نواں سبق:
(پيغمبر (ص) رحمت)
انسانيت كے كمال كى جو اعلى ترين مثال ہوسكتى ہے رسول خدا (ص) اس كے سب سے بڑے مصداق اور انسانى فضاءل و كمالات كا اعلى نمونہ تھے ، اخلاق الہى كا مظہر اور انك لعلى خلق عظيم (1) كے افتخارسے سرفراز تھے_
آپ (ص) كے فضاءل كا بلند پہلو يہ ہے كہ خدا نے آپ (ص) كو '' رؤف و رحيم'' كے لقب سے ياد فرماياہے:
''لقد جاءكم رسول من انفسكم عزيز عليہ ما عنتم حريص عليكم بالمومنين روف رحيم ''(2)
رسول جو تمہارى صنف سے ہے فرط محبت كى بناپر تمہارى تكليف ان كے اوپر بہت گراں ہے _ وہ تمہارى نجات پر حريص ہے اور مؤمنين پر رؤف و مہربان ہے_
--------------------------------------------------------------------------------
1) ( توبہ 128)_
2) (قلم 4)_
آپ (ص) نبى رحمت ہيں آپ(ص) كے فيض رحمت سے نہ صرف مؤمنين اور محبين بلكہ سخت ترين دشمن بھى بہرہ مند ہوتے رہے ، اس لئے كہ آپ (ص) نے يہ سبق اپنے پروردگار سے سيكھا تھا_
''و ما ارسلنك الا رحمة للعالمين'' (1)
ہم نے آپ كو عالمين كيلئے رحمت بناكر بھيجا ہے_
''فاعف عنہم واصفحہ ''(2)
ان كو معاف كرديجئے او ردرگذر كيجئے_
آپ كريمانہ اخلاق اور درگذر كى صفت سے مالامال تھے، محض ناواقف دوستوں اور دشمنوں كى اذيتوں او ر برے سلوك كو آپ (ص) معاف ہى نہيں كرتے تھے بلكہ ان كى ياد بھى دل سے نكال ديتے تھے ، دل كے اندر بغض اور كينہ نہيں ركھتے تھے _ كہ جس سے اقتدار حاصل ہونے كے بعداس كے ساتھ انتقامى كاروائي كريں ، خدا نے آپ (ص) كو وسعت قلب سے نوازا تھا(الم نشرح لك صدرك )اے رسول كيا ہم نے آپ (ص) كو شرح صدر كى نعمت نہيں عطا كى _
آپ (ص) ايسے كريمانہ اخلاق اور مہربان دل كے مالك تھے كہ ناواقف اور خودغرض دشمنوں كى گستاخيوں اور جسارتوں كا انتقام لينے كى كبھى آپ (ص) نے فكر نہيں كى ، آپ (ص) كے بلند اخلاق اور وسعت قلبى نے قرابت داروں ، دوستوں اور سخت ترين دشمنوں كو بھى آپ (ص) كا گرويدہ
--------------------------------------------------------------------------------
1)(ماءدہ 131)_
2)(انبياء 107)_
بنا ديا _
پيغمبر اكرم (ص) نے اپنے ذاتى حق كے لئے كبھى كسى سے انتقام نہيں ليا، اگر كوئي آپ (ص) كو تكليف بھى پہنچا تو آپ اسے معاف فرماديتے ہاں اگر كوئي حكم خدا كى ہتك حرمت كرتا تھا تو اس وقت حد الہى جارى فرماتے تھے_
پيغمبر (ص) نے كبھى كسى كو دشنام نہيں ديا، آپ (ص) نے كسى خدمت گار كو يا كسى بيوى پر كبھى ہاتھ نہيں اٹھايا، آپ (ص) كے ہاتھ راہ خدا ميں جہاد كے لئے صرف كفار پر اٹھے_ (1)
جنگ احد ميں جب آپ (ص) كے دندان مبارك شہيد ہوئے اور چہرہ مبارك پرزخم لگے تو آپ (ص) كے اصحاب كو اس كا بہت دكھ ہوا انہوں نے درخواست كى كہ آپ (ص) دشمنوں اور كافروں كيلئے بد دعا اور نفرين كريں، آپ (ص) نے فرمايا : ميں لعن اور نفرين كے لئے نہيں مبعوث كياگياہوں، مجھے تو رحمت بناكر بھيجا گياہے ، ميں ان كيلئے دعا كرتاہوں كہ خدا انكى ہدايت كرے اس لئے كہ يہ لوگ ناواقف ہيں(2)
ان مصيبتوں كو برداشت كرنے كے بعد بھى ان كے لئے دست دعا بلند كرنا اور خدا سے عذاب كى بدلے ہدايت مانگنا آپ(ص) كے عفو و رحمت،حسن اخلاق اور كمال كى دليل ہے_
آپ (ص) كے عمومى اخلاق كا يہ نمونہ تھا، آپ (ص) كى زندگى ميں اس كى بہت سى مثاليںموجود
--------------------------------------------------------------------------------
1) (محجة البيضاء ج4 ص 128)_
2) (محجة البيضاء ج4 ص 129)_
ہيں اب يہ كہ سختيوں كے جھيلنے كے بعد عفو اور درگزر كا انسانى اخلاق پر كيا اثر پڑتاہے پيغمبر (ص) اور اءمہ (ع) كى زندگى كے عفو و درگزر كے حوالے سے چند واقعات كى مدد سے ہم اس كى طرف اشارہ كريں گے البتہ ہميں اعتراف ہے كہ ان عظيم الہى آيات پر مكمل تجزيہ كرنے سے ہم عاجز ہيں يہ كام ہم فقط اس ليے كررہے ہيںكہ ہمارے نفس پر اس كا اثر پڑے اور وہ واقعات ہمارى ہدايت كا چراغ بن جائيں_
عفو، كمال كا پيش خيمہ
عفو كا ايك اثر يہ بھى ہے كہ وہ انسان كے اندر كمال كا جوہر پيدا كرديتاہے، اس لئے كہ عفو كرنے والا جہاد اكبر كى منزل ميں ہوتاہے، وہ اپنے نفس سے جہاد كرتاہے، اس كا نفس انتقام كيلئے آمادہ كرتاہے، اس كے غيظ و غضب كى آگ بھڑكاتاہے، ليكن معاف كرنے والا انسان ايسى خواہشوں سے نبرد آزمائي ركتارہتاہے اور پھر خودسازى اور كمال روح كى زمين ہموار ہوجاتى ہے، اس لئے عقل و نفس كى جنگ ميں اگر انسان شرع اور عقل كو حاكم بنالے تو يہ انسان كے اندر كمال پيدا كرنے كے ضامن ہيں_
عفو ميںدنيا اور آخرت كى عزت
عفو اور درگذر كا ايك اثر يہ بھى ہے كہ وہ دنيا اور آخرت ميں انسان كى عزت ميں اضافہ
كرتاہے_
عزت دنيا
شيطان ، انسان كے دل ميں يہ وسوسہ پيدا كرتاہے كہ اگر تم انتقام نہيں لوگے تو لوگوں كى نظروں ميں ذليل و خوار ہوجاوگے، دوسرے شير بن جائيں گے ، حالانكہ ايسا نہيں ہے عفو اور درگذر انسان كى قدر و منزلت كو بڑھانے اور اس كى شخصيت كو بلند كرنے كا سبب ہے ، خاص طور پر اگر توانائي اور طاقت كى موجودگى ميں كسى كو معاف كرديا جائے تو يہ اور بھى زيادہ موثر ہے ، اگر عفو كو ترك كرديا جائے تو ہوسكتاہے كہ لڑائي جھگڑا ہوجائے اور پھر بات عدالت تك پہنچے كبھى كبھى تو ايسا ابھى ہوتاہے كہ ترك عفوانسان كى جان، مال عزت اور آبرو كے جانے كا باعث بن جاتاہے اور ان تمام باتوں سے انسان كى قدر و قيمت گھٹ جاتى ہے _
كلام رسول خدا (ص)
مندرجہ بالا حقاءق كى طرف پيغمبر اكرم (ص) اور اءمہ (ع) نے اپنے كلام ميں اشارہ فرماياہے_
''عن ابى عبداللہ قال:قال رسول اللہ (ص) عليكم بالعفو فان العفو لا يزيد العبد الا عزا فتعافوا يعزكم اللہ'' (1)
--------------------------------------------------------------------------------
1) (مرآة العقول ج8 ص 194)_
امام جعفر صادق (ع) سے منقول ہے كہ پيغمبر(ص) نے فرمايا: تم عفو اور درگذر سے كام ليا كرو كيوں كہ عفو فقط انسان كى عزت ميں اضافہ كرتاہے لہذا تم عفو كيا كرو كہ خدا تمہيں عزت والا بنادے_
''عن ابى عبداللہ قال: قال رسول اللہ فى خطبتہ الا اخبركم بخير خلايق الدنيا والآخرة ؟ العفو عمن ظلمك و تصل من قطعك والاحسان الى من اساء اليك و اعطاء من حرمك''(1)
امام جعفر صادق (ع) نے فرمايا كہ پيغمبر(ص) نے اپنے ايك خطبہ ميں فرمايا: كيا ميں تم كو اس بہترين اخلاق كى خبردوں جو دنيا و آخرت دونوں ميں نفع بخش ہے ؟ تو سنو، جس نے تمہارے اوپر ظلم كيا اس كو معاف كردينا ، ان رشتہ داروں كے ساتھ صلہ رحمى كرنا جنہوں نے تمہارے ساتھ قطع رحمى كى ، اس كے ساتھ نيكى سے پيش آنا جو تمہارے ساتھ برائي سے پيش آئے، اور اسكو عطا كرنا جس نے تم كو محروم كرديا ہو يہ بہترين اخلاق ہيں _
آخرت كى عزت
عفو و درگذر ميں انسان كى اخروى عزت بھى پوشيدہ ہے كہ اس سے معرفت پروردگار حاصل ہوتى ہے_
--------------------------------------------------------------------------------
1) ( مرآة العقول ج8 ص192)_
قرآن كہتاہے :
''واليعفوا وليصفحوا الا تحبون ان يغفر اللہ لكم واللہ غفور رحيم''(1)
مؤمنين كو چاہئے كہ وہ اپنے اندر عفو اور درگذر كى صفت پيدا كريں ، كيا تم اس بات كو دوست نہيں ركھتے كہ خدا تم كو بخش دے، خدا بڑ ا بخشنے والا اور مہربان ہے _
''و سارعوا الى مغفرة من ربكم و جنةعرضہا السموات والارض اعدت للمتقين الذين ينفقون فى السراء والضراء والكاظمين الغيظ والعافين عن الناس واللہ يحب المحسنين ''(2)
تم اپنے رب كى مغفرت اور اس جنت كى طرف تيزى سے بڑھو جس كى وسعت تمام آسمانوں اور زمين كے برابر ہے جس كو اللہ نے پرہيز گار بندوں كے لئے مہيا كرركھاہے، ان پرہيزگاروں كيلئے جو اپنے مال كو وسعت اور جنگ كے عالم ميں فقراء پر خرچ كرتے اور اپنے غصہ كو پى جاتے ہيں اور لوگوں كو معاف كرديتے ہيں ، خدا نيك اعمال كرنے والوں كو دوست ركھتاہے_
--------------------------------------------------------------------------------
1) (نور22)_
2) (آل عمران 124، 123)_
رسول خدا كى عزت
عفو و رحمت جيسى تمام صفات كمال كے ساتھ رسول خدا (ص) كو خدابارگاہ ميں حقيقى عزت حاصل تھى '' ان العزة للہ و لرسولہ'' عزت خدا اور اس كے رسول كيلئے ہے _
رسول مقبول(ص) كے دامن عفو ميں آنے كے بعد نہ صرف مؤمنين بلكہ دشمن بھى آپ (ص) كے وفادار دوست بن جاتے تھے اس لئے كہ پيغمبر (ص) نے اپنے خدا سے يہ عظيم ادب سيكھا تھا، ارشاد ہوتاہے :
''ادفع بالتى ہى احسن فاذا الذين بينك و بينہ عداوة كانہ ولى حميم''(1)
اے ميرے رسول (ص) آپ لوگوں كى بدى كا بدلہ نيكى سے ديں تا كہ جو آپ(ص) كے دشمن ہيں وہ دوست بن جائيں_
معلوم ہوتاہے كہ عفو و درگذر دلوں ميں مہربانى پيدا كرنے كا سبب ہوا كرتاہے كہ كينہ پرور دشمن كے دل كو بھى نرم كرديتاہے ، انسان كى شخصيت كو بلند كرتاہے اور لوگوں كى توجہ عفو كرنے والے كى طرف مبذول ہوجاتى ہے ، ليكن اس كے برخلاف كينہ توزى اور انتقامى كاروائي سے لوگ بدظن ہوجاتے ہيں اور ايسے شخص سے فرار كرنے لگتے ہيں ، انسانوں كى ہدايت اور راہنمائي ميں رسول خدا (ص) كے كامياب ہوجانے كى ايك علت آنحضرت (ص) كا يہى رحم وكرم ہے _
--------------------------------------------------------------------------------
1) (فصلت 34)_
اقتدار كے باوجود درگذر
انتقام كى طاقت ہونے كے باوجودمعاف كردينے كى بات ہى كچھ اور ہے ، اس سے بڑى وہ منزل ہے كہ جب انسان معاف كرنے كے ساتھ ساتھ احسان بھى كرے، قدرت و طاقت كے باوجود معاف كردينے اور بخش دينے ميں انسانوں ميں سب سے نماياں مثال رسول اكرم (ص) كى ہے ، آپ (ص) كى نبوت كے زمانہ ميں مختلف افراد اور اقوام كو معاف كردينے كى بہت سى مثاليں موجود ہيں_
لطف و مہربانى كا دن
كفار و مشركين مكہ كى خطاؤں كو معاف كردينے اور ان كو دامن عفو ميں جگہ دينے والا سب سے مشہور دن فتح مكہ كے بعد كا دن ہے ، جن دشمنوں نے رسول اسلام (ص) كو ہر طرح كى اذيتيں پہنچانے كى كوششيں كى تھيں اور آپ (ص) كو ہجرت كر جانے پر مجبور كرديا تھا، آپ (ص) نے ان دشمنوں كو معاف كرديا_
سعد بن عبادہ جو لشكر اسلام كے ايك كمانڈر تھے مكہ جاتے ہوئے انہوں نے نعرہ بلند كيا '' اليوم يوم الملحمہ، اليوم تستحل الحرمة اليوم اذل اللہ قريشا'' آج خون بہانے كا دن ہے آج وہ دن ہے كہ جس دن حرمت و احترام كا خيال ركھنے كى ضرورت نہيں ہے، آج خدا قريش كو ذليل كريگا_
ليكن اس نعرہ كى خبر جب آنحضرت (ص) كو ہوئي تو آپ(ص) نے فرمايا كہ : سعد كو غلط فہمى ہوئي ہے، آج كا نعرہ يہ ہے:
''اليوم ، يوم الرحمة اليوم اعز اللہ قريشا''
آج لطف و مہربانى كا دن ہے آج خدا نے قريش كو عزت دى ہے_
بعض اصحاب نے عرض كى '' ہميں خوف ہے كہ سعد كہيں حملہ نہ كرديں،پيغمبر(ص) نے حضرت على (ع) كو بھيجا تا كہ سعد سے علم ليكر ان كے بيٹے قيس كو ديديں حضور نے اس بہانے سے سعد كا كنٹرول چھينا تا كہ ان كے رنج كا سبب نہ بنے (1)
اپنى پورى طاقت اور توانائي كيساتھ پيغمبر (ص) جب كفار قريش كے سامنے كھڑے ہوئے تو آپ (ص) نے فرمايا اے قريش اور مكہ والو كيا تم كو معلو م ہے كہ ہم تمہارے ساتھ كيا سلوك كريں گے ؟ ان لوگوں نے جواب ديا كہ سواے خير اور نيكى كے ہميں آپ (ص) سے كوئي اور توقع نہيں ہے ، آپ (ص) بزرگوار اور كريم بھائي كى حيثيت ركھتے ہيں _ اس وقت آپ (ص) نے وہى بات كہى جو يوسف نے اپنے بھائيوں كے سامنے كہى تھي'' لا تثريب عليكم اليوم''(2)
1) (ناسخ التواريخ ج3 ص285 ، 284)_
2) (يوسف 92)_روايت ہے كہ جب يوسف نے ان كو پہچان ليا تو وہ ان كے دستر خوان پر ہر صبح و شام حاضر ہونے لگے انہوں نے اپنے بھائي يوسف سے كہا كہ ہم اپنے گذشتہ سلوك پر نادم ہيں _ جناب يوسف نے فرمايا: نہيں ايسا نہيں ہے اس لئے كہ ہر چند كہ ميں آج مصر كا بادشاہ ہوںليكن لوگ اسى پہلے دن كى نگاہ سے آج بھى مجھ كو ديكھ رہے ہيں _ اور كہتے ہيں كہ جو بيس درہم ميں خريدا گيا تھا وہ آج مصر كى حكومت تك كيسے پہنچ گيا ليكن جب تم
آج تمہارى سرزنش نہيں ہوگى _ تم شرمندہ نہ ہونا _ ہم نے آج تم كو معاف كرديا _ پھر آپ (ص) نے فرمايا: اذہبوا انتم الطلقاء جاو اب تم آزاد ہو_
فتح مكہ كے بعد پيغمبر (ص) كو پورى قدرت اور طاقت حاصل تھى پھر بھى آپ (ص) نے تمام دشمنوں كو آزاد كرديا، صرف ان پندرہ افراد كو امان سے مستثني كيا جو اسلام اور مسلمانوں كے سب سے بڑے دشمن تھے اور بہت سى سازشوں ميں ملوث تھے، وہ گيارہ مرد اور چار عورتيں تھيں، فتح مكہ كے بعد ان ميں سے چار افراد كے علاوہ سب قتل كرديئے گئے، چار افراد كو امان ملى انہوںنے اسلام قبول كيا اور ان كى جان بچ گئي (1)
اب ان لوگوں كا ذكر كيا جائيگا جن كو پيغمبر (ص) كے دامن عفو ميں جگہ ملي_
آپ(ص) كے چچا حمزہ كا قاتل
جناب حمزہ كا قاتل '' وحشي'' بھى ان ہى لوگوں ميں شامل تھاجن كے قتل كا پيغمبر (ص) نے فتح
--------------------------------------------------------------------------------
آگئےاور يہ لوگ سمجھ گئے كہ ميں تمہارا بھائي ہوں تو تمہارى وجہ سے ميں لوگوں كى نظروں ميں بلند ہوگياہوں ان لوگوں نے جب سمجھ ليا كہ ميں تمہارا بھائي ہوں اور خاندان حضرت ابراہيم(ع) سے ہوں تو اب يہ لوگ اس نظر سے نہيں ديكھتے جس نظر سے ايك غلام كو ديكھا جاتاہے _
(سفينة البحار ج1 ص 412)
1) ( محمد الرسول (ص) ص 319 _ 713)
مكہ سے پہلے حكم دے ديا تھا، مسلمان بھى اس كو قتل كرنے كى ناك ميں تھے، ليكن وحشى بھاگ كر طاءف پہنچ گيا اور كچھ دنوں وہاں رہنے كے بعد طاءف كے نماءندوں كے ساتھ وہحضور(ص) كى خدمت ميں پہنچا، اسلام قبول كرنے كے بعد اس نے حضر ت رسول (ص) كى خدمت ميں حمزہ كے قتل كى رويداد سنائي حضرت (ص) نے فرمايا : ميرى نظروں سے اتنى دور چلاجاكہ ميں تجھ كو نہ ديكھوں، اسى طرح يہ بھى معاف كرديا گيا(1)
ابوسفيان كى بيوى عتبہ كى بيٹى ہند
ابوسفيان كى بيوي، عتبہ كى بيٹى '' ھند'' بھى ان لوگوں ميں سے تھيكہ پيغمبر(ص) نے جسكا خون مباح كرديا تھا، اس لئے كہ اس نے حمزہ كو مثلہ كركے ا ن كا كليجہ چبانے كى كوشش كى تھي، فتح مكہ كے بعد وہ رسول خدا (ص) كى خدمت ميں پہنچى اور اس نے اظہار اسلام كيا تو حضور نے اس كو بھى معاف كرديا(2)
ابن زبعري
فتح مكہ كے بعد '' ابن زبعري'' بھا گ كر نجران چلا گيا ليكن كچھ دنوں كے بعد وہ رسول
--------------------------------------------------------------------------------
1) (مغازى واقدى ترجمہ ڈاكٹر محمود مھدوى دامغانى ج2 ص 660)
2) ( محمد الرسول (ص) 318)_
خدا (ص) كى خدمت ميں پہنچا اس نے وحدانيت اور رسالت كى گواہى دى اور آنحضرت(ص) سے كہا كہ ميں نے آپ(ص) سے دشمنى كي، آپ (ص) سے جنگ كرنے كيلئے ميں نے پيادوں كا لشكر جمع كيا ، اس كے بعد ميں بھاگ كر نجران چلا گيا ميرا ارادہ تھا كہ ميں كبھى بھى اسلام كے قريب نہيں جاوں گا ليكن خدا نے مجھ كو خير كى توفيق عطا كى اور اس نے اسلام كى محبت ميرے دل ميں بٹھادي، آنحضرت(ص) نے فرمايا : كہ اس خدا كى تعريف كہ جس نے تم كو اسلام كا راستہ دكھايا وہ اس سے پہلے كى باتوں پر پردہ ڈال ديتاہے_ (1)
ابوسفيان ابن حارث ابن عبدالمطلب (معاويہ كا باپ ابوسفيان نہيں بلكہ يہ دوسرا ابوسفيان ہے)_
يہ پيغمبر (ص) كا چچا زاد اور دودھ شريك بھائي تھا ، اس نے كچھ مدت جناب حليمہ كا دودھ پيا تھا اور پيغمبر (ص) كا ہم سن تھا_
بعثت سے پہلے تو يہ ٹھيك تھا مگر بعد ميں يہ آپ (ص) كا سخت ترين دشمن بن گيا ، پيغمبر اسلام (ص) اور مسلمانوں كى ہجو ميں يہ اشعار كہا كرتا تھا، بيس سال تك اس نے پيغمبر (ص) سے دشمنوں كا سا سلوك روا ركھا مسلمانوں سے لڑى جانے والى تمام جنگوں ميں كفار كے ساتھ رہا ، يہاں تك كہ اس كے دل ميں نور اسلام كى روشنى پہنچ گئي ، چنانچہ ايك روز وہ اپنے بيٹے اور غلام كے ساتھ مكہ سے باہر آيا اور اس وقت پيغمبر (ص) كے پاس پہونچا كہ جب آپ (ص) حنين
--------------------------------------------------------------------------------
1)(مغازى واقدى ج2 ص 648، ترجمہ ڈاكٹر محمود مہدوى دامغاني)_
كى طرف روانہ ہورہے تھے، اس نے كئي بار اپنے آپ كو پيغمبر (ص) كے سامنے پيش كرنے كى كوشش كى ليكن آنحضرت(ص) نے كوئي توجہ نہيں دى اور اپنا رخ اس كى جانب سے پھير ليا ، مسلمانوں نے بھى رسول اكرم (ص) كى پيروى كرتے ہوئے بے اعتنائي كا ثبوت ديا ، ليكن وہ بھى پيغمبر (ص) كے لطف و كرم كا اميدوار رہا ، بات يوں ہى ٹلتى رہى يہاں تك كہ جنگ حنين شروع ہوگئي ابوسفيان كا بيان ہے كہ پيغمبر (ص) ميدان جنگ ميں ايك سفيد اور سياہ رنگ كے گھوڑے پر سوار تھے آپ (ص) كے ہاتھوں ميں برہنہ تلوار تھى ، ميں تلوار لئے ہوئے اپنے گھوڑے سے اتر پڑا اور ميں نے عمداً اپنى تلوار كى نيام توڑ ڈالى ، خدا شاہد ہے كہ وہاں ميرى يہى آرزو تھى كہ پيغمبر (ص) كا دفاع كرتے ہوئے ميں قتل كرديا جاؤں_
عباس بن عبدالمطلب نے پيغمبر (ص) كے گھوڑے كى لگام تھام ركھى تھى ميں بھى دوسرى طرف تھا،آنحضرت (ص) نے ميرى طرف نگاہ كى اور پوچھا كہ يہ كون ہے ؟ ميں نے چاہا كہ اپنے چہرہ كى نقاب ہٹادوں، عباس نے كہا :
اے رسول خدا (ص) يہ آپ كا چچا زاد بھائي ابوسفيان بن حارث ہے ، آپ اس پر مہربانى فرمائيں اور اس سے راضى ہوجائيں، آپ (ص) نے فرمايا : ميں راضى ہوگيا خدا نے اس كى وہ تمام دشمنى جو اس نے مجھ سے كى معاف كردى ہے _
ابوسفيان كا كہناہے كہ ميں نے پيغمبر (ص) كے پاؤں كو ركاب ميں بو سے ديئے آنحضرت(ص) نے ميرى طرف توجہ كى اور فرمايا: ميرے بھائي تمہيں ميرى جان كى قسم يہ نہ كرو پھر آپ (ص) نے
فرمايا: آگے بڑھو اور دشمن پر حملہ كردو ميں نے حملہ كركے دشمن كو بھگا ديا، ميں آگے آگے تھا اور رسول خدا (ص) ميرے پيچھے آرہے تھے ميں لوگوں كو قتل كررہا تھا اور دشمن بھا گے جارہے تھے_(1)
مولائے كاءنات حضرت على (ع)
عفو و رحمت كا دوسرانمونہ پيغمبر (ص) كى گود كے پالے ،انسانيت كا اعلى نمونہ حضرت على (ع) ہيں آپ(ص) كى زندگى سے بھى يہى واضح ہوتاہے كہ آپ (ص) نے بھى پورى طاقت اور قدرت و اختيار كے باوجود عفو و درگذر سے كام ليا اور پيغمبر (ص) كى سيرت كو نمونہ بنايا_
فتح بصرہ كے بعد آپ (ص) نے اپنے اصحاب سے ان لوگوں كو معاف كردينے كى سفارش كى جنہوں نے جنگ كى آگ بھڑكائي تھى اور نئي حكومت كو جڑ سے اكھاڑ دينے كى كوشش كى تھى ، آپ(ص) نے حكم ديا كہ بھاگ جانے والوں كا پيچھا نہ كيا جائے ان كا مال نہ لوٹا جائے، آپ (ع) كى طرف سے ايك منادى ندا ديتا جارہا تھا جو اپنا اسلحہ زمين پر ركھ دے اور گھر ميں چلا جائے اس كو امان ہے، آپ(ص) كے عفو كا دامن اتنا پھيلا كہ آپ (ع) نے لشكر كے سپہ سالاروں اور قوم كے سربرآوردہ افراد نيز جناب عائشےہ كو معاف كرديا،تو جناب عائشےہ كو تو احترام اور تحفظ كے ساتھ مدينہ بھيجا اور مروان بن حكم كو بھى معاف كرديا جو كہ آپ (ع)
--------------------------------------------------------------------------------
1) (مغازى واقدى ترجمہ ڈاكٹر محمود مھدوى دامغانى ج2 ص 619 ، 616)_
كا سخت ترين دشمن تھااور ابن زبير كو بھى معاف كرديا جو آپ كے لشكر كى كاميابى سے پہلے بصرہ ميں آپ (ع) كے خلاف ناروا باتيں كہا كرتا تھا اور لوگوں كو آپ(ع) كى خلاف بھڑكاتارہتا تھا (1)
--------------------------------------------------------------------------------
1) ( اءمتنا ج 1 ص 4)_
خلاصہ درس
1)انسانيت كے مظہر كامل ہونے كے اعتبار سے آنحضرت(ص) انسانيت كے فضاءل اور كرامات كااعلي نمونہ تھے، آپ اخلاق الہى سے مزين اور انك لعلى خلق عظيم كے مرتبہ پر فاءز تھے_
2) آپ كے فضاءل ميں سے يہ بھى ہے كہ خدا نے آپ (ص) كو '' روف و رحيم '' كى صفت سے ياد فرماياہے _
3 ) پيغمبر اسلام(ص) نے اپنے ذاتى حق كے لئے كسى سے بھى انتقام نہيں ليا بلكہ جو بھى آپ(ص) كو اذيت پہنچا تھا آپ (ص) اسكو معاف فرماديتے تھا مگر جب آپ (ص) يہ ديكھتے تھے كہ حكم خدا كى ہتك حرمت كى جاتى تھى تو اس وقت آپ (ص) حد جارى كرتے تھے_
4 ) عفو كردينا انسانيت كا كامل ہے اسلئے كہ عفو كرنے والا اپنے نفس كو دبانے كے سلسلہ ميں جہاد اكبر ميں مشغول ہوتاہے_
5 )عفو كا ايك قابل قدر اثر يہ بھى ہے كہ انسان دنيا و آخرت ميں باعزت رہتاہے_
6 )رسول خدا اپنى صفات كمال عفو اور مہربانى كے ذريعہ خدا كے نزديك حقيقى عزت كے مالك ہيں اور مؤمنين كے دلوں ميں بھى آپ (ص) كى بڑى قدر و منزلت ہے_
7) سب سے زيادہ بہترين عفو و ہ ہے جو طاقت اور قدرت كے باوجود ہو اور اگر عفو كے ساتھ احسان ہو تو اسكا درجہ اس سے بھى بڑا ہے_
سوالات :
1 _ اصحاب نے جب كفار كے بارے ميں لعن اور نفرين كى بات كہى تو اس وقت رسول خدا (ص) نے كيا جواب ديا؟
2 _ عفو كيونكر انسان كے كمالات كى زمين ہموار كرتاہے؟
3 _ سب سے بلند اور سب سے بہترين معافى كون سى معافى تھى ؟
4 _ فتح مكہ كے دن رسول خدا (ص) نے سعد بن عبادہ سے كيا فرمايا تھا؟
5 _ فتح مكہ كے دن پيغمبر(ص) نے جو عفو اور درگذر كے نمونے پيش كئے ان ميں سے ايك نمونہ بيان فرمايئے؟
|