|
شکوہ گزارِ چرخ ستمگر نہیں ہوں میں | شکوہ گزارِ چرخ ستمگر نہیں ہوں iiمیں سرکار کا کرم ہے کہ مضطر نہیں ہوں iiمیں شہرِ جمال میں بھی نہ اڑ پاؤں تیرے ساتھ موجِ ہوا ! اب ایسا بھی بے پر نہیں ہوں میں طیبہ کے دشت و راغ بھی جنت بدوش ہیں منّت پذیرِ گنبدِ بے در نہیں ہوں iiمیں صد شکر میں گدائے شہِ مشرقین iiہوں دارا و کاقبںد و سکندر نہیں ہوں iiمیں مجھ کو درِ حضور سے دوری کا رنج iiہے آلامِ روزگار کا خوگر نہیں ہوں iiمیں مجھ سے گریز پا ہیں زمانے کی ٹھوکریں آقا! کسی کی راہ کا پتھر نہیں ہوں iiمیں مال و متاعِ عشقِ محمد ہے میرے پاس یہ کس نے کہہ دیا کہ تونگر نہیں ہوں iiمیں روشن ہے نورِ عشقِ محمد سے میرا iiدل پامالِ جلوۂ مہ و اختر نہیں ہوں iiمیں آقا کے در پہ ہے سرِ تسلیمِ خم ایاز اللہ جانتا ہے کہ خود سر نہیں ہوں iiمیں
٭٭٭ |
|
|