رسول اکرم (ص) کی سوانح حیات
ہجرت پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم [36]
مختلف قبائل قریش اور اشراف مکہ کا ایک گروہ جمع هوا تاکہ وہ” دار الند وہ“ میں میٹنگ کریں اور انھیں رسول اللہ کی طرف سے درپیش خطرے پر غور وفکر کریں
(کہتے ھیں) اثنائے راہ میں انھیں ایک خوش ظاھر بوڑھا شخص ملا جو در اصل شیطان تھا (یا کوئی انسان جو شیطانی روح وفکر کا حامل تھا)۔
انهوں نے اس سے پوچھا : تم کون هو؟
کہنے لگا : اھل نجد کا ایک بڑا بوڑھا هوں، مجھے تمھارے اراداے کی اطلاع ملی تو میں نے چاھا کہ تمھاری میٹنگ میں شرکت کروں اور اپنا نظریہ اور خیر خواھی کی رائے پیش کرنے میں دریغ نہ کروں ۔
کہنے لگے : بہت اچھا اندر آجایئے ۔
اس طرح وہ بھی” دارالندوة“میں داخل هوگیا ۔
حاضرین میں سے ایک نے ان کی طرف رخ کیا اور ( پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف اشارہ کرتے هوئے ) کھا : اس شخص کے بارے میں کوئی سوچ بچار کرو ، کیونکہ بخدا ڈر ھے کہ وہ تم پر کامیاب هوجائے ( اور تمھارے دین اور تمھاری عظمت کو خاک میں ملادے گا )
ایک نے تجویز پیش کی : اسے قید کردو یھاں تک کے زندان ھی میں مرجائے۔
بوڑھے نجدی نے اس تجویز پراعتراض کیا اور کھا : اس میں خطرہ یہ ھے کہ اس کے طرف دار ٹوٹ پڑیں اور کسی مناسب وقت اسے قید خانے سے چھڑا کر اس سرزمین سے باھر لے جائیں لہٰذا کوئی اور بنیادی بات کرو ۔
ایک اورشخص نے کھا: اسے اپنے شھرسے نکال دو تاکہ تمھیں اس سے چھٹکارامل جائے کیونکہ جب وہ تمھارے درمیان سے چلا جائے گا تو پھر جو کچھ بھی کرتا پھرے تمھیںکوئی نقصان نھیں پہنچا سکتا اور پھر وہ دوسروں ھی سے سروکار رکھے گا ۔
اس بوڑھے نجدی نے کھا : واللہ یہ نظریہ بھی صحیح نھیں ھے ، کھا تم اس کی شیریں بیانی ،قدرت زبان اور لوگوں کے دلوں میں اس کے نفوذ نھیں دیکھتے؟ اگر ایسا کروگے تو وہ تمام دنیائے عرب کے پاس جائے گا اور وہ اس کے گرد جمع هوجائیں گے اور پھر وہ ایک انبوہ کثیر کے ساتھ تمھاری طرف پلٹے گا اور تمھیں تمھارے شھروں سے نکال باھر کرے گا اور بڑوں کو قتل کردےگا ۔
مجمع نے کھا بخدا یہ سچ کہہ رھاھے کوئی اور تجویزسو چو۔

ابوجھل کی رائے
ابوجھل ابھی تک خاموش بیٹھا تھا ، اس نے گفتگو شروع کی اور کھا : میرا ایک نظریہ ھے اور اس کے علاوہ میں کسی رائے کو صحیح نھیں سمجھتا ۔
حاضرین کہنے لگے :وہ کیا ھے ؟
کہنے لگا : ھم ھر قبیلے سے ایک بھادر شمشیر زن کا انتخاب کریں اور ان میں سے ھر ایک ھاتھ میں ایک تیز تلوار دے دیدیں اور پھر وہ سب مل کر موقع پاتے ھی اس پر حملہ کریں جب وہ اس صورت میں قتل هوگا تو اس کا خون تمام قبائل میں بٹ جائے گا اور میں نھیں سمجھتا کہ بنی ھاشم تمام قبائل قریش سے لڑسکیں گے لہٰذا مجبورا اس صورت میں خون بھا پر راضی هوجائیں گے اور یوں ھم بھی اس کے آزار سے نجات پالیں گے۔
بوڑھے نجدی نے (خوش هوکر ) کھا: بخدا : صحیح رائے یھی ھے جو اس جواں مرد نے پیش کی ھے میرا بھی اس کے علاوہ کوئی نظریہ نھیں ۔
اس طرح یہ تجویز اتفاق رائے سے پاس هوگئی اور وہ یھی مصمم ارادہ لے کروھاںسے اٹھے ۔

حضرت علی علیہ السلام نے اپنی جان کو بیچ ڈالی
جبرئیل نازل هوئے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حکم ملا کہ وہ رات کو اپنے بستر پر نہ سوئیں ،پیغمبر اکرم رات کو غار ثور کی طرف روانہ هوگئے اور حکم دے گئے کہ علی آپ کے بستر پر سوجائیں (تاکہ جو لوگ دروازے کی درازسے بستر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نظر رکھے هوئے ھیں انھیں بستر پر سویا هوا سمجھیں اور آپ کو خطرے کے علاقہ سے دور نکل جانے کی مھلت مل جائے )۔
اھل سنت کے مشهور مفسر ثعلبی کہتے ھیں کہ جب پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہجرت کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا تو اپنے قرضوں کی ادائیگی اور موجود امانتوں کی واپسی کے لئے حضرت علی علیہ السلام کو اپنی جگہ مقرر کیا اور جس رات آپ غار ثور کی طرف جانا چاہتے تھے اس رات مشرکین آپ پر حملہ کرنے کے لئے آپ کے گھر کا چاروں طرف سے محاصرہ کئے هوے تھے، آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ آپ کے بستر پر لیٹ جائیں ، اپنی مخصوص سبز رنگ کی چادر انھیں اوڑھنے کو دی ، اس وقت خدا وند عالم نے جبرائیل اور میکائیل پر وحی کی کہ میں نے تم دونوں کے درمیان بھائی چارہ اور اخوت قائم کی ھے اور تم میں سے ایک کی عمر کو زیادہ مقرر کیا ھے تم میں سے کون ھے جو ایثار کرتے هوئے دوسرے کی زندگی کو اپنی حیات پر ترجیح دے ان میں سے کوئی بھی اس کے لئے تیار نہ هوا تو ان پروحی هوئی کہ اس وقت علی میرے پیغمبر کے بستر پر سویا هوا ھے اور وہ تیار ھے کہ اپنی جان ان پر قربان کردے، زمین پرجاؤ اور اس کے محافظ ونگھبان بن جاؤ ،جب جبرئیل ،حضرت علی علیہ السلام کے سرھانے آئے اور میکائیل پاؤں کی طرف بیٹھے تو جبرئیل کہہ رھے تھے: سبحان اللہ، صدآفرین آپ پر اے علی علیہ السلام کہ خدا آپ کے ذریعے فرشتوں پر فخر ومباھات کررھاھے ،اس موقع پر آیت نازل هوئی ”کچھ لوگ اپنی جان خدا کی خوشنودی کے بدلے بیچ دیتے ھیں اور خدا اپنے بندوں پر مھربان ھے“ اور اسی بناء پروہ تاریخی رات ” لیلة المبیت“(شب ہجرت) کے نام سے مشهور هوگئی ۔
ابن عباسۻ کہتے ھیں :جب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مشرکین سے چھپ کر ابوبکر کے ساتھ غار کی طرف جارھے تھے یہ آیت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل هوئی جو اس وقت بستر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر سوئے هوئے تھے ۔
ابوجعفر اسکافی کہتے ھیں :جیسے ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ، جلد ۳ ص ۲۷۰ پر لکھا ھے :
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بستر پر حضرت علی علیہ السلام کے سونے کا واقعہ تو اتر سے ثابت ھے اور اس کا انکار غیر مسلموں اور کم ذہن لوگوں کے علاوہ کوئی نھیں کرتا [37]
جب صبح هوئی تومشرکین گھر میں گھس آئے ۔ انهوں نے جستجو کی تو حضرت علی علیہ السلام کو پیغمبر کی جگہ پر دیکھا ۔ اس طرح سے خدا نے ان کی سازش کو نقش برآب کردیا ۔
وہ پکارے: محمد کھاں ھے ؟
آپ نے جواب دیا : میں نھیں جانتا ۔
وہ آپ کے پاؤں کے نشانوں پر چل پڑے یھاں تک کہ غار کے پاس پہنچ گئے لیکن (انهوں نے تعجب سے دیکھا کہ مکڑی نے غار کے سامنے جالاتن رکھاھے ایک نے دوسرے سے کھا کہ اگر وہ اس غار میں هوتے تو غارکے دھانے پر مکڑی کا جالا نہ هوتا ، اس طرح وہ واپس چلے گئے )
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تین دن تک غار کے اندر رھے ( اور جب دشمن مکہ کے تمام بیابانوں میں آپ کو تلاش کرچکے اور تھک ھار کرمایوس پلٹ گئے تو آپ مدینہ کی طرف چل پڑے )۔

قبلہ کی تبدیلی
بعثت کے بعد تیرہ سال تک مکہ میں اور چند ماہ تک مدینہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حکم خدا سے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رھے لیکن اس کے بعد قبلہ بدل گیا اور مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ مکہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھیں۔
مدینہ میں کتنے ماہ بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی جاتی رھی؟ اس سلسلے میں مفسرین میں اختلاف ھے، یہ مدت سات ماہ سے لے کر سترہ ماہ تک بیان کی گئی ھے لیکن یہ جتنا عرصہ بھی تھا اس دوران یهودی مسلمانوں کو طعنہ زنی کرتے رھے کیونکہ بیت المقدس دراصل یهودیوں کا قبلہ تھا وہ مسلمانوں سے کہتے تھے کہ ان کا اپنا کوئی قبلہ نھیں بلکہ ھمارے قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے ھیں اور یہ اس امر کی دلیل ھے کہ ھم حق پر ھیں ۔
یہ باتیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مسلمانوں کے لئے ناگوار تھیں ایک طرف وہ فرمان الٰھی کے مطیع تھے اور دوسری طرف یهودیوں کے طعنے ختم نہ هوتے تھے، اسی لئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آسمان کی طرف دیکھتے تھے گویا وحی الٰھی کے منتظر تھے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا خانہٴ کعبہ سے خاص لگاؤ
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خصوصیت سے چاہتے تھے کہ قبلہ، کعبہ کی طرف تبدیل هوجائے اور آپ انتظار میں رہتے تھے کہ خدا کی طرف سے اس سلسلہ میں کوئی حکم نازل هو، اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حضرت ابراھیم علیہ السلام اور ان کے آثار سے عشق تھا، علاوہ از ایں کعبہ توحید کا قدیم ترین مرکز تھا، آپ جانتے تھے کہ بیت المقدس تو وقتی قبلہ ھے لیکن آپ کی خواہش تھی کہ حقیقی و آخری قبلہ جلد معین هوجائے۔
آپ چونکہ حکم خدا کے سامنے سر تسلیم خم تھے،پس آپ یہ تقاضا زبان تک نہ لاتے صرف منتظر نگاھیں آسمان کی طرف لگائے هوئے تھے، جس سے ظاھر هوتا ھے کہ آپ کو کعبہ سے کس قدر عشق اور لگاؤ تھا۔
اس انتظار میں ایک عرصہ گذرگیا یھاں تک کہ قبلہ کی تبدیلی کا حکم صادر هوا ایک روز مسجد ”بنی سالم“ میں پیغمبر نماز ظھر پڑھارھے تھے دورکعتیں پڑھ چکے تھے کہ جبرئیل کو حکم هوا کہ پیغمبر کا بازو تھام کر ان کارخ انور کعبہ کی طرف پھیردیں۔
مسلمانوں نے بھی فوراً اپنی صفوں کا رخ بدل لیا،یھاں تک کہ ایک روایت میں منقول ھے کہ عورتوں نے اپنی جگہ مردوں کو دی اور مردوں نے اپنے جگہ عورتوں کو دیدی ،(توجہ رھے کہ بیت المقدس شمالی سمت میں تھا ،اور خانہٴ کعبہ جنوبی سمت میں تھا۔)
اس واقعے سے یهودی بہت پریشان هوئے اور اپنے پرانے طریقہ کے مطابق، ڈھٹائی، بھانہ سازی اور طعنہ بازی کا مظاھرہ کرنے لگے پھلے تو کہتے تھے کہ ھم مسلمانوں سے بہتر ھیں کیونکہ ان کا کوئی اپنا قبلہ نھیں، یہ ھمارے پیروکار ھیں لیکن جب خدا کی طرف سے قبلہ کی تبدیلی کا حکم نازل هوا تو انهوں نے پھر زبان اعتراض درازکی چنانچہ قرآن کہتا ھے۔
”بہت جلد کم عقل لوک کھیں گے ان (مسلمانوں) کو کس چیز نے اس قبلہ سے پھیردیا جس پر وہ پھلے تھے“۔[38]
مسلمانوںنے اس سے کیوں اعراض کیا ھے جو گذشتہ زمانہ میںانبیائے ماسلف کا قبلہ رھا ھے، اگر پھلا قبلہ صحیح تھا تو اس تبدیلی کا کیا مقصد،اور اگر دوسرا صحیح ھے تو پھرتیر ہ سال اور پندرہ ماہ بیت المقدس کی طرف رخ کرکے کیوں نماز پڑھتے رھے ھیں۔؟!
چنانچہ خدا وند عالم نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا:
”ان سے کہہ دو عالم کے مشرق ومغرب اللہ کے لئے ھیں وہ جسے چاہتا ھے سیدھے راستے کی ہدایت کرتا ھے“۔ [39]

تبدیلی ٴقبلہ کا راز
بیت المقدس سے خانہ کعبہ کی طرف قبلہ کی تبدیلی ان سب کے لئے اعتراض کا موجب بنی جن کا گمان تھا کہ ھر حکم کو مستقل رہنا چاہئے تھااگر ھمارے لئے ضروری تھا کہ کعبہ کی طرف نماز پڑھیں تو پھلے دن یہ حکم کیوں نہ دیا گیا اور اگر بیت المقدس مقدم ھے جو گذشتہ انبیاء کا بھی قبلہ شمار هوتا ھے توپھراسے کیوں بدلاگیا۔؟
دشمنوں کے ھاتھ بھی طعنہ زنی کا موقع آگیا، شاید وہ کہتے تھے کہ پھلے تو انبیاء ماسبق کے قبلہ کی طرف نماز پڑھتا تھا لیکن کامیابیوں کے بعد اس پر قبیلہ پرستی نے غلبہ کرلیا ھے لہٰذا اپنی قوم اور قبیلے کے قبلہ کی طرف پلٹ گیا ھے یاکہتے تھے کہ اس نے دھوکا دینے اور یهودو نصاریٰ کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنے کے لئے پھلے بیت المقدس کو قبول کرلیا اور جب یہ بات کار گرنہ هوسکی تو اب کعبہ کی طرف رخ کرلیا ھے ۔
واضح ھے کہ ایسے وسوسے اور وہ بھی ایسے معاشرے میں جھاں ابھی نور علم نہ پھیلا هو اور جھاں شرک وبت پرستی کی رسمیں موجود هوں کیسا تذبذب واضطراب پیدا کردیتے ھیں اسی لئے قرآن صراحت سے کہتا ھے کہ” یہ مومنین اورمشرکین میں امتیاز پیدا کرنے والی ایک عظیم آزمائش تھی“۔[40]
ممکن ھے کہ قبلہ کی تبدیلی کے اھم اسباب میں سے درج ذیل مسئلہ بھی هو! خانہ کعبہ اس وقت مشرکین کے بتوں کامرکز بنا هوا تھا لہٰذا حکم دیا گیا کہ مسلمان وقتی طور پر بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نمازپڑھ لیا کریں تاکہ اس طرح مشرکین سے اپنی صفیں الگ کرسکیں۔
لیکن جب مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد اسلامی حکومت وملت کی تشکیل هوگئی اور مسلمانوں کی صفیں دوسروں سے مکمل طور پر ممتاز هوگئیں تو اب یہ کیفیت برقرار رکھنا ضروری نہ رھا ،لہٰذا اس وقت کعبہ کی طرف رخ کرلیا گیا جو قدیم ترین مرکز توحید اور انبیاء کا بہت پرانا مرکز تھا ۔
ایسے میں ظاھر ھے کہ جو کعبہ کو اپنا خاندانی معنوی اور روحانی سرمایہ سمجھتے تھے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنا ان کے لئے مشکل تھا اور اسی طرح بیت المقدس کے بعد کعبہ کی طرف پلٹنا، لہٰذا اس میں مسلمانوں کی سخت آزمائش تھی تاکہ شرک کے جتنے آثار ان میں باقی رہ گئے تھے اس کٹھالی میں پڑکر جل جائیں اور ان کے گذشتہ شرک آلود رشتے ناتے ٹوٹ جائیں۔
جیسا کہ ھم پھلے کہہ چکے ھیں اصولی طور پر تو خدا کے لئے مکان نھیں ھے قبلہ تو صرف وحدت اور صفوں میں اتحاد کا ایک رمزھے اور اس کی تبدیلی کسی چیز کود گرگوں نھیں کرسکتی ، اھم ترین امر تو خدا کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ھے اور تعصب اورہٹ دھرمی کے بتوں کو توڑناھے ۔

جنگ بدر[41]
جنگ بدرکی ابتداء یھاں سے هوئی کہ مکہ والوں کا ایک اھم تجارتی قافلہ شام سے مکہ کی طرف واپس جارھا تھا اس قافلے کو مدینہ کی طرف سے گزرنا تھا اھل مکہ کا سردار ابوسفیان قافلہ کا سالار تھا اس کے پاس ہزار دینار کا مال تجارت تھا پیغمبر اسلام نے اپنے اصحاب کو اس عظیم قافلے کی طرف تیزی سے کوچ کا حکم دیا کہ جس کے پاس دشمن کا ایک بڑا سرمایہ تھا تاکہ اس سرمائے کو ضبط کرکے دشمن کی اقتصادی قوت کو سخت ضرب لگائی جائے تاکہ اس کا نقصان دشمن کی فوج کو پہنچے ۔[42]
بھرحال ایک طرف ابوسفیان کو مدینہ میں اس کے ذریعے اس امر کی اطلاع مل گئی اور دوسری طرف اس نے اھل مکہ کو صورت حال کی اطلاع کے لئے ایک تیز رفتار قاصد روانہ کردیا کیونکہ شام کی طرف جاتے هوئے بھی اسے اس تجارتی قافلہ کی راہ میں رکاوٹ کا اندیشہ تھا ۔
قاصد ،ابوسفیان کی نصیحت کے مطابق اس حالت میں مکہ میں داخل هوا کہ اس نے اپنے اونٹ کی ناک کوچیر دیا تھا اس کے کان کاٹ دیئے تھے ، خون ھیجان انگیز طریقہ سے اونٹ سے بہہ رھا تھا ،قاصد نے اپنی قمیض کو دونوں طرف سے پھاڑدیا تھا اونٹ کی پشت کی طرف منہ کرکے بیٹھا هوا تھا تاکہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرسکے ، مکہ میں داخل هوتے ھی اس نے چیخنا چلانا شروع کردیا :
اے کا میاب وکامران لوگو! اپنے قافلے کی خبر لو، اپنے کارواں کی مدد کرو ۔ لیکن مجھے امید نھیں کہ تم وقت پر پہنچ سکو ، محمد اور تمھارے دین سے نکل جانے والے افراد قافلے پر حملے کے لئے نکل چکے ھیں ۔
اس موقع پر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پھوپھی عاتکہ بنت عبدالمطلب کا ایک عجیب وغریب خواب تھا مکہ میں زبان زد خاص وعام تھا اور لوگوں کے ھیجان میںاضافہ کرھا تھا ۔ خواب کا ماجرایہ تھا کہ عاتکہ نے تین روزقبل خواب میں دیکھاکہ :
ایک شخص پکاررھا ھے کہ لوگو! اپنی قتل گاہ کی طرف جلدی چلو، اس کے بعد وہ منادی کوہ ابوقیس کی چوٹی پر چڑھ گیا اس نے پتھر کی ایک بڑی چٹان کو حرکت دی تو وہ چٹان ریزہ ریزہ هوگئی اور اس کا ایک ایک ٹکڑا قریش کے ایک ایک گھرمیں جاپڑا اور مکہ کے درے سے خون کا سیلاب جاری هوگیا ۔
عاتکہ وحشت زدہ هوکر خواب سے بیدار هوئی اور اپنے بھائی عباس کو سنایا ۔ اس طرح خواب لوگوں تک پہنچاتو وہ وحشت وپریشانی میں ڈوب گئے ۔ ابوجھل نے خواب سنا تو بولا : یہ عورت دوسرا پیغمبر ھے جو اولادعبدالمطلب میں ظاھر هوا ھے لات وعزیٰ کی قسم ھم تین دن کی مھلت دیتے ھیں اگر اتنے عرصے میں اس خواب کی تعبیر ظاھر نہ هوئی تو ھم آپس میں ایک تحریر لکھ کر اس پر دستخط کریں گے کہ بنی ھاشم قبائل عرب میں سے سب سے زیادہ جھوٹے ھیں تیسرا دن هوا تو ابوسفیان کا قاصد آپہنچا ، اس کی پکار نے تمام اھل مکہ کو ھلاکو رکھ دیا۔
اور چونکہ تمام اھل مکہ کا اس قافلے میں حصہ تھا سب فوراً جمع هوگئے ابوجھل کی کمان میں ایک لشکر تیار هوا ، اس میں ۵۰ ۹جنگجو تھے جن میں سے بعض انکے بڑے اور مشهور سردار اور بھادر تھے ۷۰۰اونٹ تھے اور ۱۰۰گھوڑے تھے لشکر مدینہ کی طرف روانہ هوگیا ۔
دوسری طرف چونکہ ابو سفیان مسلمانوں سے بچ کر نکلنا چاہتاتھا ،لہٰذا اس نے راستہ بدل دیا اور مکہ کی طرف روانہ هو گیا۔

۳۱۳وفادار ساتھی
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ۳۱۳ افراد کے ساتھ جن میں تقریباً تمام مجاہدین اسلام تھے سرزمین بدرکے پاس پہنچ گئے تھے یہ مقام مکہ اور مدینہ کے راستے میں ھے یھاں آپ کو قریش کے لشکر کی روانگی کی خبر ملی اس وقت آپ نے اپنے اصحاب سے مشورہ کیا کہ کیا ابوسفیان کے قافلہ کا تعاقب کیا جائے اور قافلہ کے مال پر قبضہ کیا جائے یا لشکر کے مقابلے کے لئے تیار هواجائے؟ ایک گروہ نے دشمن کے لشکر کامقابلہ کرنے کو ترجیح دی جب کہ دوسرے گروہ نے اس تجویز کو ناپسند کیا اور قافلہ کے تعاقب کو ترجیح دی ،ان کی دلیل یہ تھی کہ ھم مدینہ سے مکہ کی فوج کا مقابلہ کرنے کے ارادہ سے نھیں نکلے تھے اور ھم نے اس لشکر کے مقابلے کے لئے جنگی تیاری نھیں کی تھی جب کہ وہ ھماری طرف پوری تیاری سے آرھا ھے ۔
اس اختلاف رائے اور تردد میں اس وقت اضافہ هوگیا جب انھیں معلوم تھاکہ دشمن کی تعداد مسلمانوں سے تقریبا تین گنا ھے اور ان کا سازوسامان بھی مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ ھے، ان تمام باتوں کے باوجود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھلے گروہ کے نظریے کو پسند فرمایا اور حکم دیا کہ دشمن کی فوج پر حملہ کی تیاری کی جائے ۔
جب دونوں لشکر آمنے سامنے هوئے تودشمن کو یقین نہ آیا کہ مسلمان اس قدر کم تعداد اور سازو سامان کے ساتھ میدان میں آئے هوں گے ،ان کا خیال تھا کہ سپاہ اسلام کا اھم حصہ کسی مقام پر چھپاهوا ھے تاکہ وہ غفلت میں کسی وقت ان پر حملہ کردے لہٰذا انهوں نے ایک شخص کو تحقیقات کے لئے بھیجا، انھیں جلدی معلوم هوگیا کہ مسلمانوں کی جمعیت یھی ھے جسے وہ دیکھ رھے ھیں ۔
دوسری طرف جیسا کہ ھم نے کھا ھے مسلمانوںکاایک گروہ وحشت وخوف میں غرق تھا اس کا اصرار تھا کہ اتنی بڑی فوج جس سے مسلمانوں کا کوئی موازنہ نھیں ، خلاف مصلحت ھے، لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خدا کے وعدہ سے انھیں جوش دلایا اور انھیں جنگ پر اُبھارا، آپ نے فرمایا :کہ خدا نے مجھ سے وعدہ کیا ھے کہ دوگرو هوں میں سے ایک پر تمھیں کا میابی حاصل هوگی قریش کے قافلہ پر یا لشکر قریش پراور خداکے وعدہ کے خلاف نھیں هوسکتا۔
خدا کی قسم ابوجھل اور کئی سرداران قریش کے لوگوں کی قتل گاہ کو گویا میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رھا هوں ۔
اس کے بعد آپ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ بدر کے کنوئیں کے قریب پڑاؤ ڈالیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھلے سے خواب میں اس جنگ کا منظر دیکھا تھا، آپ نے د یکھا کہ دشمن کی ایک قلیل سی تعداد مسلمانوں کے مقابلہ میں آئی ھے، یہ در اصل کامیابی کی ایک بشارت تھی آپ نے بعینہ یہ خواب مسلمانوں کے سامنے بیان کردیا، یہ بات مسلمانوں کے میدان بدر کی طرف پیش روی کے لئے ان کے جذبہ اور عزم کی تقویت کا باعث بنی۔
البتہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ خواب صحیح دیکھا تھا کیونکہ دشمن کی قوت اور تعداد اگرچہ ظاھراً بہت زیادہ تھی لیکن باطناً کم، ضعیف اور ناتواں تھی، ھم جانتے ھیں کہ خواب عام طور پر اشارے اور تعبیر کا پھلو رکھتے ھیں، اور ایک صحیح خواب میں کسی مسئلے کا باطنی چھرہ آشکار هوتا ھے۔

قریش کا ایک ہزار کا لشکر
اس ہنگامے میں ابوسفیان اپنا قافلہ خطرے کے علاقے سے نکال لے گیا ۔اصل راستے سے ہٹ کردریائے احمر کے ساحل کی طرف سے وہ تیزی سے مکہ پہنچ گیا ۔ اس کے ایک قاصدکے ذریعے لشکر کو پیغام بھیجا:
خدانے تمھارا قافلہ بچالیا ھے میرا خیال ھے کہ ان حالات میں محمد کامقابلہ کرنا ضروری نھیں کیونکہ اس کے اتنے دشمن ھیں جو اس کا حساب چکالیں گے ۔
لشکر کے کمانڈرابوجھل نے اس تجویز کو قبول نہ کیا ، اس نے اپنے بتوں لات اور عزیٰ کی قسم کھائی کہ نہ صرف ان کا مقابلہ کریں گے بلکہ مدینہ کے اندر تک ان کا تعاقب کریں گے یا انھیں قیدکرلیں گے اور مکہ میں لے آئیں گے تاکہ اس کامیابی کا شھرہ تمام قبائل عرب کے کانوں تک پہنچ جائے ۔ آخر کارلشکر قریش بھی مقام بدر تک آپہنچا، انهوں نے اپنے غلام کوپانی لانے کے لئے کنویں کی طرف بھیجے ،اصحاب پیغمبر نے انھیں پکڑلیا اور ان سے حالات معلوم کرنے کے لئے انھیں خدمت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں لے آئے حضرت نے ان سے پوچھا تم کون هو ؟ انهوں نے کھا : ھم قریش کے غلام ھیں ، فرمایا: لشکر کی تعداد کیا ھے ؟ انهوں نے کھا : ھمیں اس کا پتہ نھیں، فرمایا : ھرروز کتنے اونٹ کھانے کے لئے نحرکرتے ھیں ؟ انهوں نے کھا : نو سے دس تک، فرمایا: ان کی تعداد ۹سوسے لے کر ایک ہزار تک ھے (ایک اونٹ ایک سو فوجی جوانوںکی خواراک ھے ) ۔
ماحول پُر ھیبت اور وحشت ناک تھا لشکر قریش کے پاس فراواں جنگی سازوسامان تھا ۔ یھاں تک کہ حوصلہ بڑھانے کے لئے وہ گانے بجانے والی عورتوں کو بھی ساتھ لائے تھے ۔ اپنے سامنے ایسے حریف کو دیکھ رھے تھے کہ انھیں یقین نھیں آتا تھا کہ ان حالات میں وہ میدان جنگ میں قدم رکھے گا۔

مسلمانو! فرشتے تمھاری مدد کریں گے
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دیکھ رھے تھے کہ ممکن ھے آپ کے اصحاب خوف ووحشت کی وجہ سے رات میں آرام سے سونہ سکیں اور پھر کل دن کو تھکے هوئے جسم اور روح کے ساتھ دشمن کے مقابل هوں لہٰذا خدا کے وعدے کے مطابق ان سے فرمایا:
تمھاری تعداد کم هوتو اس کا غم نہ کر، آسمانی فرشتوں کی ایک عظیم جماعت تمھاری مدد کے لئے آئے گی، آپ نے انھیں خدائی وعدے کے مطابق اگلے روز فتح کی پوری تسلی دے کر مطمئن کردیا اور وہ رات آرام سے سوگئے۔
دوسری مشکل جس سے مجاہدین کو پریشانی تھی وہ میدان بدر کی کیفیت تھی ،ان کی طرف زمین نرم تھی اور اس میں پاؤں دھنس جاتے تھے اسی رات یہ هوا کہ خوب بارش هوئی ،اس کے پانی سے مجاہدین نے وضو کیا ، غسل کیا اور تازہ دم هوگئے ان کے نیچے کی زمین بھی اس سے سخت هوگئی ،تعجب کی بات یہ ھے کہ دشمن کی طرف اتنی زیادہ بارش هوئی کہ وہ پریشان هوگئے ۔
دشمن کے لشکر گاہ سے مسلمان جاسوسوں کی طرف سے ایک نئی خبر موصول هوئی اور جلد ھی مسلمانوں میں پھیل گئی ، خبریہ تھی کہ فوج قریش اپنے ان تمام وسائل کے باوجود خو فزدہ ھے گویا وحشت کا ایک لشکر خدا نے ان کے دلوں کی سرزمین پر اتار دیا تھا ،اگلے روز چھوٹا سا اسلامی لشکر بڑے ولولے کے ساتھ دشمن کے سامنے صف آراء هوا، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھلے انھیں صلح کی تجویز پیش کی تاکہ عذر اور بھانہ باقی نہ رھے، آپ نے ایک نمائندے کے ھاتھ پیغام بھیجا کہ میں نھیں چاہتا کہ تم وہ پھلا گروہ بن جاؤ کہ جس پر ھم حملہ آور هوں ، بعض سردار ان قریش چاہتے تھے یہ صلح کا ھاتھ جوان کی طرف بڑھایا گیا ھے اسے تھام لیں اور صلح کرلیں، لیکن پھر ابوجھل مانع هوا۔

ستر قتل ستر اسیر
آخرکار جنگ شروع هوئی ،اس زمانے کے طریقے کے مطابق پھلے ایک کے مقابلے میں ایک نکلا ،ادھر لشکر اسلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا حمزہ اور حضرت علی علیہ السلام جوجو ان ترین افراد تھے میدان میں نکلے، مجاہدین اسلام میں سے چند اور بھادر بھی اس جنگ میں شریک هوئے ،ان جوانوں نے اپنے حریفوں کے پیکر پر سخت ضربیں لگائیں اور کاری وار کئے اور ان کے قدم اکھاڑدیئے ،دشمن کا جذبہ اور کمزور پڑگیا ،یہ دیکھا تو ابوجھل نے عمومی حملے کا حکم دے دیا ۔
ابوجھل پھلے ھی حکم دے چکا تھا کہ اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں سے جو اھل مدینہ میں سے ھیں انھیں قتل کردو ، مھاجرین مکہ کو اسیر کرلو مقصدیہ تھا کہ ایک طرح کے پر وپیگنڈا کے لئے انھیں مکہ لے جائیں ۔
یہ لمحات بڑے حساس تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ جمعیت کی کثرت پر نظر نہ کریں اور صرف اپنے مد مقابل پر نگاہ رکھیں دانتوں کو ایک دوسرے پررکھ کر پیسیں ، باتیں کم کریں ، خدا سے مدد طلب کریں ، حکم پیغمبر سے کھیں رتی بھر سرتابی نہ کریں اور مکمل کامیابی کی امید رکھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دست دعا آسمان کی طرف بلند کئے اور عرض کیا : ”پالنے والے! اگر یہ لوگ قتل هوگئے تو پھر تیری عبادت کوئی نھیں کرے گا“۔
دشمن کے لشکر کی سمت میں سخت هوا چل رھی تھی اور مسلمان هوا کی طرف پشت کرکے ان پر حملے کررھے تھے ۔ ان کی استقامت ، پامردی اور دلاوری نے قریش کا ناطقہ بندکردیا ابوجھل سمیت دشمن کے ستر آدمی قتل هوگئے ان کی لاشیں خاک وخون میں غلطاں پڑی تھیں سترا فراد مسلمانوں کے ھاتھوں قید هوگئے مسلمانوں کے بہت کم افراد شھید هوئے ۔
اس طرح مسلمانوں کی پھلی مسلح جنگ طاقتور دشمن کے خلاف غیر متوقع کامیابی کے ساتھ اختتام پذیزر هوئی ۔
جنگ بدر میں مسلمانوں کی تعداد تین سو تیرہ تھی، ان میں ۷۷مھاجر تھے اور دوسو چھتیس (۲۳۶) انصار، مھاجرین کا پرچم حضرت علی علیہ السلام کے ھاتھ میں تھا، اور انصار کا پرچم بردار” سعد بن عبادہ“ تھے، اس عظیم معرکہ کے لئے ان کے پاس صرف ۷۰ اونٹ دو گھوڑے، ۶زرھیں اور آٹھ تلواریں تھیں، دوسری طرف دشمن کی فوج ہزار افراد سے متجاوز تھی، اس کے پاس کافی ووافی اسلحہ تھا اور ایک سو گھوڑے تھے، اس جنگ۲۲مسلمان شھید هوئے ان میں چودہ مھاجر او ر۸انصار تھے، دشمن کے ستر(۷۰) افراد مارے گئے اور ستر ھی قیدی هوئے، اس طرح مسلمانوں کو فتح نصیب هوئی اور یوں مکمل کامرانی کے ساتھ وہ مدینہ کی طرف پلٹ گئے۔
واقعاً یہ عجیب و غریب بات تھی کہ تواریخ کے مطابق مسلمانوں کے چھوٹے سے لشکر کے مقابلہ میں قریش کی طاقتور فوج نفسیاتی طور پر اس قدر شکست خودرہ هوچکی تھی کہ ان میں سے ایک گروہ مسلمانوں سے جنگ کرنے سے ڈرتا تھا، بعض اوقات وہ دل میں سوچتے کہ یہ عام انسان نھیں ھیں، بعض کہتے ھیں کہ یہ موت کو اپنے اونٹوں پر لادکر مدینہ سے تمھارے لئے سوغات لائے ھیں۔
”سعدبن معاذانصاری “نمائندہ کے طور پر خدمت پیغمبر میں حاضر هوئے اور عرض کرنے لگے :
میرے ماں پاپ آپ پر قربان اے اللہ کے رسول ! ھم آپ پر ایمان لائے ھیں اور ھم نے آپ کی نبوت کی گواھی دی ھے کہ جو کچھ آپ کہتے ھیںخدا کی طرف سے ھے، آپ جو بھی حکم دینا چاھیں دیجئے اور ھمارے مال میں سے جو کچھ آپ چاھیں لے لیں، خدا کی قسم اگر آپ ھمیں حکم دیں کہ اس دریا ( دریائے احمر کی طرف اشارہ کرتے هوئے ،جووھاں سے قریب تھا ) میںکود پڑو تو ھم کو د پڑیں گے ھماری یہ آرزو ھے کہ خدا ھمیں توفیق دے کہ ایسی خدمت کریں جو آپ کی آنکھ کی روشنی کا باعث هو۔
روز بدر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:
زمین سے مٹی اور سنگریزوں کی ایک مٹھی بھر کے مجھے دیدو۔
حضرت علی علیہ السلام نے ایسا ھی کیا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے مشرکین کی طرف پھینک دیا اور فرمایا:
”شاہت الوجوہ“(تمھارے منھ قبیح اور سیاہ هوجائیں)
لکھا ھے کہ معجزانہ طور پر گرد و غبار اور سنگریزے دشمن کی آنکھوں میں جا پڑے اور سب وحشت زدہ هوگئے۔

مجاہدین کی تشویق
ابن عباسۻ سے منقول ھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جنگ بدر کے روز مجاہدین اسلام کی تشویق کے لئے کچھ انعامات مقررکیے مثلاً فرمایا کہ جو فلاں دشمن کو قید کر کے میرے پاس لائے گا اُسے یہ انعام دوں گا ان میں پھلے ھی روح ایمان وجھاد موجود تھی اوپر سے یہ تشویق بھی، نتیجہ یہ هو اکہ جوان سپاھی بڑے افتخار سے مقابلہ کے لئے آگے بڑھے اور اپنے مقصد کی طرف لپکے بوڑھے سن رسیدہ افراد جھنڈوں تلے موجودرھے جب جنگ ختم هوئی تو نوجوان اپنے پر افتخار انعامات کے لئے بارگاہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف بڑھے، بوڑھے ان سے کہنے لگے کہ اس میں ھمارا بھی حصہ ھے کیونکہ ھم تمھارے لئے پناہ اور سھارے کاکام کررھے تھے اور تمھارے لئے جوش وخروش کا باعث تھے اگر تمھارا معاملہ سخت هوجاتاھے تو تمھیں پیچھے ہٹنا پڑتا تو یقیناً تم ھماری طرف آتے اس موقع پر دو انصاریوں میں تو تو میں میں بھی هوگئی اور انهوں نے جنگی غنائم کے بارے میں بحث کی ۔
اس اثناء میں سورہٴ انفال کی پھلی آیت نازل هوئی جس میں صراحت کے ساتھ بتایا گیا کہ غنائم کا تعلق پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ھے وہ جیسے چاھیں انھیں تقسیم فرمائیں، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی مساوی طور پر سب سپاھیوں میں غنائم تقسیم کردیئے اور برادران دینی میں صلح ومصالحت کا حکم دیا ۔

جنگ کا خاتمہ اور اسیروں کا واقعہ
جنگ بدر کے خاتمہ پر جب جنگی قیدی بنالئے گئے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ حکم دیاکہ قیدیوں میں سے دو خطر ناک افراد عقبہ اور نضر کو قتل کردیاجائے تو اس پر انصار گھبراگئے کہ کھیں ایسا نہ هو کہ یہ حکم تمام قیدیوں کے متعلق جاری هوجائے اور وہ فدیہ لینے سے محروم هوجائیں ) لہٰذا انهوں نے رسول اللہ کی خدمت میں عرض کیا : ھم نے سترآدمیوں کو قتل کیا ھے اور سترھی کو قیدی بنایا ھے اور یہ آپ کے قبیلے میں سے آپ ھی کے قیدی ھیں ،یہ ھمیں بخش دیجئے تاکہ ھم ان کی آزادی کے بدلے فدیہ لے سکیں ۔
(رسول اللہ اس کے لئے وحی آسمانی کے منتظر تھے ) اس موقع پروحی الٰھی نازل هوئی اورقیدیوں کی آزادی کے بدلے فدیہ لینے کی اجازت دیدی گئی ۔
اسیروں کی آزادی کے لئے زیادہ سے زیادہ چار ہزار درھم اور کم سے کم ایک ہزار درھم معین کی گئی، یہ بات قریش کے کانوں تک پهونچی تو انھوں نے ایک ایک کے بدلے معین شدہ رقم بھیج کرا سیروں کو آزاد کرالیا۔
تعجب کی بات یہ ھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا داماد ابوالعاص بھی ان قیدیوں میں تھا ،رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیٹی یعنی زینب جو ابولعاص کی بیوی تھی نے وہ گلو بند جو جناب خدیجہۺ نے ان کی شاد ی کے وقت انھیںدیا تھا فدیہ کے طور پررسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بھیجا،جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نگاہ گلو بند پر پڑی تو جناب خدیجہۻ جیسی فداکار اور مجاہدہ خاتون کی یاد یں ان کی آنکھوں کے سامنے مجسم هوگئیں ،آپ نے فرمایا:خدا کی رحمت هو خدیجہۺ پر ،یہ وہ گلو بند ھے جو اس نے میری بیٹی زینب کو جھیز میں دیا تھا(اور بعض دوسری روایات کے مطابق جناب خدیجہۺ کے احترام میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گلو بند قبول کرنے سے احرازکیا اور حقوق مسلمین کو پیش نظر کرتے هوئے اس میںان کی موافقت حاصل کی)۔
اس کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابوالعاص کو اس شرط پر آزاد کردیا کہ وہ زینب کو (جو اسلام سے پھلے ابوالعاص کی زوجیت میں تھیں )مدینہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بھیج دے ، اس نے بھی اس شرط کو قبول کرلیا او ربعد میں اسے پورا بھی کیا۔

آنحضرت کے چچا عباس کا اسلام قبول کرنا
انصار کے کچھ آدمیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اجازت چاھی کہ آپ کے چچا عباس جو قیدیوں میں تھے ان سے آپ کے احترام میں فدیہ نہ لیا جائے لیکن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”خداکی قسم اس کے ایک درھم سے بھی صرف نظر نہ کرو“( اگر فدیہ لینا خدائی قانون ھے تو اسے سب پر جاری هونا چاہئے ،یھاں تک کہ میرے چچا پر بھی اس کے اور دوسروں کے درمیان کوئی فرق نھیں ھے۔)
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عباسۻ کی طرف متوجہ هوئے اور فرمایا: اپنی طرف سے او راپنے بھتیجے ( عقیل بن ابی طالب) کی طرف سے آپ کو فدیہ ادا کرنا چاہئے۔
عباسۻ ( جو مال سے بڑا لگاؤ رکھتے تھے ) کہنے لگے: اے محمد! کیا تم چاہتے هو کہ مجھے ایسا فقیر او رمحتاج کردو کہ میں اھل قریش کے سامنے اپنا ھاتھ پھیلاؤں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: اس مال میںسے فدیہ ادا کریں جو آپ نے اپنی بیوی ام الفضل کے پاس رکھا تھا اور اس سے کھا تھا کہ اگر میں میدان جنگ میں مارا جاؤں تو اس مال کو اپنے اور اپنی اولاد کے مصارف کے لئے سمجھنا۔
عباس یہ بات سن کر بہت متعجب هوئے اور کہنے لگے: آپ کو یہ بات کس نے بتائی ( حالانکہ یہ تو بالکل محرمانہ تھی )؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : جبرئیل نے، خدا کی طرف سے۔
عباسۻ بولے : اس کی قسم کہ جس کی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قسم کھاتا ھے کہ میرے اور میری بیوی کے علاوہ اس راز سے کوئی آگاہ نہ تھا۔
اس کے بعد وہ پکار اٹھے: ”اشھد انک رسول اللہ“
( یعنی میں گواھی دیتا هوں کہ آپ اللہ کے رسول ھیں)
اور یوں وہ مسلمان هوگئے۔
آزادی کے بعد بدر کے تمام قیدی مکہ لوٹ گئے لیکن عباس، عقیل اور نوفل مدینہ ھی میں رہ گئے کیونکہ انهوں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔
عباسۻ کے اسلام لانے کے بارے میںبعض تواریخ میںھے کہ اسلام قبول کرلینے کے بعد وہ مکہ کی طرف پلٹ گئے تھے اور خط کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سازش سے باخبر کیا کرتے تھے ، پھر ۸ سے پھلے فتح مکہ کے سال مدینہ کی طرف ہجرت کر آئے۔

جنگ احد [43]
جنگ احد کا پیش خیمہ
جب کفار مکہ جنگ بدر میں شکست خوردہ هوئے اور ستر(۷۰) قیدی چھوڑکر مکہ کی طرف پلٹ گئے تو ابو سفیان نے لوگوں کو خبر دار کیا کہ وہ اپنی عورتوں کو مقتولین بدر پر گریہ وزاری نہ کرنے دیں کیونکہ آنسو غم واندوہ کو دور کردیتے ھیں اور اس طرح محمد کی دشمنی اور عداوت ان کے دلوں سے ختم هوجائے گی ، ابو سفیان نے خود یہ عہد کررکھا تھا کہ جب تک جنگ بدر کے قاتلوں سے انتقام نہ لے لے اس وقت تک وہ اپنی بیوی سے ھمبستری نھیں کرے گا ،بھر حال قریش ھر ممکن طریقہ سے لوگوں کوپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خلاف اکساتے تھے اور انتقام کی صدا شھر مکہ میں بلند هورھی تھی ۔
ہجرت کے تیسرے سال قریش ہزار سوار اور دوہزار پیدل کے ساتھ بہت سامان جنگ لے کر آپ سے جنگ کرنے کے لئے مکہ سے نکلے اور میدان جنگ میں ثابت قدمی سے لڑنے کے لئے اپنے بڑے بڑے بت اور اپنی عورتوں کو بھی ھمراہ لے آئے ۔

جناب عباس کی بر وقت اطلاع
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچاحضرت عباس جو ابھی مسلمان نھیں هوئے تھے اور قریش کے درمیان ان کے ھم مشرب و ھم مذھب تھے لیکن اپنے بھتیجے سے فطری محبت کی بنا پر جب انھوں نے دیکھا کہ قریش کا ایک طاقتور لشکر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جنگ کرنے کے لئے مکہ سے نکلا ھے تو فوراً ایک خط لکھا اور قبیلہ بنی غفار کے ایک آدمی کے ھاتھ مدینہ بھیجا ،عباس کا قاصد بڑی تیزی سے مدینہ کی طرف روانہ هوا ،جب آپ کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے سعد بن اُبَيٴ کو عباس کا پیغام پہنچایا اور حتی الامکان اس واقعہ کو پردہ راز میں رکھنے کی کوشش کی ۔

پیغمبر کا مسلمانوں سے مشورہ
جس دن عباسۻ کا قاصد آپ کو موصول هوا آپ نے چند مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ مکہ ومدینہ کے راستہ پر جائیں اور لشکر کفار کے کوائف معلوم کریں، آپ کے دو نمائندے ان کے حالات معلوم کرکے بہت جلدی واپس آئے اور قریش کی قوت وطاقت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مطلع کیا اور یہ بھی اطلاع دی کہ طاقتور لشکر خود ابوسفیان کی کمان میں ھے ۔
پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چند روز کے بعد تمام اصحاب اور اھل مدینہ کو بلایا اور ان در پیش حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے میٹنگ کی، اس میں عباسۻ کے خط کو بھی پیش کیا گیا اور اس کے بعد مقام جنگ کے بارے میں رائے لی گئی اس میٹنگ میں ایک گروہ نے رائے دی کہ جنگ دشمن سے مدینہ کی تنگ گلیوں میں کی جائے کیونکہ اس صورت میں کمزور مرد ،عورتیں بلکہ کنیزیں بھی مدد گار ثابت هوسکیں گی۔
عبد اللہ بن ابی نے تائید ا ًکھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آج تک ایسا نھیں هوا کہ ھم اپنے قلعوں اور گھروں میں هوں اور دشمن ھم پر کامیاب هوگیا هو ۔
اس رائے کو آپ بھی اس وقت کی مدینہ کی پوزیشن کے مطابق بنظر تحسین دیکھتے تھے کیونکہ آپ بھی مدینہ ھی میں ٹھھرنا چاہتے تھے لیکن نوجوانوں اورجنگجو وٴں کا ایک گروہ اس کا مخالف تھا چنانچہ سعد بن معاذ اور قبیلہ اوس کے چند افراد نے کھڑے هو کر کھا اے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گذشتہ زمانے میں عربوں میں سے کسی کو یہ جراٴت نہ تھی کہ ھماری طرف نظر کرے جبکہ ھم مشرک اور بت پرست تھے اب جبکہ ھمارے درمیان آپ کی ذات والا صفات موجود ھے کس طرح وہ ھمیں دبا سکتے ھیں اس لئے شھرسے باھر جنگ کرنی چاہئے اگر ھم میں سے کوئی مارا گیا تو وہ جام شھادت نوش کرے گا اور اگر کوئی بچ گیا تو اسے جھاد کا اعزازوافتخار نصیب هوگا اس قسم کی باتوں اور جوش شجاعت نے مدینہ سے باھر جنگ کے حامیوں کی تعدا دکو بڑھا دیا یھاں تک کہ عبد اللہ بن اُبَيٴ کی پیش کش سرد خانہ میں جاپڑی خود پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی اس مشورے کا احترام کیااور مدینہ سے باھر نکل کر جنگ کے طرف داروں کی رائے کو قبول فرمالیا اور ایک صحابی کے ساتھ مقام جنگ کا انتخاب کرنے کے لئے شھر سے باھر تشریف لے گئے آپ نے کوہ احد کا دامن لشکر گاہ کے لئے منتخب کیا کیونکہ جنگی نقطہ نظر سے یہ مقام زیادہ مناسب تھا۔

مسلمانوں کی دفاعی تیاریاں
جمعہ کے دن آپ نے یہ مشورہ لیا اور نماز جمعہ کا خطبہ دیتے هوئے آپ نے حمدو ثناء کے بعد مسلمانوں کو لشکر قریش کی آمد کی اطلاع دی اور فرمایا:
” تہہ دل سے جنگ کے لئے آمادہ هوجاؤ اور پورے جذبہ سے دشمن سے لڑو تو خدا وند قددس تمھیں کامیابی وکامرانی سے ھمکنار کرے گا اور اسی دن آپ ایک ہزار افراد کے ساتھ لشکر گاہ کی طرف روانہ هوئے آپ خود لشکر کی کمان کررھے تھے مدینہ سے نکلنے سے قبل آپ نے حکم دیا کہ لشکر کے تین علم بنائے جائیں جن میں ایک مھاجرین اور دو انصار کے هوں“۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مدینہ اور احد کے درمیانی فاصلے کو پاپیادہ طے کیا اور سارے راستے لشکر کی دیکھ بھال کرتے رھے خود لشکر کی صفوں کو منظم ومرتب رکھا تاکہ وہ ایک ھی سیدھی صف میں حرکت کریں ۔
ان میں سے کچھ ایسے افراد کو دیکھا جو پھلی وفعہ آپ کو نظر پڑے پوچھا کہ یہ لوگ کون ھیں ؟ بتایا گیا کہ یہ عبداللہ بن ابی کے ساتھی کچھ یهودی ھیں اور اس مناسبت سے مسلمانوں کی مدد کے لئے آئے ھیں آپ نے فرمایا کہ مشرکین سے جنگ کرنے میں مشرکین سے مدد نھیں لی جاسکتی مگریہ کہ یہ لوگ اسلام قبول کرلیں یهودیوں نے اس شرط کو قبول نہ کیا اور سب مدینہ کی طرف پلٹ آئے یوں ایک ہزار میں سے تین سو افراد کم هوگئے ۔
لیکن مفسرین نے لکھا ھے کہ چونکہ عبداللہ بن اُبَيٴ کی رائے کو رد کیا گیا تھا اس لئے وہ اثنائے راہ میں تین سوسے زیادہ افراد کو لے کر مدینہ کی طرف پلٹ آیا بھر صورت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لشکر کی ضروری چھان بین (یهودیوں یا ابن ابی ابی کے ساتھیوں کے نکالنے) کے بعد سات سو افراد کو ھمراہ لے کر کوہ احد کے دامن میں پہنچ گئے، اور نماز فجر کے بعد مسلمانوں کی صفوں کو آراستہ کیا۔
عبد اللہ بن جبیر کو پچاس ماھر تیر اندازوں کے ساتھ پھاڑ کے درہ پر تعینات کیا اور انھیں تاکید کی کہ وہ کسی صورت میں اپنی جگہ نہ چھوڑیں اور فوج کے پچھلے حصے کی حفاظت کریں اور اس حد تک تاکید کی کہ اگر ھم دشمن کا مکہ تک پیچھا کریں یا ھم شکست کھاجائیں اور دشمن ھمیں مدینہ تک جانے پر مجبور کردے پھر بھی تم اپنا مورچہ نہ چھوڑنا، دوسری طرف سے ابو سفیان نے خالد بن ولید کو منتخب سپاھیوں کے ساتھ اس درہ کی نگرانی پر مقرر کیا اور انھیں ھر حالت میں وھیں رہنے کا حکم د یا اور کھا کہ جب اسلامی لشکر اس درہ سے ہٹ جائے تو فوراً لشکر اسلام پر پیچھے سے حملہ کردو۔

آغاز جنگ
دونوں لشکر ایک دوسرے کے آمنے سامنے جنگ گے لئے آمادہ هوگئے اور یہ دونوں لشکر اپنے نوجوانوں کو ایک خاص انداز سے اکسا رھے تھے، ابوسفیان کعبہ کے بتوں کے نام لے کر اور خوبصورت عورتوں کے ذریعے اپنے جنگی جوانوںکی توجہ مبذول کراکے ان کو ذوق وشوق دلاتا تھا۔
جب کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خدا کے اسم مبارک اور انعامات اعلیٰ کے حوالے سے مسلمانوں کو جنگ کی ترغیب دیتے تھے اچانک مسلمانوں کی صدائے اللہ اکبراللہ اکبر سے میدان اور دامن کوہ کی فضا گونج اٹھی جب کہ میدان کی دوسری طرف قریش کی لڑکیوں نے دف اور سارنگی پر اشعار گا گا کر قریش کے جنگ جو افراد کے احساسات کو ابھارتی تھیں۔
جنگ کے شروع هوتے ھی مسلمانوں نے ایک شدید حملہ سے لشکر قریش کے پرخچے اڑادئیے اور وہ حواس باختہ هوکر بھاگ کھڑے هوئے اور لشکر اسلام نے ان کا پیچھا کرنا شروع کردیا خالدبن ولید نے جب قریش کی یقینی شکت دیکھی تو اس نے چاھا کہ درہ کے راستے نکل کر مسلمانوں پر پیچھے سے حملہ کرے لیکن تیراندازوں نے اسے پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا قریش کے قدم اکھڑتے دیکھ کر تازہ مسلمانوں کے ایک گروہ نے دشمن کو شکت خوردہ سمجھ کرمال غنیمت جمع کرنے کے لئے اچانک اپنی پوزیشن چھوڑدی ، ان کی دیکھا دیکھی درہ پر تعینات تیراندازوں نے بھی اپنا مورچہ چھوڑدیا، ان کے کمانڈرعبد اللہ بن جبیرنے انھیں آ نحضرت کا حکم یاددلایا مگرسوائے چند (تقریبا ًدس افراد) کے کوئی اس اھم جگہ پر نہ ٹھھرا۔
پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مخالفت کا نتیجہ یہ هوا کہ خالدبن ولید نے درہ خالی دیکھ کر بڑی تیزی سے عبد اللہ بن جبیر پر حملہ کیا اور اسے اس کے ساتھیوں سمیت قتل کردیا، اس کے بعد انهوں نے پیچھے سے مسلمانوں پر حملہ کردیا اچانک مسلمانوں نے ھر طرف چمک دار تلواروں کی تیزدھاروں کو اپنے سروں پر دیکھا تو حواس باختہ هوگئے اور اپنے آپ کو منظم نہ رکھ سکے قریش کے بھگوڑوں نے جب یہ صورتحال دیکھی تو وہ بھی پلٹ آئے اور مسلمانوں کو چاروں طرف سے گھیرلیا۔
اسی موقع پر لشکر اسلام کے بھادر افسر سید الشہداء حضرت حمزہ نے دوسرے مسلمانوں کے ساتھ جام شھادت نوش کیا ،سوائے چند شمع رسالت کے پروانوں کے اور بقیہ مسلمانوں نے وحشت زدہ هوکر میدان کو دشمن کے حوالے کردیا۔
اس خطرناک جنگ میں جس نے سب سے زیادہ فداکاری کا مظاھرہ کیا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر هونے والے دشمن کے ھر حملے کا دفاع کیا وہ حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام تھے ۔
حضرت علی علیہ السلام بڑی جراٴت اور بڑے حوصلہ سے جنگ کررھے تھے یھاں تک کہ آپ کی تلوار ٹوٹ گئی، اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی تلوار آپ کو عنایت فرمائی جو ذوالفقار کے نام سے مشهور ھے بالآخر آپ ایک مورچہ میں ٹھھرگئے اور حضرت علی علیہ السلام مسلسل آپ کا دفاع کرتے رھے یھاں تک کہ بعض مورخین کی تحقیق کے مطابق حضرت علی علیہ السلام کے جسم پر ساٹھ کاری زخم آئے، اور اسی موقع پر قاصد وحی نے پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا :اے محمد ! یہ ھے مواسات ومعاونت کا حق ،آپ نے فرمایا ( ایسا کیوں نہ هو کہ ) علی مجھ سے ھے اور میں علی سے هوں ،تو جبرئیل نے اضافہ کیا : میں تم دونوں سے هوں ۔
امام صادق ارشاد فرماتے ھیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قاصد وحی کو آسمان میں یہ کہتے هوئے دیکھا کہ: ”لاسیف الاذوالفقار ولا فتی الا علی “ (ذوالفقار کے علاوہ کوئی تلوار نھیں اور علی کے سوا کوئی جوانمرد نھیں)
اس اثناء میں یہ آواز بلند هوئی کہ محمد قتل هوگئے ۔
یہ آواز فضائے عالم میں گونج اٹھی اس آواز سے جتنابت پرستوں کے جذبات پر مثبت اثر پیدا هوا اتناھی مسلمانوں میں عجیب اضطراب پیدا هوگیا چنانچہ ایک گروہ کے ھاتھ پاؤں جواب دے گئے اور وہ بڑی تیزی سے میدان جنگ سے نکل گئے یھاں تک کہ ان میں سے بعض نے سوچا کہ پیغمبر شھیدهو گئے ھیں لہٰذا اسلام ھی کو خیرباد کہہ دیا جائے اور بت برستوں کے سرداروں سے امان طلب کرلی جائے لیکن ان کے مقابلہ میں فداکاروں اور جانثاروں کی بھی ایک قلیل جماعت تھی جن میں حضرت علی ابود جانہ اور طلحہ جیسے بھادر لوگ موجود تھے جوباقی لوگوں کوپامردی اور استقامت کی دعوت دے رھے تھے ان میں سے انس بن نضر لوگوں کے درمیان آیا اور کہنے لگا :اے لوگو ! اگر محمد شھید هوگئے ھیں تو محمد کا خدا تو قتل نھیں هوا چلو اور جنگ کرو ،اسی نیک اور مقدس ہدف کے حصول کے لئے درجہ شھادت پر فائز هو جاؤ ،یہ گفتگو تمام کرتے ھی انھوں نے دشمن پر حملہ کردیا یھاں تک کہ شھید هوگئے ،تاھم جلد معلوم هوگیا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سلامت ھیں اور اطلاع ایک شایعہ تھی ۔

کون پکارا کہ محمد (ص) قتل هوگئے ؟
”ابن قمعہ“ نے اسلامی سپاھی مصعب کو پیغمبر سمجھ کر اس پر کاری ضرب لگائی اور باآواز بلند کھا :لات وعزی کی قسم محمد قتل هوگئے ۔
اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ یہ افواہ چاھے مسلمانوں نے اڑائی یا دشمن نے لیکن مسلمانوں کے لئے فائدہ مند ثابت هوئی اس لئے کہ جب آواز بلند هوئی تو دشمن میدان چھوڑ کر مکہ کی طرف چل پڑے ورنہ قریش کا فاتح لشکر جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے دلوں میں کینہ رکھتا تھا اور انتقام لینے کی نیت سے آیا تھا کبھی میدان نہ چھوڑتا، قریش کے پانچ ہزار افراد پر مشتمل لشکر نے میدان جنگ میں مسلمانوں کی کامیابی کے بعد ایک رات بھی صبح تک وھاں نہ گذاری اور اسی وقت مکہ کی طرف چل پڑے۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شھادت کی خبر نے بعض مسلمانوں میں اضطراب وپریشانی پیدا کردی ،جو مسلمان اب تک میدان کارزار میں موجود تھے، انھوں نے اس خیال سے کہ دوسرے مسلمان پراکندہ نہ هوں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پھاڑ کے اوپر لے گئے تاکہ مسلمانوں کو پتہ چل جائے کہ آپ بقید حیات ھیں ، یہ دیکھ کر بھگوڑے واپس آگئے اور آنحضرت کے گرد پروانوں کی طرح جمع هوگئے ،آپ نے ان کو ملامت وسرزنش کی کہ تم نے ان خطرناک حالات میں کیوں فرار کیا ،مسلمان شرمندہ تھے انهوں نے معذرت کرتے هوئے کھا : یا رسول خدا ھم نے آپ کی شھادت کی خبر سنی تو خوف کی شدت سے بھاگ کھڑے هوے۔
مفسر عظیم مرحوم طبرسی، ابو القاسم بلخی سے نقل کرتے ھیں کہ جنگ احد کے دن( پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے علاوہ)سوائے تیرہ افرادکے تمام بھاگ گئے تھے، اور ان تیرہ میں سے آٹھ انصار اور پانچ مھاجرتھے، جن میں سے حضرت علی علیہ السلام اور طلحہ کے علاوہ باقی ناموں میں اختلاف ھے، البتہ دونوں کے بارے میں تمام موٴرخین کا اتفاق ھے کہ انھوں نے فرار نھیں کیا۔
یوں مسلمانوں کو جنگ احد میں بہت زیادہ جانی اورمالی نقصان کا سامنا کرنا،پڑا مسلمانوں کے ستر افراد شھید هوئے اور بہت سے زخمی هوگئے لیکن مسلمانوں کو اس شکست سے بڑا درس ملا جو بعد کی جنگوں میں ان کی کامیابی و کامرانی کا باعث بنا ۔

جنگ کا خطرناک مرحلہ
جنگ احد کے اختتام پر مشرکین کا فتحیاب لشکر بڑی تیزی کے ساتھ مکہ پلٹ گیا لیکن راستے میں انھیں یہ فکر دامن گیر هوئی کہ انهوں نے اپنی کامیابی کو ناقص کیوں چھوڑدیا ۔کیا ھی اچھا هو کہ مدینہ کی طرف پلٹ جائیں اور اسے غارت و تاراج کردیں اور اگر محمد زندہ هوں تو انھیں ختم کردیں تاکہ ھمیشہ کے لئے اسلام اور مسلمانوں کی فکر ختم هوجائے ، اور اسی بنا پر انھیں واپس لوٹنے کا حکم دیا گیا اور درحقیقت جنگ احد کا یہ وہ خطر ناک مرحلہ تھا کیونکہ کافی مسلمان شھید اور زخمی هوچکے تھے اور فطری طور پر وہ ازسر نو جنگ کرنے کے لئے آمادہ نھیں تھے ۔جبکہ اس کے برعکس اس مرتبہ دشمن پورے جذبہ کے ساتھ جنگ کرسکتا تھا۔
یہ اطلاع پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پہنچی تو آپ نے فوراً حکم دیا کہ جنگ احد میں شریک هونے والا لشکر دوسری جنگ کے لئے تیار هوجائے ،آپ نے یہ حکم خصوصیت سے دیا کہ جنگ احد کے زخمی بھی لشکر میں شامل هوں،(حضرت علی علیہ السلام نے جن کے بدن پر دشمنوں نے ۶۰زخم لگائے تھے،لیکن آپ پھر دوبارہ دشمنوں کے مقابلہ میں آگئے) ایک صحابی کہتے ھیں :
میں بھی زخمیوں میں سے تھا لیکن میرے بھائی کے زخم مجھ سے زیادہ شدید تھے ، ھم نے ارادہ کرلیا کہ جو بھی حالت هو ھم پیغمبر اسلام کی خدمت میں پهونچے گے، میری حالت چونکہ میرے بھائی سے کچھ بہتر تھی ، جھاں میرا بھائی نہ چل پاتا میں اسے اپنے کندھے پر اٹھالیتا، بڑی تکلیف سے ھم لشکر تک جا پہنچے، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور لشکر اسلام ”حمراء الاسد“ کے مقام پر پہنچ گئے اور وھاں پر پڑاؤ ڈالا یہ جگہ مدینہ سے آٹھ میل کے فاصلے پر تھی۔
یہ خبر جب لشکر قریش تک پہنچی خصوصاً جب انھوں نے مقابلہ کے لئے ایسی آمادگی دیکھی کہ زخمی بھی میدان جنگ میں پہنچ گئے ھیں تو وہ پریشان هوگئے اور ساتھ ھی انھیں یہ فکر بھی لاجق هوئی کہ مدینہ سے تازہ دم فوج ان سے آملی ھے۔
اس موقع پر ایسا واقعہ پیش آیا جس نے ان کے دلوں کو اور کمزور کردیا اور ان میں مقابلہ کی ھمت نہ رھی ، واقعہ یہ هوا کہ ایک مشرک جس کا نام ”معبد خزاعی“ تھا مدینہ سے مکہ کی طرف جارھا تھا اس نے پیغمبر اکرم اور ان کے اصحاب کی کیفیت دیکھی تو انتھائی متاثر هوا، اس کے انسانی جذبات میں حرکت پیدا هوئی، اس نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا: آپ کی یہ حالت و کیفیت ھمارے لئے بہت ھی ناگوار ھے آپ آرام کرتے تو ھمارے لئے بہتر هوتا، یہ کہہ کر وہ وھاں سے چل پڑااور” روحاء“ کے مقام پر ابو سفیان کے لشکر سے ملا، ابو سفیان نے اس سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں سوال کیا تو اس نے جواب میں کھا: میں نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا ھے کہ وہ ایسا عظیم لشکر لئے هوئے تمھارا تعاقب کرھے ھیں ایسا لشکر میں نے کبھی نھیں دیکھا او رتیزی سے آگے بڑھ رھے ھیں۔
ابوسفیان نے اضطراب اور پریشانی کے عالم میں کھا : تم کیا کہہ رھے هو؟ھم نے انھیں قتل کیا زخمی کیا اور منتشر کر کے ر کھ دیا تھا ،معبد خزاعی نے کھا: میں نھیں جانتا کہ تم نے پایا کیا ھے ،میں تو صرف یہ جانتا هوںکہ ایک عظیم اور کثیر لشکر اس وقت تمھارا تعاقب کر رھا ھے ۔
ابو سفیان اور اسکے سا تھیوں نے قطعی فیصلہ کر لیا کہ وہ تیزی سے پیچھے کی طرف ہٹ جا ئیں اور مکہ کی طرف پلٹ جا ئیں اور اس مقصد کے لئے کہ مسلمان ان کا تعاقب نہ کریں اور انھیں پیچھے ہٹ جا نے کا کا فی مو قع مل جا ئے ، انهوں نے قبیلہ عبد القیس کی ایک جما عت سے خواہش کی کہ وہ پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مسلما نوں تک یہ خبر پہنجا دیں کہ ابو سفیان اور قریش کے بت پر ست با قی ماندہ اصحا ب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ختم کرنے کے لئے ایک عظیم لشکر کے ساتھ تیزی سے مدینہ کی طرف آ رھے ھیں، یہ جما عت گندم خرید نے کے لئے مدینہ جا رھی تھی جب یہ اطلاع پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مسلما نوں تک پہنچی تو انهوں نے کھا :”حسبنا اللہ و نعم الو کیل“ (خدا ھمارے لئے کافی ھے اور وہ ھمارا بہترین حامی اور مدافع ھے )۔
انهوں نے بہت انتظار کیا لیکن دشمن کے لشکر کی کو ئی خبر نہ هو ئی ، لہٰذا تین روز توقف کے بعد ،وہ مدینہ کی طرف لوٹ گئے۔

کھوکھلی باتیں
جنگ بدر میں بعض مسلمانوں کی پر افتخا ر شھادت کے بعد بعض مسلمان جب باھم مل بیٹھتے تو ھمیشہ شھادت کی آرزو کرتے اور کہتے کاش یہ اعزاز میدان بدر میں ھمیں بھی نصیب هوجا تا ،یقینا ان میں کچھ لوگ سچے بھی تھے لیکن ان میں ایک جھوٹا گروہ بھی تھا جس نے اپنے آپ کو سمجھنے میں غلطی کی ،بھر حال زیادہ وقت نھیں گزرا تھا کہ جنگ احد کا وحشتناک معرکہ در پیش هوا تو ان سچے مجا ہدین نے بھادری سے جنگ کی اور جام شھادت نوش کیا اور اپنی آرزوکو پا لیا لیکن جھوٹوں کے گروہ نے جب لشکر اسلام میں شکست کے آثار دیکھے تو وہ قتل هونے کے ڈر سے بھاگ کھڑے هوئے تو یہ قرآن انھیں سرزنش کرتے هوئے کہتا ھے کہ” تم ایسے لوگ تھے کہ جو دلوں میں آرزو اور تمنائے شھادت کے دعویدار تھے، پھرجب تم نے اپنے محبوب کو اپنی آنکھوںکے سامنے دیکھا تو کیوںبھاگ کھڑے هوئے“۔[44]

حضرت علی علیہ السلام کے زخم
امام باقر علیہ السلام سے اس طرح منقول ھے:حضرت علی علیہ السلام کو احد کے دن اکسٹھ زخم لگے تھے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ”ام سلیم“ اور ”ام عطیہ“ کو حکم دیا کہ ہ دونوںحضرت علی علیہ السلام کے زخموںکا علاج کریں،تھوڑی ھی دیر گذری تھی کہ وہ حالت پریشانی میں آنحضرتکی خدمت میںعرض کرنے لگے: کہ حضرت علی علیہ السلام کے بدن کی کیفیت یہ ھے کہ ھم جب ایک زخم باندھتے ھیں تو دوسرا کھل جا تاھے اور ان کے بدن کے زخم اس قدرزیادہ اور خطرناک ھیں کہ ھم ان کی زندگی کے بارے میں پریشان ھیں تو حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور کچھ دیگر مسلمان حضرت علی علیہ السلام کی عیادت کے لئے ان کے گھرآئے جب کہ ان کے بدن پر زخم ھی زخم تھے پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے دست مبارک ان کے جسم سے مس کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ جو شخص راہ خدا میں اس حالت کو دیکھ لے وہ اپنی ھی ذمہ داری کے آخری درجہ کو پہنچ چکا ھے اور جن جن زخموں پرآپ ھاتھ رکھتے تھے وہ فوراًمل جاتے تھے تواس وقت حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: الحمدا للہ کہ ان حالات میں جنگ سے نھیں بھا گا اوردشمن کو پشت نھیں دکھائی خدا نے ان کی کو شش کی قدر دانی کی۔

ھم نے شکست کیوں کھائی ؟
کا فی شھید دےکر اور بہت نقصان اٹھا کر جب مسلمان مدینہ کی طرف پلٹ آئے تو ایک دوسرے سے کہتے تھے کہ کیا خدانے ھم سے فتح و کامیابی کا وعدہ نھیں کیا تھا،پھر اس جنگ میں ھمیں کیوں شکست هوئی ؟اسی سے قرآن میں انھیںجواب دیا گیا اور شکست کے اسباب کی نشاندھی کی گئی۔[45]
قرآن کہتا ھے کہ کامیابی کہ بارے میں خدا کا وعدہ درست تھا اور اس کی وجہ ھی سے تم ابتداء جنگ میں کامیاب هوئے اور حکم خدا سے تم نے دشمن کو تتر بتر کر دیا ۔ کامیا بی کا یہ وعدہ اس وقت تک تھا جب تک تم استقامت اور پائیداری اور فرمان پیغمبری صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیروی سے دست بردار نھیں هو ئے اور شکست کا دروازہ اس وقت کھلا جب سستی اور نا فرمائی نے تمھیں آگھیرا ،یعنی اگر تم نے یہ سمجھ رکھا ھے کہ کا میابی کا وعدہ بلا شرط تھا تو تمھاری بڑ ی غلط فھمی ھے بلکہ کامیابی کے تمام وعدے فرمان خدا کی پیروی کے ساتھ مشروط ھیں ۔

عمومی معافی کا حکم
جو لوگ واقعہٴ احد کے دوران جنگ سے فرار هوگئے تھے وہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گرد جمع هوگئے اور انهوں نے ندامت وپشیمانی کے عالم میںمعافی کی درخواست کی تو خدا ئے تعالیٰ نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے انھیں عام معافی دینے کے لئے فرمایا لہٰذا حکم الٰھی نازل هوتے ھی آپ نے فراخ دلی سے توبہ کرنے والے خطا کاروں کو معاف کردیا ۔
قرآن میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک بہت بڑی اخلاقی خوبی کی طرف اشارہ کیا گیا ھے کہ تم پروردگار کے لطف وکرم کے سبب ان پر مھربان هوگئے اور اگر تم ان کے لئے سنگدل،سخت مزاج اور تند خو هوتے اور عملا ًان پر لطف وعنایت نہ کرتے تو وہ تمھارے پاس سے بکھر جاتے ۔ اس کے بعد حکم دیا گیا کہ” ان کی کوتاھیوں سے درگزر فرمائیے اور انھیں اپنے دامن عفو میں جگہ دیجئے“۔[46]
یعنی اس جنگ میں انهوں نے جو بے وفائیاں آپ سے کی ھیں اور جو تکا لیف اس جنگ میں آپ کو پہنچائی ھیں ، ان کے لئے ان کی مغفرت طلب کیجئے اور میں خود ان کے لئے تم سے سفارش کرتا هوں کہ انهوں نے میری جو مخالفتیں کی ھیں ،مجھ سے ان کی مغفرت طلب کرو دوسرے لفظوں میں جو تم سے مربوط ھے اسے تم معاف کردو اورجو مجھ سے ربط رکھتا ھے اسے میں بخش دیتا هوں، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمان خدا پر عمل کرتے هوئے ان تمام خطا کاروں کو عام معافی دےدی ۔[47]

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شہداء سے مخاطب
ابن مسعود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ھیں : خدا نے شہداء بدرواحد کی ارواح کو خطاب کرتے هوئے ان سے پوچھا کہ تمھاری کیا آرزو ھے تو انهوں نے کھا : پروردگارا! ھم اس سے زیادہ کیا آرزو کرسکتے ھیںکہ ھم ھمیشہ کی نعمتوں میں غرق ھیں اور تیرے عرش کے سائے میں رہتے ھیں ، ھمارا تقاضا صرف یہ ھے کہ ھم دوبارہ دنیا کی طرف پلٹ جائیں اور پھر سے تیری راہ میں شھید هوں، اس پر خدا نے فرمایا : میرااٹل فیصلہ ھے کہ کوئی شخص دوبارہ دنیا کی طرف نھیں پلٹے گا ۔
انهوں نے عرض کیا : جب ایسا ھی ھے تو ھماری تمنا ھے کہ ھمارے پیغمبر کو ھماراسلام کو پہنچادے ، ھماری حالت ھمارے پسما ندگان کوبتادے اور انھیں ھماری حالت کی بشارت دے تاکہ ھمارے بارے میں انھیں کسی قسم کی پریشانی نہ هو۔

حنظلہ غسیل الملائلکہ
”حنظلہ بن ابی عیاش“ جس رات شادی کرنا چاہتے تھے اس سے اگلے دن جنگ احد برپاهوئی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے اصحاب سے جنگ کے بارے میں مشورہ کررھے تھے کہ وہ آپ کے پاس آئے اور عرض کی اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اجازت دےدیں تو یہ رات میں بیوی کے ساتھ گزرالوں ، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انھیں اجازت دےدی ۔
صبح کے وقت انھیں جھاد میں شرکت کرنے کی اتنی جلدی تھی کہ وہ غسل بھی نہ کرسکے اسی حالت میں معرکہٴ کارزار میں شریک هوگئے اور بالآخر جام شھادت نوش کیا ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا :میں نے فرشتوں کو دیکھا ھے کہ وہ آسمان وزمین کے درمیان حنظلہ کو غسل دے رھے ھیں ۔
اسی لئے انھیں حنظلہ کو:” غسیل الملائکہ“ کے نام سے یاد کیا جاتاھے ۔

قبیلہٴ بنی نضیر کی سازش
مدینہ میں یهودیوں کے تین قبیلے رہتے تھے ، بنی نظیر، بنو قریظہ اور بنو قینقاع، کھا جاتاھے کہ وہ اصلاً اھل حجازنہ تھے لیکن چونکہ اپنی مذھبی کتب میں انهوں نے پڑھا تھا کہ ایک پیغمبر مدینہ میں ظهور کرے گا لہٰذا انهوں نے اس سر زمین کی طرف کوچ کیا اور وہ اس عظیم پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے انتظار میں تھے۔
جس وقت رسول خدا نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو آپ نے ان کے ساتھ عدم تعرض کا عہد باندھا لیکن ان کو جب بھی موقع ملا انهوں نے یہ عہد توڑا ۔
دوسری عہد شکنیوں کے علاوہ یہ کہ جنگ احد(جنگ احد ہجرت کے تیسرے سال واقع هوئی ) کعب ابن اشرف چالیس سواروں کے ساتھ مکہ پہنچا وہ اور اس کے ساتھی سب قریش کے پاس اور ان سے عہد کیا کہ سب مل کر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خلاف جنگ کریں اس کے بعد ابوسفیان چالیس مکی افراد کے ساتھ اور کعب بن اشرف ان چالیس یهودیوں کے ساتھ مسجد الحرام میں وارد هوئے اور انهوں نے خانہ کعبہ کے پاس اپنے عہددپیمان کو مستحکم کیا یہ خبر بذریعہ وحی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مل گئی۔
دوسرے یہ کہ ایک روز پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے چند بزرگ اصحاب کے ساتھ قبیلہٴ بنی نضیر کے پاس آئے یہ لوگ مدینہ کے قریب رہتے تھے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے صحابہ کا حقیقی مقصدیہ تھا کہ آپ اس طرح بنی نظیر کے حالات قریب سے دیکھناچاہتے تھے اس لئے کہ کھیں ایسانہ هو کہ مسلمان غفلت کا شکار هوکر دشمنوں کے ھاتھوں مارے جائیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یهود یوںکے قلعہ کے باھر تھے آپ نے کعب بن اشرف سے اس سلسلہ میں بات کی اسی دوران یهودیوں کے درمیان سازش هونے لگی وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ایسا عمدہ موقع اس شخض کے سلسلہ میں دوبارہ ھاتھ نھیں آئے گا، اب جب کہ یہ تمھاری دیوار کے پاس بیٹھا ھے ایک آدمی چھت پر جائے اور ایک بہت بڑا پتھر اس پر پھینک دے اور ھمیں اس سے نجات دلادے ایک یهودی ،جس کا نام عمر بن حجاش تھا ،اس نے آمادگی ظاھر کی وہ چھت پر چلا گیا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بذریعہ وحی باخبر هوگئے اور وھاں سے اٹھ کر مدینہ آگئے آپ نے اپنے اصحاب سے کوئی بات نھیں کی ان کا خیال تھا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوٹ کر مدینہ جائیں گے ان کو معلوم هوا کہ آپ مدینہ پہنچ گئے ھیں چنانچہ وہ بھی مدینہ پلٹ آئے یہ وہ منزل تھی کہ جھاں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر یهودیوں کی پیما ن شکنی واضح وثابت هوگئی تھی آپ نے مسلمانوں کو جنگ کے لئے تیار هوجانے کا حکم دیا۔
بعض روایات میں یہ بھی آیا ھے کہ بنی نظیر کے ایک شاعر نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہجومیں کچھ اشعار کھے اور آپ کے بارے میں بد گوئی بھی کی ان کی پیمان شکنی کی یہ ایک اور دلیل تھی۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس وجہ سے کہ ان پر پھلے سے ایک کاری ضرب لگائیں ، محمد بن مسلمہ کو جو کعب بن اشرف رئیس یهود سے آشنائی رکھتا تھا ،حکم دیا کہ وہ کعب کو قتل کردے اس نے کعب کو قتل کردیا، کعب بن اشرف کے قتل هوجانے نے یهودیوں کو متزلزل کردیا،ا س کے ساتھ ھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا کہ ھر مسلمان اس عہد شکن قوم سے جنگ کرنے کے لئے چل پڑے جس وقت وہ اس صورت حال سے باخبر هوئے تو انهوں نے اپنے مضبوط ومستحکم قلعوں میں پناہ لے لی اور دروازے بند کرلئے ،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا کہ وہ چند کھجوروں کے درخت جو قلعوں کے قریب ھیں ، کاٹ دیے جائیں یا جلادئے جائیں۔
یہ کام غالبا ًاس مقصد کے پیش نظر هوا کہ یهودی اپنے مال واسباب سے بہت محبت رکھتے تھے وہ اس نقصان کی وجہ سے قلعوں سے باھرنکل کر آمنے سامنے جنگ کریں گے مفسرین کی طرف سے یہ احتمال بھی تجویز کیا گیا ھے کہ کاٹے جانے والے کھجوروں کے یہ درخت مسلمانوں کی تیز نقل وحرکت میں رکاوٹ ڈالتے تھے لہٰذا انھیں کاٹ دیا جانا چاہئے تھا بھرحال اس پر یهودیوں نے فریاد کی انهوں نے کھا :”اے محمد ًآپ تو ھمیشہ اس قسم کے کاموں سے منع کرتے تھے یہ کیا سلسلہ ھے” تو اس وقت وحی نازل هوئی[48] اور انھیں جواب دیا کہ یہ ایک مخصوص حکم الٰھی تھا۔
محاصرہ نے کچھ دن طول کھینچا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خوں ریزی سے پرھیز کرتے هوئے ان سے کھا کہ وہ مدینہ کو خیر باد کہہ دیں اور کھیں دوسری جگہ چلے جائیں انهوں نے اس بات کو قبول کرلیا کچھ سامان اپنا لے لیا اور کچھ چھوڑدیا ایک جماعت” اذرعات “ شام کی طرف اور ایک مختصر سی تعداد خیبر کی طرف چلی گئی ایک گروہ” حیرہ“ کی طرف چلا گیا ان کے چھوڑے هوئے اموال،زمینیں،باغات اور گھر مسلمانوں کے ھاتھ لگے، چلتے وقت جتنا ان سے هوسکا انهوں نے اپنے گھر توڑپھوڑدئےے یہ واقعہ جنگ احد کے چھ ماہ بعد اور ایک گروہ کی نظرکے مطابق جنگ بدر کے چھ ماہ بعد هوا [49]

جنگ احزاب
تاریخ اسلام کے اھم حادثوںمیں سے ایک جنگ احزاب بھی ھے یہ ایک ایسی جنگ جو تاریخ اسلام میں ایک اھم تاریخی موڑ ثابت هوئی اور اسلام وکفر کے درمیان طاقت کے موازنہ کے پلڑے کو مسلمانوں کے حق میں جھکادیا اور اس کی کامیابی آئندہ کی عظیم کامیابیوں کے لئے کلیدی حیثیت اختیارکر گئی اور حقیقت یہ ھے کہ اس جنگ میں دشمنوں کی کمر ٹوٹ گئی اور اس کے بعد وہ کوئی خاص قابل ذکر کار نامہ انجام دینے کے قابل نہ رہ سکے ۔
” یہ جنگ احزاب“ جیسا کہ اس کے نام سے ظاھر ھے تمام اسلام دشمن طاقتوں اور ان مختلف گرو هوں کی طرف سے ھر طرح کا مقابلہ تھا کہ اس دین کی پیش رفت سے ان لوگوں کے ناجائز مفادات خطرے میں پڑگئے تھے ۔ جنگ کی آگ کی چنگاری”نبی نضیر“ یهودیوں کے اس گروہ کی طرف سے بھڑکی جو مکہ میں آئے اور قبیلہ ”قریش“ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے لڑنے پر اکسایا اور ان سے وعدہ کیا کہ آخری دم تک ان کا ساتھ دیں گے پھر قبیلہ ”غطفان “ کے پاس گئے اور انھیں بھی کارزار کے لئے آمادہ کیا ۔
ان قبائل نے اپنے ھم پیمان اور حلیفوں مثلاً قبیلہ ” بنی اسد “ اور” بنی سلیم “ کو بھی دعوت دی اور چونکہ یہ سب قبائل خطرہ محسوس کئے هوئے تھے، لہٰذا اسلام کا کام ھمیشہ کے لئے تمام کرنے کے لئے ایک دوسرے کے ھاتھ میں ھاتھ دےدیا تاکہ وہ اس طرح سے پیغمبر کو شھید ، مسلمانوں کو سر کوب ، مدینہ کو غارت اور اسلام کا چراغ ھمیشہ کے لئے گل کردیں ۔

کل ایمان کل کفر کے مقابلہ میں
جنگ احزاب کفر کی آخری کوشش ،ان کے ترکش کا آخری تیراور شرک کی قوت کا آخری مظاھرہ تھا اسی بنا پر جب دشمن کا سب سے بڑا پھلو ان عمروبن عبدودعالم اسلام کے دلیر مجاہد حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے مقابلہ میں آیا تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :”سارے کا سارا ایمان سارے کے سارے (کفر اور ) شرک کے مقابلہ میں آگیا ھے “۔
کیونکہ ان میں سے کسی ایک کی دوسرے پر فتح کفر کی ایمان پر یا ایمان کی کفر پر مکمل کا میابی تھی دوسرے لفظوں میں یہ فیصلہ کن معرکہ تھا جو اسلام اور کفر کے مستقبل کا تعین کررھا تھا اسی بناء پر دشمن کی اس عظیم جنگ اور کار زار میں کمر ٹوٹ گئی اور اس کے بعد ھمیشہ مسلمانوں کاپلہ بھاری رھا ۔
دشمن کا ستارہٴ اقبال غروب هوگیا اور اس کی طاقت کے ستون ٹوٹ گئے اسی لئے ایک حدیث میں ھے کہ حضرت رسول گرامی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جنگ احزاب کے خاتمہ پر فرمایا :
”اب ھم ان سے جنگ کریں گے اور ان میں ھم سے جنگ کی سکت نھیں ھے“ ۔

لشکر کی تعداد
بعض موٴرخین نے لشکر کفار کی تعداد دس ہزار سے زیادہ لکھی ھے ۔مقریزی اپنی کتاب ”الا متاع “ میں لکھتے ھیں :”صرف قریش نے چارہزار جنگ جوؤں ، تین سو گھوڑوں اور پندرہ سواونٹوں کے ساتھ خندق کے کنارے پڑاؤ ڈالا تھا ،قبیلہٴ” بنی سلیم “سات سو افراد کے ساتھ ”مرالظھران “ کے علاقہ میں ان سے آملا، قبیلہ ”بنی فرازہ“ ہزار افراد کے ساتھ ، ”بنی اشجع“ اور” بنی مرہ“ کے قبائل میں سے ھر ایک چار چار سو افراد کے ساتھ پہنچ گیا ۔ اور دوسرے قبائل نے بھی اپنے آدمی یہ بھیجے جن کی مجموعی تعداد دس ہزار سے بھی زیادہ بنتی ھے “
جبکہ مسلمانوں کی تعداد تین ہزار سے زیادہ نہ تھی انهوں نے (مدینہ کے قریب )” سلع “ نامی پھاڑی کے دامن کو جو ایک بلند جگہ تھی وھاںپر لشکر کفر نے مسلمانوں کا ھر طرف سے محاصرہ کرلیا اور ایک روایت کے مطابق بیس دن دوسری روایت کے مطابق پچیس دن اور بعض روایات کے مطابق ایک ماہ تک محاصرہ جاری رھا ۔
باوجودیکہ دشمن مسلمانوں کی نسبت مختلف پھلوؤں سے برتری رکھتا تھا لیکن جیسا کہ ھم کہہ چکے ھیں ،آخر کار ناکام هو کر واپس پلٹ گیا۔

خندق کی کھدائی
خندق کے کھودنے کا سلسلہ حضرت سلمان فارسی ۻکے مشورہ سے وقوع پذیر هوا خندق کے اس زمانے میں ملک ایران میں دفاع کا موثر ذریعہ تھا اور جزیرة العرب میں اس وقت تک اس کی مثال نھیں تھی اور عرب میں اس کا شمار نئی ایجادات میں هوتا تھا اطراف مدینہ میں اس کا کھود نا فوجی لحاظ سے بھی اھمیت کا حامل تھا یہ خندق دشمن کے حوصلوں کو پست کرنے اور مسلمانوں کے لئے روحانی تقویت کا بھی ایک موثر ذریعہ تھی ۔
خندق کے کو ائف اور جزئیات کے بارے میں صحیح طور پر معلومات تک رسائی تو نھیں ھے البتہ مورخین نے اتنا ضرور لکھا ھے کہ اس کا عرض اتنا تھاکہ دشمن کے سوار جست لگا کر بھی اس کو عبور نھیں کرسکتے تھے اس کی گھرائی یقینا اتنی تھی کہ اگر کو ئی شخص اس میں داخل هوجاتاھے تو آسانی کے ساتھ دوسری طرف باھر نھیں نکل سکتا تھا ،علاوہ ازیں مسلمان تیر اندازوں کا خندق والے علاقے پر اتنا تسلط تھا کہ اگر کوئی شخص خندق کو عبور کرنے کا ارداہ کرتا تھا تو ان کے لئے ممکن تھا کہ اسے خندق کے اندرھی تیر کا نشانہ بنالیتے ۔
رھی اس کی لمبائی تو مشهور روایت کو مد نظر رکھتے هوئے کہ حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دس ،دس افراد کو چالیس ھاتھ (تقریباً ۲۰ میڑ) خندق کھودنے پر مامور کیا تھا،اور مشهور قول کے پیش نظر لشکر اسلام کی تعداد تین ہزار تھی تو مجموعی طورپر اس کی لمبائی اندازاً بارہ ہزار ھاتھ (چھ ہزار میڑ) هوگی۔
اس بات کا بھی اعتراف کرنا چاہئے کہ اس زمانے میںنھایت ھی ابتدائی وسائل کے ساتھ اس قسم کی خندق کھودنا بہت ھی طاقت فرسا کام تھا خصوصاً جب کہ مسلمان خوراک اور دوسرے وسائل کے لحاظ سے بھی سخت تنگی میں تھے ۔
یقینا خندق کھودی بھی نھایت کم مدت میں گئی یہ امر اس بات کی نشاندھی کرتا ھے کہ لشکر اسلام پوری هوشیاری کے ساتھ دشمن کے حملہ آور هونے سے پھلے ضروری پیش بندی کرچکا تھا اور وہ بھی اس طرح سے کہ لشکر کفر کے مدینہ پہنچنے سے تین دن پھلے خندق کی کھدائی کا کام مکمل هوچکا تھا۔

عمرو بن عبدود دسے حضرت علی (ع)کی تاریخی جنگ
اس جنگ کا ایک اھم واقعہ حضرت علی علیہ السلام کا دشمن کے لشکر کے نامی گرامی پھلو ان عمروبن عبددد کے ساتھ مقابلہ تھا تاریخ میں آیا ھے کہ لشکر احزاب نے جن دلاوران عرب میں سے بہت طاقت ور افراد کو اس جنگ میں اپنی امداد کے لئے دعوت دے رکھی تھی، ان میں سے پانچ افراد زیادہ مشهور تھے، عمروبن عبدود ، عکرمہ بن ابی جھل ،ھبیرہ ، نوفل اور ضرار یہ لوگ دوران محاصرہ ایک دن دست بدست لڑائی کے لئے تیار هوئے ، لباس جنگ بدن پر سجایا اور خندق کے ایک کم چوڑے حصے سے ، جو مجاہدین اسلام کے تیروں کی پہنچ سے کسی قدر دور تھا ، اپنے گھوڑوں کے ساتھ دوسری طرف جست لگائی اور لشکر اسلام کے سامنے آکھڑے هوئے ان میں سے عمروبن عبدود زیادہ مشهور اور نامور تھا اس کی”کوئی ھے بھادر “کی آواز میدان احزاب میں گونجی اور چونکہ مسلمانوں میں سے کوئی بھی اس کے مقابلہ کے لئے تیار نہ هوا لہٰذا وہ زیادہ گستاخ هوگیا اور مسلمانوں کے عقاید اورنظریات کا مذاق اڑا نے لگا اور کہنے لگا :
”تم تویہ کہتے هو کہ تمھارے مقتول جنت میں ھیں اور ھمارے مقتول جہنم میں توکیاتم میں سے کوئی بھی ایسا نھیں جسے میں بہشت میں بھیجوں یا وہ مجھے جہنم کی طرف روانہ کرے ؟“
اس موقع پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا کہ کوئی شخص کھڑا هواور اس کے شر کو مسلمانوں کے سرسے کم کردے لیکن حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے سوا کوئی بھی اس کے ساتھ جنگ کے لئے آمادہ نہ هوا تو آنحضرت نے علی ابن اطالب علیہ السلام سے فرمایا : یہ عمر وبن عبدود ھے “ حضرت علی علیہ السلام نے عرض کی حضور : میں بالکل تیار هوں خواہ عمروھی کیوں نہ هو، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا ” میرے قریب آؤ : چنانچہ علی علیہ السلام آپ کے قریب گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے سر پر عمامہ باندھا اور اپنی مخصوص تلوار ذوالفقار انھیں عطا فرمائی اور ان الفاظ میں انھیں دعا دی :
خدایا ،علی کے سامنے سے ، پیچھے سے ، دائیں اور بائیں سے اور اوپر اور نیچے سے حفاظت فرما ۔
حضرت علی علیہ السلام بڑی تیزی سے عمرو کے مقابلہ کےلئے میدان میں پہنچ گئے ۔
یھی وہ موقع تھا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ختمی المرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ مشهور جملہ ارشاد فرمایا :
”کل ایمان کل کفر کے مقابلہ میں جارھا ھے “۔
ضربت علی (ع) ثقلین کی عبادت پر بھاری
امیر المو منین علی علیہ السلام نے پھلے تو اسے اسلام کی دعوت دی جسے اس نے قبول نہ کیا پھر میدان چھوڑکر چلے جانے کو کھا اس پر بھی اس نے انکار کیا اور اپنے لئے باعث ننگ وعار سمجھا آپ کی تیسری پیشکش یہ تھی کہ گھوڑے سے اتر آئے اور پیادہ هوکر دست بدست لڑائی کرے ۔
عمرو آگ بگولہ هوگیا اور کھا کہ میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ عرب میں سے کوئی بھی شخص مجھے ایسی تجویزدے گا گھوڑے سے اتر آیا اور علی علیہ السلام پر اپنی تلوار کا وار کیا لیکن امیرالمومنین علی علیہ السلام نے اپنی مخصوص مھارت سے اس وار کو اپنی سپرکے ذریعے روکا ،مگر تلوار نے سپر کو کاٹ کرآپ کے سرمبارک کو زخمی کردیا اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام نے ایک خاص حکمت عملی سے کام لیا عمر وبن عبدود سے فرمایا :تو عرب کا زبردست پھلو ان ھے ، جب کہ میں تجھ سے تن تنھا لڑرھا هوں لیکن تو نے اپنے پیچھے کن لوگوں کو جمع کررکھا ھے اس پر عمر ونے جیسے ھی پیچھے مڑکر دیکھا ۔
حضرت علی علیہ السلام نے عمرو کی پنڈلی پر تلوار کا وار کیا ، جس سے وہ سروقد زمین پر لوٹنے لگا شدید گردوغبار نے میدان کی فضا کو گھیررکھا تھا کچھ منافقین یہ سوچ رھے تھے کہ حضرت علی علیہ السلام ، عمرو کے ھاتھوں شھید هوگئے ھیں لیکن جب انھوں نے تکبیر کی آواز سنی تو علی کی کامیابی ان پر واضح هوگئی اچانک لوگوں نے دیکھا کہ آپ کے سرمبارک سے خون بہہ رھا تھا اور لشکر گاہ اسلام کی طرف خراماں خراماں واپس آرھے تھے جبکہ فتح کی مسکراہٹ آپ کے لبوں پر کھیل رھی تھی اور عمر و کا پیکر بے سر میدان کے کنارے ایک طرف پڑا هوا تھا ۔
عرب کے مشهور پھلوان کے مارے جانے سے لشکر احزاب اور ان کی آرزوؤں پر ضرب کاری لگی ان کے حوصلے پست اور دل انتھائی کمزور هوگئے اس ضرب نے ان کی فتح کی آرزووٴں پر پانی پھیردیا اسی بناء پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کامیابی کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام سے ارشاد فرمایا :
”اگر تمھارے آج کے عمل کو ساری امت محمد کے اعمال سے موازنہ کریں تو وہ ان پر بھاری هوگا، کیونکہ عمرو کے مارے جانے سے مشرکین کا کوئی ایسا گھر باقی نھیں رھا جس میں ذلت وخواری داخل نہ هوئی هو اور مسلمانوں کا کوئی بھی گھر ایسا نھیں ھے جس میں عمرو کے قتل هوجانے کی وجہ سے عزت داخل نہ هوئی هو“ ۔
اھل سنت کے مشهور عالم ، حاکم نیشاپوری نے اس گفتگو کو نقل کیا ھے البتہ مختلف الفاظ کے ساتھ اور وہ یہ ھے :
” لمبارزة علی بن ابیطالب لعمروبن عبدود یوم الخندق افضل من اعمال امتی الی یوم القیامة “
” یعنی علی بن ابی طالب کی خندق کے دن عمروبن عبدود سے جنگ میری امت کے قیامت تک کے اعمال سے ا فضل ھے “
آپ کے اس ارشاد کا فلسفہ واضح ھے ، کیونکہ اس دن اسلام اور قرآن ظاھراً نابودی کے کنارے پر پہنچ چکے تھے، ان کے لئے زبردست بحرانی لمحات تھے،جس شخص نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی فداکاری کے بعد اس میدان میں سب سے زیادہ ایثار اور قربانی کا ثبوت دیا،اسلام کو خطرے سے محفوظ رکھا، قیامت تک اس کے دوام کی ضمانت دی،اس کی فداکاری سے اسلام کی جڑیں مضبوط هوگئیں اور پھر اسلام عالمین پر پھیل گیا لہٰذا سب لوگوں کی عبادتیں اسکی مرهون منت قرار پا گئیں۔
بعض مورخین نے لکھا ھے کہ مشرکین نے کسی آدمی کو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں بھیجا تاکہ وہ عمر و بن عبدود کے لاشہ کو دس ہزار درھم میں خرید لائے (شاید ان کا خیال یہ تھا کہ مسلمان عمرو کے بدن کے ساتھ وھی سلوک کریں گے جو سنگدل ظالموںنے حمزہکے بدن کےساتھ جنگ میں کیاتھا)لیکن رسول اکرم نے فرمایا: اس کا لاشہ تمھا ری ملکیت ھے ھم مردوں کی قیمت نھیں لیا کرتے۔
یہ نکتہ بھی قابل توجہ ھے کہ جس وقت عمرو کی بہن اپنے بھائی کے لاشہ پر پہنچی اوراس کی قیمتی زرہ کو دیکھا کہ حضرت علی علیہ السلام نے اس کے بدن سے نھیں اتاری تو اس نے کھا:
”میں اعتراف کرتی هوں کہ اس کا قاتل کریم اور بزرگوارشخص ھی تھا“

نعیم بن مسعود کی داستان اور دشمن کے لشکر میں پھوٹ
نعیم جو تازہ مسلمان تھے اور ان کے قبیلہ”غطفان “کو لشکر اسلام کی خبر نھیں تھی،وہ پیغمبر اکرم کی خدمت میں آئے اور عرض کی کہ آپمجھے جو حکم بھی دیں گے ،میں حتمی کامیابی کے لئے اس پر کار بند رهوں گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :
”تمھارے جیسا شخص ھمارے درمیان اور کوئی نھیںھے ۔اگر تم دشمن کے لشکر کے درمیان پھوٹ ڈال سکتے هو تو ڈ الو! ۔کیونکہ جنگ پوشیدہ تدابیر کا مجموعہ ھے “۔
نعیم بن مسعود نے ایک عمدہ تدبیر سوچی اور وہ یہ کہ وہ بنی قریظہ کے یهودیوںکے پاس گیا ،جن سے زمانہٴ جاھلیت میں ان کی دوستی تھی ان سے کھا اے بنی قریظہ !تم جانتے هوکہ مجھے تمھارے ساتھ محبت ھے۔
انھوں نے کھا آپ سچ کہتے ھیں :ھم آپ پراس بارے میں ھر گز کوئی الزام نھیں لگاتے ۔
نعیم بن مسعود نے کھا :قبیلہ قریش اور عظفان تمھاری طرح نھیں ھیں، یہ تمھارا اپنا شھر ھے، تمھارا مال اولاد اور عورتیں یھاں پر ھیں اور تم ھر گز یہ نھیں کر سکتے کہ یھاں سے کو چ کر جا ؤ۔
قریش اور قبیلہ عظفان محمد اور ان کے اصحاب کے ساتھ جنگ کرنے کے لے آئے هوئے ھیںاور تم نے ان کی حمایت کی ھے جبکہ ان کا شھر کھیںاو رھے اور ان کے مال او رعورتیں بھی دوسری جگہ پر ھیں، اگر انھیں موقع ملے تو لوٹ مار اور غارت گری کر کے اپنے ساتھ لے جائیں گے، اگر کوئی مشکل پیش آجا ئے تو اپنے شھر کو لوٹ جائیں گے، لیکن تم کو اور محمدکو تو اسی شھر میں رہنا ھے او ریقیناتم اکیلے ان سے مقابلہ کرنے کی طاقت نھیں رکھتے ،تم اس وقت تک اسلحہ نہ اٹھاؤجب تک قریش سے کوئی معاہدہ نہ کر لو او رو ہ اس طرح کہ وہ چندسرداروں اور بزرگوں کو تمھارے پاس گروی رکھ دیں تاکہ وہ جنگ میں کو تاھی نہ کریں۔
بنی قریظہ کے یهودیوں نے اس نظریہ کوبہت سراھا۔
پھر نعیم مخفی طور پر قریش کے پاس گیا اور ابو سفیان اور قریش کے چندسرداروں سے کھا کہ تم اپنے ساتھ میری دوستی کی کیفیت سے اچھی طرح آگاہ هو، ایک بات میرے کانوںتک پہنچی ھے، جسے تم تک پہنچا نا میں اپنا فریضہ سمجھتا هوں تا کہ خیر خواھی کا حق اداکر سکوں لیکن میری خواہش یہ ھے کہ یہ بات کسی او رکو معلو م نہ هونے پائے ۔

انھوں نے کھا کہ تم بالکل مطمئن رهو ۔
نعیم کہنے لگے : تمھیں معلوم هو نا چاھیے کہ یهودی محمد کے بارے میںتمھارے طرز عمل سے اپنی برائت کا فیصلہ کر چکے ھیں ،یهودیوں نے محمد کے پاس قاصد بھیجا ھے او رکھلوایا ھے کہ ھم اپنے کئے پر پشیمان ھیں اور کیا یہ کافی هو گا کہ ھم قبیلہ قریش او رغطفان کے چندسردار آپکے لئے یرغمال بنالیں اور ان کو بندھے ھاتھوں آپ کے سپرد کردیں تاکہ آپ ان کی گردن اڑادیں، اس کے بعد ھم آپ کے ساتھ مل کر ان کی بیخ کنی کریں گے ؟محمد نے بھی ان کی پیش کش کوقبول کرلیا ھے، اس بنا ء پر اگر یهودی تمھارے پاس کسی کو بھیجیں او رگروی رکھنے کا مطالبہ کریں تو ایک آدمی بھی ان کے سپرد نہ کر نا کیونکہ خطرہ یقینی ھے ۔
پھر وہ اپنے قبیلہ غطفان کے پاس آئے اور کھا :تم میرے اصل اور نسب کو اچھی طرح جانتے هو۔ میں تمھاراعاشق او رفریفتہ هوں او رمیں سوچ بھی نھیں سکتا کہ تمھیں میرے خلوص نیت میںتھوڑا سابھی شک اور شبہ هو ۔
انھوںنے کھا :تم سچ کہتے هو ،یقینا ایسا ھی ھے ۔
نعیم نے کھا : میںتم سے ایک بات کہنا چاہتا هوں لیکن ایسا هو کہ گو یا تم نے مجھ سے بات نھیں سنی ۔
انھوں نے کھا :مطمئن رهویقینا ایسا ھی هو گا ،وہ بات کیا ھے ؟
نعیم نے وھی بات جو قریش سے کھی تھی یهودیوں کے پشیمان هونے او ریر غمال بنانے کے ارادے کے بارے میں حرف بحرف ان سے بھی کہہ دیا او رانھیں اس کام کے انجام سے ڈرایا ۔
اتفاق سے وہ ( ماہ شوال سن ۵ ہجری کے ) جمعہ او رہفتہ کی درمیانی رات تھی ۔ ابو سفیان او رغطفان کے سرداروں نے ایک گروہ بنی قریظہ کے یهودیوںکے پاس بھیجا او رکھا : ھمارے جانور یھاں تلف هو رھے ھیں اور یھاں ھمارے لئے ٹھھر نے کی کو ئی جگہ نھیں ۔ کل صبح ھمیں حملہ شروع کرنا چاھیے تاکہ کام کو کسی نتیجے تک پہنچائیں ۔
یهودیوں نے جواب میں کھا :کل ہفتہ کا دن ھے او رھم اس دن کسی کام کو ھاتھ نھیں لگاتے ،علاوہ ازیں ھمیں اس بات کا خوف ھے کہ اگر جنگ نے تم پر دباؤ ڈالا تو تم اپنے شھروں کی طرف پلٹ جاؤ گے او رھمیں یھاں تنھاچھوڑدوگے ۔ ھمارے تعاون او رساتھ دینے کی شرط یہ ھے کہ ایک گروہ گروی کے طور پر ھمارے حوالے کردو، جب یہ خبر قبیلہ قریش او رغطفان تک پہنچی تو انھوں نے کھا :خداکی قسم نعیم بن مسعود سچ کہتا تھا،دال میں کالا ضرو رھے ۔
لہٰذا انھوںنے اپنے قاصد یهودیوں کے پاس بھیجے اور کھا : بخدا ھم تو ایک آدمی بھی تمھارے سپرد نھیں کریں گے او راگر جنگ میں شریک هو تو ٹھیک ھے شروع کرو ۔
بنی قریظہ جب اس سے با خبر هوئے تو انھوں نے کھا :واقعا نعیم بن مسعود نے حق بات کھی تھی !یہ جنگ نھیں کرنا چاہتے بلکہ کوئی چکر چلا رھے ھیں، یہ چا ہتے ھیں کہ لوٹ مار کر کے اپنے شھروں کو لوٹ جائیں او رھمیں محمد کے مقابلہ میں اکیلا چھوڑجا ئیں پھر انهوں نے پیغام بھیجا کہ اصل بات وھی ھے جو ھم کہہ چکے ھیں ،بخدا جب تک کچھ افرادگروی کے طور پر ھمارے سپرد نھیں کروگے ،ھم بھی جنگ نھیں کریں گے ،قریش اورغطفان نے بھی اپنی بات پراصرار کیا، لہٰذا ان کے درمیان بھی اختلاف پڑ گیا ۔ اور یہ وھی موقع تھا کہ رات کو اس قدر زبردست سرد طوفانی هوا چلی کہ ان کے خیمے اکھڑگئے اور دیگیں چو لهوں سے زمین پر آپڑیں ۔
یہ سب عوامل مل ملاکر اس بات کا سبب بن گئے کہ دشمن کو سر پر پاؤں رکھ کر بھا گنا پڑا اور فرار کو قرار پر ترجیح دینی پڑی ۔ یھاں تک کہ میدان میں انکا ایک آدمی بھی نہ رھا۔

حذیفہ کا واقعہ
بہت سی تواریخ میں آیا ھے ،کہ حذیفہ یمانی کہتے ھیں کہ ھم جنگ خندق میں بھوک او رتھکن ،وحشت اوراضطراب اس قدر دو چار تھے کہ خدا ھی بہتر جانتا ھے ،ایک رات (لشکر احزاب میں اختلاف پڑ جانے کے بعد )پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:کیا تم میں سے کوئی ایسا شخص ھے جو چھپ چھپا کر دشمن کی لشکر گاہ میں جائے اور ان کے حالات معلوم کر لائے تا کہ وہ جیت میں میرا رفیق اور ساتھی هو۔
حذیفہ کہتے ھیں: خدا کی قسم کوئی شخض بھی شدت وحشت ، تھکن اور بھوک کے مارے اپنی جگہ سے نہ اٹھا ۔
جس وقت آنحضرتنے یہ حالت دیکھی تو مجھے آوازدی، میں آپ کی خدمت میں حاضر هوا تو فرمایاجاؤ اور میرے پاس ان لوگوں کی خبر لے آؤ ۔ لیکن وھاںکوئی اور کام انجام نہ دینا یھاں تک کہ میرے پاس آجاؤ ۔
میںایسی حالت میں وھاںپہنچا جب کہ سخت آندھی چل رھی تھی اور طوفان برپا تھا اور خدا کا یہ لشکر انھیں تہس نہس کررھا تھا ۔ خیمے تیز آندھی کے سبب هوا میںاڑ رھے تھے ۔ آگ بیابان میں پھیل چکی تھی۔ کھانے کے برتن الٹ پلٹ گئے تھے اچانک میںنے ابو سفیان کا سایہ محسوس کیاکہ وہ اس تاریکی میں بلند آواز سے کہہ رھا تھا: اے قریش ! تم میں سے ھر ایک اپنے پھلو میں بیٹھے هوئے کو اچھی طرح سے پہچان لے تا کہ یھاں کوئی بے گانہ نہ هو ، میںنے پھل کر کے فوراًھی اپنے پاس بیٹھنے والے شخص سے پوچھا کہ تو کون ھے ؟ اس نے کھا ، فلاں هوں ، میں نے کھابہت اچھا ۔
پھر ابو سفیان نے کھا:خدا کی قسم !یہ ٹھھرنے کی جگہ نھیں ھے، ھمارے اونٹ گھوڑے ضائع هو چکے ھیں اور بنی قریظہ نے اپنا پیمان توڑ ڈالا ھے اور اس طوفان نے ھمارے لئے کچھ نھیں چھوڑا ۔
پھر وہ بڑی تیزی سے اپنے اونٹ کی طرف بڑھا اور سوار هو نے کے لئے اسے زمین سے اٹھا یا، اور اس قدر جلدی میں تھا کہ اونٹ کے پاؤںمیں بندھی هوئی رسی کھولنا بھول گیا ،لہٰذا اونٹ تین پاؤں پر کھڑا هو گیا، میں نے سوچا ایک ھی تیرسے اسکا کام تمام کردوں،ابھی تیر چلہ کمان میں جوڑا ھی تھا کہ فوراًآنحضرت کا فرمان یادآگیا کہ جس میں آپ نے فرمایا تھا کچھ کاروائی کے بغیر واپس آجا نا،تمھارا کام صرف وھاں کے حالات ھمارے پاس لانا ھے، لہٰذا میں واپس پلٹ گیا اور جا کر تمام حا لات عرض کئے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بارگاہ ایزدی میں عرض کیا :
”خداوندا ! تو کتاب کو نازل کرنے والا او رسریع الحساب ھے ، توخود ھی احزاب کو نیست و نا بو دفرما !خدایا ! انھیں تباہ کردے اور ان کے پاؤں نہ جمنے دے “۔

جنگ احزاب قرآن کی روشنی میں
قرآن اس ماجرا تفصیل بیان کرتے هوئے کہتا ھے: ”اے وہ لوگ! جو ایمان لائے هو، اپنے اوپر خدا کی عظیم نعمت کو یاد کرو،اس موقع پر جب کہ عظیم لشکر تمھاری طرف آئے “۔[50]
”لیکن ھم نے ان پر آندھی اور طوفان بھیجے اور ایسے لشکر جنھیں تم نھیں دیکھتے رھے تھے اور اس ذریعہ سے ھم نے ان کی سرکوبی کی اور انھیں تتر بتر کردیا “۔[51]
” نہ دکھنے والے لشکر “ سے مراد جو رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نصرت کے لئے آئے تھے ، وھی فرشتے تھے جن کا مومنین کی جنگ بدر میں مدد کرنا بھی صراحت کے ساتھ قرآن مجید میں آیا ھے لیکن جیسا (کہ سورہٴ انفال کی آیہ ۹ کے ذیل میں) ھم بیان کرچکے ھیں ھمارے پاس کوئی دلیل نھیں ھے کہ یہ نظر نہ آنے والا فرشتوں کا خدائی لشکر باقاعدہ طور پر میدان میں داخل هوا اور وہ جنگ میں بھی مصروف هوا هو بلکہ ایسے قرائن موجود ھیں جو واضح کرتے ھیں کہ وہ صرف مومنین کے حوصلے بلند کرنے اور ان کا دل بڑھانے کے لئے نازل هوئے تھے ۔
بعد والی آیت جو جنگ احزاب کی بحرانی کیفیت ، دشمنوں کی عظیم طاقت اور بہت سے مسلمانوں کی شدید پریشانی کی تصویر کشی کرتے هوئے یوں کہتی ھے !” اس وقت کو یاد کرو جب وہ تمھارے شھر کے اوپر اور نیچے سے داخل هوگئے ،اور مدینہ کو اپنے محاصرہ میں لے لیا) اور اس وقت کو جب آنکھیں شدت وحشت سے پتھرا گئی تھیں اور جاںبلب هوگئے تھے اور خدا کے بارے میں طرح طرح کی بدگمانیان کرتے تھے “۔[52]
اس کیفیت سے مسلمانوں کی ایک جماعت کے لئے غلط قسم کے گمان پیدا هوگئے تھے کیونکہ وہ ابھی تک ایمانی قوت کے لحاظ سے کمال کے مرحلہ تک نھیں پہنچ پائے تھے یہ وھی لوگ ھیں جن کے بارے میں بعد والی آیت میں کہتا ھے کہ وہ شدت سے متزلزل هوئے ۔
شایدان میں سے کچھ لوگ گمان کرتے تھے کہ آخر کار ھم شکست کھا جائیں گے اور اس قوت و طاقت کے ساتھ دشمن کا لشکر کامیاب هوجائے گا، اسلام کے ز ندگی کے آخر ی دن آپہنچے ھیں اور پیغمبر کا کا میابی کا وعدہ بھی پورا هوتا دکھا ئی نھیںدیتا ۔
ٰٰالبتہ یہ افکار اور نظریات ایک عقیدہ کی صورت میں نھیں بلکہ ایک وسوسہ کی شکل میں بعض لوگوںکے دل کی گھرائیوں میں پیدا هو گئے تھے بالکل ویسے ھی جیسے جنگ احد کے سلسلہ میں قرآن مجید ان کا ذکر کرتے هو ئے کہتا ھے :”یعنی تم میں سے ایک گروہ جنگ کے ان بحرانی لمحات میںصرف اپنی جان کی فکر میں تھا اور دورجا ھلیت کے گمانوں کی مانند خدا کے بارے میں بدگمانی کررھے تھے “۔
یھی وہ منزل تھی کہ خدائی امتحان کا تنور سخت گرم هوا جیسا کہ بعد والی آیت کہتی ھے کہ ”وھاں مومنین کو آزمایا گیا اور وہ سخت دھل گئے تھے۔[53]
فطری امر ھے کہ جب انسان فکری طوفانوںمیںگھر جاتا ھے تو اس کا جسم بھی ان طوفانوں سے لا تعلق نھیں رہ سکتا ،بلکہ وہ بھی اضطراب اور تزلزل کے سمندر میں ڈوبنے لگتا ھے ،ھم نے اکثر دیکھا ھے کہ جب لوگ ذہنی طور پر پریشان هوتے ھیں تو وہ جھاں بھی بیٹھتے ھیں اکثر بے چین رہتے ھیں، ھاتھ ملتے کاپنتے رہتے ھیں اور اپنے اضطراب اور پریشانیوںکو اپنی حرکات سے ظاھر کرتے رہتے ھیں۔
اس شدید پریشانی کے شواہد میں سے ایک یہ بھی تھا جسے مورخین نے بھی نقل کیا ھے کہ عرب کے پانچ مشهور جنگجو پھلوان جن کا سردار عمرو بن عبدود تھا ،جنگ کا لباس پہن کر اورمخصوص غرور اور تکبر کے ساتھ میدان میں آئے اور ”ھل من مبارز“( ھے کو ئی مقابلہ کرنے والا )کی آواز لگانے لگے ، خاص کر عمرو بن عبدود رجز پڑھ کر جنت اور آخرت کا مذاق اڑا رھا تھا ،وہ کہہ رھا تھا کہ ”کیا تم یہ نھیںکہتے هوکہ تمھارے مقتول جنت میں جائیں گے ؟تو کیا تم میں سے کوئی بھی جنت کے دیدار کا شوقین نھیںھے ؟لیکن اس کے ان نعروں کے برخلاف لشکر اسلام پر بُری طرح کی خاموشی طاری تھی اور کوئی بھی مقابلہ کی جر ائت نھیںرکھتا تھا سوائے علی بن ابی طالب علیہ السلام کے جو مقابلہ کے لئے کھڑے هوئے اور مسلمانوں کو عظیم کامیابی سے ھم کنار کردیا ۔اس کی تفصیل نکات کی بحث میںآئےگی۔
جی ھاں جس طرح فولاد کو گرم بھٹی میں ڈالتے ھیں تا کہ وہ نکھر جائے اسی طرح اوائل کے مسلمان بھی جنگ احزاب جیسے معرکوں کی بھٹی میں سے گزریں تا کہ کندن بن کر نکلیںاو رحوادثات کے مقابل میں جراٴت اور پا مردی کا مظاھرہ کر سکیں ۔

منا فقین او رضعیف الایمان جنگ احزاب میں
ھم کہہ چکے ھیں کہ امتحان کی بھٹی جنگ احزاب میں گرم هوئی او رسب کے سب اس عظیم امتحان میں گھر گئے۔ واضح رھے کہ اس قسم کے بحرانی دور میں جولوگ عام حالات میں ظاھراًایک ھی صف میں قرارپاتے ھیں ،کئی صفوںمیںبٹ جاتے ھیں،یھاں پربھی مسلمان مختلف گروهوںمیں بٹ گئے تھے، ایک جماعت سچے مومنین کی تھی ،ایک گروہ ہٹ دھرم اور سخت قسم کے منافقین کا تھا اور ایک گروہ اپنے گھر بار ،زندگی اور بھاگ کھڑے هونے کی فکر میں تھا ،اور کچھ لوگوں کی یہ کوشش تھی کہ دوسرے لوگوں کو جھاد سے روکیں ۔ اور ایک گروہ اس کوشش میں مصروف تھا کہ منافقین کے ساتھ اپنے رشتہ کو محکم کریں ۔
خلاصہ یہ کہ ھر شخص نے اپنے باطنی اسراراس عجیب ”عرصہٴ محشر“اور ”یوم البروز“میںآشکار کردیئے۔
میں نے ایران، روم اور مصرکے محلوں کو دیکھا ھے
خندق کھودنے کے دوران میں جب ھر ایک مسلمان خندق کے ایک حصہ کے کھودنے میں مصروف تھا تو ایک مرتبہ پتھر کے ایک سخت اوربڑے ٹکڑے سے ان کا سامنا هوا کہ جس پر کوئی ہتھوڑا کار گر ثابت نھیں هورھا تھا ،حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خبر دی گئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بنفس نفیس خندق میں تشریف لے گئے او راس پتھر کے پاس کھڑے هو کراورہتھوڑا لے کر پھلی مرتبہ ھی اس کے دل پر ایسی مضبوط چوٹ لگائی کہ اس کا کچھ حصہ ریزہ ریزہ هو گیا اور اس سے ایک چمک نکلی جس پر آپ نے فتح وکامرانی کی تکبیر بلند کی۔ آپ کے ساتھ دوسرے مسلمانوںنے بھی تکبیرکھی۔
آپ نے ایک اورسخت چوٹ لگائی تو اس کا کچھ حصہ او رٹوٹا اوراس سے بھی چمک نکلی۔اس پر بھی سرورکونین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تکبیرکھی اور مسلمانوں نے بھی آپ کے ساتھ تکبیرکھی آخر کاآپ نے تیسری چوٹھی لگائی جس سے بجلی کوند ی اورباقی ماندہ پتھر بھی ٹکڑے ٹکڑے هو گیا ،حضوراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھر تکبیر کھی او رمسلمانوںنے بھی ایسا ھی کیا، اس موقع پر جناب سلمان فارسیۻ نے اس ماجرا کے بارے میں دریافت کیا تو سرکاررسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :”پھلی چمک میں میںنے ”حیرہ“کی سرزمین او رایران کے بادشاهوں کے قصر ومحلات دیکھے ھیں او رجبرئیل نے مجھے بشارت دی ھے کہ میری امت ان پر کامیابی حاصل کرے گی،دوسری چمک میں ”شام او رروم“کے سرخ رنگ کے محلات نمایاں هوئے او رجبرئیل نے پھر بشارت دی کہ میری امت ان پرفتح یاب هوگی، تیسری چمک میں مجھے ”صنعا و یمن “کے قصور ومحلات دکھائی دئیے اورجبرئیل نے نوید دی کہ میری امت ان پربھی کامیابی حاصل کرے گی، اے مسلمانو!تمھیں خوشخبری هو!!
منافقین نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا او رکھا: کیسی عجیب و غریب باتیںکر رھے ھیں اور کیا ھی باطل اور بے بنیاد پروپیگنڈاھے ؟مدینہ سے حیرہ او رمدائن کسریٰ کو تو دیکھ کر تمھیں ان کے فتح هونے کی خبردیتا ھے حالانکہ اس وقت تم چند عربوں کے چنگل میں گرفتا رهو (او رخو ددفاعی پوزیشن اختیار کئے هوئے هو )تم تو” بیت الحذر“(خوف کی جگہ ) تک نھیں جا سکتے ( کیا ھی خیال خام او رگمان باطل ھے ۔

الٰھی وحی نازل هوئی او رکھا:
”یہ منا فق او ردل کے مریض کہتے ھیں کہ خدا او راس کے رسو ل نے سوائے دھوکہ و فریب کے ھمیں کوئی وعدہ نھیں دیا، (وہ پر و ردگارکی بے انتھا قدرت سے بے خبر ھیں“۔)[54]
اس وقت اس قسم کی بشارت او رخوشخبری سوائے آگاہ او ربا خبر موٴمنین کی نظر کے علاوہ ( باقی لوگوں کے لئے )دھوکا او ر فریب سے زیادہ حیثیت نھیںرکھتی تھی لیکن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ملکوتی آنکھیں ان آتشیں چنگاریوں کے درمیان سے جو کدالوں او رہتھوڑوں کے خندق کھودنے کے لئے زمین پرلگنے سے نکلتی تھیں، ایران روم او ریمن کے بادشاهوں کے قصرو محلات کے دروازوں کے کھلنے کو دیکھ سکتے تھے او رآئندہ کے اسرارو رموز سے پردے بھی اٹھاسکتے تھے۔

منافقانہ عذر
جنگ احزاب کے واقعہ کے سلسلے میں قرآن مجیدمنافقین او ردل کے بیمارلوگوں میں سے ایک خطرناک گروہ کے حالات تفصیل سے بیان کرتا ھے جو دوسروں کی نسبت زیادہ خبیث او رآلودہٴ گناہ ھیں، چنانچہ کہتا ھے: ”او راس وقت کو بھی یا دکرو، جب ان میں سے ایک گروہ نے کھا: اے یثرب (مدینہ )کے رہنے والو!یھاں تمھارے رہنے کی جگہ نھیں ھے ،اپنے گھروںکی طرف لوٹ جاؤ“[55]
خلاصہ یہ کہ دشمنوںکے اس انبوہ کے مقابلہ میں کچھ نھیں هو سکتا، اپنے آپ کو معرکہٴ کار زار سے نکال کرلے جاؤ او راپنے آپ کو ھلاکت کے اور بیوی بچوں کو قید کے حوالے نہ کرو۔ اس طرح سے وہ چاہتے تھے کہ ایک طرف سے تو وہ انصار کے گروہ کو لشکر اسلام سے جدا کرلیں اوردوسری طرف ”انھیں منافقین کا ٹولہ جن کے گھر مدینہ میں تھے ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اجازت مانگ رھے تھے کہ وہ واپس چلے جا ئیں او راپنی اس واپسی کے لئے حیلے بھانے پیش کررھے تھے ، وہ یہ بھی کہتے تھے کہ ھمارے گھردل کے درودیوارٹھیک نھیں ھیں حالانکہ ایسا نھیں تھا ،اس طرح سے وہ میدان کو خالی چھوڑکر فرارکرنا چاہتے تھے“۔[56]
منافقین اس قسم کا عذر پیش کرکے یہ چاہتے تھے کہ وہ میدان جنگ چھوڑکر اپنے گھروں میں جاکرپناہ لیں ۔
ایک روایت میں آیا ھے کہ قبیلہ ”بنی حارثہ “نے کسی شخص کو حضور رسالت پناہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں بھیجااو رکھا کہ ھمارے گھر غیر محفوظ ھیں اور انصار میں سے کسی کا گھر بھی ھمارے گھروں کی طرح نھیں اور ھمارے او رقبیلہ ”غطفان “کے درمیان کوئی رکا وٹ نھیں ھے جو مدینہ کی مشرقی جانب سے حملہ آور هو رھے ھیں، لہٰذا اجا زت دیجئے تا کہ ھم اپنے گھروں کو پلٹ جا ئیں او راپنے بیوی بچوں کا دفاع کریں تو سرکار رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انھیں اجازت عطا فرمادی ۔
جب یہ بات انصار کے سردار ”معد بن معاذ “کے گوش گذارهوئی توانھوںنے پیغمبراسلام کی خدمت میں عرض کیا ”سرکا ر!انھیں اجازت نہ دیجئے ،بخدا آج تک جب بھی کوئی مشکل درپیش آئی تو ان لوگوں نے یھی بھانہ تراشا،یہ جھوٹ بولتے ھیں“۔[57]
چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا کہ واپس آجائیں ۔[58]
قرآن میں خداوندعالم اس گروہ کے ایمان کی کمزوری کی طرف اشارہ کرتے هوئے کہتا ھے: ”وہ اسلام کے اظھار میں اس قدر ضعیف اور ناتواں ھیں کہ اگر دشمن مدینہ کے اطراف و جوانب سے اس شھر میں داخل هوجائیں اور مدینہ کو فوجی کنٹرول میں لے کر انھیں پیش کش کریں کہ کفر و شرک کی طرف پلٹ جائیں توجلدی سے اس کو قبول کرلیں گے اور اس راہ کے انتخاب کرنے میں ذراسا بھی توقف نھیں کریں گے“۔[59]
ظاھر ھے کہ جو لوگ اس قدرت ضعیف، کمزور اور غیر مستقل مزاج هوں کہ نہ تو دشمن سے جنگ کرنے چند ایک روایات میں آیاھے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ”اس شھر کو یثرب نہ کھا کرو شاید اسکی وجہ یہ هو کہ یثرب اصل میں ”ثرب“(بروزن حرب)کے مادہ سے ملامت کرنے کے معنی میں ھے اور آپ اس قسم کے نام کو اس بابرکت شھر کے لئے پسند نھیں فرماتے تھے۔
بھرحال منافقین نے اھل مدینہ کو ”یااھل یثرب“کے عنوان سے جو خطاب کیا ھے وہ بلاوجہ نھیں ھے او رشاید اس کی وجہ یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس نام سے نفرت ھے ،یا چاہتے تھے کہ اسلام او ر”مدینةالرسول“کے نام کو تسلیم نہ کرنے کااعلان کریں ۔یالوگوںکو زمانہٴ جاھلیت کی یادتازہ کرائیں ۔
کے لئے تیار هوں اور نہ ھی راہ خدا میں شھادت قبول کرنے کے لئے، ایسے لوگ بہت جلد ہتھیار ڈال دیتے ھیں اور اپنی راہ فوراً بدل دیتے ھیں۔
پھر قرآن اس منافق ٹولے کو عدالت کے کٹھرے میں لاکر کہتا ھے: ”انھوں نے پھلے سے خدا کے ساتھ عہد و پیمان باندھا هوا تھا کہ دشمن کی طرف پشت نھیں کریں گے اور اپنے عہد و پیمان پر قائم رہتے هوئے توحید، اسلام اور پیغمبر کے لئے دفاع میں کھڑے هوں گے، کیا وہ جانتے نھیں کہ خدا سے کئے گئے عہد و پیمان کے بارے میں سوال کیا جائے گا“۔[60]
جب خدا نے منافقین کی نیت کو فاش کردیا کہ ان کا مقصد گھروں کی حفاظت کرنا نھیں ، بلکہ میدان جنگ سے فرار کرنا ھے تو انھیں دود لیلوں کے ساتھ جواب دیتا ھے۔
پھلے تو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے فرماتا ھے: ”کہہ دیجئے کہ اگر موت یا قتل هونے سے فرار کرتے هو تو یہ فرار تمھیں کوئی فائدہ نھیں پهونچائے گااور تم دنیاوی زندگی کے چند دن سے زیادہ فائدہ نھیں اٹھاپاؤ گے“۔[61]
دوسرا یہ کہ کیا تم جانتے هوکہ تمھارا سارا انجام خدا کے ھاتھ میں ھے اور تم اس کی قدرت و مشیت کے دائرہ اختیار سے ھرگز بھاگ نھیں سکتے۔
”اے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ! ان سے کہہ دیجئے : کون شخص خدا کے ارادہ کے مقابلہ میں تمھاری حفاظت کرسکتا ھے، اگر وہ تمھارے لئے مصیبت یا رحمت چاہتا ھے“۔[62]

روکنے والا ٹولہ
اس کے بعد قرآن مجید منافقین کے اس گروہ کی طرف اشارہ کرتا ھے جو جنگ احزاب کے میدان سے خودکنارہ کش هوا اور دوسروں کو بھی کنار کشی کی دعوت دیتا هو فرماتا ھے: ” خدا تم میں سے اس گروہ کو جانتا ھے جو کوشش کرتے تھے کہ لوگوں کو جنگ سے منحرف کردیں ،اور اسی طرح سے ان لوگوں کو بھی جانتا ھے جو اپنے بھائیوں سے کہتے تھے کہ ھماری طرف آؤ“ اور اس خطرناک جنگ سے دستبردار هوجاؤ ۔
وھی لوگ جواھل جنگ نھیں ھیں اور سوائے کم مقدار کے اور وہ بھی بطور جبر واکراہ یاد کھاوے کے؛ جنگ کے لئے نھیں جاتے۔ [63]
ھم ایک روایت میں پڑھتے ھیں کہ ایک صحابی رسول کسی ضرورت کے تحت میدان” احزاب “ سے شھر میں آیا هوا تھا اس نے اپنے بھائی کو دیکھا کہ اس نے اپنے سامنے روٹی ، بھنا هوا گوشت اور شراب رکھے هوئے تھے ، تو صحابی نے کھا تم تو یھاں عیش وعشرت میں مشغول هواور رسول خدا نیزوں اور تلواروں کے درمیان مصروف پیکار ھیں اس نے جواب میں کھا ، اے بے وقوف : تم بھی ھمارے ساتھ بیٹھ جاؤ اور مزے اڑاؤ اس نے کھا:اس خدا کی قسم جس کی محمد کھاتا ھے وہ اس میدان سے ھرگز پلٹ کر واپس نھیں آئے گا اور یہ عظیم لشکر جو جمع هوچکا ھے اسے اور اس کے ساتھیوں کو زندہ نھیں چھوڑے گا ۔
یہ سن کر وہ صحابی کہنے لگے :تو بکتا ھے،خدا کی قسم میں ابھی رسول اللہ کے پاس جاکر تمھاری اس گفتگو سے باخبر کرتا هوں، چنانچہ انھوں نے بارگاہ رسالت میں پہنچ کر تمام ماجرا بیان کیا ۔

وہ ھرگز ایمان نھیں لائے
قرآن فرماتاھے :” ان تمام رکاوٹوں کا باعث یہ ھے کہ وہ تمھاری بابت تمام چیزوں میںبخیل ھیں“۔[64]
نہ صرف میدان جنگ میں جان قربان کرنے میں بلکہ وسائل جنگ مھیا کرنے کے لئے مالی امداد اور خندق کھودنے کے لئے جسمانی امداد حتی کہ فکری امداد مھیا کرنے میں بھی بخل سے کام لیتے ھیں، ایسا بخل جو حرص کے ساتھ هوتا ھے اور ایسا حرص جس میں روز بروز اضافہ هوتا رہتا ھے ۔
ان کے بخل اور ھر قسم کے ایثارسے دریغ کرنے کے بیان کے بعد ان کے ان دوسرے اوصاف کو جو ھر عہد اور ھر دور کے تمام منافقین کے لئے تقریباً عمو میت کا درجہ رکھتے ھیں بیان کرتے هوئے کہتا ھے :” جس وقت خوفناک اور بحرانی لمحات آتے ھیں تو وہ اس قدر بزدل اور ڈرپوک ھیں کہ آپ دیکھیں گے کہ وہ آپ کو دیکھ رھے ھیں حالانکہ ان کی آنکھوں میں ڈھیلے بے اختیار گردش کررھے ھیں ، اس شخص کی طرح جو جاں کنی میں مبتلا هو “ [65]
چونکہ وہ صحیح ایمان کے مالک نھیں ھیں اور نہ ھی زندگی میں ان کا کوئی مستحکم سھارا ھے ، جس وقت کسی سخت حادثہ سے دوچار هوتے ھیں تو وہ لوگ بالکل اپنا توازن کھوبیٹھتے ھیں جیسے ان کی روح قبض ھی هوجائے گی۔
پھر مزید کہتا ھے: ” لیکن یھی لوگ جس وقت طوفان رک جاتاھے اور حالات معمول پر آجاتے ھیں تو تمھارے پاس یہ توقع لے کر آتے ھیں کہ گویا جنگ کے اصلی فاتح یھی ھیں اور قرض خواهوں کی طرح پکار پکار کر سخت اور درشت الفاظ کے ساتھ مال غنیمت سے اپنے حصہ کا مطالبہ کرتے ھیں اور اس میں سخت گیر، بخیل اور حریص ھیں “۔[66]
آخر میں ان کی آخری صفت کی طرف جو درحقیقت میں ان کی تمام بد بختیوں کی جڑ اور بنیاد ھے ، اشارہ کرتے هوئے فرماتاھے ” وہ ھر گز ایمان نھیں لائے۔اور اسی بناپر خدانے ان کے اعمال نیست ونابود کردئیے ھیںکیونکہ ان کے اعمال خدا کے لئے نھیں ھیں اور ان میں اخلاص نھیں پایا جاتا۔[67]
”وہ اس قدر وحشت زدہ هو چکے ھیں کہ احزاب اور دشمن کے لشکروں کے پر اگندہ هوجانے کے بعد بھی یہ تصور کرتے ھیں کہ ابھی وہ نھیں گئے“۔[68]
وحشتناک اور بھیانک تصور نے ان کی فکر پر سایہ کر رکھا ھے گویا کفر کی افواج پے درپے ان کی آنکھوں کے سامنے قطاردر قطار چلی جارھی ھیں ، ننگی تلواریں اور نیزے تانے ان پر حملہ کررھی ھیں۔
یہ بزدل جھگڑالو ، ڈرپوک منافق اپنے سائے سے بھی ڈرتے ھیں ، جب کسی گھوڑے کے ہنہنانے یا کسی اونٹ کے بلبلانے کی آواز سنتے ھیں تو مارے خوف کے لرزنے لگتے ھیں کہ شاید احزاب کے لشکر واپس آرھے ھیں ۔
اس کے بعدکہتا ھے ” اگر احزاب دوبارہ پلٹ کر آجائے تو وہ اس بات پر تیار ھیں کہ بیابان کا رخ کرلیں اور بادیہ نشین بدووٴںکے درمیان منتشر هو کر پنھاں هو جائیں ھاں، ھاں وہ چلے جائیں اور وھاں جاکر رھیں” اور ھمیشہ تمھاری خبروں کے جویا رھیں “۔[69]
ھر مسافر سے تمھاری ھر ھر پل کی خبر کے جویا رھیں ایسا نہ هوکہ کھیں احزاب ان کی جگہ قریب آجائیں اور ان کا سایہ ان کے گھر کی دیواروں پر آپڑے اور تم پر یہ احسان جتلائیں کہ وہ ھمشہ تمھاری حالت اور کیفیت کے بارے میں فکر مند تھے ۔
اور آخری جملہ میں کہتا ھے:
”بالفرض وہ فراربھی نہ کرتے اور تمھارے درمیان ھی رہتے ، پھر بھی سوائے تھوڑی سی جنگ کے وہ کچھ نہ کرپاتے“۔[70]
نہ ان کے جانے سے تم پریشان هونا اور نہ ھی ان کے موجود رہنے سے خوشی منانا، کیونکہ نہ تو ان کی قدر وقیمت ھے اور نہ ھی کوئی خاص حیثیت، بلکہ ان کا نہ هونا ان کے هونے سے بہتر ھے ۔
ان کی یھی تھوڑی سی جنگ بھی خدا کےلئے نھیں بلکہ لوگوں کی سرزنش اور ملامت کے خوف اور ظاھرداری یاریاکاری کےلئے ھے کیونکہ اگر خدا کے لئے هوتی تو اس کی کوئی حدو انتھا نہ هوتی اور جب تک جان میں جان هوتی وہ اس میدان میں ڈٹے رہتے ۔

جنگ احزاب میں سچے مومنین کا کردار
اب تک مختلف گر وهوںاور ان کے جنگ احزاب میں کارناموں کے بارے میں گفتگو هورھی تھی جن میں ضعیف الایمان مسلمان ، منافق، کفر ونفاق کے سرغنے اور جہد سے روکنے والے شامل ھیں ۔
قرآن مجید اس گفتگو کے آخر میں ” سچے مئومنین “ ان کے بلند حوصلوں ، پامردیوں ، جرائتوں اور اس عظیم جھاد میں ان کی دیگر خصوصیات کے بارے میں گفتگو کرتا ھے ۔
اس بحث کی تمھید کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات سے شروع کرتا ھے جو مسلمانوں کے پیشوا ، سرداراور اسوہٴ کامل تھے، خدا کہتا ھے: ” تمھارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی اور (میدان احزاب میں ) ان کا کردار ایک اچھا نمونہ اوراسوہ ھے ، ان لوگوں کے لئے جورحمت خدا اور روز قیامت کی امید رکھتے ھیں اور خدا کو بہت زیادہ یاد کرتے ھیں ۔“[71]
تمھارے لئے بہترین اسوہ اور نمونہ ،نہ صرف اس میدان میں بلکہ ساری زندگی پیغمبراسلام کی ذات والا صفات ھے آپ کے بلند حوصلے، صبرو استقامت ،پائمردی ،زیر کی ، دانائی ، خلوص ، خدا کی طرف تو جہ، حادثات پر کنڑول، مشکلات اور مصائب کے آگے سر تسلیم خم نہ کرنا ، غرضکہ ان میں سے ھر ایک چیز مسلمانوں کے لئے نمونہ ٴ کامل اور اسوہٴ حسنہ ھے ۔
وہ ایسا عظیم نا خدا ھے کہ جب اس کی کشتی سخت ترین طوفانوں میں گھر جاتی ھے تو ذرہ برابر بھی کمزوری،گھبراہٹ اور سراسیمگی کا مظاھرہ نھیں کرتا وہ کشتی کانا خدا بھی ھے اور اس کا قابل اطمینان لنگر اور چراغ ہدایت بھی وہ اس میں بیٹھنے والوں کے لئے آرام وسکون کا باعث بھی ھے اور ان کے لئے راحت جان بھی ۔
وہ دوسرے مئومنین کے ساتھ مل کر کدال ھاتھ میں لیتا ھے اور خندق کھودتا ھے،بلیچے کے ساتھ پتھر اکھاڑکرکے خندق سے باھر ڈال آتا ھے اپنے اصحاب کے حوصلے بڑھانے اور ٹھنڈے دل سے سوچنے کے لئے ان سے مزاح بھی کرتا ھے ان کے قلب و روح کو گرمانے کے حربی اور جوش وجذبہ دلانے والے اشعار پڑھ کر انھیں ترغیب بھی دلاتاھے، ذکر خدا کرنے پرمسلسل اصرار کرتا ھے اور انھیں درخشاں مستقبل اور عظیم فتوحات کی خوشخبری دیتاھے انھیں منافقوں کی سازشوں سے متنبہ کرتا ھے اور ان سے ھمیشہ خبردار رہنے کا حکم دیتا ھے ۔
صحیح حربی طریقوں اور بہترین فوجی چالوں کو انتخاب کرنے سے ایک لمحہ بھی غافل نھیں رہتا اس کے باوجود مختلف طریقوں سے دشمن کی صفوں میںشگاف ڈالنے سے بھی نھیںچوکتا ۔
جی ھاں: وہ موٴمنین کا بہترین مقتدا ھے اور ان کے لئے اسوہٴ حسنہ ھے اس میدان میں بھی اور دوسرے تمام میدانوں میں بھی۔

مومنین کے صفات
اس مقام پر مومنین کے ایک خاص گروہ کی طرف اشارہ ھے:
” جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اقتداء میں سب سے زیادہ پیش قدمی کرتے تھے وہ خدا سے کئے هوئے اپنے اس عہدو پیمان پرقائم تھے کہ وہ آخری سانس اور آخری قطرہٴ خون تک فداکاری اور قربانی کے لئے تیار ھیں فرمایا گیا ھے مومنین میں ایسے بھی ھیں جواس عہدوپیمان پر قائم ھیں جو انھوںنے خدا سے باندھا ھے ان میں سے کچھ نے تو میدان جھاد میں شربت شھادت نوش کرلیا ھے اوربعض انتظار میں ھیں ۔ور انھوں نے اپنے عہدوپیمان میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نھیں کی “ ۔[72]
اور نہ ھی ان کے قدموں میں لغزش پیدا هوئی ھے۔
مفسرین کے درمیان اختلاف ھے کہ یہ آیت کن افراد کے بارے میں نازل هوئی ھے ۔
اھل سنت کے مشهور عالم ، حاکم ابوالقاسم جسکانی سند کے ساتھ حضرت علی علیہ السلام سے نقل کرتے ھیں کہ آپ نے فرمایا :
آیہٴ ”رجال صدقوا ما عاھدوا اللّٰہ علیہ “ ھمارے بارے میں نازل هوئی ھے اور بخدا میں ھی وہ شخص هوں جو(شھادت کا) انتظار کررھاهوں(اور قبل از ایں ھم میں حمزہ سید الشہداء جیسے لوگ شھادت نوش کرچکے ھیں )اور میں نے ھرگز اپنی روش اور اپنے طریقہٴ کار میں تبدیلی نھیں کی اور اپنے کیئے هوے عہدوپیمان پر قائم هوں ۔

جنگ بنی قریظہ
مدینہ میں یهودیوں کے تین مشهور قبائل رہتے تھے : بنی قریظہ، بنی النضیر اور بنی قینقاع۔
تینوں گروهوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے معاہدہ کر رکھا تھا کہ آپ کے دشمنوں کا ساتھ نھیں دیں گے، ان کے لئے جاسوسی نھیں کریں گے، اور مسلمانوں کے ساتھ مل جل کر امن و آشتی کی زندگی گزاریں گے، لیکن قبیلہ بنی قینقاع نے ہجرت کے دوسرے سال اور قبیلہ بنی نضیر نے ہجرت کے چوتھے سال مختلف حیلوں بھانوں سے اپنا معاہدہ توڑ ڈالا، اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مقابلہ کے لئے تیار هوگئے آخر کار ان کی مزاحمت اور مقابلہ کی سکت ختم هوگئی اور وہ مدینہ سے باھر نکل گئے۔
بنی قینقاع” اذر عات“ شام کی طرف چلے گئے اور بنی نضیر کے کچھ لوگ تو خیبر کی طرف اور کچھ شام کی طرف چلے گئے ۔
اسی بناء پر ہجرت کے پانچویں سال جب کہ جنگ احزاب پیش آئی تو صرف قبیلہ بنی قریظہ مدینہ میں باقی رہ گیا تھا ، وہ بھی اس میدان میں اپنے معاہدہ کو توڑکر مشرکین عرب کے ساتھ مل گئے اور مسلمانوں کے مقابلہ میں تلواریں سونت لیں ۔
جب جنگ احزا ب ختم هوگئی اور قریش، بنی غطفان اور دیگر قبائل عرب بھی رسوا کن شکست کے بعد مدینہ سے پلٹ گئے تو اسلامی روایات کے مطابق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے گھر لوٹ آئے اور جنگی لباس اتارکر نھانے دھونے میں مشغول هوگئے تو اس موقع پر جبرئیل حکم خدا سے آپ پر نازل هوئے اور کھا : کیوں آپ نے ہتھیار اتار دیئے ھیں جبکہ فرشتے ابھی تک آمادہ پیکار ھیں آپ فوراً بنی قریظہ کی طرف جائیں اور ان کا کام تمام کردیں ۔
واقعاً بنی قریظہ کا حساب چکانے کے لئے اس سے بہتر کوئی اور موقع نھیں تھا مسلمان اپنی کامیابی پر خوش خرم تھے، بنی قریظہ شکست کی شدید وحشت میں گرفتار تھے اور قبائل عرب میں سے ان کے دوست اور حلیف تھکے ماندے اور بہت ھی پست حوصلوں کے ساتھ شکست خوردہ حالت میں اپنے اپنے شھروںاور علاقوں میں جاچکے تھے اور کوئی نھیں تھا جوان کی حمایت کرے ۔
بھرحال منادی نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف سے ندادی کہ نماز عصر پڑھنے سے پھلے بنی قریظہ کی طرف چل پڑو مسلمان بڑی تیزی کے ساتھ ھی بنی قریظہ کے محکم ومضبوط قلعوںکو مسلمانوں نے اپنے محاصرے میں لے لیا ۔
پچیس دن تک محاصرہ جاری رھا چنانچہ لکھتے ھیں کہ مسلمانوں نے بنی قریظہ کے قلعوں پر حملہ کرنے کے لئے اتنی جلدی کی کہ بعض مسلمان نماز عصر سے غافل هوگئے کہ مجبوراً بعد میں قضا کی،خداوند عالم نے ان کے دلوں میں سخت رطب و دبدبہ طاری هوگیا۔

تین تجاویز
”کعب بن اسد“ کا شمار یهودیوں کے سرداروں میں هوتا تھا اس نے اپنی قوم سے کھا : مجھے یقین ھے کہ محمد ھمیں اس وقت تک نھیں چھوڑیں گے جب تک ھم جنگ نہ کریں لہٰذا میری تین تجاویز ھیں ، ان میں سے کسی ایک کو قبول کرلو ،پھلی تجویز تویہ ھے کہ اس شخص کے ھاتھ میں ھاتھ دے کر اس پر ایمان لے آوٴ اور اس کی پیروی اختیار کرلو کیونکہ تم پر ثابت هوچکا ھے کہ وہ خدا کا پیغمبر ھے اوراس کی نشانیاں تمھاری کتابوں میں پائی جاتی ھیں تو اس صورت میں تمھارے مال ، جان، اولاد اور عورتیں محفوظ هوجائیں گی۔
وہ کہنے لگے کہ ھم ھرگز حکم توریت سے دست بردار نھیں هوں گے اور نہ ھی اس کا متبادل اختیار کریں گے ۔
اس نے کھا : اگر یہ تجویز قبول نھیں کرتے تو پھر آؤ اور اپنے بچوں اور عورتوں کو اپنے ھاتھوں سے قتل کرڈالو تاکہ ان کی طرف سے آسودہ خاطر هوکر میدان جنگ میں کود پڑیں اور پھر دیکھیں کہ خدا کیا چاہتا ھے ؟ اگر ھم مارے گئے تو اھل وعیال کی جانب سے ھمیں کوئی پریشانی نھیں هوگی اور اگر کامیاب هوگئے تو پھر عورتیں بھی بہت بچے بھی بہت ۔!!
وہ کہنے لگے کہ ھم ان بے چاروں کو اپنے ھی ھاتھوں سے قتل کردیں ؟ان کے بعد ھمارے لئے زندگی کی قدرو قیمت کیارہ جائے گی ؟
کعب بن اسد نے کھا : اگر یہ بھی تم نے قبول نھیں کیا تو آج چونکہ ہفتہ کی رات ھے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اس کے ساتھی یہ خیال کریں گے کہ ھم آج رات حملہ نھیں کریں گے انھیں اس غفلت میں ڈال کر ان پر حملہ کردیں شاید کامیابی حاصل هوجائے ۔
وہ کہنے لگے کہ یہ کام بھی ھم نھیں کریں گے کیونکہ ھم کسی بھی صورت میںہفتہ کا احترام پامال نھیں کریں گے ۔
کعب کہنے لگا : پیدائش سے لے کر آج تک تمھارے اندر عقل نھیں آسکی ۔
اس کے بعد انھوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بات کی کہ” ابولبابہ“ کو ان کے پاس بھیجا جائے تاکہ وہ ان سے صلاح مشورہ کرلیں ۔

ابولبابہ کی خیانت
جس وقت ابولبابہ ان کے پاس آئے تو یهودیوں کی عورتیں اور بچے ان کے سامنے گریہ وزاری کرنے لگے اس بات کا ان کے دل پر بہت اثر هوا اس وقت لوگوں نے کھا کہ آپ ھمیں مشورہ دیتے ھیں کہ ھم محمد کے آگے ہتھیار ڈال دیں ؟ ابولبابہ نے کھا ھاں اور ساتھ ھی اپنے گلے کی طرف اشارہ کیا یعنی تم سب کو قتل کردیں گے ۔!
ابولبابہ کہتے ھیں، جیسے ھی میں وھاں سے چلا تو مجھے اپنی خیانت کا شدید احساس هوا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس نہ گیا بلکہ سیدھا مسجد کی طرف چلا اور اپنے آپ کو مسجد کے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا اور کھا اپنی جگہ سے اس وقت تک حرکت نھیں کروں گا جب تک خدا میری توبہ قبول نہ کرلے ۔
سات دن تک اس نے نہ کھانا کھایا نہ پانی پیا اور یونھی بے هوش پڑا رھا یھاں تک کہ خدا نے اس کی توبہ قبول کر لی،جب یہ خبر بعض مومنین کے ذریعہ اس تک پہنچی شتو اس ننے قسم کھائی میں خود رہنے کو اس ستون سے نھیں کھولوں گا یھاں تک کہ پیغمبر آکر کھولیں۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آئے اور اس کو کھولا ابولبابہ نے کھا کہ اونی توبہ کو کامل هونے کے لئے اپنا سارا مال راہ خدا میں دیتا هوں۔اس وقت پیغمبر نے کھا:ایک سوم مال کافی ھے،”آخرکار خدانے اس کا یہ گناہ اس کی صداقت کی بنا ء پربخش دیا [73]
لیکن آخر کار بنی قریظہ کے یهودیوں نے مجبور هوکر غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیئے۔
جناب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سعد بن معاذ تمھارے بارے میں جو فیصلہ کردیں کیا وہ تمھیں قبول ھے ؟وہ راضی هوگئے ۔
سعدبن معاذ نے کھا کہ اب وہ موقع آن پہنچا ھے کہ سعد کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کو نظر میں رکھے بغیر حکم خدا بیان کرے ۔
سعد نے جس وقت یهودیوں سے دوبارہ یھی اقرار لے لیا تو آنکھیں بند کرلیں اور جس طرف پیغمبر کھڑے هوئے تھے ادھر رخ کرکے عرض کیا : آپ بھی میرا فیصلہ قبول کریں گے ؟ آنحضرت نے فرمایا ضرور: تو سعد نے کھا : میں کہتا هوں کہ جو لوگ مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے پر آمادہ تھے (بنی قریظہ کے مرد ) انھیں قتل کردینا چاہئے ، ان کی عورتیں اور بچے قید اور ان کے اموال تقسیم کردیئے جائیں البتہ ان میں سے ایک گروہ اسلام قبول کرنے کے بعد قتل هونے سے بچ گیا ۔
قرآن اس ماجرا کی طرف مختصر اور بلیغ اشارہ کرتا ھے اور اس ماجراکا تذکرہ خداکی ایک عظیم نعمت او رعنایت کے طور پر هوا ھے ۔
پھلے فرمایا گیا ھے:”خدا نے اھل کتاب میں سے ایک گروہ کو جنهوںنے مشرکین عرب کی حمایت کی تھی ،ان کے محکم و مضبوط قلعوں سے نیچے کھینچا ۔[74]
یھاں سے واضح هو جا تا ھے کہ یهو دیوں نے اپنے قلعے مدینہ کے پاس بلند او راونچی جگہ پربنا رکھے تھے او ران کے بلند برجوں سے اپنا دفاع کرتے تھے ”انزل “(نیچے لے آیا ) کی تعبیر اسی معنی کی طرف اشارہ کرتی ھے ۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ھے : ”خدا نے ان کے دلوں میں خوف او ررعب ڈال دیا “:
آخر کار ان کا مقابلہ یھاں تک پہنچ گیا کہ ”تم ان میں سے ایک گروہ کو قتل کررھے تھے او ردوسرے کو اسیر بنا رھے تھے ۔”او ران کی زمینیں گھر اور مال و متاع تمھارے اختیارمیں دے دیا “۔[75]
یہ چند جملے جنگ بنی قریظہ کے عام نتائج کا خلاصہ ھیں ۔ ان خیانت کاروںمیں سے کچھ مسلمانوںکے ھاتھوںقتل هو گئے،کچھ قید هوگئے اوربہت زیادہ مال غنیمت جس میں ان کی زمینیں ،گھر ،مکا نات او رمال و متاع شامل تھا ،مسلمانوں کو ملا ۔
---------------------------------------------------------

[36] سورہٴ انفال آیت ۳۰ کے ذیل میں واقعہ ہجرت بیان هوا ھے۔
[37] الغدیر، جلد ۲ ص۴۵ پر ھے کہ غزالی نے احیاء العلوم ج۳ ص ۲۳۸ پر، صفوری نے نزہتہ المجالس ج۲ ،ص ۲۰۹ پر، ابن صباغ مالکی نے فصول المھمہ، میں سبط ابن جوزی نے تذکرہ الخواص ص ۲۱ پر ، امام احمد نے مسندج ا ص ۳۴۸ پر، تاریخ طبری جلد ۲ ص۹۹ پر، سیرة ابن ہشام ج ۲، ص ۲۹۱ پر، سیرة حلبی ج ۱ ص ۲۹ پر، تاریخی یعقوبی ج۲ ص ۲۹ پرلیلة المبیت کے واقعہ کو نقل کیا ھے۔
[38] سورہٴ بقرہ آیت ۱۴۲۔
[39] سورہٴ بقرہ آیت۱۴۲۔
[40] سورہٴ بقرہ آیت ۱۴۳۔
[41] واقعہ جنگ بدر سورہ انفال آیات ۵ تا ۱۸کے ذیل میں بیان هوئی ھے ۔
[42] پیغمبراور ان کے اصحاب ایسا کرنے کا حق رکھتے تھے کیونکہ مسلمان مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرکے آئے تو اھل مکہ نے ان کے بہت سے اموال پر قبضہ کرلیا تھا جس سے مسلمانوں کو سخت نقصان اٹھانا پڑا لہٰذا وہ حق رکھتے تھے کہ اس نقصان کی تلافی کریں ۔اس سے قطع نظر بھی اھل مکہ نے گذشتہ تیرہ برس میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مسلمانوں سے جو سلوک روارکھا اس سے بات ثابت هوچکی تھی وہ مسلمانوں کو ضرب لگانے اور نقصان پہنچانے کے لئے کوئی موقع ھاتھ سے نھیں گنوائیں گے یھاں تک کہ وہ خودپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو قتل کرنے پر تل گئے تھے ایسا دشمن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہجرت مدینہ کی وجہ سے بے کار نھیں بیٹھ سکتا تھا واضح تھا کہ وہ قاطع ترین ضرب لگانے کے لئے اپنی قوت مجتمع کرتا پس عقل ومنطق کا تقاضا تھا کہ پیش بندی کے طورپر ان کے تجارتی قافلے کو گھیر کر اس کے اتنے بڑے سرمائے کو ضبط کرلیا جاتا تاکہ اس پر ضرب پڑے اور اپنی فوجی اور اقتصادی بنیاد مضبوط کی جاتی ایسے اقدامات آج بھی اور گذشتہ ادوار میں بھی عام دنیا میں فوجی طریق کار کا حصہ رھے ھیں ،جولوگ ان پھلوؤں کو نظر اندازکرکے قافلے کی طرف پیغمبر کی پیش قدمی کو ایک طرح کی غارت گری کے طور پر پیش کرنا چاہتے ھیں یاتو وہ حالات سے آگاہ نھیں اور اسلام کے تاریخی مسائل کی بنیادوں سے بے خبر ھیںاور یا ان کے کچھ مخصوص مقاصد ھیں جن کے تحت وہ واقعات وحقائق کو توڑمروڑکر پیش کرتے ھیں ۔
[43] جنگ احد کا واقعہ سورہ آل عمران آیت ۱۲۰ کے ذیل میں بیان هوا ھے۔
[44] سورہٴ آل عمران آیت ۱۶۳۔
[45] آل عمران آیت ۱۵۲۔
[46] سورہ آل عمران آیت۱۵۹۔
[47] واضح رھے کہ عفو ودر گزر کرنے کے لئے یہ ایک اھم اور بہت مناسب موقع تھا اور اگر آپ ایسانہ کرتے تو لوگوں کے بکھرجانے کےلئے فضا ھموار تھی وہ لوگ جو اتنی بری شکست کا سامناکر چکے تھے اور بہت سے مقتول ومجروح پیش گرچکے تھے (اگرچہ یہ سب کچھ ان کی اپنی غلطی سے هواتا ھم ) ایسے لوگوں کو محبت ، دلجوئی اور تسلی کی ضرورت تھی تاکہ ان کے دل اور جسم کے زخم پر مرھم لگ سکے اور وہ ان سے جانبرهوکر آئندہ کے معرکوں کےلئے تیار هوسکیں ۔
[48] سورہٴ حشر آیت۵۔
[49] یہ واقعہ سورہٴ حشرکی ابتدائی آیات میں بیان هوا ھے ۔
[50] سورہ احزاب آیت ۹۔
[51] سورہ احزاب آیت ۹۔
[52] سورہٴ احزاب آیت۱۰۔
[53] سورہ احزاب آیت ۱۱۔
[54] سورہ احزاب آیت ۱۲۔
[55] سورہٴ احزاب آیت ۱۲۔
[56] سورہ احزاب آیت ۱۳۔
[57] سورہٴ احزاب۱۴۔
[58] ”یثرب “مدینہ کا قدیمی نام ھے ،جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس شھر کی طرف ہجرت کرنے سے پھلے تک اس کا نام ”یثرب“رھا ۔ پھر آہستہ آہستہ اس کا نام ”مدینةالرسول“(پیغمبرکا شھر )پڑگیا جس کا مخفف”مدینہ “ھے۔ اس شھرکے کئی ایک نام او ربھی ھیں ۔ سید مرتضٰی ۺنے ان دو ناموں ( مدینہ او ریثرب)کے علاوہ اس شھر کے گیارہ او رنام بھی ذکرکیے ھیں ،منجملہ ان کے ”طیبہ“”طابہ“”سکینہ“”محبوبہ“”مرحومہ “ اور”قاصمہ“ھیں ۔ (اوربعض لوگ اس شھر کی زمین کو ”یثرب“کا نام دیتے ھیں۔)
[59] سورہ احزاب آیت ۱۴۔
[60] سورہ احزاب آیت ۱۵۔
[61] سورہ احزاب آیت ۱۶۔
[62] سورہ احزاب آیت ۱۷۔
[63] سورہ احزاب آیت۱۸۔
[64] سورہ ٴ احزاف آیت۱۹ ۔
[65] سورہ احزاب ۱۹۔
[66] سورہ احزاب ۱۹۔
[67] سورہ احزاب آیت ۱۹۔
[68] سورہٴ احزاب آیت ۲۰۔
[69] سورہٴ احزاب آیت ۲۰۔
[70] سورہٴ احزاب آیت۲۰۔
[71] سورہ احزاب آیت ۲۱۔
[72] سورہ احزاب آیت ۲۳۔
[73] سورہ توبہ آیت ۱۰۲۔
[74] سورہ احزاب آیت ۲۶۔
[75] سورہٴ احزاب آیت ۲۶،۲۷۔