|
مجھ پہ جب لطفِ شہِ کون و مکاں ہو جائے گا | مجھ پہ جب لطفِ شہِ کون و مکاں ہو جائے iiگا چرخ سا نا مہرباں بھی مہرباں ہو جائے iiگا نامِ نامی آپ کا وردِ زباں ہو جائے iiگا دور ہر اندیشۂ سود و زیاں ہو جائے iiگا شوقِ دل تنہا چلا ہے جانبِ طیبہ iiمگر ہوتے ہوتے ایک دن یہ کارواں ہو جائے iiگا اوج بخشے گا مجھے ذکرِ شہِ لوح و iiقلم ایک دن عجزِ سخن حسنِ بیاں ہو جائے iiگا جب مِرے دل کی زمیں پر آپ رکھیں گے قدم اس زمیں کا ذرہ ذرہ آسماں ہو جائے iiگا گامزن ہو گا زمانہ اسوۂ سرکار iiپر راستے کا ذرہ ذرہ کہکشاں ہو جائے iiگا ذہن کیا مدحت کرے ممدوحِ داور کی iiایاز بند کیا کوزے میں بحرِ بیکراں ہو جائے iiگا؟
٭٭٭ |
|
|