|
اب زمانے سے کوئی شکوۂ بیداد نہیں | اب زمانے سے کوئی شکوۂ بیداد iiنہیں اب سوائے درِ اقدس مجھے کچھ یاد iiنہیں اللہ اللہ مدینے کے سفر کا عالم دشت میں ہے مجھے وہ عیش کہ گھر یاد نہیں عالمِ حرص و ہوَس میں غمِ آقا کے سوا سرخوشی کی کوئی صورت دلِ ناشاد نہیں جب سے سرکار نے بخشا ہے شعورِ iiتوحید جز خدا کعبۂ دل میں کوئی آباد iiنہیں صدمۂ ہجر سے دل محوِ فغاں ہے آقا ii! یہ الگ بات کہ لب پر مِرے فریاد iiنہیں آپ وہ مہرِ مجسم کہ نہ بھولے مجھ iiکو میں وہ کمبخت جسے رسمِ وفا یاد iiنہیں میری روداد کا عنوان ہے عشقِ iiسرکار جس میں یہ وصف نہیں وہ مِری روداد iiنہیں میرے کردار کی تعمیر کے بانی ہیں iiحضور موجۂ آبِ رواں پر مِری بنیاد نہیں للہ الحمد !حزیں ہیں میرے استاد ایاز ہائے وہ شخص کہ جس کا کوئی استاد iiنہیں
٭٭٭ |
|
|