خداوند عالم كي طرف واپسى
  ((وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اھتدَي))۔ 95
”۔۔۔ ميں زيادہ بخشنے والاھوں اس شخص كے لئے جو توبہ كر لے اور ايمان لے آئے اور نيك عمل كرے اور پھر راہ ہدايت پر ثابت قدم رھے“۔

گناھگار اور توبہ كرنے كي طاقت
كوئي بھي ماں نے اپنے بيٹے كو گناھگار پيدا نھيں كرتى، رحم مادر سے كوئي بچہ بھي عاصي او رخطاكار پيدا نھيںھوتا۔
جب بچہ اس دنيا ميں قدم ركھتا ھے تو علم و دانش اورفكر و نظر سے خالي ھوتا ھے، اور اپنے اطراف ميں ھونے والے واقعات سے بالكل بے خبر رھتا ھے۔
جس وقت بچہ اس دنياكي فضا ميں آتا ھے تو رونے اور ماں كا دودھ پينے كے علاوہ اور كچھ نھيں جانتا، بلكہ شروع شروع ميں اس سے بھي غافل ھوتا ھے۔ ليكن آہستہ آہستہ اس ميںاحساسات، خواہشيں اور شھوات پيدا ھونے لگتي ھيں، اپنے كارواں زندگي كو آگے بڑھانے كے لئے اپنے گھروالوںاور پھر باھر والوں سے سيكھتا جاتا ھے۔
اسي طرح اس كي زندگي كے دوران اس كے بدن ميں مختلف بيمارياں پيدا ھونے لگتي ھيں، اس كي فكر و روح، نفس اور قلب ميں خطائيں ھوجاتي ھيں، اسي طرح عمل و اخلاق كے ميدان ميں گناھوںكا مرتكب ھونے لگتا ھے، پس معلوم يہ ھوا كہ گناہ بدن پر طاري ھونے والي ايك بيماري كي طرح عارضي چيز ھے، ذاتي نھيں ۔
انسان كے بدن كي بيماري طبيب كے تجويز كئے ھوئے نسخہ پر عمل كرنے سے ختم ھوجاتي ھے، بالكل اسي طرح اس كي باطني بيماري يعني فكر و روح اور نفس كي بيماري كا علاج بھي خداوندمھربان كے احكام پر عمل كرنے سے كيا جاسكتا ھے۔
گناھگار جب خود كو پہچان ليتا ھے اور اپنے خالق كے بيان كردہ حلال و حرام كي معرفت حاصل كرليتا ھے يقينااس روحاني طبيب كے نسخہ پر عمل كرتے ھوئے گناھوں سے توبہ كرنے پر آمادہ ھوجاتا ھے، اور خداوندمھربان كي ذات سے اميد ركھتا ھے كہ وہ اس كو گناھوں كے دلدل سے باھرنكال دے گا اور پھر وہ اس طرح پاك ھوجاتا ھے جيسے شكم مادر سے ابھي پيدا ھواھو۔
گناھگار يہ نھيں كہہ سكتا كہ ميں توبہ كرنے كي طاقت نھيں ركھتا، كيونكہ جو شخص گناہ كرنے كي طاقت ركھتا ھے بے شك وہ توبہ كرنے كي طاقت بھي ركھتا ھے۔
جي ھاں، انسان كھانے پينے، آنے جانے، كہنے سننے، شادي كرنے، كاروبار ميں مشغول ھونے، ورزش كرنے، زندگي گذارنے اور زورآزمائي كے مظاھرے پر قدرت ركھتا ھے، وہ اپني خاص بيماري كي وجہ سے ڈاكٹر كے كہنے پر بعض چيزوں سے پرھيز بھي كرسگتا ھے اور بيماري كے بڑھنے كے خوف سے جس طرح كچھ چيزيں نھيں كھاتا، اسي طرح جن گناھوں ميں ملوث ھے ان سے بھي تو پرھيز كرسكتا ھے، اور جن نافرمانيوں ميں مبتلا ھے اس سے بھي تو رك سكتا ھے۔
خداوندعالم كي بارگاہ ميں توبہ كي قدرت نہ ركھنے كا عذر و بھانہ كرنا قابل قبول نھيں ھے، اگر گناھگار توبہ كي قدرت نہ ركھتا ھوتا تو خداوندعالم كبھي بھي توبہ كي دعوت نہ ديتا۔
گناھگار كو اس حقيقت پر يقين ركھنا چاہئے كہ وہ ھر موقع و محل پر تركِ گناہ پر قادرھے، اور قرآني نقطہ نظر سے خداوندعالم كي ذات گرامي بھي تواب و رحيم ھے، وہ انسان كي توبہ قبول كرليتا ھے، اور انسان كے تمام گناھوں كو اپني رحمت و مغفرت كي بنا پر بخش ديتا ھے اگرچہ تمام ريگزاروں كے برابر ھي كيوں نہ ھوں، اور اس كے سياہ نامہ اعمال كو اپني مغفرت كي سفيدي سے مٹاديتا ھے۔
گناھگار كو اس چيزكا علم ھونا چاہئے كہ اگر تركِ گناہ اور اپنے ظاھر و باطن كي پاكيزگي كے لئے قدم نہ اٹھائے اور گناہ و معصيت ميں اضافہ كرتا رھے، تو پھر خداوندعالم بھي اس كو دردناك عذاب ميں گرفتار كرديتا ھے اور سخت سے سخت عقوبت اس كے لئے مقرر فرماتاھے۔
خداوندعالم نے قرآن مجيد ميں خود كو اس طرح سے پہچنوايا ھے:
((غَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِيدِ الْعِقَاب))۔ 96
”وہ گناھوں كا بخشنے والا، توبہ كا قبول كرنے والا اور شديد عذاب كرنے والا ھے “۔
امام معصوم علىہ السلام دعائے افتتاح ميں خداوندعالم كي اس طرح حمد و ثنا فرماتے ھيں:
”وَاَيقَنْتُ اَنَّكَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ فِي مَوْضِعِ الْعَفْوِوَالرَّحْمَةِ، وَاَشَدُّ المُعَاقِبِينَ فِي مَوْضِعِ النَّكالِ وَالنَّقِمَةِ“۔
”مجھے اس بات پر يقين ھے كہ تو رحمت و بخشش كے مقام ميں سب سے زيادہ مھربان ھے، اور عذاب و عقاب كے مقام ميں شديد ترين عذاب كرنے والاھے“۔
اسي طرح خداوندعالم نے قرآن مجيد ميں گناھگاروں سے خطاب فرمايا ھے:
((قُلْ ياعِبَادِي الَّذِينَ اٴَسْرَفُوا عَلَي اٴَنْفُسِھم لاَتَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللهِ إِنَّ اللهَ يغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ))۔ 97
”(اے )پيغمبر آپ پيغام پہنچا ديجئے كہ اے ميرے بندو! جنھوں نے اپنے نفس پر زيادتي كي ھے رحمت خدا سے مايوس نہ ھوں، اللہ تمام گناھوں كا
معاف كرنے والا ھے اور وہ يقينا بھت زيادہ بخشنے والا اور مھربان ھے“۔
لہٰذا ايك طرف خداوندعالم كا تواب و غفور ھونا اور دوسرى طرف سے گناھگار انسان كا گناھوں كے ترك كرنے پر قادر ھونا اس كے علاوہ قرآن مجيد كي آيات كا گناھگار انسان كو خدا كي رحمت و مغفرت كي بشارت ديناان تمام باتوں كے باوجود ايك گناھگار كو اپنے گناھوں كے ترك كرنے ميں كوئي عذر و بھانہ باقي نھيں رہنا چاہئے، اسي لئے گناھگار كے لئے توبہ كرنا عقلي اور اخلاقي لحاظ سے ”واجب فوري“ھے۔
اگر گناھگار توبہ كے لئے قدم نہ بڑھائے، اپنے گزشتہ كا جبران وتلافي نہ كرے اور اپنے ظاھر و باطن كو گناہ سے پاك نہ كرے، تو عقل و شرع، وجدان اور حكمت كي نظر ميں اس دنيا ميں بھي محكوم و مذموم ھے، اور آخرت ميں بھي خداوندعالم كے نزديك مستحق عذاب ھے۔ ايسا شخص روز قيامت حسرت و ياس اور ندامت و پشيمانى كے ساتھ فرياد كرے گا:
(( ۔۔۔لَوْ اٴَنَّ لِي كَرَّةً فَاٴَكُونَ مِنْ الْمُحْسِنِينَ))۔ 98
”اگر مجھے دوبارہ واپس جانے كا موقع مل جائے تو ميں نيك كردار لوگوں ميں سے ھو جاوٴں “۔
اس وقت خداوندعالم جواب دے گا:
((بَلَي قَدْ جَائَتْكَ آياتِي فَكَذَّبْتَ بِھا وَاسْتَكْبَرْتَ وَكُنْتَ مِنْ الْكَافِرِينَ))۔ 99
”ھاں ھاں تيرے پاس ميري آيت يں آئي تھيں تو نے انھيں جھٹلا ديا اور تكبر سے كام ليا اور كافروں ميں سے ھو گيا“۔
روز قيامت گناھگار شخص كي نجات كے لئے دين و عمل كے بدلے ميں كوئي چيز قبول نہ ھوگى، اور اس كي پيشاني پر سزا كي مھر لگادي جائے گى:
((وَلَوْ اٴَنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا مَا فِي الْاٴَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَہُ مَعَہُ لاَفْتَدَوْا بِہِ مِنْ سُوءِ الْعَذَابِ يوْمَ الْقِيامَةِ وَبَدَا لَھم مِنْ اللهِ مَا لَمْ يكُونُوا يحْتَسِبُونَ)) 100
”اور اگر ظلم كرنے والوں كو زمين كي تمام كائنات مل جائے اور اتنا ھي اور بھي ديديا جائے تو بھي يہ روز قيامت كے بدترين عذاب كے بدلے ميں سب ديديں گے، ليكن ان كے لئے خدا كي طرف سے وہ سب بھر حال ظاھر ھوگا جس كا يہ وھم و گمان بھي نھيں ركھتے تھے“۔
حضرت امير المومنين علىہ السلام دعائے كميل ميں فرماتے ھيں :
خدا كي بارگاہ ميں گناھگار كے توبہ نہ كرنے ميں كوئي عذر قبول نھيں كيا جائے گا، كيونكہ خدا نے گناھگار پر اپني حجت تمام كردي ھے:
” فَلَكَ الحُجةُ عَلَيَّ في جَميعِ ذٰلِكَ، وَلاٰحُجَّةَ لِي فِي مٰاجَريٰ عَلَيَّ فيہِ قَضٰاوُٴكَ“۔
”تمام معاملات ميں ميرے اوپر تيري حجت تمام ھوگئي ھے اور اسے پورا كرنے ميں تيري حجت باقي نھيں رھي “۔
بندوں پر خدا كي حجت كے سلسلے ميں ايك اھم روايت
”عبد الاعليٰ موليٰ آل سام كھتے ھيں : ميں نے حضرت امام صادق علىہ السلام سے سنا كہ آپ نے فرمايا: روز قيامت ايك حسين و جميل عورت كو لايا جائے گا جس نے دنيا ميں اپنے حسن و جمال كي وجہ سے گناہ ومعصيت كو اپنا شعار بنايا تھا، وہ اپني بے گناھي ثابت كرنے كے لئے كھے گى: پالنے والے! تو نے مجھے خوبصورت پيدا كيا، لہٰذا ميں اپنے حسن و جمال كي بنا پر گناھوں كي مرتكب ھوگئى، اس وقت جناب مريم (سلام اللہ علىھا) كو لايا جائے گا، اور كھا جائے گا: تو زيادہ خوبصورت ھے يا يہ باعظمت خاتون؟ ھم نے اس كو بھت زيادہ خوبصورت خلق فرمايا، ليكن پھر بھي انھوں نے اپنے كو محفوظ ركھا، برائيوں سے دور رھيں۔
اس كے بعد ايك خوبصورت مرد كو لايا جائے گاوہ بھي اپني خوبصورتي كي بنا پر گناھوں ميں غرق رھا، وہ بھي كھے گا: پالنے والے ! تو نے مجھے خوبصورت پيدا كيا، جس كي بنا پر ميں نامحرم عورتوں كے ساتھ گناھوں ميں ملوث رھا۔ اس وقت جناب يوسف (عليہ السلام) كو لايا جائے گا، اور كھا جائے گا: تو زيادہ خوبصورت ھے يا يہ عظيم الشان انسان، ھم نے انھيں بھي بھت خوبصورت پيدا كيا ليكن انھوں نے بھي اپنے آپ كو گناھوں سے محفوظ ركھااور فتنہ و فساد ميں غرق نہ ھوئے۔
اس كے بعد ايك ايسے شخص كو لايا جائے گا، جو بلاء اور مصيبتوں ميںگرفتار رہ چكا تھا اور اسي وجہ سے اس نے اپنے كو گناھوں ميں غرق كرليا تھا، وہ بھي عرض كرے گا: پالنے والے! چونكہ تونے مجھے مصيبتوں اور بلاؤں ميں گرفتار كرديا تھا جس سے ميرا حوصلہ اور استقامت جاتي رھي اور ميں گناھوں ميں غرق ھوگيا، اس وقت جناب ايوب (عليہ السلام) كو لايا جائے گااور كھا جائے گا: تمھاري مصيبتيں زيادہ ھيں يا اس عظيم انسان كى، يہ بھي مصيبتوں ميں گھرے رھے، ليكن انھوں اپنے آپ كو محفوظ ركھا اور فتنہ وفساد كے گڑھے ميں نہ گرے“101

توبہ، آدم و حوا كي ميراث
جناب آدم علىہ السلام روئے زمين پر خداوندعالم كے خليفہ اور اس كے نائب كے عنوان سے پيداكئے گئے، اور پتلہ بنانے كے بعد اللہ نے اس ميں اپني روح كو پھونكي 102 اور ان كو ”اسماء“ كا علم ديا، فرشتوں نے ان كي عظمت و كرامت كے سامنے حكم خدا كے سے سجدہ كيا، اس وقت خدا كے حكم سے وہ اور جناب حوّابہشت ميں رہنے لگے103 بہشت كي تمام نعمتيں ان كے اختيار ميں ديديں گئى، اور انھيں تمام نعمتوں سے فيضياب ھونے كے لئے كوئي ركاوٹ نھيں تھى، مگر دونوں سے يہ كھا گيا كہ فلاں درخت كے نزديك نہ ھونا، كيونكہ اس كے نزديك ھونے كي صورت ميں تم ظالمين اور ستمگاروں ميں سے ھوجاؤگے۔104
وہ شيطان جس نے جناب آدم كو سجدہ نہ كرنے ميں حكم خدا كي مخالفت كي اور خدا كي بارگاہ سے نكال ديا گيا، اسے خدا كي لعنت تكليف دي رھي تھى، اس كا غرور و تكبر اس بات كي اجازت نھيں ديتا تھا كہ خدا كي بارگاہ ميں توبہ كرلے، كينہ اور حسد كي وجہ سے جناب آدم و حوا علىھماالسلام سے دشمني نكالنے كي فكر ميں لگ گيا تاكہ ان كا چھپا ھوا بدن ظاھر ھوجائے، اور اس كي اطاعت كرتے ھوئے اپني عظمت و كرامت سے ھاتھ دھو بيٹھيں، اور بہشت عنبر سے باھر نكال دئے جائيں نيز خدا كے لطف و كرم سے منھ موڑليں۔
چنانچہ ان جملوں كے ذريعہ اس درخت كا پھل كھلانے كے لئے انھيں وسوسہ ميں ڈال ديا:
”اے آدم و حوا ! خداوندعالم نے اس درخت كا پھل كھانے سے اس لئے منع كيا ھے كہ اگر تم اس كا پھل كھالوگے تو فرشتے بن جاؤگے يا اس ھرے بھرے باغ ميں ھميشہ ھميشہ كے لئے رہ جاؤگے“۔
اپنے وسوسہ كو ان دونوں كے دلوں ميں ثابت و مستحكم كرنے كے لئے اس نے (جھوٹي) قسم كھائي كہ ميں تمھارا خيرخواہ ھوں۔ 105 شيطان كا حسين وسوسہ اور اس كي قسم نے دونوں حضرات كے حرص كو شعلہ ور كرديا، ان دونوں كا حرص خداوندعالم كي نھي كے درميان حجاب بن گيا شيطان ان دونوں كو دھوكہ دينے ميں كامياب ھوگيا، او ر يہ خدا كي نافرماني ميں مبتلا ھوگئے ۔اس درخت كا پھل كھاليا، ان كا بدن ظاھر ھوگيا، وقار و ھيبت اور نور و كرامت كا لباس اترگيا، اپنے بدن كو بہشت كے درخت كے پتوں سے چھپانا شروع كيا، اس وقت خداوندعالم نے خطاب فرمايا كہ كيا ھم نے تمھيں اس درخت كے قريب جانے سے منع نھيں كيا تھا اور اعلان نہ كيا تھا كہ شيطان تمھارا كُھلا دشمن ھے؟!106
جناب آدم و حوا بہشت سے نكال دئے گئے، مقام خلافت و علم اور مسجود ملائكہ ھونے سے كوئي كام نہ چلا، اور جو عظمت ان كو دي گئي تھي اس سے ھبوط كرگئے، اور زندگي كے لئے زمين پر بھيج دئے گئے۔
مقام قرب سے دورى، فرشتوں كي ھم نشيني سے محرومى، بہشت سے خروج، نھي خدا پر بے توجھي اور شيطان كي اطاعت كي وجہ سے دونوں غم و اندوہ اور حسرت ميں غرق ھوگئے، خود پسندي كے خوفناك اور محدود زندان ميں پہنچ گئے، كيونكہ اسي خود پسندي اور خود بيني كي وجہ سے رحمت و عنايت اور لطف و كرم سے محروم ھوچكے تھے، اورغير اللہ كے جال ميں پھنس گئے تھے، اور ايمان، عشق اور بيدارى كي فضا ميں وارد ھوگئے، جھاں سے دنياوي فائدے اور آخرت كے لئے بے نھايت فوائد انسان كو ملنے والے ھيں۔
جب آدم و حوّا (عليھما السلام) اس طرح اپنے آپ ميں آئے تو فرياد كي كہ ھم انانيت اور غفلت كے سبب فراق يار كے زندان گرفتار ھوگئے ھيں، خودخواھي اور حرص و غرور كے اندھيرے ميں غرق ھوگئے اور (( ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا)) سے دچار ھوگئے۔
اپني حالت پر متوجہ ھونے، حرّيت و آزادي كے ميدان ميںوارد ھونے، شيطان كے جال سے نجات پانے، خداوندعالم كي طرف متوجہ ھونے اور بارگاہ خداوندي ميں تواضع و انكسارى سے پيش آنے كا سبب ھے، كہ اگر شيطان بھي اسي طريقہ سے اپني حالت پر توجہ كرتا تو خداوندعالم كي بارگاہ سے مردود نہ ھوتا اوراس كے گلے ميں ھميشہ كے لئے لعنت كا طوق نہ ڈالا جاتا۔جناب آدم و حوا علىھماالسلام غور و فكر او رانديشہ، تعقل، توجہ، بينائي اور بيدارى كي معنوي اور قيمتي فضاء ميں وارد ھوئے، ندامت و پشيمانى اور اشك چشم كے ساتھ اس طرح ادب اور خاكساري دكھائي كہ يہ نھيں كھا كہ: ”اِغْفِرْ لَنَا“، بلكہ خدا كي بارگاہ ميں عرض كيا: ((وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا))اگر ھميں نھيں بخشے گا اور ھم پر رحم نہ كرے گا (( لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ۔)) 107 تو ھم خسارہ اٹھانے والوں ميں ھوجائيں گے۔
اس توجہ، بيدارى، تواضع و انكسارى، ندامت و پشيمانى، گريہ و توبہ اور خودي سے نكل كر خدائي بن جانے كي بنا پر ھي رحمت خدا كے دروازے كھل گئے، خدائے مھربان كا لطف و كرم شامل حال ھوا اور خدا كي عنايت و توجہ نے بڑھ كر استقبال كيا:
((فَتَلَقَّي آدَمُ مِنْ رَبِّہِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيہِ إِنَّہُ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيم)) 108
”پھر آدم نے پروردگار سے كلمات كي تعليم حاصل كي اور ان كي بر كت سے خدانے ان كي توبہ قبول كر لي كہ وہ توبہ قبول كرنے والا اور مھربان ھے “۔
نور ربوبيت نے كلمات ميں تجلي كي اور جناب آدم كي روح نے درك كيا، اس تينوں حقيقت يعني نور ربوبي كي تجلى، كلمات اور روح آدم كي ھم آہنگي كے سبب ھي توبہ وجود ميں آئى، وہ توبہ جس نے ماضي كا تدارك كرديا، اور توبہ كرنے والوں كے مستقبل كو روشن اور تابناك بناديا۔
حضرت امام باقر علىہ السلام سے روايت ھے كہ جن كلمات كے ذريعہ جناب آدم علىہ السلام كي توبہ قبول ھوئي وہ كلمات يہ تھے:
”اَللّٰھُمَّ، لا اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ، سُبْحانَكَ وَ بِحَمْدِكَ، رَبِّ اِنّي ظَلَمْتُ نَفْسى، فَاغْفِرْلِى، اِنَّكَ خَيرُ الْغٰافِرِينَ ۔اَللّٰھُمَّ، لا اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ، سُبْحانَكَ وَ بِحَمْدِكَ، رَبِّ اِنّي ظَلَمْتُ نَفْسى، فَارْحَمْني اِنَّكَ خَيرُالرّاحِمينَ ۔اَللّٰھُمَّ، لا اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ، سُبْحانَكَ وَ بِحَمْدِكَ، رَبِّ اِنّي ظَلَمْتُ نَفْسى فَتُبْ عَلَي اِنَّكَ اَنْتَ التَّوّابُ الرَّحيمُ“۔109
”پالنے والے! تو پاك و پاكيزہ ھے ميں تيري حمد كرتا ھو ںتيرے علاوہ كوئي خدا نھيں ھے، پالنے والے ميں نے اپنے نفس پر ظلم كيا، لہٰذا مجھے معاف كردے، كيونكہ تو بھترين معاف كرنے والا ھے، تيرے علاوہ كوئي خدا نھيں ھے، تو پاك و پاكيزہ ھے، ميں تيري حمد كرتا ھو ں، پالنے والے ! ميں نے اپنے نفس پر ظلم كيا تو ميرے اوپر رحم فرما كہ تو بھترين رحم كرنے والا ھے، پالنے والے! تيرے علاوہ كوئي خدا نھيں ھے، تو پاك و پاكيزہ ھے ميں تيري حمد كرتا ھو ں، ميں نے اپنے نفس پر ظلم كيا، تو ميري توبہ كو قبول كرے كيونكہ تو بھت زيادہ توبہ قبول كرنے والا اور مھربان ھے“۔
اس سلسلے ميں يہ روايت بھي ملتي ھے : جناب آدم (عليہ السلام )نے عرش الٰھي پر چند عظيم الشان اسماء لكھے ديكھے، تو انھوں نے ان كے بارے ميں سوال كيا تو آواز آئى: يہ كلمات مقام و منزلت كے اعتبار سے تمام موجودات عالم پر فضيلت ركھتے ھيں: اور وہ ھيں:
محمد، على، فاطمہ، حسن و حسين (عليھم السلام)، جناب آدم نے اپني توبہ كے قبول ھونے اور اپنے مقام كي بلندي كے لئے ان اسماء گرامي كي حقيقت سے توسل كيا اور ان اسماء كي بركت سے جناب آدم (عليہ السلام) كي توبہ قبول ھوگئي۔110
جي ھاں! جيسے ھي كلمات كي تجليات كے لئے خداوندعالم كے الھامات كي بارش جناب آدم كے دانہٴ عشق و محبت پربرسى، تو اپنے نفس پر ظلم كے اقرار و اعتراف كا پودا اُگ آيا، جناب آدم نے دعا و گريہ اور استغاثہ كيا، احساس گناہ كا درخت ان كي روح ميں تناور ھوگيا اور اس پر توبہ كا پھول كھل اٹھا:
((ثُمَّ اجْتَبَاہُ رَبُّہُ فَتَابَ عَلَيہِ وَہَدَي))۔ 111
”پھر خدا نے انھيں چن ليااوران كي توبہ قبول كرلي اور انھيں راستہ پرلگاديا“۔

كيا كياچيزيں گناہ ھيں ؟
حضرت امام صادق علىہ السلام ”توبہ نامہ “كے عنوان سے بھترين و خوبصورت كلام بيان فرماتے ھيں، جس ميں ان گناھوں كي طرف بھي اشارہ كيا گيا ھے كہ جن سے توبہ كرناواجب فورى، واجب شرعي اور واجب اخلاقي ھے، اور اگر ان گناھوں كا تدارك نہ كيا گيا اور حقيقي توبہ كے ذريعہ اپنے نامہ اعمال كو دھويانہ گيا تو روز قيامت عذاب الٰھي اور دردناك انجام سے دوچار ھونا پڑے گا، امام علىہ السلام گناھوں كو اس طرح بيان كرتے ھيں:
”واجبات الٰھي كا ترك كرنا، حقوق الٰھي جيسے نماز، روزہ، زكوٰة، جھاد، حج، عمرہ، وضوء، غسل، عبادت شب، كثرت ذكر، كفارہ قسم، مصيبت ميں كلمہ استرجاع كہنا، (انا لله و انا اليہ راجعون) وغيرہ سے غفلت كرنا، اور اپنے واجب و مستحب اعمال ميں كوتاھي ھونے كے بعد ان سے روگرداني كرنا۔
گناھان كبيرہ كا مرتكب ھونا، معصيت الٰھي كي طرف رغبت ركھنا، گناھوں كا انجام دينا، بري چيزوں كو اپنانا، شھوات ميں غرق ھونا، كسي خطا كو اپنے ذمہ لينا، غرض يہ كہ عمدي يا غلطي كي بنا پر ظاھري اور مخفي طور پر معصيت خدا كرنا۔
كسي كا ناحق خون بھانا، والدين كا عاق ھونا، قطع رحم كرنا، ميدان جنگ سے فرار كرنا، باعفت شخص پر تھمت لگانا، ناجائز طريقہ سے يتيم كا مال كھانا، جھوٹي گواھي دينا، حق كي گواھي سے كترانا، دين فروشى، ربا خورى، خيانت، مال حرام، جادو، ٹوٹا، غيب كي باتيں گڑھنا، نظر بد ڈالنا، شرك، ريا، چورى، شراب خورى، كم تولنا اور كم ناپنا، ناپن تول ميں خيانت كرنا، كينہ و دشمنى، منافقت، عہد و پيمان توڑدينا، خوامخواہ الزام لگانا، فريب اور دھوكہ دينا، اھل ذمہ سے كيا ھوا عہدو پيمان توڑنا، قسم، غيبت كرنايا سننا، چغلي كرنا، تھمت لگانا، دوسروں كي عيب تلاش كرنا، دوسروں كو بُرا بھلا كہنا، دوسروں كو بُرے ناموںسے پكارنا، پڑوسي كو اذيت پہچانا، دوسروں كے گھروں ميں بغير اجازت كے داخل ھونا، اپنے اوپر بلا وجہ فخر و مباھات كرنا، گناھوں پر اصرار كرنا، ظالموں كا ھمنوا بننا، تكبر كرنا غرور سے چلنا، حكم دينے ميں ستم كرنا، غصہ كے عالم ميں ظلم كرنا، كينہ و حسد ركھنا، ظالموںكي مدد كرنا، دشمني اور گناہ ميں مدد كرنا، اھل و عيال اور مال كي تعداد ميں كمي كرنا، لوگوں سے بدگماني كرنا، ھوائے نفس كي اطاعت كرنا، شھوت پرستى، برائيوں كا حكم دينا، نيكيوں سے روكنا، زمين پر فتنہ و فساد پھيلانا، حق كا انكار كرنا، ناحق كاموں ميں ستمگروں سے مدد لينا، دھوكا دينا، كنجوسي كرنا، نہ جاننے والي چيز كے بارے ميں گفتگو كرنا، خون اور يا سور كا گوشت كھانا، مردار يا غير ذبيحہ جانور كا گوشت كھانا، حسد كرنا، كسي پر تجاوز كرنا، بري چيزوں كي دعوت دينا، خدا كي نعمتوں پر مغرور ھونا، خودغرضي دكھانا، احسان جتانا، قرآن كا انكار كرنا، يتيم كو ذليل كرنا، سائل كو دھتكارنا، قسم توڑنا، جھوٹي قسم كھانا، دوسروں كي ناموس اور مال پر ھاتھ ڈالنا، برا ديكھنا، برا سننا اور برا كہنا، كسي كو بري نظر سے چھونا، دل ميں بُري بُري باتيں سوچنااور جھوٹي قسم كھانا“۔112
واجب چيزوں كو ترك كرنا اور حرام چيزوں كا مرتكب ھونا، حضرت امام صادق علىہ السلام كے اس ملكوتي كلام ميں يہ سب باتيں گناہ كے عنوان سے بيان ھوئي ھيں جن سے توبہ كرنا ”واجب فوري“ ھے۔

گناھوں كے برے آثار
قرآن مجيد كي آيات اور اھل بيت علىھم السلام كي تعليمات كے پيش نظر دنيا و آخرت ميں گناھوںكے برُے آثارنماياں ھوتے ھيں كہ اگر گناھگار اپنے گناھوں سے توبہ نہ كرے تو بے شك ان كے برے آثار ميں گرفتار ھوجاتا ھے۔
((بَلَي مَنْ كَسَبَ سَيئَةً وَاٴَحَاطَتْ بِہِ خَطِيئَتُہُ فَاٴُوْلَئِكَ اٴَصْحَابُ النَّارِ ھم فِيھا خَالِدُونَ))۔ 113
”يقينا جس نے كوئي برائي كي اور اس كي غلطي نے اسے گھير ليا، تو ايسے لوگوں كے لئے جہنم ھے اور وہ اس ميں ھميشہ رہنے والے ھيں “۔
((قُلْ ھل نُنَبِّئُكُمْ بِالْاٴَخْسَرِينَ اٴَعْمَالًا۔ الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيھم فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَھم يحْسَبُونَ اٴَنَّھم يحْسِنُونَ صُنْعًا ۔ اٴُولَئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآياتِ رَبِّھم وَلِقَائِہِ فَحَبِطَتْ اٴَعْمَالُھم فَلاَنُقِيمُ لَھم يوْمَ الْقِيامَةِ وَزْنًا))۔ 114
”اے پيغمبر كيا ھم تمھيں ان لوگوں كے بارے ميں اطلا ع ديں جو اپنے اعمال ميں بدترين خسارہ ميں ھيں يہ وہ لوگ ھيں جن كي كوشش زندگاني ٴ دنيا ميں بہك گئي ھے اور يہ خيال كرتے ھيں كہ يہ اچھے اعمال انجا م ديں رھے رھيں، يھي وہ لوگ ھيںجنھوں نے آيات پروردگار اور اس كي ملاقات كا انكار كيا، ان كے اعمال برباد ھو گئے ھيں اور ھم قيامت كے دن ان كے لئے كوئي وزن قائم نھيں كريں گے “۔
((فِي قُلُوبِھم مَرَضٌ فَزَادَھم اللهُ مَرَضًا وَلَھم عَذَابٌ اٴَلِيمٌ۔۔۔))۔ 115
”ان كے دلوں ميں بيماري ھے اور خدا نے نفاق كي بنا پر اسے اور بھي بڑھا ديا ھے، اب اس جھوٹ كے نتيجہ ميں دردناك عذاب ملے گا۔۔۔“۔
((فَتَرَي الَّذِينَ فِي قُلُوبِھم مَرَضٌ يسَارِعُونَ فِيھم۔۔۔))۔116
”اے پيغمبر آپ ديكھيں گے كہ جن كے دلوں ميں نفاق كي بيماري ھے وہ دوڑ دوڑ كر ان كي طرف جا رھے ھيں“۔
((وَاٴَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِھم مَرَضٌ فَزَادَتْھم رِجْسًا إِلَي رِجْسِھم۔۔۔))۔ 117
”اور جن كے دلوں ميں مرض ھے ان كے مرض ميں مزيد اضافہ ھوجاتا ھے اور وہ كفر ھي كي حالت ميں مر جاتے ھيں“۔
((إِنَّ الَّذِينَ ياٴْكُلُونَ اٴَمْوَالَ الْيتَامَي ظُلْمًا إِنَّمَا ياٴْكُلُونَ فِي بُطُونِھم نَارًا وَسَيصْلَوْنَ سَعِيرًا))۔ 118
”جو لوگ يتيموں كا مال ناحق كھا جاتے ھيں وہ در حقيقت اپنے پيٹ ميں آگ بھر رھے ھيں اور وہ عنقريب واصل جہنم ھوں گے “۔
مذكورہ آيہ اور اس سے ملتي جلتي آيتوں كي بناپر بعض محققين كا عقيدہ ھے كہ روز قيامت گناھگاروں كو ملنے والا عذاب يھي اس كے گناہ ھوں گے، يعني يھي انسان كے گناہ ھوں گے جو روز قيامت دردناك عذاب كي شكل ميں ظاھر ھوں گے، اور گناھگار كو ھميشہ كے لئے اپنا اسير بناكر عذاب ميں مبتلا ركھيںگے۔
((إِنَّ الَّذِينَ يكْتُمُونَ مَا اٴَنزَلَ اللهُ مِنْ الْكِتَابِ وَيشْتَرُونَ بِہِ ثَمَنًا قَلِيلًا اٴُوْلَئِكَ مَا ياٴْكُلُونَ فِي بُطُونِھم إِلاَّ النَّارَ وَلاَيكَلِّمُھم اللهُ يوْمَ الْقِيامَةِ وَلاَيزَكِّيھم وَلَھم عَذَابٌ اٴَلِيمٌ۔ اٴُوْلَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوْا الضَّلاَلَةَ بِالْہُدَي وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ فَمَا اٴَصْبَرَھم عَلَي النَّارِ))۔ 119
”جو لوگ خدا كي نازل كي ھوئي كتاب كے احكام كو چھپاتے ھيںاور اسے تھوڑي قيمت پر بيچ ڈالتے ھيں وہ درحقيقت اپنے پيٹ ميں صرف آگ بھر رھے ھيں اور خدا، روز قيامت ان سے بات بھي نہ كرے گا اور نہ ان كا تذكيہ كرے گا (بلكہ) ان كے لئے دردناك عذاب قرار دے گا۔يھي وہ لوگ ھيں جنھوں نے گمراھي كو ہدايت كے عوض اور عذاب كو مغفرت كے عوض خريد ليا ھے، آخر يہ آتش جہنم پر كتنا صبر كريں گے “۔
(( مَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّھم اٴَعْمَالُھم كَرَمَادٍ اشْتَدَّتْ بِہِ الرِّيحُ فِي يوْمٍ عَاصِفٍ لاَيقْدِرُونَ مِمَّا كَسَبُوا عَلَي شَيءٍ ذَلِكَ ہُوَ الضَّلَالُ الْبَعِيدُ))۔ 120
”جن لوگوں نے اپنے پروردگار كا انكار كيا ان كے اعمال كي مثال اس راكھ كي مانند ھے جسے آندھي كے دن كي تند ھوا اڑا لے جائے كہ وہ اپنے حاصل كئے ھوئے پر بھي كوئي اختيار نھيں ركھتے اور يھي بھت دور تك پھيلي ھوئي گمراھي ھے“۔
لہٰذا اس طرح كي آيات سے نتيجہ نكلتا ھے كہ گناھوں كے بُرے آثار اس سے كھيں زيادہ ھيں، مثلاً:
آتش جہنم ميں جلنا، عذاب كا ابدي ھونا، دنيا و آخرت ميںنقصان اور خسارہ ميں رہنا، انسان كي ساري زحمتوں پر پاني پھرجانا، روز قيامت (نيك) اعمال كا حبط (يعني ختم) ھوجانا، روز قيامت اعمال كي ميزان قائم نہ ھونا، توبہ نہ كرنے كي وجہ سے گناھوں ميں اضافہ ھونا، دشمنان خدا كي طرف دوڑنا، انسان سے خدا كا تعلق ختم ھوجانا، قيامت ميں تزكيہ نہ ھونا، ہدايت كا گمراھي سے بدل جانا، مغفرت الٰھي كے بدلہ عذاب الٰھي كا مقرر ھونا۔
حضرت امام زين العابدين علىہ السلام ايك تفصيلي روايت ميں گناھوں كے برے آثار كے بارے ميں اس طرح ارشاد فرماتے ھيں:
جن گناھوں كے ذريعہ نعمتيں تبديل ھوجاتي ھيں:
عوام الناس پرظلم و ستم كرنا، كار خير كي عادت چھوڑ دينا، نيك كام كرنے سے دوري كرنا، كفران نعمت كرنا اور شكر الٰھي چھوڑ دينا۔
جو گناہ ندامت اور پشيماني كے باعث ھوتے ھيں:
قتل نفس، قطع رحم، وقت ختم ھونے تك نماز ميں تاخير كرنا، وصيت نہ كرنا، لوگوں كے حقوق ادا نہ كرنا، زكوٰة ادانہ كرنا، يھاں تك كہ اس كي موت كا پيغام آجائے اور اس كي زبان بند ھوجائے۔
جن گناھوں كے ذريعہ نعمتيں زائل ھوجاتي ھيں:
جان بوجھ كر ستم كرنا، لوگوں پر ظلم و تجاوز كرنا، لوگوں كا مذاق اڑانا، دوسرے لوگوں كو ذليل كرنا۔
جن گناھوں كے ذريعہ انسان تك نعمتيں نھيں پہنچتيں:
اپني محتاجگي كا اظھار كرنا، نماز پڑھے بغير رات كے ايك تھائي حصہ ميں سونا يھاں تك كہ نماز كا وقت نكل جائے، صبح ميں نماز قضا ھونے تك سونا، خدا كي نعمتوں كو حقير سمجھنا، خداوندعالم سے شكايت كرنا۔
جن گناھوں كے ذريعہ پردہ اٹھ جاتا ھے:
شراب پينا، جوا كھيلنا يا سٹہ لگانا، مسخرہ كرنا، بيھودہ كام كرنا، مذاق اڑانا، لوگوں كے عيوب بيان كرنا، شراب پينے والوں كي صحبت ميںبيٹھنا۔
جو گناہ نزول بلاء كا سبب بنتے ھيں:
غم زدہ لوگوں كي فرياد رسي نہ كرنا، مظلوموں كي مدد نہ كرنا، امر بالمعروف اور نھي عن المنكر جيسے الٰھي فريضہ كا ترك كرنا۔
جن گناھوں كے ذريعہ دشمن غالب آجاتے ھيں:
كھلے عام ظلم كرنا، اپنے گناھوں كو بيان كرنا، حرام چيزوں كو مباح سمجھنا، نيك و صالح لوگوں كي نافرماني كرنا، بدكاروں كي اطاعت كرنا۔
جن گناھوں كے ذريعہ عمر گھٹ جاتي ھے:
قطع تعلق كرنا، جھوٹي قسم كھانا، جھوٹي باتيں بنانا، زناكرنا، مسلمانوں كا راستہ بند كرنا، ناحق امامت كا دعويٰ كرنا۔
جن گناھوں كے ذريعہ اميدٹوٹ جاتي ھے:
رحمت خدا سے نااميدھونا، لطف خدا سے زيادہ مايوس ھونا، غير حق پر بھروسہ كرنا اور خداوندعالم كے وعدوں كو جھٹلانا۔
جن گناھوں كے ذريعہ انسان كا ضمير تاريك ھوجاتا ھے:
سحر و جادو اور غيب كي باتيں كرنا، ستاروں كو موثر ماننا، قضا و قدر كو جھٹلانا، عقوق والدين ھونا۔
جن گناھوں كے ذريعہ (احترام كا) پردہ اٹھ جاتا ھے:
واپس نہ دينے كي نيت سے قرض لينا، فضول خرچي كرنا، اھل و عيال اور رشتہ داروں پر خرچ كرنے ميں بخل كرنا، بُرے اخلاق سے پيش آنا، بے صبري كرنا، بے حوصلہ ھونا، اپنے كو كاھل جيسا بنانااوراھل دين كو حقير سمجھنا۔
جن گناھوں كے ذريعہ دعا قبول نھيں ھوتى:
بري نيت ركھنا، باطن ميں برا ھونا، ديني بھائيوں سے منافقت كرنا، دعا قبول ھونے كا يقين نہ ركھنا، نماز ميں تاخير كرنا يھاں تك كہ اس كا وقت ختم ھوجائے، كار خير اور صدقہ كو ترك كركے تقرب الٰھي كو ترك كرنا اور گفتگو كے دوران نازيبا الفاظ استعمال كرنا اور گالي گلوچ دينا۔
جو گناہ باران رحمت سے محرومي سبب بنتے ھيں:
قاضي كاناحق فيصلہ كرنا، ناحق گواھي دينا، گواھي چھپانا، زكوٰة اور قرض نہ دينا، فقيروں اور نيازمندوں كي نسبت سنگدل ھونا، يتيم اورضرورت مندوں پر ستم كرنا، سائل كو دھتكارنا، رات كي تاريكي ميں كسي تھي دست اور نادار كو خالي ھاتھ لوٹانا۔ 121
حضرت امير المومنين علىہ السلام گناھوں كے سلسلے ميں فرماتے ھيں:
”لَوْ لَمْ يتَوَعَّدِ اللّٰہُ عَلٰي مَعْصِيتِہِ لَكانَ يجِبُ اٴن لا يعْصيٰ شُكْراً لِنِعَمِہِ:“ 122
”اگر خداوندعالم نے اپنے بندوں كو اپني مخالفت پر عذاب كا وعدہ نہ ديا ھوتا، تو بھي اس كي نعمت كے شكرانے كے لئے واجب تھا كہ اس كي معصيت نہ كي جائے“۔
قارئين كرام! خداوندعالم كي بے شمار نعمتوں كے شكركي بنا پر ھميں چاہئے كہ ھر طرح كي معصيت اور گناہ سے پرھيز كريں اور اپنے بُرے ماضي كي بدلنے كے لئے خداوندعالم كي بارگاہ ميں توبہ و استغفار كريں كيونكہ توبہ استغفار كي بنا پر خداوندعالم كي رحمت و مغفرت اور اس كا لطف و كرم انسان كے شامل حال ھوتا ھے۔

حقيقي توبہ كا راستہ
توبہ (يعني خداوندعالم كي رحمت و مغفرت اور اس كي رضا و خوشنودي تك پہنچنا، جنت ميں پھونچنے كي صلاحيت كا پيدا كرنا، عذاب جہنم سے امان ملنا، گمراھي كے راستہ سے نكل آنا، راہ ہدايت پر آجانا اور انسان كے نامہ اعمال كا ظلمت و سياھي سے پاك و صاف ھوجانا ھے)؛ اس كے اھم آثار كے پيش نظريہ كھا جاسكتا ھے كہ توبہ ايك عظيم مرحلہ ھے، توبہ ايك بزرگ پروگرام ھے، توبہ عجيب و غريب حقيقت ھے اور ايك روحاني اور آسماني واقعيت ھے ۔
لہٰذا فقط ”استغفر الله“ كہنے، يا باطني طور پر شرمندہ ھونے اور خلوت و بزم ميں آنسو بھانے سے توبہ حاصل نھيں ھوتى، كيونكہ جولوگ اس طرح توبہ كرتے ھيں وہ كچھ اس مدت كے بعد دوبارہ گناھوں كي طرف پلٹ جاتے ھيں!
گناھوں كي طرف دوبارہ پلٹ جانا اس چيز كي بھترين دليل ھے كہ حقيقي طور پر توبہ نھيں ھوئي اور انسان حقيقي طور پر خدا كي طرف نھيں پلٹا ھے۔
حقيقي توبہ اس قدر اھم اور باعظمت ھے كہ قرآن كريم كي بھت سي آيات اور الٰھي تعليمات اس سے مخصوص ھيں۔

امام على علىہ السلام كي نظر ميں حقيقي توبہ
امام على علىہ السلام نے اس شخص كے بارے ميں فرمايا جس نے زبان پر ”استغفر الله“ جاري كيا تھا:
اے شخص ! تيري ماں تيرے سوگ ميں بيٹھے، كيا تو جانتا ھے كہ توبہ كيا ھے؟ ياد ركھ توبہ علّيين كا درجہ ھے، جو ان چھ چيزوں سے مل كر محقق ھوتا ھے:
1۔ اپنے ماضي پر شرمندہ اور پشيمان ھونا۔
2۔ دوبارہ گناہ نہ كرنے كا مستحكم ارادہ كرنا۔
3۔ لوگوں كے حقوق كاادا كرنا۔
4۔ ترك شدہ واجبات كو بجالانا۔
5۔ گناھوں كے ذريعہ پيدا ھونے والے گوشت كواس قدر پگھلادينا كہ ہڈيوں پر گوشت باقي نہ رہ جائے، اور حالت عبادت ميں ہڈيوں پر گوشت پيدا ھو۔
6۔ بدن كو اطاعت كي تكليف ميں مبتلا كرنا جس طرح گناہ كا مزہ چكھا ھے۔
لہٰذا ان چھ مرحلوں سے گزرنے كے بعد ”استغفر الله“ كہنا۔ 123
جي ھاں، توبہ كرنے والے كو اس طرح توبہ كرنا چاہئے، گناھوں كو ترك كرنے كا مصمم ارادہ كرلے، گناھوں كي طرف پلٹ جانے كا ارادہ ھميشہ كے لئے اپنے دل سے نكال دے، دوسرى، تيسري بار توبہ كي اميد ميں گناھوں كو انجام نہ دے، كيونكہ يہ اميد بے شك ايك شيطاني اميد اور مسخرہ كرنے والي حالت ھے، حضرت امام رضا علىہ السلام ايك روايت كے ضمن ميں فرماتے ھيں:
”مَنِ اسْتَغْفَرَ بِلِسانِہِ وَلَمْ ينْدَمْ بِقَلْبِہِ فَقَدِ اسْتَھْزَاٴ بِنَفْسِہِ۔۔۔“ 124
”جو شخص زبان سے توبہ و استغفار كرے ليكن دل ميں پشيماني اور شرمندگى نہ ھو تو گويا اس نے خود كا مذاق اڑاياھے!“
واقعاً يہ ہنسي كا مقام اور افسوس كي جگہ ھے كہ انسان دوا او رعلاج كي اميد ميں خود كو مريض كرلے، واقعاً انسان كس قدر خسارہ ھے كہ وہ توبہ كي اميد ميں گناہ و معصيت كا مرتكب ھوجائے، اور خود كو يہ تلقين كرتا رھے كہ ھميشہ توبہ كا دروازہ كُھلا ھوا ھے، لہٰذا اب گناہ كرلوں، لذت حاصل كرلوں !! بعد ميں توبہ كرلوں گا!
اگر حقيقي طور پر توبہ كي جائے اور اگر تمام شرائط كے ساتھ توبہ ھوجائے، تو پھر انسان كي روح يقينا پاك ھوجاتي ھے نفس ميں پاكيزگي اور دل ميں صفا پيدا ھوجاتي ھے، اور انسان كے اعضاء و جوارح نيز ظاھر و باطن سے گناھوں كے آثار ختم ھوجاتے ھيں۔
توبہ بار بار نھيں ھونا چاہئے كيونكہ گناہ ظلمت و تاريكي اور توبہ نور و روشني كا نام ھے، اندھيرے اور روشني ميں زيادہ آمد و رفت سے روح كي آنكھيں خراب ھوجاتي ھيں۔ اگر كوئي گناہ سے توبہ كرنے كے بعد دوبارہ پھر اسي گناہ سے ملوث ھوجائيں تو معلوم ھوتا ھے كہ توبہ ھي نھيں كي گئي ھے، (يا مكمل شرائط كے ساتھ توبہ نھيں ھوئي ھے۔)
انساني نفس جہنم كے منھ كي طرح ھے جو كبھي بھرنے والا نھيں ھے، اسي طرح انساني نفس گناھوں سے نھيں تھكتا، اس كے گناھوں ميں كمي نھيں ھوتى، جس كي وجہ سے انسان خدا سے دور ھوتا چلا جاتا ھے لہٰذا اس تنوركے دروازہ كو توبہ كے ذريعہ بند كيا جائے اور اس عجيب و غريب غير مرئي موجود كي سركشي كو حقيقي توبہ كے ذريعہ باندھ لياجائے۔
توبہ؛ انساني حالت ميں انقلاب اور دل و جان كے تغير كا نام ھے، اس انقلاب كے ذريعہ انسان گناھوں كي طرف كم مائل ھوتا ھے اور خداوندعالم سے ايك مستحكم رابطہ پيدا كرليتا ھے۔
توبہ؛ ايك نئي زندگي كي ابتداء ھوتي ھے، معنوي اور ملكوتي زندگي جس ميں قلب انسان تسليم خدا، نفس انسان تسليم حسنات ھوجاتا ھے اور ظاھر و باطن تمام گناھوں كي گندگي اور كثافتوں سے پاك ھوجاتا ھے۔
توبہ؛ يعني ھوائے نفس كے چراغ كو گُل كرنا اور خدا كي مرضي كے مطابق اپنے قدم اٹھانا۔
توبہ؛ يعني اپنے اندر كے شيطان كي حكومت كو ختم كرنا اور اپنے نفس پر خداوندعالم كي حكومت كا راستہ ھموار كرنا۔

ھر گناہ كے لئے مخصوص توبہ
بعض لوگوں كا خيال ھے كہ اگر خدا كي بارگاہ ميں اپنے مختلف گناھوں كے سلسلہ ميں استغفار كرليا جائے اور ”استغفرالله ربي و اتوب اليہ“ زبان پر جاري كرلياجائے، يا مسجد اور ائمہ معصومين علىھم السلام كے روضوں ميں ايك زيارت پڑھ لي جائے يا چند آنسو بھالئے جائيں تو اس كے ذريعہ توبہ ھوجائے گى، جبكہ آيات وروايات كي نظر ميں اس طرح كي توبہ مقبول نھيں ھے، اس طرح كے افراد كو توجہ كرنا چاہئے كہ ھر گناہ كے اعتبار سے توبہ بھي مختلف ھوتي ھے، ھر گناہ كے لئے ايك خاص توبہ مقرر ھے كہ اگر انسان اس طرح توبہ نہ كرے تو اس كا نامہ اعمال گناہ سے پاك نھيں ھوگا، اور اس كے بُرے آثار قيامت تك اس كي گردن پر باقي رھيں گے، اور روز قيامت اس كي سزا بھگتنا پڑے گي۔
اور ان تمام گناھوں كو تين حصوں ميں تقسيم كيا جاسكتا ھے:
1۔ عبادت اور واجبات كو ترك كرنے كي صورت ميں ھونے والے گناہ، جيسے نماز، روزہ، زكوٰة، خمس اور جھاد وغيرہ كو ترك كرنا۔
2۔ خداوند عالم كے احكام كي مخالفت كرتے ھوئے گناہ كرناجن ميں حقوق الناس كا كوئي دخل نہ ھو، جيسے شراب پينا، نامحرم عورتوں كو ديكھنا، زنا، لواط، استمناء، جُوا، حرام ميوزيك سننا وغيرہ ۔
3۔ وہ گناہ جن ميں فرمان خدا كي نافرماني كے علاوہ لوگوں كے حقوق كو بھي ضايع كيا گيا ھو، جيسے قتل، چورى، سود، غصب، مالِ يتيم ناحق طور پر كھانا، رشوت لينا، دوسروں كے بدن پر زخم لگانا يا لوگوں كو مالي نقصان پہچانا وغيرہ وغيرہ۔
پھلي قسم كے گناھوںكي توبہ يہ ھے كہ انسان تمام ترك شدہ اعمال كو بجالائے، چھوٹي ھوئي نماز پڑھے، چھوٹے ھوئے روزے ركھے، ترك شدہ حج كرے، اور اگر خمس و زكوٰة ادانھيں كيا ھے تو ان كو ادا كرے۔
دوسري قسم كے گناھوں كي توبہ يہ ھے كہ انسان شرمندگى كے ساتھ استغفار كرے اور گناھوں كے ترك كرنے پر مستحكم ارادہ كرلے، اس طرح كہ انسان كے اندر پيدا ھونے والا انقلاب اعضاء و جوارح كو دوبارہ گناہ كرنے سے روكے ركھے۔
تيسري قسم كے گناھوں كي توبہ يہ ھے كہ انسان لوگوں كے پاس جائے اور ان كے حقوق كي ادائيگي كرے، مثلاً قاتل، خود كو مقتول كے ورثہ كے حوالے كردے، تاكہ وہ قصاص يا مقتول كا ديہ لے سكيں، يا اس كو معاف كرديں، سود خورتمام لوگوں سے لئے ھوئے سود كے حوالے كردے، غصب كرنے والا ان چيزوں كو ان كے مالك تك پھونچادے، مال يتيم اور رشوت ان كے مالكوں تك پہنچائے، كسي كو زخم لگايا ھے تو اس كا ديہ ادا كرے، مالي نقصان كي تلافي كرے، پس حقيقي طور پر توبہ قبول ھونے كے تين مذكورہ تين چيزوں پر عمل كرنا ضروري ھے۔

1۔ شيطان
لفظ شيطان اور ابليس قرآن مجيد ميں تقريباً 98 بار ذكر ھوا ھے، جو ايك خطرناك اور وسوسہ كرنے والا موجود ھے، جس كا مقصد صرف انسان كو خداوندعالم كي عبادت و اطاعت سے روكنا اور گناہ و معصيت ميں غرق كرنا ھے۔
قرآن مجيد ميں گمراہ كرنے والے انسان اور دكھائي نہ دينے والا وجودجو انسان كے دل ميں وسوسہ كرتا ھے، ان كو شيطان كھا گيا ھے۔
شيطان، ” شطن“ اور ”شاطن“ كے مادہ سے ماخوذھے اور خبيث، ذليل، سركش، متمرد، گمراہ اور گمراہ كرنے كے معني ميں آيا ھے، چاھے يہ انسانوں ميں سے ھو يا جنوں ميں سے۔
قرآن مجيد اور اس كي تفسير و توضيح ميں حضرت رسول اكرم صلي اللہ علىہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومين علىھم السلام سے بيان ھونے والي احاديث وروايات ميں شيطان جنّ وانس كي خصوصيات كو اس طرح سے بيان كيا گيا ھے:
قسم كھايا ھوا اور كھلم كھلا دشمن، برائي اور فحشاء و منكر كا حكم كرنے والا، خداوندعالم كي طرف ناروا نسبت دينے والا، صاحبان حيثيت كو ڈرانے والا كہ كھيں نيك كام ميںخرچ كرنے سے فقير نہ بن جائيں، انسانوں كو لغزشوں ميں ڈالنے والا، گمراھي ميں پھنسانے والا تاكہ لوگ سعادت و خوشبختي سے كوسوں دور چلے جائيں، شراب پلانے كا راستہ ھموار كرنے والا، جوا كھيلنے، حرام شرط لگانے اور لوگوں كے دلوں ميں ايك دوسرے كي نسبت كينہ و دشمنى ايجاد كرنے والا، برے كام كو اچھا بناكر پيش كرنے والا، جھوٹے وعدے دينے والا، انسان ميں غرور پيدا كرنے والا، اور اسے ذلت كي طرف ڈھكيلنے والا، راہ حق ميں ركاوٹ پيدا كرنے اور جہنم ميں پہنچانے والے كاموں كي دعوت دينے والا، مياں بيوي كو طلاق كي منزل تك پہنچانے والا، لوگوںميں گناھوں اور برائيوںكا راستہ فراھم كرنے او رانھيں دنيا كا اسير بنانے والا، انسان كو توبہ كي اميد ميں گناھوں پر اُكسانے والا، خودپسندي ايجاد كرنے والا، بخل، غيبت، جھوٹ اور شھوت كو تحريك كرنے والا، كھلم كھلا گناہ كرنے كي ترغيب كرنے والا، غصہ اور غضب كو بھڑكانے والا۔
جب تك انسان شياطين جن و انس كے جال ميں پھنسا رھتا ھے تو پھر وہ حقيقي طور پر توبہ نھيں كرسكتا، كيونكہ جب تك اس كے دل پر شيطان كي حكومت رھے گى، تو توبہ كے بعد شيطان پھر گناہ كرنے كے لئے وسوسہ پيدا كردے گا، اور توبہ كے ذريعہ كئے گئے عہد كو توڑنے اور اپني اطاعت كرنے پر مجبور كردے گا۔
توبہ كرنے والے كو چاہئے كہ خداوندعالم سے توفيق طلب كرتے ھوئے گناھوں سے ھميشہ پرھيز كرے اور شيطان سے سخت بيزار رھے، تاكہ آہستہ آہستہ اس خبيث وجود كے نفوذ كو اپنے وجود سے ختم كردے، اور اس كي حكومت كا بالكل خاتمہ كردے، تاكہ انسان كے دل ميںتوبہ و استغفار كي حقيقت باقي رھے، اور اس نوراني عہدو پيمان كو ظلمت كے حملے توڑ نہ سكےں۔

2۔ دنيا
تمام مادي عناصر اور انساني زندگي كي ضروري اشياء سے رابطہ ھي انسان كي دنيا ھے۔
اگر يہ رابطہ خداوندعالم كي مرضي كے مطابق ھو تو بے شك انسان كي يہ دنيا قابل حمد و ثنا ھے، اور اُخروي سعادت كي ضامن ھے، ليكن اگر انسان كا يھي رابطہ مادي اور ھوائے نفس كي بنا پر ھو جھاں پر كسي طرح كي كوئي حد و حدود نہ ھو تو اس وقت انسان كي يہ دنيا مذموم اور آخرت ميں ذلت كا باعث ھوگي۔
بے شك اگر ھوائے نفس كي بنياد اور بے لگام خواہشات كے ساتھ مادي چيزوں سے لگاؤ ھو تو يقينا انسان گناھوں كے دلدل ميں پھنس جاتا ھے۔
اسي ناجائز رابطہ كي بنا پر انسان شھوت اور مال و دولت كا عاشق بن جاتا ھے، اور اس راستہ كے ذريعہ خدا كے حلال و حرام كي مخالفت كرتا ھوا نظر آتا ھے۔
اس طرح كے رابطہ كے ذريعہ انسان ؛مادي چيزوں اور شھوت پرستى ميں كھوجاتا ھے، جس كا بھت زيادہ نقصان ھوتا ھے، اور جس كي بدولت آخرت ميں سخت خسارہ اٹھانا پڑے گا۔
حضرت على علىہ السلام اس سلسلہ ميں بيان فرماتے ھيں:
”اَلدُّنْيا تَغُرُّ وَ تَضُرُّوَ تَمُرُّ۔۔۔“۔ 125
”دنيا، مغرور كرتي ھے، نقصان پہنچاتي ھے اور گزرجاتي ھے“۔
خداوندعالم نے اپنے محبوب رسول(ص) كو شب معراج اس مذموم دنيا ميں گرفتار لوگوں كي خصوصيت كے بارے ميں اس طرح فرمايا:” اھل دنيا وہ لوگ ھوتے ھيں جن كا كھانا پينا، ہنسنا، رونا اور غصہ زيادہ ھوتا ھے، خدا كي عنايت پر بھت كم خوشنود ھوتے ھيں، لوگوں سے كم راضي رھتے ھيں، لوگوں كي شان ميں بدي كرنے كے بعد عذر خواھي نھيں كرتے، اور نہ ھي دوسروں كي عذر خواھي كو قبول كرتے ھيں، اطاعت كے وقت سست و كاھل اور گناہ كے وقت شجاع او رطاقتور ھوتے ھيں، ان كي آرزوئيں طولاني ھوتي ھيں، ان كي گفتگو زيادہ، عذاب جہنم كا خوف كم ھوتا ھے اور كھانے پينے كے وقت بھت زياہ خوش و خرم نظر آتے ھيں۔
يہ لوگ چين و سكون كے وقت شكر اور بلاء و مصيبت ميں صبر نھيں كرتے، دوسروں كو ذليل سمجھتے ھيں، نہ كئے ھوئے كام پر اپني تعريفيں كرتے ھيں، جن چيزوں كے مالك نھيں ھوتے ان كي ملكيت كے بارے ميں دعويٰ كرتے ھيں، اپني بے جا آرزوٴں كو دوسروں سے بيان كرتے ھيں، لوگوں كي برائيوں كو اچھالتے ھيں، اور ان كي اچھائيوں كو چھپاتے ھيں۔ پيغمبر اكرم صلي اللہ علىہ و آلہ و سلم نے عرض كيا: پالنے والے! كيا ان عيوب كے علاوہ كوئي دوسرا عيب بھي ان ميں پايا جاتا ھے؟ آواز آئى: اے احمد! دنيا والوں كے عيب زيادہ ھيں، ان ميں حماقت و وناداني پائي جاتي ھے، اپنے استاد كے سامنے تواضع سے پيش نھيں آتے، اپنے كو (بھت) بڑا عاقل سمجھتے ھيں، جبكہ وہ صاحبان علم كے نزديك احمق ھوتے ھيں۔ 126
اگر كوئي شخص اپنے گناھوں سے توبہ كرلے ليكن توبہ كے ساتھ مادي زرق و برق ميں اسير ھو، تو كيا اس كي توبہ باقي رہ سكتي ھے اور توبہ كے ميدان ميں ثابت قدم رہ سكتا ھے؟۔
توبہ كرنے والا اگر اس طرح كي چيزوں كے نفوذ سے آزاد نہ ھو تو پھر اس كے لئے حقيقي طور پر توبہ كرنا ناممكن ھے، كيونكہ ايسا انسان توبہ تو كرليتا ھے، ليكن جيسے ھي مادي چيزوں نے حملہ كيا تو وہ اپني توبہ كو توڑليتا ھے۔

3۔ آفات
غلط رابطے، بے جا محبت، لذتوں ميں بھت زيادہ غرق ھونا، نا محدود شھوات، بے لگام خواہشيں، حرام شھوت اورھوائے نفس يہ سب خطرناك آفتيں ھيں كہ اگر انسان كي زندگي ميں يہ سب پائى

حقيقي توبہ كرنے والوں كے لئے الٰھي تحفہ
معصوم علىہ السلام كا ارشادھے: خداوندعالم توبہ كرنے والوں كو تين خصلتيں عنايت فرماتا ھے كہ اگر ان ميں سے ايك خصلت بھي تمام اھل زمين و آسمان كو مرحمت ھوجائے تو اسي خصلت كي بنا پر ان كو نجات مل جائے:
(( ۔۔۔إِنَّ اللهَ يحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيحِبُّ الْمُتَطَھرينَ))۔ 127
”بے شك خدا توبہ كرنے والوں اور پاكيزہ رہنے والوں كو دوست ركھتا ھے“۔
لہٰذا جس كو خداوندعالم دوست ركھتا ھے اس پر عذاب نھيں كرے گا۔
(( الَّذِينَ يحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہُ يسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّھم وَيؤْمِنُونَ بِہِ وَيسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيءٍ رَحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِھم عَذَابَ الْجَحِيمِ ۔ رَبَّنَا وَاٴَدْخِلْھم جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدْتَھم وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِھم وَاٴَزْوَاجِھم وَذُرِّياتِھم إِنَّكَ اٴَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ۔ وَقِھم السَّيئَاتِ وَمَنْ تَقِ السَّيئَاتِ يوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَہُ وَذَلِكَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ))۔ 128
”جو فرشتے عر ش الٰھي كو اٹھا ئے ھوئے ھيں اور جواس كے گرد معين ھيں سب حمد خدا كي تسبيح كر رھے ھيں اور اسي پر ايمان ركھتے ھيں اور صاحبان ايمان كے لئے استغفار كررھے ھيں كہ خدايا! تيري رحمت اور تيرا علم ھر شئے پر محيط ھے لہٰذا ان لوگوں كو بخش دے جنھوں نے توبہ كي ھے اور تيرے راستہ كا اتباع كيا ھے اور انھيں جہنم كے عذاب سے بچالے۔پروردگارا! انھيں اور ان كے باپ دادا، ازواج اور اولاد ميں سے جو نيك اور صالح افراد ھيں ان كو ھميشہ رہنے والے باغات ميں جگہ عنايت فرما، جن كا تونے ان سے وعدہ كيا ھے بيشك تو سب پر غالب اور صاحبِ حكمت ھے۔اور انھيں برائيوں سے محفوظ فرما كہ آج جن لوگوں كو تونے برائيوںسے بچا ليا گويا انھيں پر رحم كيا ھے اور يہ بھت بڑي كاميابي ھے “۔
(( وَالَّذِينَ لاَيدْعُونَ مَعَ اللهِ إِلَھا آخَرَ وَلاَيقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ وَلاَيزْنُونَ وَمَنْ يفْعَلْ ذَلِكَ يلْقَ اٴَثَامًا۔ يضَاعَفْ لَہُ الْعَذَابُ يوْمَ الْقِيامَةِ وَيخْلُدْ فِيہِ مُھانًا۔ إِلاَّ مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاٴُوْلَئِكَ يبَدِّلُ اللهُ سَيئَاتِھم حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللهُ غَفُورًا رَحِيمًا))۔ 129
”اور وہ لوگ خدا كے ساتھ كسي اور خدا كو نھيں پكارتے ھيں اور كسي بھي نفس كو اگر خدا نے محترم قرار ديديا ھے تو اسے نا حق قتل نھيں كرتے ھيں اور زنا بھي نھيں كرتے كہ جو ايسا عمل كرے گا وہ اپنے عمل كي سزا بھي برداشت كرے گا۔جسے روز قيامت دوگنا كرديا جائے گااور وہ اسي ميں ذلت كے ساتھ ھميشہ ھميشہ پڑا رھے گا۔ علاوہ اس شخص كے جو توبہ كرلے اور ايمان لے آئے اور نيك عمل بھي كرے كہ پروردگار اس كي برائيوں كو اچھائيوں سے تبديل كر دے گا، اور خدا بھت بڑا مھربان ھے“۔130

توبہ جيسے باعظمت مسئلہ كے سلسلہ ميں قرآن كا نظريہ
قرآن كريم ميں لفظ ”توبہ“ اور اس كے ديگر مشتقات تقريباً 87 مرتبہ ذكر ھوئے ھيں، جس سے اس مسئلہ كي اھميت اور عظمت واضح جاتي ھے۔
قرآن كريم ميں توبہ كے سلسلہ ميں بيان ھونے والے مطالب كو پانچ حصوں ميں تقسيم كيا جاسكتا ھے:
1۔توبہ كا حكم۔
2۔حقيقي توبہ كا راستہ۔
3۔توبہ كي قبوليت۔
4۔توبہ سے روگرداني۔
5۔توبہ قبول نہ ھونے كے اسباب۔

1۔ توبہ كا حكم
(( اَنِ اسْتَغْفِرُوارَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا اِلَيہِ۔۔۔))۔ 131
”اور اپنے رب سے استغفار كروپھر اس كي طرف متوجہ ھو جاوٴ۔۔۔“۔
(( ۔۔۔َتُوبُوا إِلَي اللهِ جَمِيعًا اٴَيھا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ))۔ 132
”توبہ كرتے رھو كہ شايد اسي طرح تمھيں فلاح اور نجات حاصل ھو جائے“۔
راغب اصفھاني اپني كتاب ”مفردات“ ميں كھتے ھيں:قيامت كي فلاح و كاميابي يہ ھے جھاں انسان كے لئے ايسي زندگي ھوگي جھاں موت نہ ھوگى، ايسي عزت ھوگي كہ جھاںذلت نہ ھوگى، ايسا علم ھوگا كہ جھاں جھالت كا نام ونشان تك نہ ھوگا، وھاں انسان ايسا غني ھوگا جس كو تنگدستي نھيں ھوگي۔ 133
(( يا اَيھاَ الَّذينَ آمَنُوا تُوبُوا اِلَي اللّٰہِ تَوْبَةً نَصوحاً۔۔۔))۔ 134
”اے ايمان والو! خلوص دل كے ساتھ توبہ كر و۔۔۔“۔
ان آيات ميں خداوندعالم نے مومنين اور غير مومنين سبھي كو توبہ كي دعوت دي ھے، خدا كي اطاعت واجب اورباعث رحمت و مغفرت ھے، اسي طرح خدا وندعالم كي معصيت حرام اور باعث غضب الٰھي اور مستحق عذاب الٰھي ھے، جس كي وجہ سے دنيا و آخرت ميں ذلت و خواري اور ھميشہ كے لئے ھلاكت و بدبختي ھے۔

2۔حقيقي توبہ كا راستہ
حقيقت تو يہ ھے كہ ”توبہ“ ايك سادہ اور آسان كام نھيں ھے، بلكہ معنوي اور عملي شرائط كے ساتھ ھي توبہ محقق ھوسكتي ھے۔
شرمندگى، آئندہ ميں پاك و پاكيزہ رہنے كا مصمم ارادہ، برے اخلاق كو اچھے اخلاق و عادات ميں بدلنا، اعمال كي اصلاح كرنا، گزشتہ اعمال كا جبران اور تلافي كرنااور خدا پر ايمان ركھنا اور اسي پر بھروسہ كرنا يہ تمام ايسے عناصر ھيں جن كے ذريعہ سے توبہ كي عمارت پايہ تكميل تك پہنچتي ھے، اور انھيں كے ذريعہ استغفار ھوسكتا ھے۔
(( إِلاَّ الَّذِينَ تَابُوا وَاٴَصْلَحُوا وَبَينُوا فَاٴُوْلَئِكَ اٴَتُوبُ عَلَيھم وَاٴَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيمُ))۔ 135
”علاوہ ان لوگوں كے جو توبہ كرليں اور اپنے كئے كي اصلاح كر ليں اور جس كو چھپايا ھے اس كو واضح كر ديں، تو ھم ان كي توبہ قبول كرليتے ھيں كہ ھم بھترين تو بہ قبول كر نے والے اور مھربان ھيں“۔
(( إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَي اللهِ لِلَّذِينَ يعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَھالَةٍ ثُمَّ يتُوبُونَ مِنْ قَرِيبٍ فَاٴُوْلَئِكَ يتُوبُ اللهُ عَلَيھم وَكَانَ اللهُ عَلِيمًا حَكِيمًا))۔ 136
”تو بہ خدا كے ذمہ صرف ان لوگوں كے لئے ھے جو جھالت كي بنا پر برائي كرتے ھيں ليكن پھر فوراً توبہ كرليتے ھيں كہ خدا ان كي توبہ كو قبول كر ليتا ھے وہ علىم ودانا بھي ھے اور صاحبِ حكمت بھي “۔
(( فَمَنْ تَابَ مِنْ بَعْدِ ظُلْمِہِ وَاٴَصْلَحَ فَإِنَّ اللهَ يتُوبُ عَلَيہِ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ))۔ 137
”پھر ظلم كے بعد جو شخص توبہ كر لے اور اپني اصلاح كر لے، تو خدا(بھي) اس كي توبہ كو قبول كر لے گا اور اللہ بڑابخشنے والا اور مھربان ھے“۔
(( وَالَّذِينَ عَمِلُوا السَّيئَاتِ ثُمَّ تَابُوا مِنْ بَعْدِھا وَآمَنُوا إِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِھا لَغَفُورٌ رَحِيمٌ))۔ 138
”اور جن لوگوں نے بُرے اعمال كئے اور پھر توبہ كر لي اور ايمان لے آئے، توبہ كے بعد تمھارا پروردگاربھت بخشنے والا اور بڑا رحم كرنے والاھے“۔
(( فَإِنْ تَابُوا وَاٴَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوْا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ۔۔۔))۔ 139
”پھر اگر يہ تو بہ كر ليںاور نماز قائم كريں اور زكواة ادا كريں، تو (يہ لوگ) دين ميں تمھارے بھائي ھيں ۔۔۔“۔
قارئين كرام! مذكورہ آيات كے پيش نظر، خدا و قيامت پر ايمان، عقيدہ، عمل اوراخلاق كي اصلاح، خدا كي طرف فوراً لوٹ آنا، ظلم و ستم كے ھاتھ روك لينا، نماز قائم كرنا، زكوٰة ادا كرنا اور لوگوں كے حقوق اداكرنا؛ حقيقي توبہ كے شرائط ھيں، اور جو شخص بھي ان تمام شرائط كے ساتھ توبہ كرے گا بے شك اس كي توبہ حقيقت تك پہنچ جائے گي اور حقيقي طور پر توبہ محقق ھوگي نيزاس كي توبہ يقينا بارگاہ خداوندي ميں قبول ھوگي۔

3۔ توبہ قبول ھونا
جس وقت كوئي گناھگار توبہ كے سلسلہ كے خداوندعالم كي اطاعت كرتا ھے اور توبہ كے شرائط پر عمل كرتا ھے، اور توبہ كے سلسلہ ميں قرآن كا تعليم كردہ راستہ اپناتا ھے، توبے شك خدائے مھربان؛جس نے گناھگار كي توبہ قبول كرنے كا وعدہ فرماتا ھے، وہ ضرور اس كي توبہ قبول كرليتا ھے اور اس كے نامہ اعمال ميں توبہ قبول ھونے كي نشاني قرار دے ديتا ھے اور اس كو گناھوں سے پاك كرديتا ھے، نيز اس كے باطن سے ظلمت و تاريكي كو سفيدي اور نور ميں تبديل كرديتا ھے۔
(( اٴَلَمْ يعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ ہُوَ يقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِہِ ۔۔۔))۔ 140
”كيا يہ نھيں جانتے كہ اللہ ھي اپنے بندوں كي توبہ قبول كرتا ھے۔۔۔“۔
(( وَہُوَ الَّذِي يقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِہِ وَيعْفُو عَنْ السَّيئَاتِ۔۔۔))۔ 141
”اور وھي وہ ھے جو اپنے بندوں كي توبہ كو قبول كرتا ھے اور ان كي برائيوں كو معاف كرتا ھے۔۔۔“۔
(( غَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ۔۔۔))۔ 142
”وہ گناھوں كا بخشنے والا اور توبہ كا قبول كرنے والا ھے۔۔۔“۔

4۔ توبہ سے منھ موڑنا
اگر گناھگار خدا كي رحمت سے مايوس ھوكر توبہ نہ كرے تو اس كو جاننا چاہئے كہ رحمت خدا سے مايوسي صرف اور صرف كفار سے مخصوص ھے 143
اگر گناھگار انسان اس وجہ سے توبہ نھيں كرتا كہ خداوندعالم اس كے گناھوں كو بخشنے پر قدرت نھيں ركھتا، تو اس كو معلوم ھونا چاہئے كہ يہ تصور بھي يھوديوں كا ھے۔ 144
اگر گناھگار انسان كا تكبر، خدائے مھربان كے سامنے جرائت اور ربّ كريم كے سامنے بے ادبي كي بنا پر ھو تو اس كو جاننا چاہئے كہ خداوندعالم اس طرح كے مغرور، گھمنڈي اور بے ادب لوگوں كو دوست نھيں ركھتا، اور جس شخص سے خدا محبت نہ كرتا ھوتو دنيا و آخرت ميں ان كي نجات ممكن نھيں ھے۔ 145
گناھگار كو يہ معلوم ھونا چاہئے كہ توبہ سے منھ موڑنا، جبكہ باب توبہ كھلا ھوا ھے اور لازمي شرائط كے ساتھ توبہ كرنا ممكن ھے نيز يہ كہ خداوندعالم توبہ قبول كرنے والا ھے، لہٰذا ان تمام باتوں كے پيش نظر توبہ نہ كرنا اپنے اوپر اور آسماني حقائق پر ظلم وستم ھے۔
(( ۔۔۔ِ وَمَنْ لَمْ يتُبْ فَاٴُوْلَئِكَ ھم الظَّالِمُونَ))۔ 146
”اگر كوئي توبہ نہ كرے تو سمجھو كہ درحقيقت يھي لوگ ظالم ھيں“۔
(( اِنَّ الَّذينَ فَتَنُوا الْمُوٴْمِنينَ وَالْمُوٴْمِناتِ ثُمَّ لَمْ يتُوبُوا فَلَھُمْ عَذابُ جَھَنَّمَ وَلَھُمْ عَذابُ الْحَريقِ))۔ 147
”بيشك جن لوگوں نے ايماندار مردوں اور عورتوں كو ستايا اور پھر توبہ نہ كى، ان كے لئے جہنم كا عذاب ھے اورا ن كے لئے جلانے والاعذاب بھي ھے“۔

5۔ توبہ قبول نہ ھونے كے اسباب
اگر گناھگار انسان كو توبہ كرنے كي توفيق حاصل ھوجائے اور تمام تر لازمي شرائط كے ساتھ توبہ كرلے تو بے شك اس كي توبہ بارگاہ خداوندي ميں قبول ھوتي ھے، ليكن اگر توبہ كرنے كا موقع ھاتھ سے كھوبيٹھے اور اس كي موت آپہنچے اور پھر وہ اپنے گزشتہ سے توبہ كرے يا ضروري شرائط كے ساتھ توبہ نہ كرے يا ايمان لانے كے بعد كافر ھوجائے تو ايسے شخص كي توبہ ھرگز قبول نھيں ھوسكتي۔
((وَلَيسَتْ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يعْمَلُونَ السَّيئَاتِ حَتَّي إِذَا حَضَرَ اٴَحَدَھم الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الْآنَ وَلاَالَّذِينَ يمُوتُونَ وَھم كُفَّارٌ اٴُوْلَئِكَ اٴَعْتَدْنَا لَھم عَذَابًا اٴَلِيمًا))۔ 148
”اور توبہ ان لوگوں كے لئے نھيں ھے جو پھلے برائياں كرتے ھيں اور پھر جب موت سامنے آجاتي ھے توكھتے ھيں كہ اب ھم نے توبہ كرلي اور نہ ان كے لئے ھے جو حالت كفر ميں مرجاتے ھيں كہ ان كے لئے ھم نے بڑا دردناك عذاب مھيا كر ركھا ھے“۔
((إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِھم ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُھم وَاٴُوْلَئِكَ ھم الضَّالُّونَ))۔ 149
”جن لوگوں نے كفر اختيار ليا اور پھر كفر ميں بڑھتے ھي چلے گئے ان كي توبہ ھرگز قبول نہ ھوگي اور وہ حقيقي طورپر گمراہ ھيں “۔

توبہ، احاديث كي روشني ميں
حضرت امام باقر علىہ السلام كا ارشاد ھے: جناب آدم (عليہ السلام) نے خداوندعالم كي بارگاہ ميں عرض كى: پالنے والے مجھ پر (اور ميري اولاد) پرشيطان كو مسلط ھے اور وہ خون كي طرح گردش كرتا ھے، پالنے والے اس كے مقابلہ ميں ميرے لئے كيا چيز مقرر فرمائي ھے؟
خطاب ھوا: اے آدم يہ حقيقت آدم كے لئے مقرر كي ھے كہ تمھاري اولاد ميں كسي نے گناہ كا ارادہ كيا، تو اس كے نامہ اعمال ميں نھيں لكھا جائے گا، اور اگر اس نے اپنے ارادہ كے مطابق گناہ بھي انجام دے ليا تو اس كے نامہ اعمال ميں صرف ايك ھي گناہ لكھا جائے گا، ليكن اگر تمھاري اولاد ميں سے كسي نے نيكي كا ارادہ كرليا تو فوراً ھي اس كے نامہ اعمال ميں لكھا جائے گا، اور اگر اس نے اپنے ارادہ پر عمل بھي كيا تو اس نے نامہ اعمال ميں دس برابر نيكي لكھي جائےں گى؛ اس وقت جناب آدم (عليہ السلام) نے عرض كيا: پالنے والے! اس ميں اضافہ فرمادے؛ آواز قدرت آئى: اگر تمھاري اولاد ميں كسي شخص نے گناہ كيا ليكن اس كے بعد مجھ سے استغفار كر ليا تو ميں اس كو بخش دوں گا؛ ايك بار پھر جناب آدم (عليہ السلام) نے عرض كيا: پالنے والے! مزيد اضافہ فرما؛ خطاب ھوا: ميںنے تمھاري اولادكے لئے توبہ كوركھا اور اس كے د روازہ كو وسيع كرديا كہ تمھاري اولاد موت كا پيغام آنے سے قبل توبہ كرسكتي ھے، اس وقت جناب آدم )عليہ السلام) نے عرض كيا: خداوندا! يہ ميرے لئے كافي ھے۔ 150
حضرت امام صادق علىہ السلام نے حضرت، رسول اكرم صلي اللہ علىہ و آلہ و سلم سے روايت كي ھے: جو شخص اپني موت سے ايك سال پھلے توبہ كرلے تو خداوندعالم اس كي توبہ قبول كرليتا ھے، اس كے بعد فرمايا: بے شك ايك سال زيادہ ھے، جو شخص اپني موت سے ايك ماہ قبل توبہ كرلے تو خداوندعالم اس كي توبہ قبول كرليتا ھے، اس كے بعد فرمايا: ايك مھينہ بھي زيادہ ھے، جو شخص ايك ہفتہ پھلے توبہ كرلے اس كي توبہ قابل قبول ھے، اس كے بعد فرمايا: ايك ہفتہ بھي زياد ھے، اگر كسي شخص نے اپني موت سے ايك دن پھلے توبہ كرلي تو خداوندعالم اس كي توبہ بھي قبول كرليتا ھے، اس كے بعد فرمايا: ايك دن بھي زيادہ ھے اگر اس نے موت كے آثار ديكھنے سے پھلے توبہ كرلي تو خداوندعالم اس كي بھي توبہ قبول كرليتا ھے۔ 151
حضرت رسول خدا صلي اللہ علىہ و آلہ و سلم فرماتے ھيں:
”اِنَّ اللّٰہَ يقْبَلُ تَوْبَةَ عَبْدِہِ ما لَمْ يغَرْغِرْ، تُوبُوا اِلٰي رَبِّكُمْ قَبْلَ اَنْ تَمُوتُوا، وَبادِرُوا بِالاَعْمالِ الزّاكِيةِ قَبْلَ اَنْ تُشْتَغِلُوا، وَ صِلُوا الَّذي بَينَكُمْ وَ بَينَہُ بِكَثْرَةِ ذِكْرِ كُمْ اِياہُ:“ 152
”خداوندعالم، اپنے بندے كي توبہ دم نكلنے سے پھلے پھلے تك قبول كرليتا ھے، لہٰذا اس سے پھلے پھلے توبہ كرلو، نيك اعمال انجام دينے ميں جلدي كرو قبل اس كے كہ كسي چيز ميں مبتلا ھوجاؤ، اپنے اور خدا كے درميان توجہ كے ذريعہ رابطہ كرلو“۔
حضرت امير المومنين علىہ السلام فرماتے ھيں:
”لَاشَفيعَ اَنْجَحُ مِنَ التَّوْبَةِ“۔153
”توبہ سے زيادہ كامياب كرنے والا كوئي شفيع نھيں ھے“۔
حضرت رسول اكرم صلي اللہ علىہ و آلہ و سلم سے روايت ھے:
”اَلتَّوْبَةُ تَجُبُّ ما قَبْلَھا“۔154
”توبہ ؛ انسان كے گزشتہ اعمال كو ختم كرديتي ھے“۔
حضرت على علىہ السلام فرماتے ھيں:
”اَلتَّوْبَةُ تَسْتَنْزِلُ الرَّحْمَةَ:“۔ 155
”توبہ كے ذريعہ رحمت خدا نازل ھوتي ھے“۔
نيز حضرت امير المومنين علىہ السلام فرماتے ھيں:
”تُوبُوا اِلَي اللّٰہِ وَ ادْخُلُوا فِي مَحَبَّتِہِ، فَاِنَّ اللّٰہَ يحِبُّ التَّوّابينَ وَ يحِبُّ الْمُتَطَھِّرينَ، وَالْمُوٴْمِنُ تَوّابٌ:“۔ 156
”خداوندعالم كي طرف لوٹ آؤ، اپنے دلوں ميں اس كي محبت پيدا كرلو، بے شك خداوندعالم توبہ كرنے والوں اور پاكيزہ لوگوں كو دوست ركھتا ھے اور مومن بھت زيادہ توبہ كرتا ھے“۔
حضرت امام رضا علىہ السلام اپنے آباء و اجداد علىہم السلام كے حوالے سے رسول اكرم صلي اللہ علىہ و آلہ و سلم سے روايت كرتے ھيں:
”مَثَلُ الْمُوٴْمِنِ عِنْدِاللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ كَمَثَلِ مَلَكٍ مُقَرَّبٍ وَ اِنَّ الْمُوٴْمِنَ عِنْدَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ اَعْظَمُ مِنْ ذٰلِكَ، وَلَيسَ شَيءٌ اَحَبَّ اِلَي اللّٰہِ مِنْ مُوٴْمِنٍ تائِبٍ اَوْ مُوٴْمِنَةٍ تائِبَةٍ:“۔ 157
”خدا وندعالم كے نزديك مومن كي مثال ملك مقرب كي طرح ھے، بے شك خداوندعالم كے نزديك مومن كا مرتبہ فرشتہ سے بھي زيادہ ھے، خداوندعالم كے نزديك مومن او رتوبہ كرنے والے مومن سے محبوب تر كوئي چيز نھيں ھے۔“
امام ہشتم اپنے آباء و اجداد كے حوالے كے ذريعہ رسول خدا صلي اللہ علىہ و آلہ و سلم سے روايت فرماتے ھيں:
”اَلتّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لا ذَنْبَ لَہُ:“۔ 158
”گناھوں سے توبہ كرنے والا، اس شخص كي طرح ھے جس نے گناہ كيا ھي نہ ھو“۔
حضرت امام صادق علىہ السلام سے منقول ھے:
”اِنَّ تَوْبَةَ النَّصوحِ ھُوَ اَنْ يتوبَ الرَّجُلُ مِنْ ذَنْبٍ وَ ينْوِي اَنْ لا يعودَ اِلَيہِ اَبَداً:“۔ 159
”توبہ نصوح يہ ھے كہ انسان گناھوں سے توبہ كرے اور دوبارہ گناہ نہ كرنے كا قطعي ارادہ ركھے“۔
حضرت رسول خدا صلي اللہ علىہ و آلہ و سلم كا ارشاد ھے:
”لِلّٰہِ اَفْرَحُ بِتَوْبَةِ عَبْدِہِ مِنَ الْعَقِيمِ الْوالِدِ، وَ مِنَ الضّالِّ الْواجِدِ، وَمِنَ الظَّمْآنٍ الْوارِدِ“۔160
” خداوندعالم اپنے گناھگار بندے كي توبہ پر اس سے كھيں زيادہ خوشحال ھوتا ھے جتني ايك عقيم عورت بچہ كي پيدائش پر خوش ھوتي ھے، يا كسي كا كوئي كھويا ھوا مل جاتا ھے اور پياسے كو بھتا ھوا چشمہ مل جاتا ھے“!
حضرت رسول خدا صلي اللہ علىہ و آلہ و سلم سے روايت ھے:
”اَلتَّائِبُ اِذالَمْ يسْتَبِنْ عَلَيہِ اَثَرُ التَّوَبَةِ فَلَيسَ بِتائِبٍ، يرْضِي الْخُصَماءَ، وَيعيدُ الصَّلَواتِ، وَ يتَواضَعُ بَينَ الْخَلْقِ، وَيتَّقي نَفْسَہُ عَنِ الشَّھَواتِ، وَيھْزِلُ رَقَبَتَہُ بِصِيامِ النَّھارِ:“۔ 161
”جس وقت توبہ كرنے والے پر توبہ كے آثار ظاھر نہ ھوں، تو اس كو تائب (يعني توبہ كرنے والا) نھيں كھا جانا چاہئے، توبہ كے آثار يہ ھيں: جن لوگوںكے حقوق ضائع كئے ھيں ان كي رضايت حاصل كرے، قضا شدہ نمازوں كو ادا كرے، دوسروں كے سامنے تواضع و انكسارى سے كام لے، اپنے نفس كو حرام خواہشات سے روكے ركھے اور روزے ركھ كر جسم كو كمزور كرے “۔
حضرت على علىہ السلام فرماتے ھيں:
”اَلتَّوْبَةُ نَدَمٌ بِالْقَلْبِ، وَاسْتِغْفارٌ بِاللِّسانِ، وَ تَرْكٌ بِالْجَوارِحِ، وَاِضْمارٌ اَنْ لايعودَ:“۔ 162
” توبہ؛ يعني دل ميں شرمندگى، زبان پر استغفار، اعضاء و جوارح سے تمام گناھوں كو ترك كرنا اور دوبارہ نہ كرنے كا مستحكم ارادہ كرنا“۔
نيز حضرت على علىہ السلام كا ارشاد ھے:
”مَنْ تابَ تابَ اللّٰہُ عَلَيہِ، وَاُمِرَتْ جَوارِحُہُ اَنْ تَسْتُرَ عَلَيہِ، وَبِقاعُ الاَرْضِ اَنْ تَكْتُمَ عَلَيہِ، وَ اُنْسِيتِ الْحَفَظَةُ ما كانَتْ تَكْتُبُ عَلَيہِ:“۔ 163
” جو شخص توبہ كرتا ھے خداوندعالم اس كي توبہ قبول كرتا ھے، اور اس كے اعضاء و جوارح كو حكم ديا جاتا ھے كہ اس كے گناھوں كو مخفي كرلو، اور زمين سے كھا جاتا ھے كہ اس كے گناہ كو چھپالے اور جو كچھ كراماً كاتبين نے لكھا ھے خدا ان كو نظر انداز كر ديتا ھے “۔
حضرت امام صادق علىہ السلام كا ارشاد ھے كہ خداوندعالم نے جناب داؤد نبي (عليہ السلام) پروحي فرمائى:
”اِنَّ عَبْدِي الْمُوٴْمِنَ اِذا اَذْنَبَ ذَنْباً ثُمَّ رَجَعَ وَ تابَ مِنْ ذٰلِكَ الذَّنْبِ وَاسْتَحْييٰ مِنّي عِنْدَ ذِكْرِہِ غَفَرْتُ لَہُ، وَاَنْسَيتُہُ الْحَفَظَةُ، وَ اَبْدَلْتُہُ الْحَسَنَةَ، وَلا اُبالي وَ اَنَا اَرْحَمُ الرّحِمينَ:“۔ 164
”بے شك جب ميرا بندہ گناہ كا مرتكب ھوتا ھے اورپھر اپنے گناہ سے منھ موڑليتا ھے اور توبہ كرليتا ھے، اور اس گناہ كو ياد كركے مجھ سے شرمندہ ھوتا ھے تو ميں اس كو معاف كرديتا ھوں، اور كراماً كاتبين كو(بھي) بھلاديتا ھوں، اور اس كے گناہ كو نيكي ميں تبديل كرديتا ھوں، مجھے كوئي پرواہ نھيں ھے كيونكہ ميں ارحم الراحمين ھوں “۔
پيغمبر اسلام صلي اللہ علىہ و آلہ و سلم ايك اھم روايت ميں فرماتے ھيں:كيا تم جانتے ھوں ھو كہ تائب (يعني توبہ كرنے والا) كون ھے؟ اصحاب نے كھا: يا رسول اللہ ! آپ بھتر جانتے ھيں، تو آنحضرت صلي اللہ علىہ و آلہ و سلم نے فرمايا: جب كوئي بندہ توبہ كرے اور دوسروں كے مالي حقوق كو ادا كركے ان كو راضي نہ كرلے تو وہ تائب نھيں ھے، جو شخص توبہ كرے ليكن خدا كي عبادتوں ميں اضافہ نہ كرے تو وہ شخص (بھي) تائب نھيں ھے، جو شخص توبہ كرے ليكن اپنے (مال حرام سے بنے ھوئے ) لباس كو نہ بدلے وہ (بھي) تائب نھيں ھے، جو شخص توبہ كرے ليكن اپني صحبت كو نہ بدلے تو وہ (بھي) تائب نھيں ھے، جو شخص توبہ كرے ليكن اپنے اخلاق اور اپني نيت كو نہ بدلے تو وہ شخص(بھي) تائب نھيں ھے، جو شخص توبہ كرے اور اپنے دل سے حقائق كو نہ ديكھے، اور صدقہ و انفاق ميں اضافہ نہ كرے تو وہ شخص(بھي) تائب نھيں ھے، جو شخص توبہ كرے ليكن اپني آرزوٴں كو كم نہ كرے اور اپني زبان كو محفوظ نہ ركھے، تو وہ شخص(بھي) تائب نھيں ھے، جو شخص توبہ كرے ليكن اپنے بدن سے اضافي كھانے كو خالي نہ كرے، تو وہ شخص(بھي) تائب نھيں ھے۔ بلكہ وہ شخص تائب ھے جو ان تمام خصلتوں كي پابندي كرے ۔ 165

توبہ كے منافع اور فوائد
گناھوں سے توبہ كے متعلق قرآن كريم كي آيات اور اھل بيت علىھم السلام سے مروي احاديث و روايات كے پيش نظر دنيا و آخرت ميں توبہ كے بھت سے منافع و فوائد ذكر ھوئے ھيں، جن كو ذيل ميں بيان كيا جاتا ھے:
(( ۔۔۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّہُ كَانَ غَفَّارًا۔ يرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيكُمْ مِدْرَارًا ۔ وَيمْدِدْكُمْ بِاٴَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَيجْعَلْ لَكُمْ اٴَنْھارًا))۔ 166
”۔۔۔اور كھا كہ اپنے پروردگار سے استغفار كرو كہ وہ بھت زيادہ بخشنے والا ھے۔ وہ تم پر آسمان سے موسلا دھار پاني برسائے گا۔اور اموال واولاد كے ذريعہ تمھاري مدد كرے گا اور تمھارے لئے باغات اور نھريں قرار دے گا“۔
(( ۔۔۔ تُوبُوا اِلَي اللّٰہِ تَوْبَةً نَصوحاً عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيئاتِكُمْ وَ يدْخِلَكُمْ جَنّاتٍ تَجْري مِنْ تَحْتِھَا الاَنْھارُ۔۔۔)) ۔ 167
”توبہ كرو، عنقريب تمھارا پرودگار تمھاري برائيوں كو مٹادے گا اور تمھيں ان جنتوں ميں داخل كرے گا جن كے نيچے نھريں جاري ھوں گي“۔
توبہ سے متعلق اكثر آيات خداوندعالم كي دو صفات ”غفور“ و ”رحيم“ پر ختم ھوتي ھيں، جس كا مطلب يہ ھے كہ خداوندعالم حقيقي توبہ كرنے والے پر اپني بخشش اوررحمت كے دروازے كھول ديتاھے۔ 168
(( وَلَوْ اٴَنَّ اٴَھل الْقُرَي آمَنُواوَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيھم بَرَكَاتٍ مِنْ السَّمَاءِ وَالْاٴَرْضِ۔۔۔))۔ 169
”اور اگر بستي كے لوگ ايمان لے آتے ھيں اور تقويٰ اختيا ركر ليتے تو ھم ان كے لئے زمين اور آسمان سے بركتوں كے دروازے كھول ديتے “۔
”مجمع البيان“ جو ايك گرانقدر تفسير ھے اس ميں ايك بھترين روايت نقل كي گئي ھے:
” ايك شخص حضرت امام حسن علىہ السلام كي خدمت ميں آكر قحط اور مہنگائي كي شكايت كرتا ھے، اس وقت امام علىہ السلام نے اس سے فرمايا: اے شخص اپنے گناھوں سے استغفار كرو، ايك دوسرے شخص نے غربت اور نداري كي شكايت كى، اس سے (بھي) امام علىہ السلام نے فرمايا: اپنے گناھوں سے مغفرت طلب كرو، اسي طرح ايك اور شخص امام علىہ السلام كي خدمت ميں آيا اور عرض كى: مولا دعا كيجئے كہ مجھے خداوندعالم اولاد عطا كرے تو امام علىہ السلام نے اس سے بھي يھي فرمايا: اپنے گناھوں سے استعفار كرو۔
اس وقت آپ كے اصحاب نے عرض كيا: (فرزند رسول!) آنے والوں كي درخواستيں اور شكايات مختلف تھى، ليكن آپ نے سب كو توبہ و استغفار كرنے كاحكم فرمايا! امام علىہ السلام نے فرمايا: ميں نے يہ چيز اپني طرف سے نھيں كھي ھے بلكہ سورہ نوح كي آيات سے يھي نتيجہ نكلتا ھے جھاں خداوندعالم نے فرمايا ھے: (( استغفروا ربّكم۔۔۔)) (اپنے رب كي بارگاہ ميں توبہ و استغفار كرو)، لہٰذا ميں نے سبھي كو استغفار كے لئے كھا، تاكہ ان كي مشكلات، توبہ و استغفار كے ذريعہ حل ھوجائيں۔ 170
بھر حال قرآن مجيد اور احاديث سے واضح طور پر يہ نتيجہ نكلتا ھے كہ توبہ كے منافع و فوائد اس طرح سے ھيں: گناھوں سے پاك ھوجانا، رحمت الٰھي كا نزول، بخشش خداوندى، عذاب آخرت سے نجات، جنت ميں جانے كا استحقاق، روح كي پاكيزگى، دل كي صفائى، اعضاء و جوارح كي طھارت، ذلت و رسوائي سے نجات، باران نعمت كا نزول، مال و دولت اور اولاد كے ذريعہ امداد، باغات او رنھروں ميں بركت، قحطى، مہنگائي اور غربت كا خاتمہ۔


--------------------------------------------------------------------------------


95. سورہٴ طہ آيت 82۔
96. (ورہٴ موٴمن (غافر)آيت 3۔
97. سورہٴ زمر آيت 53۔
98. سورہٴ زمر آيت، 58۔
99. سورہٴ زمر آيت، 59۔
100. سورہٴ زمر آيت، 47۔
102. اصول كافي ج، ص72۔
103. سورہ بقرہ آيات 33 تا 35۔
104. ((وَياآدَمُ اسْكُنْ اٴَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلاَمِنْ حَيثُ شِئْتُمَا وَلاَتَقْرَبَا ہَذِہِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنْ الظَّالِمِينَ))سورہٴ اعراف آيت نمبر19۔
105. ((فَوَسْوَسَ لَھما الشَّيطَانُ لِيبْدِي لَھما مَا وُورِي عَنْھما مِنْ سَوْآتِھما وَقَالَ مَا نَھاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ ہَذِہِ الشَّجَرَةِ إِلاَّ اٴَنْ تَكُونَا مَلَكَينِ اٴَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ ۔ وَقَاسَمَھما إِنِّي لَكُمَا لَمِنْ النَّاصِحِينَ)) سورہٴ اعراف آيت نمبر20۔21۔
106. (( فَدَلاَّھما بِغُرُورٍ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَھما سَوْآتُھما وَطَفِقَا يخْصِفَانِ عَلَيھما مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ وَنَادَاھما رَبُّھما اٴَلَمْ اٴَنْہَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَاٴَقُلْ لَكُمَا إِنَّ الشَّيطَانَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُبِينٌ))سورہٴ اعراف آيت نمبر22۔
107. سورہ اعراف آيت 32۔
108. سورہٴ بقرہ آيت 37۔
109. مجمع البيان، ج1، ص112؛بحار الانوار ج11، ص157، باب3۔
110. مجمع البيان، ج1، ص113؛بحار الانوار ج11، ص157، باب3۔
111. سورہٴ طہ آيت، 122۔
112. بحار الانوار ج 94، ص 328 باب 2۔
113. سورہٴ بقرہ آيت 81۔
114. سورہٴ كہف آيت، 103۔105۔
115. سورہٴ بقرہ آيت 10۔
116. سورہٴ مائدہ آيت 53۔
117. سورہٴ توبہ آيت 125۔
118. سورہٴ نساء آيت، 10۔
119. سورہٴ بقرہ آيت 174۔175۔
120. سورہٴ ابراھيم آيت، 18۔
121. معا ني الاخبار 270، باب معني الذنوب التي تغير النعم، حديث 2؛وسائل الشيعہ، ج16، ص281، باب 41، حديث 21556؛ بحار الانوار، ج70، ص375، باب 138، حديث 12۔
122. نہج البلاغہ، حكمت 842، حكمت 290؛بحار الانوار ج70، ص364، باب 137، حديث 96۔
123. نہج البلاغہ، 878حكمت 417؛وسائل الشيعہ ج16، ص77، باب 87، حديث 21028؛بحار الانوارج6، ص36، باب 20، حديث59۔
124. كنزالفوائد ج1، ص330، فصل حديث عن الامام الرضا(ع)؛بحار الانوار ج75، ص356، باب 26، حديث11۔
125. نہج البلاغہ، 877، حكمت 415؛غرر الحكم، ص135، الدنيا دارالغرور، حديث 2347؛روضة الواعظين ج2ص441، مجلس في ذكر الدنيا۔
126. ارشادالقلوب ج1، ص200، باب 54؛ بحار الا نوارج74، ص23، باب 2، حديث6۔
127. سورہٴ بقرہ آيت 222۔
128. (2)سورہ غافر(مومن)آيت 7تا 9۔
129. سورہٴ فرقان آيت 68تا70۔
130. كافي ج2ص432، حديث 5؛بحا الانوار ج6، ص39، باب20، حديث70۔
131. سورہٴ ھود آيت 3۔
132. سورہٴ نور آيت 31۔
133. مفردات راغب ص64، مادہ (فلح)۔
134. سورہٴ تحريم آيت 8۔
135. سورہٴ بقرہ آيت، 160۔
136. سورہٴ نساء آيت 17۔
137. سورہٴ مائدہ آيت 39۔
138. سورہٴ اعراف آيت 153۔
139. سورہٴ توبہ آيت 11۔
140. سورہٴ توبہ آيت 104۔
141. سورہٴ شوري آيت 25۔
142. سورہٴ غافر(مومن)آيت 3۔
143. سورہٴ يوسف آيت 87۔
144. سورہٴ مائدہ آيت 64۔
145. ((لاَجَرَمَ اٴَنَّ اللهَ يعْلَمُ مَا يسِرُّونَ وَمَا يعْلِنُونَ إِنَّہُ لاَيحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِينَ ))سورہٴ نحل آيت نمبر23۔((إِنَّ اللهَ يدَافِعُ عَنْ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ اللهَ لاَيحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُورٍ))سورہٴ حج آيت 38۔((إِنَّ قَارُونَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوسَي فَبَغَي عَلَيھم وَآتَينَاہُ مِنْ الْكُنُوزِ مَا إِنَّ مَفَاتِحَہُ لَتَنُوءُ بِالْعُصْبَةِ اٴُولِي الْقُوَّةِ إِذْ قَالَ لَہُ قَوْمُہُ لاَتَفْرَحْ إِنَّ اللهَ لاَيحِبُّ الْفَرِحِينَ ))سورہٴ قصص آيت 67۔((وَلاَتُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلاَتَمْشِ فِي الْاٴَرْضِ مَرَحًا إِنَّ اللهَ لاَيحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ))سورہٴ لقمان آيت 18۔(( لِكَيلاَتَاٴْسَوْا عَلَي مَا فَاتَكُمْ وَلاَتَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ وَاللهُ لاَيحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ))سورہٴ حديد آيت 23۔
146. سورہٴ حجرات آيت 11۔
147. سورہٴ بروج آيت 10۔
148. سورہٴ نساء آيت 18۔
149. سورہٴ آل عمران آيت 90۔
150. ”عن ابي جعفر علىہ السلام قال:ان آدم علىہ السلام قال :يارب ! سلطت على الشيطان واجريتہ مني مجري الدم فاجعل لي شيئا فقال:يا آدم !جعلت لك ان من ھم من ذريتك بسيئة لم تكتب علىہ فان عملھا كتبت علىہ سيئة ومن ھم منھم بحسنة فان لم يعملھا كتبت لہ حسنة وان ھو عملھا كتبت لہ عشرا، قال:يا رب! زدني۔قال: جعلت لك ان من عمل منھم سيئة ثم استغفر غفرت لہ قال: يارب ! زدني قال: جعلت لھم التوبة وبسطت لھم التوبة حتي تبلغ النفس ھذہ ۔ قال:يا رب!حسبي “۔
151. عن ابي عبد اللہ علىہ السلام قال :قال رسول اللہ صلي اللہ علىہ و آلہ وسلم من تاب قبل موتہ قبل اللہ توبتہ ثم قال :ان السنة الكثيرة، من تاب قبل موتہ بشھر قبل اللہ توبتہ، ثم قال:ان الشھر لكثير، من تاب قبل موتہ بجمعة قبل اللہ توبتہ ۔ثم قال:ان الجمعة لكثيرة، من تاب قبل موتہ بيوم قبل اللہ توبتہ، ثم قال:ان اليوم لكثير، من تاب قبل ان يعاين قبل اللہ توبتہ“۔
152. دعوات راوندى، ص237، فصل في ذكر الموت ؛بحار الانوار، ج6، ص19، باب20، حديث5۔
153. نہج البلاغہ ص863، حكمت 371، من لايحضرہ الفقيہ ج3، ص574، باب معرفة الكبائر التي او عداللہ، حديث 4965؛ بحار الانوار ج6، ص19، باب 20، حديث6۔
154. عوالي اللئالي ج1، ص237، الفصل التاسع، حديث 150؛مستدرك الوسائل ج 12، ص129، باب 86، حديث 13706؛ ميزان الحكمہ، ج2، ص636، التوبة، حديث2111 ۔
155. غرر الحكم ص195، آثار التوبة، حديث 3835؛مستدرك الوسائل ج 12، ص129، باب 86، حديث 13707؛ميزان الحكمہ، ج2، ص636، التوبة، حديث 2112۔
156. خصال ج2، ص623، حديث 10؛بحار، ج6، ص21، باب 20، حديث 14۔
157. عيون اخبارالرضاج2، ص29، باب31، حديث33؛جامع الاخبارص85، الفصل الحادي والاربعون في معرفة الموٴمن؛ وسائل الشيعہ ج16، ص75، باب 86، حديث 21021۔
158. عيون اخبار الرضا ج2، ص74، باب 31، حديث 347؛وسائل الشيعہ ج16، ص75، باب 86، حديث 21022؛بحار، ج6، ص21، باب 20، حديث 16۔
159. معاني الاخبار ص174، باب معني التوبة النصوح، حديث 3؛وسائل الشيعہ ج16، ص77، باب 87، حديث 21027؛ بحارالانوار، ج6، ص22، باب 20، حديث23۔
160. كنزل العمال ص10165؛ميزان الحكمہ، ج2، ص636، التوبہ، حديث 2123۔
161. جامع الاخبار، 87، الفصل الخامس والاربعون في التوبة، مستدرك الوسائل ج12، ص130، باب 87، حديث 13709۔
162. غرر الحكم ص194، حديث 3777؛مستدرك الوسائل ج12، ص137، باب 87، حديث 13715۔
163. ثواب الاعمال ص179، ثواب التوبة؛بحارالانوارج6، ص28، باب20، حديث32۔
164. ثواب الاعمال، 130، ثواب من اذنب ذنباًثم رجع و تاب؛وسائل الشيعہ ج16، 74، باب 86، حديث21017۔
165. جامع الاخبار ص88، الفصل الخامس والاربعون في التوبة ؛بحار الانوار ج6، ص35، باب20، حديث52؛مستدرك الوسائل ج12، ص131، باب 87، حديث 13709۔قارئين كرام! اس روايت ميں جن چيزوں كے بدلنے كا حكم ھوا ھے ان سے وہ چيزيں مراد ھيں جو حرام طريقہ سے حاصل كي گئي ھوںيا حرام چيزوں سے متعلق ھوں۔
166. سورہٴ نوح آيت 10۔12۔
167. سورہٴ تحريم آيت 8۔
168. آل عمران، 89۔مائدہ، 34۔اعراف، 153۔توبہ، 102۔نور، 5۔
169. سورہٴ اعراف آيت 96۔
170. مجمع البيان ج10، ص361؛وسائل الشيعہ ج7، ص177، باب 23، حديث 9055۔