زندگانی رسول اکرم (ص)
جنگ تبوک
”تبوک“[97]کا مقام ان تمام مقامات سے دور تھا جھاں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی جنگوں میں پیش قدمی کی ۔ ”تبوک“اصل میںایک محکم اور بلند قلعہ کا نام تھا ۔ جو حجاز او رشام کی سرحد پر واقع تھا ۔ اسی وجہ سے اس علاقے کو سر زمین تبوک کہتے تھے ۔
جزیرہ نمائے عرب میں اسلام کے تیز رفتار نفوذ کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شھرت اطراف کے تمام ممالک میں گونجنے لگی باوجود یہ کہ وہ اس وقت حجازکی اھمیت کے قائل نھیں تھے لیکن طلوع اسلام اور لشکر اسلام کی طاقت کہ جس نے حجاز کو ایک پرچم تلے جمع کرلیا، نے انھیں اپنے مستقبل کے بارے میں تشویش میں ڈال دیا ۔
مشرقی روم کی سرحد حجاز سے ملتی تھی اس حکومت کو خیال هوا کہ کھیں اسلام کی تیز رفتار ترقی کی وہ پھلی قربانی نہ بن جائے لہٰذا اس نے چالیس ہزار کی زبردست مسلح فوج جو اس وقت کی روم جیسی طاقتور حکومت کے شایان شان تھی‘ اکھٹی کی اور اسے حجاز کی سرحد پر لاکھڑا کیا یہ خبر مسافروں کے ذریعے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کانوں تک پہنچی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے روم اور دیگر ھمسایوں کودرس عبرت دینے کے لئے توقف کئے بغیر تیاری کا حکم صادر فرمایاآپ کے منادیوںنے مدینہ اور دوسرے علاقوں تک آپ کا پیغام پہنچایا تھوڑے ھی عرصہ میں تیس ہزار افراد رومیوں سے جنگ کرنے کے لئے تیار هوگئے ان میں دس ہزار سوار اور بیس ہزار پیادہ تھے ۔
موسم بہت گرم تھا، غلے کے گودام خالی تھے اس سال کی فصل ابھی اٹھائی نھیں گئی تھی ان حالات میں سفر کرنا مسلمانوں کے لئے بہت ھی مشکل تھا لیکن چونکہ خدا اور رسول کافرمان تھا لہٰذا ھر حالت میں سفر کرنا تھا اور مدینہ اور تبوک کے درمیان پرُ خطر طویل صحرا کو عبور کرنا تھا ۔

لشکر ی مشکلات
اس لشکر کو چونکہ اقتصادی طور پر بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس کا راستہ بھی طولانی تھا راستے میں جلانے والی زھریلی هوائیں چلتی تھیں سنگریزے اڑتے تھے اور جھکڑچلتے تھے سواریاں بھی کافی نہ تھیں اس لئے یہ ”جیش العسرة“ (یعنی سختیوں والا لشکر ) کے نام سے مشهور هوا ۔
تاریخ اسلام نشاندھی کرتی ھے کہ مسلمان کبھی بھی جنگ تبوک کے موقع کی طرح مشکل صورت حال، دباؤ اور زحمت میں مبتلا نھیں هوئے تھے کیونکہ ایک تو سفر سخت گرمی کے عالم میں تھا دوسرا خشک سالی نے لوگوں کو تنگ اور ملول کررکھا تھا اور تیسرا اس وقت درختوں سے پھل اتارنے کے دن تھے اور اسی پر لوگوں کی سال بھر کی آمدنی کا انحصار تھا۔
ان تمام چیزوں کے علاوہ مدینہ اور تبوک کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ تھا اور مشرقی روم کی سلطنت کا انھیں سامنا تھا جو اس وقت کی سپر پاور تھی۔
مزید برآں سواریاں اور رسد مسلمانوں کے پاس اتنا کم تھا کہ بعض اوقات دوافراد مجبور هوتے تھے کہ ایک ھی سواری پرباری باری سفر کریں بعض پیدل چلنے والوں کے پاس جوتاتک نھیںتھا اور وہ مجبور تھے کہ وہ بیابان کی جلانے والی ریت پرپا برہنہ چلیں آب وغذا کی کمی کا یہ عالم تھا کہ بغض اوقات خرمہ کا ایک دانہ چند آدمی یکے بعد دیگرے منہ میں رکھ کر چوستے تھے یھاں تک کہ اس کی صرف گٹھلی رہ جاتی پانی کا ایک گھونٹ کبھی چند آدمیوں کو مل کر پینا پڑتا ۔
یہ واقعہ نوہجری یعنی فتح مکہ سے تقریبا ایک سال بعد رونماهوا ۔مقابلہ چونکہ اس وقت کی ایک عالمی سوپر طاقت سے تھا نہ کہ عرب کے کسی چھوٹے بڑے گروہ سے لہٰذا بعض مسلمان اس جنگ میں شرکت سے خوف زدہ تھے اس صورت حال میں منافقین کے زھریلے پر وپیگنڈے اور وسوسوں کے لئے ماحول بالکل ساز گار تھا اور وہ بھی مومنین کے دلوں اور جذبات کوکمزور کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نھیں کررھے تھے ۔
پھل اتارنے اور فصل کاٹنے کا موسم تھا جن لوگوں کی زندگی تھوڑی سی کھیتی باڑی اور کچھ جانور پالنے پر بسر هوتی تھی یہ ان کی قسمت کے اھم دن شمار هوتے تھے کیونکہ ان کی سال بھر کی گزر بسر انھیں چیزوں سے وابستہ تھےں۔
جیسا کہ ھم کہہ چکے ھیں مسافت کی دوری اور موسم کی گرمی بھی روکنے والے عوامل کی مزید مدد کرتی تھی اس موقع پر آسمانی وحی لوگوں کی مدد کے لئے آپہنچی اور قرآنی آیات یکے بعد دیگر ے نازل هوئیں اور ان منفی عوامل کے سامنے آکھڑی هوئیں۔

تشویق ، سرزنش، اور دھمکی کی زبان
قرآن جس قدر هوسکتی ھے اتنی سختی اور شدت سے جھاد کی دعوت دتیاھے ۔ کبھی تشویق کی زبان سے کبھی سرزنش کے لہجے میں اورکبھی دھمکی کی زبان میں ان سے بات کرتا ھے،اور انھیںآمادہ کرنے کے لئے ھر ممکن راستہ اختیار کرتا ھے۔ پھلے کہتا ھے:” کہ خدا کی راہ میں ،میدان جھاد کی طرف حرکت کرو تو تم سستی کا مظاھرہ کرتے هو اور بوجھل پن دکھاتے هو “۔[98]
اس کے بعد ملامت آمیز لہجے میں قرآن کہتا ھے : ”آخرت کی وسیع اور دائمی زندگی کی بجائے اس دنیاوی پست اور ناپائیدار زندگی پر راضی هوگئے هو حالانکہ دنیاوی زندگی کے فوائد اور مال ومتاع آخرت کی زندگی کے مقابلے میں کوئی حیثیت نھیں رکھتے اور بہت ھی کم ھیں “۔[99]
ایک عقلمند انسان ایسے گھاٹے کے سودے پر کیسے تیار هوسکتا ھے اور کیونکہ وہ ایک نھایت گراں بھامتاع اور سرمایہ چھوڑکر ایک ناچیز اور بے وقعت متاع کی طرف جاسکتاھے ۔
اس کے بعد ملامت کے بجائے ایک حقیقی تہدید کا اندازاختیار کرتے هوئے ارشاد فرمایا گیا ھے :” اگر تم میدان جنگ کی طرف حرکت نھیں کرو گے تو خدا دردناک عذاب کے ذریعے تمھیں سزادے گا“۔ [100]
”اور اگر تم گمان کرتے هو کہ تمھارے کنارہ کش هونے اور میدان جھاد سے پشت پھیرنے سے اسلام کی پیش رفت رک جائے گی اور آئینہ الٰھی کی چمک ماند پڑجائے گی تو تم سخت اشتباہ میں هو ،کیونکہ خدا تمھارے بجائے ایسے صاحبان ایمان کو لے آئے گا جو عزم مصمم رکھتے هوں گے اور فرمان خدا کے مطیع هوں گے“۔ [101]
وہ لوگ کہ جو ھر لحاظ سے تم سے مختلف ھیں نہ صرف ان کی شخصیت بلکہ انکا ایمان، ارادہ،دلیری اور فرماں برداری بھی تم سے مختلف ھے لہٰذا ” اس طرح تم خدا اور اس کے پاکیزہ دین کو کوئی نقصان نھیں پہنچا سکتے“ ۔[102]

تنھاوہ جنگ جس میںحضرت علی نے شرکت نہ کی
اس لشکر کو چونکہ اقتصادی طور پر بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس کا راستہ بھی طولانی تھا راستے میں جلانے والی زھریلی هوائیں چلتی تھیں سنگریزے اڑتے تھے اور جھکّڑچلتے تھے سواریاں بھی کافی نہ تھیں اس لئے یہ” جیش العسرة“ (یعنی سختیوں والا لشکر )کے نام سے مشهور هوا اس نے تمام سختیوں کو جھیلا اور ماہ شعبان کی ابتداء میں ہجرت کے نویں سال سرزمین ”تبوک“ میں پہنچا جب کہ رسول اللہ حضرت علی کو اپنی جگہ پر مدینہ میں چھوڑآئے تھے یہ واحد غزوہ ھے جس میں حضرت علی علیہ السلام شریک نھیں هوئے ۔
رسول اللہ کایہ اقدام بہت ھی مناسب اور ضروری تھا کیونکہ بہت احتمال تھا کہ بعض پیچھے رہنے والے مشرکین یامنا فقین جو حیلوں بھانوں سے میدان تبوک میں شریک نہ هوئے تھے، رسول اللہ اور ان کی فوج کی طویل غیبت سے فائدہ اٹھائیں اور مدینہ پر حملہ کردیں، عورتوں اور بچوں کو قتل کردیں اور مدینہ کو تاراج کردیں لیکن حضرت علی کا مدینہ میں رہ جانا ان کی سازشوں کے مقابلے میں ایک طاقتور رکاوٹ تھی ۔
بھرحال جب رسول اللہ تبوک میں پہنچے تو وھاں آپ کو رومی فوج کا کوئی نام ونشان نظر نہ آیا عظیم سپاہ اسلام چونکہ کئی جنگوں میں اپنی عجیب وغریب جراٴت وشجاعت کا مظاھرہ کرچکی تھی، جب ان کے آنے کی کچھ خبر رومیوں کے کانوں تک پہنچی تو انھوں نے اسی کو بہتر سمجھا کہ اپنے ملک کے اندرچلے جائیں اور اس طرح سے ظاھر کریں کہ مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے لشکر روم کی سرحدوں پر جمع هونے کی خبر ایک بے بنیاد افواہ سے زیادہ کچھ نہ تھی کیونکہ وہ ایک ایسی خطرناک جنگ شروع کرنے سے ڈرتے تھے جس کا جواز بھی ان کے پاس کوئی نہ تھا لیکن لشکر اسلام کے اس طرح سے تیز رفتاری سے میدان تبوک میں پہنچنے نے دشمنانِ اسلام کو کئی درس سکھائے، مثلاً:
۱۔یہ بات ثابت هوگئی کہ مجاہدین اسلام کا جذبہ جھاد اس قدر قوی ھے کہ وہ اس زمانے کی نھایت طاقت ور فوج سے بھی نھیں ڈرتے۔
۲۔ بہت سے قبائل اور اطراف تبوک کے امراء پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں آئے اور آپ سے تعرض اور جنگ نہ کرنے کے عہدوپیمان پر دستخط کیے اس طرح مسلمان ان کی طرف سے آسودہ خاطر هوگئے ۔
۳۔ اسلام کی لھریں سلطنت روم کی سرحدوں کے اندر تک چلی گئیں اور اس وقت کے ایک اھم واقعہ کے طور پر اس کی آواز ھر جگہ گونجی اور رومیوں کے اسلام کی طرف متوجہ هونے کے لئے راستہ ھموار هوگیا ۔
۴۔ یہ راستہ طے کرنے اور زحمتوں کو برداشت کرنے سے آئندہ شام کا علاقہ فتح کرنے کے لئے راہ ھموار هوگئی اور معلوم هوگیا کہ آخرکار یہ راستہ طے کرنا ھی ھے ۔
یہ عظیم فوائد ایسے تھے کہ جن کے لئے لشکر کشی کی زحمت برداشت کی جاسکتی تھی ۔
بھرحال پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی سنت کے مطابق اپنی فوج سے مشورہ کیا کہ کیا پیش قدمی جاری رکھی جائے یاواپس پلٹ جایا جائے؟
اکثریت کی رائے یہ تھی، کہ پلٹ جانا بہتر ھے اور یھی اسلامی اصولوں کی روح سے زیادہ مناسبت رکھتا تھا خصوصاً جبکہ اس وقت طاقت فرسا سفر اور راستے کی مشقت وزحمت کے باعث اسلامی فوج کے سپاھی تھکے هوئے تھے اور ان کی جسمانی قوت مزاحمت کمزور پڑچکی تھی، رسول اللہ نے اس رائے کو صحیح قرار دیا اور لشکر اسلام مدینہ کی طرف لوٹ آیا۔

ایک عظیم درس
”ابو حثیمہ “[103] اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں سے تھا ،منافقین میں سے نہ تھا لیکن سستی کی وجہ سے پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ میدان تبوک میںنہ گیا ۔
اس واقعہ کو دس دن گذر گئے ،هوا گرم او رجلانے والی تھی،ایک دن اپنی بیویوں کے پاس آیا انھوں نے ایک سائبان تان رکھا تھا ، ٹھنڈا پانی مھیا کر رکھا تھا او ربہترین کھانا تیار کر رکھا تھا، وہ اچانک غم و فکر میں ڈوب گیا او راپنے پیشوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یاد اسے ستانے لگی ،اس نے کھا:رسول اللہ کہ جنھوںنے کبھی کوئی گناہ نھیں کیا او رخدا ان کے گذشتہ اور آئندہ کا ذمہ دار ھے ،بیابان کی جلا ڈالنے والی هواؤں میں کندھے پر ہتھیار اٹھائے اس دشوار گذار سفر کی مشکلات اٹھارھے ھیں او رابو حثیمہ کو دیکھو کہ ٹھنڈے سائے میں تیار کھانے اور خوبصورت بیویوں کے پاس بیٹھا ھے ،کیا یہ انصاف ھے ؟
اس کے بعد اس نے اپنی بیویوں کی طرف رخ کیا او رکھا:
خدا کی قسم تم میں سے کسی کے ساتھ میں بات نہ کروں گا او رسائبان کے نیچے نھیں بیٹھوں گا جب تک پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نہ جاملوں ۔
یہ بات کہہ کر اس نے زادراہ لیا ،اپنے اونٹ پر سوار هوااور چل کھڑا هوا ،اس کی بیویوںنے بہت چاھا کہ اس سے بات کریں لیکن اس نے ایک لفظ نہ کھا او راسی طرح چلتا رھا یھاں تک کہ تبوک کے قریب جا پہنچا ۔
مسلماان ایک دوسرے سے کہنے لگے :یہ کوئی سوار ھے جو سڑک سے گذررھا ھے، لیکن پیغمبر اکرم نے فرمایا:اے سوار تم ابو حثیمہ هو تو بہتر ھے۔
جب وہ قریب پہنچا او رلوگوںنے اسے پہچان لیا تو کہنے لگے : جی ھاں ؛ ابو حثیمہ ھے ۔
اس نے اپنا اونٹ زمین پر بٹھایا او رپیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں سلام عرض کیا او راپنا ماجرابیان کیا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے خوش آمدید کھا اور اس کے حق میں دعا فرمائی ۔
اس طرح وہ ایک ایسا شخص تھا جس کا دل باطل کی طرف مائل هوگیا تھا لیکن اس کی روحانی آمادگی کی بنا ء پر خدا نے اسے حق کی طرف متوجہ کیا اور ثبات قدم بھی عطا کیا ۔

جنگ تبوک میں شرکت نہ کرنے والے تین لوگ
مسلمانوں میں سے تین افراد کعب بن مالک ،مرارہ بن ربیع او ربلال بن امیہ نے جنگ تبوک میںشرکت نہ کی او رانھوںنے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ھمراہ سفر نہ کیا وہ منافقین میں شامل نھیں هو نا چاہتے تھے بلکہ ایسا انھوںنے سستی اور کاھلی کی بنا پر کیا تھا،تھوڑا ھی عرصہ گذرا تھا کہ وہ اپنے کئے پر نادم اور پشیمان هوگئے۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میدان تبوک سے مدینہ لوٹے تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر هوئے اور معذرت کی لیکن رسول اللہ نے ان سے ایک لفظ تک نہ کھا اور مسلمانوں کو بھی حکم دیا کہ کوئی شخص ان سے بات چیت نہ کرے وہ ایک عجیب معاشرتی دباؤ کا شکار هوگئے یھاں تک کہ ان کے چھوٹے بچے او رعورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئیں او راجازت چاھی کہ ان سے الگ هو جائیں ،آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انھیں علیحدگی کی اجازت تو نہ دی لیکن حکم دیا کہ ان کے قریب نہ جائیں،مدینہ کی فضااپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ هو گئی ،وہ مجبور هوگئے کہ اتنی بڑی ذلت اوررسوائی سے نجات حاصل کرنے کے لئے شھر چھوڑدیں اوراطراف مدینہ کے پھاڑوں کی چوٹی پر جاکر پناہ لیں۔
جن باتوںنے ان کے جذبات پر شدید ضرب لگائی ان میں سے ایک یہ تھی کہ کعب بن مالک کہتا ھے :میںایک دن بازار مدینہ میں پریشانی کے عالم میں بیٹھا تھاکہ ایک شامی عیسائی مجھے تلاش کرتا هوا آیا، جب اس نے مجھے پہچان لیا تو بادشاہ غسان کی طرف سے ایک خط میرے ھاتھ میںدیا ، اس میں لکھاتھا کہ اگر تیرے ساتھی نے تجھے دھتکاردیا ھے تو ھماری طرف چلے آؤ، میری حالت منقلب اور غیر هوگئی ،اور میں نے کھا وائے هو مجھ پر میرا معاملہ اس حد تک پہنچ گیا ھے کہ دشمن میرے بارے میں لالچ کرنے لگے ھیں، خلاصہ یہ کہ ان کے اعزا ء واقارب ان کے پاس کھانالے آتے مگر ان سے ایک لفظ بھی نہ کہتے ،کچھ مدت اسی صورت میں گزر گئی او روہ مسلسل انتظار میں تھے کہ اس کی توبہ قبول هو اورکوئی آیت نازل هو جو ان کی توبہ کی دلیل بنے ، مگر کوئی خبر نہ تھی ۔
اس دوران ان میں سے ایک کے ذہن میںیہ بات آئی او راس نے دوسروں سے کھا اب جبکہ لوگوں نے ھم سے قطع تعلق کر لیا ھے ،کیا ھی بہتر ھے کہ ھم بھی ایک دوسرے سے قطع تعلق کرلیں (یہ ٹھیک ھے کہ ھم گنہ گار ھیں لیکن مناسب ھے کہ دوسرے گنہ گار سے خوش او رراضی نہ هوں)۔
انھوں نے ایسا ھی کیا یھاں تک کہ ایک لفظ بھی ایک دوسرے سے نھیںکہتے تھے اوران میںسے کوئی ایک دوسرے کے ساتھ نھیں رہتا تھا،اس طرح پچاس دن انھوںنے توبہ وزاری کی او رآخر کار ان کی توبہ قبول هوگئی ۔[104]

مسجد ضرار[105]
کچھ منافقین رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئے او رعرض کیا، ھمیں اجازت دیجیئے کہ ھم قبیلہ ”بنی سالم“ کے درمیان”مسحد قبا“کے قریب ایک مسجد بنالیں تاکہ ناتواں بیمار اور بوڑھے جو کوئی کام نھیں کرسکتے اس میں نماز پڑھ لیا کریں۔ اسی طرح جن راتوں میں بارش هوتی ھے ان میں جو لوگ آپ کی مسجد میں نھیں آسکتے اپنے اسلامی فریضہ کو اس میں انجام دے لیا کریں۔
یہ اس وقت کی بات ھے جب پیغمبر خد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جنگ تبوک کا عزم کرچکے تھے آنحضرت نے انھیں اجازت دےدی۔
انھوں نے مزید کھا: کیا یہ بھی ممکن ھے کہ آپ خود آکر اس میں نماز پڑھیں؟نبی اکرم نے فرمایا: اس وقت تو میں سفر کا ارادہ کر چکا هوں البتہ واپسی پر خدا نے چاھا تو اس مسجد میں آکر نماز پڑھوں گا۔
جب آپ جنگ تبوک سے لوٹے تو یہ لوگ آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے ھماری درخواست ھے کہ آپ ھماری مسجد میں آکر اس میں نماز پڑھائیں اورخدا سے دعا کریں کہ ھمیں برکت دے ۔
یہ اس وقت کی بات ھے جب ابھی آنحضرت مدینہ کے دروازے میں داخل نھیںهوئے تھے اس وقت وحی خدا کا حامل فرشتہ نازل هوا اور خدا کی طرف سے پیغام لایا او ران کے کرتوت سے پردہ اٹھایا۔
ان لوگوںکے ظاھراًکام کو دیکھا جائے تو ھمیں شروع میں تو اس حکم پر حیرت هوئی کہ کیا بیماروں اوربوڑھوں کی سهولت کے لئے اوراضطراری مواقع کے لئے مسجد بنانا برا کام ھے جبکہ یہ ایک دینی او رانسانی خدمت معلوم هوتی ھے کیا ایسے کام کے بارے میں یہ حکم صادر هوا ھے؟لیکن اگر ھم اس معاملہ کی حقیقت پر نظر کریں گے تو معلوم هوگا کہ یہ حکم کس قدر بر محل اور جچاتلا تھا۔
اس کی وضاحت یہ ھے کہ” ابو عامر“نامی ایک شخص نے عیسائیت قبول کرلی تھی اور راھبوں کے مسلک سے منسلک هوگیا تھا ۔ اس کا شمار عابدوں میں هوتا تھا ، قبیلہ خزرج میں اس کا گھرا اثرورسوخ تھا ۔
رسول اللہ نے جب مدینہ کی طرف ہجرت کی او رمسلمان آپ کے گرد جمع هوگئے تو ابو عامر جو خودبھی پیغمبر کے ظهور کی خبر دینے والوں میں سے تھا،اس نے دیکھا کہ اس کے ارد گرد سے لوگ چھٹ گئے ھیں اس پر وہ اسلام کے مقابلے کے لئے اٹھ کھڑا هوا ،وہ مدینہ سے نکلا اور کفار مکہ کے پاس پہنچا،اس نے ان سے پیغمبر اکرم کے خلاف جنگ کے لئے مدد چاھی اور قبائل عرب کو بھی تعاون کی دعوت دی ،وہ خود مسلمانوں کے خلاف جنگ احد کی منصوبہ بندی میںشریک رھا تھا،اور راہنمائی کرنے والوں میں سے تھا،اس نے حکم دیا کہ لشکر کی دو صفوں کے درمیان گڑھے کھوددے جائیں ۔اتفاقاً پیغمبر اسلامایک گڑھے میں گر پڑے ،آپ کی پیشانی پر زخم آئے اور دندان مبارک ٹوٹ گئے ۔
جنگ احد ختم هوئی،مسلمانوں کو اس میدان میں آنے والی مشکلات کے باوجود اسلام کی آواز بلند تر هوئی او رھر طرف صدا ئے اسلام گونجنے لگی، تو وہ مدینہ سے بھاگ گیا او ربادشاہ روم ھرقل کے پاس پہنچا تاکہ اس سے مددچاھے اور مسلمانوں کی سرکوبی کے لئے ایک لشکر مھیا کرے۔
اس نکتے کا بھی ذکر ضروری ھے کہ اس کی ان کارستانیوں کی وجہ سے پیغمبر اسلام نے اسے ”فاسق“کالقب دے رکھاتھا۔
بعض کہتے ھیں کہ موت نے اسے مھلت نہ دی کہ وہ اپنی آرزو ھرقل سے کہتا لیکن بعض دوسری کتب میں ھے کہ وہ ھرقل سے جاکر ملا اور اس کے وعدوں سے مطمئن اورخوش هوا۔
بھر حال اس نے مرنے سے پھلے مدینہ کے منافقین کو ایک خط لکھا اور انھیں خوشخبری دی کہ روم کے ایک لشکر کے ساتھ وہ ان کی مدد کوآئے گا۔اس نے انھیں خصوصی تاکید کی کہ مدینہ میں وہ اس کے لئے ایک مرکز بنائیں تاکہ اس کی آئندہ کی کارگذاریوں کے لئے وہ کام دے سکے لیکن ایسا مرکز چونکہ مدینہ میں اسلام دشمنوں کی طرف سے اپنے نام پر قائم کرنا عملی طور پر ممکن نہ تھا۔ لہٰذا منافقین نے مناسب یہ سمجھا کہ مسجد کے نام پر بیماروں اور معذوروں کی مدد کی صورت میں اپنے پروگرام کو عملی شکل دیں۔
آخر کار مسجد تعمیر هوگئی یھاں تک کہ مسلمانوں میں سے ”مجمع بن حارثہ“ (یا مجمع بَن جاریہ)نامی ایک قرآن فھم نوجوان کو مسجد کی امامت کے لئے بھی چن لیا گیا لیکن وحی الٰھی نے ان کے کام سے پردہ اٹھادیا۔
یہ جو پیغمبر اکرم نے جنگ تبوک کی طرف جانے سے قبل ان کے خلا ف سخت کاروائی کا حکم نھیں دیا اس کی وجہ شاید ایک تو ان کی حقیقت زیادہ واضح هوجائے او ردوسرا یہ کہ تبوک کے سفر میں اس طرف سے کوئی او رذہنی پریشانی نہ هو۔ بھر حال جو کچھ بھی تھا رسول اللہ نے نہ صرف یہ کہ مسجد میں نماز نھیں پڑھی بلکہ بعض مسلمانوں (مالک بن دخشم،معنی بن عدی اور عامر بن سکر یا عاصم بن عدی)کو حکم دیا کہ مسجدکو جلادیں او رپھر اس کی دیواروں کو مسمار کروادیا۔ او رآخر کار اسے کوڑاکرکٹ پھیکنے کی جگہ قرار دےدیا۔

مسجد قبا ء
یہ بات قابل توجہ ھے کہ خدا وند عالم اس حیات بخش حکم کی مزید تاکید کے لئے خداوند متعال فرماتا ھے کہ اس مسجد میں ھرگز قیام نہ کرو اور اس میں نمازنہ پڑھو۔[106]
”بلکہ اس مسجدکے بجائے زیادہ مناسب یہ ھے کہ اس مسجد میں عبادت قائم کرو جس کی بنیاد پھلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ھے“ [107]
نہ یہ کہ یہ مسجد جس کی بنیاد روز اول ھی سے کفر،نفاق،بے دینی اور تفرقہ پر رکھی گئی ھے۔
”مفسرین نے کھا ھے کہ جس مسجد کے بارے میں مندرجہ بالا جملے میں کھا گیا ھے کہ زیادہ مناسب یہ ھے کہ پیغمبر اس میں نماز پڑھیں اس سے مراد” مسجد قبا “ھے کہ جس کے قریب منافقین نے مسجد ضرار بنائی تھی“۔
اس کے بعد قرآن مزید کہتا ھے :”کہ علاوہ اس کے کہ اس مسجد کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ھے ،مردوں کا ایک گروہ اس میں مشغول عباد ت ھے جو پسند کرتا ھے کہ اپنے آپ کو پاک وپاکیزہ رکھے اور خدا پاکباز لوگوں کو دوست رکھتا ھے “۔[108]

سب سے پھلی نماز جمعہ
پھلا جمعہ جو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے اصحاب کے ساتھ پڑھا وہ اس وقت پڑھا گیا جب آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی ۔ جب آپ مدینہ میں وارد هوئے تو اس دن پیر کا دن بارہ ربیع الاول او رظھر کا وقت تھا۔ حضرت چار دن تک”قبا “میں رھے او رمسجد قبا کی بنیاد رکھی ، پھر جمعہ کے دن مدینہ کی طرف روانہ هوئے(قبااور مدینہ کے درمیان فاصلہ بہت ھی کم ھے اور موجودہ وقت میںقبا مدینہ کا ایک داخلی محلہ ھے)
اور نماز جمعہ کے وقت آپ محلہ”بنی سالم“میں پہنچے وھاں نماز جمعہ ادا فرمائی اور یہ اسلام میں پھلا جمعہ تھا جو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اداکیا۔ جمعہ کی نماز میں آپ نے خطبہ بھی پڑھا۔ جو مدینہ میں آنحضرت کا پھلا خطبہ تھا۔

واقعہ غدیر
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی کا آخری سال تھا”حجة الوداع “کے مراسم جس قدر باوقار و پرشکوہ هو سکتے تھے اس قدر پیغمبر اکرم کی ھمراھی میں اختتام پذیر هوئے۔ سب کے دل روحانیت سے سرشار تھے ابھی ان کی روح اس عظیم عبادت کی معنوی لذت کا ذائقہ محسوس کررھی تھی ۔ اصحاب پیغمبر جن کی تعداد بہت زیادہ تھی اس عظیم نعمت سے فیض یاب هوئے او راس سعادت کے حاصل هونے پر جامے میں پھولے نھیں سماتے تھے۔
نہ صرف مدینہ کے لوگ اس سفر میں پیغمبر کے ساتھ تھے بلکہ جزیرہ نمائے عرب کے دیگر مختلف حصوں کے مسلمان بھی یہ عظیم تاریخی اعزازوافتخار حاصل کرنے کے لئے آپ کے ھمراہ تھے۔
سرزمین حجاز کا سورج دروں اور پھاڑوںپر آگ برسارھا تھا لیکن اس سفرکی بے نظیر روحانی مٹھاس تمام تکلیفوں کو آسان بنارھی تھی۔ زوال کا وقت نزدیک تھا۔ آہستہ آہستہ ”حجفہ “کی سرزمین او راس کے بعد خشک اور جلانے والے”غدیرخم“ کے بیابان نظر آنے لگے۔
در اصل یھاں پر ایک چوراھا ھے جو حجاز کے لوگوں کوایک دوسرے سے جدا کرتا ھے۔ شمالی راستہ مدینہ کی طرف دوسرا مشرقی راستہ عراق کی طرف،تیسرا مغربی ممالک او رمصر کی طرف اور چوتھا جنوبی راستہ سرزمین یمن کو جاتا ھے یھی وہ مقام ھے جھاں پر آخری مقصد او راس عظیم سفر کااھم ترین کام انجام پذیر هوتا تھا تاکہ مسلمان پیغمبر کی اھم ذمہ داریوںمیںسے ان کا آخری حکم جان کر ایک دوسرے سے جداهوں ۔
جمعرات کا دن تھا اورہجرت کا دسواں سال۔ آٹھ دن عید قربان کو گزرے تھے کہ اچانک پیغمبر کی طرف سے ان کے ھمراھیوں کو ٹھھر جانے کا حکم دیا گیا۔ مسلمانوں نے بلندآواز سے ان لوگوں کو جو قافلے کے آگے چل رھے تھے واپس لوٹنے کے لئے پکارا اوراتنی دیر کے لئے ٹھھر گئے کہ پیچھے آنے والے لوگ بھی پہنچ جائیں۔ آفتاب خط نصف النھار سے گزر گیا تو پیغمبر کے موٴذن نے ”اللہ اکبر “کی صداکے ساتھ لوگوں کونماز ظھر پڑھنے کی دعوت دی ۔ مسلمان جلدی جلدی نماز پڑھنے کے لئے تیار هوگئے ۔ لیکن فضاء اتنی گرم تھی کہ بعض لوگ مجبور تھے کہ وہ اپنی عبا کا کچھ حصہ پاؤں کے نیچے اور باقی سر کے اوپر لے لیں،ورنہ بیابان کی گرم ریت اور سورج کی شعاعیں ان کے سر اور پاؤں کو تکلیف دے رھی تھیں۔
اس صحراء میں کوئی سائبان نظر نہ آتا تھا اور نہ ھی کوئی سبزہ یاگھاس صرف چند بے برگ وبار بیابانی درخت تھے جو گرمی کا سختی کے ساتھ مقابلہ کر رھے تھے کچھ لوگ انھی چند درختوں کا سھارا لئے هوئے تھے اور انهوں نے ان برہنہ درختوں پر ایک کپڑاڈال رکھا تھا اور پیغمبر کے لئے ایک سائبان سا بنا رکھا تھا لیکن گرم هوا اس سائبان کے نیچے سے گزرتی هوئی سورج کی جلانے والی گرمی کو اس سائبان کے نیچے بھی پھیلا رھی تھی۔ بھر حال ظھر کی نماز پڑھ لی گئی۔

خطبہٴ غدیر
مسلمان ارادہ کررھے تھے کہ فوراً اپنے چھوٹے چھوٹے خیموں میں جاکر پناہ لیں جو انھوں نے اپنے ساتھ اٹھارکھے تھے لیکن رسول اللہ نے انھیں آگاہ کیا کہ وہ سب کے سب خداوندتعالیٰ کا ایک نیا پیغام سننے کے لئے تیار هوں جسے ایک مفصل خطبے کے ساتھ بیان کیا جائے گا۔
جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دور تھے وہ پیغمبر کا ملکوتی چھرہ اس عظیم اجتماع میں دور سے دیکھ نھیں پارھے تھے لہٰذا اونٹوں کے پالانوں کا منبر بنایا گیا۔پیغمبر اس کے اوپر تشریف لے گئے۔پھلے پروردگار عالم کی حمد وثنا بجالائے اور خدا پر بھروسہ کرتے هوئے یوں خطاب فرمایا:میں عنقرب خداوندمتعال کی دعوت پر لبیک کہتے هوئے تمھارے درمیان سے جارھا هوں ،میں بھی جوابدہ هوںاورتم بھی جوابدہ هو ،تم میرے بارے میں کیا گواھی دوگے لوگوں نے بلند آواز میں کھا :
”ھم گواھی دیں گے کہ آپ نے فریضہٴ رسالت انجام دیا اورخیر خواھی کی ذمہ داری کو انجام دیا اور ھماری ہدایت کی راہ میں سعی و کوشش کی،خدا آپکوجزا ئے خیر دے“۔
اس کے بعد آپ نے فرمایا کیا تم لوگ خدا کی وحدانیت،میری رسالت اور روز قیامت کی حقانیت اوراس دن مردوں کے قبروں سے مبعوث هونے کی گواھی نھیں دیتے؟
سب نے کھا:کیوں نھیں ھم سب گواھی دیتے ھیں۔
آپ نے فرمایا: خداوندگواہ رہنا۔
آپ نے مزید فرمایا:اے لوگو ! کیا تم میری آواز سن رھے هو؟
انهوںنے کھا: جی ھاں۔
اس کے بعد سارے بیابان پر سکوت کا عالم طاری هوگیا۔ سوائے هوا کی سنسناہٹ کے کوئی چیز سنائی نھیں دیتی تھی ۔ پیغمبر نے فرمایا:دیکھو! میں تمھارے درمیان دوگرانمایہ اور گرانقدر چیزیں بطور یادگار چھوڑے جارھا هوں تم ان کے ساتھ کیا سلوک کروگے؟
حاضرین میں سے ایک شخص نے پکار کر کھا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہ دو گرانمایہ چیزیں کونسی ھیں؟
تو پیغمبراکرم نے فرمایا: پھلی چیز تو اللہ تعالیٰ کی کتاب ھے جو ثقل اکبر ھے۔ اس کا ایک سرا تو پروردگار عالم کے ھاتھ میں ھے اور دوسرا سراتمھارے ھاتھ میں ھے،اس سے ھاتھ نہ ہٹانا ورنہ تم گمراہ هو جاؤگے۔ دوسری گرانقدر یادگار میرے اھل بیت (ع) ھیں اور مجھے خدائے لطیف وخبیر نے خبردی ھے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نھیں هوں گے یھاں تک کہ بہشت میں مجھ سے آملیںگے۔
ان دونوں سے آگے بڑھنے (اور ان سے تجاوز کرنے) کی کوشش نہ کرنا اور نہ ھی ان سے پیچھے رہنا کہ اس صورت میں بھی تم ھلاک هو جاؤگے۔
اچانک لوگوں نے دیکھا کہ ر سول اللہ اپنے ارد گرد نگاھیں دوڑارھے ھیں گویا کسی کو تلاش کر رھے ھیں جو نھی آپ کی نظر حضرت علی علیہ السلام پر پڑی فوراً ان کا ھاتھ پکڑلیا اور انھیں اتنا بلند کیا کہ دونوں کی بغلوں کے نیچے کی سفیدی نظر آنے لگی اور سب لوگوں نے انھیں دیکھ کر پہچان لیاکہ یہ تو اسلام کا وھی سپہ سالار ھے کہ جس نے کبھی شکست کا منہ نھیں دیکھا۔
اس موقع پر پیغمبر کی آواز زیادہ نمایاں اوربلند هوگئی اور آپ نے ارشاد فرمایا:
”ایھا الناس من اولی الناس بالموٴمنین من انفسھم۔“
یعنی اے لوگو! بتاؤ وہ کون ھے جو تمام لوگوں کی نسبت مومنین پر خود ان سے زیادہ اولیت رکھتا ھے ؟ اس پر سب حاضرین نے بہ یک آواز جواب دیا کہ خدا اور اس کا پیغمبر بہتر جانتے ھیں۔
تو پیغمبر نے فرمایا: خداا میرا مولا اوررھبر ھے اور میں مومنین کا مولااوررھبر هوں اور ان کے اوپر ان کی نسبت خود ان سے زیادہ حق رکھتا هوں(اور میرا ارادہ ان کے ارادے سے مقدم ھے)۔
اس کے بعد فرمایا:
”فمن کنت مولاہ فہذا علی مولاہ“۔
”یعنی جس جس کا میں مولاہ هوں علی (ع) بھی اس اس کے مولاہ اوررھبر ھے“۔
پیغمبر اکرم نے اس جملے کی تین مرتبہ تکرار کی او ربعض راویوں کے قول کے مطابق پیغمبر نے یہ جملہ چار مرتبہ دھرایا اور اس کے بعد آسمان کی طرف سر بلند کر کے بارگاہ خداوندی میں عرض کی:۔
”اللّٰھم وال من والاہ وعاد من عاداہ واحب من احبہ و ابغض من ابغضہ و انصرمن نصرہ واخذل من خذلہ، وادرالحق معہ حیث دار۔“
یعنی بار الٰھا! جو اس کو دوست رکھے تو اس کو دوست رکھ او رجو اس سے دشمنی کرے تو اس سے دشمنی رکھ۔ جو اس سے محبت کرے تو اس سے محبت کر اور جو اس سے بغض رکھے تو اس سے بغض رکھ۔ جو اس کی مدد کرے تو اس کی مددکر ۔ جو اس کی مدد سے کنارہ کشی کرے تو اسے اپنی مددسے محروم رکھ اور حق کو ادھرپھیردے جدھر وہ رخ کرے۔
اس کے بعد فرمایا:
” تمام حاضرین آگاہ هوجائیں اس بات پر کہ یہ ان کی ذمہ داری ھے کہ وہ اس بات کوان لوگوں تک پہنچائیں جو یھاں پر اور اس وقت موجود نھیں ھیں “۔

روز اکمال دین
پیغمبر کا خطبہ ختم هوگیا پیغمبر پسینے میں شرابور تھے حضرت علی علیہ السلام بھی پسینے میں نھائے هوئے تھے۔ دوسرے تمام حاضرین کے بھی سر سے پاؤں تک پسینہ بہہ رھا تھا۔
ابھی اس جمعیت کی صفیں ایک دوسرے سے جدا نھیں هوئی تھیں کہ جبرئیل (ع) امین وحی لے کر نازل هوئے اور تکمیل دین کی پیغمبر کو بایں الفاظ بشارت دی:
”الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی “۔[109]
”آج کے دن میں نے تمھارے لئے تمھارے دین اور آئین کو کامل کردیا اور اپنی نعمت کو تم پر تمام کردیا“۔
اتمام نعمت کا پیغام سن کر پیغمبر نے فرمایا:
”اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر علی اکمال الدین واتمام النعمة ورضی الرب برسالتی والولایةلعلی من بعدی“۔
”ھر طرح کی بزرگی وبڑائی خداھی کے لئے ھے کہ جس نے اپنے دین کو کامل فرمایا اور اپنی نعمت کو ھم پر تمام کیا اور میری نبوت ورسالت اور میرے بعد کے لئے علی (ع) کی ولایت کے لئے خوش هوا۔“
امیرالموٴمنین علی ابن ابی طالب علیھما السلام کی ولایت کا پیغمبر کی زبان مبارک سے اعلان سن کر حاضرین میں مبارک باد کا شور برپا هوا لوگ بڑھ چڑھ کر اس اعزازومنصب پر حضرت علی (ع) کو اپنی طرف سے مبارک باد پیش کررھے تھے ۔ معروف شخصیتوں میں سے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کی طرف سے مبارک باد کے یہ الفاظ تاریخ کے اوراق میں محفوظ ھیں کہ انهوں نے کھا:
”بخٍ بخٍ لک یا بن ابی طالب اصبحت وامسیت مولائی و مولاکل موٴمن و موٴمنةٍ۔“
”مبارک هو ! مبارک هو! اے فرزند ابی طالب کہ آپ(ع) میرے اور تمام صاحبان ایمان مردوں اورعورتوں کے مولا اور رھبر هوگئے“۔
اس وقت ابن عباس نے کھا :بخدا یہ عہد وپیمان سب کی گردنوں میں باقی رھے گا“۔[110]

فدک
فدک اطراف مدینہ میں تقریباً ایک سو چالیس کلو میٹر کے فاصلہ پر خیبر کے نزدیک ایک آباد قصبہ تھا۔جب سات ہجری میں خیبر کے قلعے یکے بعد دیگر افواج اسلامی نے فتح کرلئے اور یهودیوں کی مرکزی قوت ٹوٹ گئی تو فدک کے رہنے والے یهودی صلح کے خیال سے بارگاہ پیغمبر میں سرتسلیم خم کرتے هوئے آئے اور انهوں نے اپنی آدھی زمینیں اور باغات آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سپرد کردئیے اور آدھے اپنے پاس رکھے ۔ اس کے علاوہ انهوں نے پیغمبر اسلام کے حصہ زمینوں کی کاشتکاری بھی اپنے ذمہ لی۔ اپنی کاشتکاری کی زحمت کی اجرت وہ پیغمبر اسلام سے وصول کرتے تھے،(سورہٴ حشر آیت)کے پیش نظراس کی طرف توجہ کرتے هوئے یہ زمینیں پیغمبر اسلام کی ملکیت خاص تھیں ۔ ان کی آمدنی کو آپ اپنے مصرف میں لاتے تھے یا ان مدات میں خرچ کرتے تھے جن کی طرف اس سورہ کی آیت نمبر۷ میں اشارہ هوا ھے ۔
لہٰذا پیغمبر نے یہ ساری زمینیں اپنی بیٹی حضرت فاطمة الزھرا سلام اللہ علیھا کوعنایت فرمادیں۔ یہ ایسی حقیقت ھے جسے بہت سے شیعہ اور اھل سنت مفسرین نے تصریح کے ساتھ تحریر کیا ھے۔منجملہ دیگر مفسرین کے تفسیر درالمنثور میں ابن عباسۻ سے مروی ھے کہ جس وقت آیت (فات ذاالقربیٰ حقہ)[111] نازل هوئی تو پیغمبر نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا کو فدک عنایت فرمایا:
کتا ب کنزالعمال جو مسند احمد کے حاشیہ پر لکھی گئی ھے،میں صلہ رحم کے عنوان کے ماتحت ابو سعید خدری سے منقول ھے کہ جس وقت مذکورہ بالاآیت نازل هوئی تو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فاطمہ سلام اللہ علیھا کو طلب کیا اور فرمایا:
” یا فاطمة لکِ فدک“
”اے فاطمہ(ع) فدک تیری ملکیت ھے“۔
حاکم نیشاپوری نے بھی اپنی تاریخ میں اس حقیقت کو تحریرکیا ھے۔
ابن ابی الحدید معتزلی نے بھی نہج البلاغہ کی شرح میں داستان فدک تفصیل کے ساتھ بیان کی ھے اور اسی طرح بہت سے دیگر مورخین نے بھی،لیکن وہ افراد جو اس اقتصادی قوت کو حضرت علی علیہ السلام کی زوجہ محترمہ کے قبضہ میں رہنے دینا اپنی سیاسی قوت کے لئے مضر سمجھتے تھے،انهوں نے مصصم ارادہ کیا کہ حضرت علی علیہ السلام کے یاور وانصار کو ھر لحاظ سے کمزور اور گوشہ نشیں کردیں۔ حدیث مجهول(نحن معاشر الانبیاء ولا نورث) کے بھانے انهوں نے اسے اپنے قبضہ میں لے لیا اور باوجود یکہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا قانونی طور پر اس پر متصرف تھیں اور کوئی شخص ”ذوالید“(جس کے قبضہ میں مال هو)سے گواہ کا مطالبہ نھیں کرتا،جناب سیدہ سلام اللہ علیھا سے گواہ طلب کیے گئے ۔ بی بی نے گواہ پیش کیے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خود انھیں فدک عطا فرمایا ھے لیکن انهوں نے ان تمام چیزوں کی کوئی پرواہ نھیں کی۔بعد میں آنے والے خلفاء میں سے جو کوئی اھلبیت (ع) سے محبت کا اظھار کرتا تو وہ فدک انھیں لوٹا دیتا لیکن زیادہ دیر نہ گزرتی کہ دوسرا خلیفہ اسے چھین لیتا اور دوبارہ اس پر قبضہ کرلیتا ۔ خلفائے بنی امیہ اور خلفائے بنی عباس بارھا یہ اقدام کرتے رھے ۔
واقعہ فدک اور اس سے تعلق رکھنے والے مختلف النوع حوادث جو صدر اسلام میں اور بعد کے ادوار میں پیش آئے،زیادہ دردناک اورغم انگیز ھیں اور وہ تاریخ اسلام کا ایک عبرت انگیز حصہ بھی ھیں جو محققانہ طور پر مستقل مطالعہ کا متقاضی ھے تا کہ تاریخ اسلام کے مختلف حوادث نگاهوں کے سامنے آسکیں۔
قابل توجہ بات یہ ھے کہ اھل سنت کے نامور محدث مسلم بن حجاج نیشاپوری نے اپنی مشهور و معروف کتاب ”صحیح مسلم“ میں جناب فاطمہ (سلام اللہ علیھا) کا خلیفہ اول سے فدک کے مطالبہ کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا ھے، اور جناب عائشہ کی زبانی نقل کیا ھے کہ جناب فاطمہ کو جب خلیفہ اول نے فدک نھیں دیا تو بی بی ان سے ناراض هوگئی اور آخر عمر ان سے کوئی گفتگو نھیں کی۔(صحیح مسلم،کتاب جھاد ج۳ص۱۳۸۰حدیث ۵۲)
”نحن معاشر الانبیاء لا نورث“
اھل سنت کی مختلف کتابوں میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف منسوب ایک حدیث موجود ھے جو اس طرح کے مضمون پر مشتمل ھے:
”نحن معاشر الانبیاء لا نورث ما ترکناہ صدقة“
”ھم پیغمبر لوگ اپنی میراث نھیں چھوڑتے جو ھم سے رہ جائے اسے راہ خدا میں صدقے کے طور پر خرچ کردیا جائے“۔
اور بعض کتابوں میں ”لا نورث“کا جملہ نھیں ھے بلکہ”ما ترکناہ صدقة“کی صورت میں نقل کیا گیا ھے ۔
اس روایت کی سند عام طور پر ابوبکر تک جا کر ختم هوجاتی ھے جنھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد مسلمانوں کی زمام امور اپنے قبضے میں لے لی تھی۔ اور جب حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا یا پیغمبر اکرم کی بعض بیویوں نے ان سے پیغمبر کی میراث کا مطالبہ کیا تو انھوں نے اس حدیث کا سھارا لےکر انھیں میراث سے محروم کردیا۔
اس حدیث کو مسلم نے اپنی صحیح (جلد ۳ کتاب الجھاد والسیر ۔ص۔۱۳۷۹)میں ،بخاری نے جزو ہشتم کتاب الفرائض کے صفحہ ۱۸۵۔پر اور اسی طرح بعض دیگر افراد نے اپنی اپنی کتابوں میں درج کیا ھے۔
یہ بات قابل توجہ ھے کہ مذکورہ کتابوں میں سے بخاری میں بی بی عائشہ سے ایک روایت نقل کی گئی ھے:فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا اور جناب عباس بن عبد المطلب (رسول کی وفات کے بعد )ابو بکر کے پاس آئے اور ان سے اپنی میراث کا مطالبہ کیا ۔ اس وقت انھوں نے اپنی فدک کی اراضی اور خیبر سے ملنے والی میراث کا مطالبہ کیا تو ابو بکر نے کھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ھے کہ آپ نے فرمایا۔”ھم میراث میں کوئی چیز نھیں چھوڑتے،جو کچھ ھم سے رہ جائے وہ صدقہ هوتا ھے“۔
جناب فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا نے جب یہ سنا تو نا راض هو کر وھاں سے واپس آگئیں اور مرتے دم تک ان سے بات نھیں کی۔
البتہ یہ حدیث مختلف لحاظ سے تجزیہ و تحلیل کے قابل ھے لیکن اس تفسیر میں ھم چند ایک نکات بیان کریں گے:
۱۔یہ حدیث،قرآنی متن کے مخالف ھے اور اس اصول اور کلیہ قاعدہ کی رو سے نا قابل اعتبار ھے کہ جو بھی حدیث کتاب اللہ کے مطابق نہ هو اس پر اعتبار نھیں کرنا چاھیے اور ایسی حدیث کو پیغمبر اسلام یا دیگر معصومین علیھم السلام کا قول سمجھ کر قبول نھیں کیا جا سکتا۔
ھم قرآنی آیات میں پڑھتے ھیں کہ حضرت سلیمان(ع) جناب داؤد (ع) کے وارث بنے اورآیت کا ظاھر مطلق ھے کہ جس میں اموال بھی شامل ھیں۔ جناب یحییٰ(ع) اور زکریا (ع) کے بارے میں ھے:
”یرثنی ویرث من اٰل یعقوب“[112]
”خداوندا! مجھے ایسا فرزند عطا فرما جو میرا اور آل یعقوب کا وارث بنے“۔
حضرت”زکریا(ع)“کے بارے میں تو بہت سے مفسرین نے مالی وراثت پر زور دیا ھے۔
اس کے علاوہ قرآن مجیدمیں”وراثت“کی آیات کا ظاھر بھی عمومی ھے کہ جو بلا استثناء سب کے لئے ھے۔
شاید یھی وجہ ھے کہ اھل سنت کے مشهور عالم علامہ قرطبی نے مجبور هوکر اس حدیث کو غالب اور اکثر فعل کی حیثیت سے قبول کیا ھے نہ کہ عمومی کلیہ کے طور پر اور اس کے لئے یہ مثال دی ھے کہ عرب ایک جملہ کہتے ھیں:
”انا معشرالعرب اقری الناس للضیف“۔
ھم عرب لوگ دوسرے تمام افراد سے بڑھ کر مھمان نوازھیں (حالانکہ یہ کوئی عمومی حکم نھیں ھے)۔
لیکن ظاھر ھے کہ یہ بات اس حدیث کی اھمیت کی نفی کررھی ھے کیونکہ حضرت سلیمان(ع) اور یحییٰ(ع) کے بارے میں اس قسم کا عذر قبول کرلئے تو پھر دوسرے کے لئے بھی یہ قطعی نھیں رہ جاتی۔
۲۔مندرجہ بالا روایت ان کے خلاف ھے جن سے معلوم هوتا هو کہ ابو بکر نے جناب فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کو فدک واپس لوٹا نے کا پختہ ارادہ کر کیا تھا لیکن دوسرے لوگ اس میںحائل هوگئے تھے چنانچہ سیرت حلبی میں ھے:
فاطمہ بنت رسول ،ابو بکر کے پاس اس وقت آئیں جب وہ منبر پر تھے ۔ انھوں نے کھا:
”اے ابو بکر! کیا یہ چیز قرآن میں ھے کہ تمھاری بیٹی تمھاری وراث بنے لیکن میں اپنے باپ کی میراث نہ لوں“؟
یہ سن کر ابو بکر رونے لگے اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری هوگئے پھر وہ منبر سے نیچے اترے اور فدک کی واپسی کا پروانہ فاطمہ کو لکھ دیا۔ اسی اثناء میں عمر آگئے ۔ پوچھا یہ کیا ھے؟انھوں نے کھاکہ میں نے یہ تحریر لکھ دی ھے تا کہ فاطمہ کو ان کے باپ سے ملنے والی وراثت واپس لوٹا دوں!
عمر نے کھا: اگرآپ یہ کام کریں گے تو پھر دشمنوں کے ساتھ جنگی اخراجات کھاں سے پورے کریں گے؟
جبکہ عربوں نے آپ کے خلاف قیام کیا هوا ھے ۔ یہ کھا اور تحریر لے کر اسے پارہ پارہ کردیا۔[113]
یہ کیونکر ممکن ھے کہ پیغمبر اکرم نے تو صریحی طور پر ممانعت کی هو اور ابو بکر اس کی مخالفت کی جراٴت کریں؟اور پھر عمر نے جنگی اخراجات کا تو سھارا لیا لیکن پیغمبر اکرم کی حدیث پیش نھیں کی۔
مندرجہ بالا روایت پر اگر اچھی طرح غور کیا جائے تو معلوم هوگاکہ یھاں پر پیغمبر اسلام کی طرف سے ممانعت کا سوال نھیں تھا۔ بلکہ سیاسی مسائل آڑے تھے اور ایسے موقع پر معتزلی عالم ابن ابی الحدید کی گفتگو یادآجاتی ھے۔ وہ کہتے ھیں:
میںنے اپنے استاد” علی بن فارقی“ سے پوچھا کہ کیا فاطمہ اپنے دعویٰ میں سچی تھیں ؟ تو انھوں نے کھا جی ھاں ! پھر میں نے پوچھا تو ابوبکر انھیں سچا اور بر حق بھی سمجھتے تھے ۔
اس موقع پر میرے استاد نے معنی خیز تبسم کے ساتھ نھایت ھی لطیف اور پیارا جواب دیا حالانکہ انکی مذاق کی عادت نھیں تھی،انھوں نے کھا:
اگر وہ آج انھیں صرف ان کے دعویٰ کی بناء پر ھی فدک دےدیتے تو پھر نہ تو ان کے لئے کسی عذر کی گنجائش باقی رہتی اور نہ ھی ان سے موافقت کا امکان“۔[114]
۳۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک مشهور حدیث ھے جسے شیعہ اور سنی سب نے اپنی اپنی کتابوں میں درج کیا ھے،حدیث یہ ھے: ”العلماء ورثة الانبیاء“۔ ”علماء انبیاء کے وارث هوتے ھیں“۔
نیز یہ قول بھی آنحضرت ھی سے منقول ھے: ”ان الانبیاء لم یورثوا دیناراً ولا درھماً“۔ ”انبیاء اپنی میراث میں نہ تودینار چھوڑتے ھیں اور نہ ھی درھم“۔
ان دونوں حدیثوں کو ملا کر پڑھنے سے یوں معلوم هوتا ھے کہ آپ کا اصل مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو یہ بات باور کرائیں کہ انبیاء کے لئے سرمایہ افتخار ان کا علم ھے اور اھم ترین چیز جو وہ یادگارکے طور پر چھوڑ جاتے ھیں ان کا ہدایت و راہنمائی کا پروگرام ھے اور جو لوگ علم و دانش سے زیادہ بھرہ مند هوں گے وھی انبیاء کے اصلی وارث هوں گے۔ بجائے اس کے کہ ان کی مال پر نگاہ هو اور اسے یادگار کے طور پر چھوڑجائیں ۔ اس کے بعد اس حدیث کے نقل بہ معنی کردیا گیا اور اس کی غلط تعبیریں کی گئیں اور شاید”ماترکناہ صدقة“ والے جملے کا بعض روایات میںاس پر اضافہ کردیا گیا۔

مباھلہ
خداوندعالم نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا ھے کہ ان واضح دلائل کے بعد بھی کوئی شخص تم سے حضرت عیسیٰ (ع) کے بارے میں گفتگو اور جھگڑا کرے تو اسے”مباھلہ“کی دعوت دو اور کهو کہ وہ اپنے بچوں،عورتوں اور نفسو ںکو لے آئے اور تم بھی اپنے بچوںکو عورتوں اور نفسں کو بلا لو پھر دعا کرو تاکہ خدا جھوٹوں کو رسوا کردے۔
بغیر کھے یہ بات واضح ھے جب کہ مباھلہ سے مراد یہ نھیں کہ طرفین جمع هوں ،اور ایک دوسرے پر لعنت اور نفرین کریں اور پھر منتشر هو جائیں کیونکہ یہ عمل تو نتیجہ خیز نھیں ھے۔
بلکہ مراد یہ ھے کہ دعا او رنفرین عملی طور پر اپنا اثر ظاھر کرے اور جو جھوٹا هو فوراً عذاب میں گرفتار هو جائے۔
آیات میں مباھلہ کا نتیجہ تو بیان نھیں کیا گیا لیکن چونکہ یہ طریقہٴ کار منطق و استدلال کے غیر موثر هونے پر اختیار کیا گیا تھا اس لئے یہ خود اس بات کی دلیل ھے کہ مقصود صرف دعا نہ تھی بلکہ اس کا خاجی اثر پیش نظر تھا۔
مباھلہ کا مسئلہ عرب میں کبھی پیش نھیں آیا تھا،اور اس راستہ سے پیغمبر اکرم کو صدقت و ایمان کو اچھی سرح سمجھا جاسکتا تھا،کیسے ممکن ھے کہ جو شخص کامل ارتباط کے ساتھ خدا پر ایمان نہ رکھتا هو وہ ایسے میدان کی طرف آئے اور مخالفین کو دعوت دی کہ آؤ! اکھٹے درگاہ خدا میں چلیں،اس سے درخواست کریں اور دعا کریسیں کہ وہ جھوٹے کو رسو اکردے اور پھر یہ بھی کھے کہ تم عنقریب اس کا نتیجہ خوددیکھ لو گے کہ خدا کس طرح جھوٹوں کو سزا دیتا ھے او رعذاب کرتا ھے۔
یہ مسلم ھے کہ ایسے میدان کا رخ کرنا بہت خطرناک معاملہ ھے کیونکہ اگر دعوت دینے والے کی دعا قبول نہ هوئی اور مخالفین کو ملنے والی سزا کا اثر واضح نہ هوا تو نتیجہ دعوت دینے والے کی رسوائی کے علاوہ کچھ نہ هوگا۔
کیسے ممکن ھے کہ ایک عقلمند اورسمجھ دار انسان نتیجے کے متعلق اطمینان کئے بغیر اس مرحلے میں قدم رکھے ۔ اسی لئے تو کھا جاتا ھے کہ پیغمبراکرم کی طرف سے دعوت مباھلہ اپنے نتائج سے قطع نظر،آپ کی دعوت کی صداقت اور ایمان کی دلیل بھی ھے۔
اسلامی روایات میں ھے کہ”مباھلہ“کی دعوت دی گئی تو نجران کے عیسائیوں کے نمائندے پیغمبر اکرم کے پاس آئے اور آپ سے مھلت چاھی تا کہ اس بارے میں سوچ بچار کرلیں اور اس سلسلے میں اپنے بزرگوں سے مشورہ کرلیں۔ مشورہ کی یہ بات ان کی نفسیاتی حالت کی چغلی کھاتی ھے۔
بھر حال مشورے کا نتیجہ یہ نکلا کہ عیسائیوں کے ما بین یہ طے پایاکہ اگر محمد شور وغل،مجمع اور دادوفریادکے ساتھ”مباھلہ“کے لئے آئیں تو ڈرا نہ جائے اورمباھلہ کرلیا جائے کیونکہ اگر اس طرح آئیں تو پھر حقیقت کچھ بھی نھیں ،جب بھی شوروغل کا سھارا لیا جائے گا اور اگر وہ بہت محدود افراد کے ساتھ آئیں،بہت قریبی خواص اور چھوٹے بچوں کو لے کر وعدہ گاہ میں پہنچیں تو پھر جان لینا چاھیے کہ وہ خدا کے پیغمبرھیں اور اس صورت میں اس سے ”مباھلہ“کرنے سے پرھیز کرنا چاھیے کیونکہ اس صورت میں معاملہ خطرناک ھے!۔
طے شدہ پروگرام کے مطابق عیسائی میدان مباھلہ میں پہنچے تو اچانک دیکھا کہ پیغمبر اپنے بیٹے حسین(ع) کو گود میں لئے حسن(ع) کا ھاتھ پکڑے اور علی (ع) اور فاطمہ(ع) کو ھمراہ لئے آپہنچے ھیں اور انھیں فرمارھے ھیں کہ جب میں دعاکروں ،تم آمین کہنا۔
عیسائیوں نے یہ کیفیت دیکھی تو انتھائی پریشان هوئے اور مباھلہ سے رک گئے اور صلح و مصالحت کے لئے تیار هوگئے اور اھل ذمہ کی حیثیت سے رہنے پر آمادہ هوگئے ۔

عظمت اھل بیت کی ایک زندہ سند
شیعہ اورسنی مفسرین اور محدثین نے تصریح کی ھے کہ آیہٴ مباھلہ اھل بیت رسول علیھم السلام کی شان میں نازل هوئی ھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جن افراد کو اپنے ھمراہ وعدہ گاہ کی طرف لے گئے تھے وہ صرف ان کے بیٹے امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) ،ان کی بیٹی فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا اور حضرت علی (ع) تھے ۔ اس بناء پر آیت میں ”ابنائنا “سے مراد صرف امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) ھیں۔”نسائنا“سے مراد جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا ھیں اور”انفسنا“ سے مراد صرف حضرت علی (ع) ھیں۔
اس سلسلے میں بہت سی احادیث نقل هوئی ھیں۔ اھل سنت کے بعض مفسرین نے جوبہت ھی تعداد میں ھیں۔ اس سلسلے میں وارد هونے والی احادیث کا انکار کرنے کی کوشش کی ھے۔ مثلاًمولفِ”المنار“نے اس آیت کے ذیل میں کھا ھے:
”یہ تمام روایات شیعہ طریقوں سے مروی ھیں،ان کا مقصد معین ھے،انهوں نے ان احادیث کی نشرو اشاعت اور ترویج کی کوشش کی ھے۔ جس سے بہت سے علماء اھل سنت کو بھی اشتباہ هوگیا ھے“!!۔
لیکن اھل سنت کی بنیادی کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے تو وہ نشاندھی کرتی ھیں کہ ان میں سے بہت سے طریقوں کا شیعوں یا ان کی کتابوں سے ھرگز کوئی تعلق نھیںھے اور اگر اھل سنت کے طریقوںسے مروی ان احادیث کا انکار کیا جائے تو ان کی باقی احادیث اورکتب بھی درجہٴ اعتبار سے گرجائیں گی۔
اس حقیقت کو زیادہ واضح کرنے کے لئے اھل سنت کے طریقوں سے کچھ روایات ھم یھاںپیش کریں گے۔
قاضی نوراللہ شوستری اپنی کتاب نفیس ”احقاق الحق“[115]میں لکھتے ھیں:
”مفسرین اس مسئلے میں متفق ھیں کہ ”ابنائنا“سے اس آیت میں امام حسن(ع) او رامام حسین(ع) مراد ھیں،”نسائنا“سے ”حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا“اور”انفسنا“میں حضرت علی علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا گیا ھے“۔
اس کے بعد کتاب مذکور کے حاشیے پر تقریباً ساٹھ بزرگان اھل سنت کی فھرست دی گئی ھے جنهوں نے تصریح کی ھے کہ آیت مباھلہ اھل بیت رسول علیھم السلام کی شان میں نازل هوئی ھے۔[116]
”غایة المرام“ میں صحیح مسلم کے حوالے سے لکھا“:
”ایک روز معاویہ نے سعد بن ابی وقاص سے کھا:“
تم ابو تراب ( علی (ع)) کو سب وشتم کیوں نھیں کرتے۔وہ کہنے لگا۔
جب سے علی (ع) کے بارے میں پیغمبر کی کھی هوئی تین باتیں مجھے یاد آتی ھیں،میں نے اس کام سے صرف نظرکرلیا ھے۔ان میں سے ایک یہ تھی کہ جب آیت مباھلہ نازل هوئی تو پیغمبر نے فاطمہ(ع)،حسن(ع)،حسین(ع)،اور علی (ع) کو دعوت دی۔اس کے بعد فرمایا”اللھم ھٰوٴلاء اھلی“(یعنی خدایا! یہ میرے نزدیکی اور خواص ھیں)۔
تفسیر”کشاف“کے موٴلف اھل سنت کے بزرگوں میں سے ھیں۔ وہ اس آیت کے ذیل میں کہتے ھیں۔”یہ آیت اھل کساء کی فضیلت کو ثابت کرنے کے لئے قوی ترین دلیل ھے“۔
شیعہ مفسرین،محدثین اور موٴرخین بھی سب کے سب اس آیت کے ”اھل بیت “کی شان میں نازل هونے پر متفق ھیں چنانچہ”نورالثقلین“ میں اس سلسلے میں بہت سی روایات نقل کی گئی ھیں۔ ان میں سے ایک کتاب”عیون اخبار الرضا“ھے۔ اس میں ایک مجلس مناظرہ کا حال بیان کیا گیا ھے،جو مامون نے اپنے دربار میں منعقد کی تھی۔
اس میں ھے کہ امام علی بن موسیٰ رضا علیہ السلام نے فرمایا:
”خدا نے اپنے پاک بندوں کو آیت مباھلہ میں مشخص کردیا ھے اور اپنے پیغمبر کو حکم دیا ھے:
”فمن حاجک فیہ من بعد ما جاء ک من العلم فقل۔۔۔“
اس آیت کے نزول کے بعد پیغمبر ،علی (ع) ،فاطمہ(ع)،حسن(ع)،اور حسین(ع) کو اپنے ساتھ مباھلہ کے لئے لے گئے اور یہ ایسی خصوصیت اور اعزاز ھے کہ جس میں کوئی شخص اھل بیت علیھم السلام پر سبقت حاصل نھیں کرسکا اور یہ ایسی منزلت ھے جھاں تک کوئی شخص بھی نھیں پہنچ سکا اور یہ ایسا شرف ھے جسے ان سے پھلے کوئی حاصل نھیں کرسکا“۔
تفسیر”برھان“،”بحارالانوار“اور تفسیر”عیاشی“میں بھی اس مضمون کی بہت سی روایات نقل هوئی ھیں جو تمام اس امر کی حکایت کرتی ھیں کہ مندرجہ بالا آیت”اھل بیت“علیھم السلام کے حق میں نازل هوئی ھے۔

زینب سے آنحضرت (ص) کی شادی[117]
زمانہٴ بعثت سے پھلے اور اس کے بعد جب کہ حضرت خدیجة الکبریٰ(ع) نے پیغمبر اسلام سے شادی کی تو حضرت خدیجہ (ع) نے ”زید“ نامی ایک غلام خریدا،جسے بعد میں آنحضرت کو ھبہ کردیا۔
آپ نے اسے آزاد کردیا۔ چونکہ اس کے قبیلے نے اسے اپنے سے جدا کردیا تھا،لہٰذا رسول رحمت نے اسے اپنا بیٹا بنالیا تھا،جسے اصطلاح میں”تبنّی“ کہتے ھیں۔
ظهور اسلام کے بعد زید مخلص مسلمان هوگیا اور اسلام کے ھر اول دستے میں شامل هوگئے اور اسلام میں ایک ممتاز مقام حاصل کرلیا۔ آخر میں جنگ موتہ میں ایک مرتبہ لشکر اسلام کے کمانڈر بھی مقرر هوئے اور اسی جنگ میں شربت شھادت نوش کیا۔
جب سرکار رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زید کا عقد کرنا چاھا تو اپنی پھوپھی زاد،بہن زینب بنت حجش “بنت امیہ بنت عبد المطلب سے اس کے لئے خواستگاری کی۔ زینب نے پھلے تو یہ خیال کیا کہ آنحضرت اپنے لئے اسے انتخاب کرناچاہتے ھیں۔لہٰذا وہ خوش هوگئی اور رضا مندی کا اظھار کردیا،لیکن بعدمیں جب اسے پتہ چلا کہ آپ کی یہ خواستگاری تو زید کے لئے تھی تو سخت پریشان هوئیںاور انکار کردیا ۔ اس کے بھائی عبداللہ نے بھی اس چیز کی سخت مخالفت کی۔
یھی وہ مقام تھا جس کے بارے میںوحی الٰھی نازل هوئی او رزینب اور عبداللہ جیسے افراد کو تنبیہ کی کہ جس وقت خدا اور اس کا رسول کسی کام کو ضروری سمجھیں تو وہ مخالقت نھیں کر سکتے۔
جب انھوں نے یہ بات سنی تو سر تسلیم خم کردیا ۔ (البتہ آگے چل کرمعلوم هوگا کہ یہ شادی کوئی عام شادی نھیں تھی بلکہ یہ زمانہٴ جاھلیت کی ایک غلط رسم کو توڑنے کے لئے ایک تمھید تھی کیونکہ زمانہٴ جاھلیت میں کسی باوقار اور مشهور خاندان کی عورت کسی غلام کے ساتھ شادی کرنے کے لئے تیار نھیں هوتی تھی،چاھے وہ غلام کتنا ھی اعلی قدر وقیمت کا مالک کیوں نہ هوتا۔
لیکن یہ شادی زیادہ دیرتک نہ نبھ سکی اور طرفین کے درمیان اخلاقی نا اتفاقیوں کی بدولت طلاق تک نوبت جا پہنچی ۔ اگر چہ پیغمبر اسلام کا اصرار تھا کہ یہ طلاق واقع نہ هو لیکن هوکر رھی۔
اس کے بعد پیغمبر اکرم نے شادی میں اس نا کامی کی تلافی کے طور پر زینب کو حکم خدا کے تحت اپنے حبالہ عقد میں لے لیا اور یہ بات یھیں پر ختم هوگئی۔
لیکن دوسری باتیں لوگوں کے درمیان چل نکلیں جنھیں قرآن نے مربوط آیات کے ذریعے ختم کردیا۔ اس کے بعد زید اور اس کی بیوی زینب کی اس مشهور داستان کو بیان کیا گیا ھے جو پیغمبر اسلام کی زندگی کے حساس مسائل میں سے ایک ھے اور ازواج رسول کے مسئلہ سے مربوط ھے ۔
چنانچہ ارشاد هوتاھے کہ:”اس وقت کو یاد کرو جب اس شخص کو جسے خدا نے نعمت دے رکھی تھی اور ھم نے ابھی ،اے رسول!اسے نعمت دی تھی او رتم کہتے تھے کہ اپنی بیوی کو روکے رکھو اور خدا سے ڈرو“۔[118]
نعمت خدا سے مراد وھی ہدایت اور ایمان کی نعمت ھے جو زید بن حارثہ کو نصیب هوئی تھی اور پیغمبر کی نعمت یہ تھی کہ آپ نے اسے آزاد کیا تھا اور اپنے بیٹے کی طرح اسے عزت بخشی تھی۔
اس سے معلوم هوتا ھے کہ زید او رزینب کے درمیان کوئی جھگڑا هوگیا تھا اور یہ جھگڑا اس قدرطول پکڑگیا کہ نوبت جدائی اور طلاق تک جاپہنچی ۔ اگرآیت میںلفظ”تقول“کی طرف توجہ کی جائے تو معلوم هوگا کہ یہ فعل مضارع ھے او راس بات پر دلالت کررھا ھے کہ آنحضرت بارھا بلکہ ھمیشہ اسے نصیحت کرتے اور روکتے تھے۔
کیا زینب کا یہ نزاع زید کی سماجی حیثیت کی بناء پر تھا جو زینب کی معاشرتی حیثیت سے مختلف تھی؟کیونکہ زینب کا ایک مشهور ومعروف قبیلہ سے تعلق تھا اور زید آزاد شدہ تھا۔ یا زید کی اخلاقی سختیوں کی وجہ سے تھا؟یا ان میں سے کوئی بات بھی ،نھیں تھی بلکہ دونوں میں روحانی او راخلاقی موافقت اور ھماآہنگی نھیں تھی؟کیونکہ ممکن ھے دو افراد اچھے تو هوں لیکن فکر ونظر اور سلیقہ کے لحاظ سے ان میں اختلاف هوجس کی بناء پر اپنی ازدواجی زندگی کوآئندہ کے لئے جاری نہ رکھ سکتے هوں؟
پیغمبر کی نظر میں تھا کہ اگر ان میاں بیوی کے درمیان صلح صفائی نھیں هوپائی اور نوبت طلاق تک جاپہنچتی ھے تو وہ اپنی پھوپھی زادبہن زینب کی اس نا کامی کی تلافی اپنے ساتھ نکاح کی صورت میں کردیں گے،اس کے ساتھ آپ کو یہ خطرہ بھی لاحق تھا کہ لوگ دو وجوہ کی بناء پر آپ پر اعتراض کریں گے اور مخالفین ایک طوفان بدتمیزی کھڑا کردیں گے۔
اس سلسلے میں قرآن کہتا ھے :”تم اپنے دل میں ایک چیز کو چھپائے هوئے تھے جسے خدا آشکار کرتا ھے اور تم لوگوں سے ڈرتے هوحالانکہ تمھارا پروردگارزیادہ حق رکھتا ھے کہ اس سے ڈرو“۔[119]
پھلی وجہ تویہ تھی کہ زید آنحضرت کا منہ بولا بیٹا تھا،اور زمانہٴ جاھلیت کی رسم کے مطابق منہ بولے بیٹے کے بھی وھی احکام هوتے تھے جو حقیقی بیٹے کے هوتے ھیں ۔ منجملہ ان کے یہ بھی تھا کہ منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے بھی شادی کرنا حرام سمجھاجاتا تھا ۔
دوسری یہ کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیونکراس بات پر تیار هوسکتے ھیں کہ وہ اپنے ایک آزاد کردہ غلام کی
مطلقہ سے عقد کریں جبکہ آپ کی شادی بہت بلندوبالاھے ۔
بعض اسلامی روایات سے معلوم هوتا ھے کہ آپ نے یہ ارادہ حکم خداوندی سے کیا هوا تھا اوربعد والے حصے میں بھی اس بات کا قرینہ موجود ھے۔
اس بناء پر یہ مسئلہ ایک تو اخلاتی اور انسانی مسئلہ تھا اور دوسرے یہ زمانہٴ جاھلیت کی غلط رسموں کو توڑنے کا ایک نھایت ھی موٴثر ذریعہ تھا (یعنی منہ بولے بیٹے کی مطلّقہ سے ازادکردہ غلام کی مطلّقہ سے عقد)۔
مسلم ھے کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ان مسائل میں نہ تو لوگوں سے ڈرنا چاہئے تھا اور نہ ھی فضا کے مکدر هونے اور زھریلے پروپیگنڈے سے خوف ووحشت کا شکارھی هوجاتے ،خاص کرجب یہ احتمال هوکہ ایک جنجال کھڑاهوجائے گااور آپ اور آپ کے مقدس مشن کی ترقی اور اسلام کی پیش رفت کےلئے رکاوٹ کھڑی هوجائے گی اور یہ بات ضعیف الایمان افراد کو متزلزل کردے گی اور ان کے دل میں شک وشبھات پیدا هوجائیں گے ۔
اس لئے قرآن میںاس سلسلہ کے آخرمیں فرمایا گیا ھے:
” جس وقت زید نے اپنی حاجت کو پورا کرلیا اور اپنی بیوی کو چھوڑدیا تو ھم اسے تمھاری زوجیت میں لے آئے تاکہ منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے مطلّقہ هونے کے بعد مومنین کو ان سے شادی کرنے میں کوئی مشکل نہ هو“۔[120]
یہ کام ایسا تھا جسے ا نجام پاجانا چاہئے تھا
”اور خدا کافرمان انجام پاکر رہتا ھے“۔ [121]
قابل توجہ بات یہ ھے کہ قرآن ھرقسم کے شک وشبہ کو دور کرنے کےلئے پوری صراحت کے ساتھ اس شادی کا اصل مقصد بیان کرتا ھے جو زمانٴہ جاھلیت کی ایک رسم توڑنے کے لئے تھی یعنی منہ بولے بیٹوں کی مطلقہ عورتوں سے شادی نہ کرنے کے سلسلے میں یہ خود ایک کلی مسئلہ کی طرف اشارہ ھے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مختلف عورتوں سے شادی کرنا کوئی عام سی بات نھیں تھی بلکہ اس میں کئی مقاصد کا ذکر کرنا مقصود تھا جو آپ کے مکتب کے مستقبل کے انجام سے تعلق رکھتا تھا ۔[122]

ثعلبہ
”ثعلبہ بن حاطب انصاری“ ایک غریب آدمی تھا،روزانہ مسجد میں آیا کرتا تھا اس کا اصرار تھاکہ رسول اکرم دعا فرمائیں کہ خدا اس کو مالا مال کردے۔ حضور نے اس سے فرمایا:
”مال کی تھوڑی مقدار جس کا تو شکر ادا کر سکے مال کی کثرت سے بہتر ھے جس کا تو شکر ادا نہ کرسکے“۔
کیا یہ بہترنھیں ھے کہ تو خدا کے پیغمبرکی پیروی کرے اور سادہ زندگی بسر کرے ۔
لیکن ثعلبہ مطالبہ کرتا رھا او ر آخر کار اس نے پیغمبر اکرم سے عرض کیا کہ میں آپ کو اس خدا کی قسم دیتا هوں جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ھے۔ اگر خدا نے مجھے دولت عطا فرمائی تو میں اس کے تمام حقوق ادا کروں گا۔چنانچہ آپ نے اس کے لئے دعا فرمائی۔
ایک روایت کے مطابق زیادہ وقت نھیں گذرا تھا کہ اس کا ایک چچا زاد بھائی جو بہت مال دار تھا ، وفات پاگیا اور اسے بہت سی دولت ملی۔
ایک اور روایت میں ھے کہ اس نے ایک بھیڑ خریدی جس سے اتنی نسل بڑھی کہ جس کی دیکھ بھال مدینہ میں نھیں هوسکتی تھی ۔ اس لئے انھیں مدینہ کے آس پاس کی آبادیوں میں لے گیا اور مادی زندگی میں اس قدر مصروف هوگیا کہ نماز با جماعت تو کیا نماز جمعہ میں بھی نہ آتا تھا ایک مدت کے بعد رسول اکرم نے زکوٰةوصول کرنے والے عامل کو اس کے پاس زکوٰة لینے کے لئے بھیجا لیکن اس کم ظرف کنجوس نے نہ صرف خدائی حق کی ادائیگی میں پس وپیش کیا بلکہ شرع مقدس پر بھی اعتراض کیا اور کھا کہ یہ حکم جزیہ کی طرح ھے یعنی ھم اس لئے مسلمان هوئے تھے کہ جزیہ دینے سے بچ جائیں۔ اب زکوٰة دینے کی شکل میں ھم میں اور غیر مسلموں میں کون سافرق باقی رہ جاتا ھے۔ حالانکہ اس نے نہ جزیہ کا مطلب سمجھا تھا اور نہ زکوٰة کا اور اگر اس نے سمجھا تھا تو دنیا پرستی جو اسے حقیقت کے بیان او راظھار حق کی اجازت نھیں دیتی تھی،غرض جب حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی باتیں سنیں تو فرمایا:
”یا ویح ثعلبہ ! یا ویح ثعلبہ“۔
”وائے هو ثعلبہ پر ھلاکت هو ثعلبہ پر“۔[123]
(منتخب از تفسیر نمونه)
----------------------------

[97] واقعہ جنگ تبوک سورہٴ توبہ آیت ۱۱۷ کے ذیل میں بیان هوا ھے ۔
[98] سورہ توبہ آیت ۳۸۔
[99] سورہ توبہ آیت ۳۸۔
[100] سورہ توبہ آیت ۳۹۔
[101] سورہ توبہ آیت ۳۹۔
[102] سور ہ توبہ آیت ۳۹۔
[103] یہ شخص انھیں افراد میں سے تھا جن کے بارے میں کھا جاتا ھے کہ سورہ توبہ آیت۱۱۷ نازل هوئی ۔
[104] سورہ توبہ:آیت ۱۱۸۔ اس سلسلے میں نازل هوئی ھے ۔
[105] مسجد ضرار کے سلسلے میں سورہٴ توبہ ۔۱۰۷ تا۱۱۰ میں بیان هوا ھے۔
اس کے فوراً بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا کہ مذکورہ مسجد کو جلا دیا جائے او راسکے باقی حصے کو مسمارکردیا جائے او راس کی جگہ کوڑاکرکٹ ڈالاجایا کرے۔
[106] سورہٴ توبہ آیت ۱۰۸۔
[107] سورہٴ توبہ آیت ۱۰۸۔
[108] سورہٴ توبہ آیت ۱۰۸۔
[109] سورہٴ مائدہ آیت ۳۔
[110] اس سلسلے میں مزید آگھی کے لئے کتاب الغدیر، علامہ امینیۺ ،احقاق الحق ،قاضی نوراللہ شوشتریۺ ،المراجعات شرف الدین ۺ اور دلائل الصدق محمدحسین مظفر پر رجوع کریں۔
[111] سورہٴ روم آیت ۳۸۔
[112] سورہٴ مریم آیت ۶.
[113] سیرہٴ حلبی ج۳/ص۳۶۱۔
[114] شرح نہج البلاغہ،ابن ابی الحدید جلد۔۱۶۔ص۔۲۸۴۔
[115] جلد سوم طبع جدید صفحہ۴۶۔
[116] ان کے نام او ران کی کتاب کی خصوصیات صفحہ ۔۴۶ ۔سے لیکر صفحہ۔۷۶۔ تک تفصیل سے بیان کی گئی ھے ان شخصیتوں میں سے یہ زیادہ مشهور ھیں ۔
۱۔مسلم بن حجاج نیشاپوری،موٴلف صحیح مسلم جو نامور شخصیت ھیں اور ان کی حدیث کی کتاب اھل سنت کی چھ قابل اعتماد صحاح میں سے ھے ملا حظہ هو مسلم،ج۔۷۔ص۔۱۲۰طبع مصر زیر اہتمام محمد علی صبیح۔
۲۔احمد بن حنبل نے اپنی”مسند“میں لکھاھے ملاحظہ هو ،ج۔۲۔ص۔۱۸۵۔طبع مصر۔
۳۔طبری نے اپنی مشهور تفسیر میں اسی آیت کے ضمن میں لکھا ھے۔ دیکھئے ۔ج۔۳۔ص۔۱۹۲۔طبع میمنیہ۔ مصر۔
۴۔حاکم نے اپنی”مستدرک“میںلکھا ھے،دیکھئے۔ج۔۳۔ص۔۱۵۔مطبوعہ حیدرآباد دکن۔
۵۔حافظ ابو نعیم اصفھانی،کتاب ”دلائل النبوة“۔ص۔۲۹۷۔مطبوعہ حیدرآباد دکن۔
۶۔واحدی نیشاپوری،کتاب”اسباب النزول“۔ص۔۷۴۔طبع ہند۔
۷۔فخر رازی، نے اپنی مشهور تفسیر کبیر میں لکھا ھے، دیکھئے۔ ج۔۸۔ ص۔۸۵۔ طبع بھیہ،مصر۔
۸۔ابن اثیر،”جامع الاصول“جلد۔۹۔ص۔۴۷۰۔طبع سنتہ المحمدیہ،مصر۔
۹۔ابن جوزی”تذکرة الخواص“ صفحہ۔۱۷۔طبع نجف۔
۱۰۔قاضی بیضاوی،نے اپنی تفسیر میں لکھا ھے،ملاحظہ کریں۔ ج۔۲۔ ص۔۲۲۔ طبع مصطفی محمد،مصر۔
۱۱۔آلوسی نے تفسیر”روح المعانی“میں لکھا ھے۔ دیکھئے ۔ج۔ ۳۔ص۔۱۶۷۔طبع منیریہ۔ مصر۔
۱۲۔معروف مفسر طنطاوی نے اپنی تفسیر ”الجواھر“میں لکھا ھے۔۔ ج۔۲۔ ص۔ ۱۲۰۔ مطبوعہ مصطفی الیابی الحلبی،مصر۔
۱۳۔زمخشری نے تفسیر”کشاف“میں لکھا ھے،دیکھئے۔ج۔۱۔ص۔۱۹۳،مطبوعہ مصطفی محمد،مصر۔
۱۴۔حافظ احمد ابن حجر عسقلانی ،”الاصابة“۔ج۔۲۔ص۔۵۰۳،مطبوعہ مصطفی محمد، مصر۔
۱۵۔ابن صباغ،”فصول المھمة“۔ص۔۱۰۸۔مطبوعہ نجف۔
۱۶۔علامہ قرطبی،”الجامع الاحکام القرآن“۔ج۔۳۔ص۔۱۰۴۔مطبوعہ مصر ۱۹۳۶۔
[117] اکثر مفسرین و مورخین اسلامی کے بقول سورہ احزاب کی آیات ۳۶تا۳۸/اس سلسلے میں نازل هوئی ھیں۔
[118] سورہٴ احزاب آیت ۳۷۔
[119] سورہٴ احزاب آیت۳۷۔
[120] سورہ احزاب آیت ۳۷۔
[121] سورہ احزاب آیت ۳۷۔
[122] پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زینب کے ساتھ شادی کی داستان قرآن نے پوری صراحت کے ساتھ بیان کردی ھے اور یہ بھی واضح کردیا ھے کہ اس کا ہدف منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے شادی کے ذریعے دور جاھلیت کی ایک رسم کو توڑنا تھا، اس کے باوجود دشمنان اسلام نے اسے غلط رنگ دے کر ایک عشقیہ داستان میں تبدیل کردیا اس طرح سے انهوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات والا صفات کو آلودہ کرنے کی ناپاک جسارت کی ھے اور اس بارے میں مشکوک اور جعلی احادیث کا سھارالیا ھے ان داستانوں میں ایک یہ بھی ھے کہ جس وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم زید کی احوال پرسی کے لئے اس کے گھرگئے اور جو نھی آپ نے دروازہ کھولا تو آپ کی نظر زینب کے حسن وجمال پر جا پڑی تو آپ نے فرمایا :
”سبحان اللہ خالق النور تبارک اللہ احسن الخالقین“
”منزہ ھے وہ خدا جو نور کا خالق ھے اور جاویدو بابرکت ھے وہ اللہ جو احسن الخالقین ھے“۔
ان لوگوں نے اس جملے کو زینب ۺکے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لگاؤ کی دلیل قراردیا ھے، حالانکہ ،عصمت ونبوت کے مسئلہ سے قطع نظر بھی اس قسم کے افسانوں کی تکذیب کے لئے واضح شواہد ھمارے پاس موجود ھیں :
پھلا یہ کہ حضرت زینب، رسول پاک کی پھوپھی زاد بہن تھیں اور خاندانی ماحول میں تقریباً آپ کے سامنے پلی بڑھی تھیں اور آپ ھی نے زید کے لئے ان کی خواستگاری کی تھی اگر زینب حد سے زیادہ حسین تھیں اور بالفرض اس کے حسن وجمال نے پیغمبر اکرم کی توجہ کو اپنی طرف جذب کرلیا تھا تونہ تو اس کا حسن وجمال ڈھکا چھپا تھا اور نہ ھی اس ماجرے سے پھلے ان کے ساتھ آنحضرت کا عقد کرنا کوئی مشکل امر تھا بلکہ اگر دیکھا جائے تو زینب کو زید کے ساتھ شادی کرنے سے دلچپی نہ تھی ، بلکہ اس بارے میں انهوں نے اپنی مخالفت کا اظھار صراحت کے ساتھ بھی کردیا تھا اور وہ اس بات کو کا ملاً ترجیح دیتی تھیں کہ زید کی بجائے رسول اللہ کی بیوی بنیں، کیونکہ جب آنحضرت زید کےلئے زینب سے رشتہ دینے آئے تو وہ نھایت خوش هوگئیں، کیونکہ وہ یہ سمجھ رھی تھیں کہ آپ ان سے اپنے لئے خواستگاری کی غرض سے تشریف لائے ھیں ،لیکن بعد میں وحی الٰھی کے نزول اور خدا وپیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے سر تسلیم خم کرتے هوئے زید کے ساتھ شادی کرنے پر راضی هوگئیں۔ تو ان حالات کو سامنے رکھتے هوئے توھم کی کونسی گنجائش باقی رہ جاتی ھے کھیں آپ زینب کے حالات سے بے خبر تھے؟ یا آپ ان سے شادی کی خواہش رکھتے هوئے بھی اقدام نھیں کرسکتے تھے؟
دوسرا یہ کہ جب زیدنے اپنی بیوی زینب کو طلاق دینے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف رجوع کیا تو آپ نے بار باراسے نصیحت کی اور اطلاق دینے کے لئے روکا اور یہ چیز بجائے خود ان افسانوں کی نفی کا ایک اورشاہدھے ۔
پھر یہ کہ خود قرآن صراحت کے ساتھ اس شادی کا مقصد بیان کرتا ھے تاکہ کسی قسم کی دوسری باتوں کی گنجائش باقی نہ رھے۔
چوتھا امر یہ ھے کہ قرآنی آیت میں خداو ندعا لم اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے فرماتاھے کہ زید کی مطلقہ بیوی کے ساتھ شادی کرنے میں کوئی خاص بات تھی جس کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگوں سے ڈرتے تھے، جبکہ انھیں صرف خدا سے ھی ڈرنا چاہئے۔
خوف خدا کا مسئلہ واضح کرتا ھے کہ یہ شادی ایک فرض کی بجا آوری کے طور ر انجام پائی تھی کہ خدا کی ذات کے لئے شخصی معاملات کو ایک طرف رکھ دینا چاہئے تاکہ ایک خدائی مقدس ہدف پورا هوجائے، اگرچہ اس سلسلے میں کو ردل دشمنوں کی زبان کے زخم اور منافقین کی افسانہ طرازی کا پیغمبر کی ذات پر الزام ھی کیوں نہ آتا هو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم خدا کی اطاعت اور غلط رسم کو توڑنے کی پاداش میں یہ ایک بہت بڑی قیمت ادا کی ھے اور اب تک کررھے ھیں ۔
لیکن سچے رھبروں کی زندگی میں ایسے لمحات بھی آجاتے ھیں ، جن میں انھیں ایثار اور فداکاری کا ثبوت دینا پڑتاھے ، اور وہ اس قسم کے لوگوں کے اتھامات اور الزامات کا نشانہ بنتے رہتے ھیں تاکہ اس طرح سے وہ اپنے اصل مقصد تک پہنچ جائیں
البتہ اگر پیغمبر گرامی قدر نے زینب کو بالکل ھی نہ دیکھا هوتا اور نہ ھی پہچانا هوتا اور زینب نے بھی آپ کے ساتھ ازدواج کے بارے میں رغبت کا اظھار نہ کیا هوتا اور زید بھی انھیں طلاق دینے پر تیار نہ هوتے (نبوت وعصمت کے مسئلہ سے ہٹ کر)پھر تو اس قسم کی گفتگو اور توھمات کی گنجائش هوتی،لیکن پیغمبر کی تو وہ دیکھی دکھائی تھیںلہٰذا ان تمام امکانات کی نفی کے ساتھ ان افسانوں کا جعلی اور من گھڑت هونا واضح هو جاتا ھے۔
علاوہ ازیں نبی اکرم کی زندگی کا کوئی لمحہ یہ نھیں بتاتا کہ آپکو زینب سے کوئی خاص لگاؤ او ررغبت هو،بلکہ دوسری بیویوں کی نسبت ان سے کوئی رغبت رکھتے تھے اور ان افسانوں کی نفی پر یہ ایک اور دلیل ھے ۔
[123] مفسرین کے درمیان مشهور ھے کہ سورہ توبہ کی آیت ۷۵تا ۷۸ اس واقعہ کو بیان کیا گیا ھے۔