توبہ كرنے والوں كے واقعات | |||||
(( لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِھم عِبْرَةٌ لِاٴُوْلِي الْاٴَلْبَابِ۔۔۔))171
”يقينا ان كے واقعات صاحبان عقل كے لئے عبرت ھيں۔۔۔“۔ ايك نمونہ خاتون
آسيہ، فرعون كي زوجہ تھى، وہ فرعون جس ميں غرور و تكبر كا نشہ بھرا تھا، جس كا نفس شرير تھا اور جس كے عقائد اور اعمال باطل وفاسد تھے۔
قرآن مجيد نے فرعون كو متكبر، ظالم، ستم گر اور خون بھانے والے كے عنوان سے ياد كيا ھے اور اس كو ”طاغوت“ كا نام ديا ھے۔ آسيہ، فرعون كے ساتھ زندگي بسر كرتي تھى، اور فرعوني حكومت كي ملكہ تھى، تمام چيزيں اس كے اختيار ميں تھيں۔ وہ بھي اپنے شوھر كي طرح فرمانروائي كرتي تھى، اور اپني مرضي كے مطابق ملكي خزانہ سے فائدہ اٹھاتي تھي۔ ايسے شوھر كے ساتھ زندگى، ايسي حكومت كے ساتھ ايسے دربار كے اندر، اس قدر مال و دولت، اطاعت گزار غلام او ركنيزوں كے ساتھ ميں اس كي ايك بھترين زندگي تھي۔ ايك جوان اور قدرتمند خاتون نے اس ماحول ميں پيغمبر الٰھي جناب موسي بن عمران كے ذريعہ الٰھي پيغام سنا، اس نے اپنے شوھر كے طور طريقے اور اعمال كے باطل ھونے كو سمجھ ليا، چنانچہ نور حقيقت اس كے دل ميں چمك اٹھا۔ حالانكہ اس كو معلوم تھا كہ ايمان لانے كي وجہ سے اس كي تمام خوشياں اور مقام و منصب چھن سكتا ھے يھاں تك كہ جان بھي جاسكتي ھے، ليكن اس نے حق كو قبول كرليا اور وہ خداوندمھربان پر ايمان لے آئى، اور اپنے گزشتہ اعمال سے توبہ كرلي اور نيك اعمال كے ذريعہ اپني آخرت كو آباد كرنے كي فكر ميں لگ گئي۔ اس كا توبہ كرنا كوئي آسان كام نھيں تھا، اس كي وجہ سے اسے اپنا تمام مال و دولت اور منصب ترك كرنا پڑا، اور فرعون و فرعونيوں كي ملامت ضرب و شتم كو برداشت كرنا پڑا، ليكن پھر بھي وہ توبہ، ايمان، عمل صالح اور ہدايت كي طرف قدم آگے بڑھاتي رھي۔ جناب آسيہ كي توبہ، فرعون اور اس كے درباريوں كو ناگوار گزرى، كيونكہ پورے شھر ميں اس بات كي شھرت ھوگئي كہ فرعون كي بيوي اور ملكہ نے فرعوني طور طريقہ كو ٹھكراتے ھوئے مذھب كليم اللہ كو منتخب كرليا ھے، سمجھا بجھاكر، ترغيب دلاكراور ڈرا دھمكاكر بھي آسيہ كے بڑھتے قدم كو نھيں روكا جاسكتا تھا، وہ اپنے دل كي آنكھوں سے حق كو ديكھ كر قبول كرچكي تھى، اس نے باطل كے كھوكھلے پن كو بھي اچھي طرح سمجھ ليا تھا، لہٰذا حق و حقيقت تك پہنچنے كے بعد اس كو ھاتھ سے نھيں كھوسكتي تھي اور كھوكھلے باطل كي طرف نھيں لوٹ سكتي تھي۔ جي ھاں، يہ كيسے ھوسكتا ھے كہ خدا كو فرعون سے، حق كو باطل سے، نور كو ظلمت سے، صحيح كو غلط سے، آخرت كو دنيا سے، بہشت كو دوزخ سے، اورسعادت كو بدبختي سے بدل لے۔ جناب آسيہ نے اپنے ايمان، توبہ و استغفار پر استقامت كى، جبكہ فرعون دوبارہ باطل كي طرف لوٹا نے كے لئے كوشش كررھا تھا۔ فرعون نے جناب آسيہ سے مقابلہ كي ٹھان لى، غضبناك ھوا، اس كے غضب كي آگ بھڑك اٹھى، ليكن آسيہ كي ثابت قدمي كے مقابلہ ميں ھار گيا، اس نے آسيہ كو شكنجہ دينے كا حكم ديا، اور اس عظيم خاتون كے ھاتھ پير كو باندھ ديا، اور سخت سے سخت سزا دينے كے بعد پھانسي كا حكم ديديا، اس نے اپنے جلادوں كو حكم ديا كہ اس كے اوپر بڑے بڑے پتھر گرائے جائيں، ليكن جناب آسيہ نے دنيا و آخرت كي سعادت و خوشبختي حاصل كرنے كے لئے صبر كيا، اور ان تمام سخت حالات ميں خدا سے لَو لگائے ركھي۔ جناب آسيہ كي حقيقي توبہ، ايمان و جھاد، صبر و استقامت، يقين اور مستحكم عزم كي وجہ سے قرآن مجيد نے ان كو قيامت تك مومن و مومنات كے لئے نمونہ كے طور پر پہنچوايا ھے، تاكہ ھر زمانہ كے گناھگار كے لئے عذر و بھانہ كي كوئي گنجائش باقي نہ رہ جائے اور كوئي يہ نہ كہہ دے كہ توبہ، ايمان اور عمل صالح كا كوئي راستہ باقي نھيں رھا تھا۔ (( وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً لِلَّذينَ آمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعُوْنَ اِذْقالَتْ رَبِّ ابْنِ لي عِنْدَكَ بَيتاً فِي الْجَنَّةِ وَ نَجِّنيٖ مِنْ فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِہِ وَنَجِّني مِنَ الْقَوْمِ الظّالِمينَ))۔ 172 ”اورخد ا نے ايمان والوں كے لئے فرعون كي زوجہ كي مثال بيان كي كہ اس نے دعا كي كہ پروردگار ميرے لئے جنت ميں ايك گھر بنادے اور مجھے فرعون اور اس كے درباريوںسے نجات دلادے اور اس پوري ظالم قوم سے نجات عطا فرمادے “۔ توبہ، ايمان، صبر اور استقامت كي بنا پر اس عظيم الشان خاتون كا مرتبہ اس بلندي پر پہنچا ھوا تھا كہ رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے ان كے بارے ميں فرمايا: ”اِشْتاقَتِ الْجَنَّةُ اِلٰي اَرْبَعٍ مِنَ النِّساءِ :مَرْيمَ بِنْتِ عِمْرانَ، وَآسِيةَ بِنْتِ مُزاحِمٍ زَوْجَةِ فِرْعَوْنَ، وَخَديجَةَ بِنْتِ خُوَيلَدٍزَوْجَةِ النَّبِي فِي الدُّنْيا وَالآخِرَةِ، وَ فاطِمَةَ بِنْتِ مُحَمَّدٍ:“۔ 173 ”جنت چار عورتوں كي مشتاق ھے، مريم بنت عمران، آسيہ بنت مزاحم زوجہ فرعون، خديجہ بنت خويلد دنيا و آخرت ميں ھمسر پيغمبر، اور فاطمہ بنت محمد ۔“ ”شعوانہ“ كي توبہ
مرحوم ملا احمد نراقي اپني عظيم الشان اخلاقي كتاب ”معراج السعادة“ ميں حقيقي توبہ كے سلسلہ ميں ايك عجيب و غريب واقعہ بيان كرتے ھيں:
شعوانہ ايك جوان رقّاصہ عورت تھى، جس كي آواز نھايت سريلي تھى، ليكن اس كو حلال و حرام پر كوئي توجہ نھيں تھى، شھر بصرہ كے مالداروں كے يھاں فسق و فجور كي كوئي ايسي محفل نہ تھي جس ميں شعوانہ بلائي نہ جاتي ھو، وہ ان محفلوں ميں ناچ گانا كيا كرتي تھى، يھي نھيں بلكہ اس كے ساتھ كچھ لڑكياں اور عورتيں بھي ھوتي تھيں۔ ايك روز اپنے سھيليوںكے ساتھ ايسي ھي محفلوں ميں جانے كے لئے ايك گلي سے گزر رھي تھي كہ اچانك ديكھا كہ ايك گھر سے نالہ و شيون كي آواز آرھي ھے، اس نے تعجب كے ساتھ سوال كيا: يہ كيسا شور ھے؟ اور اپني ايك سھيلي كو حالات معلوم كرنے كے لئے بھيج ديا، ليكن بھت دير انتظار كے بعد بھي وہ نہ پلٹى، اس نے دوسري سھيلي كو بھيجا، ليكن وہ بھي واپس نہ آئى، تيسري كو بھي روانہ كيا اور ہدايت كردي كہ جلد لوٹ كر آنا، چنانچہ جب وہ گئي اور تھوڑي دير بعد لوٹ كر آئي تو اس نے بتايا كہ يہ سب نالہ و شيون بدكار اور گناھگارافراد كا ھے! شعوانہ نے كھا: ميں خود جاكر ديكھتي ھوں كيا ھورھا ھے۔ جيسے ھي وہ وھاں پہنچي اور ديكھا كہ ايك واعظ لوگوں كو وعظ كررھے ھيں، اور اس آيہ شريفہ كي تلاوت كررھے ھيں: (( إِذَا رَاٴَتْھم مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ سَمِعُوا لَھا تَغَيظًا وَزَفِيرًا ۔ وَإِذَا اٴُلْقُوا مِنْھا مَكَانًا ضَيقًا مُقَرَّنِينَ دَعَوْا ہُنَالِكَ ثُبُورًا))۔ 174 ”جب آتش (دوزخ) ان لوگوں كو دور سے ديكھے گي تو يہ لوگ اس كے بھڑكتے ھوئے شعلوں كي آوازيں سنيں گے۔ اور جب انھيں زنجيروں ميں جكڑ كر كسي تنگ جگہ ميں ڈال ديا جائے گا تو وھاں موت كي دھائي ديں گے“۔ جيسے ھي شعوانہ نے اس آيت كو سنا اور اس كے معني پر توجہ كى، اس نے بھي ايك چيخ ماري اور كھا: اے واعظ! ميں بھي ايك گناھگار ھوں، ميرا نامہ اعمال سياہ ھے، ميں بھي شرمندہ اور پشيمان ھوں، اگر ميںتوبہ كروں تو كيا ميري توبہ بارگاہ الٰھي ميں قبول ھوسكتي ھے؟ واعظ نے كھا: ھاں، تيرے گناہ بھي قابل بخشش ھيں، اگرچہ شعوانہ كے برابر ھي كيوں نہ ھوں! اس نے كھا: وائے ھو مجھ پر، ارے ميں ھي تو”شعوانہ “ھوں، افسوس كہ ميں كس قدر گناھوں سے آلودہ ھوں كہ لوگوں نے مجھے گناھگار كي ضرب المثل بناديا ھے!! اے واعظ! ميںتوبہ كرتي ھوں اور اس كے بعدكوئي گناہ نہ كروں گى، اور اپنے دامن كو گناھوں سے بچاؤں گي اورگناھگاروں كي محفل ميں قدم نھيں ركھوں گي۔ واعظ نے كھا: خداوندعالم تيرى نسبت بھي”ارحم الراحمين“ ھے۔ واقعاً شعوانہ نے توبہ كرلى، عبادت و بندگي ميں مشغول ھوگئى، گناھوں سے پيدا ھوئے گوشت كو پگھلاديا، سوز جگر، اور دل كي تڑپ سے آہ وبكاكرتي تھي : ھائے ! يہ ميري دنيا ھے، تو آخرت كا كيا عالم ھوگا، ليكن اس نے اپنے دل ميں ايك آواز كا احساس كيا: خدا كي عبادت ميں مشغول رہ، تب آخرت ميں ديكھنا كيا ھوتا ھے۔ ميدان جنگ ميں توبہ
”نصر بن مزاحم“ كتاب واقعہ صفين ميں نقل كرتے ھيں: ھاشم مرقال كھتے ھيں: جنگ صفين ميں حضرت علي عليہ السلام كي نصرت كے لئے چند قاريان قرآن شريك تھے، معاويہ كي طرف سے طائفہ ”غسّان“ كا ايك جوان ميدان ميں آيا، اس نے رجز پڑھا اور حضرت علي عليہ السلام كي شان ميں جسارت كرتے ھوئے مقابلہ كے لئے للكارا، مجھے بھت زيادہ غصہ آيا كہ معاويہ كے غلط پروپيگنڈے نے اس طرح لوگوں كو گمراہ كرركھا ھے، واقعاً ميرا دل كباب ھوگيا، ميں نے ميدان كا رخ كيا، اور اس غافل جوان سے كھا: اے جوان! جو كچھ بھي تمھاري زبان سے نكلتا ھے، خدا كي بارگاہ ميں اس كا حساب و كتاب ھوگا، اگر خداوندعالم نے تجھ سے پوچھ ليا :
علي بن ابي طالب سے كيوں جنگ كي ؟ تو كيا جواب دے گا؟ چنانچہ اس جوان نے كھا: ميں خدا كي بارگاہ ميں حجت شرعي ركھتا ھو كيونكہ ميري تم سے جنگ علي بن ابي طالب كے بے نمازي ھونے كي وجہ سے ھے! ھاشم مرقال كھتے ھيں: ميں نے اس كے سامنے حقيقت بيان كى، معاويہ كي مكاري اور چال بازيوں كو واضح كيا۔ جيسے ھي اس نے يہ سب كچھ سنا، اس نے خدا كي بارگاہ ميں استغفار كى، اور توبہ كى، اور حق كا دفاع كرنے كے لئے معاويہ كے لشكر سے جنگ كے لئے نكل گيا۔ ايك يھودي نو جوان كي توبہ
حضرت امام باقر عليہ السلام فرماتے ھيں:
ايك يھودي نوجوان اكثر رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كي خدمت ميں آيا كرتا تھا، پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم بھي اس كي آمد و رفت پر كوئي اعتراض نھيں كيا كرتے تھے بلكہ بعض اوقات تو اس كو كسي كام كے لئے بھيج ديا كرتے تھے، يا اس كے ھاتھوں قوم يھود كو خط بھيج ديا كرتے تھے۔ ليكن ايك مرتبہ وہ چند روز تك نہ آيا، پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے اس كے بارے ميں سوال كيا، تو ايك شخص نے كھا: ميں نے اس كو بھت شديد بيماري كي حالت ميں ديكھا ھے شايد يہ اس كا آخري دن ھو، يہ سن كر پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم چند اصحاب كے ساتھ اس كي عيادت كے تشريف لئے گئے، وہ كوئي گفتگو نھيں كرتا تھا ليكن جب آنحضرت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم وھاں پہنچے تو وہ آپ كا جواب دينے لگا، چنانچہ رسول اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے اس جوان كو آواز دى، اس جوان نے آنكھيں كھولي اور كھا: لبيك يا ابا القاسم! آنحضرت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا: كھو: ”اشہد ان لا الہ الا الله، واني رسول الله“۔ جيسے ھي اس نوجوان كي نظر اپنے باپ كي (ترچھي نگاھوں) پر پڑى، وہ كچھ نہ كہہ سكا، پيغمبر اكرم نے اس كو دوبارہ شھادتين كي دعوت دى، اس مرتبہ بھي اپنے باپ كي ترچھي نگاھوں كو ديكھ كر خاموش رھا، رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے تيسري مرتبہ اس كو يھوديت سے توبہ كرنے اور شھادتين كو قبول كرنے كي دعوت دى، اس جوان نے ايك بار پھر اپنے باپ كي چھرے پر نظر ڈالى، اس وقت پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا: اگر تيرى مرضي ھے تو شھادتين قبول كرلے ورنہ خاموش رہ، اس وقت جوان نے اپنے باپ پر توجہ كئے بغير اپني مرضي سے شھادتين كہہ ديں اور اس دنيا سے رخصت ھوگيا! پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے اس جوان كے باپ سے فرمايا: اس جوان كے لاشے كو ھمارے حوالے كردو، اور پھر اپنے اصحاب سے فرمايا: اس كو غسل دو، كفن پہناؤ، اور ميرے پاس لاؤ تاكہ ميں اس پر نماز پڑھوں، اس كے بعد اس يھودي كے گھر سے نكل آئے آنحضرت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كھتے جاتے تھے: خدايا تيرا شكر ھے كہ آج تو نے ميرے ذريعہ ايك نوجوان كو آتش جہنم سے نجات ديدى! 175 ايك دھاتي كي بت پرستي سے توبہ
حضرت امام صادق عليہ السلام فرماتے ھيں: حضرت رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كسي جنگ كے لئے تشريف لے جارھے تھے، ايك مقام پر اپنے اصحاب سے فرمايا: راستے ميں ايك شخص ملے گا، جس نے تين دن سے شيطان كي مخالفت پر كمر باندھ ركھي ھے، چنانچہ اصحاب ابھي تھوڑي ھي دور چلے تھے كہ اس بيابان ميں ايك شخص كو د يكھا، اس كا گوشت ہڈيوں سے چھپكا ھوا تھا، اس كي آنكھيں دھنسي ھوئي تھيں، اس كے ھونٹ جنگل كي گھاس كھانے كي وجہ سے سبز ھوچكے تھے، جيسے ھي وہ شخص آگے بڑھا، اس نے رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كے بارے ميں معلوم كيا، اصحاب نے رسول اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كا تعارف كرايا، چنانچہ اس شخص نے پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم سے درخواست كى: مجھے اسلام تعليم فرمائےے: تو آپ نے فرمايا: كھو: ”اشہد ان لا الہ الا الله، و اني رسول الله“۔چنانچہ اس نے ان دونوں شھادتوں كا اقرار كيا، آپ نے فرمايا: پانچوں وقت كي نماز پڑھنا، ماہ رمضان المبارك ميں روزے ركھنا، اس نے كھا: ميں نے قبول كيا، فرمايا: حج كرنا، زكوٰة ادا كرنا، اور غسل جنابت كرنا، اس نے كھا: ميں نے قبول كيا۔
اس كے بعد آگے بڑھ گئے، وہ بھي ساتھ تھا ليكن اس كا اونٹ پيچھے رہ گيا، رسول اسلام صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم رك گئے، اور اصحاب اس كي تلاش ميں نكل گئے، لشكر كے آخر ميں ديكھا كہ اس كے اونٹ كا پير جنگلي چوھوں كے بِل ميں دھنس گيا ھے اور اس كي اور اس كے اونٹ كي گردن ٹوٹ گئي ھے، اور دونوں ھي ختم ھوگئے ھيں، چنانچہ يہ خبر آنحضرت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم تك پہنچي۔ جيسے ھي آنحضرت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كو يہ خبر ملي فوراً حكم ديا، ايك خيمہ لگايا جائے اور اس كو غسل ديا جائے، غسل كے بعد خود آنحضرت خيمہ ميں تشريف لے گئے اور اس كو كفن پہنايا، خيمہ سے باھر نكلے، اس حال ميں كہ آپ كي پيشاني سے پسينہ ٹپك رھا تھا، اور اپنے صحاب سے فرمايا: يہ ديھاتي شخص بھوكا اس دنيا سے گيا ھے، يہ وہ شخص تھا جو ايمان لايا، اور اس نے ايمان كے بعد كسي پر ظلم و ستم نھيں كيا، اپنے كو گناھوں سے آلودہ نہ كيا، جنت كي حوريں بہشتي پھلوں كے ساتھ اس كي طرف آئيں اور پھلوں سے اس كا منھ بھرديا، ان ميں ايك حور كھتي تھى: يا رسول اللہ! مجھے اس كي زوجہ قرار ديں، دوسري كھتي تھى: مجھے اس كي زوجہ قرار ديں! 176 شقيق بلخي كي توبہ
شقيق ”بلخ“ ايك مالدار شخص كا بيٹا تھا، وہ تجارت كے لئے ”روم“جايا كرتا تھا، اور روم كے شھروں ميں سير و تفريح كے لئے جايا كرتا تھا، چنانچہ ايك بار روم كے كسي شھر ميں بت پرستوں كا پروگرام ديكھنے كے لئے بت خانہ ميں گيا، ديكھا كہ بت خانہ كا ايك خادم اپنا سرمنڈوائے ھوئے اور ارغواني لباس پہنے ھوئے خدمت كررھا ھے، اس سے كھا: تيرا خدا صاحب علم و حكمت اور زندہ ھے، لہٰذا اسي كي عبادت كر، اور ان بے جان بتوں كي عبادت چھوڑ دے كيونكہ يہ كوئي نفع يا نقصان نھيں پہنچاتے۔ اس خادم نے جواب ديا: اگر انسان كا خدازندہ اور صاحب علم ھے تو وہ اس بات كي بھي قدرت ركھتا ھے كہ تجھے تيرے شھر ميں روزي دے سكے، پھر تو كيوںمال و دولت حاصل كرنے كے لئے يھاں آيا ھے اور يھاں پر اپنے وقت اور پيسوں كو خرچ كرتا ھے؟
شقيق سادھو كي باتيں سن كر خواب غفلت سے بيدار ھوگئے، اور دنيا پرستي سے كنارہ كشي كرلى، توبہ و استغفار كيا، چنانچہ اس كا شمار زمانہ كے بڑے عرفاء ميں ھونے لگا۔ كھتے ھيں: ميں نے 700 دانشورں سے پانچ چيزوں كے بارے ميں سوال كيا، سب نے دنيا كي مذمت كے بارے ميں ھي بتايا: ميں نے پوچھا عاقل كون ھے؟ جواب ديا: جو شخص دنيا كا عاشق نہ ھو، ميں نے سوال كيا: ھوشيار كون ھے؟ جواب ديا: جو شخص دنيا (كي دولت) پر مغرور نہ ھو، ميں نے سوال كيا: ثروتمند كون ھے؟ جواب ملا: جو شخص خدا كي عطا پر خوش رھے، ميں نے معلوم كيا: نادار كون ھے؟ جواب ديا: جو شخص زيادہ طلب كرے، ميں نے پوچھا: بخيل كون ھے؟ تو سب نے كھا: جو شخص حق خدا كو غريبوں اور محتاجوں تك نہ پہنچائے۔ 177 فرشتے اور توبہ كرنے والوں كے گناہ
سورہ توبہ كي آيات كي تفسير ميں بيان ھوا ھے كہ فرشتے گناھگار كے گناھوں كو لوح محفوظ پر پيش كرتے ھيں، ليكن وھاں پر گناھوں كے بدلے حسنات اور نيكياں ديكھتے ھيں، فوراً سجدہ ميں گرجاتے ھيں، اور بارگاہ الٰھي ميں عرض كرتے ھيں: جو كچھ اس بندے نے انجام ديا تھا ھم نے وھي كچھ لكھا تھا ليكن اب ھم يھاں وہ نھيں ديكھ رھے ھيں! جواب آتا ھے: صحيح كھتے ھو، ليكن ميرا بندہ شرمندہ اور پشيمان ھوگيا اور روتا ھوا گڑگڑاتا ھوا ميرے در پر آگيا، ميں نے اس كے گناھوں كو بخش ديا اور اس سے درگزر كيا، ميں نے اس پر اپنا لطف و كرم نچھاور كرديا، ميں ”اكرم الاكرمين“ھوں۔ 178
گناھگار اور توبہ كى مھلت
جس وقت شيطان لعنت خدا كا مستحق قرار ديا گيا تو اس نے خداوندعالم سے روز قيامت تك كي مھلت مانگى، اللہ نے كھا: ٹھيك ھے مگر يہ مھلت لے كر تو كيا كرے گا؟ جواب ديا: پروردگارا! ميں آخري وقت تك تيرے بندوں سے دور نھيں ھوں گا، يھاں تك كہ اس كي روح پرواز كرجائے، آواز آئى: مجھے اپني عزت و جلال كي قسم، ميں بھي اپنے بندوں كے لئے آخري وقت تك درِ توبہ كو بند نھيں كروں گا۔ 179
گناھگار اور توبہ كى اميد
ايك نيك اور صالح شخص كو ديكھا گيا كہ بھت زيادہ گريہ و زاري كررھا ھے، لوگوںنے گريہ و زاري كي وجہ پوچھى؟ تو اس نے كھا: اگر خداوندعالم مجھ سے يہ كھے كہ تجھے گناھوں كي وجہ سے گرم حمّام ميں ھميشہ كے لئے قيد كردوں گا، تو يھي كافى ھے كہ ميري آنكھوں كے آنسو خشك نہ ھوں، ليكن كيا كيا جائے كہ اس نے گناھگاروں كو عذاب جہنم كا مستحق قرار ديا ھے، وہ جہنم جس كي آگ كو ہزار سال بھڑكايا گيا يھاں تك كہ وہ سرخ ھوئى، ہزار سال تك اس كو سفيد كيا گيا، اور ہزار سال اس كو پھونكا گيا يھاں تك كہ سياہ ھوگئى، تو پھر ميں اس ميں كيسے رہ سكتا ھوں؟ اس عذاب سے نجات كي اميد صرف خداوندعالم كي بارگاہ ميں توبہ و استغفار اور عذر خواھي ھے۔ 180
ايك سچا آدمي اور توبہ كرنے والا چور
”ابو عمر زجاجي “ايك نيك اور صالح انسان تھے، موصوف كھتے ھيں كہ ميري والدہ كا انتقال ھوگيا، ان كي ميراث ميں مجھے ايك مكان ملا، ميں نے اس مكان كو بيچ ديا اور حج كرنے كے لئے روانہ ھوگيا، جس وقت سر زمين ”نينوا“پر پہنچا تو ايك چور سامنے آيا اور مجھ سے كھا: كيا ھے تمھارے پاس؟
چنانچہ ميرے دل ميں يہ خيال پيدا ھوا كہ سچائي اور صداقت ايك پسنديدہ چيزھے، جس كا خداوندعالم نے حكم ديا ھے، اچھا ھے كہ اس چور سے بھي حقيقت اور سچ بات كھوں، چنانچہ ميں نے كھا: ميري تھيلي ميں پچاس دينا ر سے زيادہ نھيں ھے، يہ سن كر اس چور نے كھا: لاؤ وہ تھيلي مجھے دو، ميں نے وہ تھيلي اس كو ديدى، چنانچہ اس چور نے ان دينار كو گنا اور مجھے واپس كردئے، ميں نے اس سے كھا: كيا ھوا؟ اس نے كھا: ميں تمھارے پيسے لے جانا چاھتا تھا، ليكن تم تو مجھے لے چلے، اس كے چھرے پرشرمندگي اور پشيماني كے آثار تھے، معلوم ھورھا تھا كہ اس نے اپنے گزشتہ حالات سے توبہ كرلي ھے، اپنے سواري سے اترا، اور مجھ سے سوار ھونے كے لئے كھا: ميں نے كھا: مجھے سواري كي كوئي ضرورت نھيں ھے، ليكن اس نے اصرار كيا، چنانچہ ميں سوار ھوگيا، وہ پيدل ھي ميرے پيچھے پيچھے چل ديا، ميقات پہنچ كر احرام باندھا، اور مسجد الحرام كي طرف روانہ ھوئے، اس نے حج كے تمام اعمال ميرے ساتھ انجام دئے، اور وھيں پر اس دنيا سے رخصت ھوگيا۔ 181 ابو بصير كا پڑوسى
ايك پڑوسي كو اپنے دوسرے پڑوسي كا خيال ركھنا چاہئے، بالكل ايك مھربان بھائي كي طرح، اس كي پريشانيوں ميں مدد كرے، اس كي مشكلوں كو حل كرے، زمانہ كے حوادث، بگاڑ سدھار ميں اس كا تعاون كرے، ليكن جناب ابوبصير كا پڑوسي اس طرح نھيں تھا، اس كو بني عباس كي حكومت سے بھت سا پيسہ ملتا تھا، اسي طرح اس نے بھت زيادہ دولت حاصل كرلي تھي۔ ابوبصير كھتے ھيں: ھمارے پڑوسي كے يھاں چند ناچنے گانے والي كنيزيں تھى، اور ھميشہ لھو و لعب اور شراب خوري كے محفليں ھوا كرتي تھيں جس ميں اس كے دوسرے دوست بھي شريك ھوا كرتے تھے، ميں چونكہ اھل بيت عليھم السلام كي تعليمات كا تربيت يافتہ تھا، لہٰذا ميں اس كي اس حركت سے پريشان تھا، ميرے ذہن ميں پريشاني رھتي تھى، ميرے لئے سخت ناگوار تھا، ميں نے كئي مرتبہ اس سے نرم لہجہ ميں كھا ليكن اس نے اَن سني كردي اور ميري بات پر كوئي توجہ نہ دى، ليكن ميں نے امر بالمعروف او رنھي عن المنكر ميں كوئي كوتاھي نھيں كى، اچانك ايك دن وہ ميرے پاس آيا اور كھا: ميں شيطان كے جال ميں پھنسا ھوا ھوں، اگر آپ ميري حالت اپنے مولا و آقا حضرت امام صادق عليہ السلام سے بيان كرےں شايد وہ توجہ كريں اور ميرے سلسلہ ميں مسيحائي نظر ڈال كر مجھے اس گندگى، فساد اور بدبختي سے نجات دلائيں۔
ابو بصير كھتے ھيں: ميں نے اس كي باتوں كو سنا، اور قبول كرليا، ايك مدت كے بعد جب ميں مدينہ گيا اور امام صادق عليہ السلام كي خدمت ميں مشرف ھوا اور اس پڑوسي كے حالات امام عليہ السلام كو سنائے اور اس كے سلسلہ ميں اپني پريشاني كو بھي بيان كيا۔ تمام حالات سن كر امام عليہ السلام نے فرمايا: جب تم كوفہ پہنچنا تو وہ شخص تم سے ملنے كے لئے آئے گا، ميري طرف سے اس سے كہنا: اگر اپنے تمام برے كاموں سے كنارہ كشي كرلو، لھو و لعب كو ترك كردو، اور تمام گناھوں كو چھوڑدو تو ميں تمھاري جنت كا ضامن ھوں۔ ابوبصير كھتے ھيں: جب ميں كوفہ واپس آيا تو دوست و احباء ملنے كے لئے آئے، اور وہ شخص بھي آيا، كچھ دير كے بعد جب و ہ جانے لگا تو ميں نے اس سے كھا: ذرا ٹھھرو! مجھے تم سے كچھ گفتگو كرنا ھے، جب سب لوگ چلے گئے، اور اس كے علاوہ كوئي باقي نہ رھا، تو ميں نے حضرت امام صادق عليہ السلام كا پيغام اس كو سنايا، اور مزيد كھا: امام صادق عليہ السلام نے تجھے سلام كھلوايا ھے! چنانچہ اس پڑوسي نے تعجب كے ساتھ سوال كيا: تمھيں خدا كي قسم! كيا واقعاً امام صادق عليہ السلام نے مجھے سلام كھلوايا ھے اور گناھوں سے توبہ كرنے كي صورت ميں وہ ميرے لئے جنت كے ضامن ھيں!! ميں نے قسم كھائي كہ امام عليہ السلام نے يہ پيغام مع سلام تمھارے لئے بھيجا ھے۔ اس نے كھا: يہ ميرے لئے كافى ھے، چند روز كے بعد مجھے پيغام بھجوايا كہ ميں تم سے ملنا چاھتا ھوں، اس كے گھر پر گيا دق الباب كيا، وہ دروازہ كے پيچھے آكر كھڑا ھوگيا درحاليكہ اس كے بدن پر لباس نھيں تھا اور كھا: اے ابوبصير ! ميرے پاس جو كچھ بھي تھا سب كو ان كے مالكوں تك پہنچاديا ھے، مال حرام سے سبكدوش ھوگيا ھوں، اور ميں نے اپنے تمام گناھوں سے توبہ كرلي ھے۔ ميں نے اس كے لئے لباس كا انتظام كيا، اور كبھي كبھي اس سے ملاقات كے لئے جاتا رھا، اور اگر كوئي مشكل ھوتي تھي تواُس كو بھي حل كرتا رھا، چنانچہ ايك روز مجھے پيغام بھجوايا كہ ميں بيمار ھوگيا ھوں، اس كي عيادت كے لئے گيا، چند روز تك بيمار رھا، ايك روز مرنے سے پھلے چند منٹ كے لئے بے ھوش ھوگيا، جيسے ھي ھوش آيا، مسكراتے ھوئے مجھ سے كھا: اے ابوبصير امام صادق عليہ السلام نے اپنے وعدہ كو وفا كرديا، اور يہ كہہ كر اس دنيا سے رخصت ھوگيا۔ ابو بصير كھتے ھيں: ميں اس سال حج كے لئے گيا، اعمال حج بجالانے كے بعد زيارت رسول اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم اور امام صادق عليہ السلام سے ملاقات كے لئے مدينہ منورہ گيا، اور جب امام عليہ السلام سے ملاقات كے لئے مشرف ھوا تو ميرا ايك پاؤں حجرہ كے اندر تھا اور ايك پاؤں حجرہ سے باھر اس وقت حضرت امام صادق عليہ السلام نے فرمايا: اے ابوبصير! ھم نے تمھارے پڑوسي كے بارے ميں كيا ھوا وعدہ پورا كرديا ھے! 182 ايك جيب كترے كي توبہ
حقير (موٴلف) ايك شب قم ميںفقيہ بزرگوار عارف باللہ، معلم اخلاق مرحوم حاج سيد رضا بھاء الديني كي نماز جماعت ميں شريك تھا۔
نماز كے بعد موصوف كي خدمت ميں عرض كيا: ھم آپ ھميں كچھ وعظ و نصيت فرمائےے، چنانچہ موصوف نے جواب ميں فرمايا: ھميشہ خداوندعالم كي ذات پر اميد كرو، اور اسي پر بھروسہ ركھو كيونكہ اس كا فيض و كرم دائمي ھے كسي كو بھي اپني عنايت سے محروم نھيں كرتا، كسي بھي ذريعہ اور بھانہ سے اپنے بندوں كي ہدايت اور امداد كا راستہ فراھم كرديتا ھے۔ اس كے بعد موصوف نے ايك حيرت انگيز واقعہ سنايا: شھر ”اروميہ“ ميں ايك قافلہ سالار ھر سال مومنين كو زيارت كے لئے لے جايا كرتا تھا: اس وقت گاڑياں نئي نئي چليں تھيں، يہ گاڑياں ٹرك كي طرح ھوتي تھيں جس پر مسافر اور سامان ايك ساتھ ھي ھوتا تھا، ايك كونے ميں سامان ركھا جاتا تھا اور وھيں مسافر بيٹھ جايا كرتے تھے۔ وہ قافلہ سالار كھتا ھيں: اس سال حضرت امام رضا عليہ السلام كي زيارت كے لئے جانے والے تقريباً30 مومنين نے نام لكھواركھا تھا، پروگرام طے ھوا كہ آئندہ ہفتہ كے شروع ميں يہ قافلہ روانہ ھوجائے گا۔ ميں نے شب چھار شنبہ حضرت امام رضا عليہ السلام كو خواب ميں ديكھا كہ ايك خاص محبت كے ساتھ مجھ سے فرمارھے ھيں: اس سفر ميں ”ابراھيم جيب كترے “كو بھي لے كر آنا، ميں نيند سے بيدار ھوا تو بھت تعجب ھواكہ كيوں امام عليہ السلام اس مرتبہ اس فاسق و فاجر اور جيب كترے كو (جو لوگوں كے درميان بھت زيادہ بدنام ھے) اپني بارگاہ كي دعوت فرمارھے ھيں، ميں نے سوچا كہ يہ ميرا خواب صحيح نھيں ھے، ليكن دوسري رات ميں نے پھر وھي خواب ديكھا، نہ كم نہ زيادہ، ليكن اس دن بھي ميں نے اس خواب پر توجہ نھيں كى، تيسري رات ميں نے حضرت امام رضا عليہ السلام كو عالم رويا ميں قدرے ناراحت ديكھا اور ايك خاص انداز ميں مجھ سے فرمارھے ھيں: كيوں اس سلسلہ ميں كوئي قدم نھيں اٹھاتے ھو؟ بھر حال ميں جمعہ كے دن اس جگہ گيا جھاں پر فاسد اور گناھگار لوگ جمع ھوتے تھے ان كے درميان ابراھيم كو ڈھونڈا، سلام كيا اور اس سے مشہد مقدس كي زيارت كرنے كے لئے كھا، ليكن جيسے ھي ميں نے مشہد كي زيارت كے لئے كھا تو اس كو بھت تعجب ھوا اور مجھ سے كھا: امام رضا عليہ السلام كا حرم مجھ جيسے گندے لوگوں كي جگہ نھيں ھے، وھاں پر تو پاك وپاكيزہ اور صاحبان دل جاتے ھيں، مجھے اس سفر سے معاف فرمائيں، ميں نے بھت اصرار كيا ليكن وہ نہ مانا، آخر كار اس نے غصہ ميں كھا: ميرے پاس سفر كے اخراجات كے لئے پيسے بھي تو نھيں ھيں!! ميرے پاس يھي 30 ريال ھيں اور يہ بھي ايك بڑھيا كي جيب سے نكالے ھوئے ھيں! يہ سن كر ميں اس سے كھا: اے برادر! ميں تجھ سے سفر كا خرچ نھيں لوں گا، تمھارے آنے جانے كا خرچ ميرے ذمہ ھے۔ يہ سن كر اس نے قبول كرليا، اور مشہد جانے كے لئے تيار ھوگيا، ھم نے بروز اتوار قافلہ كي روانگي كا اعلان كرديا۔ چنانچہ حسب پروگرام قافلہ روانہ ھوگيا، ابراھيم جيسے جيب كترے كے ساتھ ھونے پر دوسرے زائرين تعجب كررھے تھے، ليكن كسي نے اس كے بارے ميں سوال كرنے كي ھمت نہ كي۔ ھماري گاڑي كچي سڑك پر روانہ تھى، اور جب ”زيدر“ نامي مقام پر پہنچي جوايك خطرناك جگہ تھى، اور وھاںاكثر زائرين پر راہزنوں كا حملہ ھوتا تھا، ديكھا كہ راہزنوں نے سڑك كو تنگ كرديا اور ھماري گاڑي كے آگے كھڑے ھوگئے، پھر ايك ڈاكو گاڑي ميں گھس آيا، اور تمام زائرين كو دھمكي دى: جو كچھ بھي كسي كے پاس ھے وہ اس تھيلے ميں ڈال دے، اور كوئي ھم سے الجھنے كي كوشش نہ كرے، ورنہ تو اس كو مار ڈالوں گا! وہ تمام زائرين اور ڈرائيور كے سارے پيسے لے كر چلتا بنا۔ گاڑي دوبارہ چل پڑى، اور ايك چائے كے ھوٹل پر جاركى، زائرين گاڑي سے اترے اورغم و اندوہ كے عالم ميں ايك دوسرے كے پاس بيٹھ گئے، سب سے زيادہ ڈرائيور پريشان تھا، وہ كھتا تھا: ميرے پاس نہ يہ كہ اپنے خرچ كے لئے بھي پيسہ نھيں رھے بلكہ پٹرول كے لئے بھي پيسے نھيں ھيں، اب كس طرح مشہد تك پہنچا جائے گا، يہ كہہ كر وہ رونے لگا، اس حيرت و پريشاني كے عالم ميں اس ابراھيم جيب كترے نے ڈرائيور سے كھا: تمھارے كتنے پيسے وہ ڈاكو لے گيا ھے؟ ڈرائيور نے بتايا اتنے پيسہ ميرے گئے ھيں، ابراھيم نے اس كو اتنے پيسے ديدئے، پھر اسي طرح تمام مسافروں كے جتنے جتنے پيسہ چوري ھوئے تھے سب سے معلوم كركے ان كو ديدئے، آخر ميں اس كے پاس 30 ريال باقي بچے، اور كھا كہ يہ پيسے ميرے ھيں، جو چوري ھوئے تھے، سب نے تعجب سے سوال كيا: يہ سارے پيسے تمھارے پاس كھاں سے آئے؟ اس نے كھا:جس وقت اس ڈاكو نے تم سب لوگوں كے پيسے لے لئے اور مطمئن ھوكر واپس جانے لگا، تو ميں نے آرام سے اس كے پيسے نكال لئے، اور پھر گاڑي چل دى، اور ھم يھاں تك پہنچ گئے ھيں، يہ تمام پيسہ آپ ھي لوگوں كے ھيں۔ قافلہ سالار كھتا ھے:ميں زور زور سے رونے لگا، يہ ديكھ كر ابراھيم نے مجھ سے كھا: تمھارے پيسے تو واپس مل گئے، اب كيوں روتے ھو؟! ميں نے اپنا وہ خواب بيان كيا جو تين دن تك مسلسل ديكھتا رھا تھا او ركھاكہ مجھے خواب كا فلسفہ سمجھ ميں نھيں آرھا تھا، ليكن اب معلوم ھوگيا كہ حضرت امام رضا عليہ السلام كي دعوت كس وجہ سے تھى، امام عليہ السلام نے تيرے ذريعہ سے ھم سے يہ خطرہ ڈال ديا ھے۔ يہ سن كر ابراھيم كي حالت بدل گئى، اس كے اندر ايك عجيب و غريب انقلاب پيدا ھوگيا، وہ زور زور سے رونے لگا، يھاں تك كہ ”سلام“ نامي پھاڑي آگئي كہ جھاں سے حضرت امام رضا عليہ السلام كا روضہ دكھائي ديتا ھے، وھاں پہنچ كر ابراھيم نے كھا: ميري گردن ميں زنجير باندھ دي جائے، اور حرم امام رضا عليہ السلام ميں اسي طرح لے جايا جائے، چنانچہ جيسے جيسے وہ كھتا رھا ھم لوگ انجام ديتے رھے، جب تك ھم لوگ مشہد ميں رھے اس كي يھي حالت رھى، واقعاً عجيب طريقہ سے توبہ كى، اس بڑھيا كے پيسے امام رضا عليہ السلام كي ضريح ميں ڈال دئے، امام رضا عليہ السلام كو شفيع قرار ديا تاكہ اس كے گناہ معاف ھوجائےں، تمام زائرين اس كي حالت پر رشك كررھے تھے، ھمارا سفر بخير و خوشي تمام ھوا، تمام لوگ اروميہ پلٹ گئے ليكن وہ تائب ديا يار ميں رہ گيا! توسّل اور توبہ
امام صادق عليہ السلام فرماتے ھيں: ميں مسجد الحرام ميں ”مقام ابراھيم“ كے پاس بيٹھا ھوا تھا، ايك ايسا بوڑھا شخص آيا جس نے اپني سار ي عمر گناھوں ميں بسر كي تھى، مجھے ديكھتے ھي كہنے لگا:
”نِعْمَ الشْفيعُ اِلي اللّٰہ لِلْمُذْنِبِينَ“۔ ”آپ خدا كے نزديك گناھگاروں كے لئے بھترين شفيع ھيں “۔ اور پھر اس نے خانہ كعبہ كا پردہ پكڑا اور درج ذيل مضمون كے اشعار پڑھے: ”اے خدائے مھربان! چھٹے امام كے جد بزرگوار كا واسطہ، قرآن كا واسطہ، علي كا واسطہ، حسن و حسين كا واسطہ، فاطمہ زھرا كا واسطہ، ائمہ معصومين عليہم السلام كا واسطہ، امام مہدي عليہ السلام كا واسطہ، اپنے گناھگار بندے كے گناھوں كو معاف فرما!“ اس وقت ھاتف غيبي كي آواز آئى: اے پيرمرد! اگرچہ تيرے گناہ عظيم ھيں ليكن ان ذوات مقدسہ كي عظمت كے طفيل ميں جن كي تونے قسم دي ھے، ميں نے تجھے معاف كرديا، اگر تو تمام اھل زمين كے گناھوں كي بخشش كي درخواست كرتا تو معاف كرديتا، سوائے ان لوگوں كے جنھوں نے ناقہ صالح اور انبياء و ائمہ كو قتل كيا ھے۔ 183 شراب خور اور توبہ مرحوم فيض كاشانى، جو خود فيض و دانش كا سر چشمہ اور بصيرت كا مركز تھے موصوف اپني عظيم الشان كتاب ”محجة البيضاء“ ميں نقل كرتے ھيں: ايك شراب خوار شخص تھا جس كے يھاں گناہ و معصيت كي محفل سجائي جاتي تھى، ايك روز اس نے اپنے دوستوں كو شراب خوري اور لھوو لعب كے لئے دعوت دي اور اپنے غلام كو چار درھم دئے تاكہ وہ بازار سے كچھ كھانے پينے كا سامان خريد لائے۔ غلام راستہ ميں چلا جارھا تھا كہ اس نے ديكھا منصور بن عمار كي نششت ھورھي ھے، سوچا كہ ديكھوں منصور بن عمار كيا كہہ رھے ھيں؟ تو اس نے سنا كہ عمار اپنے پاس بيٹھنے والوں سے كچھ طلب كررھے ھيں اور كہہ رھے ھيں كہ كون ھے جو مجھے چار درھم دے تاكہ ميں اس كے لئے چار دعائيں كروں؟ غلام نے سوچا كہ ان معصيت كاروں كےلئے طعام وشراب خريدنے سے بھتر ھے كہ يہ چار درھم منصور بن عمار كو كو ديدوں تاكہ ميرے حق ميں چار دعائيں كرديں۔ يہ سوچ كر اس نے وہ چار درھم منصور كو ديتے ھوئے كھا: ميرے حق ميں چار دعائيں كردو، اس وقت منصور نے سوال كيا كہ تمھاري دعائيں كيا كيا ھيں بيان كرو، اس نے كھا: پھلي دعا يہ كرو كہ خدا مجھے غلامي كي زندگي سے آزاد كردے، دوسري دعا يہ ھے كہ ميرے مالك كو توبہ كي توفيق دے، اور تيسري دعا يہ كہ يہ چار درھم مجھے واپس مل جائيں، اور چوتھي دعا يہ كہ مجھے اور ميرے مالك اور اس كے اھل مجلس كو معاف كردے۔ چنانچہ منصور نے يہ چار دعائيں اس كے حق ميں كيں اور وہ غلام خالي ھاتھ اپنے آقاكے پاس چلا گيا۔ اس كے آقا نے كھا: كھاں تھے؟ غلام نے كھا: ميں نے چار درھم دے كر چار دعائيں خريدي ھيں، تو آقا نے سوال كيا وہ چار دعائيں كيا كيا ھيں كيا بيان تو كر؟ تو غلام نے كھا: پھلي دعا يہ تھي كہ ميں آزاد ھوجاؤں، تو اس كے آقا نے كھا جاؤ تم راہ خدا ميں آزاد ھو، اس نے كھا: دوسري دعا يہ تھي كہ ميرے آقا كو توبہ كي توفيق ھو، اس وقت آقا نے كھا: ميں توبہ كرتا ھوں، اس نے كھا: تيسري دعا يہ كہ ان چار درھم كے بدلے مجھے چار درھم مل جائيں، چنانچہ يہ سن كر اس كے آقا نے چار درھم عنايت كردئے، اس نے كھا: چوتھي دعا يہ كہ خدا مجھے، ميرے مالك او راس كے اھل محفل كو بخش دے، يہ سن كر اس كے آقا نے كھا: جو كچھ ميرے اختيار ميں تھا ميں نے اس كو انجام ديا، تيرى، ميري اور اھل مجلس كي بخشش ميرے ھاتھ ميں نھيں ھے۔چنانچہ اسي رات اس نے خواب ميں ديكھا كہ ھاتف غيبي كي آوازآئي كہ اے ميرے بندے! تو نے اپنے فقر وناداري كے باوجود اپنے وظيفہ پر عمل كيا، كيا ھم اپنے بے انتھا كرم كے باوجود اپنے وظيفہ پر عمل نہ كريں، ھم نے تجھے، تيرے غلام اور تمام اھل مجلس كو بخش ديا۔ 184 آہ، ايك سودمند تائب
ايك ولي خدا كے زمانہ ميں ايك شخص بھت زيادہ گناھگار تھا جس نے اپني تمام زندگي لھو و لعب اور بے ھودہ چيزوں ميں گزاري تھي اور آخرت كے لئے كچھ بھي زادہ راہ جمع نہ كي۔
نيك اور صالح لوگوں نے اس سے دوري اختيار كرلى، اور وہ نيك لوگوں سے كوئي سروكار نہ ركھتاتھا، آخر عمر ميں اس نے جب اپنے كارناموں كو ملاحظہ كيا اور اپني عمر كا ايك جائزہ ليا، اسے اميد كي كرن نہ ملى، باغ عمل ميں كوئي شاخ گل نہ تھى، گلستان اخلاق ميں شفا بخش كوئي پھول نہ تھا، يہ ديكھ كر اس نے ايك ٹھنڈي سانس لي اور دل كے ايك گوشے سے آہ نكل پڑى، اس كي آنكھوں سے آنسو بہنے لگے، توبہ اور استغفار كے عنوان سے بارگاہ خداوندي ميں عرض كيا: ”يامَنْ لَہُ الدُّنْيا وَالآخِرَةُ إِرْحَمْ مَنْ لَيسَ لَہُ الدُّنْيا وَالآخِرَةُ“۔ ”اے وہ جودنيا وآخرت كا مالك ھے، اس شخص كے او پر رحم كر جس كے پاس نہ دنيا ھے او رنہ آخرت“۔ اس كے مرنے كے بعد شھر والوں نے خوشي منائي اور اس كو شھر سے باھر كسي كھنڈر ميں پھينك ديا اور اس كے اوپر گھاس پھوس ڈال دي۔ اسي موقع پر ايك ولي خدا كو عالم خواب ميں حكم ھواكہ اس كو غسل و كفن دو اور متقي افراد كے قبرستان ميں دفن كرو۔ عرض كيا:اے دوجھاں كے مالك! وہ ايك مشھور و معروف گناھگار و بدكار تھا، وہ كس چيز كي وجہ سے تيرے نزديك عزيز اور محبوب بن گيا اور تيرى رحمت و مغفرت كے دائرہ ميں آگيا ھے؟ جواب آيا: اس نے اپنے كو مفلس اور درد مند ديكھا تو ھماري بارگاہ ميں گريہ و زاري كيا، ھم نے اس كو اپني آغوش رحمت ميں لے ليا ھے۔ كون ايسا درد مند ھے جس كے درد كا ھم نے علاج نہ كيا ھو اور كون ايسا حاجت مند ھے جو ھماري بارگاہ ميں روئے اور ھم اس كي حاجت پوري نہ كريں، كون ايسا بيمارھے جس نے ھماري بارگاہ ميں گريہ و زاري كيا ھو اور ھم نے اس كو شفا نہ دي ھو؟ 185 توبہ كے ذريعہ مشكلات كا دور ھونا
”جابر جعفي“ مكتب اھل بيت عليھم السلام كے معتبر ترين راويوں ميں سے تھے، وہ حضرت رسول اكرمسے روايت كرتے ھيں: تين مسافر سفر كرتے ھوئے ايك پھاڑ كي غار ميں پہنچے، وھاں پر عبادت ميں مشغول ھوگئے، اچانك ايك پتھر اوپر سے لڑھك كر غار كے دھانے پر آلگا اسے ديكھ كر ايسا معلوم ھوتا تھا جيسے وہ دروازہ بند كرنے كے لئے ھي بنايا گيا ھو، چنانچہ ان لوگوں كو وھاں سے نكلنے كا كوئي راستہ دكھائي نہ ديا!
پريشان ھوكر يہ لوگ ايك دوسرے سے كہنے لگے: خدا كي قسم يھاں سے نكلنے كا كوئي راستہ نھيں ھے، مگر يہ كہ خدا ھي كوئي لطف و كرم فرمائے، كوئي نيك كام كريں، خلوص كے ساتھ دعا كريں اور اپنے گناھوں سے توبہ كريں۔ ان ميں سے پھلا شخص كھتا ھے: پالنے والے! تو(تو جانتا ھے)كہ ميں ايك خوبصورت عورت كا عاشق ھوگيا تھا بھت زيادہ مال و دولت اس كو ديا تاكہ وہ ميرے ساتھ آجائے، ليكن جونھي اس كے پاس گيا، دوزخ كي ياد آگئي جس كے نتيجہ ميں اس سے الگ ھوگيا؛ پالنے والے ! اسي عمل كا واسطہ ھم سے اس مصيبت كو دور فرما اور ھمارے لئے نجات كا سامان فراھم فرمادے، بس جيسے ھي اس نے يہ كھا تو وہ پتھر تھوڑا سا كھسك گيا ھے ۔ دوسرے نے كھا: پالنے والے! تو جانتا ھے كہ ايك روز ميں كھيتوں ميں كام كرنے كے لئے كچھ مزدور لايا، آدھا درھم ان كي مزدوري معين كى، غروب كے وقت ان ميں سے ايك نے كھا: ميں نے دو مزدورں كے برابر كام كيا ھے لہٰذا مجھے ايك درھم ديجئے، ميں نے نھيں ديا، وہ مجھ سے ناراض ھوكر چلا گيا، ميں نے اس آدھے درھم كا زمين ميں بيج ڈالديا، اور اس سال بھت بركت ھوئي۔ ايك روز وہ مزدور آيا اور اس نے اپني مزدوري كا مطالبہ كيا، تو ميں نے اس كو اٹھارہ ہزار درھم دئے جو ميں نے اس زراعت سے حاصل كئے تھے، اور چند سال تك اس رقم كو ركھے ھوئے تھا، اور يہ كام ميں نے تيرى رضا كے لئے انجام ديا تھا، تجھے اسي كام كا واسطہ ھم كو نجات ديدے۔ چنانچہ وہ پتھر تھوڑا اور كھسك گيا۔ تيسرے نے كھا: پالنے والے! (تو خوب جانتا ھے كہ) ايك روز ميرے ماں باپ سورھے تھے ميں ان كے لئے كسي ظرف ميں دودھ لے كر گيا، ميں نے سوچا كہ اگر يہ دودھ كا ظرف زمين پر ركھ دوں تو كھيں والدين جاگ نہ جائےں، اور ميں نے ان كو خود نھيں اٹھايا بلكہ وہ دودھ كا ظرف لئے كھڑارھا يھاں تك كہ وہ خود سے بيدار ھوں۔پالنے والے توخوب جانتا ھے كہ ميں نے وہ كام اور وہ زحمت صرف تيرى رضا كے لئے اٹھائي تھي، پالنے والے اسي كام كے صدقہ ميں ھميں اس مصيبت سے نجات ديدے۔ چنانچہ اس شخص كي دعا سے پتھر او ركھسكا اور يہ تينوں اس غار سے باھر نكل آئے۔ 186 عجيب اخلاق اور عجيب انجام
دور حاضر كي گرانقدر تفسير”الميزان“كے فارسي مترجم استاد بزرگوار حضرت آقاي سيد محمد باقر موسوي ھمداني صاحب نے16شوال بروز جمعہ 9بجے صبح اس خاكسار سے بيان فرمايا:
”گنداب“ (ھمدان ) علاقہ ميں ايك شرابي اور بدمعاش شخص تھا جس كا نام علي گندابي تھا۔ اگرچہ يہ ديني مسائل پر كوئي توجہ نھيں ركھتا تھا اور ھميشہ بدمعاشوں اور گناھگاروں كے ساتھ رھتا تھا، ليكن بعض اخلاقي چيزيں اس ميں نماياں تھي۔ ايك روز شھر كے بھترين علاقے ميں اپنے ايك دوست كے ساتھ چائے كے ھوٹل ميں بينچ پر چائے پينے كے لئے بيٹھا ھوا تھا۔ اس كے صحت مند جسم اورخوبصورت چھرہ ميں نھايت كشش پائي جاتي تھي۔ مخملي ٹوپي لگائے ھوئے تھا جس سے اس كي خوبصورتي ميں مزيد نكھار آيا ھوا تھا، ليكن اچانك اس نے اپني ٹوپي سر سے اتاري اور پيروں كے نيچے مسلنے لگا، اس كے دوست نے كھا: ارے ! تم يہ كيا كررھے ھو؟ جواب ديا: ذرا ٹھھرو، اتنے بے صبرے مت بنو، بھر حال تھوڑي دير بعد اس نے ٹوپي كو اٹھايا اور پھر اوڑھ لي۔ اور كھا: اے ميرے دوست ابھي ايك شوھر دار جوان عورت يھاں سے گزر رھي تھي اگر مجھے اس ٹوپي كے ساتھ ديكھتي تو شايد يہ سوچنے پر مجبور ھوجاتي كہ يہ شخص تو ميرے شوھر سے بھي زيادہ خوبصورت ھے، اور وہ اپنے شوھر سے خشك رويہ اختيار كرتى، ميں يہ نھيں چاھتا تھا كہ اپني اس چمك دار ٹوپي كي وجہ سے ايك مياں بيوي كے تعلقات كو تلخ كردوں۔ ھمدان ميں ايك مشھور و معروف ذاكر جناب ”شيخ حسن“ بھي تھے جوواقعاً ايك متقي اور ديندار شخصيت تھے، موصوف فرماتے ھيں: حقير عاشور كے دن عصر كے وقت ”حصار“ نامي محلہ ميں مجلس پڑھنے كے لئے گيا ھوا تھا ليكن واپسي ميں دير ھوگئي شھر كے دروازہ پرپہنچا تو دروازہ بند ھوچكا تھا، ميں نے دروزاہ كھٹكھٹايا تو علي گندابي كي آواز سني جو شراب كے نشہ ميں مست تھا اور زور زور كہہ رھا تھا: كون ھے كون ھے؟ ميں نے كھا: ميں شيخ حسن ذاكرحسين عليہ السلام ھوں، چنانچہ اس نے دروازہ كھولا اور چلاكر كھا: اتنے وقت كھاں تھے؟ ميں نے كھا: حصار محلہ ميں امام حسين عليہ السلام كي مجلس پڑھنے كے لئے گيا ھوا تھا، يہ سن كر اس نے كھا: ميرے لئے بھي مجلس پڑھو، ميں نے كھا: مجلس كے لئے منبر اور سننے والے مجمع كي ضرورت ھوتي ھے، اس نے كھا: يھاں پر سب چيزيں موجود ھيں، اس كے بعد وہ شخص سجدہ كي حالت ميں ھوا اور كھا: ميري پيٹھ منبر ھے اور ميں سننے والا ھوں، ميري پيٹھ پر بيٹھ كر قمر بني ھاشم حضرت عباس كے مصائب پڑھو! خوف كي وجہ سے كوئي چارہ كار نہ تھا اس كي پيٹھ پر بيٹھا اور مجلس پڑھنے لگا، چنانچہ اس نے بھت گريہ كيا، اس كا روناديكھ كر ميري بھي عجيب حالت ھوگئى، زندگي بھر ايسي حالت نھيں ھوئي تھى، مجلس ختم ھوتے ھي اس كي مستي بھي ختم ھوگئى، اس كے اندر ايك عجيب و غريب انقلاب پيدا ھوچكا تھا! اس مجلس، گريہ و زاري اور توسل كي بركت سے وہ شخص عتبات عاليہ كي زيارت كے لئے عراق گيا، ائمہ عليھم السلام كي زيارت كي اور اس كے بعد نجف اشرف پہنچا۔ اس زمانہ ميں مرزا شيرازي ( جنھوں نے تنباكو كي حرمت كا فتويٰ صادر كيا تھا) نجف اشرف ميں قيام پذير تھے، علي گندابي مرزا شيرازي كي نماز جماعت ميں شركت كيا كرتا تھااور بالكل انھيں كے پيچھے اپنا مصليٰ پچھايا كرتاتھا، اور مدتوں تك اس عظيم الشان مرجع تقليد كي نماز جماعت ميں شركت كرتا رھا۔ ايك روز نماز مغرب و عشاء كے درميان مرزا شيرازي كو خبر دي گئي كہ فلاں عالم دين كا انتقال ھوگيا، چنانچہ يہ خبر سن كر موصوف نے حكم ديا كہ حرم امام علي عليہ السلام سے متصل دالان ميں ان كو دفن كيا جائے، فوراً ھي ان كے لئے قبر تيار كي گئى، ليكن نماز عشاء كے بعد لوگوں نے آكر مرزا شيرازي كو خبر دى: گويا اس عالم دين كو سكتہ ھواتھا اور اب الحمد للہ ھوش آگيا ھے، ليكن اچانك علي گندابي جانماز پر بيٹھے بيٹھے اس دنيا سے چل بسے، يہ ديكھ كر مرزا شيرازي نے كھا: علي گندابي كو اسي قبر ميں دفن كرديا جائے!(شايد يہ اسي كے لئے يہ قبر بني تھي۔) ايك كفن چور كي توبہ
معاذ بن جبل روتے ھوئے رسول اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كي خدمت ميں حاضر ھوئے اور آنحضرت كو سلام كيا، آپ نے جواب سلام ديتے ھوئے فرمايا: تمھارے رونے كي وجہ كيا ھے؟ تو انھوں نے كھا: ايك خوبصورت جوان مسجد كے پاس كھڑا ھوا اس طرح رورھا ھے جيسے اس كي ماں مرگئي ھو، وہ چاھتا ھے آپ سے ملاقات كرے، چنانچہ يہ سن كر آنحضرت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا: اس كو مسجد ميں بھيج دو، وہ جوان مسجد ميں داخل ھوا اور رسول اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كو سلام كيا، آنحضرت نے جواب سلام ديا اور فرمايا: اے جوان ! رونے كي وجہ كيا ھے؟ اس نے عرض كيا: ميں كيوں نہ روؤں حالانكہ ميں نے ايسے ايسے گناہ انجام دئے ھيں كہ خدا وندعالم ان ميں سے بعض كي وجہ سے مجھے جہنم ميں بھيج سكتا ھے، ميں تو يہ مانتا ھوں كہ مجھے ميرے گناھوں كے بدلے دردناك عذاب ديا جائے اور خداوندعالم مجھے بالكل معاف نھيں كرسكتا۔
پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا: كيا تو نے خدا كے ساتھ شرك كيا ھے؟ اس نے كھا: نھيں، ميں شرك سے پناہ چاھتا ھوں، آنحضرت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا: كيا كسي نفس محترمہ كا قتل كيا ھے؟ اس نے كھا: نھيں، آپ نے فرمايا: خداوندعالم تيرے گناھوں كو بخش دے گا اگرچہ بڑے بڑے پھاڑوں كے برابر ھي كيوں نہ ھو، اس نے كھا: ميرے گناہ بڑے بڑے پھاڑوں سے بھي بڑے ھيں، اس وقت پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا: خداوندعالم تيرے گناھوں كو ضروربخش دے گا چاھے وہ ساتوں زمين، دريا، درخت، ذرات اور زمين ميں دوسري موجوات كے برابر ھي كيوں نہ ھوں، بے شك تيرے گناہ قابل بخشش ھيں اگرچہ آسمان، ستاروں اورعرش و كرسي كے برابر ھي كيوں نہ ھوں! اس نے عرض كيا: ميرے گناہ ان تمام چيزوں سے بھي بڑے ھيں! پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے غيض كے عالم ميںاسے ديكھا اور فرمايا: اے جوان! تيرے اوپر افسوس ھے! كيا تيرے گناہ زيادہ بڑے ھيں يا تيرا خدا؟ يہ سن كر وہ جوان سجدے ميں گرپڑا اور كھا: پاك و پاكيزہ ھے ميرا پروردگار، يا رسول اللہ ! اس سے بزرگتر تو كوئي نھيں ھے، ميرا خدا تو ھر عظيم سے عظيم تر ھے، اس وقت آنحضرت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا: كيا بڑے گناھوں كو خدائے بزرگ كے علاوہ بھي كوئي معاف كرسكتا ھے؟ اس جوان نے كھا: نھيں يا رسول اللہ! قسم بخدا نھيں، اور اس كے بعد وہ خاموش ھوگيا۔ پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے اس سے فرمايا: اے جوان وائے ھو تجھ پر! كيا تو مجھے اپنے گناھوں ميں سے كسي ايك گناہ كو بتاسكتا ھے؟ اس نے كھا: كيوں نھيں، ميں سات سال سے قبروں كو كھول كر مردوں كو باھر نكالتا ھوں اور ان كا كفن چوري كرليتا ھوں! قبيلہ انصار سے ايك لڑكي كا انتقال ھوا، جب لوگ اس كو دفن كركے واپس آگئے، ميں رات ميں گيا، اس كو باھر نكالا، اور اس كا كفن نكال ليا، اس كو برہنہ ھي قبر ميں چھوڑديا، جب ميں واپس لوٹ رھا تھا شيطان نے مجھے ورغلايا، اور اس كے لئے ميري شھوت كو ابھارا، شيطاني وسوسہ نے اس كے بدن اور خوبصورتي نے مجھے اپنے جال ميں پھنسا ليا يھاں تك نفس غالب آگيا اور واپس لوٹا اور جوكام نھيں كرنا چاہئے تھا وہ كربيٹھا!! اس وقت گويا ميں نے ايك آواز سنى: اے جوان! روز قيامت كے مالك كي طرف سے تجھ پر وائے ھو! جس دن تجھے اور مجھے اس كي بارگاہ ميں پيش كيا جائے گا، ھائے تونے مجھے مردوں كے د رميان برہنہ كرديا ھے، مجھے قبر سے نكالا، ميرا كفن لے چلا اور مجھے جنابت كي حالت ميں چھوڑ ديا، ميں اسي حالت ميں روز قيامت محشور كي جاؤں گى، واے ھو تجھ پر آتش جہنم كى! يہ سن كر پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے بلند آواز ميں پكارا: اے فاسق! يھاں سے دور چلاجا، ڈرتا ھوں كہ تيرے عذاب ميں ميں بھي جل جاؤں! تو آتش جہنم سے كتنا نزديك ھے؟! وہ شخص مسجد سے باھر نكلا، كچھ كھانے پينے كا سامان ليا اور شھر سے باھر پھاڑ كي طرف چل ديا، حالانكہ موٹا اور كھردرا كپڑا پہنے ھوئے تھا، اور اپنے دونوں ھاتھوں كو اپني گردن سے باندھے ھوئے تھااور پكارتا جاتا تھا: خداوندا! يہ بھلول تيرا بندہ ھے، ھاتھ بندھے تيرى بارگاہ ميں حاضر ھے۔ پالنے والے! تو مجھے جانتا ھے، ميرے گناھوں كو بھي جانتا ھے، ميں آج تيرے پشيمان بندوں كے قافلہ ميں ھوں، توبہ كے لئے تيرے پيغمبر كے پاس گيا تھا ليكن اس نے بھي مجھے دور كردياھے، پالنے والے تجھے تيرى عزت و جلال اور سلطنت كا واسطہ كہ مجھے نااميد نہ كرنا، اے ميرے مولا و آقا! ميري دعا كو ردّ نہ كرنا اوراپني رحمت سے مايوس نہ كرنا۔ وہ چاليس دن تك دعا و مناجات اورگريہ و زاري كرتا رھا، جنگل كے درندے اور حيوانات اس كے رونے سے روتے تھے! جب چاليس دن ھوگئے تو اپنے دونوں ھاتھوں كو بلند كركے بارگاہ الٰھي ميں عرض كيا: پالنے والے ! اگر ميري دعا قبول اور ميرے گناہ بخش دئے گئے ھوں تو اپنے پيغمبر كو اس كي خبر دےدے، اور اگر ميري دعا قبول نہ ھوئي ھو اور ميرے گناہ بخشے نہ گئے ھوں نيز مجھ پر عذاب كرنے كا ارادہ ھو تو ميرے اوپر آتش نازل فرما تاكہ ميں جل جاؤں يا كسي دوسري عقوبت ميں مبتلا كردے تاكہ ميں ھلاك ھوجاؤں، بھر حال قيامت كي ذلت و رسوائي سے مجھے نجات ديدے۔ چنانچہ اس موقع پر درج ذيل آيات نازل ھوئيں: ((وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً اٴَوْ ظَلَمُوا اٴَنْفُسَھم ذَكَرُوا اللهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِھم وَمَنْ يغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ اللهُ وَلَمْ يصِرُّوا عَلَي مَا فَعَلُوا وَھم يعْلَمُونَ))۔ 187 ”اور يہ وہ لوگ ھيں كہ جب كوئي نماياں گناہ كرتے ھيں يا اپنے نفس پر ظلم كرتے ھيں تو خدا كو ياد كركے اپنے گناھوں پر استغفار كرتے ھيں اور خدا كے علاوہ كون گناھوں كو معاف كرنے والاھے اور وہ اپنے كئے پر جان بوجھ كر اصرار نھيں كرتے “۔ ((اٴُوْلَئِكَ جَزَاؤُھم مَغْفِرَةٌ مِنْ رَبِّھم وَجَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِھا الْاٴَنْھارُ خَالِدِينَ فِيھا وَنِعْمَ اٴَجْرُ الْعَامِلِينَ))۔ 188 ”يھي وہ لوگ ھيں جن كي جزا مغفرت ھے اور وہ جنت ھے جس كے نيچے نھريں جاري ھيں ۔وہ ھميشہ اسي ميں رہنے والے ھيں اور عمل كرنے كي يہ جزا بھترين جزاھے“۔ ان دونوں آيتوں كے نزول كے بعد پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم مسكراتے ھوئے ان دو آيتوں كي تلاوت فرماتے ھوئے باھر تشريف لائے اور فرمايا: كوئي ھے جو مجھے اس توبہ كرنے والے جوان تك پہنچائے؟ معاذ بن جبل كھتے ھيں: يا رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم !ھميں خبر ملي ھے كہ وہ جوان مدينہ سے باھر پھاڑوں ميں چھپا ھوا ھے، رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم اپنے اصحاب كے ساتھ پھاڑ تك گئے ليكن جب وہ نہ ملا تو پھر پھاڑ كي بلندي پر پہنچے تو اس كو دو پتھروں كے درميان ديكھا كہ اپنے دونوں ھاتھ گردن سے باندھے ھوئے ھے، گرمي كي شدت سے اس كے چھرہ كا رنگ سياہ ھوگيا ھے، زيادہ رونے سے اس كي پلكيں گرچكي ھيںاور كھتا جاتا ھے: اے ميرے مولا و آقا! ميري پيدائش اچھي قرار دى، ميراچھرہ خوبصورت بنايا، ميں نھيں جانتا كہ ميرے متعلق تيرا كيا ارادہ ھے، كيا مجھے آتش جہنم ميں جگہ دے گا يا اپنے جوار رحمت ميں جگہ دے گا؟ خدايا ! پروردگار! تو نے مجھ پر بھت احسان كئے ھيں اس ناچيز بندے پر تيرى نعمتيں سايہ فگن ھيں، ميں نھيں جانتا كہ ميرا انجام كيا ھوگا، كيا مجھے بہشت ميں ركھے گا يا آتش جہنم ميں ڈالے گا؟ خدايا ! ميرے گناہ زمين و آسمان، عرش و كرسي سے بڑے ھيں، ميں نھيں جانتا ميرے گناہ كو بخش ديگا، يا روز قيامت مجھے ذليل وخوار كرے گا۔اس كي زبان پر يھي كلمات جاري ھيں، آنكھوں سے آنسو بہہ رھے ھيں، اور اپنے سر پر خاك ڈالتا جاتا ھے، حيوانات اس كے اردگرد جمع ھيں، پرندوں نے اس كے اوپر سايہ كيا ھوا ھے، اور اس كے ساتھ رورھے ھيں۔ آنحضرت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم اس كے نزديك آئے اس كے ھاتھوں كو كھولا، اس كے چھرہ كو صاف كيا اور فرمايا: اے بھلول ! تجھے بشارت ھو كہ خداوندعالم نے تجھے آتش جہنم سے آزاد كرديا ھے، اور اس كے بعد اصحاب كي طرف رخ كيا اور فرمايا: جس طرح بھلول نے گناھوںكي تلافي كي ھے تم بھي اسي طرح اپنے گناھوں كا جبران اور تلافي كرو، اور اس كے بعدان دونوں آيات كي تلاوت كى، اور بھلول كو بہشت كي بشارت دي۔ 189 فضيل عياض كي توبہ
فضيل اگرچہ شروع ميں ايك راہزن تھا اور اپنے ساتھيوں كي مدد سے قافلوں كو روك كر ان كا مال و دولت چھين ليا كرتا تھا، ليكن فضيل كي مروت و ھمت بلند تھى، اگر قافلہ ميں كوئي عورت ھوتي تھي تو اس كا سامان نھيں ليتا تھا، اسي طرح اگر كسي كے پاس كم مال ھوتا تھا اس كو بھي نھيں ليتا تھا، اور جن سے مال و دولت ليتا بھي تھا ان كے پاس كچھ چيزيں چھوڑ ديتا تھا، اسي طرح خدا كي عبادت سے بھي منھ نھيں موڑتا تھا، نماز و روزہ سے غافل نھيں تھا، فضيل كے توبہ كے سلسلہ ميں يوں رقمطرازھے:
فضيل، ايك عورت كا عاشق تھا ليكن اس تك رسائي نہ ھوتي تھى، كبھي كبھي اس عورت كے گھر كے پاس كي ديوار كے پاس جاتا تھا اور اس كي خاطر گريہ و زاري اور نالہ و فرياد كىا كرتا تھا، ايك رات كا واقعہ ھے كہ ايك قافلہ وھاں سے گزرھا تھا اور اس قافلہ ميں ايك شخص قرآن پڑھ رھا تھا چنانچہ اس نے جب يہ آيت پڑھى: ((اٴَلَمْ ياٴْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا اٴَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُھم لِذِكْرِ اللهِ ۔۔۔))۔ 190 ”كيا صاحبان ايمان كے لئے ابھي وہ وقت نھيں آيا ھے كہ ان كے دل ذكر خدا اور اس كي طرف سے نازل ھونے والے حق كے لئے نرم ھو جائيں “۔ فضيل اس آيت كو سن كر ديوار سے گرپڑے اور كھا: پالنے والے! كيوں نھيں وہ وقت آگيا بلكہ اس كا وقت گزر گيا ھے، شرمندہ، پشيمان، حيران و پريشان اور گريہ و زاري كرتے ھوئے ايك ويرانہ كي طرف نكل پڑا، اس ويرانہ ميں ايك قافلہ ركا ھوا تھا، جھاں پر لوگ آپس ميں كہہ رھے تھے : چلو چلتے ھيں، سامان تيار كرو، دوسرا كھتا تھا: ابھي چلنے كا وقت نھيں ھوا ھے، كيونكہ ابھي فضيل راستہ ميں ھوگا، وہ ھمارا راستہ روك كر سارا مال و اسباب چھين لے گا، اس وقت فضيل نے پكارا: اے قافلہ والو! تم لوگوں كو بشارت ھے كہ اس خطرناك چور اور كم بخت راہزن نے توبہ كرلي ھے! غرض اس نے توبہ كي اور توبہ كے بعد ان لوگوں كو تلاش كرنا شروع كيا جن كا مال چھينا يا چوري كيا تھااور ان سے معافي مانگي 191 چنانچہ ايك مدت كے بعد وہ بھت بڑے اور حقيقي عارف بن گئے اور لوگوں كي تعليم و تربيت ميں مشغول ھوگئے جن كے حكمت آميز كلمات اب بھي تاريخ ميں موجود ھيں۔ تين توبہ كرنے والے مسلمان
جس وقت جنگ تبوك كا مسئلہ پيش آيا، پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كے تين صحابي ؛كعب بن مالك، مرارة بن ربيع اور ھلال بن اميہ آنحضرت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كے ساتھ باطل كے خلاف ميدان جنگ ميں جانے كے لئے تيار نہ ھوئے۔
اور اس كي وجہ ان كي سستى، كاھلي اور آرام طلبي كے علاوہ اور كچھ بھي نہ تھى، ليكن جب لشكر اسلام مدينہ سے روانہ ھوگيا تو يہ تينوں پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كے ساتھ نہ جانے كي وجہ سے پشيمان اور شرمندہ ھوئے۔ جس وقت رسول اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم جنگ تبوك سے مدينہ واپس پلٹے، يہ تينوں افراد آنحضرت كي خدمت ميں حاضر ھوئے اور اپني زبان سے عذر خواھي كي اور ندامت كا اظھار كياليكن آنحضرت نے ايك حرف بھي ان سے نہ كھا، اور تمام مسلمانوں كو حكم ديا كہ كوئي بھي ان سے كلام نہ كرے۔ نوبت يھاں تك آئي كہ ان كے اھل و عيال بھي پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كي خدمت ميں آئے اور عرض كىا: يا رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم ! كيا ھم بھي ان لوگوں سے دور ھوجائيں اور ان سے كلام نہ كريں! آنحضرت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے ان كو اجازت نہ دي اور فرماياكہ تم لوگ بھي ان كے قريب مت جاؤ اور نہ ان سے كلام كرو۔ مدينہ شھر ميں ان كے رہنے كے لئے جگہ باقي نہ رھي ھر طرف سے ان كا بائيكاٹ ھونے لگا، يھاں تك كہ ان لوگوں نے اس مشكل سے نجات پانے كے لئے مدينہ كي پھاڑيوں پر پناہ لے لي۔ ان تمام مشكلات كے علاوہ ايك دوسرا جھٹكا يہ لگا جيسا كہ كعب كا بيان ھے:ميں مدينہ كے بازار ميں غم و اندوہ كے عالم ميں بيٹھا ھوا تھا، اسي اثنا ميں ايك عيسائي مجھے تلاش كرتا ھوا ميرے قريب آيا، تو جيسے ھي مجھے پہچانا ”سلطان غسّان“ كا خط مجھے ديا، جس ميں لكھا ھوا تھا: اگر تمھارے پيغمبر نے تمھارا بائيكاٹ كرديا ھے تو تم ھمارے يھاں آجاؤ، كعب كے دل ميں آگ لگ گئي اور كھا: خدايا! نوبت يہ آگئي ھے كہ دشمنان اسلام بھي ميرے بارے ميں سوچنے پر تيار ھيں! بھر حال بعض رشتہ دار ان كے لئے كھانا لے جايا كرتے تھے ليكن كھانا ان كے سامنے ركھ ديا كرتے تھے ليكن ان سے كلام نھيں كرتے تھے۔ توبہ قبول ھونے كا بھت انتظار كيا كہ خداوندعالم كي طرف سے كوئي آيت يا كوئي نشائي آئے تاكہ معلوم ھوجائے كہ ان كي توبہ قبول ھوگئي ھے، چنانچہ ان ميں سے ايك شخص نے كھا: تمام لوگوں نے يھاں تك كہ خود ھمارے گھروالوں نے بھي ھم سے قطع تعلق كرليا ھے آؤ ھم بھي ايك دوسرے سے قطع تعلق كرليں، شايد خداوندعالم كي بارگاہ ميں ھماري توبہ قبول ھوجائے۔ چنانچہ وہ سب ايك دوسرے سے جدا ھوگئے، اور ان ميں سے ھر ايك الگ الگ پھاڑ كے گوشوں ميںچلا گيا، خداكي بارگاہ ميں گريہ و زاري اور نالہ و فرياد كى، اس كي بارگاہ ميں شرمندگي كے ساتھ آنسو بھائے، تواضع و انكساري كے ساتھ سجدہ ميں سر ركھا اور اپنے ٹوٹے ھوئے دلوں سے طلب مغفرت كى، غرض پچاس دن توبہ و استغفار اور گريہ و زاري كے بعد درج ذيل آيہ شريفہ ان كي توبہ قبول ھونے كے لئے بشارت بن كر نازل ھوئى: 192 (( وَعَلَي الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّي إِذَا ضَاقَتْ عَلَيھم الْاٴَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيھم اٴَنفُسُھم وَظَنُّوا اٴَنْ لاَمَلْجَاٴَ مِنْ اللهِ إِلاَّ إِلَيہِ ثُمَّ تَابَ عَلَيھم لِيتُوبُوا إِنَّ اللهَ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ))۔ 193 ”اوراللہ نے ان تينوں پر بھي رحم كيا جو جھاد سے پيچھے رہ گئے يھاں تك كہ زمين جب اپني وسعتوں سميت ان پر تنگ ھو گئي اور ان كے دم پر بن گئي اور انھوں نے يہ سمجھ ليا كہ اب اللہ كے علاوہ كوئي پناہ گاہ نھيں ھے، تو اللہ نے ان كي طرف توجہ فرمائي كہ وہ توبہ كرليں اس لئے كہ وہ بڑا توبہ قبول كرنے والا اور رحم كرنے والا ھے“۔ حر ّ بن يزيد رياحي كي توبہ
حر ّ بن يزيد رياحي پھلے امام حسين عليہ السلام كے ساتھ نہ تھا، ليكن آخر كار امام حسين عليہ السلام كے ساتھ ھوگئے، حر ّايك جوان اور آزاد انسان تھا، اس بے معني جملہ ”المامور معذور “(يعني مامور معذور ھوتا ھے) پر عقيدہ نھيں تھا، ظالم حكمراں كے حكم كي مخالفت كي اور اس سے مقابلہ كے لئے قيام كيا، اور استقامت كي يھاں تك كہ شھادت كے درجہ پر فائز ھوگئے۔
حر ّكا شمار كوفہ ميں لشكر يزيد كے عظيم كے سرداروں ميں ھوتا تھا اور عرب كے مشھور خاندان سے اس كا تعلق تھا، امير كوفہ نے اس كي موقعيت سے فائدہ اٹھايااور حر كو ايك ہزار كے لشكر كا سردار بناديا اور حضرت امام حسين (عليہ السلام) كي طرف روانہ كرديا تاكہ امام كو گرفتار كركے كوفہ لے آئے۔ كھتے ھيں: جس وقت حر كو ّلشكر كي سرداري حكم نامہ ديا گيا اور ابن زياد كے محل سے باھر نكلا، تو اس كو ايك آواز سنائي دى: اے حر ّتيرے لئے جنت كي بشارت ھے، حر نے مڑكر ديكھا تو كوئي نھيں دكھائي ديا، چنانچہ اس نے خود سے كھا: يہ كيسي بشارت ھے؟ جو شخص حسين سے جنگ كے لئے جارھا ھواس كے لئے يہ جنت كي بشارت كيسے؟! حر ّايك مفكر اور دقيق انسان تھا كسي كي اندھي تقليد نھيں كرتا تھا وہ ايسا شخص نہ تھا جو مقام منصب كے لالچ ميں اپنے ايمان كو بيچ ڈالے، بعض لوگ جتنے بلند مقام پر پہنچ جاتے ھيں وہ حاكم كي اطاعت گزاري ميں اپني عقل كو بالائے طاق ركھ ديتے ھيں، اپنے ايمان كو بيچ ڈالتے ھيں، اور صحيح تشخيص نھيں دے پاتے، اوپر والے حاكم جس چيز كو صحيح كھتے ھيں وہ بھي صحيح كہہ ديتے ھيں، اور جس چيز كو بُرا مانتے ھيں، اس كو برا شمار كرنے لگتے ھيں، وہ گمان كرتے ھيں كہ اوپر والے حاكم خطا و غلطي نھيں كرتے، جو كچھ بھي كھتے ھيں صحيح ھوتا ھے، ليكن حر ّايسا نھيں تھا، غور و فكر كرتا تھا اور اندھي تقليد اور بے جا اطاعت نھيں كرتا تھا۔ صبح كے وقت حر ّكي سرداري ميں ايك ہزار كا لشكر كوفہ سے روانہ ھوا، عربستان كے بيابان كا راستہ اختيار كيا ايك گرمي كے عالم ميں روز ظھر كے وقت امام حسين (عليہ السلام) سے ملاقات ھوگئي۔ حر ّ پياسا تھا، اس كا لشكر بھي پياسا تھا، گھوڑے بھي پياسے تھے اس علاقہ ميں كھيں كھيں پاني بھي نھيں ملتا تھا ايسے موقع پر اگر حضرت امام حسين عليہ السلام پاني نہ پلاتے تو وہ اور اس كا لشكر خود بخود مرجاتا، اور بغير جنگ كئے ايك كاميابي حاصل ھوجاتى، ليكن آپ نے ايسا نہ كيا اور دشمن سے دشمني كرنے كے بجائے اس كے ساتھ نيكي كي اور اپنے جوانوں سے فرمايا: حر ّ پياسا ھے كہ اس كو پاني پلاؤ، اس كا لشكر بھي پياسا ھے اس كو بھي پاني پلاؤ اور ان كے گھوڑے بھي پياسے ھيں انھيں بھي سيراب كرو۔ جوانوں نے امام عليہ السلام كي اطاعت كى، حر اوراس كے لشكر يھاں تك كہ ان كے گھوڑوں كوبھي سيراب كيا ۔ ادھر نماز كا وقت ھوگيا موذن نے اذان دى، امام عليہ السلام نے موٴذن سے فرمايا: اقامت كھو، اس نے اقامت كھى، امام حسين عليہ السلام نے حر ّ سے فرمايا:كيا تم اپنے لشكر والوں كے ساتھ نماز ادا كروگے؟ ! حر ّ نے كھا: نھيں، ميں تو آپ كے ساتھ نماز پڑھوں گا! ايك طاقتور سردار كي جانب سے يہ جملہ اس بات كي عكاسي كرتا ھے كہ حر كا اپنے اور اپنے لشكريوں پر كس قدر كنٹرول تھا كہ خود بھي امام حسين عليہ السلام كے سامنے تواضع و انكساري كے ساتھ پيش آئے اور اپنے ساتھيوں كوبھي اس كام پر آمادہ كيا۔ حرّكا يہ ادب، توفيق كي ايك كرن تھي جس كي بنا پر ايك اور توفيق حاصل ھوگى، جس سے نفس پر غلبہ كے لئے روز بروز طاقت حاصل ھوگى، اور اس كو اس قدر طاقتور بنادے گي كہ جس وقت انقلاب آئے تو اور تيس ہزار لشكر كے مقابلہ ميں اپنے فيصلہ پر قائم رھے اور اپنے حيثيت كو باقي ركھے اور اپنے نفس پر غالب ھوجائے۔ گويا حر ّ كے اندر ادب اور طاقت كے دو ايسے پھلو موجود تھے، جو ھر ايك اپني جگہ ان صفات كے حامل كو ان صفات كي دنيا ميں بادشاہ بناديتا ھے، پس جس كے اندر يہ دونوں صفتيں پائي جائيں تو وہ طاقت اور ادب كي دنيا كا مالك بن جاتا ھے۔ حر ّ بن يزيد رياحي كا يہ سب سے پھلا روحاني اور معنوي فيصلہ تھا كہ امام عليہ السلام كے ساتھ نماز جماعت ادا كرے، اور اس سردار كا نماز جماعت ميں شريك ھونا گويا حاكم سے لاپرواھي كا ايك نمونہ تھا۔ ليكن حر ّ كے لشكر كي يہ نماز اھل كوفہ كے تضاد اور ٹكراؤ كي عكاسي كررھي تھي كيونكہ ايك طرف تو امام حسين عليہ السلام كے ساتھ نماز پڑھ رھے ھيں اور امام حسين عليہ السلام كي امامت اور پيشوائي كا اقرار كررھے ھيں، دوسري طرف يزيد كي فرمانبرداري كررھے ھيں اور امام حسين عليہ السلام كے قتل كے درپے ھيں! اھل كوفہ نے نماز عصر امام حسين عليہ السلام كے ساتھ پڑھى، نماز مسلمان ھونے اور پيغمبر اسلام كي پيروي كي نشاني ھے۔ كوفيوں نے نماز پڑھى، كيونكہ مسلمان تھے، كيونكہ پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كے پيروكار تھے، ليكن فرزند رسول، وصي رسول اور رسول اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كي آخري نشاني كو قتل كرديا! يعني كيامطلب؟ كيا يہ تضاد اور ٹكراؤدوسرے لوگوں ميں بھي پايا جاتا ھے؟ نماز عصر كے بعد امام حسين عليہ السلام نے اھل كوفہ كو خطاب كرتے ھوئے اس طرح بيان فرمايا: ”خدا سے ڈرو، اور يہ جان لو كہ حق كدھر ھے تاكہ خدا كي خوشنودي حاصل كرسكو۔ ھم اھل بيت پيغمبر ھيں، حكومت ھمارا حق ھے نہ كہ ظالم و ستمگركا حق، اگر حق نھيں پہچانتے، اور ھميں خطوط لكھ كر اس پر وفا نھيں كرتے تو مجھے تم سے كوئي مطلب نھيں ھے، ميں واپس چلا جاتا ھوں“۔ حر ّ نے كھا: مجھے خطوط كي كوئي خبر نھيں ھے، امام عليہ السلام نے خطوط منگوائے اور حر ّ كے سامنے ركھ دئے، يہ ديكھ كر حر ّ نے كھا: ميں نے كوئي خط نھيں لكھا ھے، ميں يھيں سے آپ كو امير كے پاس لے چلتا ھوں، امام عليہ السلام نے فرمايا: تيرى آرزو كے آگے موت تجھ سے زيادہ نزديك ھے، اس كے بعد اپنے اصحاب كي طرف رخ كركے فرمايا: سوارھوجاؤ، چنانچہ وہ سوار ھوگئے، اور اھل حرم كے سوار ھونے كا انتظار كرنے لگے، سوارے ھونے كے بعد واپس ھوناچاھتے تھے ليكن حر كے لشكر نے راستہ روك ليا ۔ امام حسين عليہ السلام نے حر ّ سے كھا: تيرى ماں تيرى عزا ميں بيٹھے، تو كيا چاھتا ھے؟ حرّ نے كھا: اگر عرب كا كو ئي دوسرا شخص مجھے يہ بات كھتااور آپ جيسي حالت ميں ھوتا تو ميں اس كو كبھي نہ چھوڑتا اور اس كي ماں كو اس كي عزا ميں بٹھاديتا، چاھے جو ھوتا، ليكن خدا كي قسم مجھے يہ حق نھيں ھے كہ آپ كي ماں كا نام (اسي طرح) لوں، مگر يہ كہ نيكي اور احسان سے ۔ ”وَلَكِنْ وَاللّٰہِ مَالِي اِلَي ذِكْرِ اُمِّكَ مُنْ سِبيلٍ اِلاَّ بِاَحْسَنِ مَا يقْدِرُ عَلَيہِ“۔194 اس كے بعد حرنے كھا: مجھے آپ سے جنگ كرنے كا حكم نھيںھے، آپ ايسا راستہ اختيار كرسكتے ھيں كہ نہ مدينہ جاتا ھو اور نہ كوفہ، شايد اس كے بعد كوئي ايسا حكم آئے كہ ميں اس مشكل سے نجات پاجاؤں، اور اس كے بعد قسم كھاكر امام حسين عليہ السلام سے كھا كہ يااباعبد اللہ! اگر جنگ كريں گے تو قتل ھوجائيں گے۔ چنانچہ امام حسين عليہ السلام نے فرمايا: تو مجھے موت سے ڈراتا ھے؟ تمھارا انجام كار يھاں تك پہنچ گيا ھے كہ مجھے قتل كرنے كي فكر ميں ھو! اس كے بعد دونوں لشكر روانہ ھوگئے، راستہ ميں كوفہ سے آنے والے امام حسين عليہ السلام كے مددگار آپہنچے، حرّ نے ان كو گرفتار كركے كوفہ بھيج دينے كا ارادہ كيا، امام حسين عليہ السلام نے روكتے ھوئے فرمايا: ميں ان كا بھي دفاع كروں گا، جس طرح اپني جان كا دفاع كرتا ھوں، يہ سن كر حر ّ نے اپنا حكم واپس لے ليا، اور وہ امام حسين عليہ السلام كے ساتھ ھوگئے۔ آخر كار امام حسين عليہ السلام كو كربلا ميں گھير لائے، يزيد كي فوج دستہ دستہ امام حسين عليہ السلام كے قتل كے لئے كربلا ميں جمع ھونے لگى، اور اس فوج كي تعداد بڑھتي گئى، عمر سعد يزيدي لشكر كا سردار تھا حرّ بھي سپاہ يزيد كے سرداروں ميں سے ايك تھا۔ جس وقت عمر سعد جنگ كے لئے تيار ھوگيا، حر ّ كو اس بات كا يقين نہ تھا كہ پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كے پيروكار، فرزند رسول پر حملہ كرنے كے لئے تيار ھوجائيں گے، چنانچہ حر، عمر سعد كے پاس گيا اور سوال كيا: كيا واقعاً (امام) حسين سے جنگ ھوگى؟ عمر سعد نے كھا: ھاں ھاں! بڑي گھمسان كي جنگ ھوگى، حرّ نے كھا: كيوں (امام) حسين كي پيشكش كو قبول نہ كيا؟ عمر سعد نے كھا: مجھے مكمل اختيار نھيں ھے اگر مجھے اختيار ھوتا تو قبول كرليتا، پورا اختيار امير كے ھاتھوں ميں ھے، ”المامور معذور “! حر ّ نے اپنا ارادہ مضبوط كرلياكہ مجھے امام حسين (عليہ السلام) سے ملحق ھونا ھے، البتہ يزيدي فوج كو اس بات كي خبر نہ ھو، اپنے پاس كھڑے چچازاد بھائي سے كھا: كيا تو نے اپنے گھوڑے كو پاني پلاليا ھے؟ ”قرہ“ نے جواب ديا: نھيں، حرّ نے كھا: كيا اس كو پاني نھيں پلائے گا؟ قرہ نے اس سوال سے كچھ اس طرح اندازہ لگايا كہ حر جنگ نھيں كرنا چاھتا ليكن اپني بات كسي پر ظاھركرنا بھي نھيں چاھتا، شايد كوئي جاكر خبركردے، لہٰذا اس نے اس طرح جواب ديا: ٹھيك ھے ميں گھوڑے كو پاني پلاتا ھوں اور حر سے دور چلاگيا۔ مھاجر، حر ّ كا دوسرا چچا زاد بھائي حر كے پاس آيا اور كھا: كيا ارادہ ھے، كيا حسين پر حملہ كرنا چاھتا ھے؟ حر نے اس كو كوئي جواب نہ ديا، اور اچانك درخت بيد كي طرح لرزنے لگا، جيسے ھي مھاجر نے اس كي يہ حالت ديكھي تو بھت تعجب كيا اور كھا: اے حر تيرے كام انسان كو شك ميں ڈال ديتے ھيں، ميں نے اس سے پھلے تيرى يہ حالت كبھي نھيں ديكھي تھي، اگر كوئي مجھ سے پوچھتا كہ كوفہ ميں سب سے زيادہ شجاع اور بھادر كون شخص ھے؟ تو ميں تيرا نام ليتا، ليكن آج يہ تيرى كيا حالت ھورھي ھے؟ حر ّ نے زبان كھولي او ركھا: ميں دو راہہ پر كھڑا ھوں ميں اپنے كو جنت و دوزخ كے درميان پارھا ھوں، اور پھر كھا: خدا كي قسم، كوئي بھي چيز جنت كے مقابلہ ميں نھيں ھے، ميں جنت كو نھيں كھوسكتا، چاھے ميرے ٹكڑے ٹكڑے كرڈاليں يا مجھے آگ ميں جلاڈاليں، يہ كہہ كر اپنے گھوڑے پر سوار ھوا اور امام حسين عليہ السلام كي طرف روانہ ھوگيا۔ حر كا جنت و دوزخ پر يقين تھا وہ روز قيامت پر ايمان ركھتا تھا، يھي معني ھے روز قيامت پر ايمان ركھنے كے۔ صاحبان دل جانتے ھيں كہ ايك لمحہ كے اندر انسان كے دل ميں كيا كيا محل تيار ھوتے ھيں، باتيں بنانے والے كيا كيا كھتے ھيں اور ايك شجاع انسان كو قطعي فيصلہ لينا ھوتا ھے، اور اسي كے مطابق عمل كرنا ھوتا ھے اور يقينا اس پر تدبير اور ھوشياري سے عمل كرنا ھوتا ھے تاكہ راستہ ميں كوئي ركاوٹ اور مانع پيش نہ آجائے۔ جناب ابراھيم عليہ السلام وہ عظيم الشان سرباز تھے جنھوں نے تنھا دشمن كا مقابلہ كيا ھے اور اس طرح دشمن كے اہداف كو ناكام كيا كہ دشمن ان كي نيت سے آگاہ ھوگيا۔ حر نے بھي اپنے سامنے دونوں راستوں كو واضح پايا اور ان ميں سے ايك كو عملي جامہ پہنانے كے علاوہ كوئي چارہ كار نہ ديكھا، اپنے ارادہ پر ثابت قدم رھے ان كے ارادوں كو فقط پروبال كي ضروت تھي تاكہ شكاريوں كے تير سے بچ كر نكل سكےں۔ حر كے قدم دشمن كے جال سے نكل چكے تھے، وہ دنياداري كو پيچھے چھوڑچكے تھے، مقام ورياست اور جاہ و جلال سب پيچھے رہ گئے تھے اس وقت اگر قدموں ميں تھوڑا سا ثبات موجود ھو تو تمام آفات سے بھي گزر جائيں گے، ان كو ياد آيا كہ اس راستہ ميں كوئي مشكل و آفت بھي نھيں ھے، اگر مجاہد اپنے گھر سے قدم نكالے اور راستہ ميں ھي اس كي موت آجائے اور مقصد تك پہنچنے سے پھلے ھي اس دنيا سے كوچ كرجائے تو بھي خداوندعالم كا لطف و كرم اس كے شامل حال ھوتا ھے، اور خداوندعالم اس كو جنت الفردوس ميں جگہ دےتا ھے۔ حر، جيسا آزاد انسان ان تين مرحلوں سے گزر چكا تھا جو واقعاًجادو تھے۔ 1۔ دشمن كي غلامي اور اس كے نفوذ سے۔ 2۔ دنياوي زرق و برق سے۔ 3۔آفات كے مراحل سے۔ حرّ كے اندر حق و حقيقت سمجھنے كي طاقت اس حد تك تھي كہ اگر اس كو ٹكڑے ٹكڑے بھي كرڈاليں تو بھي راہ حق و حقيقت اور بہشت سے منحرف نھيں كيا جاسكتا۔ ”اوس “نے مھاجرين كو جواب ديتے ھوا كھا: (حر ّ) اپنے كو جنت و جہنم كے درميان ديكھتا ھے، اس وقت جناب حر نے كھا: خدا كي قسم ميں جنت كے مقابلہ ميں كسي بھي چيز كو اختيار نھيں كرسكتا، اور اس راستہ سے نھيں ہٹوں گا چاھے ميرے ٹكڑے ٹكڑے كردئے جائيں، اور چاھے مجھے آگ ميں جلا ديا جائے! اس كے بعد گھوڑے كو ايڑ لگائي اور امام حسين عليہ السلام كي طرف روانہ ھوگيا جيسے ھي نزديك پھونچا اپني سپر كو اُلٹا كرليا، امام حسين عليہ السلام كے ساتھيوں نے كھا: يہ شخص كوئي بھي ھے، امان چاھتا ھے، جو روتا ھوا، گريہ كرتا ھوا اور بے قراري كي صورت ميں آرھا ھے۔ حر ّ، امام حسين عليہ السلام كي طرف روانہ تھے ھاتھ اپنے سر پر ركھے ھوئے كھتے جاتے تھے: پالنے والے! تيرى بارگاہ ميں توبہ كرتے ھوئے حاضر ھورھا ھوں لہٰذا ميري توبہ قبول فرما كيونكہ ميں نے تيرے ا ولياء اور تيرے پيغمبر كي آل كو رنجيدہ خاطر كيا ھے۔ طبري كھتے ھيں: جيسے ھي حر ّ نزديك ھوا، اوراس كو پہچان ليا گيا، اس نے حضرت امام حسين (عليہ السلام) كو سلام كيا، اور عرض كى: اے فرزند رسول! خدا مجھے آپ پر قربان كرے، ميں نے آپ كا راستہ روكا اور آپ كو واپس نہ پلٹنے ديا، اور آپ كے ساتھ ساتھ چلتا رھا، تاكہ آپ كسي محفوظ جگہ ميں پناہ گاہ تلاش نہ كرليں، يھاں تك كہ آپ پر سختي كي اور آپ كو اس كربلا ميں روك ليا، اور يھاں بھي آپ پر سختي كي گئى، ليكن اس خدا كي قسم جس كے علاوہ كوئي خدا نھيں، ميرا يہ گمان نھيں تھا كہ يہ قوم آپ كي باتوں كو نھيں مانے گى، اور آپ سے جنگ كے لئے تيار ھوجائے گي۔ ميںشروع ميں يہ سوچتا تھا كہ كوئي بات نھيں، ان لوگوں كے ساتھ سازش سے كام ليتا رھوں تاكہ كھيں يہ نہ سمجھ ليں كہ وہ ان كا مخالف ھوتا جارھا ھے، ليكن اگر خدا كي قسم مجھے يہ گمان ھوتا كہ يہ لوگ آپ كي باتوں كو قبول نھيں كريں گے، تو ميں آپ كے ساتھ ايسا سلوك نہ كرتا، اب ميں آپ كي خدمت ميں توبہ كرتے ھوئے اور جانثار كرتے ھوئے حاضر ھوں، تاكہ خدا كي بارگاہ ميں توبہ كروں اور اپني جان آپ پر قربان كردوں۔ميں آپ پر قربان ھونا چاھتا ھوں، كيا ميري توبہ قبول ھوسكتي ھے؟ ! اس وقت امام عليہ السلام نے فرمايا: ھاں خداوندعالم توبہ قبول كرنے والا ھے، تيرى توبہ كو قبول كرلے گا اور تجھے بخش دے گا، تيرا نام كياھے؟ اس نے كھا: حر ّ بن يزيد رياحى، امام عليہ السلام نے فرمايا: حر ّ جيسا كہ تمھاري ماں نے تمھارا نام ركھا تم دنيا و آخرت دونوں ميں ھي حر ّ(آزاد) ھو 195 عصر عاشور دوبھائيوں كي توبہ
اسلام ميں توبہ يعني گناھگار كا نادم اور پشيمان ھونا، اپنے كئے ھوئے سے پشيمان ھوكر خدا كي طرف پلٹ جانا، اور يہ راستہ ھميشہ انسان كے لئے كھلا ھوا ھے؛ كيونكہ مكتب الٰھي اميد و رجاء كا دين ھے، مھر و محبت، رحمت كا سرچشمہ اور عشق و وفا كا مركز ھے۔ امام حسين عليہ السلام رحمت پروردگار كا مكمل آئينہ دار ھيںمخلوق پر رحم و كرم، دوست پر رحم و كرم اور دشمن پر (بھي) رحم و كرم، امام حسين كا وجود مھر و محبت كا مجسمہ تھا آپ كي گفتگو محبت تھي رفتار محبت تھى، جس وقت سے يزيدي لشكر آپ كے ساتھ ھوا اسي وقت سے آپ كي كوشش رھي كہ ان كو ہدايت فرمائيں، اور وہ صراط مستقيم كو اپناليں، حتي الامكان آپ نے راہنمائي فرمائي اور ان كے سلسلے ميں خير خواھي سے كام ليتے رھے۔
جنگ سے پھلے كوشش كى، ميدان جنگ ميں كوشش كي اور اپني رفتار و گفتار سے كوشش كى، جس كا نتيجہ يہ ھوا كہ جن لوگوں ميں ہدايت كي صلاحيت تھي ان كو ہدايت كي اور ان كو جہنم سے نكال كر مستحق بہشت كرديا۔ امام حسين عليہ السلام كي آخري دعوت اس وقت تھي جب آپ تن تنھا رہ گئے جس وقت آپ كے تمام اصحاب واعزاء شھيد ھوگئے، اس وقت كوئي نہ تھا، امام عليہ السلام نے استغاثہ بلند كيا اور فرمايا: كيا ھمارا كوئي ناصر و مددگار نھيں ھے؟ كيا كوئي ھے جو پيغمبر كے اھل حرم كا دفاع كرے: ”اَلاَ نَاصِرٌ ينْصُرُنَا؟ اَمَا مِنْ ذَابٍّ يذُبُّ عَنْ حَرَمِ رَسُولَ الله“۔ اس آواز نے سعد بن حرث انصاري اور اس كے بھائي ابو الحتوف بن حرث كو خواب غفلت سے بيدار كرديا، يہ دونوں انصار سے تعلق ركھتے تھے، نيز ان كا تعلق قبيلہ خزرج سے تھے ليكن آل محمد سے كوئي سروكار نہ تھا، دونوں دشمنان علي ميں سے تھے، جنگ نھروان ميں ان كا نعرہ يہ تھا: ”حكومت كا حق صرف خداوندعالم كو ھے، گناھگار كو حكومت كرنے كا كوئي حق نھيں ھے“۔ كيا حسين گناھگار ھيں ليكن يزيد گناھگار نھيں ھے؟ يہ دونوں بھائي عمر سعد كے لشكر ميں (امام ) حسين (عليہ السلام) سے جنگ كرنے اور اور آپ كے قتل كے لئے كوفہ سے كربلا آئے تھے، روز عاشورا جب جنگ كا آغار ھوا تو يہ دونوں يزيد كي فوج ميں تھے، جنگ شروع ھوگئي خون بہنے لگا، ليكن يہ لوگ يزيد كے لشكر ميں تھے، امام حسين عليہ السلام تن تنھا رہ گئے يہ لوگ يزيد كي فوج ميں تھے، ليكن جس وقت امام حسين عليہ السلام نے استغاثہ بلند كيا تو يہ لوگ خواب غفلت سے بيدار ھوگئے، اور خود سے كہنے لگے: حسين فرزند پيغمبر ھيں، ھم روز قيامت ان كے نانے كي شفاعت كے اميدوار ھيں، يہ سوچ كر دونوں يزيد كي فوج سے نكل آئے اور حسيني بن گئے، جيسے امام حسين كے زير سايہ آئے تو يزيدوں پر حملہ كرديا اور ان سے جنگ كى، چند لوگوں كو زخمي كيا اور چند لوگوں كو واصل جہنم كيا يھاں تك كہ خود بھي جام شھادت نوش كرليا۔ 196 علامہ كمرہ اي جن كي طرف سے حقير (موٴلف) صاحب اجازہ بھي ھے اپني عظيم الشان كتاب ”عنصر شجاعت“ ميں فرماتے ھيں: جس وقت بچوں اور اھل حرم نے امام حسين عليہ السلام كي صدائے استغاثہ سنى: ”اَلانَاصِرٌ ينْصُرْنَا۔۔۔؟“۔ تو خيام حسيني سے رونے اور چلانے كي آواز بلند ھوئى، سعد اور اس كے بھائي ابو الحتوف نے جيسے ھي اھل حرم كے نالہ و فرياد كي دل خراش آوزايں سنيں تو ان دونوں نے امام حسين عليہ السلام كا رخ كيا۔ يہ ميدان جنگ ميں تھے اپنے ھاتھوں ميں موجود شمشير سے يزيديوں پر حملہ ور ھوگئے، اور جنگ كرنا شروع كى، امام كي طرف سے تھوڑي دير تك جنگ كي اور بعض لوگوں كوواصل جہنم كيا، آخر كار دونوں شديد زخمي ھوگئے اس كے بعد دونوں ايك ھي جگہ پرشھيد ھوگئے۔ 197 ان دو بھائيوں كے حيرت انگيز واقعہ ميں اميدكي كرن كو ديكھنے كو ملتي ھے، اميد كي كرن نااميدي كو مارے ڈالتي ھے، اور غيب كي تازہ تازہ خبريں ديتي ھے، انبياء كے لئے اچانك بشارتيں لے كر آتي ھے درحقيقت يہ (اميد) انبياء كے لئے نبي ھے۔ اميد كي كرن كے ذريعہ سے انبياء عليھم السلام ھر وقت غيب كي باتوں سے پردہ برداري كے منتظر رھتے تھے، ھر وقت ايك نئي كرن سے نااميد نھيں ھوتے تھے، يھاں تك كہ آخري وقت ميں بھى، گناھگار كي آخري سانس كو مجرم كے ساتھ حساب نھيں كرتے جب تك كہ مجرم مكمل طور پر جرم انجام نہ دے لے، خداوندعالم كي طرف سے ايك نئي عنايت كے منتظر رھتے ھيں، چونكہ خداوندعالم كي مخصوص عنايات سب پر مخفي ھے۔ جناب يعقوب عليہ السلام نے ايك عجيب وغريب فراق كا تحمل كيا، كئي سال گزر گئے يھاں تك كہ آپ كي آنكھيں سفيد ھوگئيں، ليكن جناب يوسف كے بارے ميں كوئي خبر نہ ملى، بھيڑئے كے كھالينے كي خبر سننے كے ساتھ ساتھ اپنے گم شدہ يوسف كي واپسي كے لئے خدا سے اميد لگائے رھے۔ اسي طرح ان دونوں جنگجو (بھائيوں) كے روحي انقلاب كو امام حسين عليہ السلام كي خدمت ميں جاكر جواب ملا كہ خلق خدا كي ہدايت كي اميد صحيح اور بجا تھى، معلوم ھوتا ھے كہ خون كے پياسے دشمنوں كے درميان بھي نور ہدايت چمك سكتا ھے۔ ايك طرف تو ان دو بھائيوں كے انقلاب سے ايك عجيب و غريب اور ناياب اميد كا پيداھونا، دوسري طرف امام حسين عليہ السلام كي بارگاہ سے بھترين لطف و كرم كي اميد، اسلامي مبلغين كے لئے بھترين نمونہ ھيں، پس ان دو نوںبھائيوں كي سرشت اور طبيعت ميں كچھ بھي ھو ليكن يہ لوگ امام حسين عليہ السلام سے بيس سال سے زيادہ چلي آرھي سخت دشمني كے باوجودآخر وقت توبہ كركے امام عليہ السلام كي طرف آگئے او رجناب يوسف عليہ السلام كي طرح تاريكيوں كا پردہ چاك كرتے ھوئے نمودار ھوئے۔ يہ وہ راز ھے جس كو خداوندعالم نے ھر انسان كي فطرت ميں مخفي ركھا ھے، اسي راز كا معلوم نہ ھونا اسلامي مبلغين كو اميدواري اور دلداري ديتا ھوا كھتا ھے: كبھي بھي تبليغ اور تاثير سے مايوس نہ ھونا، انسان كسي بھي وقت ہدايت يافتہ ھوسكتا ھے، كسي بھي موقع پر اس كے دل ميں انقلاب برپا ھوسكتا ھے، اور عالم غيب سے اس كي ہدايت كا راستہ ھموار ھوسكتا ھے۔ حضرت امام حسين عليہ السلام بارگاہ رب العزت ميں ارشاد فرماتے ھيں: ”اِلٰھي اِنَّ اخْتِلاَفَ تَدبِيرك وَسُرْعَةَ طَواءِ مَقَادِيرِكَ مَنَعا عِبَادَكَ العَارِفِينَ بِكَ عَنِ السُّكُونِ اِلٰي عَطَاءٍ، وَالْياْسِ مِنْكَ فِي بَلاَءٍ“۔198 ”پالنے والے! تيرى تدبير ميںاختلاف، تيرى مقدر كردہ چيزوںميں جلدي اور تاخير، تيرے عارف بندوں كو موجودہ عطا پر سكون اور بلاؤں ميں نااميد كرنے سے روك ديتے ھيں“۔ بدن، روح كا ايك سايہ ھے، فكر پر ايك حجاب ھے جس سے اس كے رخسار كو چھپايا ھوا ھے، اسي طرح فكر بھي عقلاني قوت كے لئے ايك حجاب ھے جس نے عقل كو چھپاركھا ھے، اسي طرح عقلاني قوت بھي روح و روان كے لئے ايك حجاب ھے جس نے اس كو چھپا ركھا ھے، ان تمام مخفي چيزوں سے زيادہ مخفي انسان كي ذات ميں ايك راز ھے جس كو روح و روان نے چھپا ركھا ھے، جھاں پر كسي بھي علمي طاقت كي كوئي رسائي نھيں ھے، جس كو كشف كرنے كے لئے كوئي قدرت نھيں ھے، يہ مخفي اور پردہ ميں موجود چيزيں ايك دوسري طاقت كے ذريعہ كشف ھوتي ھيں، پھلي مخفي قدرت ؛فكر ھے جس سے انسان ميں ھوش پيدا ھوتي ھے، ھوشيار افراد پھلے فكر كا مطالعہ كرتے ھيں، پردہ كے پيچھے سے انسان كي شكل اور اس كي فكر كو پڑھتے ھيں۔ عقل جو كہ مخفي ھے اس كو نور فراست اور ايمان (جو خود ايك كشف كي غير معمولي قدرت ھے) كو پھلے كشف كرتي ھے، اس كے بعد نور نبوت جو(انسان كي) تمام قدرتوں سے بالاتر ھے مقام روح و روان كو كشف كرتي ھے ليكن روان كو كوئي بھي كشف نھيں كرسكتا، وھاں پر خداوندعالم كي مخصوص شعائيں ھوتي ھيں، وھاں پر صرف ذات (پروردگار) كا رابطہ ھوتا ھے، خداوندعالم كي كبريائي اور علام الغيوب كے پيش نظرخدا اور اس كي مخلوق ميں كوئي واسطہ نھيں ھے، ھر شخص اپنے پروردگار سے ايك مخصوص رابطہ ركھتا ھے، اور يہ رابطہ كسي پر بھي كشف نھيں ھوتا، جب تك تبليغ واجب ھے اور اس كے بارے ميں حكم موجود ھے اس وقت تك اس كي تاثير كے لئے اميد پائي جاتي ھے۔ ديني رھبروں كو ھر موڑ پر ايك نئي اميد ملتي رھتي ھے وہ عوام الناس كي ہدايت كے لئے مزيد سعي و كوشش كرتے رھتے ھيں انقلاب و ہدايت كے مخفي اسباب كے ساتھ ساتھ خدائي معرفت كے ھمراہ ان كے پاس اميد و انتظار كا حوصلہ ھوتا تھا، خدا كي معرفت جتني زيادہ ھوگي اسي قدر خدا كي ذات سے اميد بھي زيادہ ھوگى، اور جس قدر اميد ھوگي اسي لحاظ سے انساني گھرائي كا مطالعہ كرتے ھيں اور نئي خبروں كے منتظر رھتے ھيں۔ جي ھاں، اے مبلغين اسلام ! آپ حضرات سے اس اميد كي كرن كو كھيں كوئي چھين نہ لے، مختلف مقامات پر پيش آنے والي مشكلات سے مايوس نہ ھونا، آپ حضرات كے حالات پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كے زمانہ سے زيادہ سخت نھيں ھيں۔ كھتے ھيں: شيخ محمد عبد (مشھور عالم اھل سنت) نے ايك مربتہ ايك نشست ميں كھا:” ميں اسلامي امت كي اصلاح سے مايوس ھوچكا ھوں“۔ چنانچہ اسي موقع پر ايك (بيروني) معظمہ نے جواب ديا: اے شيخ ! آپ كي زبان پر ”مايوسي“ كے لفظ سے مجھے بھت تعجب ھے! اس وقت شيخ بھت شرمندہ ھوئے اور فوراً استغفار كيا اور اس خاتون كي بات كو صحيح مان ليا۔ حضرت امام حسين عليہ السلام ميں اپنے نانا كے علاوہ تمام انبياء اور ديني رھبروں سے زيادہ اميدكي روح موجودتھى، آپ بلند ترين امكاني پرواز اور وجود كے عميق ترين اسرار پر نظر ركھتے تھے، اميدكا پيغام حضرت امام حسين عليہ السلام سے ليجئے، كيونكہ امام حسين عليہ السلام كے پيغام سے آپ كو حوصلہ ملے گا۔ اے ھمارے مولا و آقا حسين عليہ السلام ! آپ پر ھماري جانيں قربان، كہ اگر آپ كو ھر ميدا ن ميں پكارا جائے تو بے جا نہ ھوگا، آپ كي ذات سے مبلغين كو درس ملتا ھے، آپ سے تلاش و كو شش كا معيار سيكھا جاتا ھے، ھميں مصر كے شيخ اور اس كے والي سے كوئي سروكار نھيں ھے، آپ نے قرباني اور جانثاري كا درس ديا، صرف اپنوں ھي نے نھيں بلكہ غيروں نے بھي آپ كي ذات گرامي سے يہ درس حاصل كيا ھے، آپ كي زبان سے اسرار الٰھي كو سننا چاہئے، آپ نے انبياء عليہم السلام سے بھي زيادہ صبر و استقامت كا مظاھرہ فرماياھے، آپ كي گلي سے نسيم سحري كے جھونكے آرھے ھيں، يھاں تك كہ خون بھانے والي شمشير بھي آپ سے ہدايت حاصل كرليتي ھے۔ آغاز ميں آپ كا اقدام، اس ميدان جنگ اور عصر عاشور، كوفہ كي طرف آپ كا متوجہ ھونا راستے ميں پيش آنے والے واقعات اور راستہ بھر آپ كا تذكر اور ياد دھاني كرانا: ”اَلاَ مْرُ ينْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَ كُلُّ يوْمٍ ہُوَ فِي شَاْنٍ، فَاِنْ نَزَلَ الْقَضَاءُ فَالْحَمْدُلله، وَاِنْ حَالَ الْقَضَاءُ دُوْنَ الرَّجَاءِ۔۔۔“۔ ان جاھلوں سے آپ كي رفتار و گفتار، برسر پيكار دشمنوں سے محبت بھري گفتگو ان ميں سے ھر ايك ايسا مرحلہ تھا جس ميں اميد كي كرن پھوٹ رھي تھي جس سے دعائے عرفہ كو جلوہ ملتا تھا، جيسے كہ آپ فرماتے ھيں: ”اِلٰھي اِنَّ اخْتِلاَفَ تَدبِيرك وَسُرْعَةَ طَواءِ مَقَادِيرِكَ مَنَعا عِبَادَكَ العَارِفِينَ بِكَ عَنِ السُّكُوْ نِ اِلٰي عَطَاءٍ، وَالْياْسِ مِنْكَ فِي بَلاَءٍ“۔ اور آخري وقت جب آپ اس دنيا سے رخصت ھوئے تو اس اميد كے ساتھ كہ آپ كے ساتھ ميں شھيد ھونے والے اصحاب و انصار كي تربت سے زندہ دل افراد كو ہدايت ملے گي اور آپ كے آپ كے شہداء كي گلي سے گزريں گے تو نسيم حيات سے ان كے روحاني وجود ميں انقلاب پيدا ھوجائے گا، لہٰذا ھماري ذمہ داري ھے كہ وھاں سے زندگي حاصل كركے تبليغ كے لئے اٹھ كھڑے ھوں اور خلق خدا سے منھ نہ موڑ بيٹھيں۔ 199 برادران يوسف كي توبہ
تيسرے سفر ميں جب يعقوب عليہ السلام كے تمام فرزند، جناب يوسف (عليہ السلام) كي خدمت ميں حاضر ھوئے تو عرض كيا:اے بادشاہِ بزرگ! ھمارے سارے علاقے ميں قحط سالي پھيل چكي ھے، ھمارا خاندان سختي كي زندگي گزار رھا ھے، ھماري طاقت جواب دي چكي ھے يہ چند پرانے سكّے ھم اپنے ساتھ لائے ھيں، ليكن ھم جتنا گندم خريدنا چاھتے تھے اس كي قيمت سے كھيں زيادہ كم ھے، تم ھمارے ساتھ نيكي اور احسان كرو، اور ھمارے سكوں كي قيمت سے زيادہ ھميں گندم ديدو، خداوندعالم نيكي اور احسان كرنے والوں كو نيك بدلہ ديتا ھے۔
يہ گفتگو سن كر جناب يوسف عليہ السلام كي حالت بدل گئي اور اپنے بھائيوں اور خاندان كي يہ حالت ديكھي تو بھت پريشان ھوئے، ايك ايسي بات كھي جس سے يوسف كے بھائيوں كو ايك دھچكا لگا، چنانچہ جناب يوسف عليہ السلام نے گفتگو كا آغاز اس طرح كيا: ”كيا تم جانتے ھوں كہ يوسف اور اس كے بھائيوں كے ساتھ تم نے كيا برتاؤ كيا، كيا تمھارا يہ كام كسي جھالت و ناداني كي وجہ سے تھا؟ تمام بھائي يہ سوال سن كر حيران ھوگئے اور سوچنے لگے كہ آخر كار يہ قبطي ذات سے تعلق ركھنے والا بادشاہ يوسف كو كس طرح جانتا ھے، اور ان كے واقعہ سے كيسے باخبر ھوا، اسے برادران يوسف كے بارے ميں كيسے معلوم ھوا اور يہ يوسف كے ساتھ ھوئے برتاؤكو كيسے جانتا ھے، حالانكہ يہ واقعہ كو صرف ان دس بھائيوں كے علاوہ كوئي نھيں جانتا تھا، يہ كيسے اس واقعہ سے آگاہ ھوا؟ يہ لوگ كافى دير تك كچھ جواب نہ دے سكے، اور گزشتہ سفر كے واقعات كو ياد كرنے لگے، عزيز مصر سے سني ھوئي باتيں ان كے دماغ ميں گردش كررھي تھيں كہ اچانك سب نے ايك ساتھ مل كر سوال كيا: كيا آپ ھي يوسف ھيں؟ عزيز مصر نے جواب ديا: ھاں، ميں ھي يوسف ھوں اور يہ ميرا بھائي (يامين) ھے، خدا وندعالم نے ھم پر لطف وكرم كيا كہ ايك مدت كے بعد دو بچھڑے بھائيوں كو ملاديا، جو شخص بھي صبر كرتا ھے اور پرھيزگاري كا راستہ اپناتا ھے تو خدا اس كو نيك جزا سے نوازتا ھے اور اس كو اپني منزل مقصود تك پہنچاديتا ھے۔ ادھر بھائيوں كے دلوں ميں ايك عجيب و غريب خوف و وحشت تھا اور حضرت يوسف كي جانب سے شديد انتقام كو اپنے نظروں كے سامنے مجسم ديكھ رھے تھے۔ جناب يوسف كي بے پناہ قدرت، اور بھائيوں ميں بے انتھا ضعف و كمزورى، جب يہ دوبے انتھا طاقت و كمزوري ايك جگہ جمع ھوجائيں تو كيا كچھ نھيں ھوسكتا؟!! بھائيوں نے ابراھيمي قانون كے مطابق اپنے كو سزا كا مستحق ديكھا، محبت اور عطوفت كي نظر سے اپنے كو يوسف كي سزا كا مستحق مانا، اس وقت ان كي حالت ايسي تھي گويا ان پر آسمان گرنے والا ھو، ان كے بدن لرز رھے تھے، زبان سے قوت گويائي سلب ھوچكي تھى، ليكن انھوں نے كمر ھمت باندھ كر اپني تمام طاقت كو جمع كيا اور اپنا آخري دفاع ان لفظوں ميں كرنے لگے: ”ھم اپنے گناھوں كا اعتراف كرتے ھيں ليكن آپ سے عفو و بخشش كي درخواست كرتے ھيں، بے شك خداوندعالم نے آپ كو ھم پر برتري اور فضيلت دي ھے، ھم لوگ خطاكار ھيں“۔ اور يہ كہہ كر خاموش ھوگئے، ليكن جناب يوسف كي زبان سے بھي ايسے الفاظ جاري ھوئے جس كي انھيں بالكل اميد نہ تھي۔ جناب يوسف عليہ السلام نے كھا: ميں نے تم لوگوں كو معاف كرديا، تمھيں كوئي كچھ نھيں كھے گا، كوئي سزا نھيں ملے گى، ميں كوئي انتقام نھيں لوں گا، اور خداوندعالم بھي تمھارے گناھوں سے درگزر كرے اور تم كو بخش دے ۔ جي ھاں! الٰھي نمائندے اسي طرح ھوتے ھيں، لطف و كرم اور بخشش سے پيش آتے ھيں، انتقام كي آگ ان كے دلوں ميں نھيں ھوتى، كينہ نھيں ھوتا، اپنے دشمن كے لئے بھي خدا سے مغفرت كي درخواست كرتے ھيں، ان كا دل خدا كے بندوں كي نسبت مھر و محبت سے لبريز ھوتا ھے۔ جناب يوسف عليہ السلام نے اپنے بھائيوں كو سزا نہ دينے سے مطمئن كركے فرمايا: اب تم لوگ شھر كنعان كي طرف پلٹ جاؤ اور ميرا پيراہن اپنے ساتھ ليتے جاؤ، اس كو ميرے باپ كے چھرے پر ڈال دينا، جس سے ان كي بينائي پلٹ آئے گى، اور اپنے تمام گھروالوں كو يھاں مصر لے كر چلے آؤ۔ يہ دوسري مرتبہ يوسف كے بھائي آپ كے پيراہن كو باپ كي خدمت ميں لے كر جارھے ھيں، پھلي مرتبہ اسي قميص كو موت كا پيغام بناكر لے گئے تھے، يھي قميص فراق و جدائي كي ايك داستان تھى، اور ايك برے حادثہ كي خبر تھى، ليكن اس مرتبہ يھي قميص حيات كي مژدہ اور ديدار و وصال كي بشارت اور سعادت و خوشبختي كا پيغام ھے۔ پھلي مرتبہ اس كرتے نے باپ كو نابينا بناديا، ليكن اس بار جناب يوسف كے كرتے نے باپ كي آنكھوں كو بينائي عطا كردى، اور خوشي اور مسرت كا پيغام ديا۔ وہ كرتا جھوٹے خون سے رنگين تھا، ليكن يہ كرتاايك زندہ معجزہ ھے، ديكھئے تو سھي كہ جھوٹ اور سچ ميں كس قدر فاصلہ ھے؟! بھر كيف بھائيوں كا قافلہ تيسري مرتبہ مصر سے روانہ ھوا، اور سر زمين كنعان كي طرف چل پڑا۔ ادھر آسماني موبائل اور آسماني بشارت نے اس قافلہ كي خبر جناب يعقوب عليہ السلام تك پہنچادى، چنانچہ جناب يعقوب عليہ السلام نے اپنے پاس بيٹھے ھوئے افراد سے كھا: مجھے يوسف كي خوشبو محسوس ھورھي ھے اور اس كے ديدار كا منتظر ھوں، اگرچہ تم لوگ يقين نھيں كرو گے ۔ حاضرين نے جناب يعقوب كو خطاكار قرار ديتے ھوئے كھا: ابھي تك تم نے يوسف كو نھيں بھلايا، اسي پرانے عشق ميں مبتلا ھو! جناب يعقوب عليہ السلام نے آنكھيں بند كي اور كوئي جواب نہ ديا، كيونكہ مخاطبين كي فكريں ان حقائق كو نھيں سمجھ سكتي تھيں۔ ابھي كچھ ھي دير گزري تھي كہ جناب يعقوب عليہ السلام كي بات سچ ھوگئى، يعني جس قافلے كي بشارت دي تھي وہ كنعان آپہنچا، اور جناب يوسف كے ملنے كي بشارت سنائى، يوسف كے كرتے كو باپ كے چھرہ پر ڈالا ھي تھا كہ جناب يعقوب كي بينائي لوٹ آئى، اس وقت يعقوب عليہ السلام نے اپنے بيٹوں كي طرف رخ كرتے ھوئے فرمايا: كيا ميں نے تم سے نھيں كھا تھا كہ ميں خدا كي طرف سے ايسي چيزوں كے بارے ميں جانتا ھوں جو تم نھيں جانتے، ان خطاكاروں كي سزا كا وقت آپہنچا، كيونكہ بيٹوں كا گناہ ثابت ھوچكا تھا۔ ليكن بيٹوں نے باپ سے عفو و بخشش كي درخواست كى، اور كھا كہ آپ خدا سے بھي ھماري گناھوں كي مغفرت طلب كريں۔ جناب يعقوب عليہ السلام نے ان كي خطا كو بخش ديا اور وعدہ كيا كہ اپنے وعدہ كو وفا كريں گے۔ 200 جي ھاں، فرزندان يعقوب نے خدا كي بارگاہ ميں اپنے گناھوں سے توبہ كي اور اپنے بھائي (يوسف عليہ السلام) اور اپنے باپ سے عذر خواھي كى، جناب يوسف نے بھي ان كو معاف كرديا اور يعقوب عليہ السلام نے بھي بخش ديا، نيز خداوندعالم نے ان پر اپني رحمت و مغفرت كا دروازہ كھول ديا۔ ايك جزيرہ نشين مرد كي توبہ
حضرت امام زين العابدين عليہ السلام سے روايت ھے: ايك شخص اپنے گھر والوں كے ساتھ دريا كا سفر كررھا تھا۔ اتفاق سے كشتي ڈوبنے لگي اور اس شخص كي زوجہ كے علاوہ تمام لوگ دريا ميں ڈوب گئے۔ اور وہ بھي ايسے كہ وہ عورت ايك تختہ پر بيٹھ گئي اور اس دريا كے ايك جزيرہ پر پہنچ گئي۔
اس جزيرہ ميں ايك چور رھتا تھاجس نے حرمت خدا كے تمام پردوں كو چاك كرركھا تھا، ناگاہ اس نے ديكھا كہ وہ عورت اس كے پاس كھڑي ھے، اس نے سوال كيا كہ توانسان ھے يا جن؟ اس نے كھا انسان ھوں۔ چنانچہ وہ چور بغير كچھ بولے ھي اس عورت كي بغل ميںاس طرح آبيٹھا كہ جس طرح مرد اپني زوجہ كے پاس بيٹھتا ھے، اور جب اس نے اس عورت كي عزت پر ھاتھ ڈالنا چاھا تو وہ عورت لرز گئي۔ اس چور نے كھا تو ڈرتي كيوں ھے ؟پريشان كيوں ھوگئى؟ وہ عورت بولي كہ خدا سے ڈرتي ھوں، اس چور نے كھا كہ كبھي اس طرح كا كام انجام ديا ھے ؟ تو اس عورت نے كھا: نھيں، بخدا ھرگز نھيں۔اس شخص نے كھا: تو خدا سے اس قدر خوف زدہ ھے حالانكہ تو نے ايسا كام انجام نھيں دياھے اور ميں جب كہ تم كو اس كام پر مجبور كررھا ھوں، خدا كي قسم، مجھے تو تجھ سے كھيں زيادہ خدا سے ڈرنا چاہئے۔ اس كے بعد وھاں سے اٹھا اور اپنے گھر چلا گيا، اور ھميشہ توبہ و استغفار كي فكر ميں رہنے لگا۔ ايك روز راستہ ميں ايك راھب سے ملاقات ھوئى، دو پھر كا وقت تھا، چنانچہ اس راھب نے اس شخص سے كھا: دعا كرو كہ خدا ھمارے اوپر بادلوں كے ذريعہ سايہ كردے كيونكہ شدت كي گرمي پڑرھي ھے، تو اس جوان نے كھا كہ ميں نے كوئي نيكي نھيں كي ھے اور خدا كي بارگاہ ميں ميري كوئي عزت و آبرو نھيں كہ ميں اس سے اس طرح كا سوال كروں۔ اس وقت راھب نے كھا: تو پھر ميں دعا كرتا ھوں اور تم آمين كہنا۔ اس جوان نے كھا: يہ ٹھيك ھے۔ چنانچہ راھب نے دعا كي اور اس جوان نے آمين كھا، اور ديكھتے ھي ديكھتے بادلوں نے ان دونوں پر سايہ كرديا، دونوں راستہ چلتے رھے يھاں تك كہ ان كا راستہ الگ الگ ھونے لگا، دونوں نے اپنے اپنے راستہ كو اختيار كيا، تو بادل اس جوان كے ساتھ ساتھ چلنے لگے! چنانچہ يہ ديكھ كر اس راھب نے متعجب ھوكر كھا: تو تو مجھ سے بھتر ھے، تيرى ھي وجہ سے دعا قبول ھوئي ھے، نہ كہ ميري وجہ سے، اور اس جوان سے اس كے حالات دريافت كرنے لگا، چنانچہ اس نے اس عورت كا واقعہ بيان كيا۔ تب راھب نے كھا: چونكہ خوف خدا تيرے دل ميں پيدا ھوگيا تھا تو خدا نے تيرے گناہ بخش دئے، لہٰذا آئندہ گناھوں سے پرھيز كرنا۔ 201 اصعمي اور بياباني تائب
اصعمي كھتے ھيں: ميں بصرہ ميں تھا، نماز جمعہ پڑھنے كے بعد شھر سے باھر نكلا، ايك شخص كو ديكھا جو اپنے اونٹ پر بيٹھا ھوا ھے جس كے ھاتھ ميں ايك نيزہ ھے، جيسے ھي مجھے ديكھا تو اس نے كھا: تم كھاں سے آرھے ھو اور تمھارا كس قبيلہ سے تعلق ھے؟ ميں نے كھا: ميرا تعلق قبيلہ ”اصمع “سے ھے، اس نے كھا: تو وھي مشھور اصعمي ھي ھے؟ ميں نے كھا: ھاں، ميں وھي ھوں، اس نے كھا: كھاں سے آرھے ھو؟ ميں نے كھا: خدائے عز و جلّ كے گھر سے، اس نے كھا:
”اَوْلِلّٰہِ بَيتٌ فِي الْاٴَرْضِ؟“۔ ”كيا روئے زمين پر (بھي) خدا كا كوئي گھر ھے؟“ ميں نے كھا: ھاں، خانہ كعبہ اور بيت اللہ الحرام، اس نے كھا: وھاں كيا كررھے تھے؟ ميں نے كھا: كلام خدا كي تلاوت كررھا تھا، اس نے كھا: ”اَوْلِلّٰہِ كَلاٰمٌ؟“ ”كيا خدا كا كوئي كلام (بھي) ھے؟“ ميں نے كھا: ھاں، شيرين كلام، اس نے كھا: مجھے بھي تھوڑ ا بھت كلام خدا سناؤ، ميں نے سورہ ذاريات كي تلاوت شروع كردي يھاں تك كہ اس آيت تك پہنچا: (( وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَ مَا تُوْعَدُوْنَ))۔ 202 ”اور آسمان ميں تمھارا رزق ھے اور جن باتوں كا تم سے وعدہ كيا گيا ھے سب كچھ موجود ھے “۔ اس نے كھا: كيا يہ خدا كا كلام ھے؟ ميں نے كھا: ھاں يہ اسي كا كلام ھے جس كو اس نے اپنے بندہ اور پيغمبر محمد صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم پر نازل كيا ھے، يہ سنتے ھي اس كے بدن ميں جيسے آگ لگ گئي ھو، اس كے اندر ايك سوز پيدا ھوا، ايك شديد درد اس كے اندر پيدا ھوا، اس نے اپني شمشير اور نيزہ پھينك ديا، اپنے اونٹ كو قربان كرديا، اور خالي ھاتھ ھوگيا، ظلم و ستم كا لباس اتارديا اور كھا: ”تريٰ يقبل من لم يخدمہ في شبابہ“۔ ”اے اصعمى! كيا تم گمان كرتے ھوں كہ جس نے جواني ميں خدا كي عبادت اور اس كي اطاعت نہ كي ھو، اس كو بارگاہ الٰھي ميں قبول كرليا جائے؟“ ميں نے كھا: اگر ايسا نہ ھوتا تو پھر اس نے كيوں انبياء كو مبعوث برسالت فرمايا، انبياء كي رسالت كا ہدف ھي يھي ھے كہ بھاگنے والے كو دوبارہ پلٹادےں اور خدا كا غضب، صلح و آشتي ميں بدل جائے۔ اس نے كھا: اے اصعمى ! اس درد مند كے لئے كوئي علاج بتاؤ، اور گناھوں ميں مبتلا ھونے والے كے لئے كوئي مرھم بتاؤ۔ ميں نے اس كے بعد كي آيت كي تلاوت شروع كردى: (( فَوَرَبِّ السَّمَاءِ وَالاٴرْضِ إِنَّہُ لَحَقٌّ مِثْلَ مَااٴَنَّكُمْ تَنْطِقُوْنَ))۔ 203 ”آسمان و زمين كے مالك كي قسم يہ قرآن بالكل برحق ھے جس طرح تم باتيں كررھے ھو“۔ جيسے ھي ميںنے اس آيت كي تلاوت كى، اس نے چند بار اپنے كو زمين پر گرايا، اور نالہ و فرياد كى، ديوانوں كي طرح حيران و سرگردان بيابان كي طرف چل ديا۔ اس كے بعد ميں نے اس كو نھيں ديكھا مگر خانہ كعبہ كے طواف ميں كہ غلاف كعبہ كو پكڑے ھوئے كہہ رھا تھا: ”من مثلي و انت ربّى، من مثلي و انت ربّي“ ”مجھ جيسا كون ھوگا كہ تو ميرا خدا ھے، مجھ جيسا كون ھوگا كہ تو ميرا خدا ھے“۔ ميں نے اس سے كھا: تيرى يہ گفتگو اور تيرى يہ حالت لوگوں كے طواف ميں ركاوٹ بن رھي ھے، چنانچہ اس نے كھا: اے اصعمى! گھر اس كا گھر ھے، اور بندہ اسي كا بندہ ھے، چھوڑئے مجھے اس كے لئے ناز كرنے ديجئے، اس كے بعد اس نے دو شعر پڑھے جن كا مضمون يہ ھے: ”اے شب بيداري كرنے والو! تم لوگ كس قدر نيك ھو، تمھارے اوپر ميرے ماں باپ قربان، كس قدر خوبصورت اور زيبا ھو، اپنے آقا كے دروازے كوكھٹكھٹاتے ھو، واقعاً يہ دروازہ تمھارے لئے كھل جائے گا“۔ اس كے بعد وہ بھيڑ ميں چھپ گيا، اور بھت تلاش كرنے پر بھي نہ ملا، مجھے بھت زيادہ حيرت اور تعجب ھوا، ميري طاقت ختم ھوچكي تھي اور ميں صرف گريہ زاري كرتا رہ گيا۔ 204 صدق اور سچائي توبہ كے باعث بنے
راہزنوں كا ايك گروہ كسي مسافر كي تلاش ميں تھا تاكہ اس كے مال و اسباب لوٹ سكيں، اچانك انھوں نے ايك مسافر كو ديكھا، تو اس كي طرف دوڑے اور كھا: جو كچھ بھي ھے، ھميں ديدے، اس نے كھا: ميرے پاس صرف 80 دينار ھيں جس ميں 40 دينار كا مقروض ھوں، اور باقي ميرے وطن تك پہنچنے كا خرچ ھے۔راہزنوں كے رئيس نے كھا: اس كو چھوڑو، معلوم ھوتا ھے كوئي بد بخت آدمي ھے اس كے پاس زيادہ پيسہ نھيں ھے۔
راہزن مسافروں كي كمين ميں بيٹھے ھوئے تھے، اس مسافر كو جھاں جانا تھا گيا او راپنا قرض ادا كركے واپس آگيا، اس وقت پھر راستہ ميں چور مل گئے، انھوں نے كھا: جو كچھ بھي تيرے پاس ھے وہ سب ديدے ورنہ تجھے قتل كرديں گے، اس نے كھا: ميرے پاس 80دينار تھے جن ميں سے 40دينار قرض دے چكا ھوں اور باقي ميرے خرچ كے لئے ھيں، چوروں كے سردارنے حكم ديا كہ اس كي تلاشي لي جائے، چنانچہ اس كے سامان او ركپڑوں ميں 40 دينار كے علاوہ كچھ نھيں ملا! چوروں كے سردار نے كھا: حقيقت بتاؤ كہ اس خطرناك موقع پر بھي تو نے صدق اور سچائي سے كام ليا اور جھوٹ نہ بولا؟ اس نے كھا: ميں نے بچپن ميں اپني ماں كو وعدہ ديا تھا كہ عمر بھر سچ بولوں گا اور كبھي اپنے دامن كو جھوٹ سے آلودہ نہ كروں گا! چور قہقہہ لگاكر ہنسے لگے، ليكن چوروں كے سردار نے ايك ٹھنڈي سانس لي اور كھا: ھائے افسوس! تو اپني ماں سے كئے ھوئے وعدہ پر پابند ھے اور جھوٹ كا سھارا نہ ليا اور اپنے اس وعدہ پر اس قدر پابند ھے، ليكن ميں خدا كے وعدے پر پابند نہ ھوں جس سے ھم نے وعدہ كيا ھے كہ گناہ نہ كريں گے، اس وقت اس نے ايك چيخ ماري اور كھا: خدايا! اس كے بعد تيرے وعدے پر عمل كروں گا، پالنے والے! ميري توبہ!! ميري توبہ!! ايك عجيب وغريب توبہ
پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كے زمانہ ميں مدينہ منورہ ميں ايك شخص رھتا تھا جس كا ظاھر بھت اچھا اور بھت نيك صورت تھا، جيسے اھل ايمان كے درميان ايك ناياب اور مشھور شخص ھو۔
ليكن وہ شخص بعض اوقات رات ميں چھپ كر لوگوں كے يھاں چوري كرتا تھا۔ ايك رات كا واقعہ ھے كہ چوري كے لئے ايك ديوار پر چڑھ گيا، ديكھا كہ اس گھر ميں بھت زيادہ مال و دولت ھے اور وھاں پر ايك جوان لڑكي كے علاوہ كوئي دوسرا بھي نھيں ھے! اپنے دل ميں كہنے لگا: آج تو مجھے دوھرا خوش ھونا چاہئے، ايك تو يہ سارا قيمتي سامان مجھے مل جائے گا، دوسرے اس لڑكي سے لذت بھي حاصل كروں گا! اسي فكر ميں تھا كہ اچانك غيبي بجلي اس كے دل ميں چمكى، جس سے اس كي فكر روشن ھوگئى، غور و فكر ميں ڈوب گيا اور سوچنے لگا: كيا ان تمام گناھوں كے بعد تجھے موت كا سامنا نھيں كرنا، كيا موت كے بعد خداوندعالم مجھ سے بازپرس نھيں كرے گا، كيا ميں اس روز كے عذاب سے بھاگ سكتا ھوں؟ اس روز اتمام حجت كے بعد خدا كے غيظ و غضب ميں گرفتار ھوں گا ھميشہ كے لئے آتش جہنم ميں جلوں گا، يہ سب باتيں سوچ كر بھت زيادہ پشيمان ھوااور خالي ھاتھ ھي وھاں سے واپس آگيا۔ جيسے ھي صبح ھوئى، اپنے اسي ظاھري چھرہ اور بناوٹي لباس ميںپيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كي خدمت ميں حاضر ھوا، اچانك اس نے ديكھا كہ وھي لڑكي جس كے گھر ميں گزشتہ رات چوري كے لئے گيا تھا؛ پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كي خدمت ميں حاضر ھوئي اور عرض كىا: ميري ابھي تك شادي نھيں ھوئي ھے، ميرے پاس بھت زيادہ مال و دولت ھے، ميرا شادي كرنے كا ارادہ نھيں تھا ليكن رات ميں نے ديكھا كہ ايك چور ميرے گھر ميں آيا اگرچہ وہ كچھ نھيں لے گيا ليكن ميں بھت زيادہ ڈر گئي ھوں، گھر ميں تنھا رہنے كي ھمت نھيں رہ گئي ھے، اگر آپ مناسب سمجھيں تو ميرے لئے كوئي شوھر تلاش كريں۔ آنحضرت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے اس چور كي طرف اشارہ كيا، اگر تو چاھتي ھے تو ابھي اس كے ساتھ تيرا عقد پڑھ دوں، چنانچہ اس نے عرض كيا: ميري طرف سے كوئي مانع نھيں ھے۔ چنانچہ آنحضرت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے اسي وقت ان دونوں كا عقد كرديا، دونوں ايك ساتھ اس كے گھر ميں آگئے، اس نے اپنا واقعہ اس عورت سے بيان كياكہ وہ چور ميں ھي تھا اگر ميں نے چوري كي ھوتي اور تجھ سے ناجائز رابطہ كيا ھوتا، تو ميں چوري كا مرتكب بھي ھوا ھوتا اور زنا كا گناہ بھي كرتا جبكہ يہ وصال ايك رات سے زيادہ نہ ھوتا، اور وہ بھي حرام طريقہ سے، ليكن چونكہ ميں نے خدا اور قيامت كو ياد كرليا اور گناہ كرنے ميں صبر كيا اور خدا كي حرام كردہ چيزوں سے اجتناب كيا، خداوندعالم نے بھي اس طرح مقدر فرمايا كہ اب گھر كے دروازہ سے داخل ھوا ھوں اور ساري عمر تيرى ساتھ زندگي بسر كروں گا۔ 205 بِشر حافي كي توبہ
بِشر ايك عياش طبع اور اھل لھو و لعب افراد ميں سے تھا اكثر اوقات اپنے گھر ميں ناچ گانے اور گناھوں كي محفل سجائے رھتا تھا، ايك روز امام موسيٰ كاظم عليہ السلام اس كے گھر كے پاس سے گزر رھے تھے، اس كے گھر سے ناچ گانے كي آواز بلند تھي۔ امام عليہ السلام نے دروازہ پر كھڑے اس كے نوكر سے فرمايا: اس گھر كا مالك غلام ھے يا آزاد؟ اس نے كھا: آزاد، اس وقت امام عليہ السلام نے فرمايا: ٹھيك كھتے ھو، اگر غلام ھوتا تو اپنے مولا سے ڈرتا۔ يہ سن كر نوكر گھر ميں داخل ھوا، بِشر (جو شراب پينے والا ھي تھا)اس نے دير سے آنے كي وجہ معلوم كى، تو اس نوكر نے كھا: ايك شخص كو گلي ميں ديكھا، جس نے مجھ سے اس طرح سوال كيا، اور ميں نے يہ جواب ديا، چنانچہ امام كاظم عليہ السلام كا جملہ اس پر اس قدر موثر ھوا، كہ خوف و ھراس كے عالم ميں ننگے پاؤں گھر سے باھر نكلا اور امام عليہ السلام كي خدمت ميں حاضر ھوا، اور امام عليہ السلام كي خدمت ميں توبہ كى، بھت زيادہ روتا ھوا اپنے گھر ميں داخل ھوا اور ھميشہ كے لئے گناہ كے دسترخوان كو اٹھا پھينكا، آخر كار زاہدوں اور عرفاء كے دائرہ ميں شامل ھوگيا۔ 206
توبہ كرنے والا اھل بہشت ھے
معاذ بن وھب كھتے ھيں:ايك مرتبہ ميں چند لوگوں كے ساتھ مكہ معظمہ كي طرف روانہ ھوا، ايك بوڑھا شخص بھي ھمارے ساتھ تھا، جو بھت زيادہ عبادتيں كيا كرتا تھا ليكن ھماري طرح اھل بيت (عليھم السلام) كي ولايت اور حضرت امير كو بلا فصل خليفہ نھيں مانتا تھا، اسي وجہ سے اپنے خلفاء كے مذھب كے مطابق سفر ميں (بھي) نماز پوري چار ركعتي پڑھتا تھا۔
اس كا ايك بھتيجہ بھي ھمارے قافلہ ميں تھا، ليكن اس كا عقيدہ ھماري طرح صراط مستقيم پر تھا، وہ بوڑھا شخص راستہ ميں بيمار ھوگيا، اس نے اپنے بھتيجے سے كھا: اگر اپنے چچا كے پاس آتا اور اس كو ”ولايت“ كے سلسلہ ميں بتاتا تو بھتر ھوتا، شايد خداوندعالم اس كو آخري وقت ميں ہدايت فرماديتا اور گمراھي و ضلالت سے نجات عطا كرديتا۔ اھل قافلہ نے كھا: اس كو اپنے حال پر چھوڑ دو، ليكن اس كا بھتيجہ اس كے طرف دوڑا اور كھا: عمّو جان! لوگوں نے سوائے چند افراد كے رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كے بعد حق سے روگراني كى، ليكن حضرت علي عليہ السلام بن ابي طالب رسول اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كي طرح واجب الاطاعت ھيں، پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كے بعد حق علي كے ساتھ ھے، اور آپ كي اطاعت تمام امت پر واجب ھے، اس پير مرد نے ايك چيخ ماري او ركھا: ميں بھي اسي عقيدہ پر ھوں، يہ كہہ كر اس دنيا سے چل بسا۔ ھم لوگ جيسے ھي سفر سے واپس آئے، حضرت امام صادق عليہ السلام كي خدمت ميں مشرف ھوئے، علي بن سري نے اس بوڑھے شخص كا واقعہ بيان كيا، اس وقت امام عليہ السلام نے فرمايا: وہ شخص جنتي ھے، اس نے عرض كيا: وہ شخص آخري لمحات ميں اس عقيدہ پر پہنچا ھے، صرف اسي گھڑي اس كا عقيدہ صحيح ھوا تھا، كيا وہ بھي جنتي اور اھل نجات ھے؟ ! اس وقت امام عليہ السلام نے فرمايا: تم اس سے اور كيا چاھتے ھو، بخدا وہ شخص اھل بہشت ھے۔ 207 ابو لبابہ كي توبہ
جس وقت جنگ خندق تمام ھوگئي پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم مدينہ منورہ تشريف لے گئے، ظھر كے وقت جناب جبرئيل امين نازل ھوئے اور خداوندعالم كي طرف سے بني قريظہ كے يھوديوں كے ساتھ جنگ كرنے كا پيغام سنايا، فوراً ھي رسول اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم جنگ كے لئے مسلح ھوگئے اور مسلمانوں كو حكم ديا: ھميں نماز عصر بني قريظہ نامي علاقہ ميں پڑھنا ھے، آنحضرت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كا حكم نافذ ھوا، اسلامي فوج نے بني قريظہ كا محاصرہ كرليا، جب محاصرہ كے مدت طولاني ھوئى، تو يھوديوں پر زندگي سخت ھوگئى، لہٰذا انھوں نے رسول اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كے پاس پيغام بھجوايا كہ ابولبابہ كو ھمارے پاس بھيج ديں تاكہ اپني حالت كے بارے ميں اس سے مشورہ كريں۔
رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے ابولبابہ سے فرمايا: اپنے ھم پيمانوں كے پاس جاؤ اور ديكھو وہ كيا كھتے ھيں؟ جس وقت ابولبابہ يھوديوں كے قلعہ ميں پہنچے، تو يھوديوں نے اس سے سوال كيا: ھمارے بارے ميں تمھاري كيا رائے ھے؟ كيا ھم ان تمام شرائط كو مانتے ھوئے پيغمبر كے سامنے تسليم ھوجائيں تاكہ وہ جو كچھ ھمارے ساتھ كرنا چاھيں، كرسكيں ؟ انھوںنے جواب ديا: ھاں تم لوگ تسليم ھوجاؤ، اور اس جواب كے ساتھ ابولبابہ نے اپنے ھاتھوں سے گلے كي طرف اشارہ كيا، يعني تسليم ھونے كي صورت ميں فوراً قتل كردئے جاؤگے، ليكن فوراً ھي اپنے كئے سے پشيمان ھوئے اور ايك فرياد بلند كى: آہ ميں نے خدا و رسول كے ساتھ خيانت كرڈالى! كيونكہ مجھے يہ حق نھيں تھا كہ پوشيدہ راز كو بيان كروں۔ قلعہ سے باھر آئے اور سيدھے مدينہ كي طرف روانہ ھوئے، مسجد ميں داخل ھوئے رسّي سے اپني گردن كو ايك ستون سے باندھ ليا، جس ستون كو بعد ميں ”ستون توبہ“ كا نام ديا گيا، او ركھا: ميں اپنے كو نھيں كھولوں گا يھاں تك كہ ميري توبہ قبول ھوجائے، يا ميري موت آجائے، پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم ابولبابہ كي تاخير كي وجہ سے پريشان ھوئے اور ان كے بارے ميں سوال كيا، تو اصحاب نے ابولبابہ كا واقعہ بيان كيا، اس وقت آنحضرت نے فرمايا: اگر ميرے پاس آتا تو ميں خدا سے اس كے لئے طلب مغفرت كرتا ليكن جب وہ خدا كي طرف گيا تو خداوندعالم اس كي نسبت زيادہ حقدار ھے جيسے بھي اس كے بارے ميں فيصلہ كرے۔ ابولبابہ جتنے دن بھي وھاں بندھے رھے دن ميں روزہ ركھتے تھے اور رات كو معمولي كھانا كھاتے تھے، رات كے وقت ان كي بيٹي كھانا لاتي تھي اور وضو كي ضرورت كے وقت اس كو كھول ديتي تھي۔ يھاں تك كہ جناب ام سلمہ كے گھر ايك شب ميں ابولبابہ كي توبہ قبول ھونے كے سلسلہ ميں آيت نازل ھوئى: (( وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِھم خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيئًا عَسَي اللهُ اٴَنْ يتُوبَ عَلَيھم إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ))۔ 208 ” اور دوسرے وہ لوگ جنھوں نے اپنے گناھوں كا اعتراف كيا كہ انھوں نے نيك اور بد اعمال مخلوط كردئے ھيں عنقريب خدا ان كي توبہ قبول كرلے گا كہ وہ بڑا بخشنے والا اور مھربان ھے “۔ پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے امّ سلمہ سے فرمايا: ابولبابہ كي توبہ قبول ھوگئى، ام سلمہ نے كھا: يا رسول اللہ ! كيا آپ مجھے اس بات كي اجازت فرماتے ھيں كہ ابولبابہ كو اس كي توبہ قبول ھونے كے بارے ميں بشارت ديدوں؟ آنحضرت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے اجازت مرحمت فرمائى، جناب امّ سلمہ نے اپنا سر حجرہ سے نكالا اور ابولبابہ كي توبہ قبول ھونے كي بشارت دي۔ ابولبابہ خدا كي اس نعمت پر اس كا شكر كرنے لگے، چند افراد اس كوستون كے كھولنے كے لئے آئے، ليكن ابولبابہ نے ان كو روك ديا اور كھا: خدا كي قسم ميں تم لوگوں سے يہ رسي نھيں كھلواؤں گا مگر يہ كہ رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم خود آكر مجھے آزاد فرمائيں۔ پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم خود تشريف لائے اور فرمايا: تيرى توبہ قبول ھوگئي ھے اب تم اس بچہ كي طرح ھو جو شكم مادر سے ابھي پيدا ھوا ھو، اور اس كي گردن سے وہ رسّي كھول دي۔ ابولبابہ نے كھا: يا رسول اللہ! كيا مجھے اس بات كي اجازت ھے كہ ميں اپنا سارا مال راہ خدا ميں خيرات كردوں؟ آنحضرت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا: نھيں، اس كے بعد انھوں نے اپنے دو تھائي مال كے خيرات كرنے كي اجازت طلب كى، ليكن آنحضرت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے اس كي بھي اجازت نہ دى، انھوں نےآدھا مال خيرات كرنے كي اجازت طلب كي ليكن آنحضرت نے اس كي بھي اجازت نہ دى، آخر كار انھوں نے ايك تھائي مال خيرات كرنے كي اجازت مانگي تو آنحضرت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے اجازت مرحمت فرمادي۔ 209 ايك لوھار كي توبہ
اس عجيب و غريب واقعہ كا راوي كھتا ھے: ميں شھر بصرہ كے لوھاربازار ميں وارد ھوا، ايك لوھار كو ديكھا كہ لوھے كو سرخ كئے ھوئے ھے او راس كو اپنے ھاتھ سے پكڑے ھوئے ھے، اوراس كا شاگرد اس پر ھتوڑا ماررھا ھے۔
مجھے بھت تعجب ھوا كہ سرخ لوھا اس كے ھاتھ كو نھيں جلارھا ھے؟ اس لوھار سے اس چيز كا سبب معلوم كيا، اس نے بتايا: ايك سال بصرہ ميں شديد قحط پڑا، يھاں تك كہ لوگ بھوكے مرنے لگے، ايك روز ميري پڑوسن جو جوان تھي ميرے پاس آئي او ركھا:ميرے بچے بھوك سے مرے جارھے ھيں، ميري مدد كر، جيسے ھي ميں نے اس كے جمال اور خوبصورتي كو ديكھا تو اس كا عاشق ھوگيا، ميں نے اس كے سامنے ناجائز پيشكش ركھى، وہ عورت شرماكر جلدي سے ميري گھر سے نكل گئي۔ چند روز كے بعد وہ عورت دوبارہ آئي اور كھا: اے مرد! ميرے يتيم بچوں كي جان خطرے ميں ھے، خدا سے ڈر اور ميري مدد كردے، ميں نے د وبارہ پھر اپني خواہش كي تكرار كي اس مرتبہ بھي وہ عورت شرمندہ ھوكر ميرے گھر سے نكل گئي۔ دو دن بعد پھر ميرے پاس آئي اور كھا: اپنے يتيم بچوں كي جان بچانے كے لئے ميں تسليم ھوں، ليكن مجھے ايسي جگہ لے چل جھاں تيرے اور ميرے علاوہ كوئي نہ ھو، چنانچہ ميں اس كو ايك مخفي جگہ لے كر گيا، جيسے ھي اس كے نزديك ھونا چاھتا تھا وہ لرز اٹھى، ميں نے كھا: تجھے كيا ھوگيا ھے؟ اس نے كھا: تو نے ايسي جگہ لانے كا وعدہ كيا تھا جھاں كوئي د يكھنے والا نہ ھو، ليكن يھاں تو اس ناجائز كام كوپانچ ديكھنے والے ديكھ رھے ھيں، ميں نے كھا: اے عورت! اس گھر ميں كوئي نھيں ھے، تو پانچ افراد كي بات كررھي ھے، اس نے كھا: دو فرشتے ميرے موكل اور دو فرشتے تيرے موكل اور ان چار فرشتوں كے علاوہ خداوندمتعال ميں ھمارے اس كام كو ديكھ رھا، ميں كس طرح ان كے سامنے اس بُرے كام كا ارتكاب كروں؟!! اس عورت كي باتوں نے مجھ پر اتنا اثر كيا كہ ميرا بدن لرز اٹھا، اس شرمناك كام سے اپنے كو آلودہ ھونے سے بچاليا، اس كو چھوڑ ديا اور اس كي مدد كى، يھاں تك قحط كے خاتمہ تك اس كي اور اس كے يتيم بچوں كي جان بچالى، اس نے بھي ميرے حق ميں اس طرح دعا كى: پالنے والے! جيسے اس مرد نے اپني شھوت كي آگ كو خاموش كرديا تو بھي اس پر دنيا و آخرت كي آگ كو خاموش كردے۔ چنانچہ اسي عورت كي دعا ھے كہ دنيا كي آگ مجھے نھيں جلاتي ۔ 210 قوم يونس كي توبہ
سعيد بن جبيراور ديگر مفسرين نے قوم يونس كے واقعہ كو اس طرح بيان كيا ھے:
قوم يونس نينوا او رموصل كے علاقہ ميں زندگي بسر كيا كرتي تھي۔اور اپنے نبي جناب يونس كي دعوت كو قبول نھيں كيا تھا، چنانچہ حضرت يونس انھيں 33 سال تك خدا پرستي اور گناھوں سے دوري كا دعوت ديتے رھے ليكن دو افراد كے علاوہ كوئي ايمان نہ لايا، ان ايمان لانے والوں ميںايك كا نام ”روبيل“ اور دوسرے كا نام ”تنوخا“ تھا۔ روبيل ايك صاحب علم و حكمت گھرانہ سے تعلق ركھتا تھا اور اس كي جناب يونس سے دوستي تھى، تنوخا ايك عابد و زاہد شخص تھا، جو جنگل سے لكڑياں جمع كركے ان كو فروخت كيا كرتا تھا۔ بھر كيف جب جناب يونس قوم كي ہدايت سے مايوس ھوگئے، تو خداوندعالم كي بارگاہ ميں اس قوم كي شكايت كي اور عرض كىا: پالنے والے! 33 سال سے اس قوم كو توحيد و عبادت او رگناھوں سے دوري كي دعوت دے رھا ھوں اور تيرے عذاب سے ڈرا رھا ھوں، ليكن يہ سركشي پر تلے ھوئي ھے اور مجھے جھٹلارھي ھے، يہ لوگ مجھے ذلت كے ساتھ ديكھتے ھيںاور مجھے قتل كي دھمكي ديتے ھيں۔ خداوندا! ان پر عذاب نازل كردے، اب يہ لوگ ہدايت كے قابل نھيں ھيں۔ آواز آئى: اے يونس! اس قوم كے درميان كچھ جاھل لوگ ھيں، كچھ بچے شكم مادر ميں اور كچھ آغوش مادر ميں ھيں، ان ميں بعض بھت بوڑھے اور كمزور عورتيں ھيں، ميں خدائے حكيم اور عادل ھوں، ميري رحمت ميرے غضب سے زيادہ ھے، ميں نھيں چاھتا كہ گناھگاروں كے ساتھ ميں بے گناھوں پر بھي عذاب كروں، ميں ان كے ساتھ دوستي اور مھرباني كا سلوك كرنا چاھتا ھوں، اور ان كي توبہ و استغفار كا منتظر ھوں، ميں نے تمھيں ان كے درميان اس لئے بھيجا ھے كہ تم ان كي حفاظت كرواور ان كے ساتھ رحمت و مھرباني كے ساتھ پيش آؤ، اور عظيم الشان مقام نبوت كے ذريعہ ان كے سلسلہ ميں صبر سے كام لو، اور ايك ماھر طبيب كي طرح ان كي بيماري كے علاج ميں لگ جاؤ، ان كے گناھوں كا علاج مھرباني سے كرو! صبر و حوصلہ كي كمي سے آپ ان كے لئے عذاب كي درخواست كرتے ھيں، آپ سے پھلے نوح بھي ميرے پيغمبر تھے جن كا صبر تم سے زيادہ تھا انھوں نے اپني قوم كے ساتھ تم سے بھتر سلوك كيا، حضرت نوح نے اپني قوم كے ساتھ دوستي اور مدارا سے كام ليا، 950 سال كے بعد مجھ سے عذاب كي درخواست كى، تب ميں نے ان كي درخواست كو قبول كيا۔ جناب يونس عليہ السلام نے عرض كيا: پالنے والے! ميں تيرى وجہ سے ان پر غضبناك ھوں، كيونكہ ان كو جتنا تيرى اطاعت كي دعوت كي اس سے زيادہ انھوں نے گناھوں پر اصرار كيا، تيرى عزت كي قسم! ان كے ساتھ (اب) نرم رويہ اختيار نھيں كروں گا اور خير خواھي كي نگاہ سے نھيں ديكھوں گا، ان كے كفر اور تكذيب كے بعد ان پر عذاب نازل فرمادے، كيونكہ يہ لوگ ھرگز ايمان لانے والے نھيں ھيں۔ چنانچہ جناب يونس كي دعوت بارگاہ الٰھي ميں قبول ھوئى، خطاب آيا: نصف شوال بروز چھار شنبہ طلوع آفتاب كے وقت ان پر عذاب نازل كروں گا، ان كو خبر كرديں۔ نصف شوال كے چھار شنبہ سے پھلے ھي جناب يونس شھر سے كوچ كرگئے، ليكن ”روبيل“ چونكہ عالم و حكيم تھے، ايك بلندي پر گئے، او ربلند آواز سے كہنے لگے: اے لوگو! ميں روبيل ھوں اور تمھاري بھلائي چاھتا ھوں، يہ ماہ شوال ھے جس ميں تمھيں عذاب كا وعدہ ديا گيا ھے تم لوگوں نے پيغمبر خدا كو جھٹلايا ھے ليكن تمھيں معلوم ھونا چاہئے كہ پيغمبر خدا نے سچ كھا ھے، خدا كا وعدہ كبھي جھوٹا نھيں ھوتا، اب ديكھو كيا ھوتا ھے۔ يہ سن كر لوگوں نے ان سے كھا: ھميںكوئي چارہ كار بتاؤ كيونكہ تم صاحب علم و حكمت ھو اور ھم پر مھربان اور دلسوز ھو۔ انھوں نے كھا:ميرے لحاظ سے عذاب الٰھي كے وقت سے پھلے تم لوگ شھر سے باھر نكل جاؤ، بچوں كو ان كي ماؤں سے الگ كردو، سب خدا كي بارگاہ ميں حاضر ھوجاؤ اور گريہ و زاري كرو اور اس كي بارگاہ ميں تضرع و زاري كرواور خلوص كے ساتھ توبہ كرلو اور كھو: ”خداوندا! ھم نے اپنے اوپر ظلم كيا ھے تيرے پيغمبر كو جھٹلايا ھے، ليكن (اب )ھم توبہ كرتے ھيںلہٰذا تو ھمارے گناھوں كو بخش دے، اگر تو نے ھميں معاف نہ كيا اور ھم پر رحم نہ كيا تو ھم خسارہ اٹھانے والوں ميں ھوجائيں گے، پالنے والے ! ھماري توبہ قبول فرما، ھم پر رحم كر، خدايا! تيرا رحم سب سے زيادہ ھے“۔قوم نے ان كي بات مان لى، اور اس معنوي و روحاني منصوبہ كے لئے تيار ھوگئے، بدھ كا روز آگيا، روبيل ان سے دور ھوگئے اور ايك گوشہ ميں چلے گئے تاكہ ان كي گريہ و زاري اور ان كي توبہ كو ديكھيں۔ چھار شنبہ كا سورج نكلا، شھر ميں خطرناك اور ھولناك زرد ھوائےںچلنے لگيںجس سے خوف و وحشت پھيل گئى، بيابان ميں زن و مرد، پير و جوان غني اور ضعيف غرض سب لوگوں كي آوازيں بلند ھونے لگيں، اور سب دل كي گھرائي سے توبہ كرنے لگے اور خداوندعالم سے طلب مغفرت ميں مشغول ھوگئے، بچے ماؤں كي فلك شگاف گريہ كي صدائيں سن كر رونے لگے، مائيں بچوں كے رونے كي وجہ سے فرياديں كرنے لگيں۔ اس وقت ان كي توبہ بارگاہ الٰھي ميں قبول ھوئى، ان سے عذاب ٹل گيا اور قوم ہنسي خوشي اپنے گھروں ميں واپس آگئي۔ 211 ايك جوان اسير كي توبہ
شيخ صدوق عليہ الرحمہ حضرت امام صادق عليہ السلام سے روايت كرتے ھيں: ايك مرتبہ اسيروں كي ايك تعداد كو پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كي خدمت ميں لايا گيا، آنحضرت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے ان ميں سے ايك شخص كے علاوہ تمام لوگوں كے قتل كا حكم صادر فرماديا۔اس اسير نے كھا: ان تمام اسيروں كے درميان صرف مجھے كيوں چھوڑ ركھا ھے؟ حضرت نے فرمايا:
خداوندعالم كي طرف سے مجھے جبرئيل نے بتايا ھے كہ تو پانچ خصلتوں كا مالك ھے، جن كو خدا و رسول دوست ركھتے ھيں: تو اھل خانہ كا بھت زيادہ خيال ركھتا ھے، سخاوت اور حسن خلق سے كام ليتا ھے، سچ بولتا ھے اور تيرے اندر شجاعت او ردليري پائي جاتي ھے۔ جيسے ھي اس جوان نے ان باتوں كو سنا تو فوراً مسلمان ھوگيا، اس كے بعد رسول اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كے ساتھ جنگ ميں شريك ھوا، اور بھترين جنگ كے كرنے كے بعد شھيد ھوگيا۔ 212 ستمكار حكومت ميں ايك ملازم شخص كي توبہ
عبد اللہ بن حمّاد، علي بن ابي حمزہ سے نقل كرتے ھيں: ميرا ايك دوست بني اميہ كي حكومت ميں نوكري كرتا تھا، اس نے مجھ سے كھا: حضرت امام صادق عليہ السلام سے ميرے لئے اجازت لے لو تاكہ ميں حضرت كي خدمت ميں حاضر ھوسكوں، ميں نے امام عليہ السلام سے اجازت لى، امام نے اجازت دى، چنانچہ وہ امام عليہ السلام كي خدمت ميں حاضر ھوا، سلام كيا اور بيٹھتے ھوئے كھا: ميں آپ پر قربان، ميں بني اميہ كي حكومت ميں ملازم ھوں، ميں نے بھت زيادہ مال و ثروت جمع كيا ھے، اور مال جمع كرنے ميں شرعي قوانين كي مطلقاً رعايت نھيں كي ھے۔
امام صادق عليہ السلام نے فرمايا: اگر بني اميہ كو كوئي كاتب نہ ملتا اور مال غنيمت حاصل نہ ھوتا، اور ايك گروہ ان كي حمايت ميں جنگ نہ كرتا تويہ ميرے حق كو نھيں لے سكتے تھے، اگر لوگ ان كو چھوڑ ديتے اور ان كي تقويت نہ كرتے تو كيا وہ كچھ كرسكتے تھے؟ يہ سن كر اس جوان نے امام عليہ السلام كي خدمت ميں عرض كيا: آيا ميں اس عظيم بلاء سے نجات حاصل كرسكتا ھوں؟ اس وقت امام عليہ السلام نے فرمايا: كيا ميرے كہنے پر عمل كروگے؟ اس نے كھا: جي ھاں! امام عليہ السلام نے فرمايا: بني اميہ كي اس ملازمت سے جتنا مال حاصل كيا ھے اگر ان كے مالكوں كو جانتے ھو؟ تو انھيں ديدو او راگر نھيں جانتے تو ان كي طرف سے صدقہ ديدو، ميں خدا كي طرف سے جنت كي ضمانت ديتا ھوں، وہ جوان كافى دير تك خاموش رھا او رپھر عرض كى: ميں آپ پر قربان جاؤں، آپ كے حكم كے مطابق عمل كرتا ھوں۔ علي بن ابي حمزہ كھتے ھيں: وہ جوان ھمارے ساتھ كوفہ واپس آيا، اور حضرت كے حكم كے مطابق عمل كيا، اور اس كے پاس كچھ باقي نہ بچا۔ اس نے اپنا پيراہن بھي راہ خدا ميں ديديا، ميں نے اس كے لئے پيسے جمع كئے اس كے لئے لباس خريدا اور اس كے اخراجات كے لئے مناسب خرچ بھيج ديا، چند ماہ كے بعد وہ مريض ھوگيا تو ميں اس كي عيادت كے لئے گيا، اسي طرح چند روز اس كي عيادت كے لئے جاتا رھا، ليكن جب آخري روز اس كي عيادت كے لئے گيا، تو اس نے اپني آنكھيں كھوليں اور مجھ سے كھا: خدا كي قسم! امام صادق عليہ السلام نے اپنے وعدہ وفا كرديا ھے، اور يہ كھتے ھي وہ اس دنيا سے چل بسا، ھم نے اس كے كفن و دفن كا انتظام كيا، ايك مدت كے بعد حضرت امام صادق عليہ السلام كي خدمت ميں حاضر ھواتو امام عليہ السلام نے فرمايا: خدا كي قسم ھم نے تمھارے دوست كي نسبت اپنا وعدہ وفا كرديا ھے، ميں نے عرض كيا: ميں آپ پر قربان ھوجاؤں، آپ صحيح فرمارھے ھيں اس نے مرتے وقت مجھے اس بات كي خبر دي تھي۔ 213 حيرت انگيز توبہ
حقير بمناسب ولادت باسعادت حضرت امام عصر (عج) تبليغ كے لئے بندر عباس گيا ھوا تھا، آخري شب جمعہ كو دعائے كميل كا پروگرام تھا۔
چنانچہ دعائے كميل شروع ھونے سے پھلے ايك 20 سالہ جوان نے مجھے ايك خط ديا اس جوان كو اس سے پھلے نھيں ديكھا تھا۔ دعائے كميل كے بعد گھر واپس آگيا، اس خط كو پڑھا، مجھے وہ خط پڑھ كر بھت تعجب ھوا، اس ميں لكھا ھواتھا: ميں پھلے ميں اس طرح كے پروگرام ميں شريك نھيں ھوتا تھا، گزشتہ سال دوپھر ميں ميرے ايك دوست نے فون كيا كہ چار بچے عصر تمھارے پاس آتا ھوں كيونكہ ايك جگہ جانا ھے، چار بج گئے، وہ آگيا اور ميں اس كي گاڑي ميں بيٹھ گيا اور اس سے كھا: كھاں كا ارادہ ھے؟ اس نے كھا: ميرے ماں باپ چند روز كے لئے كھيں گئے ھيں ھمارا گھر خالي ھے كوئي نھيں ھے، چليں وھاں چلتے ھيں تاكہ دونوں مزے اڑائيں، جيسے ھي اس كے گھر پہنچے تو اس نے كھا: دو لڑكيوں كو بلايا ھے، اور وہ يھيں موجود ھيں، وہ ھمارے لئے آمادہ ھيں، چنانچہ اس نے مجھے ايك كمرہ ميں بھيجا او رخود دوسرے كمرے ميں چلا گيا، جيسے ھي كچھ كرنا چاھا، آپ سے متعلق تبليغي بينر پر لكھا ھوا ميرے ذہن ميںآيا”شب جمعہ دعائے كميل“ ميں جانتا تھا كہ يہ دعا حضرت علي عليہ السلام كي دعا ھے، ليكن آج تك دعائے كميل پڑھتے ھوئے نھيں ديكھا تھا، ميں اس شيطاني حالت ميں حضرت علي عليہ السلام سے بھت شرمندہ ھوا، شرم و حيا نے ميرے بدن كو لرزا ديا، اپنے وجود سے نفرت كرنے لگا، (اس لڑكي كو چھوڑ كر واپس آگيا) سڑكوں پر حيران و پريشان گھومتا رھا، يھاں تك رات ھوگئي مسجد ميں آيا رات كے اندھيرے ميں آپ كے ساتھ دعائے كميل پڑھنے لگا، شرم و حيا سے سر جھكائے آنسو بھاتا رھا، اور خدا كي بارگاہ ميں توبہ و استغفار كرتا رھا نيز خدا سے دعا كي كہ ميري شادي كے لئے راستہ ھموار كردے، اور مجھے گناھوں كي لغزشوں سے محفوظ فرما۔ دو تين ماہ كے بعد ھي والدين كے پيش كش پر ايك شريف خاندان كي بھت خوبصورت لڑكي سے شادي ھوگئي ايسي خوبصورت لڑكي جس كو كبھي خواب ميں بھي نھيں ديكھا تھا صورت و سيرت ميں بے نظير تھى، ميں اس نعمت كو گناہ كو ترك كرنے اور دعائے كميل ميں شركت كرنے كي بركت سمجھتا ھوں، ميں نے اس سال تمام جلسوں ميں شركت كي ھے اور يہ خط اس لئے لكھا ھے تاكہ آپ كو معلوم ھوجائے كہ يہ جلسے بالخصوص جوانوں كے لئےكس قدر مفيد ھيں ! گناھگار نے پُر معني جملہ سے توبہ كرلى
علامہ محمد باقر مجلسي عليہ الرحمہ كے مريدوں ميں سے ايك صاحب نے موصوف سے عرض كيا:ميرا پڑوسي بھت گناھگار ھے چند ساتھيوں كے ساتھ مل كر لھو لعب اور گناھوں كي محفل سجاتا ھے، جس سے ھميں اور دوسرے پڑوسيوں كو اذيت ھوتي ھے، بھت ھي بدمعاش آدمي ھے، ميں اس كو امر بالمعروف اور نھي عن المنكر كرنے سے ڈرتا ھوں، اپنے مكان كو بھي نھيں بدل سكتا كہ اس كو فروخت كركھيں دوسري جگہ خريدلوں۔
علامہ محمد تقي مجلسي عليہ الرحمہ نے اس سے فرمايا: اگر كسي روز اس كي دعوت كرو اور اس كو اپنے يھاں مھمان بلاؤ تو ميں اس سے گفتگو كرنے كے لئے شركت كرسكتا ھوں، شايد خدا كا لطف اس كے شامل حال ھوجائے اور اپنے گناھوں سے پشيمان ھوكر توبہ كرلے۔ چنانچہ يہ بد معاش شخص ايك مومن شخص كے يھاں دعوت كے لئے مدعو كيا گيا اس نے بھي دعوت قبول كرلى، علامہ مجلسي اس دعوت ميں شريك ھوئے، چند منٹ تك اس مجلس پر سكوت طاري رھا، ليكن وہ گناھگار شخص جو علامہ مجلسي عليہ الرحمہ كے آنے سے سخت تعجب ميں تھا ؛علامہ مجلسي عليہ الرحمہ كي طرف رخ كركے كھتے ھيں: اس دنيا ميں تم روحاني (مولوي) لوگوں كا كيا كہنا ھے؟ علامہ مجلسي عليہ الرحمہ نے كھا: برائے مھرباني آپ ھي فرمائيے كہ آپ كيا كھتے ھيں؟ چنانچہ اس شخص نے كھا: ھم جيسے لوگ بھت كچھ كھتے ھيں ان ميں سے ايك يہ ھے كہ جس كا نمك كھاليا ھواس كے نمك كي رعايت كي جائے، اور اس كے ساتھ خلوص كے ساتھ پيش آئيں، يہ سن كر علامہ مجلسي عليہ الرحمہ نے اس سے كھا: تمھاري كتني عمر ھے؟ جواب ديا: ساٹھ سال، علامہ مجلسي عليہ الرحمہ نے فرمايا: اس ساٹھ سال ميں كتني بار خدا كا نمك كھايا ھے، كيا اس كے نمك كي رعايت كي ھے، اور اس كے ساتھ خلوص و صفا كا لحاظ ركھا ؟ اس گناھگار شخص كو جيسے ايك جھٹكا سا لگا، اس نے سر جھكاليا، اس كي آنكھوں سے آنسو جاري ھوئے، اس محفل كو ترك كيا، اس كو رات بھر نيند نھيں آئى، صبح سويرے اپنے پڑوسي كے پاس آيا اور اس سے سوال كيا: رات تمھارے گھر آنے والے مولانا كون تھے؟ اس نے كھا: وہ علامہ محمد تقي مجلسي تھے، اس سے ان كا ايڈرس معلوم كيا اور ان كي خدمت ميں پہنچا اور ان كے سامنے توبہ كي اور نيك و صالح لوگوں ميں ھوگيا! گر نمي پسندي تغير دہ قضا را
علامہ محمد تقي مجلسي عليہ الرحمہ امر بالمعروف، نھي عن المنكر اور گناھوں سے روكنے كے لئے بھت زياہ دلسوزتھے جس محلہ ميں رھتے تھے چند اوباش اور بدمعاش لوگ بھي رھتے تھے، جو جوا، شراب خوري اور رقص و سرور كي محفل سجايا كرتے تھے۔
اكثر اوقات جب ان سے ملاقات ھوتي تھي تو امر بالمعروف او رنھي عن المنكر فرماتے تھے اور انھيں گناھوں كے ترك كرنے اور خدا كي عبادت كي دعوت ديا كرتے تھے۔ وہ تمام غنڈے او ران كا سردار؛ علامہ مجلسي عليہ الرحمہ سے پريشان اور ايك ايسے موقع كي تلاش ميں تھے جس سے مجلسي عليہ الرحمہ سے نجات پاجائيں۔ ايك روز علامہ مجلسي عليہ الرحمہ كے مريدوں ميں سے ايك نيك و صالح اور سادہ انسان كو ديكھاتو اس سے كھا: شب جمعہ اپنا مكان ھمارے لئے خالي كردے اور دعوت كا انتظام كر جس ميں علامہ مجلسي عليہ الرحمہ كو بھي دعوت دينا اور اس منصوبہ سے كوئي مطلع نہ ھونے پائے، ورنہ تيرے لئے آفت ھوجائے گي۔ چنانچہ پروگرام معمول كے مطابق برقرار ھوا، علامہ مجلسي عليہ الرحمہ نے اس خيال سے كہ ايك نمازي كے يھاں دعوت ھے، دعوت كو قبول كرليا۔ تمام غنڈوں نے طے كيا كہ پھلے ھم سب لوگ وھاں جمع ھوجائيں گے اور ايك ناچنے والي عورت كو بلايا جائے گا، علامہ مجلسي كے آنے كے بعد جب محفل اچھي طرح سج جائے تو وہ رقّاصہ ننگے سر محفل ميں وارد ھو اور طبل وغيرہ كے ساتھ ناچنے گانے ميں مشغول ھوجائے! اور اس وقت ايك شخص محلے كے مومنين كو جمع كرلے كہ يہ ديكھو كيا ھورھا ھے!! واعظان كين جلوہ در محراب و منبر مي كنند چون بہ خلوت مي روند آن كار ديگر مي كنند ( واعظين مسجد و منبر پر تو وعظ و نصيحت كرتے ھيں ليكن جب خلوت ميں جاتے ھيں تو دوسرے كام كرتے ھيں) شايد اس پروگرام كو ديكھ مجلسي عليہ الرحمہ ذليل ھوجائيں اور اور اس كے بعد ھميں ان سے نجات مل جائے۔ علامہ مجلسي عليہ الرحمہجس وقت محفل ميں وارد ھوئے تو صاحب خانہ دكھائي نہ ديا بلكہ اس كے بدلے وھاں پر بد معاش او رگناھگار لوگ جمع ھيں، سب منھ بنائے ھوئے چاروں طرف بيٹھے ھوئے ھيں، علامہ موصوف نے اپني ايماني ذكاوت سے اندازہ لگاليا كہ كوئي نہ كوئي چال ضرور ھے! كچھ ھي دير گزري تھي كہ پردہ اٹھا اور بناؤ سنگھار كئے ايك رقاصہ نكلي اور طبل و طنبور كے ساتھ ناچنا گانا شروع كرديا، اور مطرب انداز ميں يہ شعر پڑھتے ھوئے مخصوص انداز ميں ناچنا شروع كرديا: در كوي نيكنامان ما را گزر نباشد گر تو نمي پسندي تغير دہ قضا را نيك اور صالح لوگوں كي گلي سے ھمارا گزر نھيں ھوسكتا، اگرتمھيں پسند نھيںھے توقضاكوبدل دو علامہ مجلسي عليہ الرحمہ، عظيم الشان عارف و عابد كي آنكھيں ميں آنسو بھر آئے اور خداوندعالم كي طرف خلوص كے ساتھ توجہ كي اور بارگاہ الٰھي ميں عرض كيا: ”گر تو نمي پسندي تغير دہ قضا را“ (اگر تجھے پسند نھيں ھے تو قضا كو بدل دے) اچانك كيا ديكھا كہ اس رقاصہ نے اپنا سرو صورت چھپانا شروع كرديا، ساز و طبل كو زمين پر دے مارا اور سجدہ ميں گرپڑى، اور دلسوز آواز ميں ذكر ربّ كرنے لگى: يا ربّ، يا ربّ، يا ربّ، اس نے توبہ او راستغفار كيا، دوسرے لوگ بھي خواب غفلت سے بيدار ھوئے اور اس ماجرے كو ديكھ رونے لگے، ان تمام لوگوں نے اس عظيم الشان عالم دين كے سامنے توبہ كي اور اپنے تمام گناھوں سے دوري اختيار كرلي۔ 214 ھارون الرشيد كے بيٹے كي توبہ
صاحب كتاب ”ابواب الجنان“، واعظ سبزواري اپني كتاب ”جامع النورين“ (ص317) اور آيت اللہ نھاوندي نے اپني كتاب ”خزينة الجواھر“ (ص291) ميں تحرير كيا ھے : ھارون كا ايك بيٹا نيك و صالح تھا ايك پاكيزہ گوھر، ناپاك صلب سے جيسے كوئي مرواريد ھو، جو اپنے زمانہ كے عابد و زاہد لوگوں كي بزم سے فيضياب ھوتا تھا جن كي صحبت كے اثر سے دنياوي زرق و برق سے كنارہ كشي كئے ھوئے تھا، باپ كے طور طريقہ اور مقام و رياست كے خواب كو ترك كئے ھوئے تھا، اس نے اپنے دل كو پاك و صاف كرركھا تھاحقيقت كي بلند شاخوں پر اپنا گھر بنائے ھوئے تھا اور دنياوي چيزوں سے آنكھيں بند كئے تھا۔
ھميشہ قبرستان ميں جاتا اور ان كو عبرت كي نگاھوں سے ديكھتا اور قبروں كو ديكھ ديكھ كر زار و قطار آنسو بھاتا تھا! ايك روز ھارون كا وزير محفل ميں تھا اثناء محفل اس كا لڑكا وھاں سے گزرا جس كا نام قاسم اور لقب موٴتمن تھا، جعفر برمكي ہنسنے لگے، ھارون نے ہنسنے كي وجہ معلوم كي تو جواب ديا: اس لڑكے كي حالت پر ہنستا ھوں جس نے تجھے ذليل كرديا ھے، كاش يہ تمھارا بيٹا نہ ھوتا! يہ ديكھئے اس كے كپڑے، چال چلن عجيب ھے اور يہ غريب اور فقيروں كے ساتھ اٹھتا بيٹھتا ھے، يہ سن كر ھارون بول اٹھا: اس كو حق ھے كيونكہ ھم نے ابھي تك اسے كوئي مقام و منصب ديا ھي نھيں، كيا اچھا ھو كہ ايك شھر كي حكومت اس كو ديدي جائے، فرمان صادر كرديا اور اس كو اپنے پاس بلايا، اس كو نصيحت كرتے ھوئے اس طرح كھا: ميں چاھتا ھوں تجھے كسي شھر كي حكومت پر منصوب كروں، كس علاقہ كي حكومت چاھتے ھو؟ اس نے كھا: اے پدر! مجھے اپنے حال پر چھوڑديجئے، مجھے خدا كي عبادت كا شوق حكومت كے شوق سے كھيں زيادہ ھے، يہ سوچ لو كہ ميں تمھارا بيٹا نھيں ھوں۔ ھارون نے كھا: كيا حكومتي لباس ميں خدا كي عبادت نھيں كي جاسكتى؟ كسي علاقہ كي حكومت قبول كرلو، تمھارا وزير بھي كسي شائستہ شخص كو قرار دے دوں گا تاكہ اكثر كاموں كو ديكھتا رھے اور تو عبادت خدا ميں مشغول رہنا۔ ھارون اس چيز سے بے خبر تھا يا اپنے كو غافل بنائے ھوئے تھا كہ حكومت ائمہ معصومين اور اولياء الٰھي كا حق ھے۔ ظالموں، ستمگروں، غاصبوں اور طاغوتوں كي حكومت ميں كسي شھر كي امارت قبول كرنا جھاں پر حكم الٰھي كو نافذ نہ كيا جاسكے، اور اس كي درآمد سے كوئي بھي عبادت صحيح نھيں ھوگي كيونكہ يہ بالكل حرام مال ھے، اور اس عبادت سے خدا بھي راضي نھيں ھوگا، نيز ظالم حكومت كي طرف سے كسي علاقہ كي امارت لينا بغير شرعي دليل كے ايك گناہ عظيم ھے۔ قاسم نے كھا: ميں كسي بھي طرح كا كوئي منصوبہ قبول كرنے كے لئے تيار نھيں ھوں اور نہ ھي حكومت و امارت قبول كروں گا۔ ھارون نے كھا: تو خليفہ، حاكم اور ايك وسيع و عريض زمين كے بادشاہ كا بيٹا ھے كيا وجہ ھے كہ تو نے غريب و فقير لوگوں كے ساتھ بيٹھ كر مجھے ذليل و رسوا كرديا ھے؟ اس نے جواب ديا: تو نے بھي مجھے نيك و صالح لوگوں كے درميان ذليل و رسوا كرركھا ھے كہ تو ايك ايسے باپ كا بيٹا ھے! ھارون اور حاضرين مجلس كي نصيحت اس پر كارگر نہ ھوسكى، تھوڑي دير كے لئے خاموش كھڑا رھا۔ مصر كي حكومت اس كے نام لكھ دي گئي حاضرين اس كو مباركباد اور تہنيت پيش كرنے لگے۔ جيسے ھي رات كا وقت آيا بغداد سے بصرہ كي طرف بھاگ كھڑا ھوا، صبح جب ڈھونڈا گيا تو اس كو نہ پايا۔ بصرہ كے اطراف ميں رہنے والے عبد اللہ ابصري كھتا ھے: بصرہ ميں ميرا ايك مكان تھا جس كي ديواريں خراب ھوچكي تھيں، ايك روز سوچا مكان كي گري ھوئي ديوار كو بنواديا جائے مزدور كي تلاش ميں نكلا، مسجد كے پاس ايك جوان كو ديكھا جو قرآن پڑھنے ميں مشغول ھے اور بيلچہ اور ٹوكري لئے ھوئے ھے، ميں نے اس سے سوال كيا: كيا كام كرنے كے لئے تيار ھو؟ اس نے كھا: ھاں، خداوندعالم نے ھميں حلال رزق حاصل كرنے كے لئے كام او رزحمت كے لئے پيدا كيا ھے۔ ميں نے كھا: آؤ اور ھمارے مكان ميں كام كرو، اس نے كھا: پھلے ميري اجرت طے كرو، بعد ميں تمھارے كام كے لئے جاؤں گا، اس نے كھا: ايك درھم ملے گا، اس نے قبول كرليا، شام تك اس نے كام كيا، ميں نے اندازہ لگايا كہ اس نے دو آدميوں كے برابر كام كيا ھے ميں نے اس كو دو درھم دينا چاھے ليكن اس نے انكار كرديا، او ركھا: مجھے زيادہ نھيں چاہئے، دوسرے روز اس كي تلاش ميں گيا ليكن وہ نہ ملا، اس كے بارے ميں لوگوں سے سوال كيا تو كچھ لوگوں نے مجھے بتايا كہ وہ صرف سنيچر كے روز كام كرتا ھے۔ سنيچر كے روز صبح صبح اس كي پھلي جگہ تلاش كے لئے گيا وہ مل گيا، اس كو لے گيا وہ ديوار بنانے ميں مشغول ھوگيا، گويا غيب سے اس كي مدد ھوتي تھى، جيسے ھي نماز كا وقت ھوا، اس نے كام روك ديا، اپنے ھاتھ پيردھوئے اور نماز واجب ميں مشغول ھوگيا، نماز پڑھنے كے بعد پھر كام ميں مشغول ھوگيا، يھاں تك كہ سورج ڈوبنے لگا، اس كي مزدوري اس كو دي اور وہ چلا گيا، چونكہ ميري ديوار مكمل نھيں ھوئي تھي دوسرے سنيچر تك صبر كيا تاكہ پھر اسي كو لے كر آؤں، سنيچر كے روز مسجد كے پاس اس كو تلاش كيا ليكن وہ نھيں ملا، اس كے بارے ميں لوگوں سے سوال كيا تو كھا: دو تين دن سے بيمار ھے، اس كے گھر كا پتہ معلوم كيا ايك پرانے اور قديم محلہ ميں اس كا ايڈرس بتايا گيا، ميں وھاں گياديكھا تو بستر علالت پر پڑا ھوا ھے اس كے سرھانے بيٹھ گيااور اس كے سر كو اپني آغوش ميں ليا، اس نے آنكھيں كھولي تو سوال كيا: تم كون ھو؟ ميں نے كھا: ميں وھي ھوں جس كے لئے تم نے دو دن كام كيا ھے، ميرا نام عبد اللہ بصري ھے، اس نے كھا: ميں نے تمھيں پہچان ليا، كيا تم بھي مجھے پہچاننا چاھتے ھو؟ ميں نے كھا: ھاں بتاؤ تم كون ھو؟ اس نے كھا: ميرا نام قاسم ھے اور ميں ھارون الرشيد كا بيٹا ھوں! جيسے اس نے اپنا تعارف كرايامجھے فوراً ايك جھٹكا لگا اور لرزنے لگا، ميرے چھرے كا رنگ بدل گيا او ركھا: اگر ھارون كو معلوم ھوگيا كہ ميں نے اس كے بيٹے سے مزدوري كرائي ھے تو مجھے سخت سزا دے گا، ميرے گھر كو ويران كرنے كا حكم دےدے گا۔ قاسم سمجھ گياكہ وہ بري طرح ڈرگيا ھے، اس نے كھا: خوف نہ كھاؤ اور ڈرو نھيں، ميں نے ابھي تك كسي سے اپنا تعارف نھيں كرايا ھے، اب بھي اگر مرنے كے قريب نہ ھوتا تو تمھيں بھي نھيں بتاتا، ميں تم سے ايك خواہش ركھتا ھوں اور وہ يہ كہ جب ميں دنيا سے چل بسوں تو جو شخص ميري قبر تيار كرے يہ بيلچہ اور ٹوكري اس كوديدينا اور يہ قرآن جوميرا مونس و ھمدم تھا كسي قرآن پڑھنے والے كو ديدينا، اس نے اپني انگوٹھي مجھے دي او ركھا: ميرے مرنے كے بعد اگر تيرا گزر بغداد سے ھو تو ميرا باپ سنيچر كے روز عام لوگوں سے ملاقات كرتا ھے، اس كے پاس جانا اور اس كو يہ انگوٹھي دينا او ركہنا: تيرے بيٹا اس دنيا سے گزر گيا ھے، اور اس نے كھا ھے: تجھے مال دنيا جمع كرنے كا لالچ بھت زيادہ ھے، اس انگوٹھي كو بھي لے كر اپنے مال ميں اضافہ كرلے، ليكن روز قيامت اس كا حساب بھي خود ھي دينا، كيونكہ مجھ ميں حساب كي طاقت نھيں ھے، يہ كھتے كھتے اٹھنا چاھا ليكن اس كي طاقت جواب دي گئى، دوبارہ پھر اٹھنا چاھا ليكن نہ اٹھ سكا، اس نے كھا: اے عبد اللہ ! مجھے ذرا اٹھادو كيونكہ ميرے مولا و آقا امير المومنين عليہ السلام تشريف لائے ھيں، ميں نے اس كو اٹھايا اور اچانك اس كي روح پرواز كر گئى، گويا ايك چراغ تھا جس ميں ايك چنگاري اٹھي اور خاموش ھوگيا! ايك آتش پرست كي توبہ
مشھور و معروف فقيہ عارف نامدار فيلسوف بزرگوار جناب ملا احمد نراقي اپني عظيم الشان كتاب ”طاقديس“ ميں تحرير فرماتے ھيں:
جناب موسيٰ عليہ السلام كوہ طور كي طرف چلے جارھے تھے، راستہ ميں ايك بوڑھا آتش پرست ملا جو گمراھي اور گناھوں سے آلودہ تھا، اس نے جناب موسيٰ عليہ السلام نے كھا: كھاں جارھے ھيں، كس سے باتيں كرنے جارھے ھو؟ چنانچہ جناب موسيٰ عليہ السلام نے جواب ديا: كوہ طور پر جارھا ھوں، جس جگہ وہ بے انتھا نور كا مركز ھے، وھاں جاتا ھوں تاكہ حضرت حق سے راز و نياز اور مناجات كروں، اور تمھارے گناھوں اور خطاؤں كي معذرت كروں۔ اس آتش پرست نے كھا: كيا ميرا پيغام بھي خدا كے پاس پہنچا سكتے ھو؟ جناب موسيٰ عليہ السلام نے كھا: تيرا پيغام كيا ھے؟ اس نے كھا: ميري طرف سے اپنے پروردگار سے كہنا كہ اس خلقت كے جھرمٹ اور آفرينش كے بھيڑ ميں ميں تجھ كو خدا مانوں يہ ميرے لئے ننگ و عار ھے، مجھے ھر گز اپنے پاس نہ بلانا اور مجھے تيرى روزي كي منت او رتيرے احسان كي بھي ضرورت نھيں ھے، نہ تو ميرا خدا ھے او رنہ ميں تيرا بندہ! جناب موسيٰ عليہ السلام نے اس بے معرفت آتش پرست كي گفتگو كو سنا اور اس گستاخ كي گفتگو پر بھت جوش آيا، اپنے دل ميں كھا: ميں اپنے محبوب سے مناجات كرنے كے لئے جارھا ھوں، مناسب نھيں ھے كہ اس كے سامنے يہ سب نازيبا گفتگو بيان كروں، اگر خدا كا احترام كرتا ھوں تو ان باتوں كو بيان نہ كروں تو اچھا ھے۔ جناب موسيٰ عليہ السلام طور كي طرف روانہ ھوگئے، اس نوراني وادي ميں خداوندعالم سے راز و نياز كرنے لگے، گرياں كناں آنكھوں سے مناجات شروع كردى، اس خلوت ميں ايسا كيف تھا كہ دوسرے اس سے بے بھرہ ھيں، خداوندعالم سے عاشقانہ گفتگو ھوئى، جب آپ راز و نياز سے فارغ ھوئے اور وھاں سے واپس چلنے كا ارادہ كيا، خطاب ھوا: اے موسيٰ ميرے بندے كا پيغام كيا تھا؟ عرض كيا: ميں اس پيغام كو سناتے ھوئے شرم محسوس كرتا ھوں، تو خود عليم و بصير ھے اور جانتا ھے كہ اس بوڑھے آتش پرست كافر نے تيرے شان ميں كيا گستاخي كي ھے! خطاب ھوا: اس زبان دراز كے پاس جانا اور ميري طرف سے اس كو سلام كہنا اوراس كے بعد پيار و محبت سے اس كا يہ پيغام سنانا: اگر تجھے مجھ سے عار ھے، تو مجھے تجھ سے كوئي عار نھيں ھے ھرگز تجھ سے جنگ نھيں كروں گا، اگر تو مجھے نھيں چاھتاتو ميں تو تجھے بھت چاھتا ھوں، تو اگر ميري روزي اور رزق نھيں چاھتا ميں اپنے فضل وكرم سے تجھے روزي عنايت كروں گا، اگر ميري روزي كا احسان نھيں چاھتا تو ميں بغير احسان كے روزي عنايت كروں گا، ميرا فيض سب كے لئے اور عام ھے، ميرا لطف و كرم بے نھايت، ھميشگي اور قديم ھے۔ تمام لوگ ميرے نزديك بچوں كي طرح ھيں اور ميرا فيض دودھ پلانے والي ايك خوش اخلاق ماں كي طرح ھے۔ ھاں بچے كبھي غصہ ميں اور كبھي پيار ميں پستان مادر كو اپنے منھ سے نكال ديتے ھيں ليكن ان كي ماں ان سے ناراض نھيں ھوتى، بلكہ پھر اپني پستان ان كے منھ ركھ ديتي ھے۔ بچہ منھ پھير ليتا ھے اور اپنے منھ كو بند كرليتا ھے، ماں اس كے بند منھ كے بوسہ لينا شروع كرديتي ھے، اور پيار بھرے انداز ميں كھتي ھے: ارے ميرے بچے! منھ نہ موڑ، دودھ بھري چھاتي كو منھ ميں ركھ لے، اے ميرے لاڈلے ! ديكھ تو سھي ميرے پستان سے بھار ميں ابلنے والے چشمہ كي طرح دودھ جوش مارھا ھے۔ جس وقت جناب موسيٰ عليہ السلام كوہ طور سے واپس آئے، اس بوڑھے آتش پرست نے كھا: اگر ميرے پيغام كا جواب لائے ھو تو بيان كرو۔ جناب موسيٰ عليہ السلام نے خدا كا پيغام اس كافر اور آتش پرست كو سنايا، كلام الٰھي نے اس كافر اور ملحد كے دل سے كفر كے زنگ كو دور كرديا، وہ ايك گمراہ انسان تھا جو راہ حق سے دور ھوچكا تھا، خدا كا پيغام اس كے لئے ايك گھنٹي كي طرح تھا، وہ شب تاريك كي طرح اندھيرے ميں ڈوبا ھوا تھا، وہ جواب اس كے لئے نور خورشيد كي طرح بن گيا۔ شرم و حيا كي وجہ سے سر جھك گيا، اپني آنكھوں پر ھاتھ ركھے اور زمين كي طرف ديكھنے لگا، تھوڑي دير بعد اس نے سر اٹھايا اور اشك بھري آنكھوں اور سوز جگر كے ساتھ كھا: اے موسيٰ! تم نے ميرے جسم ميں آگ لگادي ھے، جس سے ميرا جسم و روح دھواں ھوگيا ھے، يہ كيا پيغام تھا جو ميں نے خدا كي بارگاہ ميں پيش كيا، ميں بدبخت ھوں، افسوس مجھ پر، اے موسيٰ! مجھے ايمان كي تعليم ديں، اے موسيٰ! مجھے حقيقت كا راستہ بتاؤ، خدايا كيا عجيب واقعہ پيش آيا، ميري روح قبض كرلے تاكہ ميں اس پريشاني سے نجات پاجاؤں! جناب موسيٰ عليہ السلام نے ايمان، عشق، رابطہ كي گفتگو اور خدا سے راز و نياز كا سليقہ سكھايا، اور اس نے توحيد كا اقراركيا اوراپنے گزشتہ سے توبہ كي اور اس دنيا سے محبوب كي طرف كوچ كرگيا! توبہ اور خدا سے صلح و صفا
1951 ء ميں جب شيعہ مرجعيت كي ذمہ دارى، حضرت آيت اللہ العظميٰ آقاي بروجردي رحمة اللہ عليہ كے شانوں پر تھى، جو علم و عمل كے مجاہد اور باكمال نوراني چھرہ كے مالك تھے، اس وقت حقير كي عمر نو سال تھى، توبہ كے سلسلہ ميں ايك عجيب و غريب واقعہ پيش آيا جس كا ذكر كرنا مناسب ھے۔
شھر تھران كے ايك محلہ ميں ايك بھت قدرت مند آدمي تھا، جو واقعاً ايك اوباش اور غنڈا تھا اكثر غنڈے اس سے خوف زدہ رھتے تھے اور چاقو چھري مارنے والے بد معاش بھي اس سے ڈرتے تھے۔ وہ كبھي شراب خورى، جوا، ڈكيتي اور جھگڑا فساد كرنے سے گريز نھيں كرتا تھا۔ چنانچہ جب اس غنڈا گردي پر عروج تھا اس وقت لطف خدوندي اور اس كي رحمت نے اس كے دل پر اثر كيا اور جو كچھ بھي اس كے پاس تھا ان سب كو بيچ كر نقد پيسہ بنايا اور ايك سوٹ كيس ميں بھر كر توبہ كرنے كے لئے شھر مقدس قم ميں آيا اور حضرت آيت اللہ العظميٰ آقاي بروجردي عليہ الرحمہ كي خدمت ميں پہنچا، اپني مخصوص زبان ميں اس عالم باعمل اور صاحب بصيرت سے گويا ھوا: جو كچھ بھي اس سوٹ كيس ميں ھے سب مال حرام ھے، ميں اكثر مال كے مالكوں كو نھيں جانتا، يہ ميرے اوپر ايك بار ھے، آپ كي خدمت ميں حاضر ھوا ھوں تاكہ ميں آپ كے سامنے توبہ كروں اور اپني اصلاح كروں۔ آيت اللہ بروجردي عليہ الرحمہ ايسے افراد سے ملاقات كركے بھت خوش ھوتے تھے، چنانچہ اس سے فرمايا: نہ صرف پيسوں سے بھرا سوٹ كيس بلكہ اپني قميص شلوار كے علاوہ بدن كے سارے كپڑے بھي يھاں ركھ دو اور چلے جاؤ۔ چنانچہ اس نے يہ سن كر اپنے اوپر كے كپڑے اتاردئے اور ايك شلوار قميص ميں ھي موصوف سے خدا حافظي كركے روانہ ھوگيا۔ اس شخص كي توبہ كي وجہ سے حضرت آيت اللہ العظميٰ آقاي بروجردي عليہ الرحمہكي آنكھوں ميں آنسو بھر آئے، اس كو آواز دى، اور اس كو اپنے ذاتي پيسوں ميں سے پانچ ہزار تومان دئے اور اس كے لئے اسي خشوع و خضوع كي حالت ميں خلوص كے ساتھ دعا كي۔ وہ شخص اس حالت ميںتھران پلٹاكہ تواضع و انكساري اور محبت و پيار كو اپنا پيشہ بنالياتھا، چنانچہ اس نے انھيں پانچ ہزار تومان كو حلال روزي كے لئے سرمايہ قرار ديا اور آہستہ آہستہ جائز درآمد حاصل ھونے لگى، چنانچہ ايك بڑي دولت اس نے حاصل كرلى، سال كے شروع ميں اپني درآمد كا خمس نكالتا تھا اور غريبوںكي بھي بھت زيادہ مدد كيا كرتا تھا۔ آہستہ آہستہ اس نے ديني پروگراموں ميں شركت كرنا شروع كى، آخر كار شھر تھران كے ايك اھم جلسہ كا باني بن گيا۔ اس كا مذھبي جلسہ ان دنوں ميں تھا جب حقير كي عمر 25 سال تھي اور حوزہ علميہ قم ميں مشغول تحصيل علم تھا، محرم و صفر اور ماہ رمضان المبارك ميں تھران كي مساجد اور امامبارگاھوں ميں تبليغ كے لئے جايا كرتا تھا۔ اسي حوالہ سے اس كے نوراني چھرہ سے آشنا ھوا، اس كے ايك دوست كے ذريعہ مرجع شيعہ كے ذريعہ اس كي توبہ كے بارے ميں معلوم ھوا۔ اس سے دوستي ھوگئي اور كافى دنوں تك يہ دوستي برقرار رھى، چنانچہ جب وہ تقريباً 1987ء ميں بيمار ھوئے، تو مجھے پيغام بھجوايا كہ اس كي عيادت كے لئے آجاؤں، حقير نے روز جمعہ اس كي عيادت كے لئے پروگرام بناركھا تھا ليكن شب جمعہ 11بجے ھي اپنے اھل عيال كو اپنے پاس جمع كيا اور كھا: ميں اس دنيا سے جانے والا ھوں۔ چنانچہ اس كے اھل خانہ نے حقير سے بتايا كہ: مرنے سے آدھا گھنٹہ پھلے حضرت امام حسين عليہ السلام كي خدمت ميںعرض كيا: ”اے ميرے مولا و آقا! ميں نے اپنے گزشتہ سے توبہ كي ھے، اور آپ كے راستہ پر چلنے كي كوشش كى، خلوص كے ساتھ آپ كے دربار ميں خدمت كي اور اپنے مال كا ايك تھائي حصہ جوانوں كي شادي كے لئے صندوق قرض الحسنہ ميں طولاني مدت كے لئے ركھ ديا ھے، ميري كوئي آرزو نھيں، صرف يہ كہ اس دنيا سے جاتے وقت آپ كے جمال پُرنوركي زيارت ھوجائے !! “ چنانچہ آخري سانس آنے سے پھلے بھت خوش لہجہ ميں حضرت امام حسين عليہ السلام كو عاشقانہ سلام كيا، (جيسے امام حسين عليہ السلام سامنے موجود ھوں) اس وقت اس كے لبوں پر مسكراہٹ تھى، اور اسي عالم اس دنياچل بسے۔ -------------------------------------------------------------------------------- 171. سورہٴ يوسف آيت 111۔ 172. سورہٴ تحريم آيت 11۔ 173. كشف الغمہ:1466:بحار الانوار: 43ص53، باب 3، حديث 48، عبارت كے تھوڑے سے فرق كے ساتھ۔ 174. سورہٴ فرقان آيت 12۔13۔ 175. امالي شيخ صدوق عليہ الرحمہ، ص 397، مجلس 62 حديث 10؛ بحار الانوار ج 6ص 26 باب 20 حديث 27۔ 176. خرائج:ج 1ص88، فصل من روايات الخاصة؛ بحار الانوار: 65ص282، الاخبار، حديث 38۔ 177. روضات الجنات : 4، ص107۔ 178. روضات البيان: 2، ص179۔ 179. روح البيان: 2، ص 181۔ 180. روضات البيان: 2، ص225۔ 181. روضات البيان، ج 2، ص 235۔ 182. كشف الغمہ، ج2، ص 194؛ بحار الانوار ج 47 145، باب 5، حديث 199۔ 183. بحار الانوار: 91 28، باب 28، حديث: 14؛ مستدرك الوسائل: 5 230، باب 35، حديث 5762۔ 184. محجة البيضاء: 7، ص 267، كتاب الخوف والرجاء۔ 185. منہج الصادقين، ج8ص 110۔ 186. نور الثقلين، ج3 ص 249۔ 187. سورہٴ آل عمران آيت 135۔ 188. سورہٴ آل عمران آيت 136۔ 189. امالي شيخ صدوق:42، مجلس 11، حديث3؛ بحار الانوار: 63 23، باب 20، حديث 26۔ 190. سورہٴ حديد آيت 16۔ 191. تذكرة الاولياء، ص79۔ 192. تفسير صافى: 2386 (مندرجہ ذيل آيت سورہٴ توبہ نمبر 118)۔ 193. سورہٴ توبہ آيت 118۔ 194. ارشاد القلوب: 2 80؛ اعلام الورى: 232، الفصل الرابع۔ 195. عنصر شجاعت، ج 3 ص54؛ پيشواي شھيدان ص 239۔ 196. پيشواي شھيدان، ص 394۔ 197. عنصر شجاعت، ج3ص 179۔ 198. حضرت امام حسين عليہ السلام كي دعاء عرفہ كا ايك حصہ۔ 199. عنصر شجاعت، ج3ص170۔ 200. حسن يوسف، ص64۔ 201. اصول كافى ج2 ص 69، باب الخوف والرجاء حديث8؛ بحار الانوار ج 67 ص 361 باب 59 حديث 6۔ 202. سورہٴ الذاريات آيت 22۔ 203. سورہٴ الذاريات آيت 23۔ 204. تفسير كشف الاسرار، ج9ص319۔ 205. اسرار معراج، ص28۔ 206. روضات الجنات، ج2، ص130۔ 207. اصول كافى، ج2، ص441، باب فيما اٴعطيٰ اللہ عزّ و جل ّ آدم (ع) حديث 4۔ 208. سورہٴ توبہ آيت 102۔ 209. تفسير قمى، ج1، ص535؛بازگشت بہ خدا، 423۔ 210. اسرار معراج، ص84۔ 211. تفسير صافى، ج1، ص767بطور خلاصہ ۔ 212. امالي شيخ صدوق، ص 271، مجلس 46 حديث7؛ بحار، ج68، ص384، باب 92 حديث 25۔ 213. كافى، ج5ص106 باب عمل السلطان و جوائزھم، حديث 4؛ بحار، ج47، ص382، باب 11، حديث 105۔ 214. اس واقعہ كو تبليغي سفر ( 1970ء ھمدان )كے دوران آيت اللہ مرحوم آخوند ھمداني سے سنا ھے۔ |