|
گردِ رہِ مدینہ کے قابل نہیں رہا | گردِ رہِ مدینہ کے قابل نہیں رہا "جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں iiرہا" عجزِ سخن ، کمال ہے مدحت کے باب میں اس فن میں کوئی میرا مقابل نہیں iiرہا اُن کے کرم سے کھل گئے سب عقدہ ہائے شوق اب کوئی مرحلہ مجھے مشکل نہیں iiرہا اب میں ہوں اور عشقِ شہنشاہِ بحر و iiبر اب کوئی رنج مدِّ مقابل نہیں iiرہا ہونٹوں پہ ہر نفس ہے وظیفہ حضور iiکا میں اک نفس بھی آپ سے غافل نہیں رہا ہاں آپ کے خیال کی دولت ہے میرے iiپاس ہاں میں نشاطِ دہر کا سائل نہیں iiرہا گُم ہو گئے ایاز مدینے کی راہ میں احساسِ نارسائیِ منزل نہیں رہا
٭٭٭ |
|
|