئے باعث زينت بنو، دين كے لئے ذلت كا
باعث نھيں، نمازوں ميں اپنے ركوع و سجود طولاني كرو، ايسا كرنے سے شيطان فرياد كرتا ھے: ھائے افسوس! يہ شخص اطاعت كررھا ھے، اور ميں نے خدا كي مخالفت كى، يہ سجدہ كررھا ھے اور ميں نے نھيں كيا!
حضرت رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے امير المومنين عليہ السلام سے فرمايا:
”ثَلاثَةٌ مَنْ لَقِي اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ بِھِنَّ فَھُومِنْ اَفْضَلِ النَّاسِ :مَن اَتَي اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ بِمَا افْتَرَضَ عَلَيہِ فَھُوَ مِنْ اَعْبَدِ النَّاسِ، وَمَنْ وَرِعَ عَنْ مَحارِمِ اللّٰہِ فَھُوَمِنْ اَوْرَعِ النّاسِ، وَمَنْ قَنَعَ بِمَا رَزَقَہُ اللّٰہُ فَھُوَ مِنْ اَغْنَي النَّاسِ۔ثُمَّ قالَ:يا عَلِى! ثَلاثٌ مَنْ لَمْ يكُنَّ فِيہِ لَمْ يتِمَّ عَمَلُہُ:وَرَعٌ يحْجُزُہُ عَنْ مَعاصِي اللّٰہِ، وَخُلْقٌ يداري بِہِ النَّاسَ، وَحِلْمٌ يرُدُّ بِہِ جَھْلَ الْجاھِلِ - اِليٰ اَنْ قَالَ - ياعَلِى!الِاسْلامُ عُرْيانٌ، وَلِباسُہُ الْحَياءُ، وَ زِينَتُہُ الْعِفافُ، وَمُرُوَّتُہُ الْعَمَلُ الصّالِحُ، وَعِمادُہُ الْوَرَعُ“۔241
”جو شخص تين چيزوں كے ساتھ خدا سے ملاقات كرے گا وہ بھترين لوگوں ميں سے ھوگا، جو شخص اپنے اوپر واجب چيزوں پر عمل كرے گا، وہ بھترين لوگوں ميں سے ھوگا، اور جو شخص خدا كي حرام كردہ تمام چيزوں سے پرھيز كرے گا وہ بندوںميں پارسا ترين شخص ھوگا، اور جو شخص خدا كي عطا كردہ روزي پر قناعت كرے گا، وہ سب سے بے نياز شخص ھوگا، اس كے بعد فرمايا: يا على! جس شخص ميں يہ تين چيزيں نہ ھوں اس كا عمل تمام نھيں، انسان ميں ايسي طاقت نہ ھو جس كو گناھوں كي ركاوٹ ميں لگاسكے، اور ايسا اخلاق نہ ھو جس سے لوگوں كے ساتھ نيك سلوك كرسكے، اور ايسا حلم اور حوصلہ نہ ھو جس سے جاھل كے جھل كو خود اس كي طرف پلٹادے، يھاں تك آنحضرت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا: ياعلى! اسلام برہنہ اور عريان ھے اس كا لباس حياء، اس كي زينت عفت و پاكدامنى، اور اس كي شجاعت عمل صالح اور اس كے ستون ورع اورتقويٰ ھيں“۔حضرت امام باقر عليہ السلام فرماتے ھيں:
”اِنَّ اَفْضَلَ الْعِبَادَةِ عِفَّةُ الْبَطْنِ وَالْفَرْجِ“۔242
”بے شك شكم و شھوت كو (حرام چيزوں) سے محفوظ ركھنا بھترين عبادت ھے“۔
حضرت امام صادق عليہ السلام فرماتے ھيں:
”اِنَّمَا شِيعَةُ جَعْفَرٍ مَنْ عَفَّ بَطْنُہُ وَ فَرْجُہُ، وَاشْتَدَّ جِھادُہُ وَعَمِلَ لِخالِقِہِ، وَرَجا ثَوابَہُ، وَخَافَ عِقابَہُ، فَاِذا رَاٴَيتَ اٴُولٰئِكَ، فَاٴُولٰئِكَ شِيعَةُ جَعْفَرٍ“۔243
”بے شك جعفر صادق كا شيعہ وہ ھے جو شكم اور شھوت كو حرام چيزوںسے محفوظ ركھے، راہ خدا ميں اس كي سعي و كوشش زيادہ ھو، صرف خدا كے لئے اعمال انجام دے، اس كے اجر و ثواب كا اميدوار اور اس كے عذاب سے
خوف زدہ رھے، اگر ايسے لوگوں كو ديكھو تو كھو وہ جعفرصادق كے شيعہ ھيں“۔
حضرت رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كا فرمان ھے:
”لاَ تَزالُ اُمَّتِي بِخَيرٍ ما تَحابُّوا وَ تَھادَوْا وَاَدُّواالاَمانَةَ، وَاجْتَنبُوا الحَرامَ، وَ قَرَوُالضَّيفَ، وَاَقامُوا الصَّلاةَ، وَآتُواالزَّكاةَ، فَاِذَا لَمْ يفْعَلُواذٰلِكَ ابْتُلُوبِالْقَحْطِ وَالسِّنينَ“۔244
”جب تك ميري امت ميں يہ اعمال باقي رھيں گے اس وقت تك ان پركوئي مصيبت نازل نہ ھوگى: ايك دوسرے سے محبت كرنا، ايك دوسرے كو ہديہ دينا اور دوسروں كي امانت ادا كرنا، حرام چيزوں سے پرھيز كرنا، مھمان كي مھمان نوازي كرنا، نماز قائم كرنا، زكوٰة ادا كرنا، ليكن ان چيزوں كے نہ ھونے كي صورت ميں ميري امت قحط اور خشك سالي ميں مبتلا ھوجائے گي“۔
قارئين كرام! گزشتہ احاديث كے مطالعہ كے بعد يہ نتيجہ نكلتا ھے كہ اصلاح كا راستہ ھميشہ ھر شخص كے لئے كھلا ھے، اور اس نوراني راستہ پر چلنا ھر شخص كے لئے ممكن ھے، انسان اپنے عمل، اعتقاد اور اخلاق ميں مجبور نھيں ھے، انسان اپنے اختيار سے پاك نيت اور مصمم ارادہ كے ذريعہ مذكورہ بالا احاديث ميں بيان شدہ خوبيوں سے مزين ھوسكتا ھے، ان تمام برائيوں اور شيطاني صفات كو چھوڑتے ھوئے ان تمام خير و نيكي اور معنوي خوبيوںسے آراستہ ھوسكتا ھے، اور اپنے ھاتھوں سے البتہ خدا كي نصرت و مدد كے ساتھ ساتھ اخلاقي برائيوں اور برے اعمال كو ظاھري و باطني نيكيوں ميں تبديل كرے، كيونكہ جوشخص بھي اصلاح كا راستہ اپناتا ھے تو خداوندعالم بھي اس كي برائيوں كو نيكيوں ميں تبديل كرنے ميں مدد كرتا ھے، اور جب برائيوں كي جگہ نيكياں آجاتي ھيںتو پھر اس كي تمام گزشتہ برائياں بخش دي جاتي ھيں۔
((إِلاَّ مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاٴُوْلَئِكَ يبَدِّلُ اللهُ سَيئَاتِھم حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللهُ غَفُورًا رَحِيمًا))۔ 245
”علاوہ اس شخص كے جو توبہ كر لے اور ايمان لائے اور نيك عمل بھي كرے تو پروردگار اس كي برائيوں كو اچھائيوں سے تبديل كردے گا اور خدا بھت زيادہ بخشنے والا اور مھربان ھے“۔
((إِلاَّ مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًا بَعْدَ سُوءٍ فَإِنِّي غَفُورٌ رَحِيمٌ))۔ 246
”ھاں كوئي شخص گناہ كر نے كے بعد توبہ كر لے اور اپني برائي كو نيكي سے بد ل دے، تو ميں بخشنے والا مھربان ھوں“۔

اصلاح نفس سے متعلق مسائل كے عناوين
تمام لوگوں كي نسبت خيرو نيكي كي نيت ركھنا، رغبت، خوف، خواہش، خوشي اور غم كے وقت پرھيزگاري كرنا۔
تمام امور اور انجام كار كے بارے ميں غور و فكر كرنا، عبادت كے لئے شب بيدارى، تقويٰ و پرھيزگاري اختيار كرنا، ظلم و ستم كرنے والے سے چشم پوشي كرنا، جس نے قطع تعلق كرليا ھو اس سے صلہ رحم كرنا، جس نے احسان نہ كيا ھو اس كے ساتھ احسان كرنا، گناھوں كو ترك كرنے كے ساتھ ساتھ خوف خدا اس دنيا كے ظاھر و باطن پر خدا كي حفاظت پر توجہ ركھنا، ( كس طرح خدا انسان يا دوسري مخلوق كي حفاظت فرماتا ھے) عفت اورپاكدامنى، عبادت خدا اور خدمت خلق ميں كوشش كرنا، صداقت، ادائے امانت اور خوش عادت ھونا، پڑوسيوں كا خيال ركھنا، خوبيوں اور نيكيوں سے آراستہ ھونا، طولاني ركوع اور سجدہ كرنا، حلال روزي پر قناعت كرنا، اپني رفتار و گفتار ميں نرم رويہ پيدا كرنا، حلم و حوصلہ، حياء اور عفت سے كام لينا، نيك اور صالح عمل انجام دينا، شكم اور شھوت كے ميدان باعفت رہنا، رضائے الٰھي كے لئے نيك عمل انجام دينا، ذات خدا سے اميدركھنا، عذاب الٰھي سے خوف زدہ رہنا، ايك دوسرے سے محبت كرنا، ايك دوسرے كي ہدايت كرنا، برائيوں سے دور رہنا، مھمان كي عزت كرنا، نماز قائم كرنا اور زكوٰة كا ادا كرنا۔
البتہ يہ عناوين گزشتہ احاديث ميں بيان ھونے والے اصلاح كے راستہ سے متعلق ھيں جن كي فھرست ھم نے يھاں بيان كي ھے، اگر ھم اپنى، اھل خانہ اور معاشرہ كي اصلاح كے سلسلہ ميں بيان ھونے والي تمام احاديث سے عناوين كو جمع كريں تو واقعاً ايك ضخيم كتاب بن جائے گي۔
اگر انسان اپنے ارادہ و اختيار سے خود كو ان تمام نيكيوں سے مزين اور آراستہ كرلے اور برے صفات خصوصاً مال حرام، مقام حرام اور شھوت حرام سے محفوظ كرلے تواس كو دنيا و آخرت ميں فائدہ ھي فائدہ نصيب ھوگا۔
اس سلسلہ ميں متقي و پرھيزگار افراد كو زندگي كے بعض پھلوؤں ميں ھونے والے عظيم الشان فائدوں كي طرف اشارہ كيا جائے تو ممكن ھے خير و سعادت حاصل كرنے والوں كے لئے ہدايت كا سبب بن جائے۔

ابن سيرين اور خواب كي تعبير
ابن سيرين كا نام محمد بن سيرين بصري ھے، وہ خواب كي تعبير كے سلسلہ ميں ايك عجيب و غريب طاقت كا مالك تھا اس كي تعبير خواب كا سر چشمہ ذوق سالم اور بلند فكر تھي۔
خواب كو انسان سے مطابقت كرتا تھا، اور خواب كي تعبير ميں قرآن مجيد اور احاديث سے الھام ليتا تھا۔
اس كے بارے ميں لكھا گيا ھے كہ ايك شخص نے اس سے معلوم كيا: خواب ميں اذان كہنے كي تعبير كيا ھے؟ تو اس نے كھا: حج سے مشرف ھونا، دوسرے شخص نے اسي خواب كي تعبير پوچھي تو كھا: چورى كرنا، ليكن جب اس سے ايك خواب كي دو مختلف تعبيروں كے بارے ميں سوال كيا گيا تو اس نے كھا: ميں نے پھلے شخص كو ديكھا تو وہ ايك نيك اور صالح شخص دكھائي دياتو اس كے خواب كي تعبير كو اس آيت سے حاصل كيا: (( وَاٴَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَج۔۔۔))۔247 ليكن دوسرے شخص كا چھرہ صحيح نھيں تھا لہٰذا اس كے خواب كي تعبير ميں اس آيت سے الھام ليا: (( اٴَذَّنَ مُؤَذِّنٌ اٴَيتُھا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسَارِقُونَ))۔ 248
ابن سيرين كھتا ھے:بازار ميں ميري كپڑے كي دكان تھى، ايك خوبصورت عورت كپڑا خريدنے كے لئے ميري دكان پر آئى، جبكہ ميں يہ نھيں جانتا تھا كہ يہ عورت ميري جواني اور جمال كي عاشق ھوگئي ھے، تھوڑا كپڑا مجھ سے خريدا اور اپني گٹھري ميں ركھ ليا، اور اچانك كہنے لگى: اے كپڑا فروش! ميں گھر سے پيسے لانا بھول گئى، يہ گٹھري لے كر تم ميرے گھر تك چلو وھاں پر اپنے پيسے بھي لے لينا! مجھے مجبوراً اس كے گھر تك جانا پڑا، گھر كي چوكھٹ پر مجھے بلايا اور جيسے ھي ميں نے اندر قدم ركھا اس نے فوراً دروازہ بند كرليا، اس نے اپنے كپڑے اتار پھينكے اور اپنے جمال و خوبصورتي كو ميرے لئے ظاھر كرديا، او ركھا: ايك مدت سے تيرے جمال كي عاشق ھوں، اپنے وصال كے لئے ميں نے يھي راستہ اختيار كيا ھے، اس وقت يھاں پر تيرے اور ميرے علاوہ كوئي نھيں ھے، لہٰذا ميري آرزو پوري كردے ورنہ تجھے ذليل كردوں گي۔
ميں نے اس سے كھا: خدا سے ڈر، اور زنا سے دامن آلودہ نہ كر، زنا گناہ كبيرہ ھے، جو جہنم ميں جانے كا سبب ھے۔ ليكن ميري نصيحت كا كوئي فائدہ نہ ھوا، ميرے وعظ كا كوئي اثر نہ ھوا، اس موقع پر ميں نے بيت الخلا جانے كي اجازت مانگى، اس نے سوچا واقعاً قضائے حاجت كے لئے جارھا ھے لہٰذا اس نے چھوڑديا۔ ميں بيت الخلاء ميں گيا اور اپنے ايمان اور آخرت اور انسانيت كو محفوظ كرنے كے لئے نجاست كو اپنے پورے بدن پر مل ليا، جيسے ھي اس حالت ميں بيت الخلاء سے نكلا، فوراً ھي اس نے گھر كا دروازہ كھولا اور مجھے باھر نكال ديا، ميں ايك جگہ گيا اور نھايا دھلا، ميں نے اپنے دين كي خاطر تھوڑي دير كے لئے بدبو دار نجاست كو اپنے بدن پر ملا، اس كے بدلے ميں خداوندعالم نے بھي ميري بُو كو عطر كے مانند كرديا اور مجھے تعبير خواب كا علم مرحمت فرمايا۔ 249

خداداد بے شمار دولت اور علم
عظيم الشان اصولي فقيہ، علم و عمل اور عبادت ميں مشھور شخصيت حجة الاسلام شفتي سيد كے نام سے مشھور، اپني ابتدائے تعليم كے دوران نجف اشرف ميں زندگي بسر كيا كرتے تھے، بھت زيادہ غربت اور پريشاني كي زندگي تھى، اكثر اوقات ايك وقت كے كھانے كے لالے پڑجاتے تھے، نجف اشرف ميں رہنا ان كے لئے مشكل تھا، ليكن تمام تر مشكلات كے باوجود تحصيل علم كے لئے حوزہ اصفھان گئے جو اس موقع پر شيعوں كاايك پُر رونق حوزہ تھا ليكن وھاں پر بھي مشكلات اور پريشانيوں ميں مبتلا رھے۔
ايك روزان كے لئے ان كے لئے كھيں سے كچھ پيسہ آيا، اھل و عيال كے كھانے كے انتظام كے لئے بازار گئے، انھوں نے سوچا كہ اپني اور اھل و عيال كي بھوك مٹانے كے لئے كوئي سستي سي غذا خريديں۔
ايك قصائي كي دكان سے ايك جگر خريدا اور خوشي خوشي گھر كي جانب روانہ ھوگئے۔
راستہ ميں ايك ٹوٹے پھوٹے مكان كي طرف سے گزر ھوا ديكھا كہ ايك ضعيف اور كمزور سي كتيا زمين پر پڑي ھوئي ھے، اور اس كے چند پلّے اس كے سينہ سے چپكے ھوئے ھيں اور دودھ مانگ رھے ليكن اس بھوكي اور كمزور كتيا كے پستان ميں دودھ نھيں ھے۔
كتيا كي حالت ديكھ كراور اس كے بچوں كي فرياد سن كر سيد كھڑے ھوگئے، جبكہ خود موصوف اور ان كے اھل و عيال كو بھي اس غذا كي ضرورت تھي ليكن انھوں نے خواہش نفس پر كوئي توجہ نھيں كي اور تمام جگر اس كو كھلاديا، اس كتيا نے اپني دم ھلائي اور اپنا سر آسمان كي طرف بلند كيا گويا خداوندعالم كي بارگاہ ميں اپني بے زباني سے اس محسن اور ايثار گر كے حق ميں دعا كررھي ھے۔
سيد فرماتے ھيں: اس كتيا اور اس كے بچوں پر رحم كئے ھوئے زيادہ وقت نھيں گزرا تھا كہ ”شفت“ كے علاقہ سے بھت سا مال ميرے پاس لايا گيا، اور كھا: وھاں كے رہنے والے ايك شخص نے ايك صاحب كو كاروبار كرنے كے لئے پيسہ ديا اور اس سے كھا: اس كا فائدہ سيد شفتي كے لئے بھيج ديا جائے، اور ميرے مرنے كے بعد ميرا سارا مال اور اس كے تمام منافع سيد كے پاس بھيج ديئے جائےں، اس ميں مال كا منافع سيد كے ذاتي اخراجات كے لئے اور اصل مال ان كي مرضي كے مطابق خرچ كيا جائے!
سيد نے اپنے سے متعلق مال كو تجارت ميں لگاديا اور اس كے فائدے سے كچھ زمين و باغات خريدے، موصوف اس كے منافع سے غريبوں كي امداد اور طلباء كو شھريہ ديا كرتے تھے، نيز لوگوں كي مشكلات كو دور فرماتے تھے، اور ايك عظيم الشان مسجد بنائي جو آج كل اصفھان كي ايك آباد اور سيد كے نام سے مشھور ھے، موصوف كي قبر بھي اسي مسجد كے كنارے ايك پُر رونق مقبرہ ميں ھے۔

ايك پرھيزگار اور بيدار جوان
قبيلہ انصار سے ايك شخص كھتا ھے: گرمي كے دنوں ميں ايك روز رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كے ساتھ ايك درخت كے سايہ ميں بيٹھا ھوا تھا، ايك شخص آيا جس نے اپنا كرتہ اتار ديا، اور گرم ريت پر لوٹنا شروع كرديا، كبھي پيٹھ كے بل اور كبھي پيٹ كے بل اور كبھي اپنا چھرہ گرم ريت پر ركھتا ھے اور كھتا ھے: اے نفس! اس گرم ريت كا مزہ چكھ، كيونكہ خداوندعالم كا عذاب تو اس سے كھيں زيادہ سخت ھے۔
رسول اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم اس واقعہ كو ديكھ رھے تھے، جس وقت وہ جوان وھاں سے اٹھا او راس نے اپنے كپڑے پہن كر ھماري طرف ديكھ كر جانا چاھا، پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے اس كوھاتھ كے اشارے سے بلايا، جب وہ آگيا تو آنحضرت نے اس سے فرمايا: اے بندہ خدا! ميں نے اب تك كسي كو ايسا كام كرتے نھيں ديكھا اس كام كي وجہ كيا ھے؟ تو اس نے عرض كيا: خوف خدا، ميں نے اپنے نفس سے يھي طے كرليا ھے تاكہ شھوت اور طغيان سے محفوظ رھے!
پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا: تو نے خدا سے ڈرنے كا حق ادا كرديا ھے خداوندعالم تيرے ذريعہ اھل آسمان پرفخر و مباھات كرتا ھے، اس كے بعد آنحضرت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے اپنے اصحاب سے فرمايا: سب لوگ اپنے اس دوست كے پاس جمع ھوجاؤ تاكہ يہ تمھارے لئے دعا كردے، سب اصحاب جمع ھوگئے تو اس نے اس طرح سے دعا كى:
”اَللّٰھُمَّ اجْمَعْ اَمْرَنا عَلَي الْھُديٰ وَاجْعَلِ التَّقْويٰ زادَنا وَالْجَنَّةَ مَآبَنا“۔250
”پالنے والے! ھماري زندگي ہدايت پر گامزن ركھ، تقويٰ كو ھماري زادہ راہ، اور بہشت كو ھماري جايگاہ بناد ے“۔

ايك جوان عابد اور گناہ كے خطرہ پر توجہ
حضرت امام باقر عليہ السلام فرماتے ھيں: بني اسرائيل كي ايك بدكار عورت نے ايك جوان كو گمراہ كرنا چاھا، بني اسرائيل كے بھت سے لوگ كھتے تھے: اگر فلاں عابد اس عورت كو ديكھے گا تو عبادت چھوڑ دے گا، جيسے ھي اس بدكار عورت نے ان كي باتوں كو سنا تو كہنے لگى: خدا كي قسم ميں اس وقت تك اپنے گھر نہ جاؤں گي جب تك كہ اس كو گمراہ نہ كردوں، چنانچہ رات گئے اس عابد كے دروازہ پر آئي اور دروازہ كھٹكھٹايا ليكن اس عابد نے دروازہ نہ كھولا، وہ عورت چلائي او ركھا: مجھے اندر آنے دے، ليكن اس نے نہ كھولا، اس عورت نے كھا: بني اسرائيل كے كچھ جوان مجھ سے بُرا كام كرنا چاھتے ھيں اگر تو مجھے پناہ نھيں دے گا تو ميں ذليل و رسوا ھوجاؤں گى!
جيسے اس عابد نے يہ آواز سني دروازہ كھول ديا، وہ عورت جيسي ھي اس كے گھر ميں آئي تو اس نے اپنے كپڑے اتار دئے، اس عابد نے جيسے ھي اس كي زيبائي اور خوبصورتي كو ديكھا تو وسوسہ ميں پڑگيا، اس كے بدن پر ھاتھ ركھا اور پھر ايك گھري سوچ ميں پڑگيا، كچھ دير سوچ كرچولھے كي طرف گيا اور آگ ميں اپنا ھاتھ ڈال ديا، وہ عورت پكارى: ارے تو كيا كرتا ھے؟ اس نے كھا: جو ھاتھ نامحرم كے بدن تك پہنچا ھے اس كو جلانا چاھتا ھوں، چنانچہ يہ ديكھ كر وہ عورت بھاگ گھڑي ھوئي اور بني اسرائيل كے لوگوں كے پاس جاكر كھا: دوڑو اور اس جوان كو پچاؤ كيونكہ اس نے اپنا ھاتھ آگ ميں ركھ ديا ھے، جيسے ھي لوگ دوڑے تو ديكھا كہ اس كا ھاتھ جل چكا ھے۔ 251

پوريائے ولي ليكن اپنے نفس سے جنگ كرنے والا
پوريائي ايك قدرتمند اور زبردست پھلوان تھا جس نے اپنے زمانہ كے تمام پھلوانوں سے كشتي لڑي اور سب كو پچھاڑ ڈالاتھا، جس وقت وہ اصفھان ميں پہنچاتو اس نے اصفھان كے بھي تمام پھلوانوں سے كشتي لڑي اور سبھي پر فاتح رھا، چنانچہ اس نے شھر كے پھلوانو ں سے درخواست كي كہ ميرے بازو پر بندھے ھوئے بازوبند پر مھر لگا كر ميري پھلواني كا اقرار كرتے ھوئے دستخط كرو تو شھر كے پھلوانوں كے رئيس كے علاوہ سب نے دستخط كردئے چونكہ اس نے ابھي تك اس سے كشتي نھيں لڑي تھي اس نے كھا كہ ميں پوريا سے كشتي لڑوں گا اگر اس نے مجھے ھراديا تب وقت دستخط كروں گا۔ ميدان ”عالي قاپو ميں جمعہ كے روز كشتي كا پروگرام ركھا گيا تاكہ اس بے نظير كشتي كو ديكھنے كے لئے لوگ جمع ھوسكيں، شب جمعہ پوريا ئي نے ديكھا كہ ايك بُڑھياحلوا بانٹ رھي ھے اور التجا كے انداز ميں كہہ رھي ھے: يہ حلوا كھاؤ او رميرے لئے دعا كرو كہ خداوندعالم ميري حاجت پوري كردے۔
پوريائي نے پوچھا! ماں تيري حاجت كيا ھے؟ اس نے كھا: ميرا بيٹا اس شھر كا سب سے بڑا پھلوان ھے، وہ ميري اور اپنے اھل و عيال كے لئے روزي لاتا ھے، كل اس كي كشتي پوريائي سے ھے، كچھ لوگ اس كي مدد كرتے ھيں ليكن مجھے ڈر ھے كہ اگر وہ كشتي ھار گيا تو كھيں وہ لوگ اس كو پيسہ دينا بند نہ كرديں اور ھماري زندگي سختي اور پريشاني ميں گزرنے لگے!
پوريائي نے اسي وقت يہ ٹھان لي كہ شھر اصفھان كے مشھور پھلوان كو زير كرنے كے بجائے اپنے نفس كو زيركرے گا، چنانچہ اسي نيت سے اس نے كشتي لڑنا شروع كى، جس وقت كشتي ھونے لگى، تو اس نے اندازہ لگاليا كہ ايك وار ميں اس كو زمين پر گرا سكتا ھے، ليكن اس نے اس طرح كشتي لڑي كہ خود اس پھلوان سے ھارگيا تاكہ چند لوگوں كي روزي روٹي بند نہ ھونے پائے، اس كے علاوہ اس بُڑھيا كے دل كو بھي خوش كردے، اور خود بھي رحمت الٰھي كا مستحق ھوجائے۔
آج بھي اس كا نام تاريخ پھلواني ميں ايك بلند انسان، شجاع اور بخشش كرنے والے كے نام سے باقي ھے، اس كي قبر گيلان ميں ھے، اور لوگ اس كي قبر پر فاتحہ پڑھنے كے لئے جاتے ھيں۔ 252
جن لوگوں نے ھوائے نفس اور ھوا و ھوس سے جنگ كي ھے اور بلند و بالا منصب اور ملكوتي درجات پرپہنچے ھيں، ان كا نام قرآن، حديث اور تاريخ ميں بيان ھوا ھے ان كي تعداد اتني زيادہ ھے كہ اگر ان سب كے حالات كو ايك جگہ جمع كيا جائے تو واقعاًچند جلد كتاب ھوجائے ۔
ھوائے نفس اور حرام شھوت سے مقابلہ كے سلسلہ ميں رسول اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومين عليھم السلام بھت سي احاديث بيان ھوئي ھيں، جن ميں چند كي طرف اشارہ كرنا مناسب ھے۔
حضرت امام باقر عليہ السلام فرماتے ھيں: خدا وندعالم كا فرمان ھے:
”وَعَزَّتِي وَجَلَالِي وَ عَظَمَتي وَبَھائِي وَعُلُوِّارْتِفاعِى، لَايوٴْثِرُ عَبْدٌ مُوٴْمِنٌ ھَواي عَليٰ ھَواہُ فِي شَيءٍ مِنْ اَمْرِالدُّنْيا اِلاَّ جَعَلْتُ غِناہُ فِي نَفْسِہِ، وَھِمَّتَہُ فِي آخِرَتِہِ، وَضَمَّنْتُ السَّماواتِ وَالْاَرْضَ رِزْقَہُ، وَكُنْتُ لَہُ مِنْ وَراءِ تِجارَةِ كُلِّ تاجِرٍ“۔253
”مجھے اپني عزت و جلال، بزرگي و حسن اور بلند و بالا مقام كي قسم كوئي بھي ميرا بندہ اپني خواہشات پر ميري مرضي كو مقدم نھيں كرے گا مگر يہ ميں اس كو بے نياز بنادوں گا، اور اس كي ھمت و قصد كو آخرت كي طرف موڑ دوں گا، زمين و آسمان كو اس كي روزي كا كفيل بنادوں گا، اور خود ميں اس كے لئے ھر تاجر كي تجارت سے بھتر منافع عطا كروں گا“۔
حضرت امام صادق عليہ السلام سے روايت ھے:
”اِذاكاَنَ يوْمَ القِيامَةِ تَقومُ عُنُقٌ مِنَ النَّاسِ فَياٴْتُونَ بَابَ الْجَنَّةِ (وسائل الشيعہ:ج15، ص279، باب32، حديث20510)
فَيضْرِبُونَہُ، فَيقالُ لَھُم:مَنْ اَنْتُم ؟فَيقُولُونَ:نَحْنُ اَھْلُ الصَّبْرِ، فَيقالُ لَھُمْ:عَلي مَاصَبَرْتُم ؟فَيقُولُونَ :كُنّا نَصْبِرُ عَلَي طاعَةِ اللّٰہِ وَنَصْبِرُ عَنْ مَعاصِي اللّٰہِ، فيقول اللہ عَزَّوَجَلَّ:صَدَقُوا، اَدْخِلُوھُمُ الجَنَّةَ۔254 وَھُوَ قَوْلُ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ:(( ۔۔۔ إِنَّمَا يوَفَّي الصَّابِرُونَ اٴَجْرَھم بِغَيرِ حِسَابٍ))۔ 255
”جس وقت قيامت برپا ھوگى، كچھ لوگ اٹھيں گے اور جنت كے دروازہ كي طرف جانے لگےں گے، وھاں پہنچ كر دقّ الباب كريں گے، آواز آئے گى: تم كون لوگ ھو؟ تو وہ كھيں گے: اھل صبر، سوال ھوگا: تم لوگوں نے كس چيز پر صبر كيا: جواب ديں گے: ھم نے اطاعت خدا اور اس كي معصيت پر صبر كيا، اس وقت آواز قدرت آئے گى: يہ لوگ ٹھيك كھتے ھيں، ان كو جنت ميں داخل ھونے دو، اسي چيز كو خداوندعالم نے قرآن مجيد ميں ارشاد فرمايا ھے: ”پس صبر كرنے والے ھي وہ ھيں جن كوبے حساب اجر ديا جاتا ھے“۔
حضرت امير المومنين عليہ السلام فرماتے ھيں:
”طُوبٰي لِمَنْ لَزِمَ بَيتَہُ، وَاَكَلَ قوتَہُ، وَاشْتَغَلَ بِطاعَةِ رَبِّہِ، وَبَكيٰ عَليٰ خَطِيئَتِہِ، فَكَانَ مِنْ نَفْسِہِ في شُغُلٍ، وَالنّاسُ مِنْہ فِي رَاحَةٍ“۔256
”خوش نصيب ھے وہ شخص جو اپنے گھر ميں رھے، اور اپني روزي روٹي كھاتا رھے، خدا كي اطاعت ميں مشغول رھے، اپنے گناھوں پر گريہ كرتا رھے، اپنے ھي كاموں ميں مشغول رھے اور دوسرے لوگوں كو پريشان نہ كرے“۔
يعقوب بن شعيب كھتے ھيں: ميں نے حضرت امام صادق عليہ السلام سے سنا كہ آپ نے فرمايا:
”مَانَقَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ عَبْداً مِنْ ذُلِّ الْمَعاصِي اِليٰ عِزِّالتَّقْويٰ اِلاّ اَغْناہُ مِنْ غَيرِ مالٍ، وَاَعَزَّہُ مِنْ غَيرِ عَشِيرَةٍ، و1آنَسَہُ مِنْ غَيرِ بَشَرٍ“۔257
” خداوندعالم كسي بھي بندہ كو گناھوں كي ذلت سے تقويٰ كي عزت كي طرف نھيں پھونچاتا مگر يہ كہ اس كو بغير مال و دولت كے بے نياز بناديتا ھے اور اس كو بغير قوم و قبيلہ كے عزت ديتا ھے اور اس كو بغير انسان كے انس ديديتا ھے“۔
پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم فرماتے ھيں:
”مَنْ ذَرَفَتْ عَيناہُ مِنْ خَشْيةِ اللّٰہِ كَانَ لَہُ بِكُلِّ قَطْرَةٍ قَطَرَتْ مِنْ دُموعِہِ قَصْرٌ فِي الجَنَّةِ مُكَلَّلٌ بِالدُّرِّ وَ الْجَوْھَرِ، فيہِ مَا لَا عَينٌ رَاٴَتْ، وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلَا خَطَرَ عَلَي قَلْبِ بَشَرٍ“۔258
”جو شخص خوف خدا ميںآنسو بھائے، اس كے ھر قطرہ كے عوض بہشت ميں ھيرے جواھرات سے بنا ھوا ايك محل ملے گا، اس قصر ميں ايسي چيزيں ھيں جس كو كسي آنكھ نے نہ ديكھا ھو اورنہ ھي كسي دل ميں اس كے متعلق خطور ھواھو“۔
حضرت امام صادق عليہ السلام فرماتے ھيں:
”كُلُّ عَينٍ باكِيةٌ يوْمَ القِيامَةِ اِلاَّ ثَلاثَةً:عَينٌ غُضَّتْ عَنْ مَحَارِمِ اللّٰہِ، وَعَينٌ سَھِرَتْ فِي طَاعَةِ اللّٰہِ، وَعَينٌ بَكَتْ فِي جَوْفِ اللَّيلِ مِنْ خَشْيةِ اللّٰہِ“۔259
وم قيامت ھر آنگھ گريہ كرے گي سوائے تين آنكھوں كے: جس آنكھ سے حرام خدا كو نہ ديكھا ھو، جو آنكھ اطاعت و عبادت خدا ميں جاگي ھو، اور وہ آنكھ جو رات كے اندھيرے ميں خوف خدا سے روئي ھو“۔
حضرت رسول اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا:
”اِنَّ الصَّدَقَةَ تَزِيدُ صَاحِبَھا كَثْرَةً، فَتَصَدَّقُوا يرْحَمْكُمُ اللّٰہُ۔وَاِنَّ التَّواضُعَ يزِيدُ صاحِبَہُ رِفْعَةً، فَتَواضَعُوا يرْفَعْكُمُ اللّٰہُ۔وَاِنَّ العَفْوَ يزِيدُ صَاحِبَہُ عِزّاً، فَاعْفُوا يعِزَّكُمُ اللّٰہُ “۔260
”بے شك صدقہ صاحب مال كے مال ميں اضافہ كرتا ھے، پس راہ خدا ميں صدقہ ديا كرو، خداوندعالم تم پر رحمت نازل كرے، تواضع و انكساري كرنے والے كي سربلندي ميں اضافہ ھوتا ھے، پس تواضع و انكسار ي كرو، خداوندعالم تم كو سربلند و سرفراز فرمائے گا، عفو و بخشش كرنے والے كي عزت و سربلندي ميں اضافہ ھوتا ھے، پس عفو و بخشش سے كام لو خداوندعالم تم كو عزت دےگا“۔
حضرت امير المومنين عليہ السلام نے ايك حديث كے ضمن ميں فرمايا:
”اَلاٰ اِنَّہُ مَنْ ينْصِفِ النَّاسَ مِنْ نَفْسِہِ لَمْ يزِدْہُ اللّٰہُ اِلاَّعِزًّا“۔261
”آگاہ ھوجاؤ كہ جو شخص دوسرے لوگوں سے انصاف كرے گا، خداوندعالم اس كي عزت و سربلندي ميں اضافہ فرمادے گا“۔
حضرت رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم فرماتے ھيں:
”طُوبيٰ لِمَنْ طابَ خُلُقُہُ، وَطَھُرَتْ سَجِيتُہُ، وَصَلُحَتْ سَريرَتُہُ، وَحَسُنَتْ عَلانِيتُہُ، وَاَنْفَقَ الْفَضْلَ مِنْ مالِہِ، وَاَمْسَكَ الْفَضْلَ مِنْ قَوْلِہِ، وَاَنْصَفَ النَّاسَ مِنْ نَفْسِہِ“۔262
”خوش نصيب ھے وہ شخص جس كا اخلاق اچھا ھو، جس كي طينت پاك ھو، جس كا باطن صالح اور نيك ھو، جس كا ظاھر نيك ھو، اپنے اضافي مال سے انفاق كرے، اور زيادہ گفتگو سے پرھيز كرے، اور لوگوں كے ساتھ انصاف سے كام لے“۔
قارئين كرام! گزشتہ صفحات ميں بيان شدہ احاديث ميں مختلف مسائل كو ملاحظہ كيا جن كا خلاصہ يہ ھے:” آخرت كو دنيا پر ترجيح دينا، عبادت خدا ميں صبر و ضبط كرنا، (يعني عبادت كي مشكلات سے نہ گھبرانا) گناھوں كے مقابلہ ميں استقامت دكھانا، حلال رزق پر قناعت كرنا، اطاعت الٰھي ميں مشغول رہنا، گناھوں پر آنسو بھانا، اپنے كاموں ميں مشغول رہنا، لوگوں كو اذيت دينے سے پرھيز كرنا، تقويٰ الٰھي كي رعايت كرنا، رات كے سناٹے ميں خوف خدا سے آنسوبھانا، نامحرم پر نظر كرنے سے پرھيز كرنا، عبادت كے لئے شب بيدارى كرنا، راہ خدا ميں صدقہ دينا، تواضع و انكساري اور عفو و بخشش سے كام لينا، اپني طرف سے تمام لوگوں كے ساتھ انصاف كرنا، اخلاق حسنہ ركھنا، پاك طبيعت ركھنا، شائستہ باطن ركھنا، پسنديدہ ظاھر ركھنا، اضافي مال كو راہ خدا ميں خرچ كرنا، زيادہ گفتگو سے پرھيز كرنا“۔
اس ميں كوئي شك نھيں ھے كہ ان تمام چيزوں كو عملي جامہ پہنانا، خواہشات نفساني سے جنگ كئے بغير ممكن نھيں ھے، جو شخص شيطاني چالوں سے دنياوي اور مادي امور، ھوائے نفس اور بے لگام شھوت كے ساتھ مقابلہ كرے تو واقعاً اس نے جھاد اكبر كيا ھے اوراسے اس كا بھت زيادہ فائدہ ھوگا، وہ فائدہ جس كا وعدہ خداوندعالم نے انبياء اور ائمہ عليھم السلام سے كيا ھے۔

فرصت كو غنيمت جاننا چاہئے
فرصت كو غنيمت جاننا چاہئيے بالخصوص اپنے پاس موجود فرصت كي قدر كرنا چاہئے، عمر كي فرصت كے بارے ميں؛ خدا كا حكم، انبياء و ائمہ عليھم السلام اور اولياء الٰھي كي وصيت ھے، كيونكہ انسان اسي عمر كي فرصت ميں اپنے گناھوں كو نيكيوں ميں تبديل كرسكتا ھے، برائيوں كي جگہ اچھائيوں كو قرار دے سكتا ھے، اور ظلمت و تاريكي كي جگہ نور و روشني كو قرار دے سكتا ھے۔
اگر فرصت ھمارے ھاتھ سے نكل جائے، اور كوئي اچھا كام انجام نہ ديا جائے، اور موت كا پيغام پہنچ جائے، اور عمر كا چراغ اس موقع پر گل ھونے لگے كہ انسان توبہ كي فرصت نہ پاسكے، تو اس موقع پر شرمندگي اور پشيماني كوئي فائدہ نھيں دے سكتي۔
جس وقت طلحہ جنگ جمل ميں مروان بن حكم كے تير سے زمين پر گرا، اور اس دنيا سے چلنے لگا تو كھتا ھے: ميري بدبختي ھے كہ بزرگان قريش (حضرت علي عليہ السلام) كي بزرگي كو نھيں ديكھ سكا، ليكن طلحہ كو يہ احساس اس وقت ھوا جب فرصت ھاتھ نكل چكي تھى، اور اس كي زندگي كا ديا گُل ھونے والا تھا، طلحہ وہ پھلا شخص تھا جس نے حضرت علي عليہ السلام كي بيعت كى، ليكن حضرت علي عليہ السلام نے چونكہ اس كي ناجائز پيش كش كو قبول نھيں كيا تھا نيز اُدھر معاويہ نے اس كو بھڑكايا اور اس پر اثر ھوگيا، لہٰذا اس نے حضرت امير كي بيعت توڑ ڈالى، اور اپني دنيا و آخرت كو تاريك كرڈالا۔
جناب نوح اور جناب لوط عليھم السلام كي ازواج نے اپنے شوھروں كي مسلسل مخالفت كى، اور آخري لمحات اور فرصت كے ختم ھونے تك انھوں نے مخالفت جاري ركھي يھاں تك كہ دونوں پر عذاب الٰھي نازل ھوا اور اس دنيا سے چلي گئيں۔
جناب آسيہ زوجہ فرعون نے فرصت كو غنيمت شمار كيا اور خدا كي رضا كو اپنے شوھر كي رضا پر مقدم ركھا، جس كي بنا پر اسے خوشنودي خدا اور ھميشہ كے لئے بہشت مل گئي۔
جناب خديجہ نے فرصت كو غنيمت سمجھا، اور پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كے راستہ ميں قرباني دي اور دنيا و آخرت كي سعادت حاصل كرلى، ان كي قوم نے پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم سے شادي كرنے كي وجہ سے قطع تعلق كرليا، ليكن جناب خديجہ نے خدا سے رابطہ مستحكم كرليا، اور اس طرح سے فوز عظيم پرفائز ھوگئيں۔حر ّ بن يزيد رياحي نے باقي بچي تھوڑي سي فرصت كو غنيمت شمار كيا اور اس غنيمت كے خزانہ سے ھميشہ كے لئے عظيم الشان منفعت حاصل كرلي۔
جي ھاں! جس شخص نے فرصت كو غنيمت شمار كيا اگرچہ تھوڑي سي فرصت كيوں نہ ھو، نور الٰھي اس كے دل ميں چمك اٹھتا ھے اور اس كي نصرت و مدد كرتا ھے۔اس موقع پر كھا جانا چاہئے : وہ نور ہدايت جس نے عابد و زاہد كے دل ميں راہ خدا كو واضح كيااس نے تمام طاقتوں كا اختيار اپنے ھاتھ ميں لے ليا، چنانچہ اس كے كان كو نغمہ الٰھي اور سخن حق كے علاوہ كوئي دوسري آواز سنائي نھيں ديتى، جس كا ذائقہ كسي بھي حرام چيز كو چكھنے كے لئے تيار نھيں ھے، آنكھيں نامحرم كے بدن كي طرف اٹھنے سے رك گئيں، درحقيقت ايك عالم عارف كي نگاہ ايك معمولي آنكھ سے كھيں زيادہ ديكھتي ھے، كيونكہ اس كو اندر سے نور ہدايت طاقت پہنچاتا رھتا ھے، او راسي نور كے ذريعہ پھلے وہ خالق كائنات كي مخلوق كے جلال و جلووں كو ديكھتا ھے، اور اس كے بعد اپني ظاھري آنكھوں سے اس دنيا كي چيزوں كو ديكھتا ھے۔
راہ خدا پر چلنے والا دوسروں كي طرح نھيںديكھتا، كہ جھاںدوسرے لوگ زندگي كو لذت حاصل كرنے اور اپنے مقصد تك رسائي كے لئے ديكھتے ھيں، اور آخر كار پشيمان ھوكر فرياد كرنے لگتے ھيں: ھائے كوئي چيز كام آنے والي باقي نہ رھي اور اب اپنے يا دوسروںكي كوئي اميد نھيں ھے۔
جس شخص كو نور ہدايت حاصل ھوجاتا ھے اس كي زندگي كے اغراض و مقاصد بلند وبالا ھوتے ھيں، اور وہ صرف ظاھري زندگي كي شناخت پر قناعت نھيں كرتا بلكہ زندگي كے اسرار و رموز كي گھرائي ميں جاتا ھے اور اس حاصل شدہ بصيرت سے اپني زندگي كے لمحات گزارتا ھے۔يھي وہ بصيرت ھے جس سے انسان ھميشہ ذكر الٰھي ميں مشغول رھتا ھے، يھاں تك كہ يہ كھا جاسكتا ھے كہ وہ ايك لمحہ كے لئے بھي ياد خدا سے غافل نھيں ھوتا۔اگر انسان كو عالم ہستي كي اھميت معلوم ھوجائے تو كيا وہ ايك لمحہ كے لئے غفلت كي زندگي بسر كرسكتا ھے؟ غفلت كے معني يہ ھيں كہ انسان اپني غفلت كي مقدار بھر اپنے وجود ميں كمي اور نقصان كا تصور كرے۔ 263



--------------------------------------------------------------------------------


215. سورہٴ نازعات آيت، 40۔
216. سورہٴ فرقان آيت 43۔
217. سورہٴ نساء، آيت 135۔
218. سورہٴ ص، آيت 26۔
219. سورہٴ نازعات آيت 40۔
220. سورہٴ اعراف، آيت 176۔
221. سورہٴ كہف، آيت 28۔
222. سوروں كي ترتيب كے لحاظ سے آيات نمبر 77۔ 150۔ 37۔ 71۔ 50۔ 15۔ 23 ۔16۔
223. وسائل الشيعہ، ج15، ص161، چاپ آل البيت باب 1 حديث 20208۔
224. نہج البلاغہ، حكمت 474۔
225. سورہٴ قيامت، آيت 14۔15۔
226. سورہ بقرہ آيت205۔
227. جاھليت قرن بستم، 53۔
228. جاھليت قرن بستم، 78۔
229. من لا يحضر الفقيہ: 4352، باب النوادر، حديث 5762؛ وسائل الشيعہ: 15162، باب 1، حديث 20214۔
230. كافى: 2454، باب محاسبة العمل، حديث 6؛ وسائل الشيعہ: 15161، باب 1، حديث 20210۔
231. امالي صدوق: 329، مجلس 53، حديث7؛ ثواب الاعمال : 159؛وسائل الشيعہ :ج15، ص162، باب 1، حديث 20215۔
232. كافى :254، باب التفكر، حديث1؛ بحار الانوار: 68318، باب 80، حديث1۔
233. كافى :255، باب التفكر، حديث5؛ وسائل الشيعہ؛ 15196، باب 5، حديث 20262۔
234. امالي صدوق: 280، مجلس 47، حديث 10؛ وسائل الشيعہ: 15199، باب 6، حديث 20272۔
235. عن رسول الله صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم في حديث المناھى، قال: من عرضت لہ فاحشة او شھوة فاجتنبھا مخافة اللہ عزوجل حرم اللہ عليہ النار، وآمنہ من الفزع الاكبر، وانجز لہ ما وعدہ في كتابہ في قولہ تعاليٰ (( وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ جَنَّتَانِ)) الا ومن عرضت لہ دنيا و آخرة فاختار الدنيا على الاخرة، لقي الله عزوجل يوم القيامة و ليست لہ حسنة يتقي بھا النار؛ ومن اختار الآخرة وترك الدنيا، رضي اللہ عنہ و غفر لہ مساوي عملہ۔
236. كافى: 268، باب الخوف والرجاء، حديث5؛ وسائل الشيعہ: 15216، باب 13، حديث 30312۔
237. سورہٴ رحمن، آيت 46۔
238. كافى: 270، باب الخوف والرجاء حديث 10؛ بحار الانوار، 67364، باب 59، حديث8۔
239. كافى: 278، باب الورع، حديث11؛ وسائل الشيعہ: 15243، باب 21، حديث 20392۔
240. كافى:277، باب الورع، حديث9؛ وسائل الشيعہ: 15245، باب 21، حديث 20400؛ بحار الانوار: 67299، باب 57، حديث9۔۔
241. وسائل اليشعہ، ج15، ص246، باب 21، حديث20405۔
242. كافى، ج2، ص79، باب العفة، حديث2؛تحف العقول :296؛وسائل الشيعہ:15، ص249، باب 22، حديث 20414۔
243. خصال ج ج1، ص 295، حديث 63؛وسائل الشيعہ، ج15، ص251، باب22، حديث20425۔
244. عيون اخبار رضا، ج2 ص29، باب 31، حديث 25، وسائل الشيعہ، ج15، ص254، باب 23حديث 20434۔
245. سورہٴ فرقان، آيت 70۔
246. سورہٴ نمل، آيت 11۔
247. سورہٴ حج، آيت 27۔
248. سورہٴ يوسف، آيت 70۔
249. سفينة البحار ج4، 352 باب السين بعدہ الياء۔
250. امالي صدوق :ص340، ا؛المجلس الرابع والخمسون، حديث 26؛بحار الانوار، ج67، ص378، باب 59، حديث23۔
251. قصص راوندي ص 83، حديث 222؛ بحار الانوار، ج 67، ص 387، باب 59، حديث 52۔
252. جامع النورين ص 234۔
253. كافى، ج2، ص137، حديث2؛وسائل
254. كافى ج2، ص75، باب الطاعة والتقوى، حديث 4؛بحارالانوار، ج67، ص101، باب 47، حديث5۔
255. سورہٴ زمر، آيت 10 ۔
256. نہج البلاغہ :403، خطبہ 175؛بحارالانوار، ج67، ص111، باب 49حديث13۔
257. كافى ج، 2، ص76، باب الطاعة والتقوى، حديث 8؛وسائل الشيعہ :ج15، ص241، باب 20، حديث20385۔
258. امالي صدوق :431، مجلس 66، حديث 1؛مجموعہ ٴ ورام ج، 2ص 263؛وسائل الشيعہ ج15، ص223، باب 15، حديث 20333۔
259. كافى، ج2، ص482، باب البكاء، حديث4؛عوالي اللئالى:ج4ص21، حديث59؛وسائل الشيعہ: ج15، ص228، باب 15، حديث20346۔
260. كافى، ج2، ص121، باب التواضع، حديث1؛بحارالانوار ج72، ص124، باب 51، حديث23۔
261. كافى ج2، ص144، باب الانصاف والعدل، حديث 4؛وسائل الشيعہ، ج15، ص283، باب 34، حديث20525۔
262. كافى، ج2، ص 144، باب الانصاف والعدل، حديث 1؛وسائل الشيعہ ج15، ص284، باب 34، حديث 28 205؛ بحارالانوار ج 72، ص29، باب 35، حديث22۔
263. شرح نہج البلاغہ، علامہ جعفرى، ج14ص94۔