|
ابھی تو خواب ہی دیکھا ہے شہرِ طیبہ کا | ابھی تو خواب ہی دیکھا ہے شہرِ طیبہ کا ابھی سے حال دگرگوں ہے چشمِ بینا iiکا مِری نظر میں ہے تنویرِ منزلِ مقصود چراغِ راہِ یقیں ہے خیال آقا iiکا رہِ حجاز کے ذروں میں جذب ہو iiجاؤں علاج ہے یہ مِرے دردِ بے مداوا کا نبی کے ہجر میں رونا بھی عینِ راحت ہے " مِری نگاہ میں ہے جمع و خرچ دریا کا " دعا قبول ہوئی آپ کے وسیلے iiسے شعور آپ نے بخشا ہمیں تمنا کا کہاں اسیرِ ہوا اور کہاں ثنائے iiرسول حباب خاک احاطہ کرے گا دریا iiکا خیالِ شافعِ محشر محیطِ جاں ہے iiایاز نہیں ہے تشنۂ تعبیر خواب فردا کا
٭٭٭ |
|
|