|
میرے ہاتھوں میں بیاضِ نعت کا شیرازہ تھا | میرے ہاتھوں میں بیاضِ نعت کا شیرازہ تھا رات اک اُمی لقب کا فیض بے اندازہ iiتھا صف بہ صف استادہ تھے سارے فضائل سب علوم مجھ پہ شہرِ علم کا وا ایک اک دروازہ iiتھا بخششیں ہوتی گئیں ہوتی گئیں ہوتی گئیں میرے دامن کا اُنہیں پہلے ہی سے اندازہ تھا آپ دل میں آئے جنت کے دریچے کھل گئے آپ سے پہلے یہ گھر زندانِ بے دروازہ iiتھا میرے دل پر آپ نے جب دستِ رحمت رکھ دیا میرے حق میں حرفِ شیریں وقت کا دروازہ تھا آپ کی مدحت سے پہلے ننگ تھا ذوقِ سخن فکر آوارہ تھی ، برہم ذہن کا شیرازہ تھا تھا تصور میں شبِ غم گنبدِ خضرا ایاز ii! دل کا ایک اک زخمِ نادیدہ گلابِ تازہ iiتھا
٭٭٭ |
|
|