صلح حدیبیہ
چھٹی ہجری کے ماہ ذی قعدہ میں پیغمبر اکرم عمرہ کے قصد سے مکہ کی طرف روانہ هوئے ،مسلمانوں کو رسول اکرم کے خواب کی اطلاع مل چکی تھی کہ رسول اکرمنے اپنے تمام اصحاب کے ساتھ ”مسجد الحرام“میں وارد هونے کو خواب میں دیکھا ھے ،او رتمام مسلمانوں کو اس سفرمیں شرکت کا شوق دلایا،اگر چہ ایک گروہ کنارہ کش هو گیا ،مگر مھاجرین و انصار او ربادیہ نشین اعراب کی ایک کثیر جماعت آپ کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ هو گئی ۔
یہ جمعیت جو تقریباًایک ہزار چار سوافراد پر مشتمل تھی ،سب کے سب نے لباس احرام پہنا هوا تھا ،او رتلوار کے علاوہ جو مسافروں کا اسلحہ شمار هو تی تھی ،کوئی جنگی ہتھیار ساتھ نہ لیا تھا ۔
جب مسلمان ”ذی الحلیفہ“ مدینہ کے نزدیک پهونچے،اور بہت اونٹوں کو قربانی کے لئے لے لیا۔
پیغمبر (اور آپ (ع)کے اصحاب کا)طرز عمل بتارھا تھا کہ عبادت کے علاوہ کوئی دوسرا قصد نھیں تھا۔جب پیغمبر مکہ کے نزدیکی مقام آپ کو اطلاع ملی کہ قریش نے یہ پختہ ارادہ کرلیا ھے کہ آپ کو مکہ میں داخل نہ هونے دیں گے ،یھاں تک کہ پیغمبرمقام” حدیبیہ“میں پہنچ گئے ( حدیبیہ مکہ سے بیس کلو مٹر کے فاصلہ پر ایک بستی ھے ،جو ایک کنویں یا درخت کی مناسبت سے اس نام سے مو سوم تھی )حضرت نے فرمایا: کہ تم سب اسی جگہ پر رک جاؤ،لوگوں نے عرض کی کہ یھاں تو کوئی پانی نھیں ھے پیغمبر نے معجزانہ طور پر اس کنویںسے جو وھاںتھا ،اپنے اصحاب کے لئے پانی فراھم کیا ۔
اسی مقام پر قریش او رپیغمبر کے درمیان سفراء آتے جاتے رھے تاکہ کسی طرح سے مشکل حل هو جائے ، آخرکا ر”عروہ ابن مسعودثقفی“جو ایک هوشیا ر آدمی تھا ،قریش کی طرف سے پیغمبر کی خدمت میں حاضر هوا ،پیغمبر نے فرمایا میں جنگ کے ارادے سے نھیں آیا او رمیرا مقصد صرف خانہٴ خدا کی زیارت ھے ،ضمناًعروہ نے اس ملاقات میں پیغمبر کے وضو کرنے کا منظربھی دیکھا،کہ صحابہ آپ کے وضو کے پانی کا ایک قطرہ بھی زمین پرگرنے نھیں دیتے تھے ،جب وہ واپس لوٹا تو اس نے قریش سے کھا :میں قیصر وکسریٰ او رنجاشی کے دربارمیں گیا هوں ۔میں نے کسی سربراہ مملکت کو اس کی قوم کے درمیان اتنا با عظمت نھیں دیکھا ،جتنا محمدکی عظمت کو ان کے اصحاب کے درمیان دیکھا ھے ۔ اگر تم یہ خیال کرتے هو کہ محمدکو چھوڑ جائیںگے تویہ بہت بڑی غلطی هو گی ،دیکھ لو تمھارا مقابلہ ایسے ایثار کرنے والوں کے ساتھ ھے ۔یہ تمھارے لئے غور و فکر کا مقام ھے ۔
بیعت رضوان
اسی دوران پیغمبر نے عمر سے فرمایا: کہ وہ مکہ جائیں ، او ر اشراف قریش کو اس سفرکے مقصد سے آگاہ کریں ،عمر نے کھاقریش مجھ سے شدید دشمنی رکھتے ھیں ،لہٰذامجھے ان سے خطرہ ھے ، بہتر یہ ھے کہ عثمان کو اس کام کے لئے بھیجا جائے ،عثمان مکہ کی طرف آئے ،تھوڑی دیر نہ گذری تھی کہ مسلمانوں کے ورمیان یہ افواہ پھیل گئی کہ ان کو قتل کر دیاھے ۔ اس مو قع پرپیغمبرنے شدت عمل کا ارادہ کیا او رایک درخت کے نیچے جو وھاں پرموجودتھا ،اپنے اصحاب سے بیعت لی جو ”بیعت رضوان“ کے نام سے مشهو رهوئی ،او ران کے ساتھ عہد وپیمان کیا کہ آخری سانس تک ڈٹیں گے،لیکن تھوڑی دیر نہ گذری تھی کہ عثمان صحیح و سالم واپس لوٹ آئے او رانکے پیچھے پیچھے قریش نے”سھیل بن عمر“کو مصالحت کے لئے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں بھیجا ،لیکن تاکید کی کہ اس سال کسی طرح بھی آپکا مکہ میںورود ممکن نھیں ھے ۔
بہت زیادہ بحث و گفتگو کے بعد صلح کا عہد و پیمان هوا،جس کی ایک شق یہ تھی کہ مسلمان اس سال عمرہ سے باز رھیں او ر آئندہ سال مکہ میں آئیں،اس شرط کے ساتھ کہ تین دن سے زیادہ مکہ میں نہ رھیں ،او رمسافرت کے عام ہتھیارکے علاوہ او رکوئی اسلحہ اپنے ساتھ نہ لائیں۔اورمتعددمواد جن کا دارومداران مسلمانوںکی جان و مال کی امنیت پر تھا،جو مدینہ سے مکہ میں واردهوں،او راسی طرح مسلمانوں اورمشرکین کے درمیان دس سال جنگ نہ کرنے او رمکہ میں رہنے والے مسلمانوںکے لئے مذھبی فرائض کی انجام دھی بھی شامل کی گئی تھی۔
یہ پیمان حقیقت میں ھر جہت سے ایک عدم تعرض کا عہد و پیمان تھا ،جس نے مسلمانوںاو رمشرکین کے درمیان مسلسل اوربار با رکی جنگوں کو وقتی طور پر ختم کردیا ۔
صلح نامہ کی تحریر
”صلح کے عہدو پیمان کا متن “اس طرح تھاکہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علی علیہ السلام کوحکم دیا کہ لکھو:
”بسم اللہ الرحمن الرحیم“:سھیل بن عمرنے،جو مشرکین کانمائندہ تھا ،کھا :میںاس قسم کے جملہ سے آشنا نھیں هو ں،لہٰذا”بسمک اللھم“ لکھو:پیغمبر نے فرمایا لکھو :”بسمک اللھم“
اس کے بعد فرمایا: لکھویہ وہ چیز ھے جس پر محمدرسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سھیل بن عمرو سے مصالحت کی ، سھیل نے کھا : ھم اگر آپ کو رسول اللہ سمجھتے تو آپ سے جنگ نہ کرتے ،صرف اپنا او راپنے والد کا نام لکھئے،پیغمبرنے فرمایا کو ئی حرج نھیں لکھو :”یہ وہ چیز ھے جس پرمحمد بن عبد اللہ نے سھیل بن عمرو سے صلح کی ،کہ دس سال تک دو نو ں طرف سے جنگ مترو ک رھے گی تاکہ لو گوں کو امن و امان کی صورت دوبارہ میسرآئے۔
علاوہ ازایں جو شخص قریش میں سے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر محمد کے پاس آئے (او رمسلمان هو جائے )اسے واپس کردیں اورجو شخص ان افراد میں سے جو محمد کے پاس ھیں ،قریش کی طرف پلٹ جائے تو ان کو واپس لوٹانا ضروری نھیں ھے ۔
تمام لوگ آزاد ھیں جو چاھے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عہد و پیمان میں داخل هو او رجو چاھے قریش کے عہد و پیمان میں داخل هو،طرفین اس بات کے پابندھیں کہ ایک دوسرے سے خیانت نہ کرےں،او رایک دوسرے کی جان و مال کو محترم شمار کریں ۔
اس کے علاوہ محمد اس سال واپس چلے جائیں او رمکہ میں داخل نہ هوں،لیکن آئندہ سال ھم تین دن کے لئے مکہ سے باھر چلے جائیں گے او ران کے اصحاب آجائیں ،لیکن تین دن سے زیادہ نہ ٹھھریں ، (اور مراسم عمرہ کے انجام دے کر واپس چلے جائیں )اس شرط کے ساتھ کہ سواے مسافرکے ہتھیار یعنی تلوار کے،وہ بھی غلاف میں کو ئی ہتھیار ساتھ نہ لائیں ۔
اس پیمان پر مسلمانوں او رمشرکین کے ایک گروہ نے گواھی دی او راس عہد نامہ کے کاتب علی (ع)ابن ابی طالب علیہ السلام تھے ۔
مرحو م علامہ مجلسی ۺنے بحار الانوارمیں کچھ او رامور بھی نقل کئے ھیں ،منجملہ ان کے یہ کہ :
”اسلام مکہ میں آشکارا هوگا اورکسی کو کسی مذھب کے انتخاب کرنے پر مجبورنھیںکریں گے ،اورمسلمان کو اذیت و آزارنھیں پہنچائیںگے“۔
اس موقع پرپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا کہ قربانی کے وہ اونٹ جووہ اپنے ھمراہ لائے تھے ،اسی جگہ قربان کردیںاور اپنے سروں کو منڈوائیں اور احرام سے باھرنکل آئیں ،لیکن یہ بات کچھ مسلمانوں کو سخت ناگوار معلوم هوئی ،کیونکہ عمرہ کے مناسک کی انجام دھی کے بغیر ان کی نظرمیں احرام سے باھر نکل آنا ممکن نھیںتھا ،لیکن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ذاتی طور پرخودپیش قدمی کی او رقربانی کے اونٹوںکو نحر کیا او راحرام سے باھرنکل آئے اورمسلمانوںکو سمجھایاکہ یہ احرام اور قربانی کے قانون میں استثناء ھے جو خداکی طرف سے قراردیا گیا ھے ۔
مسلمانوں نے جب یہ دیکھا تو سر تسلیم خم کردیا ،او رپیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حکم کامل طورسے مان لیا،اوروھیںسے مدینہ کی راہ لی،لیکن غم واندوہ کا ایک پھاڑ ان کے دلوںپر بوجھ ڈال رھا تھا ،کیونکہ ظاھر میں یہ سارے کا ساراسفرایک نا کامی اور شکست تھی ،لیکن اسی وقت سورہٴ فتح نازل هوئی اورپیغمبرگرامی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فتح کی بشارت ملی ۔
صلح حدیبیہ کے سیاسی ،اجتماعی او رمذھبی نتائج
ہجرت کے چھٹے سال (صلح حدیبیہ کے وقت )مسلمانوں کی حالت میں او ردو سال بعد کی حالت میںفرق نمایاں تھا ،جب وہ دس ہزار کے لشکر کے ساتھ فتح مکہ کے لئے چلے تاکہ مشرکین کو پیمان شکنی کا دندان شکن جواب دیا جائے،جنانچہ انھوںنے فوجوں کو معمولی سی جھڑپ کے بغیرھی مکہ کوفتح کرلیا ،اس وقت قریش اپنے اندر مقابلہ کرنے کی معمولی سی قدرت بھی نھیں رکھتے تھے ۔ایک اجمالی موازنہ اس بات کی نشاندھی کرتا ھے کہ ”صلح حدیبیہ“ کا عکس العمل کس قدر وسیع تھا ۔
خلاصہ کے طور پر مسلمانوں نے ا س صلح سے چند امتیاز او راھم کامیابیاںحاصل کیں ،جنکی تفصیل حسب ذیل ھے ۔
۱)عملی طور پر مکہ کہ فریب خوردہ لوگوں کو یہ بتا دیا کہ وہ جنگ و جدال کا ارادہ نھیںرکھتے ،او رمکہ کے مقدس شھر اور خانہٴ خداکے لئے بہت زیادہ احترام کے قائل ھیں،یھی بات ایک کثیرجماعت کے دلوںکے لئے اسلام کی طرف کشش کا سبب بن گئی ۔
۲)قریش نے پھلی مرتبہ اسلام او رمسلمانوں کی رسموں کو تسلیم کیا ،یھی وہ چیز تھی جو جزیرةالعرب میں مسلمانوں کی حیثیت کو ثابت کرنے کی دلیل بنی ۔
۳)صلح حدیبیہ کے بعد مسلمان سکون واطمنان سے ھر جگہ آجا سکتے تھے او رانکا جان و مال محفوظ هوگیا تھا ،او رعملی طورپرمشرکین کے ساتھ قریبی تعلق اورمیل جول پیدا هوا،ایسے تعلقات جس کے نتیجہ میں مشرکین کو اسلام کی زیادہ سے زیادہ پہچان کے ساتھ ان کی توجہ اسلام کی طرف مائل هو ئی ۔
۴)صلح حدیبیہ کے بعد اسلام کی نشر واشاعت کے لئے سارے جزیرةالعرب میں راستہ کھل گیا ،او رپیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صلح طلبی کی شرط نے مختلف اقوام کو،جو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات او راسلام کے متعلق غلط نظریہ رکھتے تھے ،تجدید نظر پر آمادہ کیا ،او رتبلیغاتی نقطہٴ نظرسے بہت سے وسیع امکانات ووسائل مسلمانوںکے ھاتھ آئے ۔
۵)صلح حدیبیہ نے خیبر کو فتح کرنے او ریهودیوں کے اس سرطانی غدہ کو نکال پھینکنے کے لئے،جوبالفعل اوربالقوہ اسلام او رمسلمانوں کے لئے ایک اھم خطرہ تھا ،راستہ ھموار کردیا۔
۶)اصولی طو رپر پیغمبرکی ایک ہزار چار سو افراد کی فوج سے ٹکرلینے سے قریش کی وحشت جن کے پاس کسی قسم کے اھم جنگی ہتھیاربھی نھیں تھے، او رشرائط صلح کو قبول کرلینا اسلام کے طرفداروں کے دلوں کی تقویت ،او رمخالفین کی شکست کے لئے ،جنهوں نے مسلمانوں کو ستایاتھا خود ایک اھم عامل تھا۔
۷)واقعہ حدیبیہ کے بعد پیغمبر نے بڑے بڑے ملکو ں،ایران وروم وحبشہ کے سربراهوں ،او ردنیا کے بڑے بڑے بادشاهوںکو متعددخطوط لکھے او رانھیں اسلام کی طرف دعوت دی او ریہ چیزاچھی طرح سے اس بات کی نشاندھی کرتی ھے کہ صلح حدیبیہ نے مسلمانوں میں کس قدر خود اعتمادی پیداکردی تھی،کہ نہ صرف جزیرہ عرب میں بلکہ اس زمانہ کی بڑی دنیا میں ان کی راہ کو کھول دیا۔
اب تک جو کچھ بیان کیا گیا ھے ،اس سے یہ بخوبی معلوم کیا جا سکتا ھے، کہ واقعاً صلح حدیبیہ مسلمانوں کے لئے ایک عظیم فتح او رکامیابی تھی ،اور تعجب کی بات نھیں ھے کہ قرآن مجیدا سے فتح مبین کے عنوان سے یاد کرتا ھے :
صلح حدیبیہ یا عظیم الشان فتح
جس و قت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حدیبیہ سے واپس لوٹے (او رسورہٴ فتح نازل هوئی )تو ایک صحابی نے عرض کیا :”یہ کیا فتح ھے کہ ھمیں خانہٴ خدا کی زیارت سے بھی رو ک دیا ھے او رھماری قربانی میں بھی رکاوٹ ڈال دی“؟!
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:”تو نے بہت بری بات کھی ھے ،بلکہ یہ تو ھماری عظیم ترین فتح ھے کہ مشرکین اس بات پر راضی هوگئے ھیں کہ تمھیں خشونت آمیز طریقہ سے ٹکر لئے بغیر اپنی سرزمین سے دور کریں، اور تمھارے سامنے صلح کی پیش کش کریں اوران تمام تکالیف او ررنج وغم کے باو جود جو تمھاری طرف سے انھوں نے اٹھائے ھیں ،ترک تعرض کے لئے تمھاری طرف مائل هوئے ھیں ۔
اس کے بعد پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ تکالیف جو انھوں نے بدر واحزاب میں جھیلی تھیں انھیں یاد دلائیں، تو مسلمانوں نے تصدیق کی کہ یہ سب سے بڑی فتح تھی او رانھوں نے لا علمی کی بناء پر یہ فیصلہ کیا تھا ۔
”زھری “جو ایک مشهور تابعی ھے، کہتا ھے:کوئی بھی فتح صلح حدیبیہ سے زیادہ عظیم نھیں تھی ،کیونکہ مشرکین نے مسلمانوں کے ساتھ ارتباط اور تعلق پیدا کیا او راسلام ان کے دلوں میں جاں گزیں هوا ،او رتین ھی سال کے عرصہ میں ایک عظیم گروہ اسلام لے آیا او رمسلمانوں میں ان کی وجہ سے اضافہ هوا“۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سچا خواب
جیسا کہ ھم نے شروع میں عرض کیا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مدینہ میں ایک خواب دیکھا کہ آپ اپنے صحابہ کے ساتھ عمرہ کے لئے مناسک ادا کرنے کے لئے مکہ میں داخل هورھے ھیں اور اس خواب کو صحابہ کے سامنے بیان کردیا ، وہ سب کے سب شاد و خوش حال هوئے لیکن چونکہ ایک جماعت یہ خیال کرتی تھی کہ اس خواب کی تعبیر اسی سال پوری هوگی، تو جس وقت قریش نے مکہ میں ان کے دخیل هونے کا راستہ حدیبیہ میں ان کے آگے بند کردیا تو وہ شک و تردید میں مبتلا هوگئے، کہ کیا پیغمبر کا خواب غلط بھی هوسکتا ھے، کیا اس کا مطلب یہ نھیں تھا کہ ھم خانہٴ خدا کی زیارت سے مشرف هوں؟ پس اس وعدہ کا کیا هوا؟ اور وہ رحمانی خواب کھاں چلا گیا؟
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سوال کے جواب میں فرمایا:کیا میں نے تمھیںیہ کھا تھا کہ یہ خواب اسی سال پورا هوگا؟ اسی بارے میں مدینہ کی طرف بازگشت کی راہ میں وحی الٰھی نازل هوئی اور تاکید کی کہ یہ خواب سچا تھا او رایسا مسئلہ حتمی و قطعی اور انجام پانے والا ھے۔
ارشاد خدا وندعالم هوتا ھے:”خد نے اپنے پیغمبر کو جو کچھ دکھلایا تھا وہ سچ اور حق تھا“۔[76]
اس کے بعد مزید کہتا ھے: ”انشاء اللہ تم سب کے سب قطعی طور پر انتھائی امن وامان کے ساتھ اس حالت میں کہ تم اپنے سروں کو منڈوائے هوئے هوں گے، یا اپنے ناخنوں کو کٹوائے هوئے هوں گے مسجد الحرام میں داخل هوں گے اور کسی شخص سے تمھیں کوئی خوف ووحشت نہ هوگی“۔[77]
مومنین کے دلوں پرنزول سکینہ
یھاںگذشتہ میں جو کچھ بیا ن هوا ھے،وہ اتنی عظیم نعمتیں تھیں جو خدا نے فتح مبین و (صلح حدیبیہ) کے سائے میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو عطا فرمائی تھیں لیکن یھاں پراس عظیم نعمت کے بارے میں بحث کی جارھی ھے جو اس نے تمام مئومنین کو مرحمت فرمائی ھے ، فرماتاھے : وھی تو ھے ، جس نے مومنین کے دلوں میں سکون واطمینان نازل کیا، تاکہ ان کے ایمان میںمزید ایمان کا اضافہ کر“
اور سکون واطمینان ان کے دلوں پر نازل کیوں نہ هو” در آنحالیکہ آسمانوں اور زمین کے لشکر خدا کےلئے ھیں اور وہ دا ناو حکیم ھے “[78]
یہ سکینہ کیا تھا ؟
ضروری ھے کہ ھم پھر”صلح حدیبیہ“ کی داستان کی طرف لوٹیں اور اپنے آپ کو” صلح حدیبیہ “ کی فضا میں اور اس فضاء میں جو صلح کے بعد پیدا هوئی ، تصور کریں تاکہ آیت کے مفهوم کی گھرائی سے آشنا هوسکیں ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک خواب دیکھا تھا (ایک رؤیائے الٰھی ورحمانی) کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ مسجد الحرام میں داخل هورھے ھیں اور اس کے بعد خانٴہ خدا کی زیارت کے عزم کے ساتھ چل پڑے زیادہ تر صحابہ یھی خیال کرتے تھے کہ اس خواب اورر وٴیائے صالحہ کی تعبیر اسی سفر میں واقع هوگی، حالانکہ مقدر میں ایک دوسری چیز تھی یہ ایک بات۔
دوسری طرف مسلمانوں نے احرام باندھا هوا تھا، لیکن ان کی توقع کے بر خلاف خانہٴ خدا کی زیارت کی سعادت تک نصیب نہ هوئی اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دے دیا کہ مقام حدیبیہ میں ھی قربانی کے اونٹوں کو نحرکہ دیں ،کیونکہ ان کے آداب وسنن کا بھی اور اسلامی احکام ودستور کا بھی یھی تقاضا تھا کہ جب تک مناسک عمرہ کو انجام نہ دے لیں احرام سے باھر نہ نکلیں ۔
تیسری طرف حدیبیہ کے صلح نامہ میں کچھ ایسے امور تھے جن کے مطالب کو قبول کرنا بہت ھی دشوار تھا،منجملہ ان کے یہ کہ اگر قریش میں سے کوئی شخص مسلمان هوجائے اور مدینہ میں پناہ لے لے تو مسلمان اسے اس کے گھروالوں کے سپرد کردیں گے،لیکن اس کے برعکس لازم نھیں تھا ۔
چوتھی طرف صلح نامہ کی تحریر کے موقع پر قریش اس بات پر تیار نہ هوئے کہ لفظ ” رسول اللہ” محمد“ کے نام کے ساتھ لکھا جائے، اور قریش کے نمائندہ ” سھیل “ نے اصرار کرکے اسے حذف کرایا ، یھاں تک کہ ”بسم اللہ الرحمن الرحیم“ کے لکھنے کی بھی موافقت نہ کی ،اور وہ یھی اصرار کرتا رھا کہ اس کے بجائے ”بسمک اللھم“لکھاجائے ، جو اھل مکہ کی عادت اور طریقہ کے مطابق تھاواضح رھے، کہ ان امور میں سے ھر ایک علیحدہ علیحدہ ایک ناگوار امرتھا۔
چہ جائیکہ وہ سب کے سب مجموعی طور سے وھاں جاتے رھے، اسی لئے ضعیف الایمان ،لوگوں کے دل ڈگمگا گئے ،یھاںتک کہ جب سورہٴ فتح نازل هوئی تو بعض نے تعجب کے ساتھ پوچھا :کونسی فتح ؟
یھی وہ موقع ھے جب نصرت الٰھی کو مسلمانوں کے شامل حال هونا چاہئے تھا اور سکون واطمینان ان کے دلوں میں داخل هوتا تھا نہ یہ کہ کوئی فتور اورکمزوری ان میں پیداهوتی تھی۔
بلکہ ”لیزدادوا ایمانا مع ایمانھم“۔ کے مصداق کی قوت ایمانی میں اضافہ هونا چاہئے تھا اوپر والی آیت ایسے حالات میں نازل هوئی ۔
ممکن ھے اس سکون میں اعتقادی پھلو هو اور وہ اعتقاد میں ڈگمگا نے سے بچائے ، یا اس میں عملی پھلو هواس طرح سے کہ وہ انسان کو ثبات قدم ، مقاومت اور صبر و شکیبائی بخشے ۔
پیچھے رہ جانے والوں کی عذر تراشی
گذشتہ صفحات میں ھم بیان کرچکے ھیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک ہزار چار سو مسلمانوں کے ساتھ مدینہ سے عمرہ کے ارادہ سے مکہ کی طرف روانہ هوئے۔
پیغمبر کی طرف سے بادیہ نشین قبائل میں اعلان هوا کہ وہ بھی سب کے سب کے ساتھ چلیں لیکن ضعیف الایمان لوگوں کے ایک گروہ نے اس حکم سے رو گردانی کرلی،اور ان کا تجزیہ تھا کہ یہ کیسے ممکن ھے کہ مسلمان اس سفر سے صحیح وسالم بچ کر نکل آئیں ، حالانکہ کفار قریش پھلے ھی ھیجان واشتعال میں تھے ، اور انھوں نے احدواحزاب کی جنگیں مدینہ کے قریب مسلمانوں پر تھوپ دی تھیں اب جبکہ یہ چھوٹا ساگروہ بغیر ہتھیاروں کے اپنے پاؤں سے چل کر مکہ کی طرف جارھا ھے ، گویا بھڑوں کے چھتہ کے پاس خود ھی پہنچ رھا ھے ، تو یہ کس طرح ممکن ھے کہ وہ اپنے گھروں کی طرف واپس لوٹ آئیں گے ؟
لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ مسلمان کا میابی کے ساتھ اور قابل ملا حظہ امتیازات کے ھمراہ جو انھوں نے صلح حدیبیہ کے عہد وپیمان سے حاصل کئے تھے ، صحیح وسالم مدینہ کی طرف پلٹ آئے ھیں اور کسی کے نکسیر تک بھی نھیں چھوٹی ، تو انهوں نے اپنی عظیم غلطی کا احساس کیا اور پیغمبر کی خدمت میں حاضر هوئے تاکہ کسی طرح کی عذر خواھی کرکے اپنے فعل کی توجیہ کریں ، اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے استغفار کا تقاضا کریں ۔
لیکن وحی نازل هوئی اور ان کے اعمال سے پردہ اٹھادیا اور انھیں رسوا کیا ۔
اس طرح سے منافقین اور مشرکین کی سرنوشت کا ذکر کر نے کے بعد، یھاں پیچھے رہ جانے والے ضعیف الایمان لوگوں کی کیفیت کا بیان هورھا ھے تاکہ اس بحث کی کڑیاں مکمل هوجائیں ۔
فرماتاھے ” عنقریب بادیہ نشین اعراب میں سے پیچھے رہ جانے والے عذر تراشی کرتے هوئے کھیں گے: ھمارے مال ومتاع اور وھاںپر بچوں کی حفاظت نے ھمیں اپنی طرف مائل کرلیاتھا، اور ھم اس پرُبرکت سفر میں آپ کی خدمت میں نہ رہ سکے، رسالتماب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ھمارے عذر کو قبول کرتے هوئے ھمارے لئے طلب بخشش کیجئے ،وہ اپنی زبان سے ایسی چیز کہہ رھے ھیں جو ان کے دل میں نھیں ھے “۔[79]
وہ تو اپنی توبہ تک میں بھی مخلص، نھیں ھیں ۔
لیکن ان سے کہہ دیجئے : ”خدا کے مقابلہ میں اگر وہ تمھیں نقصان پہنچانا چاھے تو کس کی مجال ھے کہ وہ تمھارا دفاع کرسکے، اور اگر وہ تمھیں کچھ نفع پہنچانا چاھے تو کس میں طاقت ھے، کہ اسے روک سکے “۔ [80]
خدا کے لئے یہ بات کسی طرح بھی مشکل نھیں ھے ، کہ تمھیں تمھارے امن وامان کے گھروں میں ، بیوی بچوں اور مال ومنال کے پاس ،انواع واقسام کی بلاؤں اور مصائب میں گرفتار کردے ،اور اس کےلئے یہ بھی کوئی مشکل کام نھیں ھے کہ دشمنوں کے مرکز میں اور مخالفین کے گڑھ میں تمھیں ھر قسم کے گزندسے محفوظ رکھے، یہ تمھاری قدرت خدا کے بارے میںجھالت اور بے خبری ھے جو تمھاری نظر میں اس قسم کے انکار کو جگہ دیتی ھے ۔
ھاں، خدا ان تمام اعمال سے جنھیں تم انجام دیتے هو باخبر اور آگاہ ھے “[81]
بلکہ وہ تو تمھارے سینوں کے اندر کے اسرار اور تمھاری نیتوں سے بھی اچھی طرح باخبر ھے ، وہ اچھی طرح جانتا ھے کہ یہ عذر اور بھانے واقعیت اور حقیقت نھیں رکھتے اور جو اصل حقیقت اور واقعیت ھے وہ تمھاری شک و ترید، خوف وخطر اور ضعف ایمان ھے ، اور یہ عذر تراشیاں خدا سے مخفی نھیں رہتیں، اور یہ ھرگز تمھاری سزا کو نھیں روکیں گی ۔
قابل توجہ بات یہ ھے کہ قرآن کے لب ولہجہ سے بھی اور تواریخ سے بھی یھی معلوم هوتا ھے کہ یہ وحی الٰھی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مدینہ کی طرف بازگشت کے دوران نازل هوئی، یعنی اس سے پھلے کہ پیچھے رہ جانے والے آئیں اورعذر تراشی کریں ، ان کے کام سے پردہ اٹھادیا گیا اور انھیں رسوا کردیا۔
قرآن اس کے بعد مزید وضاحت کے لئے مکمل طور پر پردے ہٹاکر مزید کہتا ھے :”بلکہ تم نے تو یہ
گمان کرلیا تھا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مومنین ھرگز اپنے گھروالوں کی طرف پلٹ کرنھیں آئیں گے“ ۔[82]
ھاں ، اس تاریخی سفر میں تمھارے شریک نہ هونے کا سبب ، اموال اور بیوی بچوں کا مسئلہ نھیں تھا، بلکہ اس کا اصلی عامل وہ سوء ظن تھا جو تم خدا کے بارے میں رکھتے تھے، اور اپنے غلط اندازوں کی وجہ سے یہ سوچتے تھے کہ یہ سفر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ختم هونے کا سفر ھے اور کیونکہ شیطانی وسوسہ تمھارے دلوں میں زینت پاچکے تھے ،اور یہ تم نے برا گمان کیا“۔[83]کیونکہ تم یہ سوچ رھے تھے کہ خدا نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس سفر میں بھیج کر انھیں دشمن کے چنگل میں دےدیا ھے ، اور ان کی حمایت نھیں کرے گا ،” اور انجام کار تم ھلاک هوگئے “۔[84] اس سے بدتر ھلاکت اور کیا هوگی کہ تم اس تاریخی سفر میں شرکت ، بیعت رضوان، اور دوسرے افتخارات واعزازات سے محروم رہ گئے، اور اس کے پیچھے عظیم رسوائی تھی اور آئندہ کے لئے آخرت کادردناک عذاب ھے ، ھاں تمھارے دل مردہ تھے اس لئے تم اس قسم کی صورت حال میں گرفتار هوئے۔
اگر حدیبیہ میں جنگ هوجاتی
قرآن اسی طرح سے ” حدیبیہ“ کے عظیم ماجرے کے کچھ دوسرے پھلووٴں کو بیان کرتے هوئے، اور اس سلسلہ میں دو اھم نکتوں کی طرف اشارہ کررھا ھے۔
پھلا یہ کہ یہ خیال نہ کرو کہ سرزمین ” حدیبیہ “ میں تمھارے اور مشرکین مکہ کے درمیان جنگ چھڑجاتی تو مشرکین جنگ میں بازی لے جاتے، ایسا نھیں ھے، اکثر کفار تمھارے ساتھ وھاں جنگ کرتے تو بہت جلدی پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے، اور پھر کوئی ولی ویاورنہ پاتے “۔[85]
اور یہ بات صرف تم تک ھی منحصر نھیں ھے ، ” یہ تو ایک سنت الٰھی ھے ،جو پھلے بھی یھی تھی اور تم سنت الٰھی میں ھرگز تغیرو تبدیلی نہ پاؤ گے۔[86]
وہ اھم نکتہ جو قرآن خاص طور پر بیان کررھاھے، یہ ھے کہ کھیں قریش بیٹھ کر یہ نہ کہنے لگیں ، کہ افسوس ھم نے جنگ کیوں نہ کی اوراس چھوٹے سے گروہ کی سرکوبی کیوں نہ کی، افسوس کہ شکارھمارے گھر میں آیا، اور اس سے ھم نے غفلت برتی ، افسوس ، افسوس ۔
ھرگز ایسا نھیں ھے اگر چہ مسلمان ان کی نسبت تھوڑے تھے، اور وطن اور امن کی جگہ سے بھی دور تھے، اسلحہ بھی ان کے پاس کافی مقدار میں نھیں تھا، لیکن اس کے باوجود اگر جنگ چھڑجاتی تو پھر بھی قوت ایمانی اور نصرت الٰھی کی برکت سے کامیابی انھیں ھی حاصل هوتی، کیا جنگ ”بدر “ اور” احزاب “ میں ان کی تعداد بہت کم اور دشمن کا سازو سامان اور لشکر زیادہ نہ تھا؟ ان دونوں مواقع پر دشمن کو کیسے شکست هوگئی ۔
بھرحال اس حقیقت کا بیان مومنین کے دل کی تقویت اور دشمن کے دل کی کمزوری اور منافقین کے ” اگر “ اور ” مگر “ کے ختم هونے کا سبب بن گئی اور اس نے اس بات کی نشاندھی کردی کہ ظاھری طور پر حالات کے برابر نہ هونے کے باوجود اگر جنگ چھڑجائے تو کامیابی مخلص مومنین ھی کو نصیب هوتی ھے ۔
دوسرا نکتہ جو قرآن میں بیان هوا ھے یہ ھے کہ فرماتاھے ”وھی تو ھے جس نے کفار کے ھاتھ کو مکہ میں تم سے باز رکھا اور تمھارے ھاتھ کو ان سے،یہ اس وقت هوا جبکہ تمھیں ان پر کامیابی حاصل هوگئی تھی، اور خدا وہ سب کچھ جو تم انجام دے رھے هو دیکھ رھاھے “۔[87]
مفسرین کی ایک جماعت نے اس آیت کےلئے ایک ” شان نزول“ بیان کی ھے اور وہ یہ ھے کہ: مشرکین مکہ نے ”حدیبیہ “کے واقعہ میں چالیس افراد کو مسلمانوں پرضرب لگانے کےلئے مخفی طور پر حملہ کے لئے تیار کیا، لیکن ان کی یہ سازش مسلمانوں کی هوشیاری سے نقش برآب هوگئی اور مسلمان ان سب کو گرفتار کرکے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لے آئے ، اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انھیں رھا کردیا ۔ بعض نے یہ بھی کھا ھے کہ جس وقت پیغمبر درخت کے سائے میں بیٹھے هوئے تھے تاکہ قریش کے نمائندہ کے ساتھ صلح کے معاہدہ کو ترتیب دیں ، اور علی علیہ السلام لکھنے میں مصروف تھے، تو جوانان مکہ میں سے ۳۰ افراد اسلحہ کے ساتھ آپ پر حملہ آور هوئے،اور معجزا نہ طورپر ان کی یہ سازش بے کار هوگئی اور وہ سب کے سب گرفتار هوگئے اور حضرت نے انھیں آزاد کردیا ۔
عمرة القضاء
”عمرة القضاء“وھی عمرہ ھے جو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حدیبیہ سے ایک سال بعد یعنی ہجرت کے ساتویں سال کے ماہ ذی القعدہ میں اسے( ٹھیک ایک سال بعد جب مشرکین نے آپ کو مسجد الحرام میں داخل هونے سے روکا تھا) اپنے اصحاب کے ساتھ انجام دیا اوراس کا یہ نام اس وجہ سے ھے ، چونکہ یہ حقیقت میں گزشتہ سال کی قضاء شمار هوتا تھا۔ اس کی وضاحت اس طرح ھے کہ : قرار داد حدیبیہ کی شقوں میں سے ایک شق کے مطابق پروگرام یہ تھا کہ مسلمان آئندہ سال مراسم عمرہ اور خانہ خدا کی زیارت کو آزادانہ طور پر انجام دیں، لیکن تین دن سے زیادہ مکہ میں توقف نہ کریں اور اس مدت میں قریش کے سردار اور مشرکین کے جانے پہچانے افراد شھرسے باھر چلے جائیں گے تاکہ ایک تو احتمالی ٹکراؤ سے بچ جائیں اور کنبہ پروری اور تعصب کی وجہ سے جو لوگ مسلمانوں کی عبادت توحیدی کے منظر کو دیکھنے کا یارا اور قدرت نھیں رکھتے، وہ بھی اسے نہ دیکھیں)
بعض تواریخ میں آیا ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے صحابہ کے ساتھ احرام باندھا اور قربانی کے اونٹ لے کر چل پڑے اور ” ظھران“کے قریب پہنچ گئے اس موقع پر پیغمبر نے اپنے ایک صحابی کو جس کا نام “ محمد بن مسلمہ“ تھا، عمدہ سواری کے گھوڑوں اور اسلحہ کے ساتھ اپنے آگے بھیج دیا، جب مشرکین نے اس پر وگرام کو دیکھا تو وہ سخت خوف زدہ هوئے اور انھوں نے یہ گمان کرلیا کہ حضرت ان سے جنگ کرنا اور اپنی دس سالہ صلح کی قرار داد کو توڑنا چاہتے ھیں ، لوگوں نے یہ خبر اھل مکہ تک پہنچادی لیکن جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ کے قریب پہنچے تو آپ نے حکم دیا کہ تمام تیر اور نیزے اور دوسرے سارے ہتھاراس سرزمین میں جس کا نام ”یاجج“ ھے منتقل کردیں، اور آپ خود اور آپ کے صحابہ صرف نیام میں رکھی هوئی تلواروں کے ساتھ مکہ میں دارد هوئے ۔ اھل مکہ نے جب یہ عمل دیکھا تو بہت خوش هوئے کہ وعدہ پورا هوگیا، (گویا پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ اقدام مشرکین کے لئے ایک تنبیہ تھا،کہ اگر وہ نقض عہد کرنا چاھیں اور مسلمانوں کے خلاف سازش کریں،تو ان کے مقابلہ کی قدرت رکھتے ھیں )
رؤ سائے مکہ، مکہ سے باھر چلے گئے، تاکہ ان مناظر کو جوان کےلئے دل خراش تھے نہ دیکھیں لیکن باقی اھل مکہ مرد ، عورتیں اور بچے سب ھی راستوں میں ، چھتوں کے اوپر ، اور خانہ خدا کے اطراف میں جمع هوگئے تھے ، تاکہ مسلمانوں اور ان کے مراسم عمرہ کو دیکھیں ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خاص رُعب اور دبدبہ کے ساتھ مکہ میں وارد هوئے اور قربانی کے بہت سے اونٹ آپ کے ساتھ تھے، اورآپ نے انتھائی محبت اور ادب کے ساتھ مکہ والوں سے سلوک کیا،اور یہ حکم دیا کہ مسلمان طواف کرتے وقت تیزی کے ساتھ چلیں ، اور احرام کو ذراسا جسم سے ہٹالیں تاکہ ان کے قوی اور طاقتور اور موٹے تازے شانے آشکار هوں ، اور یہ منظر مکہ کے لوگوں کی روح اور فکر میں ، مسلمانوں کی قدرت وطاقت کی زندہ دلیل کے طور پر اثراندز هو ۔
مجموعی طور سے ” عمرة القضاء“ عبادت بھی تھا اور قدرت کی نمائش بھی ،یہ کہنا چاہئے کہ ” فتح مکہ “ جو بعد والے سال میں حاصل هوئی ، اس کا بیج انھیں دنوں میں بویا گیا ، اوراسلام کے مقابلہ میں اھل مکہ کے سرتسلیم خم کرنے کے سلسلے میں مکمل طور پر زمین ھموار کردی ۔ یہ وضع وکیفیت قریش کے سرداروں کے لئے اس قدر ناگوار تھی کہ تین دن گزرنے کے بعد کسی کو پیغمبر کی خدمت میں بھیجا کہ قرادداد کے مطابق جتنا جلدی هو سکے مکہ کو چھوڑدیجئے ۔ قابل توجہ بات یہ ھے ، کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ کی عورتوں میں سے ایک بیوہ عورت کو،جو قریش کے بعض سرداروں کی رشتہ دار تھی، اپنی زوجیت میں لے لیا، تاکہ عربوں کی رسم کے مطابق ،اپنے تعلق اور رشتے کو ان سے مستحکم کرکے ان کی عداوت اور مخالفت میں کمی کریں ۔
جس وقت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ سے باھر نکل جانے کی تجویز سنی تو آپ نے فرمایا : میں اس ازدواج کے مراسم کے لئے کھانا کھلانا چاہتا هوں اور تمھاری بھی دعوت کرنا چاہتاهوں ،یہ دعوت رسمی طور پررد کردی گئی ۔
فتح خیبر
جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حدیبیہ سے واپس لوٹے تو تمام ماہ ذی الحجہ اور ہجرت کے ساتویں سال کے محرم کا کچھ حصہ مدینہ میں توقف کیا، اس کے بعد اپنے اصحاب میں سے ان ایک ہزار چار سوافراد کو جنهوں نے حدیبیہ میں شرکت کی تھی ساتھ لے کر خیبر کی طرف روانہ هوئے ،(جو اسلام کے برخلاف تحریکوں کا مرکز تھا، اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی مناسب فرصت کے لئے گن گن کردن گزار رھے تھے کہ اس مرکز فساد کو ختم کریں۔
روایات کے مطابق جس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ”حدیبیہ“ سے پلٹ رھے تھے توحکم خدا سے آپ نے حدیبیہ میں شرکت کرنے والے مسلمانوں کو ” فتح خیبر“ کی بشارت دی ، اور تصریح فرمائی کہ اس جنگ میں صرف وھی شرکت کریں گے ، اور جنگ میں حاصل شدہ مال غنیمت بھی انھیں کے ساتھ مخصوص هوگا تخلف کرنے والوں کو ان غنائم میں سے کچھ نہ ملے گا ۔
لیکن جو نھی ان ڈر پوک دنیا پرستوں نے قرائن سے یہ سمجھ لیا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس جنگ میں جو انھیں درپیش ھے یقینی طور پر کامیاب هوں گے اور سپاہ اسلام کو بہت سامال غنیمت ھاتھ آئے گا، تو وقت سے فائدہ اٹھاتے هوئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر هوئے اور میدان خیبر میں شرکت کی اجازت چاھی اور شاید اس عذر کو بھی ساتھ لیا کہ ھم گزشتہ غلطی کی تلافی کرنے ، اپنی ذمہ داری کے بوجھ کو ھلکا کرنے ، گناہ سے توبہ کرنے اور اسلام وقرآن کی مخلصانہ خدمت کرنے کے لئے یہ چاہتے ھیں کہ ھم میدان جھاد میں آپ کے ساتھ شرکت کریں ، وہ اس بات سے غافل تھے کہ وحی الٰھی پھلے ھی نازل هوچکی تھیں اور ان کے راز کو فاش کرچکی تھیں، جیسا کہ قرآن میں بیان هوا ھے ۔
” جس وقت تم کچھ غنیمت حاصل کرنے کے لئے چلو گے تو اس وقت پیچھے رہ جانے والے کھیں گے : ھمیں بھی اپنے ساتھ چلنے کی اجازت دیں اور اس جھاد میں شرکت کرنے کا شرف بخشیں “۔[88]
بھرحال قرآن اس منفعت اور فرصت طلب گروہ کے جواب میں کہتا ھے :”وہ یہ چاہتے ھیں کہ خدا کے کلام کو بدل دیں “۔ [89]
اس کے بعد مزید کہتا ھے :”ان سے کہہ و : تم ھرگز ھمارے پیچھے نہ آنا“ تمھیں اس میدان میں شرکت کرنے کا حق نھیں ھے ،یہ کوئی ایسی بات نھیں ھے جو میں اپنی طرف سے کہہ رھاهوں ” یہ تو وہ بات ھے جو خدا نے پھلے سے ھی کہہ دی ھے “ ۔[90] اور ھمیں تمھارے مستقبل (کے بارے میں ) باخبر کردیا ھے ۔
خدا نے حکم دیا ھے کہ ” غنائم خیبر“،”اھل حدیبیہ “ کے لئے مخصوص ھیں اور اس چیز میں کوئی بھی ان کے ساتھ شرکت نہ کرے ، لیکن یہ بے شرم اور پرا دعا پیچھے رہ جانے والے پھر بھی میدان سے نھیں ہٹتے اور تمھیں حسد کے ساتھ متھم کرتے ، اور عنقریب وہ یہ کھیں گے : کہ معاملہ اس طرح نھیں ھے بلکہ تم ھم سے حسد کررھے هو ۔[91]
اور اس طرح وہ ضمنی طور پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تکذیب بھی کرتے تھے یھی لوگ”جنگ خیبر“میں انھیں شرکت سے منع کرنے کی اصل حسد کو شمار کرتے ھیں۔
دعائے پیامبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
”غطفان“کے قبیلہ نے شروع میں تو خیبر کے یهودیوں کی حمایت کرنے کا ارادہ کیا تھا، لیکن بعد میں ڈرگئے اور اس سے رک گئے ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت”خیبر“ کے قلعوں کے نزدیک پہنچے تو آپ نے اپنے صحابہ کو رکنے کا حکم دیا، اس کے بعد آسمان کی طرف سربلند کیا اور یہ دعا پڑھی:
”خداوندا ! اے آسمانوں کے پروردگار اور جن پر انھوں نے سایہ ڈالا ھے، اور اے زمینوں کے پروردگار اور جن چیزوں کو انھوں نے اٹھارکھا ھے میں تجھ سے اس آبادی اور اس کے اھل میں جو خیر ھے اس کا طلب گارهوں، اور تجھ سے اس کے شراور اس میں رہنے والوں کے شر اور جو کچھ اس میں ھے اس شرسے پناہ مانگتاهوں“ ۔اس کے بعد فرمایا:” بسم اللہ “آگے بڑھو: اور اس طرح سے رات کے وقت ”خیبر“ کے پاس جاپہنچے‘ اور صبح کے وقت جب ا”ھل خیبر“ اس ماجرا سے باخبر هوئے تو خود کو لشکر اسلام کے محاصرہ میں دیکھا، اس کے بعد پیغمبر نے یکے بعد دیگرے ان قلعوں کو فتح کیا،یھاں تک کہ آخری قلعہ تک ، جو سب سے زیادہ مضبوط اور طاقتور تھا، اور مشهور یهودی کمانڈر”مرحب“ اس میں رہتا تھا، پہنچ گئے ۔
انھیں دنوں میں ایک سخت قسم کا دردسر، جو کبھی کبھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو عارض هوا کرتا تھا، آپ کو عارض هوگیا ، اس طرح سے کہ ایک دو دن آپ اپنے خیمہ سے باھر نہ آسکے تو اس موقع پر (مشهور اسلامی تواریخ کے مطابق ) حضرت ابوبکر، نے علم سنبھالا اور مسلمانوں کو ساتھ لے کر یهودیوں کے لشکر پر حملہ آور هوئے ، لیکن کوئی نتیجہ حاصل کیے بغیر واپس پلٹ آئے دوسری دفعہ ” حضرت عمر“ نے علم اٹھایا، اور مسلمان پھلے دن کی نسبت زیادہ شدت سے لڑے،لیکن بغیر کسی نتیجہ کے واپس پلٹ آئے ۔
فاتح خیبر علی علیہ السلام
یہ خبر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک پہنچی تو آپ نے فرمایا:”خدا کی قسم کل یہ علم ایسے مرد کو دوں گا جو خدا اور اس کے رسول کو دوست رکھتا ھے، اور خدا اور پیغمبر اس کو دوست رکھتے ھیں ،اور وہ اس سے قلعہ کو طاقت کے زورسے فتح کرے گا “۔ ھرطرف سے گردنیں اٹھنے لیگیں کہ اس سے مرادکون شخص ھے؟ کچھ لوگوں کا اندازہ تھا کہ پیغمبر کی مراد علی علیہ السلام ھیںلیکن علی علیہ السلام ابھی وھاں موجود نھیں تھے،کیونکہ شدید آشوب چشم انھیں لشکر میں حاضر هونے سے مانع تھا، لیکن صبح کے وقت علی علیہ السلام اونٹ پر سوار هوکر وارد هوئے، اور پیغمبر اکرم کے خیمہ کے پاس اترے درحالیکہ آپ کی آنکھیں شدت کے ساتھ درد کررھی تھیں ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :میرے نزدیک آؤ،آپ قریب گئے توآنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے دہن مبارک کا لعاب علی علیہ السلام کی آنکھوں پر ملا اور اس معجزہ کی برکت سے آپ کی آنکھیں بالکل ٹھیک هوگئیں اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علم ان کے ھاتھ میں دیا۔
علی علیہ السلام لشکر اسلام کو ساتھ لے کر خیبر کے سب سے بڑے قلعہ کی طرف بڑھے تو یهودیوں میں سے ایک شخص نے قلعہ کے اوپر سے پوچھا کہ آپ کون ھیں ؟ آپ نے فرمایا : ” میں علی بن ابی طالب“ هوں، اس یهودی نے پکار کر کھا : اے یهودیو! اب تمھاری شکست کا وقت آن پہنچا ھے ، اس وقت اس قلعہ کا کمانڈر مرحب یهودی ، علی علیہ السلام سے مقابلہ کے لئے نکلا، اور کچھ دیر نہ گزری تھی کہ ایک ھی کاری ضرب سے زمین پر گرپڑا ۔
مسلمانوں اور یهودیوں کے درمیان شدید جنگ شروع هوگئی، علی علیہ السلام قلعہ کے دروازے کے قریب آئے ، اور ایک قوی اورپُر قدرت حرکت کے ساتھ دروازے کو اکھاڑا اور ایک طرف پھینک دیا، اور اس زور سے قلعہ کھل گیا اور مسلمان اس میں داخل هوگئے اور اسے فتح کرلیا ،یهودیوں نے اطاعت قبول کرلی، اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے درخواست کی کہ اس اطاعت کے عوض ان کی جان بخشی کی جائے، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی درخواست کو قبول کرلیا، منقول غنائم اسلامی لشکر کے ھاتھ آئے اور وھاں کی زمینیں اور باغات آپ نے یهودیوں کو اس شرط کے ساتھ سپرد کردئیے کہ اس کی آمدنی کا آدھا حصہ وہ مسلمانوں کو دیا کریں گے ۔
آخرکار پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تواریخ کی نقل کے مطابق غنائم خیبرصرف اھل حدیبیہ پر تقسیم کئے، یھاں تک کہ ان لوگوں کے لئے بھی جو حدیبیہ میں موجود تھے اور کسی وجہ سے جنگ خیبر میں شریک نہ هوسکے ان کے لئے بھی ایک حصہ قراردیا ، البتہ ایسا آدمی صرف ایک ھی تھا، اور وہ ” جابربن عبداللہۻتھا ۔
فتح مکہ
فتح مکہ نے؛ تاریخ اسلام میںایک نٴی فصل کا اضافہ کیاھے اور تقریباً بیس سال کے بعد دشمن کی مقاومتوں کو ھمیشہ کے لئے ختم کردیا، حقیقت میں فتح مکہ سے جزیرة العرب سے شرک و بت پر ستی کی بساط لپیٹ دی گئی ،اور اسلام دنیاکے دوسرے ممالک کی طرف حرکت کے لئے آمادہ هوا۔
اس واقعہ کا خلاصہ یہ ھے کہ عہد وپیمان اور صلح کے بعد کفار نے عہد شکنی کی اور اس صلح نامہ کونظر انداز کردیا، اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعض حلیفوں کے ساتھ زیادتی کی، آپ کے حلیفوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شکایت کی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے حلیفوںکی مددکرنے کا ارادہ کرلیا،اور دوسری طرف مکہ میں بت پرستی شرک اور نفاق کا جو مرکز قائم تھا اس کے ختم هونے کے تمام حالات فراھم هوگئے تھے اور یہ ایک ایسا کام تھا جسے ھر حالت میں انجام دینا ضروری تھا،اس لئے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حکم سے مکہ کی طرف جانے کے لئے آمادہ هوگئے ،فتح مکہ تین مراحل میںانجام پائی ۔
پھلا مرحلہ مقدماتی تھا، یعنی ضروری قوااور توانائیوں کو فراھم کرنا، زمانہ کے موافق حالات کا انتخاب اور دشمن کی جسمانی و روحانی قوت و توانائی کی مقدار وکیفیت کی حیثیت کے بارے میں کافی اطلاعات حاصل کرنا تھا۔
دوسرا مرحلہ، فتح کے مرحلہ کوبہت ھی ماھرانہ اور ضائعات و تلفات یعنی نقصان کے بغیر انجام دینا تھا۔ اور آخری مرحلہ، جو اصلی مرحلہ تھا، وہ اس کے آثار و نتائج کا مرحلہ تھا۔
یہ مرحلہ انتھائی دقت، باریک بینی اور لطافت کے ساتھ انجام پایا ، خصوصاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ و مدینہ کی شاھراہ کو اس طرح سے سے قرق کرلیا تھا کہ اس عظیم آمادگی کی خبر کسی طرح سے بھی اھل مکہ کو نہ پہنچ سکی۔ اس لئے انهوں نے کسی قسم کی تیار ی نہ کی ،وہ مکمل طور پر غفلت میں پڑے رھے اور اسی وجہ سے اس مقد س سرزمین میںاس عظیم حملہ اور بہت بڑی فتح میں تقریباً کوئی خون نھیںبھا۔
یھاں تک کہ وہ خط بھی،جو ایک ضعیف الایمان مسلمان ”حاطب بن ابی بلتعہ“نے قریش کو لکھا تھا اور قبیلہ ”مزینہ“ کی ایک عورت ”کفود“یا ”سارہ“نامی کے ھاتھ مکہ کی طرف روانہ کیا تھا،اعجاز آمیز طریقہ سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے آشکار هوگیا، علی علیہ االسلام کچھ دوسرے لوگوں کے ساتھ بڑی تیزی سے اس کے پیچھے روانہ هوئے، انهوںنے اس عورت کو مکہ و مدینہ کی ایک درمیانی منزل میںجالیا اور اس سے وہ خط لے کر،خود اسے بھی مدینہ واپس لے آئے۔
مکہ کی طرف روانگی
بھر حال پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ میں اپنا ایک قائم مقام مقرر کر کے ہجرت کے آٹھویں سال ماہ رمضان کی دس تاریخ کو مکہ کی طرف چل پڑے ، اور دس دن کے بعد مکہ پہنچ گئے ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے راستے کے وسط میں اپنے چچا عباس کو دیکھا کہ وہ مکہ سے ہجرت کرکے آپ کی طرف آرھے ھیں ۔ حضرت نے ان سے فرمایا کہ اپنا سامان مدینہ بھیج دیجئے اور خود ھمارے ساتھ چلیں، اور آپ آخری مھاجر ھیں۔
آخر کار مسلمان مکہ کی طرف پہنچ گئے اور شھر کے باھر،اطراف کے بیابانوں میں اس مقام پر جسے ”مرالظھران“کھا جاتا تھا اور جو مکہ سے چند کلومیٹر سے زیادہ فاصلہ پر نہ تھا،پڑاؤ ڈال دیا۔ اور رات کے وقت کھانا پکانے کے لئے (یا شاید اپنی وسیع پیمانہ پر موجودگی کو ثابت کرنے کے لئے) وھاں آگ روشن کردی، اھل مکہ کا ایک گروہ اس منظر کو دیکھ کر حیرت میں ڈوب گیا۔
ابھی تک پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور لشکر اسلام کے اس طرف آنے کی خبریں قریش سے پنھاں تھیں۔ اس رات اھل مکہ کا سرغنہ ابو سفیان اور مشرکین کے بعض دوسرے سرغنہ خبریںمعلوم کرنے کے لئے مکہ سے باھر نکلے،اس موقع پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا عباس ۻنے سوچا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قھرآلود طریقہ پر مکہ میںوارد هوئے تو قریش میں سے کوئی بھی زندہ نھیں بچے گا، انهوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اجازت لئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سواری پر سوار هوکر کھا میں جاتاهوں ،شاید کوئی مل جائے تو اس سے کهوں کہ اھل مکہ کو اس ماجرے سے آگاہ کردے تا کہ وہ آکر امان حاصل کرلیں۔
عباسۻ وھاںروانہ هوکر بہت قریب پہنچ گئے۔ اتفاقاً اس موقع پر انهوں نے ”ابو سفیان“کی آواز سنی جواپنے ایک دوست ”بدیل“ سے کہہ رھا تھا کہ ھم نے کبھی بھی اس سے زیادہ آگ نھیں دیکھی، ”بدیل“ نے کھا میرا خیال ھے کہ یہ آگ قبیلہ”خزاعہ“نے جلائی هوئی ھے، ابوسفیان نے کھا قبیلہ خزاعہ اس سے کھیں زیادہ ذلیل وخوار ھیں کہ وہ اتنی آگ روشن کریں،اس موقع پر عباس نے ابوسفیان کو پکارا، ابوسفیان نے بھی عباس کو پہچان لیا اور کھا سچ سچ بتاؤ کیا بات ھے؟
عباسۻ نے جواب دیا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ھیں جو دس ہزار مجاہدین اسلام کے ساتھ تمھاری طرف آرھے ھیں، ابو سفیان سخت پریشان هوا اور کھا آپ مجھے کیا حکم دیتے ھیں۔
عباسۻ نے کھا:میرے ساتھ آؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے امان لے لو ورنہ قتل کردیے جاؤگے۔
اس طرح سے عباس نے”ابوسفیان“کو اپنے ھمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سواری پر ھی سوار کرلیا اور تیزی کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں پلٹ آئے ۔ وہ جس گروہ اور جس آگ کے قریب سے گزرتے وہ یھی کہتے کہ یہ تو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا ھیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سواری پر سوار ھیں ،کوئی غیر آدمی ھے، یھاںتک کہ وہ اس مقام پر آئے، جھاں عمر ابن خطاب تھے ،جب عمر بن خطاب کی نگاہ ابو سفیان پر پڑی تو کھا خدا کا شکر ھے کہ اس نے مجھے تجھ ( ابوسفیان) پر مسلط کیا ھے، اب تیرے لئے کوئی امان نھیں ھے اور فوراً ھی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میںآکرآپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ابوسفیان کی گردن اڑانے کی اجازت مانگی ۔
لیکن اتنے میں عباسۻ بھی پہنچ گئے اور کھا: کہ اے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نے اسے پنا ہ دے دی ھے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: میں بھی سر دست اسے امان دیتا هوں، کل آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسے میرے پاس لے آئیں اگلے دن جب عباسۻ اسے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے فرمایا:”اے ابوسفیان! وائے هو تجھ پر، کیا وہ وقت ابھی نھیں آیا کہ تو خدائے یگانہ پر ایمان لے آئے“۔
اس نے عرض کیا: ھاں! ےا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے ماں باپ آپ پر قربان هوں ،میں گواھی دیتاهوں کہ خدا یگانہ ھے اور اس کا کوئی شریک نھیں ھے،اگر بتوں سے کچھ هو سکتا تو میں یہ دن نہ دیکھتا۔
آنحضرت نے فرمایا:”کیا وہ موقع نھیں آیا کہ تو جان لے کہ میں اللہ کا رسو ل هوں“۔
اس نے عرض کی:میرے ماں باپ آپ پر قربان هو ںابھی اس بارے میں میرے دل میں کچھ شک و شبہ موجود ھے لیکن آخر کار ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں میں سے دو آدمی مسلمان هوگئے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عباسۻ سے فرمایا:
”ابوسفیان کو اس درہ میں جو مکہ کی گزرگاہ ھے، لے جاؤ تاکہ خدا کا لشکر وھاں سے گزرے اور یہ دیکھ لے“۔
عباسۻ نے عرض کیا:”ابوسفیان ایک جاہ طلب آدمی ھے،اسکو کوئی امتیازی حیثیت دے دیجئے“پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:”جو شخص ابوسفیان کے گھر میں داخل هوجائے وہ امان میں ھے،جوشخص مسجد الحرام میں پناہ لے لے وہ امان میں ھے،جو شخص اپنے گھر کے اندر ھے اور دروازہ بند کرلے وہ بھی امان میں ھے“۔
بھر حال جب ابوسفیان نے اس لشکر عظیم کو دیکھا تو اسے یقین هوگیا کہ مقابلہ کرنے کی کوئی راہ باقی نھیں رھی او راس نے عباس کی طرف رخ کرکے کھا:آپ کے بھتیجے کی سلطنت بہت بڑی هوگئی ھے،عباسۻ نے کھا: وائے هو تجھ پر یہ سلطنت نھیں نبوت ھے۔
اس کے بعدعباس نے اس سے کھا کہ اب تو تیزی کے ساتھ مکہ والوں کے پاس جاکر انھیں لشکر اسلام کا مقابلہ کرنے سے ڈرا۔
ابوسفیان؛ لوگوں کو تسلیم هونے کی دعوت کرتاھے
ابوسفیان نے مسجدالحرام میں جاکر پکار کر کھا:
”اے جمعیت قریش! محمد ایک بہت بڑے لشکر کے ساتھ تمھاری طرف آیا ھے،تم میں اس کا مقابلہ کرنے کی طاقت نھیں ھے، اس کے بعد اس نے کھا: جو شخص میرے گھر میں داخل هوجائے وہ امان میںھے،جو شخص مسجد الحرام میں چلا جائے وہ بھی امان میں ھے اور جو شخص اپنے گھر میں رہتے هوئے گھر کا دروازہ بندکرے وہ بھی امان میں ھے“۔
اس کے بعد اس نے چیخ کر کھا: اے جمعیت قریش! اسلام قبول کرلو تا کہ سالم رهو اور بچ جاؤ، اس کی بیوی”ہندہ“نے اس کی داڑھی پکڑلی اور چیخ کر کھا:اس بڈھے احمق کو قتل کردو۔
ابوسفیان نے کھا: میری داڑھی چھوڑدے۔ خدا کی قسم اگر تو اسلام نہ لائی تو تو بھی قتل هو جائے گی،جاکر گھر میں بیٹھ جا۔
علی علیہ السلام کے قدم دوش رسول پر
اس کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لشکر اسلام کے ساتھ روانہ هوئے اور ”ذوی طوی“کے مقام تک پہنچ گئے،وھی بلند مقام جھاں سے مکہ کے مکانات صاف نظرآتے ھیں،پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو وہ دن یاد آگیا جب آپ مجبور هوکر مخفی طور پر مکہ سے باھر نکلے تھے، لیکن آج دیکھ رھے ھیں کہ اس عظمت کے ساتھ داخل هورھے ھیں،تو آپ نے اپنی پیشانی مبارک اونٹ کے کجاوے کے اوپر رکھ دی او رسجدہ شکر بجا لائے،اس کے بعد پیغمبر اکرم ”حجون“ میں (مکہ کے بلند مقامات میں سے وہ جگہ جھاں خدیجہ(ع) کی قبر ھے) اترے، غسل کر کے اسلحہ اور لباس جنگ پہن کر اپنی سوار ی پر سوار هوئے،سورہٴ فتح کی قرائت کرتے هوئے مسجدالحرام میں داخل هوئے اور آواز تکبیر بلند کی، لشکر اسلام نے بھی نعرہٴ تکبیر بلندکیا تو اس سے سارے دشت و کوہ گونج اٹھے۔ اس کے بعد آپ اپنے اونٹ سے نیچے اترے اور بتوں کو توڑنے کے لئے خانہ کعبہ کے قریب آئے، آپ یکے بعد دیگرے بتوں کو سرنگوںکرتے جاتے تھے اور فرماتے جاتھے:
”جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقاً“
”حق آگیا اور باطل ہٹ گیا،اور باطل ھے ھی ہٹنے والا“۔
کچھ بڑے بڑے بت کعبہ کے اوپر نصب تھے، جن تک پیغمبر کا ھاتھ نھیں پہنچتاتھا،آپ نے امیرالمومنین علی علیہ السلام کو حکم دیا وہ میرے دوش پر پاؤں رکھ کر اوپر چڑھ جائیں اور بتوں کو زمین پر گرا کر توڑڈالیں، علی علیہ السلام نے آپ کے حکم کی اطاعت کی۔
اس کے بعد آپ نے خانہٴ کعبہ کی کلید لے کر دروازہ کھولا اور انبیاء کی ان تصویروں کو جو خانہٴ کعبہ کے اندر درودیوار پر بنی هوئی تھیں، محو کردیا۔ اس سریع اور شاندا رکامیابی کے بعد پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خانہٴ کعبہ کے دروازے کے حلقہ میں ھاتھ ڈالا اور وھاں پر موجود اھل مکہ کی طرف رخ کرکے فرمایا:
”اب بتلاؤ تم کیا کہتے هو؟ اور تمھارا کیا خیال ھے کہ میںتمھارے بارے میں کیا حکم دوں گا؟ انهوں نے عرض کیا: ھم آپ سے نیکی اور بھلائی کے سواراور کوئی توقع نھیںرکھتے!آپ ھمارے بزرگواربھائی اور ھمارے بزرگوار بھائی کے فرزند ھیں،آج آپ بر سر اقتدار آگئے ھیں، ھیں بخش دیجئے ،پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبانے لگے اورمکہ کے لوگ بھی بلند آواز کے ساتھ رونے لگے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ”میں تمھارے بارے میں وھی بات کہتا هوں جو میرے بھائی یوسف علیہ السلام نے کی تھی کہ آج تمھارے اوپر کسی قسم کی کوئی سرزنش اور ملامت نھیں ھے، خدا تمھےں بخش دے گا،وہ الرحم الراحمین ھے“۔[92]
اور اس طرح سے آپ نے ان سب کو معاف کردیا اور فرمایا: ”تم سب آزاد هو،جھاں چاهو جاسکتے هو“۔
آج کا دن روز رحمت ھے
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ حکم دیاتھا کہ آپ کے لشکری کسی سے نہ الجھیں اور بالکل کوئی خون نہ بھایا جائے۔ ایک روایت کے مطابق صرف چھ افراد کو مستثنیٰ کیا گیا جو بہت ھی بد زبان اور خطرناک لوگ تھے۔
یھاں تک کہ جب آپ نے یہ سنا کہ لشکر اسلام کے علمدار”سعد بن عبادہ نے انتقام کا نعرہ بلند کیا ھے اور وہ یہ کہہ رھا ھے کہ:” آج انتقام کا دن ھے“ تو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علی علیہ السلام سے فرمایا، ”جلدی سے جاکر اس سے علم لے کر یہ نعرہ لگاؤ کہ:
” آج عفو وبخشش اور رحمت کا دن ھے“۔!
اور اس طرح مکہ کسی خونریزی کے بغیر فتح هوگیا،عفوورحمت اسلام کی اس کشش نے،جس کی انھیں بالکل توقع نھیں تھی،دلوں پر ایسا اثر کیا کہ لوگ گروہ در گروہ آکر مسلمان هوگئے،اس عظیم فتح کی صدا تمام جزائر عربستان میں جاپہنچی،اسلام کی شھرت ھر جگہ پھیل گئی اور مسلمانوں اور اسلام کی ھر جہت سے دھاک بیٹھ گئی ۔
جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خانہٴ کعبہ کے دروازے کے سامنے کھڑے هوئے تھے تو آپ نے فرمایا:
”خداکے سوا اور کوئی معبود نھیںھے،وہ یکتا اور یگانہ ھے،اس نے آخر کار اپنے وعدہ کو پورا کردیا، اور اپنے بندہ کی مددکی،اور اس نے خود اکیلے ھی تمام گروهوں کو شکست دےدی، ان لوگوں کا ھر مال ،ھر امتیاز ،اورھر وہ خون جس کاتعلق ماضی اور زمانہٴ جاھلیت سے ھے،سب کے سب میرے ان دونوں قدموں کے نیچے ھیں“۔
(یعنی زمانہٴ جاھلیت میں هوئے خون خرابہ کو بھول جاوٴ ،غارت شدہ اموال کی بات نہ کرو اور زمانہٴ جاھلیت کے تمام امتیازات کو ختم کر ڈالو، خلاصہ گذشتہ فائلوں کو بند کر دیا جائے ۔)
یہ ایک بہت ھی اھم اور عجیب قسم کی پیش نھاد تھی جس میں عمومی معافی کے فرمان سے حجاز کے لوگوں کو ان کے تاریک اور پُر ماجرا ماضی سے کاٹ کر رکھ دیا اور انھیں اسلام کے سائے میں ایک نئی زندگی بخشی جو ماضی سے مربوط کشمکشوں اور جنجالوں سے مکمل طور پر خالی تھی۔
اس کام نے اسلام کی پیش رفت کے سلسلہ میں بہت زیادہ مد دکی اور یہ ھمارے آج اور آنے والے کل کے لئے ایک دستو رالعمل ھے۔
عورتوں کی بیعت کے شرائط
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کوہ صفا پر قیام فرمایا،او رمردوں سے بیعت لی،بعدہ مکہ کی عورتیں جو ایمان لے آئی تھیں بیعت کرنے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر هوئیں تووحی الٰھی نازل هوئی اور ان کی بیعت کی تفصیل بیان کی ۔
روئے سخن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف کرتے هوئے فرماتا ھے :
”اے پیغمبر !جب مومن عورتیں تیرے پاس آئیں او ران شرائط پر تجھ سے بیعت کرلیں کہ وہ کسی چیز کو خداکا شریک قرار نھیں دیں گی، چوری نھیں کریں گی ،زنا سے آلودہ نھیں هوںگی،اپنی اولاد کو قتل نھیں کریں گی،اپنے ھاتھوں اورپاؤں کے آگے کوئی افتراء اور بہتان نھیں باندھیں گی اور کسی شائستہ حکم میں تیری نافرمانی نھیں کریں گی تو تم ان سے بیعت لے لو اوران کے لئے بخشش طلب کرو،بیشک خدا بخشنے ،والا اورمھربان ھے۔ “[93]
اس کے بعد پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے بیعت لی۔
بیعت کی کیفیت کے بارے میں بعض مورخین نے لکھا ھے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پانی کاایک برتن لانے کا حکم دیا او راپنا ھاتھ پانی کے اس برتن میں رکھ دیا،عورتیں اپنے ھاتھ برتن کے دوسری طرف رکھ دیتی تھیں،جب کہ بعض نے کھا ھے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لباس کے اوپر سے بیعت لیتے تھے ۔
ابو سفیان کی بیوی ہندہ کی بیعت کا ماجرا
فتح مکہ کے واقعہ میں جن عورتوں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر هوکر بیعت کی ان میں سے ایک ابو سفیان کی بیوی”ہندہ“تھی، یعنی وہ عورت جس کی طرف سے تاریخ اسلام بہت سے دردناک واقعات محفوظ رکھے هوئے ھے،ا ن میں سے ایک میدان احد میں حمزہ سید الشہداء (ع) کی شھادت کا واقعہ ھے کہ جس کی کیفیت بہت ھی غم انگیز ھے ۔
اگرچہ آخرکاروہ مجبور هوگئی کہ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے گھٹنے ٹیک دے او رظاھراً مسلمان هو جائے لیکن اسکی بیعت کا ماجرا بتاتا ھے کہ وہ حقیقت میں اپنے سابقہ عقائد کی اسی طرح وفادار تھی، لہٰذا اس میں تعجب کی کوئی بات نھیں ھے کہ بنی امیہ کا خاندان اور ہندہ کی اولادنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد اس قسم کے جرائم کا ارتکاب کیا کہ جن کی سابقہ زمانہ میں کوئی نظیر نھیں ملتی ۔
بھر حال مفسرین نے اس طرح لکھا ھے کہ ہند ہ نے اپنے چھرے پر نقاب ڈالا هوا تھا وہ پیغمبر کی خدمت میں اس وقت حاضر هوئی جب آپ کوہ صفا پر تشریف فرما تھے اور عورتوںکی ایک جماعت ہندہ کے ساتھ تھی، جب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ فرمایاکہ میں تم عورتوںسے اس بات پر بیعت لتیا هوں کہ تم کسی چیز کو خدا کا شریک قرار نھیں دو گی، تو ہندہ نے اعتراض کیا او رکھا:”آپ ھم سے ایسا عہد لے رھے ھیں جو آپ نے مردوں سے نھیں لیا ، (کیونکہ اس دن مردوں سے صرف ایمان اورجھاد پربیعت لی گئی تھی ۔)
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی بات کی پرواہ کئے بغیر اپنی گفتگو کو جاری فرمایا:”کہ تم چوری بھی نھیں کرو گی،“ہند ہ نے کھا: ابو سفیان کنجوس اوربخیل آدمی ھے میں نے اس کے مال میں سے کچھ چیزیںلی ھیں، میں نھیں جانتی کہ وہ انھیں مجھ پر حلال کرے گا یا نھیں!ابو سفیان موجود تھا ،اس نے کھا: جو کچھ تو نے گذشتہ زمانہ میں میرے مال میںسے لے لیا ھے وہ سب میں نے حلال کیا ،(لیکن آئندہ کے لئے پابندی کرنا ۔)
اس موقع پر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہنسے اور ہندہ کو پہچان کر فرمایا:”کیا تو ہندہ ھے“؟ اس نے کھا :جی ھاں ،یا رسول اللہ !پچھلے امور کو بخش دیجئے خدا آپ کو بخشے “۔!!
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی گفتگو کو جاری رکھا:”او رتم زنا سے آلودہ نھیں هوگی،“ہندہ نے تعجب کرتے هوئے کھا:”کیا آزاد عورت اس قسم کا عمل بھی انجام دیتی ھے؟“حاضرین میںسے بعض لوگ جو زمانہٴ جاھلیت میں اس کی حالت سے واقف تھے اس کی اس بات پر ہنس پڑے کیونکہ ہندہ کا سابقہ زمانہ کسی سے مخفی نھیں تھا۔
پھر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی بات کو جاری رکھتے هوئے فرمایا:
”اور تم اپنی اولاد کو قتل نھیں کروگی “۔
ہند نے کھا:”ھم نے تو انھیں بچپن میں پالا پوسا تھا،مگر جب وہ بڑے هوئے تو آپ نے انھیں قتل کردیا، اب آپ او روہ خود بہتر جانتے ھیں“۔( اس کی مراد اس کا بیٹا ”حنظلہ“تھا جو بدر کے دن علی علیہ السلام کے ھاتھوں ماراگیا تھا۔)
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی اس بات پر تبسم فرمایا، او رجب آپ اس بات پر پہنچے او رفرمایا:
”تم بہتان او رتھمت کو روا نھیں رکھوگی “۔
تو ہندہ نے کھا:”بہتان قبیح ھے او رآپ ھمیں صلاح و درستی ،نیکی او رمکارم اخلاق کے سوا او رکسی چیز کی دعوت نھیں دیتے“۔
جب آپ نے یہ فرمایا:
”تم تمام اچھے کاموں میں میرے حکم کی اطاعت کروگی “۔تو ہندہ نے کھا:”ھم یھاں اس لئے نھیں بیٹھے ھیں کہ ھمارے دل میں آپ کی نافرمانی کاارادہ هو“۔
(حالانکہ مسلمہ طور پر معاملہ اس طرح نھیں تھا، لیکن تعلیمات اسلامی کے مطابق پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس بات کے پابند تھے کہ ان کے بیانات کو قبول کرلیں۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خطوط دنیا کے بادشاهوںکے نام
تاریخ اسلام سے معلوم هوتا ھے کہ جب سرزمین حجاز میںاسلام کافی نفوذ کرچکا تو پیغمبراکرم نے اس زمانے کے بڑے بڑے حکمرانوں کے نام کئی خطوط روانہ کیے ۔ ان میں بعض خطوط میں کا سھارا لیا گیا ھے ،جس میں آسما نی ادیان کی قدر مشترک کا تذکرہ ھے۔
مقوقس[94] کے نام خط
مقوقس مصر کا حاکم تھا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دنیا کے بڑے بڑے بادشاهوں او رحکام کو خطوط لکھے او رانھیں اسلام کی طرف دعوت دی،حاطب بن ابی بلتعہ کو حاکم مصر مقوقس کی طرف یہ خط دے کرروانہ کیا۔
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
من: محمد بن عبداللّٰہ
الی: المقوقس عظیم القبط
سلام علی من اتبع الھدیٰ ،اما بعد:”فانی ادعوک بدعایةالاسلام۔
اسلم تسلم،یوٴتک اللّٰہ اجرک مرتین، فان تولیت فانما علیکم اثم
القبط،۔۔۔یا اھل الکتٰب تعالواالیٰ کلمة سواء بیننا و بینکم” ان لا نعبد الا اللّٰہ ولا نشرک بہ شیئاً ولا تتخذ بعضنا بعضاً ارباباً من دون اللّٰہ ،فان تولوا فقولوا اشھدوا بانا مسلمون“۔
اللہ کے نام سے جو بخشنے والا بڑا مھربان ھے ۔
از ۔۔۔محمد بن عبد اللہ
بطرف۔۔۔قبطیوں کے مقوقس بزرگ ۔
حق کے پیروکاروں پر سلام هو۔
میں تجھے اسلام کی دعوت دیتا هوں۔ اسلام لے آؤ تاکہ سالم رهو ۔ خدا تجھے دوگنا اجر دے گا ۔ (ایک خود تمھارے ایمان لانے پر اوردوسراان لوگوں کی وجہ سے جو تمھاری پیروی کرکے ایمان لائیں گے ) او راگر تو نے قانون اسلام سے روگردانی کی تو قبطیوں کے گناہ تیرے ذمہ هوں گے ۔۔اے اھل کتاب! ھم تمھیں ایک مشترک بنیادکی طرف دعوت دیتے ھیں او روہ یہ کہ ھم خدائے یگانہ کے سوا کسی کی پرستش نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک قرار نہ دیں حق سے روگردانی نہ کریں تو ان سے کهو کہ گواہ رهو ھم تم مسلمان ھیں“۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سفیر مصر کی طرف روانہ هوا، اسے اطلاع ملی کہ حاکم مصر اسکندریہ میں ھے لہٰذا وہ اس وقت کے ذرائع آمد ورفت کے ذریعے اسکندریہ پہنچا او رمقوقس کے محل میں گیا، حضرت کا خط اسے دیا ، مقوقس نے خط کھول کر پڑھا کچھ دیر تک سوچتا رھا، پھر کہنے لگا:”اگر واقعاً محمدخدا کا بھیجا هوا ھے تو اس کے مخالفین اسے اس کی پیدائش کی جگہ سے باھر نکالنے میں کیوں کامیاب هوئے او روہ مجبور هوا کہ مدینہ میں سکونت اختیار کرے؟ ان پر نفرین او ربد دعا کیوں نھیںکی تاکہ وہ نابود هو جاتے؟“
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قاصد نے جواباً کھا:
”حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے رسول تھے اور آپ بھی ان کی حقانیت کی گواھی دیتے ھیں، بنی اسرائیل نے جب ان کے قتل کی سازش کی توآپ نے ان پر نفرین اور بد دعا کیوں نھیں کی تاکہ خدا انھیں ھلاک کردیتا؟
یہ منطق سن کر مقو قس تحسین کرنے لگا اور کہنے لگا :
”احسنت انت حکیم من عند حکیم “
”آفرین ھے ،تم سمجھ دار هو اور ایک صاحب حکمت کی طرف سے آئے هو “
حاطب نے پھر گفتگو شروع کی اور کھا :
”آپ سے پھلے ایک شخص (یعنی فرعون )اس ملک پر حکومت کرتا تھا ،وہ مدتوں لوگوں میں اپنی خدائی کا سودا بیچتا رھا ،بآلاخر اللہ نے اسے نابود کر دیا تاکہ اس کی زندگی آپ کے لئے باعث عبرت هو لیکن آپ کوشش کریں کہ آپ کی زندگی دوسروں کے لئے نمونہ بن جائے“۔
”پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ھمیں ایک پاکیزہ دین کی طرف دعوت دی ھے ، قریش نے ان سے بہت سخت جنگ کی او ران کے مقابل صف آراء هوئے، یهودی بھی کینہ پروری سے ان کے مقابلے میں آکھڑے هوئے او راسلام سے زیادہ نزدیک عیسائی ھیں ۔ “
مجھے اپنی جان کی قسم جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کی بشارت دی تھی اس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت محمد کے مبشر تھے ، ھم آپ لوگوں نے تو ریت کے ماننے والوں کو انجیل کی دعوت دی تھی ،جوقوم پیغمبرحق کی دعوت کو سنے اسے چاہئے کہ اس کی پیروی کرے ،میں نے محمد کی دعوت آپ کی سرزمین تک پہنچادی ھے، مناسب یھی ھے کہ آپ او رمصری قوم یہ دعوت قبول کر لے“۔
حاطب کچھ عرصہ اسکندریہ ھی میں ٹھھرا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خط کا جواب حاصل کرے ،چند روز گزر گئے، ایک دن مقوقس نے حاطب کو اپنے محل میں بلایا او رخواہش کی کہ اسے اسلام کے بارے میں کچھ مزید بتایا جائے۔
حاطب نے کھا:
”محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ھمیں خدانے یکتا ئی پرستش کی دعوت دیتے ھیں او رحکم دیتے ھیں کہ لوگ روزوشب میں پانچ مرتبہ اپنے پروردگار سے قریبی رابطہ پیدا کریں او رنماز پڑھیں ،پیمان پورے کریں ،خون او رمردار کھانے سے اجتناب کریں“۔
علاوہ ازیں حاطب نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی کی بعض خصوصیات بھی بیان کیں۔
مقوقس کہنے لگا:
”یہ تو بڑی اچھی نشانیاں ھیں۔ میرا خیال تھا کہ خاتم النبیین سرزمین شام سے ظهور کریں گے جو انبیاء علیھم السلام کی سرزمین ھے،اب مجھ پر واضح هوا کہ وہ سر زمین حجاز سے مبعوث هوئے ھیں“۔
اس کے بعد اس نے اپنے کاتب کو حکم دیا کہ وہ عربی زبان میں اس مضمون کا خط تحریر کرے:
بخدمت : محمد بن عبد اللہ ۔
منجانب: قبطیوں کے بزرگ مقوقس ۔
”آپ پر سلام هو،میںنے آپ کاخط پڑھا ،آپ کے مقصد سے باخبر هوااو رآپ کی دعوت کی حقیقت کو سمجھ لیا،میں یہ تو جانتا تھا کہ ایک پیغمبر ظهور کرے گا لیکن میرا خیال تھا کہ وہ خطہٴ شام سے مبعوث هوگا، میں آ پ کے قاصد کا احترام کرتا هوں“۔
پھر خط میں ان ہدیوں اور تحفوں کی طرف اشارہ کیا جواس نے آپ کی خدمت میں بھیجے ،خط اس نے ان الفاظ پر تمام کیا۔
”آپ پر سلام هو“
تاریخ میں ھے کہ مقوقس نے کوئی گیارہ قسم کے ہدیے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے بھیجے ، تاریخ اسلام میں ان کی تفصیلات موجود ھیں،ان میں سے ایک طبیب تھا تاکہ وہ بیما ر هونے والے مسلمانوں کا علاج کرے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیگر ہدیئے قبول فرمایائے لیکن طبیب کو قبول نہ کیا او رفرمایا:”ھم ایسے لوگ ھیں کہ جب تک بھوک نہ لگے کھانا نھیں کھاتے او رسیر هونے سے پھلے کھانے سے ھاتھ روک لیتے ھیں، یھی چیز ھماری صحت و سلامتی کے لئے کافی ھے، شاید صحت کے اس عظیم اصول کے علاوہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس طبیب کی وھاں موجودگی کو درست نہ سمجھتے هوں کیونکہ وہ ایک متعصب عیسائی تھا لہٰذا آپ نھیںچاہتے تھے کہ اپنی او رمسلمانوں کی جان کا معاملہ اس کے سپرد کردیں۔
مقوقس نے جو سفیر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا احترام کیا،آپ کے لئے ہدیے بھیجے او رخط میں نام محمد اپنے نام سے مقدم رکھا یہ سب اس بات کی حکایت کرتے ھیں کہ اس نے آپ کی دعوت کو باطن میں قبول کرلیا تھا یا کم از کم اسلام کی طر ف مائل هوگیا تھا لیکن اس بناء پرکہ اس کی حیثیت او روقعت کو نقصان نہ پہنچے ظاھری طو رپراس نے اسلام کی طرف اپنی رغبت کا اظھار نہ کیا ۔
قیصر روم کے نام خط
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
من: محمد بن عبداللّٰہ
الی: ھرقل عظیم الرّوم
سلام علی من اتبع الھدیٰ
اما بعد:فانی ادعوک بدعایةالاسلام۔
اسلم تسلم،یوٴتک اللّٰہ اجرک مرتین، فان تولیت فانما علیکم اثم القبط،۔۔۔یا اھل الکتٰب تعالواالیٰ کلمة سواء بیننا و بینکم” ان لا نعبد الا اللّٰہ ولا نشرک بہ شیئاً ولا تتخذ بعضنا بعضاً ارباباً من دون اللّٰہ ،فان تولوا فقولوا اشھدوا بانا مسلمون“۔
اللہ کے نام سے جو بخشنے والا بڑا مھربان ھے۔
منجانب: محمدبن عبد اللہ ۔
بطرف: ھرقل بادشاہ روم۔
”اس پر سلام ھے جو ہدایت کی پیروی کرے۔میں تجھے اسلام کی دعوت دیتا هوں۔ اسلام لے آؤ تاکہ سالم رهو ۔ خدا تجھے دوگنا اجر دے گا ۔ (ایک خود تمھارے ایمان لانے پر اوردوسراان لوگوں کی وجہ سے جو تمھاری پیروی کرکے ایمان لائیں گے ) او راگر تو نے قانون اسلام سے روگردانی کی تو اریسوں کا گناہ بھی تیری گردن پر هوگا۔اے اھل کتاب! ھم تمھیں ایک مشترک بنیادکی طرف دعوت دیتے ھیں او روہ یہ کہ ھم خدائے یگانہ کے سوا کسی کی پرستش نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک قرار نہ دیں حق سے روگردانی نہ کریں تو ان سے کهو کہ گواہ رهو ھم تم مسلمان ھیں“۔
قیصر کے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا پیغام پہنچانے کے لئے ”دحیہ کلبی“ مامور هوا سفیرپیغمبر عازم روم هوا۔
قیصرکے دارالحکومت قسطنطنیہ پہنچنے سے پھلے اسے معلوم هوا کہ قیصربیت المقدس کی زیارت کے ارادے سے قسطنطنیہ چھوڑ چکا ھے، لہٰذا اس نے بصریٰ کے گور نر حادث بن ابی شمر سے رابطہ پیداکیا اور اسے اپنامقصد سفر بتایا ظاھراً پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی اجازت دے رکھی تھی کہ دحیہ وہ خط حاکم بصریٰ کو دیدے تاکہ وہ اسے قیصرتک پہنچادے سفیر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گورنر سے رابطہ کیا تو اس نے عدی بن حاتم کو بلایا اور اسے حکم دیا کہ وہ دحیہ کے ساتھ بیت المقدس کی طرف جائے اور خط قیصر تک پہنچا دے مقام حمص میں سفیر کی قیصر سے ملاقات هوئی لیکن ملاقات سے قبل شاھی دربار کے کارکنوں نے کھا:
”تمھیں قیصر کے سامنے سجدہ کرنا پڑے گا ورنہ وہ تمھاری پرواہ نھیں کرے گا “
دحیہ ایک سمجھدار آدمی تھا کہنے لگا :
”میں ان غیر مناسب بدعتوں کوختم کرنے کے لئے اتنا سفر کر کے آیا هوں ۔ میں اس مراسلے کے بھیجنے والے کی طرف سے آیا هوں تا کہ قیصر کو یہ پیغام دوں کہ بشر پرستی کو ختم هونا چاہئے او رخدا ئے واحد کے سواکسی کی عبادت نھیں هونی چاھیے ، اس عقیدے کے باوجود کیسے ممکن ھے کہ میںغیر خدا کے لئے سجدہ کروں“۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قاصد کی قوی منطق سے وہ بہت حیران هوئے ،درباریوں میں سے ایک نے کھا:
”تمھیں چاہئے کہ خط بادشاہ کی مخصوص میز پر رکھ کر چلے جاؤ، اس میز پر رکھے هوئے خط کو قیصر کے علاوہ کوئی نھیں اٹھا سکتا“۔
دحیہ نے اس کا شکریہ اداکیا ،خط میز پر رکھا اورخودواپس چلا گیا،قیصر نے خط کھولا ،خط نے جو”بسم اللہ“ سے شروع هوتا تھا اسے متوجہ کیا اور کہنے لگا۔
”حضرت سلیمان علیہ السلام کے خط کے سوا آج تک میں نے ایسا خط نھیں دیکھا “
اس نے اپنے مترجم کو بلایا تا کہ وہ خط پڑھے او راس کا ترجمہ کرے ،بادشاہ روم کو خیال هوا کہ هو سکتا ھے خط لکھنے والا وھی نبی هو جس کاوعدہ انجیل او رتوریت میں کیا گیا ھے، وہ اس جستجو میں لگ گیا کہ آپ کی زندگی کی خصوصیات معلوم کرے، اس نے حکم دیا کہ شام کے پورے علاقے میں چھان بین کی جائے،شاید محمد کے رشتہ داروںمیں سے کوئی شخص مل جائے جو ان کے حالات سے واقف هو ،اتفاق سے ابوسفیان او رقریش کا ایک گروہ تجارت کے لئے شام آیا هوا تھا، شام اس وقت سلطنت روم کامشرقی حصہ تھا، قیصر کے آدمیوں نے ان سے رابطہ قائم کیا او رانھیں بیت المقدس لے گئے،قیصر نے ان سے سوال کیا :
کیا تم میں سے کوئی محمد کا نزدیکی رشتہ دار ھے ؟
ابو سفیان نے کھا :
میںاور محمد ایک ھی خاندان سے ھیں او رھم چوتھی پشت میں ایک درسرے سے مل جاتے ھیں۔
پھرقیصر نے اس سے کچھ سوالات کئے۔ دونوں میں یوں گفتگو هوئی“
قیصر: اس کے بزرگوں میںسے کوئی حکمران هوا ھے؟
ابوسفیان: نھیں ۔
قیصر: کیا نبوت کے دعویٰ سے پھلے وہ جھوٹ بولنے سے اجتناب کرتا تھا؟
ابوسفیان: ھاں محمد راست گو او رسچا انسان ھے۔
قیصر: کونسا طبقہ اس کا مخالف ھے اور کونسا موافق؟
ابوسفیان: اشراف اس کے مخالف ھیں، عام او رمتوسط درجے کے لوگ اسے چاہتے ھیں۔
قیصر: اس کے پیروکاروں میں سے کوئی اس کے دین سے پھرا بھی ھے؟
ابوسفیان: نھیں۔
قیصر: کیا اس کے پیروکار روز بروز بڑھ رھے ھیں ؟
ابوسفیان:ھاں ۔
اس کے بعد قیصر نے ابوسفیان او راس کے ساتھیوں سے کھا:
”اگر یہ باتیں سچی ھیں تو پھر یقینا وہ پیغمبر موعود ھیں، مجھے معلوم تھا کہ ایسے پیغمبر کا ظهور هوگا لیکن مجھے یہ پتہ نہ تھا کہ وہ قریش میں سے هوگا، میں تیار هوں کہ اس کے لئے خضوع کروں او راحترام کے طور پر اس کے پاؤں دھووٴں ،میں پیش گوئی کرتا هوں کہ اس کا دین او رحکومت سرزمین روم پر غالب آئے گی“۔
پھر قیصر نے دحیہ کو بلایا او راس سے احترام سے پیش آیا، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خط کا جواب لکھا او رآپ کے لئے دحیہ کے ذریعے ہدیہ بھیجااورآپ کے نام اپنے خط میں آپ سے اپنی عقیدت او رتعلق کا اظھار کیا۔
یہ بات جاذب نظر ھے کہ جس وقت پیغمبرا کرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قاصد آنحضرت کا خط لے کر قیصر روم کے پاس پهونچا تو اس نے خصوصیت کے ساتھ آپ کے قاصد کے سامنے اظھار ایمان کیا یھاں تک کہ وہ رومیوں کو اس دین توحید و اسلام کی دعوت دینا چاہتا تھا، اس نے سوچا کہ پھلے ان کی آزمائش کی جائے، جب اس کی فوج نے محسوس کیا کہ وہ عیسائیت کو ترک کردینا چاہتا ھے تو اس نے اس کے قصر کا محاصرہ کرلیا، قیصر نے ان سے فوراً کھا کہ میں تو تمھیں آزمانا چاہتا تھا اپنی جگہ واپس چلے جاؤ۔
جنگ ذات السلاسل
ہجرت کے آٹھویں سال پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خبر ملی کہ بارہ ہزار سوار سرزمین ”یابس“میں جمع ھیں، اور انهوں نے ایک دوسرے کے ساتھ یہ عہد کیا ھے کہ جب تک پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم او رعلی علیہ السلام کو قتل نہ کرلیں او رمسلمانوں کی جماعت کو منتشر نہ کردیں آرام سے نھیں بیٹھیں گے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے اصحاب کی ایک بہت بڑی جماعت کو بعض صحابہ کی سرکردگی میں ان کی جانب روانہ کیا لیکن وہ کافی گفتگو کے بعد بغیر کسی نتیجہ کے واپس آئے۔
آخر کار پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علی علیہ السلام کو مھاجرین وانصار کے ایک گروہ کثیر کے ساتھ ان سے جنگ کرنے کے لئے بھیجا، وہ بڑی تیزی کے ساتھ دشمن کے علاقہ کی طرف روانہ هوئے او ررات بھر میں سارا سفر طے کر کے صبح دم دشمن کو اپنے محاصرہ میںلے لیا، پھلے تو ان کے سامنے اسلام کو پیش کیا، جب انهوں نے قبول نہ کیا تو ابھی فضا تاریک ھی تھی کہ ان پر حملہ کردیا اور انھیں درھم برھم کر کے رکھ دیا،ان میں سے کچھ لوگوں کو قتل کیا ، ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیر کرلیا او ربکثرت مال غنیمت کے طور پر حاصل کیا۔
سورہٴ ”والعادیات“نازل هوئی حالانکہ ابھی سربازان اسلام مدینہ کی طرف لو ٹ کر نھیں آئے تھے ،پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس دن نماز صبح کے لئے آئے تو اس سورہٴ کی نماز میں تلاوت کی،نمازکے بعد صحابہ نے عرض کیا، یہ تو ایسا سورہٴ ھے جسے ھم نے آج تک سنا نھیں ھے۔ آپ نے فرمایا: ھاں! علی علیہ السلام دشمنوں پر فتح یاب هوئے ھیں اور جبرئیل نے گزشتہ رات یہ سورہ لاکر مجھے بشارت دی ھے۔ کچھ دن کے بعد علی علیہ السلام غنائم او رقیدیوں کے ساتھ مدینہ میں وارد هوئے۔[95]
جنگ حنین [96]
اس جنگ کی ابتداء یوں هوئی کہ جب ”هوازن“ جو بہت بڑا قبیلہ تھا اسے فتح مکہ کی خبر هوئی تو اس کے سردار مالک بن عوف نے افراد قبیلہ کو جمع کیا او ران سے کھا کہ ممکن ھے فتح مکہ کے بعد محمد ان سے جنگ کے لئے اٹھ کھڑے هو، کہنے لگے کہ مصلحت اس میں ھے کہ اس سے قبل کہ وہ ھم سے جنگ کرے ھمیں قدم آگے بڑھا نا چاہئے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ اطلاع پهونچی تو آپ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ سر زمین هوازن کی طرف چلنے کو تیار هو جائیں ۔
۱ ہجری رمضان المبارک کے آخری دن تھے یا شوال کا مھینہ تھا کہ قبیلہ هوازن کے افراد سردار ”مالک بن عوف “کے پاس جمع هوئے اور اپنا مال ، اولاد او رعورتیں بھی اپنے ساتھ لے آئے تاکہ مسلمانوں سے جنگ کرتے دقت کسی کے دماغ میں بھاگنے کا خیال نہ آئے،اسی طرح سے وہ سرزمین ”اوطاس“ میں وارد هوئے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لشکر کا بڑا علم باندھ کر علی علیہ السلام کے ھاتھ میں دیا او روہ تمام افراد جو فتح مکہ کے موقع پر اسلامی فوج کے کسی دستے کے کمانڈر تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حکم سے اسی پرچم کے نیچے حنین کے میدان کی طرف روانہ هوئے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اطلاع ملی کہ ”صفوان بن امیہ“ کے پاس ایک بڑی مقدار میں زرھیں ھیں آپ نے کسی کو اس کے پاس بھیجا اور اس سے سو زرھیں عاریتاً طلب کی، صفوان نے پوچھا واقعاً عاریتاً یا غصب کے طور پر ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: عاریتاً ھیں اور ھم ان کے ضامن ھیں کہ صحیح و سالم واپس کریں گے ۔
صفوان نے زرھیں عاریتاً پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کودےدیں اورخود بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ چلا ۔
فوج میں کچھ ایسے افراد تھے جنهوں نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا تھا، ان کے علاوہ دس ہزار وہ مجاہدینِ اسلام تھے جو پیغمبر اکرم کے ساتھ فتح مکہ کے لئے آئے تھے ، یہ تعداد مجموعاً بارہ ہزار بنتی ھے، یہ سب میدان جنگ کی طرف چل پڑے ۔
دشمن کے لشکر کا مورچہ
”مالک بن عوف“ ایک مرد جری او رھمت و حوصلے والا انسان تھا، اس نے اپنے قبیلے کو حکم دیا کہ اپنی تلواروں کے نیام توڑ ڈالیں او رپھاڑ کی غاروں میں ، دروں کے اطراف میں او ردرختوں کے درمیان لشکر اسلام کے راستے میں کمین گاھیں بنائیں اور جب اول صبح کی تاریکی میں مسلمان وھاں پہنچیں تو اچانک اور ایک ھی بار ان پر حملہ کردیں اور اسے فنا کردیں ۔
اس نے مزید کھا :محمد کا ابھی تک جنگجو لوگوں سے سامنا نھیں هوا کہ وہ شکست کا مزہ چکھتا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے اصحاب کے ھمراہ نماز صبح پڑھ چکے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا کہ سر زمین حنین کی طرف چل پڑیں ،اس موقع پر اچانک لشکر” هوازن“ نے ھر طرف سے مسلمانوں پرتیروں کی بوچھار کر دی، وہ دستہ جو مقدمہٴ لشکر میں تھا (اور جس میں مکہ کے نئے نئے مسلمان بھی تھے ) بھاگ کھڑا هوا، اس کے سبب باقی ماندہ لشکر بھی پریشان هوکر بھاگ کھڑا هوا ۔
خداوندمتعال نے اس موقع پر دشمن کے ساتھ انھیں ان کی حالت پر چھوڑ دیا او روقتی طور پر ان کی نصرت سے ھاتھ اٹھالیا کیونکہ مسلمان اپنی کثرت تعداد پر مغرور تھے، لہٰذا ان میں شکست کے آثار آشکار هوئے، لیکن حضرت علی علیہ السلام جو لشکر اسلام کے علمبردار تھے وہ مٹھی بھر افراد سمیت دشمن کے مقابلے میں ڈٹے رھے او راسی طرح جنگ جاری رکھے رھے ۔
اس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قلب لشکر میں تھے، رسول اللہ کے چچا عباسۻ بنی ھاشم کے چند افراد کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گرد حلقہ باندھے هوئے تھے، یہ کل افراد نو سے زیادہ نہ تھے دسویں ام ایمن کے فرزند ایمن تھے، مقدمہ لشکر کے سپاھی فرار کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس سے گزرے تو آنحضرت نے عباسۻ کو جن کی آواز بلند او رزور دار تھی کو حکم دیا کہ اس ٹیلے پر جو قریب ھے چڑھ جائیں او رمسلمانوں کو پکاریں :
”یا معشر المھاجرین والانصار ! یا اصحاب سورةالبقرة !یا اھل بیعت الشجرة! الٰی این تفرون ھٰذا رسول اللہ ۔ “
اے مھاجرین وانصار ! اے سورہٴ بقرہ کے ساتھیو!
اے درخت کے نیچے بیعت کرنے والو! کھاں بھاگے جارھے هو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تو یھاں ھیں ۔ مسلمانوں نے جب عباسۻ کی آواز سنی تو پلٹ آئے اور کہنے لگے:لبیک لبیک !
خصوصاً لوٹ آنے والوںمیں انصار نے پیش قدمی کی او رفوج دشمن پر ھر طرف سے سخت حملہ کیا اور نصرتِ الٰھی سے پیش قدمی جاری رکھی یھاں تک کہ قبیلہ هوازن وحشت زدہ هوکر ھر طرف بکھر گیا، مسلمان ان کا تعاقب کررھے تھے، لشکر دشمن میں سے تقریباً ایک سو افراد مارے گئے ،ان کے اموال غنیمت کے طور پر مسلمانوںکے ھاتھ لگے او رکچھ ان میں سے قیدی بنا لئے گئے ۔
لکھا ھے کہ اس تاریخی واقعہ کے آخر میں قبیلہ هوازن کے نمائندے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر هوئے او راسلام قبول کرلیا،پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے بہت محبت و الفت فرمائی، یھاںتک کہ ان کے سر براہ مالک بن عوف نے بھی اسلام قبو کر لیا، آپ نے اس کا مال او رقیدی اسے واپس کردئیے او راس کے قبیلہ کے مسلمانوں کی سرداری بھی اس کے سپرد کردی ۔
درحققت ابتداء میں مسلمانوں کی شکست کا اھم عامل غرور و تکبر جو کثرت فوج کی وجہ سے ان میں پیدا هوگیا تھا، اسکے علاوہ دو ہزا رنئے مسلمانوں کا وجود تھا جن میں سے بعض فطری طور پر منافق تھے ، کچھ ان میں مال غنیمت کے حصول کے لئے شامل هوگئے تھے او ربعض بغیر کسی مقصد کے ان میں شامل هوگئے تھے۔
نھائی کامیابی کا سبب حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ، حضرت علی علیہ السلام اور بعض اصحاب کا قیام تھا، اور پھلے والوںکا عہد و پیمان اور خدا پر ایمان اور اس کی مدد پر خاص توجہ باعث بنی کہ مسلمانوں کو اس جنگ میں کامیابی ملی۔
بھاگنے والے کون تھے ؟
اس بات پر تقریباً اتفاق ھے کہ میدان حنین میں سے اکثریت ابتداء میں بھاگ گئی تھی، جو باقی رہ گئے تھے ان کی تعداد ایک روایت کے مطابق دس تھی او ربعض نے تو ان کی تعداد چار بیان کی ھے بعض نے زیادہ سے زیادہ سو افراد لکھے ھیں ۔
بعض مشهور روایات کے مطابق چونکہ پھلے خلفاء بھی بھاگ جانے والوں میں سے تھے لہٰذا بعض اھلِ سنت مفسرین نے کوشش کی ھے کہ اس فرار کو ایک فطری چیز کے طور پر پیش کیا جائے ۔ المنار کے موٴلف لکھتے ھیں : ”جب دشمن کی طرف سے مسلمانوں پر تیروں کی سخت بوچھارهوئی توجو لوگ مکہ سے مسلمانوں کے ساتھ مل گئے تھے، اورجن میں منافقین اورضعیف الایمان بھی تھے اور جو مال غنیمت کے لئے آگئے تھے وہ بھاگ کھڑے هوئے اور انهوں نے میدان میں پشت دکھائی تو باقی لشکر بھی فطری طور پر مضطرب او رپریشان هوگیا وہ بھی معمول کے مطابق نہ کہ خوف و ھراس سے ،بھاگ کھڑے هوئے اوریہ ایک فطری بات ھے کہ اگر ایک گروہ فرار هو جائے تو باقی بھی بے سوچے سمجھے متزلزل هو جاتے ھیں، لہٰذا ان کا فرار هونا پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مدد ترک کرنے او رانھیں دشمن کے ھاتھ میں چھوڑ جانے کے طور پر نھیں تھا کہ وہ خداکے غضب کے مستحق هوں، ھم اس بات کی تشریح نھیں کرتے او راس کا فیصلہ پڑھنے والوں پر چھوڑتے ھیں “۔
-------------------------------------------------
[76] سورہ فتح آیت۲۷۔
[77] سورہ فتح آیت۲۷۔
[78] سورہ فتح آیت ۴۔
[79] سورہ فتح آیت ۱۱۔
[80] سورہ فتح آیت ۱۱۔
[81] سورہ فتح آیت ۱۱۔
[82] سورہ فتح آیت ۱۱۔
[83] سورہ فتح آیت ۱۱ ۔
[84] سورہ فتح آیت ۱۱۔
[85] سورہ فتح آیت ۲۲۔
[86] سورہ فتح آیت ۲۲۔
[87] سورہ فتح آیت ۲۴۔
[88] سورہ فتح آیت ۱۵۔
[89] سورہ فتح آیت ۱۵۔
[90] سورہ فتح آیت ۱۵۔
[91] سورہ فتح آیت ۔
[92] سورہ یوسف آیت ۔۹۲۔
[93] سورہٴ ممتنحہ آیت ۱۲ ۔
[94] ”مقوقس“(بہ ضم میم وبہ فتحہ ھردو ”قاف“)”ھرقل “بادشاہ روم کی طرف سے مصر کا والی تھا۔
[95] بعض کا نظریہ یہ ھے کہ یہ واقعہ اس سورہ کے واضح مصادیق میں سے ایک ھے،یہ اس کا شان نزول نھیں ھے۔
[96] ذیل آیات ۲۵ تا ۲۷ سورہ ٴ توبہ ۔
|