رسول اکرم (ص) کی سوانح حیات
آیت الله مکارم شیرازی
مترجم: علامه صفدر حسین
آغازوحی
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کوہ حرا پر گئے هوئے تھے کہ جبرئیل آئے اور کھا : اے محمد پڑھ: پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں پڑھا هوانھیں هوں ۔ جبرئیل نے انھیں آغوش میں لے کردبایا اور پھر دوبارہ کھا : پڑھ، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھر اسی جواب کو دھرایا۔ اس کے بعد جبرئیل نے پھر وھی کام کیا اور وھی جواب سنا ، اور تیسری بارکھا: < اقراباسم ربک الذی خلق۔۔۔>[1]
جبرئیل (ع)یہ بات کہہ کر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نظروں سے غائب هوگئے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جو وحی کی پھلی شعاع کو حاصل کرنے کے بعد بہت تھکے هوئے تھے خدیجہ کے پاس آئے اور فرمایا : ” زملونی ودثرونی “ مجھے اڑھادو اور کوئی کپڑا میرے اوپر ڈال دوتاکہ میں آرام کروں ۔
”علامہ طبرسی“ بھی مجمع البیان میں یہ نقل کرتے ھیں کہ رسو لخدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خدیجہ سے فرمایا :
”جب میں تنھا هوتا هوں تو ایک آواز سن کر پریشان هوجاتاهوں “ ۔ حضرت خدیجہ(ع) نے عرض کیا : خداآپ کے بارے میں خیر اور بھلائی کے سواکچھ نھیں کرے گا کیونکہ خدا کی قسم آپ امانت کو ادا کرتے ھیں اور صلہٴ رحم بجالاتے ھیں ‘اور جوبات کرتے ھیں اس میں سچ بولتے ھیں۔
”خدیجہ“(ع) کہتی ھیں : اس واقعہ کے بعد ھم ورقہ بن نوفل کے پاس گئے (نوفل خدیجہ کا زاد بھائی اور عرب کے علماء میں سے تھا )رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو کچھ دیکھا تھا وہ“ ورقہ“ سے بیان کیا ” ورقہ “ نے کھا : جس وقت وہ پکارنے والا آپ کے پاس آئے تو غور سے سنو کہ وہ کیا کہتا ھے ؟ اس کے بعد مجھ سے بیان کرنا۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی خلوت گاہ میں سنا کہ وہ کہہ رھاھے :
اے محمد ! کهو :
” بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم الحمد للّٰہ رب العالمین الرحمن الرحیم مالک یوم الدین ایاک نعبدوایاک نستعین اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم غیرالمغضوب علیھم ولاالضالین“۔
اور کهو ” لاالہ الاالله“ اس کے بعد آپ ورقہ کے پاس آئے اور اس ماجرے کو بیان کیا ۔
” ورقہ “ نے کھا : آپ کو بشارت هو ‘ پھر بھی آپ کو بشارت هو ۔میں گواھی دیتا هوں کہ آپ وھی ھیں جن کی عیسی بن مریم نے بشارت دی ھے‘ آپ موسی علیہ السلام کی طرح صاحب شریعت ھیں اور پیغمبر مرسل ھیں ۔ آج کے بعد بہت جلدھی جھاد کے لیے مامور هوں گے اور اگر میں اس دن تک زندہ رھا تو آپ کے ساتھ مل کر جھاد کروں گا “ جب “ ور قہ دنیا سے رخصت هو گیا تو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”میں نے اس روحانی شخص کو بہشت (برزخی جنت ) میں دیکھا ھے کہ وہ جسم پر ریشمی لباس پہنے هوئے تھا‘ کیونکہ وہ مجھ پر ایمان لایا تھا اور میری تصدیق کی تھی۔ “[2]
پھلا مسلمان[3]
اس سوال کے جواب میں سب نے متفقہ طور پر کھا ھے کہ عورتوں میں سے جو خاتون سب سے پھلے مسلمان هوئیں وہ جناب خدیجہ(ع) تھیں جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفاداراور فدا کار زوجہ تھیں باقی رھا مردوں میں سے تو تمام شیعہ علماء ومفسرین اور اھل سنت علماء کے ایک بہت بڑے گروہ نے کھا ھے کہ حضرت علی (ع) وہ پھلے شخض تھے جنهوںنے مردوں میں سے دعوت پیغمبر پر لبیک کھی علماء اھل سنت میں اس امرکی اتنی شھرت ھے کہ ا ن میں سے ایک جماعت نے اس پر اجماع واتفاق کا دعویٰ کیا ھے ان میں سے حاکم نیشاپوری [4]نے کھا ھے :
مورخین میں اس امر پر کوئی اختلاف نھیں کہ علی ابن ابی طالب اسلام لانے والے پھلے شخص ھیں ۔ اختلاف اسلام قبول کرتے وقت انکے بلوغ کے بارے میں ھے ۔
جناب ابن عبدالبر[5]لکھتے ھیں : اس مسئلہ پر اتفاق ھے کہ خدیجہ(ع) وہ پھلی خاتون ھیںجو خدا اور اس بات کا پختہ ارادہ کرلیا کہ خود کو پھاڑ سے گرادیں ‘ اور اسی قسم کے فضول اور بے هودہ باتیں جو نہ تو نبوت کے بلند مقام کے ساتھ سازگار ھیں اور نہ ھی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس عقل اور حد سے زیادہ دانش مندی ‘ مدبریت ‘ صبر وتحمل وشکیبائی ‘ نفس پر تسلط اور اس اعتماد کو ظاھر کرتی ھیں جو تاریخوں میں ثبت ھے ۔
ایسا دکھائی دیتا ھے کہ اس قسم کی ضعیف ورکیک روایات دشمنان اسلام کی ساختہ وپرداختہ ھیں جن کا مقصد یہ تھا کہ اسلام کو بھی مورد اعتراض قراردے دیں اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات گرامی کو بھی ۔
اس کے رسول پر ایمان لائیں اور جو کچھ وہ لائے تھے اسی کی تصدیق کی ۔ پھر حضرت علی نے ان کے بعد یھی کام انجام دیا ۔[6]
ابوجعفر الکافی معتزلی لکھتا ھے : تمام لوگوں نے یھی نقل کیا ھے کہ سبقت اسلام کا افتخار علی سے مخصوص ھے ۔[7] قطع نظر اس کے کہ پیغمبر اکرم سے،خود حضرت علی (ع)سے اور صحابہ سے اس بارے میں بہت سی روایات نقل هوئی ھیں جو حد تواتر تک پہنچی هوئی ھیں،ذیل میں چند روایات ھم نمونے کے طور پر نقل کرتے ھیں : پیغمبر اکر منے فرمایا :
۱۔پھلا شخص جو حوض کوثر کے کنارے میرے پاس پہنچے گا وہ شخص ھے جو سب سے پھلے اسلام لایا اور وہ علی بن ابی طالب ھے۔ [8]
۲۔ علماء اھل سنت کے ایک گروہ نے پیغمبر اکرم سے نقل کیا ھے کہ آنحضرت نے حضرت علی (ع)کا ھاتھ پکڑکر فرمایا :
یہ پھلا شخص ھے جو مجھ پر ایمان لایا اور پھلا شخص ھے جو قیامت میں مجھ سے مصافحہ کرے گا اور یہ ”صدیق اکبر“ ھے ۔[9]
۳۔ابو سعید خدری رسول اکرم سے نقل کرتے ھیں کہ آنحضرت نے حضرت علی علیہ السلام کے دونوں شانوں کے درمیان ھاتھ مارکر فرمایا :”اے علی (ع) : تم سات ممتاز صفات کے حامل هو کہ جن کے بارے میں روز قیامت کوئی تم سے حجت بازی نھیں کرسکتا ۔ تم وہ پھلے شخص هو جو خدا پر ایمان لائے اور خدائی پیمانوں کے زیادہ وفادار هو اور فرمان خداکی اطاعت میں تم زیادہ قیام کرنیوالے هو ۔۔۔“[10]
تحریف تاریخ
یہ امر لائق توجہ ھے کہ بعض لوگ ایسے بھی جوایمان اوراسلام میں حضرت علی کی سبقت کا سیدھے طریقے سے تو انکار نھیں کرسکے لیکن کچھ واضح البطلان علل کی بنیاد پر ایک اور طریقے سے انکار کی کوشش کی ھے یا اسے کم اھم بنا کر پیش کیا ھے بعض نے کو شش کی ھے ان کی جگہ حضرت ابوبکر کو پھلا مسلمان قرار دیں یہ لوگ کبھی کہتے ھیں کہ علی اس وقت دس سال کے تھے لہٰذا طبعاًنا با لغ تھے اس بناء پر ان کا اسلام ایک بچے کے اسلام کی حیثیت سے دشمن کے مقابلے میںمسلمانوں کے محاذ کے لیے کوئی اھمیت نھیں رکھتا تھا۔[11]
یہ بات واقعاً عجیب ھے اور حقیقت میں خود پیغمبر خدا پر اعتراض ھے کیونکہ ھمیں معلوم ھے کہ یوم الدار(دعوت ذی العشیرہ کے موقع پر )رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسلام اپنے قبیلے کے سامنے پیش کیا اور کسی نے حضرت علی(ع) کے سوا اسے قبول نہ کیا اس وقت حضرت علی کھڑے هوگئے اور اسلام کا اعلان کیا تو آپ نے ان کے اسلام کو قبول کیا بلکہ یھاں تک اعلان کیا کہ تو میرے بھائی ،میرا وصی اور میرا خلیفہ ھے ۔
یہ وہ حدیث ھے جو شیعہ سنی حافظان حدیث نے کتب صحاح اور مسانید میںنقل کی ھے، اسی طرح کئی مورخین اسلام نے اسے نقل کیا ھے یہ نشاندھی کرتی ھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی (ع)کی اس کم سنی میں نہ صرف ان کا اسلام قبول کیا ھے بلکہ ان کا اپنے بھائی ، وصی اور جانشین کی حیثیت سے تعارف بھی کروایا ھے ۔[12]
کبھی کہتے ھیں کہ عورتوں میں پھلی مسلمان خدیجہ تھیں ، مردوں میں پھلے مسلمان ابوبکر تھے اور بچوں میں پھلے مسلمان علی تھے یوں دراصل وہ اس امر کی اھمیت کم کرنا چاہتے ھیں [13]
حالانکہ اول تو جیسا کہ ھم کہہ چکے ھیں حضرت علی علیہ السلام کی اھمیت اس وقت کی سن سے اس امر کی اھمیت کم نھیں هوسکتی خصوصاً جب کہ قرآن حضرت یحٰیی(ع) کے بارے میں کہتا ھے : ”ھم نے اسے بچپن کے عالم میں حکم دیا“۔ [14]
حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں بھی ھے کہ وہ بچپن کے عالم میں بھی بول اٹھے اور افراد ان کے بارے میں شک کرتے تھے ان سے کھا : ”میں اللہ کا بندہ هوں مجھے اس نے آسمانی کتاب دی اور مجھے نبی بنایا ھے “۔[15]
ایسی آیات کو اگر ھم مذکورہ حدیث سے ملاکردیکھیں کہ جس میں آپ نے حضرت علی (ع)کو اپنا وصی، خلیفہ اور جانشین قرار دیا ھے توواضح هوجاتاھے کہ صاحب المنار کی متعصبانہ گفتگو کچھ حیثیت نھیں رکھتی ۔
دوسری بات یہ ھے کہ یہ امرتاریخی لحاظ سے مسلم نھیں ھے کہ حضرت ابوبکر اسلام لانے والے تیسرے شخص تھے بلکہ تاریخ وحدیث کی بہت سی کتب میں ان سے پھلے بہت سے افراد کے اسلام قبول کرنے ذکر ھے ۔ یہ بحث ھم اس نکتے پر ختم کرتے ھیں کہ حضرت علی (ع)نے خود اپنے ارشادات میں اس امر کی طرف اشارہ کیا ھے کہ میں پھلا مومن ، پھلا مسلمان اور سول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ پھلا نماز گذارهوں اور اس سے آپ نے اپنے مقام وحیثیت کو واضح کیا ھے یہ بات آپ سے بہت سی کتب میں منقول ھے۔
علاوہ ازیں ابن ابی الحدید مشهور عالم ابو جعفر اسکافی معتزلی سے نقل کرتے ھیں کہ یہ جو بعض لوگ کہتے ھیں کہ ابوبکر اسلام میں سبقت رکھتے تھے اگر یہ امر صحیح ھے تو پھر خود انھوں نے اس سے کسی مقام پر اپنی فضیلت کے لیے استدلال کیوں نھیں کیا اور نہ ھی ان کے حامی کسی صحابی نے ایسا دعوی کیا ھے۔[16]
دعوت ذوالعشیرة
تاریخ اسلام کی رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بعثت کے تیسرے سال اس دعوت کا حکم هوا کیونکہ اب تک آپ کی دعوت مخفی طورپرجاری تھی اور اس مدت میں بہت کم لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا ،لیکن جب یہ آیت نازل هوئی ” وانذر عشیرتک الا قربین “۔ [17]
اور یہ آیت بھی ” فاصدع بما تومرواعرض عن المشرکین “ ۔[18] تو آپ کھلم کھلا دعوت دینے پر مامور هوگئے اس کی ابتداء اپنے قریبی رشتہ داروں سے کرنے کا حکم هوا ۔
اس دعوت اور تبلیغ کی اجمالی کیفیت کچھ اس طرح سے ھے : آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو جناب ابوطالب کے گھر میں دعوت دی اس میںتقریباً چالیس افراد شریک هوئے آپ کے چچاؤں میں سے ابوطالب، حمزہ اور ابولھب نے بھی شرکت کی ۔
کھانا کھالینے کے بعد جب آنحضرت نے اپنا فریضہ ادا کرنے کا ارادہ فرمایا تو ابولھب نے بڑھ کر کچھ ایسی باتیں کیں جس سے سارا مجمع منتشر هوگیالہٰذا آپ نے انھیں کل کے کھانے کی دعوت دے دی ۔
دوسرے دن کھانا کھانے کے بعد آپ نے ان سے فرمایا : ” اے عبد المطلب کے بیٹو: پورے عرب میں مجھے کوئی ایسا شخص دکھائی نھیں دیتا جو اپنی قوم کے لیے مجھ سے بہتر چیز لایا هو ، میں تمھارے لیے دنیا اور آخرت کی بھلائی لے کر آیا هوں اور خدا نے مجھے حکم دیا ھے کہ تمھیں اس دین کی دعوت دوں ، تم میں سے کون ھے جو اس کام میں میرا ھاتھ بٹائے تاکہ وہ میرا بھائی ، میرا وصی اور میرا جانشین هو“ ؟ سب لوگ خاموش رھے سوائے علی بن ابی طالب کے جو سب سے کم سن تھے، علی اٹھے اور عرض کی : ”اے اللہ کے رسول! اس راہ میں میں آپ کا یاروومددگار هوں گا“ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا ھاتھ علی (ع)کی گردن پر رکھا اور فرمایا : ”ان ھذا اخی ووصی وخلیفتی فیکم فاسمعوالہ واطیعوہ “۔ یہ (علی (ع)) تمھارے درمیان میرا بھائی ، میرا وصی اور میرا جانشین ھے اس کی باتوں کو سنو اور اس کے فرمان کی اطاعت کرو ۔ یہ سن کر سب لوگ اٹھ کھڑے هوئے اور تمسخر آمیز مسکراہٹ ان کے لبوں پر تھی ، ابوطالب (ع)سے سے کہنے لگے، ”اب تم اپنے بیٹے کی باتوں کو سنا کرو اور اس کے فرمان پر عمل کیا کرنا“۔[19]
اس روایت سے معلوم هوتا ھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان دنوں کس حدتک تنھا تھے اور لوگ آپ کی دعوت کے جواب میں کیسے کیسے تمسخرآمیزجملے کھا کرتے تھے اور علی علیہ السلام ان ابتدائی ایام میں جب کہ آپ بالکل تنھا تھے کیونکر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مدافع بن کر آپ کے شانہ بشانہ چل رھے تھے۔
ایک اور روایت میں ھے کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس وقت قریش کے ھر قبیلے کا نام لے لے کر انھیں بلایا اور انھیں جہنم کے عذاب سے ڈرایا، کبھی فرماتے:” یابنی کعب انقذواانفسکم من النار “۔
اے بنی کعب : خود کو جہنم سے بچاؤ، کبھی فرماتے : ”یا بنی عبد الشمس“ ۔۔ کبھی فرماتے :” یابنی عبدمناف“ ۔کبھی فرماتے : ”یابنی ھاشم “۔کبھی فرماتے : ”یابنی عبد المطلب انقذ وانفسکم النار “۔ تم خودھی اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ ، ورنہ کفر کی صورت میں میں تمھارا دفاع نھیں کرسکوں گا ۔
ابن ابی جریر، ابن ابی حاتم ، ابن مردویہ ، ابونعیم ، بیہقی ، ثعلبی اور طبری مورخ ابن اثیر نے یہ واقعہ اپنی کتاب ” کامل “ میں اور ” ابوالفداء “ نے اپنی تاریخ میں اور دوسرے بہت سے مورخین نے اپنی اپنی کتابوں میں اسے درج کیا ھے مزید آگاھی کے لئے کتاب” المرجعات “ص۱۳۰ کے بعد سے اور کتاب ”احقاق الحق“ ج۲، ص۶۲ ملاحظہ فرمائیں۔
ایمان ابوطالب
تمام علمائے شیعہ اور اھل سنت کے بعض بزرگ علماء مثلاً ”ابن ابی الحدید“شارح نہج البلاغہ نے اور”قسطلانی“ نے ارشاد الساری میں اور” زینی دحلان“ نے سیرةحلبی کے حاشیہ میں حضرت ابوطالب کو مومنین اھل اسلام میں سے بیان کیا ھے۔اسلام کی بنیادی کتابوں کے منابع میں بھی ھمیںاس موضوع کے بہت سے شواہد ملتے ھیں کہ جن کے مطالعہ کے بعد ھم گھرے تعجب اور حیرت میں پڑجاتے ھیں کہ حضرت ابوطالب پرایک گروہ کی طرف سے اس قسم کی بے جا تھمیںکیوں لگائی گئیں ؟
جو شخص اپنے تمام وجود کے ساتھ پیغمبر اسلام کا دفاع کیا کرتا تھا اور بار ھا خوداپنے فرزند کو پیغمبراسلام کے وجود مقدس کو بچانے کے لئے خطرات کے مواقع پر ڈھال بنادیا کرتا تھا!!یہ کیسے هوسکتا ھے کہ اس پر ایسی تھمت لگائی جائے۔
یھی سبب ھے کہ دقت نظر کے ساتھ تحقیق کرنے والوں نے یہ سمجھا ھے کہ حضرت ابوطالب کے خلاف، مخالفت کی لھر ایک سیاسی ضرورت کی وجہ سے ھے جو ” شجرہٴ خبیثہٴ بنی امیّہ“ کی حضرت علی علیہ السلام کے مقام ومرتبہ کی مخالفت سے پیداهوئی ھے۔
کیونکہ یہ صرف حضرت ابوطالب کی ذات ھی نھیں تھی کہ جو حضرت علی علیہ السلام کے قرب کی وجہ سے ایسے حملے کی زد میں آئی هو ،بلکہ ھم دیکھتے ھیں کہ ھر وہ شخص جو تاریخ اسلام میں کسی طرح سے بھی امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سے قربت رکھتا ھے ایسے ناجو انمردانہ حملوں سے نھیں بچ سکا، حقیقت میں حضرت ابوطالب کا کوئی گناہ نھیں تھا سوائے اس کے وہ حضرت علی علیہ السلام جیسے عظیم پیشوائے اسلام کے باپ تھے۔
ایمان ابو طالب پر سات دلیل
ھم یھاں پر ان بہت سے دلائل میں سے جو واضح طور پر ایمان ابوطالب کی گواھی دیتے ھیں کچھ دلائل مختصر طور پر فھرست وار بیان کرتے ھیں تفصیلات کے لئے ان کتابوں کی طرف رجوع کریں جو اسی موضوع پر لکھی گئی ھیں۔
۱۔ حضرت ابوطالب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت سے پھلے خوب اچھی طرح سے جانتے تھے کہ ان کا بھتیجا مقام نبوت تک پہنچے گا کیونکہ مورخین نے لکھا ھے کہ جس سفر میں حضرت ابوطالب قریش کے قافلے کے ساتھ شام گئے تھے تو اپنے بارہ سالہ بھتجے محمد کو بھی اپنے ساتھ لے گئے تھے ۔ اس سفر میں انهوں نے آپ سے بہت سی کرامات مشاہدہ کیں۔
ان میں ایک واقعہ یہ ھے کہ جو نھیں قافلہ ”بحیرا“نامی راھب کے قریب سے گزرا جو قدیم عرصے سے ایک گرجے میں مشغول عبادت تھا اور کتب عہدین کا عالم تھا ،تجارتی قافلے اپنے سفر کے دوران اس کی زیارت کے لئے جاتے تھے، توراھب کی نظریں قافلہ والوں میں سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جم کررہ گئیں، جن کی عمراس وقت بارہ سال سے زیادہ نہ تھی ۔
بحیرانے تھوڑی دیر کے لئے حیران وششدر رہنے اور گھری اور پُرمعنی نظروں سے دیکھنے کے بعد کھا:یہ بچہ تم میں سے کس سے تعلق رکھتا ھے؟لوگوں نے ابوطالب کی طرف اشارہ کیا، انهوں نے بتایا کہ یہ میرا بھتیجا ھے۔
” بحیرا“ نے کھا : اس بچہ کا مستقبل بہت درخشاں ھے، یہ وھی پیغمبر ھے کہ جس کی نبوت ورسالت کی آسمانی کتابوں نے خبردی ھے اور میں نے اسکی تمام خصوصیات کتابوں میں پڑھی ھیں ۔
ابوطالب اس واقعہ اور اس جیسے دوسرے واقعات سے پھلے دوسرے قرائن سے بھی پیغمبر اکرم کی نبوت اور معنویت کو سمجھ چکے تھے ۔
اھل سنت کے عالم شھرستانی (صاحب ملل ونحل) اور دوسرے علماء کی نقل کے مطابق: ”ایک سال آسمان مکہ نے اپنی برکت اھل مکہ سے روک لی اور سخت قسم کی قحط سالی نے لوگوں کوگھیر لیاتو ابوطالب نے حکم دیا کہ ان کے بھتیجے محمد کو جو ابھی شیر خوارھی تھے لایاجائے، جب بچے کو اس حال میں کہ وہ ابھی کپڑے میں لپیٹا هوا تھا انھیں دیا گیا تو وہ اسے لینے کے بعد خانہٴ کعبہ کے سامنے کھڑے هوگئے اور تضرع وزاری کے ساتھ اس طفل شیر خوار کو تین مرتبہ اوپر کی طرف بلند کیا اور ھر مرتبہ کہتے تھے، پروردگارا، اس بچہ کے حق کا واسطہ ھم پر برکت والی بارش نازل فرما ۔
کچھ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ افق کے کنارے سے بادل کا ایک ٹکڑا نمودار هوا اور مکہ کے آسمان پر چھا گیا اور بارش سے ایسا سیلاب آیا کہ یہ خوف پیدا هونے لگا کہ کھیں مسجد الحرام ھی ویران نہ هوجائے “۔
اس کے بعد شھرستانی لکھتا ھے کہ یھی واقعہ جوابوطالب کی اپنے بھتیجے کے بچپن سے اس کی نبوت ورسالت سے آگاہ هونے پر دلالت کرتا ھے ان کے پیغمبر پر ایمان رکھنے کا ثبوت بھی ھے اور ابوطالب نے بعد میں اشعار ذیل اسی واقعہ کی مناسبت سے کھے تھے :
و ابیض یستسقی الغمام بوجہہ
ثمال الیتامی عصمة الارامل
” وہ ایسا روشن چھرے والا ھے کہ بادل اس کی خاطر سے بارش برساتے ھیں وہ یتیموں کی پناہ گاہ اور بیواؤں کے محافظ ھیں “
یلوذ بہ الھلاک من آل ھاشم
فھم عندہ فی نعمة و فواضل
” بنی ھاشم میں سے جوچل بسے ھیں وہ اسی سے پناہ لیتے ھیں اور اسی کے صدقے میں نعمتوں اور احسانات سے بھرہ مند هوتے ھیں ،،
ومیزان عدلہ یخیس شعیرة
ووزان صدق وزنہ غیر ھائل
” وہ ایک ایسی میزان عدالت ھے کہ جو ایک جَوبرابر بھی ادھرادھر نھیں کرتا اور درست کاموں کا ایسا وزن کرنے والا ھے کہ جس کے وزن کرنے میں کسی شک وشبہ کا خوف نھیں ھے “
قحط سالی کے وقت قریش کا ابوطالب کی طرف متوجہ هونا اور ابوطالب کا خدا کو آنحضرت کے حق کا واسطہ دینا شھرستانی کے علاوہ اور دوسرے بہت سے عظیم مورخین نے بھی نقل کیا ھے ۔“[20]
اشعار ابوطالب زندہ گواہ
۲۔اس کے علاوہ مشهور اسلامی کتابوں میں ابوطالب کے بہت سے اشعار ایسے ھیں جو ھماری دسترس میں ھیں ان میں سے کچھ اشعار ھم ذیل میں پیش کررھے ھیں :
والله ان یصلوالیک بجمعھم
حتی اوسدفی التراب دفینا
”اے میرے بھتیجے خدا کی قسم جب تک ابوطالب مٹی میںنہ سوجائے اور لحد کو اپنا بستر نہ بنالے دشمن ھرگز ھرگز تجھ تک نھیں پہنچ سکیں گے“
فاصدع بامرک ماعلیک غضاضتہ
وابشربذاک وقرمنک عیونا
”لہٰذا کسی چیز سے نہ ڈراور اپنی ذمہ داری اور ماموریت کا ابلاع کر، بشارت دے اور آنکھوں کو ٹھنڈا کر“۔
ودعوتنی وعلمت انک ناصحی
ولقد دعوت وکنت ثم امینا
”تونے مجھے اپنے مکتب کی دعوت دی اور مجھے اچھی طرح معلوم ھے کہ تیرا ہدف ومقصد صرف پندو نصیحت کرنا اور بیدار کرنا ھے، تو اپنی دعوت میں امین اور صحیح ھے“
ولقد علمت ان دین محمد(ص)
من خیر ادیان البریة دیناً
” میں یہ بھی جانتا هوں کہ محمد کا دین ومکتب تمام دینوں اور مکتبوں میں سب سے بہتردین ھے“۔
اور یہ اشعار بھی انهوں نے ھی ارشاد فرمائے ھیں :
الم تعلمواانا وجدنا محمد اً
رسولا کموسیٰ خط فی اول الکتب
” اے قریش ! کیا تمھیں معلوم نھیں ھے کہ محمد( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) موسیٰ (علیہ السلام) کی مثل ھیں اور موسیٰ علیہ السلام کے مانند خدا کے پیغمبر اور رسول ھیں جن کے آنے کی پیشین گوئی پھلی آسمانی کتابوں میں لکھی هوئی ھے اور ھم نے اسے پالیاھے“۔
وان علیہ فی العباد محبة
ولاحیف فی من خصہ اللہ فی الحب
” خدا کے بندے اس سے خاص لگاؤ رکھتے ھیں اور جسے خدا وندمتعال نے اپنی محبت کے لئے مخصوص کرلیا هو اس شخص سے یہ لگاؤبے موقع نھیں ھے۔“
ابن ابی الحدید نے جناب ابوطالب کے کافی اشعار نقل کرنے کے بعد (کہ جن کے مجموعہ کو ابن شھر آشوب نے ” متشابھات القرآن“ میں تین ہزار اشعار کھا ھے) کہتا ھے : ”ان تمام اشعار کے مطالعہ سے ھمارے لئے کسی قسم کے شک وشبہ کی کوئی گنجائش باقی نھیں رہ جاتی کہ ابوطالب اپنے بھتیجے کے دین پر ایمان رکھتے تھے“۔
۳۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بہت سی ایسی احادیث بھی نقل هوئی ھیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ان کے فدا کار چچا ابوطالب کے ایمان پر گواھی دیتی ھیں منجملہ ان کے کتاب ” ابوطالب مومن قریش“ کے مولف کی نقل کے مطابق ایک یہ ھے کہ جب ابوطالب کی وفات هوگئی تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی تشیع جنازہ کے بعد اس سوگواری کے ضمن میں جو اپنے چچا کی وفات کی مصیبت میں آپ کررھے تھے آپ یہ بھی کہتے تھے:
”ھائے میرے بابا! ھائے ابوطالب ! میں آپ کی وفات سے کس قدر غمگین هوں کس طرح آپ کی مصیبت کو میں بھول جاؤں ، اے وہ شخص جس نے بچپن میں میری پرورش اور تربیت کی اور بڑے هونے پر میری دعوت پر لبیک کھی ، میں آپ کے نزدیک اس طرح تھا جیسے آنکھ خانہٴ چشم میں اور روح بدن میں“۔
نیز آپ ھمیشہ یہ کیا کرتے تھے :” مانالت منی قریش شیئًااکرھہ حتی مات ابوطالب “
”اھل قریش اس وقت تک کبھی میرے خلاف ناپسندیدہ اقدام نہ کرسکے جب تک ابوطالب کی وفات نہ هوگئی“۔
۴۔ ایک طرف سے یہ بات مسلم ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ابوطالب کی وفات سے کئی سال پھلے یہ حکم مل چکا تھا کہ وہ مشرکین کے ساتھ کسی قسم کا دوستانہ رابطہ نہ رکھیں ،اس کے باوجود ابوطالب کے ساتھ اس قسم کے تعلق اور مھرو محبت کا اظھار اس بات کی نشاندھی کرتا ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انھیں مکتب توحید کا معتقد جانتے تھے، ورنہ یہ بات کس طرح ممکن هوسکتی تھی کہ دوسروں کو تو مشرکین کی دوستی سے منع کریں اور خود ابوطالب سے عشق کی حدتک مھرومحبت رکھیں۔
۵۔ان احادیث میں بھی کہ جو اھل بیت پیغمبر کے ذریعہ سے ھم تک پہنچی ھیں حضرت ابوطالب کے ایمان واخلاص کے بڑی کثرت سے مدارک نظر آتے ھیں، جن کا یھاں نقل کرنا طول کا باعث هوگا، یہ احادیث منطقی استدلالات کی حامل ھیں ان میں سے ایک حدیث چوتھے امام علیہ السلام سے نقل هوئی ھے اس میں امام علیہ السلام نے اس سوال کے جواب میں کہ کیا ابوطالب مومن تھے؟ جواب دینے کے بعد ارشاد فرمایا:
”ان ھنا قوماً یزعمون انہ کافر“ ، اس کے بعد فرمایاکہ: ” تعجب کی بات ھے کہ بعض لوگ یہ کیوں خیال کرتے ھیں کہ ابوطالب کا فرتھے۔ کیا وہ نھیں جانتے کہ وہ اس عقیدہ کے ساتھ پیغمبر اور ابوطالب پر طعن کرتے ھیں کیا ایسا نھیں ھے کہ قرآن کی کئی آیات میں اس بات سے منع کیا گیا ھے (اور یہ حکم دیا گیا ھے کہ ) مومن عورت ایمان لانے کے بعد کافر کے ساتھ نھیں رہ سکتی اور یہ بات مسلم ھے کہ فاطمہ بنت اسدرضی اللہ عنھا سابق ایمان لانے والوں میں سے ھیں اور وہ ابوطالب کی زوجیت میں ابوطالب کی وفات تک رھیں۔“
ابوطالب تین سال تک شعب میں
۶۔ان تمام باتوں کو چھوڑتے هوئے اگرانسان ھر چیز میں ھی شک کریں تو کم از کم اس حقیقت میں تو کوئی شک نھیں کرسکتا کہ ابوطالب اسلام اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے درجہٴ اول کے حامی ومددگار تھے ، ان کی اسلام اور پیغمبر کی حمایت اس درجہ تک پہنچی هوئی تھی کہ جسے کسی طرح بھی رشتہ داری اور قبائلی تعصبات سے منسلک نھیں کیا جاسکتا ۔
اس کا زندہ نمونہ شعب ابوطالب کی داستان ھے۔ تمام مورخین نے لکھا ھے کہ جب قریش نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مسلمانوں کا ایک شدید اقتصادی، سماجی اور سیاسی بائیکاٹ کرلیا اور اپنے ھر قسم کے روابط ان سے منقطع کرلئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واحد حامی اور مدافع، ابوطالب نے اپنے تمام کاموں سے ھاتھ کھینچ لیا اور برابر تین سال تک ھاتھ کھینچے رکھا اور بنی ھاشم کو ایک درہ کی طرف لے گئے جو مکہ کے پھاڑوں کے درمیان تھا اور ”شعب ابوطالب“ کے نام سے مشهور تھا اور وھاں پر سکونت اختیار کر لی۔
ان کی فدا کاری اس مقام تک جا پہنچی کہ قریش کے حملوں سے بچانے کےلئے کئی ایک مخصوص قسم کے برج تعمیرکرنے کے علاوہ ھر رات پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ان کے بستر سے اٹھاتے اور دوسری جگہ ان کے آرام کے لئے مھیا کرتے اور اپنے فرزند دلبند علی کو ان کی جگہ پر سلادیتے اور جب حضرت علی کہتے: ”بابا جان! میں تو اسی حالت میں قتل هوجاؤں گا “ تو ابوطالب جواب میں کہتے :میرے پیارے بچے! بردباری اور صبر ھاتھ سے نہ چھوڑو، ھر زندہ موت کی طرف رواںدواں ھے، میں نے تجھے فرزند عبد اللہ کا فدیہ قرار دیا ھے ۔
یہ بات اور بھی طالب توجہ ھے کہ جو حضرت علی علیہ السلام باپ کے جواب میں کہتے ھیں کہ بابا جان میرا یہ کلام اس بناپر نھیں تھا کہ میں راہ محمد میں قتل هونے سے ڈرتاهوں، بلکہ میرا یہ کلام اس بنا پر تھا کہ میں یہ چاہتا تھا کہ آپ کو معلوم هوجائے کہ میں کس طرح سے آپ کا اطاعت گزار اور احمد مجتبیٰ کی نصرت ومدد کے لئے آمادہ و تیار هوں۔
قارئین کرام ! ھمارا عقیدہ یہ ھے کہ جو شخص بھی تعصب کو ایک طرف رکھ کر غیر جانبداری کے ساتھ ابوطالب کے بارے میں تاریخ کی سنھری سطروں کو پڑھے گا تو وہ ابن ابی الحدید شارح نہج البلاغہ کا ھمصدا هوکر کھے گا :
ولولا ابوطالب وابنہ لما مثل الدین شخصا وقاما
فذاک بمکة آوی وحامی وھذا بیثرب جس الحماما
” اگر ابوطالب اور ان کا بیٹا نہ هوتے تو ھرگزمکتب اسلام باقی نہ رہتا اور اپنا قدسیدھا نہ کرتا ،ابوطالب تو مکہ میں پیغمبر کی مدد کےلئے آگے بڑھے اور علی یثرب (مدینہ) میں حمایت اسلام کی راہ میں گرداب موت میں ڈوب گئے“
ابوطالب کا سال وفات ”عام الحزن“
۷۔”ابوطالب کی تایخ زندگی، جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے ان کی عظیم قربانیاں اور رسول اللہ اور مسلمانوں کی ان سے شدید محبت کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے ۔ ھم یھاں تک دیکھتے ھیں کہ حضرت ابوطالب کی موت کے سال کا نام ”عام الحزن“ رکھا یہ سب باتیں اس امر کی دلیل ھیں کہ حضرت ابوطالب کو اسلام سے عشق تھا اور وہ جو پیغمبر اسلام کی اس قدر مدافعت کرتے تھے وہ محض رشتہ داری کی وجہ سے نہ تھی بلکہ اس دفاع میں آپ کی حیثیت ایک مخلص، ایک جاں نثار اور ایسے فدا کار کی تھی جو اپنے رھبر اور پیشوا کا تحفظ کررھا هو۔“
ابولھب کی دشمنی
اس کانام ” عبدالعزی“ (عزی بت کا بندہ ) اور اس کی کنیت ”ابولھب“ تھی۔ اس کے لیے اس کنیت کا انتخاب شاید اس وجہ سے تھا کہ اس کا چھرہ سرخ اور بھڑکتا هوا تھا، چونکہ لغت میں لھب آگ کے شعلہ کے معنی میں ھے ۔
وہ اور اس کی بیوی ”ام جمیل“جو ابوسفیان کی بہن تھی ، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نھایت بدزبان اور سخت ترین دشمنوں میں سے تھے ۔
”طارق محارق “ نامی ایک شخص کہتاھے : میں “ ذی المجاز “ کے بازار میں تھا ۔[21]
اچانک میں نے ایک جوان کو دیکھا جو پکار پکار کر کہہ رھا تھا: اے لوگو: لاالہ الا اللہ کا اقرار کر لو تو نجات پاجاؤگے ۔ اور اس کے پیچھے پیچھے میں نے ایک شخص کو دیکھا جو اس کے پاؤں کے پچھلے حصہ پرپتھر مارتاجاتاھے جس کی وجہ سے اس کے پاؤں سے خون جاری تھا اوروہ چلا چلا کر کہہ رھاتھا ۔اے لوگو! یہ جھوٹاھے اس کی بات نہ ماننا “۔
میں نے پوچھا کہ یہ جوان کون ھے ؟ تو لوگوں نے بتایا :” یہ محمد، ، صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ھے جس کا گمان یہ ھے کہ وہ پیغمبر ھے اور یہ بوڑھا اس کا چچا ابولھب ھے جو جو اس کو جھوٹا سمجھتا ھے ۔
”ربیع بن عباد“ کہتا ھے : میں اپنے باپ کے ساتھ تھا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھاکہ وہ قبائل عرب کے پاس جاتے اور ھر ایک کو پکار کر کہتے : میں تمھاری طرف خدا کا بھیجا هوا رسول هوں : تم خدائے یگانہ کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ ۔
جب وہ اپنی بات سے فارغ هوجاتاتو ایک خوبرو بھینگا آدمی جو ان کے پیچھے پیچھے تھا، پکارکرکہتا : اے فلاں قبیلے : یہ شخص یہ چاہتاھے کہ تم لات وعزی بت اور اپنے ھم پیمان جنوں کو چھوڑدو اور اس کی بدعت وضلالت کی پیروی کرنے لگ جاؤاس کی نہ سننا، اور اس کی پیروی نہ کرنا “۔
میں نے پوچھا کہ یہ کون ھے ؟ تو انهوں نے بتایا کہ یہ ” اس کا چچا ابولھب ھے “۔
ابولھب پیغمبر کا پیچھا کرتارھا
جب مکہ سے باھر کے لوگوں کا کوئی گروہ اس شھر میں داخل هوتا تھا تو وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کی رشتہ داری اور سن وسال کے لحاظ سے بڑاهونے کی بناپر ابولھب کے پاس جاتاتھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں تحقیق کرتا تھا وہ جواب دیتا تھا: محمد ایک جادوگر ھے ،وہ بھی پیغمبر سے ملاقات کئے بغیر ھی لوٹ جاتے اسی اثناء میں ایک ایسا گروہ آیا جنهوں نے یہ کھا کہ ھم تو اسے دیکھے بغیر واپس نھیں جائیں گے ابولھب نے کھا : ”ھم مسلسل اس کے جنون کا علاج کررھے ھیں : وہ ھلاک هوجائے “۔
وہ اکثر مواقع پر سایہ کی طرح پیغمبر کے پیچھے لگارہتا تھا اور کسی خرابی سے فروگذاشت نہ کرتا تھا خصوصاً اس کی زبان بہت ھی گندی اور آلودہ هوتی تھی اور وہ رکیک اورچبھنے والی باتیں کیا کرتا تھا اور شاید اسی وجہ سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سب دشمنوں کا سرغنہ شمار هوتا تھا اسی بناء پر قرآن کریم اس پر اور اس کی بیوی ام جمیل پر ایسی صراحت اور سختی کے ساتھ تنقید کررھاھے وھی ایک اکیلا ایسا شخص تھا جس نے پیغمبر اکرم سے بنی ھاشم کی حمایت کے عہد وپیمان پر دستخط نھیں کئے تھے اور اس نے آپ کے دشمنوں کی صف میں رہتے هوئے دشمنوں کے عہد وپیمان میں شرکت کی تھی۔
ابو لھب کے ھاتھ کٹ جائیں
”ابن عباس “سے نقل هوا ھے کہ جس وقت آیہٴ”ونذر عشیرتک الاقربین“۔نازل هوئی اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے قریبی رشتہ داروں کو انذار کرنے اور اسلام کی دعوت دینے پر مامور هوئے،تو پیغمبرکوہ صفا پرآئے اور پکار کر کھا”یا صباحاہ“(یہ جملہ عرب اس وقت کہتے تھے جب ان پر دشمن کی طرف سے غفلت کی حالت میں حملہ هو جاتا تھاتا کہ سب کو با خبر کردیں اور وہ مقابلہ کے لیے کھڑے هو جائیں،لہٰذا کوئی شخص”یا صباحاہ“کہہ کر آواز دیتا تھا”صباح“کے لفظ کا انتخاب اس وجہ سے کیا جاتا تھا کہ عام طور پر غفلت کی حالت میں حملے صبح کے دقت کیے جاتے تھے۔
مکہ کے لوگوں نے جب یہ صدا سنی تو انهوں نے کھا کہ یہ کون ھے جو فریاد کررھا ھے۔
کھا گیا کہ یہ”محمد“ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ھیں۔ کچھ لوگ آپ کے پاس پہنچے تو آپ نے قبائل عرب کو ان کے نام کے ساتھ پکارا۔ آپ کی آواز پر سب کے سب جمع هوگئے تو آپ نے ان سے فرما یا:
”مجھے بتلاؤ! اگر میں تمھیں یہ خبر دوں کہ دشمن کے سوار اس پھاڑ کے پیچھے سے حملہ کرنے والے ھیں،تو کیا تم میری بات کی تصدیق کروگے“۔
انهوں نے جواب دیا:”ھم نے آپ سے کبھی بھی جھوٹ نھیں سنا“۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”انی نذیر لکم بین یدی عذاب شدید“۔
”میں تمھیں خدا کے شدید عذاب سے ڈراتا هوں“۔
(”میں تمھیںتوحیدکا اقرار کرنے او ربتوں کو ترک کرنے کی دعوت دیتا هوں“)جب ابو لھب نے یہ بات سنی تو اس نے کھا:
”تبالک!اٴما جمعتنا الا لھذا؟!“۔
تو ھلاک هو جائے! کیا تو نے ھمیں صرف اس بات کے لیے جمع کیا ھے“؟
اس مو قع پر یہ سورہ نازل هوا :
<تبت یداا بی لھب وتب۔>[22]
اے ابو لھب! تو ھی ھلاک هو اور تیرے ھاتھ ٹوٹیں،تو ھی زیاں کار اور ھلاک هونے والاھے،اس کے مال وثروت نے اور جو کچھ اس نے کمایا ھے اس نے، اسے ھر گز کوئی فائدہ نھیں دیا اور وہ اسے عذاب الٰھی سے نھیں بچائے گا“۔
اس تعبیر سے معلوم هوتا ھے کہ وہ ایک دولت مند مغرور شخص تھا جواپنی اسلام دشمن کوششوں کے لئے اپنے مال ودولت پر بھروسہ کرتاتھا۔
بعدمیں قرآن مزیے کہتا ھے،”وہ جلدی ھی اس آگ میں داخل هوگا جس کے شعلے بھڑکنے والے ھیں“۔[23]
اگر اس کا نام ”ابو لھب“ھے تو اس کے لئے عذاب بھی”بو لھب“ھے یعنی اس کے لئے بھڑگتے هوئے آگ کے شعلہ ھیں۔
ایندھن اٹھائے هوئے
قرآن کریم نے اس کے بعد اس کی بیوی ”ام جمیل “ کی کیفیت بیان کرتے هوئے فرمایاھے :”اس کی بیوی بھی جہنم کی بھڑکتی هوئی آگ میں داخل هوگی ، جو اپنے د وش پر ایندھن اٹھاتی ھے“۔ [24]
”اور اس کی گردن میں خرماکی چھال کی رسی یا گردن بند ھے “۔[25]
”فی جیدھا حبل من مسد“
”مسد“ (بروزن حسد) اس رسی کے معنی میں ھے جو کھجور کے پتوں سے بنائی جاتی ھے ۔ بعض نے یہ کھا ھے کہ ”مسد“ وہ رسی ھے جو جہنم میں اس کی گردن میں ڈالیںگے جس میں کھجور کے پتوں جیسی سختی هوگی اور اس میں آگ کی حرارت اور لوھے کی سنگینی هوگی ۔
بعض نے یہ بھی کھا ھے کہ چونکہ بڑے لوگوں کی عورتیں اپنی شخصیت کو آلات وزیورات خصوصا ًگردن کے قیمتی زیورات سے زینت دینے میں خاص بات سمجھتی ھیں ،لہٰذا خدا قیامت میں اس مضراوروخود پسند عورت کی تحقیر کے لیے لیف خرما کا ایک گردن بند اس کی گردن میں ڈال دے گایا یہ اصلا اس کی تحقیر سے کنایہ ھے ۔
بعض نے یہ بھی کھا ھے کہ اس تعبیر کے بیان کرنے کا سبب یہ ھے کہ ” ام جمیل “ کے پاس جواھرات کا ایک بہت ھی قیمتی گردن بند تھااور اس نے یہ قسم کھائی تھی کہ وہ اسے پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دشمنی میں خرچ کرے گی لہٰذا اس کے اس کام کے بدلے میں خدا نے بھی اس کے لئے ایسا عذاب مقرر کردیا ھے ۔
ابولھب کاعبرت ناک انجام
روایات میں آیا ھے کہ جنگ”بدر“اور سخت شکست کے بعد ،جو مشرکین قریش کو اٹھانی پڑی تھی ، ابولھب نے جوخود میدان جنگ میں شریک نھیں هوا تھا ،ابوسفیان کے واپس آنے پر اس ماجرے کے بارے میںسوال کیا،ابو سفیان کے قریش کے لشکر کی شکست اور سرکوبی کی کیفیت بیان کی، اس کے بعد اس نے مزید کھا :خدا کی قسم ھم نے اس جنگ میں آسمان وزمین کے درمیان ایسے سوار دیکھے ھیں جو محمد کی مدد کے لیے آئے تھے ۔
اس موقع پر” عباس “ کے ایک غلام ”ابورافع “نے کھا :میں وھاں بیٹھاهوا تھا ،میں نے اپنے ھاتھ بلند کیے اور کھا کہ وہ آسمانی فرشتے تھے ۔
اس سے ابولھب بھڑک اٹھا اور اس نے ایک زوردار تھپڑمیرے منہ پر دے مارا ، مجھے اٹھاکر زمین پر پٹخ دیا اور اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے مجھے پیٹے چلے جارھا تھا وھاں عباس کی بیوی”ام الفضل“ بھی موجود تھی اس نے ایک چھڑی اٹھائی اور ابولھب کے سرپر دے ماری اور کھا :”کیا تونے اس کمزور آدمی کو اکیلاسمجھا ھے ؟“
ابولھب کا سرپھٹ گیا اور اس سے خون بہنے لگا سات دن کے بعد اس کے بدن میں بدبو پیدا هوگئی ، اس کی جلد میں طاعون کی شکل کے دانے نکل آئے اور وہ اسی بیماری سے واصل جہنم هوگیا ۔
اس کے بدن سے اتنی بدبو آرھی تھی کہ لوگ اس کے نزدیک جانے کی جرات نھیں کرتے تھے وہ اسے مکہ سے باھر لے گئے اور دور سے اس پر پانی ڈالا اور اس کے بعد اس کے اوپر پتھر پھینکے یھاں تک کہ اس کا بدن پتھروں اور مٹی کے نیچے چھپ گیا ۔
ابوسفیا ن وابوجھل چھپ کر قرآن سنتے ھیں
ایک شب ابوسفیان ،ابوجھل اور مشرکین کے بہت سے دوسرے سردارجدا گانہ طور پر اور ایک دوسرے سے چھپ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے قرآن سننے کے لئے آگئے آپ اس وقت نماز پڑھنے میں مشغول تھے اور ھر ایک ، ایک دوسرے سے بالکل بے خبر علیحدہ علیحدہ مقامات پر چھپ کر بیٹھ گئے چنانچہ وہ رات گئے تک قرآن سنتے رھے اور جب واپس پلٹنے لگے تو اس وقت صبح کی سفیدی نمودار هوچکی تھی ۔اتفاق سے سب نے واپسی کے لیے ایک ھی راستے کا انتخاب کیا اور ان کی اچانک ایک دوسرے سے ملاقات هوگئی اور ان کا بھانڈا وھیں پر پھوٹ گیا انھوں نے ایک دوسرے کوملامت کی اور اس بات پر زوردیا کہ آئندہ ایسا کام نھیں کریںگے ، اگر نا سمجھ لوگوں کو پتہ چل گیا تو وہ شک وشبہ میں پڑجائیں گے ۔
دوسری اور تیسری رات بھی ایسا ھی اتفاق هوا اور پھروھی باتیں دھرائی گئیں اور آخری رات تو انھوں نے کھا جب تک اس بات پر پختہ عہد نہ کرلیں اپنی جگہ سے ھلیں نھیں چنانچہ ایسا ھی کیا گیا اور پھر ھر ایک نے اپنی راہ لی ۔اسی رات کی صبح اخنس بن شریق نامی ایک مشرک اپنا عصالے کر سیدھا ابوسفیان کے گھر پہنچا اور اسے کھا : تم نے جو کچھ محمدسے سناھے اس کے بارے میں تمھاری کیا رائے ھے ؟
اس نے کھا:خدا قسم : کچھ مطالب ایسے سنے ھیں جن کا معنی ٰبخوبی سمجھ سکاهوں اور کچھ مسائل کی مراد اور معنیٰ کو نھیںسمجھ سکا ۔ اخنس وھاںسے سیدھا ابوجھل کے پاس پہنچا اس سے بھی وھی سوال کیا : تم نے جو کچھ محمد سے سنا ھے اس کے بارے میں کیا کہتے هو ؟
ابوجھل نے کھا :سناکیاھے، حقیقت یہ ھے کہ ھماری اور اولاد عبدمناف کی قدیم زمانے سے رقابت چلی آرھی ھے انھوں نے بھوکوں کو کھانا کھلایا، ھم نے بھی کھلایا ، انھوں نے پیدل لوگوں کو سواریاں دیں ھم نے بھی دیں ، انھوں نے لوگوں پر خرچ کیا، سوھم نے بھی کیا گویا ھم دوش بدوش آگے بڑھتے رھے۔جب انھوں نے دعویٰ کیا ھے کہ ان کے پاس وحی آسمانی بھی آتی ھے تو اس بارے میں ھم ان کے ساتھ کس طرح برابری کرسکتے ھیں ؟ اب جب کہ صورت حال یہ ھے تو خداکی قسم !ھم نہ تو کبھی اس پر ایمان لائیں گے اور نہ ھی اس کی تصدیق کریں گے ۔اخنس نے جب یہ بات سنی تو وھاں سے اٹھ کر چلاگیا [26]
جی ھاں: قرآن کی کشش نے ان پر اس قدرا ثرکردیا کہ وہ سپیدہٴ صبح تک اس الٰھی کشش میں گم رھے لیکن خود خواھی ، تعصب اور مادی فوائدان پر اس قدر غالب آچکے تھے کہ انھوں نے حق قبول کرنے سے انکار کردیا ۔اس میں شک نھیں کہ اس نورالٰھی میں اس قدر طاقت ھے کہ ھر آمادہ دل کو وہ جھاں بھی هو، اپنی طرف جذب کرلیتا ھے یھی وجہ ھے کہ اس (قرآن)کا ان آیات میں ”جھاد کبیر“ کہہ کر تعارف کروایا گیا ھے۔[27]
ایک اور روایت میں ھے کہ ایک دن ”اخنس بن شریق“ کا ابوجھل سے آمناسامنا هوگیا جب کہ وھاں پر اور کوئی دوسرا آدمی موجود نھیںتھا۔تو اخنس نے اس سے کھا :سچ بتاؤ محمد سچاھے ،یاجھوٹا ؟قریش میں سے کوئی شخص سوامیرے اور تیرے یھاں موجود نھیں ھے جو ھماری باتوں کو سنے ۔
ابوجھل نے کھا: وائے هو تجھ پر خداکی قسم !وہ میرے عقیدے میں سچ کہتا ھے اور اس نے کبھی جھوٹ نھیں بولا لیکن اگر یہ اس بات کی بناهو جائے کہ محمد کا خاندان سب چیزوں کو اپنے قبضہ میں کرلے، حج کا پرچم ، حاجیوں کو پانی پلانا،کعبہ کی پردہ داری اور مقام نبوت تو باقی قریش کے لئے کیا باقی رہ جائےگا۔ [28]
اسلام کے پھلے مھاجرین
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت اور عمومی دعوت کے ابتدائی سالوں میں مسلمان بہت ھی کم تعداد میں تھے قریش نے قبائل عرب کو یہ نصیحت کررکھی تھی کہ ھر قبیلہ اپنے قبیلہ کے ان لوگوں پر کہ جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان لاچکے ھیں انتھائی سخت دباؤڈالیں اور اس طرح مسلمانوں میں سے ھر کوئی اپنی قوم وقبیلہ کی طرف سے انتھائی سختی اور دباؤمیں مبتلا تھا اس وقت مسلمانوں کی تعداد جھادآزادی شروع کرنے کے لئے کافی نھیں تھی ۔پیغمبراکرم نے اس چھوٹے سے گروہ کی حفاظت اور مسلمانوں کے لئے حجاز سے باھر قیام گاہ مھیاکرنے کے لئے انھیں ہجرت کا حکم دے دیا اور اس مقصد کےلئے حبشہ کو منتخب فرمایا اور کھا کہ وھاں ایک نیک دل بادشاہ ھے جو ظلم وستم کرنے سے اجتناب کرتا ھے ۔ تم وھاں چلے جاؤ یھاں تک کہ خداوند تعالیٰ کوئی مناسب موقع ھمیں عطافرمائے۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مراد نجاشی سے تھی (نجاشی ایک عام نام تھا جیسے ”کسریٰ“ جو حبشہ کے تمام بادشاهوں کا خاص لقب تھا لیکن اس نجاشی کا اصل نام جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ھم عصر تھا اصحمہ تھا جو کہ حبشہ کی زبان میں عطیہ وبخشش کے معنی میں ھے )۔
مسلمانوں میں سے گیارہ مرداور چار عورتیں حبشہ جانے کے لئے تیار هوئے اور ایک چھوٹی سی کشتی کرایہ پر لے کر بحری راستے سے حبشہ جانے کے لئے روانہ هوگئے ۔یہ بعثت کے پانچویں سال ماہ رجب کا واقعہ ھے ۔کچھ زیادہ عرصہ نھیں گزراتھا کہ جناب جعفر بن ابوطالب بھی مسلمانوںکے ایک دوسرے گروہ کے ساتھ حبشہ چلے گئے ۔ اب اس اسلامی جمعیت میں ۸۲مردوں علاوہ کافی تعداد میں عورتیںاور بچے بھی تھے ۔
مشرکین ،مھاجرین کی تعقیب میں
اس ہجرت کی بنیادبت پرستوں کے لئے سخت تکلیف دہ تھی کیونکہ دہ اچھی طرح سے دیکھ رھے تھے کہ کچھ زیادہ عرصہ نھیں گزرے گا کہ وہ لوگ جو تدریجاً اسلام کو قبول کرچکے ھیں اور حبشہ کی سرزمین امن وامان کی طرف چلے گئے ھیں ، مسلمانوں کی ایک طاقتور جماعت کی صورت اختیار کرلیں گے یہ حیثیت ختم کرنے کے لئے انهوں نے کام کرنا شروع کردیا اس مقصد کے لئے انهوں نے جوانوں میں سے دوهوشیار، فعال، حیلہ باز اور عیار جوانوں یعنی عمروبن عاص اور عمارہ بن ولید کا انتخاب کیا بہت سے ہدیے دے کر ان کو حبشہ کی طرف روانہ کیا گیا ،ان دونوں نے کشتی میں بیٹھ کر شراب پی اور ایک دوسرے سے لڑپڑے لیکن آخرکار وہ اپنی سازش کو روبہ عمل لانے کے لئے سرزمین حبشہ میں داخل هوگئے ۔ ابتدائی مراحل طے کرنے کے بعد وہ نجاشی کے دربار میں پہنچ گئے ،دربار میں باریاب هونے سے پھلے انهوں نے نجاشی کے درباریوں کو بہت قیمتی ہدیے دے کران کو اپنا موافق بنایا تھا اور ان سے اپنی طرفداری اور تائید کرنے کا وعدہ لے لیا تھا ۔
” عمروعاص “ نے اپنی گفتگو شروع کی اور نجاشی سے اس طرح ھمکلام هوا:
ھم سرداران مکہ کے بھیجے هوئے ھیں ھمارے درمیان کچھ کم عقل جوانوں نے مخالفت کا علم بلند کیا ھے اور وہ اپنے بزرگوںکے دین سے پھر گئے ھیں،اور ھمارے خداؤں کو برابھلا کہتے ھیں ،انهوں نے فتنہ وفساد برپا کردیا ھے لوگوں میں نفاق کا بیچ بودیا ھے ،آپ کی سرزمین کی آزادی سے انهوں نے غلط فائدہ اٹھایا ھے اور انهوں نے یھاں آکر پناہ لے لی ھے ، ھمیں اس بات کا خوف ھے کہ وہ یھاں بھی خلل اندازی نہ کریں بہتریہ ھے کہ آپ انھیں ھمارے سپرد کردیں تاکہ ھم انھیں اپنی جگہ واپس لے جائیں ۔
یہ کہہ کر ان لوگوں نے وہ ہدئیے جو وہ اپنے ساتھ لائے تھے پیش کیے ۔
نجاشی نے کھا : جب تک میں اپنی حکومت میں پناہ لینے والوں کے نمائندوں سے نہ مل لوں اس سلسلے میں کوئی بات نھیں کرسکتا اور چونکہ یہ ایک مذھبی بحث ھے لہٰذا ضروری ھے کہ تمھاری موجودگی میںمذھبی نمائندوں کوبھی ایک جلسہ میں دعوت دی جائے ۔
جعفربن ابی طالب مھاجرین کے بہترین خطیب
چنانچہ دوسرے دن ایک اھم جلسہ منعقد هوا، اس میں نجاشی کے مصاحبین اور عیسائی علماء کی ایک جماعت شریک تھی جعفر بن ابی طالب مسلمانوں کے نمائندہ کی حیثیت سے موجود تھے اور قریش کے نمائندے بھی حاضر هوئے نجاشی نے قریش کے نمائندوں کی باتیں سننے کے بعد جناب جعفر کی طرف رخ کیا اور ان سے خواہش کی کہ وہ اس سلسلے میں اپنا نقطہ نظربیان کریں جناب جعفرا دائے احترام کے بعد اس طرح گویا هوئے : پھلے ان سے پوچھیے کہ کیا ھم ان کے بھاگے هوئے غلاموں میں سے ھیں ؟
عمرو نے کھا :نھیں بلکہ آپ آزاد ھیں ۔
جعفر: ان سے یہ بھی پوچھئے کہ کیا ان کا کوئی قرض ھمارے ذمہ ھے کہ جس کا وہ ھم سے مطالبہ کرتے ھیں ؟
عمرو : نھیں ھمارا آپ سے ایسا کوئی مطالبہ نھیں ھے ۔
جعفر: کیا ھم نے تمھارا کوئی خون بھایا ھے کہ جس کا ھم سے بدلہ لینا چاہتے هو ؟
عمرو:نھیں ایسا کچھ نھیں ھے؟
جعفر: تو پھر تم ھم سے کیا چاہتے هو ؟تم نے ھم پر اتنی سختیاں کیں اور اتنی تکلیفیں پہنچائیں اور ھم تمھاری سرزمین سے جو سراسر مرکز ظلم وجور تھی باھر نکل آئے ھیں ۔
اس کے بعد جناب جعفر نے نجاشی کی طرف رخ کیا اور کھا : ھم جاھل اور نادان تھے، بت پرستی کرتے تھے ،مردار کا گوشت کھاتے تھے ، طرح طرح کے برے اور شرمناک کام انجام دیتے تھے، قطع رحمی کرتے تھے ، اپنے ھمسایوں سے براسلوک کرتے تھے اور ھمارے طاقتور کمزوروں کے حقوق ہڑپ کرجاتے تھے ۔ لیکن خدا وند تعالیٰ نے ھمارے درمیان ایک پیغمبر کو معبوث فرمایا، جس نے ھمیں حکم دیا کہ ھم خدا کا کوئی مثل اورشریک نہ بنائیں اور فحشاء ومنکر، ظلم وستم اور قماربازی ترک کردیں ھمیں حکم دیا کہ ھم نماز پڑھیں ، زکوٰةادا کریں ، عدل واحسان سے کام لیں اور اپنے وابستگان کی مدد کریں ۔
نجاشی نے کھا : عیسیٰ مسیح علیہ السلام بھی انھی چیزوں کے لئے مبعوث هوئے تھے ۔
اس کے بعد اس نے جناب جعفر سے پوچھا: ان آیات میں سے جو تمھارے پیغمبر پر نازل هوئی ھیں کچھ تھمیں یاد ھیں ۔جعفرنے کھا : جی ھاں : اور پھر انهوں نے سورہ ٴمریم کی تلاوت شروع کردی ،اس سورہ کی ایسی ھلادینے والی آیات کے ذریعہ جو مسیح علیہ السلام اور ان کی ماں کو ھر قسم کی نارو اتھمتوں سے پاک قراردیتی ھیں ، جناب جعفر کے حسن انتخاب نے عجیب وغریب اثر کیا یھاں تک کہ مسیحی علماء کی آنکھوں سے فرط شوق میں آنسو بہنے لگے اور نجاشی نے پکار کر کھا : خدا کی قسم : ان آیات میں حقیقت کی نشانیاں نمایاں ھیں۔
جب عمرنے چاھا کہ اب یھاں کوئی بات کرے اور مسلمانوں کو اس کے سپرد کرنے کی درخواست کرے ، نجاشی نے ھاتھ بلند کیا اور زور سے عمرو کے منہ پر مارا اور کھا: خاموش رهو، خدا کی قسم ! اگر ان لوگوں کی مذمت میں اس سے زیادہ کوئی بات کی تو میں تجھے سزادوں گا ،یہ کہہ کر مامورین حکومت کی طرف رخ کیا اور پکار کر کھا : ان کے ہدیے ان کو واپس کردو اور انھیں حبشہ کی سرزمین سے باھر نکال دو جناب جعفر اور ان کے ساتھیوں سے کھا : تم آرام سے میرے ملک میں زندگی بسر کرو ۔
اس واقعہ نے جھاں جعفر اور ان کے ساتھیوں سے کھا تم آرام سے میرے ملک میں زندگی بسرکرو۔[29]
اس واقعہ نے جھاں حبشہ کے کچھ لوگوں پر اسلام شناسی کے سلسلے میں گھرا تبلیغی اثر کیا وھاں یہ واقعہ اس بات کا بھی سبب بنا کہ مکے کے مسلمان اس کو ایک اطمینان بخش جائے پناہ شمارکریں اور نئے مسلمان هونے والوں کو اس دن کے انتظارمیں کہ جب وہ کافی قدرت و طاقت حاصل کریں ،وھاں پر بھیجتے رھیں ۔
فتح خیبرکی زیادہ خوشی ھے یا جعفرکے پلٹنے کی
کئی سال گزر گئے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی ہجرت فرماگئے اور اسلام روزبروز ترقی کی منزلیں طے کرنے لگا،عہدنامہ حدیبیہ لکھا گیا اور پیغمبر اکرم فتح خیبرکی طرف متوجہ هوئے اس وقت جب کہ مسلمان یهودیوں کے سب سے بڑے اور خطر ناک مرکز کے لوٹنے کی وجہ سے اتنے خوش تھے کہ پھولے نھیں سماتے تھے، دور سے انهوں نے ایک مجمع کو لشکر اسلام کی طرف آتے هوئے دیکھا ،تھوڑی ھی دیر گزری تھی کہ معلوم هواکہ یہ وھی مھاجرین حبشہ ھیں ، جو آغوش وطن میں پلٹ کر آرھے ھیں ،جب کہ دشمنوں کی بڑی بڑی طاقتیںد م توڑچکی ھیں اور اسلام کا پودا اپنی جڑیںکافی پھیلا چکا ھے ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جناب جعفراور مھا جرین حبشہ کو دیکھ کر یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا:
”میں نھیں جانتا کہ مجھے خیبر کے فتح هونے کی زیادہ خوشی ھے یا جعفر کے پلٹ آنے کی “
کہتے ھیں کہ مسلمانوں کے علاوہ شامیوں میں سے آٹھ افراد کہ جن میں ایک مسیحی راھب بھی تھا اور ان کا اسلام کی طرف شدید میلان پیدا هوگیا تھاپیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضرهو ئے اور انهوں نے سورہٴ یٰسین کی کچھ آیات سننے کے بعد رونا شروع کردیا اور مسلمان هوگئے اور کہنے لگے کہ یہ آیات مسیح علیہ السلام کی سچی تعلیمات سے کس قدر مشابہت رکھتی ھیں ۔
اس روایت کے مطابق جو تفسیر المنار، میں سعید بن جبیر سے منقول ھے نجاشی نے اپنے یارو انصار میں سے تیس بہترین افراد کوپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور دین اسلام کے ساتھ اظھار عقیدت کے لئے مدینہ بھیجا تھا اور یہ وھی تھے جو سورہٴ یٰسین کی آیات سن کر روپڑے تھے اور اسلام قبول کرلیا تھا۔
معراج رسول (ص)
علماء اسلام کے درمیان مشهور یہ ھے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت مکہ میں تھے تو ایک ھی رات میں آپ قدرت الٰھی سے مسجد الحرام سے اقصٰی پہنچے کہ جو بہت المقدس میں ھے ، وھاں سے آپ آسمانوں کی طرف گئے ، آسمانی دسعتوں میں عظمت الٰھی کے آثار مشاہدہ کئے اور اسی رات مکہ واپس آگئے ۔
نیزیہ بھی مشهور ھے کہ یہ زمینی اور آسمانی سیر جسم اور روح کے ساتھ تھی البتہ یہ سیر چونکہ بہت عجیب غریب اور بے نظیر تھی لہٰذا بعض حضرات نے اس کی توجیہ کی اور اسے معراج روحانی قرار دیا اور کھا کہ یہ ایک طرح کا خواب تھایا مکا شفہ روحی تھا لیکن جیسا کہ ھم کہہ چکے ھیں یہ بات قرآن کے ظاھری مفهوم کے بالکل خلاف ھے کیونکہ ظاھرقر آن اس معراج کے جسمانی هونے کی گواھی دیتا ھے ۔
معراج کی کیفیت قرآن و حدیث کی نظر سے
قرآن حکیم کی دوسورتوں میں اس مسئلے کی طرف اشارہ کیا گیا ھے پھلی سورت بنی اسرائیل ھے اس میں اس سفر کے ابتدائی حصے کا تذکرہ ھے ۔ (یعنی مکہ کی مسجد الحرام سے بیت المقدس کی مسجد الاقصٰی تک کا سفر) اس سلسلے کی دوسری سورت ۔ سورہٴ نجم ھے اس کی آیت ۱۳ تا ۱۸ میں معراج کا دوسرا حصہ بیان کیا گیا ھے اور یہ آسمانی سیر کے متعلق ھے ارشاد هوتا ھے :
ان چھ آیات کا مفهوم یہ ھے : رسول اللہ نے فرشتہ وحی جبرئیل کو اس کو اصلی صورت میں دوسری مرتبہ دیکھا (پھلے آپ اسے نزول وحی کے آغاز میں کوہ حرا میں دیکھ چکے تھے) یہ ملاقات بہشت جاوداں کے پاس هوئی ، یہ منظر دیکھتے هوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی اشتباہ کا شکار نہ تھے آپ نے عظمت الٰھی کی عظیم نشانیاں مشاہدہ کیں۔
یہ آیات کہ جو اکثر مفسرین کے بقول واقعہٴ معراج سے متعلق ھیں یہ بھی نشاندھی کرتی ھیں کہ یہ واقعہ عالم بیداری میں پیش آیا خصوصا “مازاغ البصروماطغی“ اس امر کا شاہد ھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آنکھ کسی خطا واشتباہ اور انحراف سے دوچار نھیں هوئی ۔
اس واقعے کے سلسلے میں مشهور اسلامی کتابوں میں بہت زیادہ روایات نقل هوئی ھیں ۔
علماء اسلام نے ان روایات کے تو اتر اور شھرت کی گواھی دی ھے ۔[30]
معراج کی تاریخ
واقعہٴ معراج کی تاریخ کے سلسلے میں اسلامی موٴرخین کے درمیان اختلاف ھے بعض کا خیال ھے کہ یہ واقعہ بعثت کے دسویں سال ۲۷ رجب کی شب پیش آیا، بعض کہتے ھیں کہ یہ بعثت کے بارهویں سال ۱۷رمضان المبارک کی رات وقوع پذیر هوا جب کہ بعض اسے اوائل بعثت میں ذکر کرتے ھیں لیکن اس کے وقوع پذیر هونے کی تاریخ میں اختلاف،اصل واقعہ پر اختلاف میں حائل نھیں هوتا ۔
اس نکتے کا ذکر بھی ضروری ھے کہ صر ف مسلمان ھی معراج کا عقیدہ نھیں کھتے بلکہ دیگرادیان کے پیروکار وں میں بھی کم و بیش یہ عقیدہ پایا جاتا ھے ان میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں یہ عقیدہ عجیب تر صورت میں نظر آتا ھے جیسا کہ انجیل مرقس کے باب ۶لوقاکے باب ۲۴اور یوحنا کے باب ا۲میں ھے:
عیسٰی علیہ السلام مصلوب هونے کے بعد دفن هوگئے تو مردوں میں سے اٹھ کھڑے هوئے ،اور چالیس روز تک لوگوں میں موجود رھے پھر آسمان کی طرف چڑھ گئے ( اور ھمیشہ کے لئے معراج پر چلے گئے )
ضمناً یہ وضاحت بھی هوجائے کہ بعض اسلامی روایات سے بھی معلوم هوتا ھے کہ بعض گزشتہ انبیاء کو بھی معراج نصیب هوئی تھی ۔
پیغمبرگرامی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ آسمانی سفر چند مرحلوں میں طے کیا۔
پھلا مرحلہ،مسجدالحرام اور مسجد اقصیٰ کے درمیانی فاصلہ کا مرحلہ تھا، جس کی طرف سورہٴ اسراء کی پھلی آیت میں اشارہ هوا ھے: ”منزہ ھے وہ خدا جو ایک رات میں اپنے بندہ کو مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا“۔ بعض معتبر روایات کے مطابق آپ نے اثناء راہ میں جبرئیل(ع) کی معیت میں سر زمین مدینہ میںنزول فرمایا او روھاں نماز پڑھی ۔
او رمسجد الاقصیٰ میں بھی ابراھیم و موسیٰ و عیسیٰ علیھم السلام انبیاء کی ارواح کی موجود گی میں نماز پڑھی اور امام جماعت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تھے، اس کے بعد وھاں سے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا آسمانی سفر شروع هوا، اور آپ نے ساتوں آسمانوںکو یکے بعد دیگرے عبور کیا او رھر آسمان میں ایک نیاھی منظر دیکھا ، بعض آسمانوں میں پیغمبروں اور فرشتوں سے، بعض آسمانوں میں دوزخ او ردوزخیوں سے اور بعض میں جنت اور جنتیوں سے ملاقات کی ،او رپیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان میں سے ھر ایک سے بہت سی تربیتی اور اصلاحی قیمتی باتیں اپنی روح پاک میں ذخیرہ کیں اور بہت سے عجائبات کا مشاہدہ کیا جن میں سے ھر ایک عالم ہستی کے اسرار میں سے ایک راز تھا، اور واپس آنے کے بعد ان کو صراحت کے ساتھ اور بعض اوقا ت کنایہ اور مثال کی زبان میں امت کی آگاھی کے لئے مناسب فرصتوں میں بیان فرماتے تھے، اور تعلیم وتربیت کے لئے اس سے بہت زیادہ فائدہ اٹھاتے تھے۔
یہ امر اس بات کی نشاندھی کرتا ھے کہ اس آسمانی سفر کا ایک اھم مقصد،ان قیمتی مشاہدات کے تربیتی و عرفانی نتائج سے استفادہ کرنا تھا،اور قرآن کی یہ پر معنی تعبیر”لقد رایٰ من آیات ربہ الکبریٰ “[31]
ان تمام امور کی طرف ایک اجمالی اور سربستہ اشارہ هو سکتی ھے۔
البتہ جیسا کہ ھم بیان کرچکے ھیں کہ وہ بہشت اور دوزخ جس کو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سفر معراج میں مشاہدہ کیا اور کچھ لوگوں کو وھاں عیش میں اور عذاب میں دیکھا ، وہ قیامت والی جنت اور دوزخ نھیں تھیں ، بلکہ وہ برزخ والی جنت ودوزخ تھیں ، کیونکہ قرآن مجیدکے مطابق جیسا کہ کہتا ھے کہ قیامت والی جنت ودوزخ قیام قیامت اور حساب وکتاب سے فراغت کے بعد نیکو کاروں اور بدکاروں کو نصیب هوگی ۔
آخر کار آپ ساتویں آسمان پر پہنچ گئے ، وھاں نور کے بہت سے حجابوں کا مشاہدہ کیا ، وھی جگہ جھاں پر ”سدرة المنتھیٰ“ اور” جنة الماٴویٰ“ واقع تھی، اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس جھان سراسر نوروروشنی میں، شهود باطنی کی اوج، اور قرب الی اللہ اور مقام ” قاب قوسین اوادنی“پر فائز هوئے اور خدا نے اس سفر میں آپ کو مخالب کرتے هوئے بہت سے اھم احکام دیئے اور بہت سے ارشادات فرمائے جن کا ایک مجموعہ اس وقت اسلامی روایات میں” احادیث قدسی “ کی صورت میں ھمارے لئے یادگار رہ گیا ھے ۔
قابل توجہ بات یہ ھے کہ بہت سی روایات کی تصریح کے مطابق پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس عظیم سفر کے مختلف حصوں میں اچانک علی علیہ السلام کو اپنے پھلو میں دیکھا، اور ان روایات میں کچھ ایسی تعبیریں نظر آتی ھیں، جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد علی علیہ السلام کے مقام کی حد سے زیادہ عظمت کی گواہ ھیں ۔
معراج کی ان سب روایات کے باوجود کچھ ایسے پیچیدہ اور اسرار آمیز جملے ھیں جن کے مطالب کو کشف کرنا آسان نھیں ھے، اور اصطلاح کے مطابق روایات متشابہ کا حصہ ھیں یعنی ایسی روایات جن کی تشریح کوخود معصومین علیھم السلام کے سپرد کردینا چاہئے ۔[32]
ضمنی طورپر، معراج کی روایات اھل سنت کی کتابوں میں بھی تفصیل سے آئی ھیں،اور ان کے راویوں میں سے تقریباً ۳۰افراد نے حدیث معراج کو نقل کیا ھے۔
یھاں یہ سوال سامنے آتاھے : یہ اتنا لمبا سفر طے کرنا اور یہ سب عجیب اور قسم قسم کے حادثات، اور یہ ساری لمبی چوڑی گفتگو ، اور یہ سب کے سب مشاہدات ایک ھی رات میں یاایک رات سے بھی کم وقت میں کس طرح سے انجام پاگئے ؟
لیکن ایک نکتہ کی طرف توجہ کرنے سے اس سوال کا جواب واضح هوجاتاھے ، سفر معراج ھرگز ایک عام سفر نھیں تھا ، کہ اسے عام معیاروں سے پرکھاجائے نہ تو اصل سفر معمولی تھا اور نہ ھی آپ کی سواری معمولی اور عام تھی،نہ آپ کے مشاہدات عام اور معمولی تھے اور نہ ھی آپ کی گفتگو ، اور نہ ھی وہ پیمانے جواس میں استعمال هوئے، ھمارے کرہٴ خاکی کے محدود اور چھوٹے پیمانوں کے مانند تھے، اور نہ ھی وہ تشبیھات جواس میں بیان هوئی ھیں ان مناظر کی عظمت کو بیان کرسکتی ھیں جو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مشاہدہ کیے ، تمام چیزیں خارق العادت صورت میں ، اور اس مکان وزمان سے خارج هونے کے پیمانوں میں، جن سے ھم آشنا نھیں، واقع هوئیں ۔
اس بناپر کوئی تعجب کی بات نھیں ھے کہ یہ امور ھمارے کرہٴ زمین کے زمانی پیمانوں کے ساتھ ایک رات یا ایک رات سے بھی کم وقت میں واقع هوئے هوں۔[33]
معراج جسمانی تھی یاروحانی ؟
شیعہ اور سنی علمائے اسلام کے درمیان مشهور ھے کہ یہ واقعہ عالم بیداری میں صورت پذیر هوا، سورہ بنی اسرائیل کی پھلی آیت اور سورہ نجم کی مذکورہ آیات کا ظاھری مفهوم بھی اس امر کا شاہد ھے کہ یہ واقعہ بیداری کی حالت میں پیش آیا ۔
تواریخ اسلامی بھی اس امرپر شاہد وصادق ھیں،تاریخ کہتی ھے : جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے واقعہٴ معراج کا ذکر کیا تو مشرکین نے شدت سے اس کا انکار کردیا اور اسے آپ کے خلاف ایک بھانہ بنالیا۔
یہ بات گواھی دیتی ھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ھرگز خواب یا مکا شفہٴ روحانی کے مدعی نہ تھے ورنہ مخالفین اس قدر شور وغوغا نہ کرتے ۔
یہ جو حسن بصری سے روایت ھے کہ : ”یہ واقعہ خواب میں پیش آیا “۔
اور اسی طرح جو حضرت عائشہ سے روایت ھے کہ : ”خداکی قسم بدن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ھم سے جدا نھیں هوا صرف آپ کی روح آسمان پر گئی“ ایسی روایات ظاھر ًاسیاسی پھلو رکھتی ھیں ۔
معراج کا مقصد
گزشتہ مباحث پر غور کرنے سے یہ بات واضح هوجاتی ھے کہ معراج کا مقصد یہ نھیں کہ رسول اکرم دیدار خدا کے لئے آسمانوں پر جائیں، جیسا کہ سادہ لوح افرادخیال کرتے ھیں، افسوس سے کہنا پڑتا ھے کہ بعض مغربی دانشور بھی ناآگاھی کی بناء پر دوسروں کے سامنے اسلام کا چھرہ بگاڑکر پیش کرنے کے لئے ایسی باتیں کرتے ھیں ان میں سے ایک مسڑ” گیور گیو“ بھی ھیں وہ بھی کتاب ”محمد وہ پیغمبر ھیںجنھیں پھرسے پہچاننا چاہئے“[34] میں کہتے ھیں:
”محمد اپنے سفر معراج میں ایسی جگہ پہنچے کہ انھیں خدا کے قلم کی آواز سنائی دی، انهوں نے سمجھا کہ اللہ اپنے بندوںکے حساب کتاب میں مشغول ھے البتہ وہ اللہ کے قلم کی آواز تو سننے تھے مگر انھیں اللہ دکھائی نہ دیتا تھا کیونکہ کوئی شخص خدا کو نھیں دیکھ سکتا خواہ پیغمبر ھی کیوں نہ هوں“یہ عبارت نشاندھی کرتی ھے کہ قلم لکڑی کا تھا، ایسا کہ کاغذ پر لکھتے وقت لرزتاتھا اور آواز پیدا کرتا تھا، اسی طرح کی اور بہت سارے خرافات اس میں موجود ھیں “۔ جب کہ مقصد معراج یہ تھا کہ اللہ کے عظیم پیغمبر کائنات میں بالخصوص عالم بالا میں موجود عظمت الٰھی کی نشانیوں کا مشاہدہ کریں اور انسانوں کی ہدایت ورھبری کے لئے ایک نیا ادراک اور ایک نئی بصیرت حاصل کریں ۔
یہ ھدف واضح طورپر سورہٴ بنی اسرائیل کی پھلی آیت اور سورہٴ نجم کی آیت ۱۸ میں بیان هوا ھے۔
امام صادق علیہ السلام سے مقصد معراج پوچھاگیا تو آپ نے فرمایا :
”خدا ھرگز کوئی مکان نھیں رکھتا اور نہ اس پر کوئی زمانہ گزرتاھے لیکن وہ چاہتا تھا کہ فرشتوں اور آسمان کے باسیوں کو اپنے پیغمبر کی تشریف آوری سے عزت بخشے اور انھیں آپ کی زیارت کا شرف عطاکرے نیزآپ کو اپنی عظمت کے عجائبات دکھائے تاکہ واپس آکر آپ انھیں لوگوں سے بیان کریں“۔
معراج اور سائنس
گزشتہ زمانے میں بعض فلاسفہ بطلیموس کی طرح یہ نظریہ رکھتے تھے کہ نو آسمان پیاز کے چھلکے کی طرح تہہ بہ تہہ ایک دوسرے کے اوپر ھیں واقعہٴ معراج کو قبول کرنے میں ان کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ ان کا یھی نظریہ تھا ان کے خیال میں اس طرح تویہ ماننا پڑتا ھے کہ آسمان شگافتہ هوگئے اور پھر آپس میں مل گئے۔[35]
لیکن” بطلیموسی “نظریہ ختم هو گیا تو آسمانوںکے شگافتہ هونے کا مسئلہ ختم هوگیا البتہ علم ہئیت میں جو ترقی هوئی ھے اس سے معراج کے سلسلے میں نئے سوالات ابھر ے ھیں مثلاً؛
۱)ایسے فضائی سفر میں پھلی بار رکاوٹ کشش ثقل ھے کہ جس پر کنٹرول حاصل کرنے کے لے غیر معمولی وسائل و ذرائع کی ضرورت ھے کیونکہ زمین کے مداراور مرکز ثقل سے نکلنے کے لئے کم از کم چالیس ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ رفتار کی ضرورت ھے ۔
۲)دوسری رکاوٹ یہ ھے کہ زمین کے باھر خلا میں هوا نھیں ھے جبکہ هوا کے بغیر انسان زندہ نھیں رہ سکتا ۔
۳)تیسری رکاوٹ ایسے سفر میں اس حصہ میں سورج کی جلادینے والی تپش ھے جبکہ جس حصہ پر سورج کی مستقیماً روشنی پڑرھی ھے اور اسی طرح اس حصے میں جان لیوا سردی ھے جس میں سورج کی روشنی نھیں پڑرھی ھے۔
۴) اس سفر میں چوتھی رکاوٹ وہ خطرناک شعاعیں ھیں کہ جو فضا ئے زمین کے اوپر موجود ھیں مثلا کا سمک ریز cosmic ravs الٹرا وائلٹ ریز ultra violet ravsاور ایکس ریز x ravsیہ شعاعیں اگر تھوڑی مقدار میں انسانی بدن پر پڑیں تو بدن کے آرگانزم otganismکے لئے نقصان دہ نھیں ھیں لیکن فضائے زمین کے باھر یہ شعاعیں بہت تباہ کن هوتی ھیں (زمین پر رہنے والوں کے لئے زمین کے اوپر موجود فضاکی وجہ سے ان کی تپش ختم هوجاتی ھے )
۵) ایک اور مشکل اس سلسلہ میں یہ ھے کہ خلامیں انسان بے وزنی کی کیفیت سے دوچار هوجاتا ھے اگرچہ تدریجاًبے وزنی کی عادت پیدا کی جاسکتی ھے لیکن اگر زمین کے باسی بغیر کسی تیاری اور تمھید کے خلا میں جا پہنچیں تو بےوزنی سے نمٹنا بہت ھی مشکل ھے ۔
۶) آخری مشکل اس سلسلے میں زمانے کی مشکل ھے اور یہ نھایت اھم رکاوٹ ھے کیونکہ دورحاضر کے سانٴسی علوم کے مطابق روشنی کی رفتار ھر چیز سے زیادہ ھے اور اگر کوئی آسمانوں کی سیر کرنا چاھے تو ضروری هو گاکہ اس کی رفتار سے زیادہ هو ۔
ان سوالات کے پیش نظر چندچیزوں پر توجہ
ان امور کے جواب میں ان نکات کی طرف توجہ ضروری ھے ۔
۱۔ھم جانتے ھیں کہ فضائی سفر کی تمام تر مشکلات کے باوجود آخر کار انسان علم کی قوت سے اس پر دسترس حاصل کرچکا ھے اور سوائے زمانے کی مشکل کے باقی تمام مشکلات حل هوچکی ھیں اور زمانے والی مشکل بھی بہت دور کے سفر سے مربوط ھے ۔
۲۔اس میں شک نھیں کہ مسئلہ معراج عمومی اور معمولی پھلو نھیں رکھتا بلکہ یہ اللہ کی لامتناھی قدرت و طاقت کے ذریعے صورت پذیر هوا اور انبیاء کے تمام معجزات اسی قسم کے تھے زیادہ واضح الفاظ میں یہ کھا جاسکتا ھے کہ معجزہ عقلاً محال نھیں هونا چاہئے اور جب معجزہ بھی عقلاً ممکن ھے ، توباقی معاملات اللہ کی قدرت سے حل هوجاتے ھیں ۔
جب انسان یہ طاقت رکھتا ھے کہ سائنسی ترقی کی بنیاد پر ایسی چیزیں بنالے جو زمینی مرکز ثقل سے باھر نکل سکتی ھیں ، ایسی چیزیں تیار کرلے کہ فضائے زمین سے باھر کی هولناک شعاعیں ان پر اثر نہ کرسکیں اور ایسے لباس تیار کرلے کہ جو اسے انتھائی زیادہ گرمی اور سردی سے محفوظ رکھ سکیں اور مشق کے ذریعے بے وزنی کی کیفیت میں رہنے کی عادت پیدا کرلے ،یعنی جب انسان اپنی محدود قوت کے ذریعے یہ کام کرسکتا ھے تو پھر کیا اللہ اپنی لا محدود طاقت کے ذریعہ یہ کام نھیں کرسکتا ؟
ھمیں یقین ھے کہ اللہ نے اپنے رسول کو اس سفر کے لئے انتھائی تیز رفتار سواری دی تھی اور اس سفرمیں در پیش خطرات سے محفوظ رہنے کے لئے انھیں اپنی مدد کا لباس پہنایا تھا ،ھاں یہ سواری کس قسم کی تھی اور اس کا نام کیا تھا براق ؟ رفرف ؟ یا کوئی اور ۔۔۔؟یہ مسئلہ قدرت کاراز ھے، ھمیں اس کا علم نھیں ۔
ان تمام چیزوں سے قطع نظر تیز تریں رفتار کے بارے میں مذکورہ نظریہ آج کے سائنسدانوںکے درمیان متزلزل هوچکا ھے اگر چہ آ ئن سٹائن اپنے مشهور نظریہ پر پختہ یقین رکھتا ھے ۔
آج کے سائنسداں کہتے ھیں کہ امواج جاذمہrdvs of at f fionزمانے کی احتیاج کے بغیر آن واحد میں دنیا کی ایک طرف سے دوسری طرف منتقل هوجاتی ھیں اور اپنا اثر چھوڑتی ھیں یھاں تک کہ یہ احتمال بھی ھے کہ عالم کے پھیلاؤ سے مربوط حرکات میں ایسے منظومے موجودھیں کہ جوروشنی کی رفتارسے زیادہ تیزی سے مرکز جھان سے دور هوجاتے ھیں (ھم جانتے ھیں کہ کائنات پھیل رھی ھے اور ستارے اور نظام ھائے شمسی تیزی کے ساتھ ایک دوسرے سے دور هورھے ھیں )(غور کیجئے گا)مختصر یہ کہ اس سفر کے لئے جو بھی مشکلات بیان کی گئی ھیں ان میں سے کوئی بھی عقلی طور پر اس راہ میں حائل نھیں ھے اور ایسی کوئی بنیاد نھیں کہ واقعہٴ معراج کو محال عقلی سمجھا جائے ,اس راستے میں درپیش مسائل کو حل کرنے کے لئے جو وسائل درکار ھیں وہ موجود هوں تو ایسا هوسکتا ھے ۔
بھرحال واقعہٴ معراج نہ تو عقلی دلائل کے حوالے سے ناممکن ھے اور نہ دور حاضر کے سائنسی معیاروں کے لحاظ سے ، البتہ اس کے غیر معمولی اور معجزہ هونے کو سب قبول کرتے ھیں لہٰذا جب قطعی اور یقینی نقلی دلیل سے ثابت هوجائے تو اسے قبول کرلینا چاہئے۔
شب معراج پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے خداکی باتیں
پیغمبر نے شب معراج پروردگار سبحان سے اس طرح سوال کیا :
پروردگار ا: کونساعمل افضل ھے ؟
خدا وند تعالیٰ نے فرمایا :
” کوئی چیز میرے نزیک مجھ پر توکل کرنے ، اور جو کچھ میںنے تقسیم کرکے دیا ھے اس پر راضی هونے سے بہتر نھیں ھے ،اے محمد جولوگ میری خاطر ایک دوسرے کو دوست رکھتے ھیں میری محبت ان کے شامل حال هوگی اور جو لوگ میری خاطر ایک دوسرے پر مھربان ھیں اور میری خاطر دوستی کے تعلقات رکھتے ھیں انھیں دوست رکھتا هوں علاوہ بر ایں میری محبت ان لوکوں کے لئے جو مجھ پر توکل کریں فرض اور لازم ھے اور میری محبت کے لئے کوئی حد او رکنارہ اوراس کی انتھا نھیں ھے “۔!
اس طرح سے محبت کی باتیں شروع هوتی ھیں ایسی محبت جس کی کوئی انتھا نھیں ،جو کشادہ اور اصولی طور پر عالم ہستی میںاسی محور محبت پر گردش کررھا ھے ۔
ایک اور ددسرے حصہ میں یہ آیا ھے ۔
”اے احمد !بچوں کی طرح نہ هونا جو سبز وزرد اور زرق وبرق کو دوست رکھتے ھیں اور جب انھیں کوئی عمدہ اور شیریں غذا دیدی جاتی ھے تو وہ مغرور هوجاتے ھیں اور ھر چیز کو بھول جاتے ھیں “۔
پیغمبرنے اس موقع پر عرض کیا :
پروردگارا :!مجھے کسی ایسے عمل کی ہدایت فرماجو تیری بارگاہ میں قرب کا باعث هو ۔
فرمایا : رات کو دن اور دن کو رات قرار دے ۔
عرض کیا : کس طرح ؟
فرمایا : اس طرح کے تیرا سونا نماز هو اور ھرگز اپنے شکم کو مکمل طور پر سیر نہ کرنا ۔
ایک اور حصہ میں آیا ھے :
”اے احمد! میری محبت فقیروں اور محروموں سے محبت ھے ،ان کے قریب هوجاوٴ اور ان کی مجلس کے قریب بیٹھو کہ میں تیرے نزدیک هوں اور دنیا پرست اور ثروت مندوں کو اپنے سے دور رکھو اور ان کی مجالس سے بچتے رهو “۔
اھل دنیا و آخرت
ایک اور حصہ میں آیاھے:
”اے احمد !دنیا کے زرق برق اور دنیا پرستوں کو مبغوض شمار کر اور آخرت کو محبوب رکھ“ عرض کرتے ھیں :
پروردگارا :!اھل دنیا اور اھل آخرت کون ھیں ؟۔
فرمایا :”اھل دنیا تو وہ لوگ ھیں جو زیادہ کھاتے ھیں زیادہ ہنستے ھیں زیادہ سوتے ھیں اور غصہ کرتے ھیں اور تھوڑا خوش هوتے ھیں نہ ھی تو برائیوں کے مقابلہ میں کسی سے عذر چاہتے ھیں ۔اور نہ ھی کسی عذر چاہنے والے سے اس کا عذر قبول کرتے ھیں اطاعت خدا میں سست ھیں اور گناہ کرنے میں دلیر ھیں، لمبی چوڑی آرزوئیں رکھتے ھیں حالانکہ ان کی اجل قریب آپہنچی ھے مگر وہ ھر گز اپنے اعمال کا حساب نھیں کرتے ان سے لوگوں کو بہت کم نفع هوتا ھے، باتیں زیادہ کرتے ھیں احساس ذمہ داری نھیں رکھتے اور کھانے پینے سے ھی غرض رکھتے ھیں ۔
اھل دنیا نہ تو نعمت میں خدا کا شکریہ ادا کرتے ھیں اورنہ ھی مصائب میں صبر کرتے ھیں ۔ زیادہ خدمات بھی ان کی نظر میں تھوڑی ھیں (اور خود ان کی اپنی خدمات تھوڑی بھی زیادہ ھیں ) اپنے اس کام کے انجام پانے پر جو انهوں نے انجام نھیں دیا ھے تعریف کرتے ھیں اور ایسی چیز کا مطالبہ کرتے ھیں جو ان کا حق نھیں ھے ۔ ھمیشہ اپنی آرزوؤں اور تمنا وں کی بات کرتے ھیں اور لوگوں کے عیوب تو بیان کرتے رہتے ھیں لیکن ان کی نیکیوں کو چھپاتے ھیں۔
” عرض کیا :پروردگارا :!کیا دنیا پرست اس کے علاوہ بھی کوئی عیب رکھتے ھیں ؟
”فرمایا : اے احمد !ان کا عیب یہ ھے کہ جھل اور حماقت ان میں بہت زیادہ ھے جس استاد سے انهوں علم سیکھا ھے وہ اس سے تواضع نھیں کرتے اور اپنے آپ کو عاقل کل سمجھتے ھیں حالانکہ وہ صاحبان علم کے نزدیک نادان اور احمق ھیں“ ۔
اھل بہشت کے صفات
خدا وند عالم اس کے بعد اھل آخرت اور بہشتیوں کے اوصاف کو یوں بیان کرتا ھے : ”وہ ایسے لوگ ھیں جو با حیا ھیں ان کی جھالت کم ھے ، ان کے منافع زیادہ ھیں ،لوگ ان سے راحت و آرام میں هوتے ھیں اور وہ خود اپنے ھاتھوں تکلیف میں هوتے ھیں اور ان کی باتیں سنجیدہ هوتی ھیں“۔
وہ ھمیشہ اپنے اعمال کا حساب کرتے رہتے ھیں اور اسی وجہ سے وہ خود کو زحمت میں ڈالتے رہتے ھیں ان کی آنکھیں سوئی هوئی هوتی ھیں لیکن ان کے دل بیدار هوتے ھیں ان کی آنکھ گریاں هوتی ھے اور ان کا دل ھمیشہ یاد خدا میں مصروف رہتا ھے جس وقت لوگ غافلوں کے زمرہ میں لکھے جارھے هوں وہ اس وقت ذکر کرنے والوں میں لکھے جاتے ھیں ۔
نعمتوں کے آغاز میں حمد خدا بجالاتے ھیں اور ختم هونے پر اس کا شکر ادا کرتے ھیں، ان کی دعائیں بارگاہ خدا میں قبول هوتی ھیں اور ان کی حاجتیں پوری کی جاتی ھیں اور فرشتے ان کے وجود سے مسرور اور خوش رہتے ھیں ۔۔۔(غافل )لوگ ان کے نزدیک مردہ ھیں اور خدا اُن کے نزدیک حی و قیوم اور کریم ھے (ان کی ھمت اتنی بلند ھے کہ وہ اس کے سوا کسی کے اوپر نظر نھیں رکھتے )
لوگ تو اپنی عمر میںصرف ایک ھی دفعہ مرتے ھیں لیکن وہ جھاد باالنفس اور هواوهوس کی مخالفت کی وجہ سے ھر روز ستر مرتبہ مرتے ھیں (اور نئی زندگی پاتے ھیں)
جس وقت عبادت کے لئیے میرے سامنے کھڑے هوتے ھیں تو ایک فولادی باندھ اور بنیان مرصوص کے مانند هوتے ھیں اور ان کے دل میںمخلوقات کی طرف کوئی توجہ نھیں هوتی مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم ھے کہ میں انھیں ایک پاکیزہ زندگی بخشونگا اور عمر کے اختتام پر میں خود ان کی روح کو قبض کروںگا اور ان کی پرواز کے لئے آسمان کے دروازوں کو کھول دوں گاتمام حجابوں کو ان کے سامنے سے ہٹا دوں گا اور حکم دوں گا کہ بہشت خود اپنے ان کے لئے آراستہ کرے ۔۔۔ ”اے احمد! عبادت کے دس حصہ ھیں جن میں سے نو حصے طلب رزق حلال میں ھیں جب تیرا کھانا اور پینا حلال هوگا تو تیری حفظ و حمایت میں هوگا۔۔۔۔“
بہترین اور جاویدانی زندگی
ایک اور حصہ میں آیا ھے:
”اے احمد ! کیا تو جانتا ھے کہ کونسی زندگی زیادہ گوارا اور زیادہ دوام رکھتی ھے“؟
عرض کیا : خداوندا: نھیں۔
فرمایا: گوارا زندگی وہ هوتی ھے جس کا صاحب ایک لمحہ کے لئے بھی میری یاد سے غافل نہ رھے، میری نعمت کو فراموش نہ کرے ، میرے حق سے بے خبر نہ رھے اور رات دن میری رضا کو طلب کرے۔
لیکن باقی رہنے والی زندگی وہ ھے جس میں اپنی نجات کے لئے عمل کرے ، دنیا اس کی نظر میں حقیر هو اور آخرت بڑی اور بزرگ هو، میری رضا کو اپنی رضا پر مقدم کرے، اور ھمیشہ میری خوشنودی کو طلب کرے، میرے حق کو بڑا سمجھے اور اپنی نسبت میری آگاھی کی طرف توجہ رکھے۔
ھرگناہ اور معصیت پر مجھے یاد کرلیا کرے ، اور اپنے دل کو اس چیز سے جو مجھے پسند نھیں ھے پاک رکھے، شیطانی وسو سوں کو مبغوض رکھے ،اور ابلیس کو اپنے دل پر مسلط نہ کرے ۔
جب وہ ایسا کرے گا تو میں ایک خاص قسم کی محبت کو اس کے دل میں ڈال دوں گا اس طرح سے کہ اس کا دل میرے اختیار میں هوگا ، اس کی فرصت اور مشغولیت اس کا ھم وغم اور اس کی بات ان نعمتوں کے بارے میں هوگی جو میں اھل محبت کو بخشتا هوں ۔ میں اس کی آنکھ اور دل کے کان کھول دیتا هوں تاکہ وہ اپنے دل کے کان سے غیب کے حقائق کو سننے اور اپنے دل سے میرے جلال وعظمت کو دیکھے“ :
اور آخر میں یہ نورانی حدیث ان بیدار کرنے والے جملوں پر ختم هوجاتی ھے :
” اے احمد ! اگر کوئی بندہ تمام اھل آسمان اور تمام اھل زمین کے برابر نماز ادا کرے ،اور تمام اھل آسمان وزمین کے برابر روزہ رکھے، فرشتوں کی طرح کھانانہ کھائے اور کوئی فاخرہ لباس بدن پر نہ پہنے (اور انتھائی زہد اور پارسائی کی زندگی بسر کرے) لیکن اس کے دل میں ذرہ برابر بھی دنیا پرستی یا ریاست طلبی یازینت دنیا کا عشق هو تو وہ میرے جاودانی گھر میں میرے جوار میں نھیں هوگا اور میںاپنی محبت کو اس کے دل سے نکال دوں گا ،میرا سلام ورحمت تجھ پر هو ،والحمد للہ رب العالمین “
یہ عرشی باتیں ۔۔جو انسانی روح کو آسمانوں کی طرف بلند کرتی ھیں ، اور آستانٴہ عشق وشهود کی طرف کھینچتی ھیں ۔حدیث قدسی کا صرف ایک حصہ ھے ۔
مزید براں ھمیں اطمینان ھے کہ پیغمبر نے اپنے ارشادات میں جو کچھ بیان فرمایا ھے ان کے علاوہ بھی، اس شب عشق وشوق اور جذبہ ووصال کی شب میں ، ایسی باتیں ، اسرارورموز اور اشارے آپ کے اور آپ کے محبوب کے درمیان هوتے ھیں جن کو نہ تو کان سننے کی طاقت رکھتے ھیں اور نہ عام افکار میں ان کے درک کی صلاحیت ھے، اور اسی بناپر وہ ھمیشہ پیغمبر کے دل وجان کے اندر ھی مکتوم اور پوشیدہ رھے ، اور آپ کے خواص کے علاوہ کوئی بھی ان سے آگاہ نھیں هوا ۔
-------------------------------------
[1] سورہٴ علق آیت ۱۔
[2] یقینی طورپر مفسرین کے بعض کلمات یا تاریخ کی کتابوں میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی کی اس فصل کے بارے میں ایسے ناموزوںمطالب نظرآتے ھیں جو مسلمہ طور پر جعلی‘ وضعی ‘ گھڑی هوئی روایات اور اسرائیلیات سے ھیں ‘ مثلاًیہ کہ پیغمبر نزول وحی کے پھلے واقعہ کے بعد بہت ھی ناراحت هوئے اور ڈرگئے کہ کھیں یہ شیطانی القاآت نہ هوں ‘ یا آپ نے کئی مرتبہ
[3] اس سوال کو اکثر مفسرین نے سورہٴ توبہ آیت۱۰۰”السابقون الاولون“کے ضمن میں بیان کیا ھے۔
[4] مستدرک علی صحیحین کتاب معرفت ص۲۲ ۔
[5] استیعاب ،ج ۲ ص۴۵۷۔
[6] الغدیر ج ،۳ص۲۳۷۔
[7] الغدیر ج ،۳ص۲۳۷۔
[8] الغدیرمیں یہ حدیث مستدرک حاکم ج۲ص۶ ۱۳ ،استیعاب ج۲ ص ۴۵۷ اور شرح ابن ابی الحدید ج ۳ ص ۲۵۸ سے نقل کی گئی ھے ۔
[9] الغدیر ھی میں یہ حدیث طبرانی اور بیہقی سے نقل کی گئی ھے نیز بیہقی نے مجمع میں، حافظ گنجی نے کفایہ اکمال میں اور کنز العمال میں نقل کی ھے ۔
[10] الغدیر میں یہ حدیث حلیتہ الاولیاء ج اص ۶۶ کے حوالے سے نقل کی گئی ھے ۔
[11] یہ بات فخرالدین رازی نے اپنی تفسیر میںسورہٴ توبہ آیت ۱۰۰۔ کے ذیل میں ذکر کی ھے۔
[12] یہ حدیث مختلف عبارات میں نقل هوئی ھے اور جو کچھ ھم نے بیان کیا ھے اسے ابو جعفر اسکافی نے کتاب ”نہج العثمانیہ“ میں ،برھان الدین نے” نجبا الانبا“ میں ،ابن اثیر نے کامل میں اور بعض دیگر علماء نے نقل کیا ھے (مزید وضاحت کے لئے الغدیر،عربی کی جلد دوم ص۲۷۸ تا۲۸۶کی طرف رجوع کریں۔)
[13] یہ تعبیر مشهور اور متعصب مفسر موٴلف المنارنے بھی سورہٴ توبہ آیت ۱۰۰۔کے ذیل میں ذکر ھے ۔
[14] سورہ مریم آیت۱۲۔
[15] سورہٴ مریم آیت ۳۰۔
[16] الغدیر ج۲ ص ۲۴۰۔
[17] سورہ شعراء آیت ۲۱۴ ۔
[18] سورہ حجرات آیہ ۹۴ ۔
[19] اس روایت کو بہت سے اھل سنت علماء نے نقل کیا ھے جن میں سے چند ایک کے نام یہ ھیں :
[20] علامہ امینی نے اسے اپنی کتاب”الغدیر“ میں” شرح بخاری“ ،”المواھب اللدنیہ“ ،” الخصائص الکبریٰ“ ،” شرح بہجتہ المحافل“ ،”سیرہ حلبی“، ” سیرہ نبوی“ اور ” طلبتہ الطالب“ سے نقل کیا ھے۔
[21] ذی المجار عرفات کے نزدیک مکہ سے تھوڑے سے فاصلہ پر ھے ۔
[22] سورہ مسد آیت۱ تا ۲۔
[23] سورہٴ مسدآیت۳۔
[24] سورہ مسد آیت ۴ ۔
[25] سورہ مسد آیت ۴۔
[26] سیرت ابن ہشام جلداول ص۳۳۷ ، اور تفسیر فی ظلال القرآن جلد۶ ص ۱۷۳۔
[27] تفسیر نمونہ ج ۸ ص ۱۴۴
[28] مندرجہ بالاروایات تفسیر المنار اور مجمع البیان سے سورہٴ انعام آیت ۳۳کے ذیل میں بیان کردہ تفسیر سے لی گئی ھیں ۔
[29] بہت سے مفسرین نے نقل کیا ھے کہ سورہٴ مائدہ آیات ۸۲تا۸۶ نجاشی اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں نازل هوئی ھیں۔
[30] رجوع کریں تفسیر نمونہ ج
[31] سورہٴ نجم آیت۱۸۔
[32] روایات معراج کے سلسلہ میں مزید اطلاع کے لئے بحارالانوار کی جلد ۱۸ از ص ۲۸۲ تاص ۱۰ ۴ رجوع فرمائیں۔
[33] تفسیر نمونہ ج ۱۳ ص۹۷ تا ۹۹ ۔
[34] مذکورہ کتاب کے فارسی ترجمے کا نام ھے “ محمد پیغمبری کہ از نوباید شناخت “ ص ۱۲۵ دیکھئے۔
[35] بعض قدیم فلاسفہ کا نظریہ یہ تھا کہ آسمانوں میں ایسا هونا ممکن نھیں ھے ۔اصطلاح میں وہ کہتے تھے کہ افلاک میں --”خرق “(پھٹنا)اور ”التیام“(ملنا)ممکن نھیں ۔
|