رسول خدا ﷺ کے آداب
اپنے مدمقابل کے ساتھ آپ ﷺ کا جو سلوک تھا اس کے اعتبار سے آپ ﷺ کے آداب تین حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں _
1_ خداوند عالم کے روبرو آپ ﷺ کے آداب
2_ لوگوں کے ساتھ معاشرت کے آداب
3 _ انفرادی اور ذاتی آداب
انہیں سے ہر ایک کی مختلف قسمیں ہیں جن کو آئندہ بیان کیا جائے گا _
خدا کے حضور میں بارگاہ خداوندی میں رسول خدا ﷺ کی دعائیں بڑے ہی مخصوص آداب کے ساتھ ہوتی تھیں یہ دعائیں خدا سے آپ ﷺ کے عمیق ربط کا پتہ دیتی ہیں _
وقت نماز
نماز آپ ﷺ کی آنکھوں کا نور تھی ،آپ ﷺ نماز کو بہت عزیز رکھتے تھے چنانچہ آپ ﷺ ہر نماز کو وقت پر ادا کرنے کا اہتمام کرتے تھے ، بہت زیادہ نمازیں پڑھتے اور نماز کے وقت اپنے آپ ﷺ کو مکمل طور پر خدا کے سامنے محسوس کرتے تھے _
نماز کے وقت آنحضرت ﷺ کے اہتمام کے متعلق آپ ﷺ کی ایک زوجہ کا بیان ہے کہ "رسول خدا ﷺ ہم سے باتیں کرتے اور ہم ان سے محو گفتگو ہوتے ، لیکن جب نماز کا وقت آتا تو آپ ﷺ کی ایسی حالت ہو جاتی تھی گویا کہ آپ ﷺ نہ ہم کو پہچان رہے ہیں اور نہ ہم
آپ ﷺ کو پہچان رہے ہیں (۶)
منقول ہے کہ آپ ﷺ پورے اشتیاق کے ساتھ نماز کے وقت کا انتظار کرتے اور اسی کی طرف متوجہ رہتے تھے اور جیسے ہی نماز کا وقت آ جاتا آپ ﷺ مؤذن سے فرماتے "اے بلال مجھے اذان نماز کے ذریعہ شاد کر دو"(۷)
امام جعفر صادق ؑ سے روایت ہے "نماز مغرب کے وقت آپ ﷺ کسی بھی کام کو نماز پر مقدم نہیں کرتے تھے اور اول وقت ، نماز مغرب ادا کرتے تھے (۸) منقول ہے کہ "رسول خدا ﷺ نماز واجب سے دو گنا زیادہ مستحب نمازیں پڑھا کرتے تھے اور واجب روزے سے دوگنے مستحب روزے رکھتے تھے _(۹)
روحانی عروج میں آپ ﷺ کو ایسا حضور قلب حاصل تھا کہ جس کو بیان نہیں کیا جاسکتا، منقول ہے کہ جب رسول خدا ﷺ نماز کیلئے کھڑے ہوتے تھے تو خوف خدا سے آپ ﷺ کا رنگ متغیر ہو جاتا تھا اور آپ ﷺ کی بڑی دردناک آواز سنی جاتی تھی(۱۰)
جب آپ ﷺ نماز پڑھتے تھے تو ایسا لگتا تھا کہ جیسے کوئی کپڑا ہے جو زمین پر پڑا ہوا ہے (۱۱) حضرت امام جعفر صادق ؑ نے رسول خدا ﷺ کی نماز شب کی تصویر کشی کرتے ہوئے فرمایا ہے :
"رات کو جب آپ ﷺ سونا چاہتے تھے تو ، ایک برتن میں اپنے سرہانے پانی رکھ دیتے تھے آپ ﷺ مسواک بھی بستر کے نیچے رکھ کر سوتے تھے ،آپ ﷺ اتنا سوتے تھے جتنا خدا چاہتا تھا، جب بیدار ہوتے تو بیٹھ جاتے اور آسمان کی طرف نظر کر کے سورہ آل عمران کی آیات"ان فی خلق السموات والارض الخ"پڑھتے اس کے بعد مسواک کرتے ، وضو فرماتے اور مقام نماز پر پہونچ کر نماز شب میں سے چار رکعت نماز ادا کرتے ، ہر رکعت میں قرأت کے بقدر ، رکوع اور رکوع کے بقدر ، سجدہ فرماتے تھے اس قدر رکوع طولانی کرتے کہ کہا جاتا کہ کب رکوع کو تمام کریں گے اور سجدہ میں جائیں گے اسی طرح انکا سجدہ اتنا طویل ہوتا کہ کہا جاتا کب سر اٹھائیں گے اس کے بعد آپ ﷺ پھر بستر پر تشریف لے جاتے اور اتنا ہی سوتے تھے جتنا خدا چاہتا تھا_اس کے بعد پھر بیدار ہوتے اور بیٹھ جاتے ، نگاہیں اسمان کی طرف اٹھا کر انہیں آیتوں کی تلاوت فرماتے پھر مسواک کرتے ، وضو فرماتے ، مسجد میں تشریف لے جاتے اور نماز شب میں سے پھر چار رکعت نماز پڑھتے یہ نماز بھی اسی انداز سے ادا ہوتی جس انداز سے اس سے پہلے چار رکعت ادا ہوئی تھی ، پھر تھوڑی دیر سونے کے بعد بیدار ہوتے اور آسمان کی طرف نگاہ کر کے انہیں آیتوں کی تلاوت فرماتے ، مسواک اور وضو سے فارغ ہو کر تین رکعت نماز شفع و وتر اور دو رکعت نماز نافلہ صبح پڑھتے پھر نماز صبح ادا کرنے کیلئے مسجد میں تشریف لے جاتے "(۱۲)
آنحضرت نے ابوذر سے ایک گفتگو کے ذیل میں نماز کی اس کوشش اور ادائیگی کے فلسفہ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:"اے ابوذر میری آنکھوں کا نور خدا نے نماز میں رکھا ہے اوراس نے جس طرح کھانے کو بھوکے کیلئے اور پانی کو پیاسے کیلئے محبوب قرار دیا ہے اسی طرح نماز کو میرے لئے محبوب قرار دیا ہے ، بھوکا کھانا کھانے کے بعد سیر اور پیاساپانی پینے کے بعد سیراب ہو جاتا ہے لیکن میں نماز پڑھنے سے سیراب نہیں ہوتا"(۱۳)
دعا کے وقت تسبیح و تقدیس
آپ کے شب و روز کا زیادہ تر حصہ دعا و مناجات میں گذر جاتا تھا آپ سے بہت ساری دعائیں نقل ہوئی ہیں آپ کی دعائیں خداوند عالم کی تسبیح و تقدیس سے مزین ہیں ، آپ نے توحید کا سبق، معارف الہی کی گہرائی، خود شناسی اور خودسازی کے تعمیری اور تخلیقی علوم ان دعاؤں میں بیان فرما دیئے ہیں ان دعاؤں میں سے ایک دعا وہ بھی ہے کہ جب آپ ﷺ کی خدمت میں کھانا لایا جاتا تھا تو آپ ﷺ پڑھا کرتے تھے :
"سبحانک اللہم ما احسن ما تبتلینا سبحانک اللہم ما اکثر ما تعطینا سبحانک اللہم ما اکثر ما تعافینا اللہم اوسع علینا و علی فقراء المومنین"(۱۴)
خدایا تو منزہ ہے تو کتنی اچھی طرح ہم کو آزماتا ہے ، خدایا تو پاکیزہ ہے تو ہم پر کتنی زیادہ بخشش کرتا ہے ، خدا یا تو پاکیزہ ہے تو ہم سے کس قدر درگذر کرتا ہے ، پالنے والے ہم کو اور حاجتمند مؤمنین کو فراخی عطا فرما_
بارگاہ الہی میں تضرع اور نیاز مندی کا اظہار
آنحضرت ﷺ خدا کی عظمت و جلالت سے واقف تھے لہذا جب تک دعا کرتے رہتے تھے اسوقت تک اپنے اوپر تضرع اور نیاز مندی کی حالت طاری رکھتے تھے ، سیدالشہداء امام حسین ؑ رسول خدا ﷺ کی دعا کے آداب کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :
"کان رسول اللہ ﷺ یرفع یدیہ اذ ابتہل و دعا کما یستطعم المسکین "(۱۵)
رسول ﷺ بارگاہ خدا میں تضرع اور دعا کے وقت اپنے ہاتھوں کو اس طرح بلند کرتے تھے جیسے کوئی نادار کھانا مانگ رہا ہو_
لوگوں کے ساتھ حسن معاشرت
رسول اکرم ﷺ کی نمایاں خصوصیتوں میں سے ایک خصوصیت لوگوں کے ساتھ حسن معاشرت ہے ، آپ تربیت الہی سے مالامال تھے اس بنا پر معاشرت ، نشست و برخاست میں لوگوں کے ساتھ ایسے ادب سے پیش آتے تھے کہ سخت مخالف کو بھی شرمندہ کر دیتے تھے اور نصیحت حاصل کرنے والے مؤمنین کی فضیلت میں اضافہ ہو جاتا تھا_
آپ کی معاشرت کے آداب، اخلاق کی کتابوں میں تفصیلی طور پر مرقوم ہیں _ہم اس مختصر وقت میں چند آداب کو بیان کر رہے ہیں امید ہے کہ ہمارے لئے رسول خدا ﷺ کے ا دب سے آراستہ ہونے کا باعث ہو:
گفتگو
بات کرتے وقت کشادہ روئی اور مہربانی کو ظاہر کرنے والا تبسم آپ کے کلام کو شیریں اور دل نشیں بنا دیتا تھا روایت میں ہے کہ :
"کان رسول اللہ اذا حدث بحدیث تبسم فی حدیثہ"(۱۶)
بات کرتے وقت رسول اکرم ﷺ تبسم فرماتے تھے _
ظاہر ہے کہ کشادہ روئی سے باتیں کرنے سے ہر ایک کو اس بات کا موقع ملتا تھا کہ وہ آپ ﷺ کی عظمت و منزلت سے مرعوب ہوئے بغیر نہایت اطمینان کے ساتھ آپﷺ سے گفتگو کرے ، اپنے ضمیر کی آواز کو کھل کر بیان کرے اور اپنی حاجت و دل کی بات آپ ﷺ کے سامنے پیش کرے _
سامنے والے کی بات کو آپ ﷺ کبھی منقطع نہیں کرتے تھے ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوئی آپ ﷺ سے گفتگو کا آغاز کرے تو آپ ﷺ پہلے ہی اسکو خاموش کر دیں (۱۷)
مزاح
مؤمنین کا دل خوش کرنے کیلئے آنحضرت ﷺ کبھی مزاح بھی فرمایا کرتے تھے ، لیکن تحقیر و تمسخر آمیز، ناحق اور ناپسندیدہ بات آپ ﷺ کی کلام میں نظر نہیں آتی تھی_
"عن الصادق ؑ قال ما من مؤمن الا وفیہ دعابة و کان رسول اللہ یدعب و لا یقول الاحقا"(۱۸)
امام صادق ؑ سے نقل ہوا ہے کہ : کوئی مؤمن ایسا نہیں ہے جس میں حس مزاح نہ ہو، رسول خدا ﷺ مزاح فرماتے تھے اور حق کے علاوہ کچھ نہیں کہتے تھے _
آپ کے مزاح کے کچھ نمونے یہاں نقل کئے جاتے ہیں :
"قال ﷺ لاحد لا تنس یا ذالاذنین "(۱۹)
پیغمبر خدا ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا: اے دو کان والے فراموش نہ کر_
انصار کی ایک بوڑھی عورت نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ آپ میرے لئے دعا فرمادیں کہ میں بھی جتنی ہو جاؤں حضرت ﷺ نے فرمایا: "بوڑھی عورتیں جنت میں داخل نہیں ہوں گی"وہ عورت رونے لگی آنحضرت ﷺ مسکرائے اور فرمایا کیا تم نے خدا کا یہ قول نہیں سنا ;
"انا انشأناہن انشاءً فجعلنا ہن ابکاراً "(۲۰)
ہم نے بہشتی عورتوں کو پیدا کیا اور ان کو باکرہ قرار دیا _
کلام کی تکرار
رسول خدا ﷺ کی گفتگو کی خصوصیت یہ تھی کہ آپ ﷺ بات کو اچھی طرح سمجھا دیتے تھے_
ابن عباس سے منقول ہے : جب رسول خدا ﷺ کوئی بات کہتے یا آپﷺ سے کوئی سوال ہوتا تھا تو تین مرتبہ تکرار فرماتے یہاں تک کہ سوال کرنے والا بخوبی سمجھ جائے اور دوسرے افراد آنحضرت ﷺ کے قول کی طرف متوجہ ہو جائیں _
انس و محبت
پیغمبر خدا ﷺ کو اپنے اصحاب و انصار سے بہت انس و محبت تھی ان کی نشستوں میں شرکت کرتے اور ان سے گفتگو فرماتے تھے آپ ﷺ ان نشستوں میں مخصوص ادب کی رعایت فرماتے تھے _
حضرت امیر المؤمنین آپ کی شیرین بزم کو یاد کرتے ہوئے فرماتے ہیں ": ایسا کبھی نہیں دیکھا گیا کہ پیغمبر خد ا ﷺ کسی کے سامنے اپنا پاؤں پھیلاتے ہوں "(۲۱)
پیغمبر ﷺ کی بزم کے بارے میں آپ کے ایک صحابی بیان فرماتے ہیں "جب ہم لوگ رسول خدا ﷺ کے پاس آتے تھے تو دائرہ کی صورت میں بیٹھتے تھے "(۲۲)
جلیل القدر صحابی جناب ابوذر بیان کرتے ہیں "رسول خدا ﷺ جب اپنے اصحاب کے درمیان بیٹھتے تھے تو کسی انجانے آدمی کو یہ نہیں معلوم ہوسکتا تھا کہ پیغمبر ﷺ کون ہیں آخرکار اسے پوچھنا پڑتا تھا ہم لوگوں نے حضورﷺ سے یہ درخواست کی کہ آپ ایسی جگہ بیٹھیں کہ اگر کوئی اجنبی آدمی آ جائے تو آپ ﷺ کو پہچان لے ، اسکے بعد ہم لوگوں نے مٹی کا ایک چبوترہ بنایا آپ ﷺ اس چبوترہ پر تشریف فرما ہوتے تھے اور ہم لوگ آپ ﷺ کے پاس بیٹھتے تھے _(۲۳)
امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں : رسول خدا ﷺ جب کسی کے ساتھ بیٹھتے تو جب تک وہ موجود رہتا تھا حضرت ﷺ اپنے لباس اور زینت والی چیزوں کو جسم سے جدا نہیں کرتے تھے (۲۴)
مجموعہ ورام میں روایت کی گئی ہے "پیغمبر ﷺ کی سنت یہ ہے کہ جب لوگوں کے مجمع میں بات کرو تو ان میں سے ایک ہی فرد کو متوجہ نہ کرو بلکہ سارے افراد پر نظر رکھو(۲۵)
خلاصہ درس
1)علمائے علم لغت نے لفظ ادب کے جو معنی بیان کئے ہیں ان پر غور کرنے کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ در حقیقت ظرافت عمل اور ایسے نیک چال چلن کا نام ادب ہے کہ جس کا سرچشمہ لطافت روح اور طینت کی پاکیزگی ہے _
2) آنحضرت ﷺ کے ادب کی قدر و قیمت اس عنوان سے ہے کہ آپ خدا کی بارگاہ کے تربیت یافتہ اور اس کے سکھائے ہوئے ادب سے آراستہ و پیراستہ تھے _
3) اخلاق و آداب ، میں فرق یہ ہے کہ اخلاق میں اچھائی اور برائی دونوں ہوتی ہیں مگر ادب میں حسن عمل کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا_
4) رسول خدا ﷺ نے روزمرہ کی زندگی کے اعمال میں جن طریقوں اور آداب کو اپنایا، وہ ایسے تھے کہ جنہوں نے اعمال کو خوبصورتی لطافت اور حسن عطا کیا اور انہیں اخلاقی قدروں کا حامل بنا دیا_
5) رسول اللہ ﷺ کی سیرت میں مندرجہ ذیل اوصاف نمایاں طور پر نظر آتے ہیں :
الف:حسن و زیبائی ب: نرمی اور لطافت ج: وقار و متانت
6 ) مدمقابل کے سامنے جو آپ ﷺ کے آداب تھے ان کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتاہے :
1_ خدا کے بالمقابل آپ ﷺ کے آداب
2_ لوگوں کی ساتھ معاشرت کے آداب
3_فردی اور ذاتی آداب
..............
مآخذ:
۱ (لغت نامہ دہخدا مادہ ادب)_
۲)(المیزان جلد 2 ص 105)_
۳)(المیزان جلد 2 ص 105)_
۴)( اصول کافی جلد 2 ص 2 ترجمہ سید جواد مصطفوی)_
۵)المیزان جلد 12 ص 106_
۶) سنن النبی ص 251_
۷) سنن النبی ص 268_
۸) سنن النبی ص_
۹) سنن النبی ص 234_
۱۰) سنن النبی ص251_
۱۱) سنن النبی ص 268_
۱۲) سنن النبی ص 241_
۱۳)سنن النبی ص 269_
۱۴) اعیان الشیعہ ج1 ص306_
۱۵)سنن النبی ص 315_
۱۶) سنن النبی ص48 بحار ج6 ص 298_
۱۷)مکارم الاخلاق ص 23_
۱۸)سنن النبی ص 49_
۱۹)بحارالانوار ج16 ص 294_
۲۰)سورہ واقعہ آیت 35 و 36_
۲۱) مکارم الاخلاق ص 22_
۲۲) سنن النبی ص 70_
۲۳) سنن النبی ص63_
۲۴)سنن النبی ص48_
۲۵)سنن النبی ص47_
٭٭٭
|