رحمۃ للعالمین
ہجرت کا آٹھواں سال اسلام و مسلمین کے لئے افتخارات اور کامیابیوں کا سال تھا اسی سال مسلمانوں نے مشرکین کے سب سے بڑے اڈے یعنی مکہ مکرمہ کو فتح کیا تھا۔
اس کے بعد اسلام سارے جزیرۃ العرب میں بڑی تیزی سے پھیل گیا۔
فتح مکہ کے دن لشکر اسلام کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا مسلمان چاروں طرف سے خانہ کعبہ تک پہنچ گئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غسل کرنے کے بعد اپنے خیمے سے باہر تشریف لائے اور اونٹ پر بیٹھ کرمسجد الحرام کی طرف روانہ ہوئے۔ شہر مکہ جہاں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ندائے حق اور دعوت الہی کو دبانے کے لئے تمام وسائل و ذرائع سے کام لیا گیا تھا آج اس پر عجیب خاموشی اور خوف چھایا ہوا ہے اور لوگ اپنے گھروں ، دروازوں کے شارفوں اور کچھ لوگ پہاڑ کی چوٹیوں پر سے عبدالمطلب کے پوتے کی عظمت و جلالت کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ آپ خانہ کعبہ تک پہنچ گئے لشکر اسلام اپنے آسمانی رہبر کی قیادت میں طواف کرنے کو بے چین تھا لوگوں نے آپ کے لئے راستہ کھولا۔ رسول اللہ کے اونٹ کی حمار محمد بن مسلمہ کے ہاتھ میں تھی۔ آپ نے اس عالم میں طواف کیا حجراسود کو بوسہ دینے کے بعد خانہ کعبہ کی دیواروں پر لٹکے ہوئے بتوں کو نیچے گرایا اور حضرت علی علیہ السلام کو حکم دیا کہ آپ کے شانہ ہائے مبارک پر کھڑے ہو کر بتوں کو نیچے پھینکیں۔ سیرہ حلبیہ اور فریقین کی بہت سی کتابوں میں وارد ہوا ہے کہ لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام سے پوچھا کہ جب آپ آنحضرت کے شانے پر کھڑے ہوئے تھے تو کیسامحسوس کر رہے تھے ؟ آپ نے فرمایا میں یہ محسوس کر رہا تھا کہ میں ستارہ ثریا کو چھوسکتا ہوں۔ اس کے بعد آپ ص نے کلید دار کعبہ عثمان طلحہ کو کعبے کا دروازہ کھولنے کا حکم دیا کعبے میں داخل ہوئے اور مشرکین نے پیغمبروں اور فرشتوں کی جو تصویریں بنا کر دیواروں سے آویزاں کر رکھی تھیں انہیں اپنی عصا سے نیچے گرایا اور اس آیت کی تلاوت فرمائی۔
قل جاء الحق وزہق الباطل ان الباطل کان زہوقا "اور کہہ دیجئے کہ حق آگیا اور باطل فنا ہو گیا کہ باطل بہرحال فنا ہونے والا ہے۔ (اسراء 81)
مشرکین مکہ صنادید قریش اور ان کے خطباء و شعرا جیسے ابوسفیان ، سہبل بن عمرو اور دیگر افراد خانہ کعبہ کے کنارے سرجھکاے کھڑے تھے۔ شاید یہ لوگ سوچ رہے ہونگے رسول اللہ نے مکہ فتح کر لیا ہے ، اب وہ کس طرح سے ان کی اذیتوں ،تہمتوں اور تمسخروافتراءت کا بدلہ لیں گے ؟ اور ان کے بارے میں کیا فیصلہ کریں گے !
جن لوگوں نے ابھی تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نبی و پیغمبر الہی کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا تھا اور آپ کی بزرگواری اور کریمانہ اخلاق سے آگاہ نہیں تھے ان کے دلوں میں خوف و اضطراب موجزن تھا۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے صرف فاتح سرداروں کو لوٹ مار کرتے اور خون بہاتے ہوئے دیکھا تھا۔ انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ قرآن کریم نے رسول اللہ کو رحمۃ للعالمین قرار دیا ہے ، دونوں جہاں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ اقتدار و فتح و کامرانی کی صورت میں ان پر غرور و ہوا و ہوس کا سایہ تک نہیں پڑسکتا۔ اہل مکہ کے لئے اس دن (فتح مکہ) کا ہر لمحہ پر اضطراب تھا ایسے میں آپ نے وہی جملے دوہرائے جو مبعوث برسالت ہونے کے بعد فرمائے تھے ، آپ نے کہا لا الہ الا ا للہ وحدہ لاشریکلہ صدق وعدہ و نصر عبدہ وھزم الاحزاب وحدہ۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا ، اپنے بندے کی نصرت کی اور تنہا تمام گروہوں کو شکست دی۔
اس کے بعد اہل مکہ کو یہ اطمینان دلانے کے لئے کہ مسلمان ان سے انتقام نہیں لیں گے ان سے فرمایا ماذانقولون و ماذاتظنون۔ میرے بارے میں تم لوگ کیا کہتے ہو اور کیا سوچ رہے ہو؟ قریش جو رسول اللہ کی عظمت و جلالت کو دیکھ کر بری طرح بے دست و پا ہو چکے تھے گڑکڑا کر کہنے لگے نقول خیرا و نظن خیرا اخ کریم و ابن اخ کریم وفد قدرت۔ ہم آپ کے بارے میں خیر خواہی اور خوبی کے علاوہ کچھ نہیں کہتے ہیں اور خیر و نیکی کے علاوہ کچھ نہیں سوچتے۔ آپ مہربان و کریم بھائی ہیں اور ہمارے بزرگ و مہربان چچازاد ہیں اور اب آپ کو بھرپور اقتدار حاصل ہو گیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں مزید اطمناین دلایا اور ان کی معافی کا حکم جاری کیا آپ نے فرمایا میں تم لوگوں سے وہی کہوں گا جو میرے بھائی یوسف نے کہا تھا (جب ان کے بھائیوں نے انہیں نہیں پہچانا تھا) آپ نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی قال لاتثریب علیکم الیوم یغفراللہ لکم و ہوا ا رحم الراحمین۔ یوسف نے کہا آج تمہارے اوپر کوئی الزام نہیں ہے خدا تمہیں معاف کر دے گا کہ وہ بڑا رحم کرنے والا ہے۔
اس کے بعد آپ نے فرمایا حقیقت یہ ہے کہ تم سب بڑے برے لوگ تھے کہ اپنے پیغمبر کو جھٹلایا اور اسے اپنے شہرودیارسے نکال دیا ، اس پر اکتفا نہ کی بلکہ دوسرے شہروں میں بھی مجھ سے جنگ کرنے کے لئے آیا کرتے تھے۔
آپ کی باتیں سنکر بعض لوگوں کے چہرے فق ہو گئے وہ یہ سوچنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اذیت و آزار و مصائب یاد آ گئے ہیں اور آپ ، انتقام لینا چاہتے ہیں لیکن رسول حق نے رحمت و کرامت کا ثبوت دیتے ہوئے فرمایا فاذھبوا فانتم الطلقاء جاؤ تم سب آزاد ہو۔ تاریخ و روایات میں آیا ہے کہ جب رسول رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ جملہ ارشاد فرمایا تو لوگ اس طرح سے مسجد الحرام سے باہر جانے لگے جیسے مردے قبروں سے اٹھ کر بھاگ رہے ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اسی مرےبانی و رحمت کی وجہ سے مکہ کے اکثر لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔
نرم دلی و رواداری
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بے نظیر اخلاقی صفات میں ایک نرم دلی اور رواداری ہے۔ آپ بدو عربوں یہاں تک کہ کینہ پرور دشمنوں کی درشت خوئی، بے ادبی اور جایلت پر نرمی اور رواداری سے پیش آتے تھے۔ آپ کی اس صفت نے بے شمار لوگوں کو اسلام کی طرف مائل کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کا گرویدہ بھی بنا دیا۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں بلین الجانب تانس القلوب"نرمی اور (مریبانی) سے ہی لوگ مانوس ہوتے ہیں۔ (غررالحکم ج 2 ص 411 )
( رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ہے کہ وعلیکم بالاناءۃ واللین والتسرع من سلاح الشیطان وما من شئی احب الی اللہ من الاناءۃ واللین۔
تمہیں نرمی اور رواداری اختیار کرنی چاہیے ،اور ایک دوسرے کے ساتھ پیش آنے میں جلد بازی شیطان کا کام ہے اور خدا کے نزدیک نرمی اور رواداری سے پسندیدہ اخلاق اور کوئی نہیں ہے۔ (علل الشرایع ج 2 ص210)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ ان العلم خلیل المومن ، والحلم وزیرہ
بے شک علم مومن کاسچا دوست ہے حلم اس کا وزیر ہے صبر اسکی فوج کا امیر ہے دوستی اس کا بھائی ہے نرمی اس کا باپ ہے۔ (مجلسی ج 78 ص 244)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نرم خوئی اور رواداری خدا کی خاص عنایت و لطف میں ہے اسی صفت کی وجہ سے لوگ آپ کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔ سورہ مبارکہ آل عمران میں آپ کی ان ہی صفات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد ہو رہا ہے "فبمارحمۃ من اللہ لنت لھم ولوکنت فظا غلیظا القلب لانفضوامن حولک فاعف عنھم واستغفرلھم۔ پیغمبر اللہ کی مہربانی ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم ہو ورنہ اگر تم بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے لہذا اب انہیں معاف کر دو اور ان کے لئے استعفار کرو۔(آل عمران 150)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نرم مزاجی اور رواداری کے بارے میں دو واقعات ملاحظہ فرمائیں۔
محدث قمی نے سفینہ البحار میں انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ انس بن مالک کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس تھا آپ ایک عبا اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے تھے ایک عرب آتا ہے اور آپ کی عبا کو پکڑ کر زور سے کھینچتا ہے جس سے آپ کی گردن پر خراش پڑ جاتے ہیں اور آپ سے کہتا ہے کہ اے محمد میرے ان دونوں اونٹوں پر خدا کے اس مال میں سے جو تمہارے پاس ہے لاد دو کیونکہ وہ نہ تو تمہارا مال ہے اور نہ تمہارے باپ کا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مرد عرب کی یہ بات سنکرخاموش رہے اور فرمایا المال مال اللہ وانا عبدہ۔ سارا مال خدا کا ہے اور میں خدا کا بندہ ہوں۔ اس کے بعد فرمایا اے مرد عرب تو نے جو میرے ساتھ کیا ہے کیا اسکی تلافی چاہتا ہے ؟ اس نے کہا نہیں کیونکہ تم ان میں سے نہیں ہو جو برائی کا بدلہ برائی سے دیتے ہیں۔ آنحضرت یہ سنکر ہنس پڑے اور فرمایا مرد عرب کے ایک اونٹ پر جو اور دوسرے پر خرما لاد دیا جائے۔ اسکے بعد اسے روانہ کر دیا۔ (سفینہ البحار باب خلق)
1۔ شیخ صدوق نے اپنی کتاب امالی میں ساتویں امام علیہ السلام کے واسطے سے حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایک مرد یہودی کی چند اشرفیاں قرض تھیں ، یہودی نے آنحضرت سے قرضہ طلب کر لیا۔ آپ نے فرمایا میرے پاس تمھیں دینے کو کچھ بھی نہیں ہے۔ یہودی نے کہا میں اپنا پیسہ لیئے بغیر آپ کو جانے نہیں دونگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اگرایسا ہے تو میں تیرے پاس ہی بیٹھا رہوں گا، آپ اس مرد یہودی کے پاس بیٹھ گئے اور اس دن کی نمازیں وہیں ادا کیں۔ جب آپ کے صحابہ کو واقعے کا علم ہوا تو یہودی کے پاس آئے اور اسے ڈرانے دھمکانے لگے۔ آپ نے صحابہ کو منع فرمایا اصحاب نے کہا اس یہودی نے آپ کو قیدی بنا لیا ہے اس کے جواب میں آپ نے فرمایا لم پبعثنی ربی بان اظلم معاھدا ولاغیرہ۔ خدا نے مجھے نبی بنا کر نہیں بھیجا تاکہ میں ہم پیمان کافر یا کسی اور پر ظلم کروں۔ دوسرے دن مرد یہودی اسلام لے آیا اس نے شہادتین جاری کیں اور کہا کہ میں نے اپنا نصف مال راہ خدا میں دیدیا خدا کی قسم میں نے یہ کام نہیں کیا مگر یہ کہ میں نے توریت میں آپ کی صفات اور تعریف پڑھی ہے توریت میں آپ کے بارے میں اس طرح ملتا ہے کہ محمد بن عبداللہ مولدہ بمکہ و مہجرہ بطیبہ ولیس بفظ ولاغلیظ و بسخاب و لا متزین بفحش ولاقول الخناء وانا اشھدان لا الہ الا ا للہ وانک رسول اللہ وھذا مالی فاحکم فیہ بما ا نزل اللہ۔ محمد ابن عبداللہ جس کی جائے پیدائش مکہ ہے اور جو ہجرت کر کے مدینے آئے گا نہ سخت دل ہے نہ تند خو ،کسی سے چیخ کر بات نہیں کرتے اور نہ ان کی زبان فحش اور بیہودہ گوئی سے آلودہ ہے ،میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور آپ اس کے رسول ہیں اور یہ میرا مال ہے جو میں نے آپ کے اختیار میں دیدیا اب آپ اس کے بارے میں خدا کے حکم کے مطابق فیصلہ کریں۔
سورہ توبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعریف میں ارشاد ہوتا ہے لقد جاء کم رسول من انفسکم عزیزعلیہ ماعنتم حریص علیکم بالمومنین رؤف رحیم۔ فان تولوا فقل حسبی اللہ لا الہ الا ا للہ ہو علیہ توکلت و ہورب العرش العظیم۔
یقیناً تمہارے پاس وہ پیغمبر آیا ہے جو تمہیں میں سے ہے اور اس پر تمہاری ہر مصیبت شاق ہوتی ہے ، وہ تمایری ہدایت کے لئے حرص رکھتا ہے اور مومنین کے حال پر شفیق و مہربان ہے اب اس کے بعد بھی یہ لوگ منہ پھیر لیں تو کہ دیجئے کہ میرے لئے خدا کافی ہے اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے میرا اعتقاد اسی پر ہے اور وہی عرش اعظم کا پروردگار ہے۔
نوع دوستی اور بے کسوں کی دستگیری
1۔ شیخ صدوق نے اپنی کتاب امالی میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ ایک شخص رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آیا دیکھتا ہے کہ آپ کا لباس پرانا ہو چکا ہے آپ کو بارہ درہم دیتا ہے کہ آپ اپنے لئے نیا لباس خریدیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ بارہ درہم حضرت علی علیہ السلام کو دیتے ہیں تاکہ وہ آپ کے لئے لباس خرید کر لائیں۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے بازار سے بارہ درہم کا ایک لباس خریدا اور رسول اللہ کے پاس لے آیا۔ آپ نے لباس دیکھ کر فرمایا ہے علی دوسرا لباس میری نظر میں بہتر ہے ، دیکھو کیا دوکاندار یہ لباس واپس لے گا۔ میں نے کہا مجھے نہیں معلوم، آپ نے فرمایا جا کر معلوم کرو، میں دوکاندار کے پاس گیا اور کہا کہ رسول خدا کو یہ لباس پسند نہیں آیا ہے انہیں دوسرا لباس چاہئے اسے واپس لے لو۔ دوکاندار نے لباس واپس لے لیا اور حضرت عیں علیہ السلام کو بارہ درہم لوٹا دئے۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں میں وہ بارہ درہم لیکر رسول اللہ کی خدمت میں گیا آپ میرے ساتھ لباس خریدنے کے لئے بازار کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں دیکھا کہ ایک کنیز بیٹھی رو رہی ہے۔ آنحضرت نے اس کنیز سے پوچھا کہ اس نے رونے کا کیا سبب ہے ، اس نے کہا یارسول اللہ میرے گھر والوں نے سودا خریدنے کے لئے چار درہم دیتے تھے۔ لیکن درہم گم ہو گئے اب مجھے خالی ہاتھ گھر جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کنیز کو چار درہم دے دیئے اور فرمایا جاؤ اپنے گھر لوٹ جاؤ۔ پھر آپ بازار کی طرف روانہ ہو گئے اور چار درہم کا لباس خریدا خدا کا شکر ادا کیا اور بازار سے روانہ ہو گئے۔ آپ نے دیکھا کہ ایک برہنہ شخص کہہ رہا ہے کہ جو مجھے کپڑے پہنائے خدا اسے جنت میں کپڑے پہنائے گا۔ رسول اللہ نے اپنی قمیص اتاری اور اس شخص کو پہنا دی۔ آپ دوبارہ بازار تشریف لے گئے اور باقی بچے چار درہموں سے ایک اور لباس خریدا اور بیت الشرف تشریف لے گئے۔ راستے میں دیکھتے ہیں وہی کنیز بیٹھی رو رہی آپ نے اس سے پوچھا تم اپنے گھرکیوں نہیں گئیں۔ کنیز نے کہا اے رسول خدا میں بہت دیرسے گھر سے باہر ہوں مجھے ڈر لگ رہا ہے کہیں گھر والے میرے پٹائی نہ کر دیں آپ نے فرمایا اٹھو ،میرے آگے آگے چلو اور اپنے گھر والوں کو مجھ سے ملواؤ، رسول خدا اس کنیز کے ساتھ اس کے گھر پہنچے آپ نے دروازے پر پہنچ کر فرمایا السلام علیکم یا اہل الدار کسی نے آپ کا جواب نہیں دیا آپ نے دوبارہ سلام کیا کسی نے جواب نہیں دیا جب آپ نے تیسری مرتبہ سلام کیا تو گھر سے آواز آئی و علیک السلام یارسول اللہ و رحمۃ اللہ برکاتہ آپ نے فرمایا پہلی اور دوسری مرتبہ میرے سلام کا جواب کیوں نہیں دیا گیا تو گھر والوں نے کہا کہ ہم نے دونوں مرتبہ آپ کی آواز مبارک سنی تھی اور آپ کی آواز بار بار سننا چاہتے تھے۔ رسول اللہ نے فرمایا یہ کنیز دیرسے گھر لوٹ رہی ہے اس کی تنبیہ نہ کرنا گھر والوں نے کہا اے رسول خدا آپ کے قدم مبارک کے صدقے اس کنیز کو آزاد کیا آپ نے فرمایا الحمد اللہ ان بارہ درہموں سے بابرکت درہم نہیں دیکھے ان کی برکت سے دو برہنہ جسموں کولباس ملا ا ور ایک کنیز کو آزاد نصیب ہوئی۔
حمیری نے اپنی کتاب قرب الاسناد میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ سے ایک شخص نے سوال کیا آپ نے فرمایا کیا کسی کے پاس ادھار دینے کو کچھ ہے تو قبیلہ بنی الحبلی کے ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ میرے پاس ہے آپ نے فرمایا اس سائل کو چاروسق خرما دے دو اس شخص نے سائل کو چار وسق خرما دے دیا اس کے بعد رسول اللہ سے اپنا ادھار واپس لینے کے لئے آپ کے پاس گیا آپ نے فرمایا انشاء اللہ تمہیں تمہاری امانت مل جائے گی، وہ شخص چار مرتبہ رسول خدا کے پاس گیا آپ نے اسے یہی جواب دیا اس نے کہا یارسول اللہ آپ کب تک یہ فرماتے رہیں گے انشاء اللہ تمہارا ادھار ادا کر دیا جائے گا! آنحضرت مسکرائے اور فرمایا کیا کسی کے پاس ادھار دینے کو کچھ ہے ، ایک شخص اٹھا اور کہنے لگا میرے پاس ہے یارسول اللہ، آپ نے فرمایا تیرے پاس کتنا مال ہے ، اس شخص نے کہا آپ جتنا چاہیں ، آپ نے فرمایا اس شخص کو اٹھ وسق خرما دے دو۔
انصاری نے کہا میرا ادھار چار وسق ہے آپ نے فرمایا چار وسق اور لے لو۔
انس بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے نو سال آنحضرت کی خدمت کی اس دوران آپ نے کبھی بھی مجھ پر اعتراض نہیں کیا اور نہ میرے کام میں کوئی عیب نکالا۔ایک اور روایت کے مطابق انس بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے دس سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت کی اس مدت میں آپ نے مجھ سے اف تک نہ کہا۔
انس بن مالک سے ایک اور روایت ہے کہ افطار اور سحر میں آپ یا تو دودھ تناول فرمایا کرتے تھے یا پھر کبھی کبھی دودھ میں روٹی چور کے نوش کیا کرتے تھے۔ انس بن مالک کہتے ہیں کہ ایک رات میں آپ کے لئے دودھ اور روٹی مہیا کی لیکن آپ دیرسے تشریف لائے میں نے یہ سوچا کہ افطار پر اصحاب نے آپکی دعوت کی ہے اور میں نے آپ کی غذا کھا لی،کچھ دیر بعد آپ تشریف لے آئے ،میں نے آپ کے ایک صحابی سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ نے افطار کیا ہے یا کسی نے افطار پر آپ کی دعوت کی تھی،صحابی نے نفی میں جواب میں دیا۔وہ رات میرے لئے بڑی کربناک رات تھی صرف خدا ہی میرے غم و غصے سے واقف تھا مجھے یہ خوف لاحق تھا کہ کہیں آپ مجھ سے اپنی غذا نہ طلب فرما لیں اور میں آپ کے سامنے شرمندہ ہو جاؤں لیکن اس رات رسول اللہ نے افطار نہیں کیا اور آج تک اس غذا کے بارے میں مجھ سے سوال نہیں فرمایا۔
حدیث میں ہے کہ ایک سفر میں آپ نے گوسفند ذبح کرنے کا حکم دیا۔ آپ کے ساتھیوں میں سے ایک نے کہا میں گوسفند ذبح کر دونگا ،دوسرے نے کہا میں اس کا چمڑا اتار دوں گا،تیسرے نے کہا گوشت پکانا میری ذمہ داری ہے آپ نے فرمایا میں لکڑیاں لے آؤں گا۔اصحاب نے عرض کیا آپ زحمت نہ فرمائیں ہم آپ کا کام کر دیں گے۔ آپ نے فرمایا میں جانتا ہوں لیکن مجھے پسند نہیں ہے کہ میں تم لوگوں سے ممتاز رہوں کیونکہ خدا کو بھی یہ پسند نہیں ہے۔ اس کے بعد آپ لکڑیاں جمع کرنے کے لئے روانہ ہو گئے۔
جب آپ سے کوئی ملتا تھا تو آپ اس سے اس وقت تک جدا نہیں ہوتے تھے جب تک وہ شخص خود خدا حافظ کر کے آپ کے پاس سے نہ چلا جائے۔ جب آپ کسی سے مصافحہ کرتے تھے تو مصافحہ کرنے والے کا ہاتھ اس وقت تک نہ چھوڑتے تھے جب تک وہ خود اپنا ہاتھ نہ کھینچ لے ،اور جب آپ کی مجلس میں بیٹھنے والا خود نہیں اٹھ جاتا تھا آپ نہیں اٹھتے تھے۔
آپ مریضوں کی عیادت کو جایا کرتے تھے ،جنازوں میں شرکت فرمایا کرتے تھے ،گدھے پر سواری کیا کرتے تھے ،آپ جنگ خیبر ،جنگ بنی قریظہ اور جنگ بنی نضیر میں گدھے پر سوارتھے۔
ابوذر کہتے ہیں کہ رسول اللہ اپنے اصحاب کے درمیان ایسے تشریف فرما ہوتے تھے کہ اجنبی یہ نہیں پہچان سکتا تھا کہ رسول اللہ کون ہیں بلکہ اسے آپ کے بارے میں پوچھنا پڑتا تھا (یعنی آپ اپنے لئے کسی بھی طرح کا امتیاز روا نہیں سمجتےک تھے )
انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مجلس میں کسی طرح کی اونچ نیچ نہیں ہوتی تھی سب ایک سطح پر بیٹھتے تھے۔ جابر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کسی کے سوال کو رد نہیں کیا۔
حضرت ام المومنین عائشہ سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم گھر میں جب تنان ہوتے تو کیا کرتے تھے ؟انہوں نے کہا اپنا لباس سیتے اور نعلین میں پیوند لگاتے۔
انس کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ اپنے کسی صحابی کو تین دن تک نہ دیکھتے تو اس کے بارے میں پوچھتے ،اگر وہ صحابی سفر پر ہوتا تو اس کے لئے دعا فرماتے اور اگر شہر میں ہوتا تو اس سے ملنے جاتے اور اگر بیمار ہوتا تو اس کی عیادت کرتے۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ خمس لا ا دعھن حتی الممات الاکل علی الحضیض مع العبید،ورکوبی الحمار موکفا،و حلبی العنزبیدی ،ولبس الصوف ،و التسلیم علی الصبیان لتکون سنۃمی بعدی۔ پانچ چیزیں ہیں جنہیں میں موت تک ترک نہیں کرسکتاتاکہ میرے بعد سنت بن جائیں ، غلاموں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر غذا کھانا،ایسے گدھے پر سوار ہونا جس پر سادہ زین ہو،بکری کو اپنے ہاتھوں سے دوہنا،کھردرا کپڑا پہننا،اور بچوں کو سلام کرنا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کبھی یہ پسند نہیں فرماتے تھے کہ آپ سوار ہوں اور آپ کے ساتھ کوئی پیادہ چلے ،آپ اسے اپنی سواری پر سوار کر لیتے تھے ،اور اگر وہ نہیں مانتا تھا تو آپ فرماتے مجھ سے آگے نکل جاؤ اور جہان تمہیں جانا ہے وہاں مجھ سے ملاقات کرو۔
حضرت امام باقر علیہ السلام سے رویت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے دیکھتے ہیں فضل بن عباس وہاں موجود ہیں آپ نے فرمایا اس لڑکے کو میرے پیچ ہے سواری پر بٹھا دو،پھر آپ نے انہیں اپنے ہاتھ سے سہارا دیا یہاں تک کہ انہیں مقصد تک پہنچا دیا۔
آپ نے حجۃ الوداع میں اسامہ بن زید کو اپنی سواری پر بٹھایا اسی طرح عبداللہ بن مسعود اور فضل کو اپنے پاس اپنی سواری پر بٹھایا۔ میری نے کتاب حیات الحیوان میں حافظ بن مندہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تینتیس افراد کو اپنی سواری پر اپنے پاس بٹھایا ہے۔
سیرت نویسوں نے آپ کے بارے میں لکھا ہے کہ کان صلی اللہ علیہ و آلہ فی بیتہ فی مھنت اھلہ ،یقطع اللحم ویجلس علی الطعام محقرا۔۔۔ویرقع ثوبہ و یخصف نعلہ و یخدم نفسہ ویقیم البیت و یعقل البعیر ویعلف ناضحہ و یطحن مع الخادم و یعجن معھا،و یحمل بضاعتہ من السوق،ویضع طھورہ با ا لیل بیدہ ،ویجالس الفقراءو یواکل المساکین و یناولھم بیدہ و یاکل الشاۃ من النوی فی کفہ ویشرب الماءبعد ان سقی اصحابہ و قال ساقی القوم آخرھم شربا۔۔۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم گھرکے کاموں میں اپنے اہل خانہ کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے ،گوشت کاٹا کرتے تھے ،اور بڑے تواضع کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھا کرتے تھے ،وضو کے لئے خود پانی لایا کرتے تھے ،فقیروں کے ساتھ بیٹھتے تھے ،مسکینوں کے ساتھ غذا تناول فرماتے تھے ،ان کے ساتھ مصافحہ کرتے تھے ،گوسفند کو اپنے ہاتھ سے غذا دیتے تھے ،اپنے ساتھیوں اور اصحاب کو پانی پلانے کے بعد خود پانی نوش فرماتے تھے اور فرماتے تھے کہ قوم کے ساقی کو سب سے آخر میں پانی پینا چاہیے۔
اللھم صل علی محمد وآل محمد وعجل فرجھم
..............
منابع و مآخذ
1۔قرآن کریم
2۔غررالحکم
3۔تحف ا لعقول
4۔علل الشرایع
5۔صحیفہ سجادیہ
6۔مجمع البیان
7۔سفینۃ البحار
8۔اصول کافی
9۔بحارالانوار
10۔فلسفہ اخلاق (مطہری )
11۔کنزالعمال۔
|